Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

عجیب سکھ

شہناز رحمن

عجیب سکھ

شہناز رحمن

MORE BYشہناز رحمن

    جس کلی کو چمن کی زینت کے لئے بنایا گیا وہ دھوپ میں جھلس رہی ہے۔ سرمئی آنکھوں کی شراب، چمپئی رخساروں کا رس سورج کی آتشی کرنیں پی رہی ہیں۔ جن ہاتھوں کو مہندی کے سرخ رنگ سے مزین کرنے کے واسطے بنایا گیا تھا وہ مفلسی کا با ر اٹھانے پر مجبور ہیں۔ مانو قدرت نے قوت گویائی چھین کر موسیقاروں کی بستی میں بھیج دیا۔

    چچی آپ زیادہ پریشان نہ ہوں اس کی زندگی پہلے سے بہتر کٹ رہی ہے۔ وہ اس وقت دوحہ میں ہے۔ میں نے جب اسے دیکھا تو آنکھوں پر یقین نہیں آیا کہ یہ یہاں کسیے؟ مگر جب قریب سے دیکھا تو واقعی نصیبن ہی تھی۔ رافعہ نے کہا۔

    بہنی انور بابو تو کہت رہیں کہ انڈونیشیا میں ترکاری بیچت ہی۔

    ’’ارے نہیں چچی وہ دوحہ میں ہے‘‘

    ’’کاکری کبھی کوئی کچھ کہت کبھی کچھ ککرے بات پہ یقین کری ہمکے تو کوتو مطلب ناہی بس یہی دونوں لڑکن کے چھوڑ گئی ہی ہمرے سر کے بوجھ ہیں۔ اپنا تو کھو ب الم گلم مارت ہی‘‘

    یا خدا تیری قدرت کا کیا کرشمہ ہے؟ لوگ جس درد کا تذکرہ اتنی تلخی سے کرتے ہیں کاش اسے محسوس کرکے آزماتے، اس کے اپنوں نے درد کو نہیں پہچانا ایسی صورت میں تو مایوس ہونا لازم تھا۔ اس کی زندگی بہتر کٹ رہی ہے؟؟

    اس کی زندگی اچھی کٹ رہی ہے؟؟؟؟

    محرم کا چاند نکل آیا تھا۔ یا حسین یا علی کی صدائیں گونجنے لگی تھیں۔ پورا علاقہ ماتم کناں تھا، اس کی مانگ سونی ہو گئی ہاتھوں کی چوڑیاں بکھر گئیں، پیروں کے گھنگرو اتر گئے لبوں کی سرخی نیلاہٹ میں تبدیل ہو گئی۔ ننکو، چنکو یتیم ہو گئے۔ زندگی کی خوشیاں اندھیری رات کی تاریکی میں سمٹ گئیں۔ غم کے بادلوں نے آ گھیرا۔

    دستک کے بغیردروازہ کھلا۔۔۔ اس کا سسر اندر آیا۔

    وہ دودھ پیتے چنکو کو چھاتیوں سے الگ کر کے جھٹ سے اوڑھنی اوڑھ کر کھڑی ہو گئی۔

    ’’ہم سوچ رہے ہیں کل تم کو تمہارے مائکے بھیج دیں ماں بہنوں کے ساتھ رہ کر تمہارا غم ہلکا ہو جائےگا‘‘

    ناہیں اباجی ہم ٹھیک ہیں ہم اپنا گھر چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے‘‘

    ’’اری دلہن میری مانو تو تمہارا مائکے جانا ٹھیک رہےگا‘‘

    گورکھپور سے پیسنجر ٹرین کا ٹکٹ لے کر وہ بلرامپور کے لئے روانہ ہو گئی۔

    ’’اماں کیلا خرید دو، اماں مونگ پھلی والا آ رہا‘‘ دونوں بچے چلارہے تھے ایک عورت نے ٹہو کا دیا رات بھر سوئی نہ کا، دیکھ بچہ کامانگ رہا ہے۔ ایک لڑکی گردن میں ڈھولک ڈالے تان لگا رہی ہے۔

    ’’جی دکھتاہے کیسے توڑوں۔۔۔ چھوٹی چھوٹی ننھی ننھی پیاری کلیاں‘‘

    نصیبن سر جھکائے دوپٹہ سے منھ لپیٹے بیٹھی تھی۔ لڑکی نے کہا ’’کاہے سرنیہوڑائے بیٹھی ہیو؟ گانا سنائے ہن کچھ تو دے دیو‘‘۔

    وہ کہاں سے دیتی اب خود دوسرے کی نوازشوں کی محتاج تھی۔ ٹرین بلرامپور پہنچ گئی اس کی اماں اسٹیشن پرکھڑی انتظار کر رہی تھیں قسمت کے شکنجوں سے مجبور فاقہ کے اثر سے چہرہ مرجھایا ہوا تھا دنیا کی بے مہری کا تماشہ آنکھوں سے دیکھ رہی تھیں۔

    پورے محلے میں تہلکہ مچ گیا ‘‘نصیبن آئی ہی‘‘ دالان رونے کی صداسے گونج رہا تھا اس کی دادی جوان پوتی کے بیوہ ہونے پر غم کی تاب نہ لاکر بے ہوش ہو گئی۔ افلاس کے آرے باپ کے جگر کو چھلنی کررہے تھے غم سے نڈھال ہوکر دیوار کا سہارا لینے پر مجبور تھا، بہنوں نے سفید چادر ہٹاکر اسے اماں کا دوپٹہ اڑھا دیا۔‘‘

    چار مہینے گزر گئے سسرال سے کوئی خیر خیریت لینے نہیں آیا۔

    دونوں بیٹے دادا کو بہت یاد کرتے ہیں ‘‘ہری رام پی، سی، او پر فون آیا ہے نصیبن کو بلا رہے ہیں۔‘‘

    ’’ہاں بہو تم ایسا کرو کہ اپنی ماں کے پاس ہی رہو یہاں آکر کیا کرو گی کون تمہاری دیکھ بھال کرےگا وہاں تو سب تمہارے ہیں یہاں پر کون سہارا ہے؟ اور مہینہ دو مہینہ پر روپیہ بھیج دیا کروں گا۔‘‘

    ’’ارے دوئی سال ہوگوا روپیہ کے نام پر چونی نائی آوا۔‘‘ ایکر سسر سار کل بازار میں ملارہا ‘‘کہت رہا کچھ حصہ نصین کے نائی دیب‘‘

    پردھان جی کہہ رہے ہیں سسرال والوں سے اپنا حصہ لینے کے لئے مقدمہ لڑنا پڑے گا مگر بہت روپیہ لگےگا۔ آپ لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے، اماں کہاں تک پورے گھر کو سنبھالیں۔ ایک طرف ابا کی بیماری دوسری طرف جوان جوان بہنوں کی شادی، ننکو، چنکو بھی اسکول جانے لائق ہو گئے ہیں۔ ان میں اتنی استطاعت ہے نہیں کہ انھیں اسکول بھیجیں۔

    کہاں تک بیتے دنوں کا سوگ مناتی دکھ درد کو دامن میں سمیٹے آنکھوں میں اداسی لئے زندگی بسر نہیں ہوگی۔۔۔

    بکریاں چراتے چراتے جنگلوں سے لکڑیاں ڈھوتے ڈھوتے پیروں میں چھالے پڑ گئے۔ مسالہ پیستے پیستے اس کے ہاتھوں میں گٹھے پڑ گئے پھر بھی سکون کی روٹی میسر نہیں۔ بےحسی نے احساس کو ختم کر دیا، کنکروں پتھروں پر بھی نیند آ جاتی ہے۔

    پھر بھی پورے خاندان کی نظر اسی پرہے کہ ’’کیسے ان گڑھے موٹی ہوتی جا رہی ہے آنکھوں میں پانی اتر آیا نہ تو شرم باقی ہے نہ کسی کا لحاظ دن بھر ادھر ادھر دندناتی پھرتی نہ جانے خدانے کس مٹی سے گڑھا ہے۔‘‘

    اماں کہہ رہی ہیں ‘‘نصیبن اپنے لڑکن کے سمھار( سنبھال) لے اہر اوہر (ادھر ادھر) چوری چند الئی کرت ہیں عمر بھیا کے بگیامیں سے آم چرائے لائن ہیں ورہنا دیت رہیں‘‘

    بڑی امی طعنے دے رہی ہیں ارے رانڈ بیٹی کو سر پر بیٹھا کر دھندا کروا رہی ہے‘‘خود جیسی تھی بیٹی کو بھی ویسا بنا دیا‘‘

    قسمت نے اماں کے ساتھ بھی بڑے کھیل کھیلے ہیں، جب فساد ہوا تھا تو نصیبن پیٹ میں ہی تھی بھاگم بھاگ مچا تھا کوئی کسی کا پرسان حال نہیں تھا اماں ڈھاکے چلی گئیں تھیں ایک سال تک عبدالصمد نام کے قصائی کے یہاں رہ آئیں جب معاملہ ٹھنڈا ہوا تو ابا کے بڑے رونے دھونے پر حاجی چاچا اماں کو لے کر آئے تھے اماں کہتی ہیں کہ عبدالصمد نصیبن کے پیدا ہونے پر بڑا خوش ہوا تھا۔ اپنی بیٹی کی طرح پیار کرتا تھا اماں جب واپس آرہی تھیں تو عبدالصمد بڑا جذباتی ہوا تھا۔

    تب سے ان کے ساتھ یہ جملہ لگ گیا کہ ارے سات مردوں کا مز ا چکھی ہوئی ہے تو ایک مرد پر کیسے دل ٹکے گا۔ بیٹی بھی اسی پانی پر گئی ہے۔

    سہرن کی اماں کہہ رہی ہیں اچھا برا دیکھ کر بیٹی کی کہیں شادی کر دو تمہاری عمر بھی ڈھل رہی ہے ہر طرف سے تمہیں طعنے ملتے ہیں کہ رانڈ بیٹی کو بٹھائے ہے۔ چنکو اتنا بڑا ہو گیا ہے اگر چاہتی تو چپنی فیکٹری میں بھیج دیتی روز کا سو دو سو کما کر آتا 12سال کا ہو گیا مگر وہی 2 سال کے بچے کا دلار دیتی ہے۔

    سلیم بھائی یہاں کی کوٹھی چھوڑ کر کا ٹھمانڈو میں رہنے لگے ہیں، وہاں بڑا بھاری مکان بنوایا ہے، اتنا سندر ہے کہ دیکھو تو پلک نہ جھپکے، دو بیٹے ہیں ایک مبارکپور میں ساڑیوں کا کاروبار کرتا ہے دوسرا بیٹانا ئجیریا میں بیوی بچوں سمیت رہتا ہے۔ سلیم بھیا کی بیوی بھی کبھی نائجیریا میں رہتی ہیں تو کبھی ممبئی میں بیٹی کے ساتھ اور سلیم بھیا کا ممبئی میں بھی بڑا نام ہے کرلا میں ایک بلڈنگ ان کے نام پر چلتی ہے اور ممبرا میں سیٹھ کہے جاتے ہیں یہاں جب بھی آتے ہیں تو پورے محلے والوں کے لئے کچھ نہ کچھ تحفہ ضرور لاتے ہیں بڑے دلدارہیں روپیہ پانی کی طرح بہاتے ہیں۔

    موصوف کی اس قدر قصیدہ خوانی کا مقصد نصیبن سمجھ نہیں پائی۔

    ’’نصیبن کی اماں فیصلہ کر کے تم بتاؤ کیا کہہ رہی ہو؟ اور دیکھ نصیبن تم تو مطلب سمجھ ہی رہی ہوگی میں کیا کہنا چاہ رہی ہوں؟‘‘

    پیشانی پر بل ڈالتے ہوئے نصیبن نے کہا: چچی میں نہیں سمجھی۔

    ارے پگلی! ذرا قریب آکر پھسپھسائیں۔

    سلیم بھیا آئے تھے تو کہہ گئے تھے کہ کوئی عورت تلاش کر دو جو اچھی ہو، اماں کی دیکھ بھال کرے۔ بڑا اچھا موقع ہے تم چلی جاؤ بہت عیش کی زندگی ہو جائےگی۔ کوئی زیادہ کام وام نہیں کرنا پڑےگا پورا گھر تو باہر رہتا ہے صرف سلیم بھیا گاہے بگاہے آجاتے ہیں گھر کی صفائی دیکھ بھال کے لئے تو نوکر لگے ہوئے ہیں بس کل ملاکے ان کی اماں کو ذرا سا سہارا دینا ہے۔

    لیکن چچی اپنے بچوں کو چھوڑ کر نہیں رہ پاؤں گی۔

    تو ٹھیک ہے، چھوٹے والے کو لے جانا اور بڑے والے کو تو یہیں کسی فیکٹری میں بھرتی کر دو۔

    رات کا آخری پہر بھی بیت گیا ستاروں کی آنکھیں بند ہونے لگیں آسمان پر سفر کرتا چاند بھی دیکھتے دیکھتے اپنی منزل پر پہنچ گیا۔ بےخواب آنکھوں کے سامنے آنے والے لمحوں کی کشمکش گردش کر رہی تھی۔ اس کھوکھلی زندگی میں کتنے موڑ آ ئے۔۔۔ پہلے بیٹی پھر بیوی، پھر اب کسی کے محل کی نوکرانی کوئی مداوا نہیں پورے وجود پر بےبسی کی چادر لپٹی ہوئی ہے۔

    نصیبن کو کا ٹھمانڈو گئے ہوئے چھ مہینے ہو گئے۔ سلیم کی ماں بڑی شفیق ثابت ہوئیں۔ کاموں کا زیادہ بوجھ نہ ڈالتیں، بچے کو بھی پیار کی نظر سے دیکھتیں۔ شام میں پہاڑیوں کی سیر کو جاتیں تو ساتھ لے جاتیں ایک دو بار تو دوسرے والے بیٹے چنکو کو بھی پوچھا اور اسے یہاں بلانے پر مصر تھیں۔

    ایک دن انہوں نے کہا۔ نصیبن بیٹی میں دودن کے لئے پوکھرا جا رہی ہوں مجھے تم پر پورا بھروسہ ہے کہ گھر کا خیال رکھو گی تمہارے سہارے چھوڑ کے جارہی ہوں اور اگر کوئی ضرورت پڑے تو پیسے رکھ لو کسی نوکر سے منگوا لینا۔

    کس قدر نیک منش خاتون ہیں۔ نیک دل ہستیوں میں دہر کی محسوب!

    انہوں نے نصیبن کو پورے مکان کی نگہبانی تو سونپ دی مگر اس کی پاسبانی کرنے والا کوئی نہیں رہا کب تک تلخی زمانہ سے خود کو بچائے رکھتی آخر کار ننھی سی لہر کو موجوں نے آکر گھیر ہی لیا۔ رات گہری ہوچکی تھی بجلی کی کڑک سے نصیبن کی خواب آگیں آنکھیں کھل گئیں۔ بادلوں کی گڑگڑاہٹ سے خوف کھا کرننکو ماں کے سینے سے چمٹ گیا دروازے پر دستک ہوئی خو ف کے مارے پورا بدن سن ہو گیا۔ آخر اتنی رات گئے کون آیا ہے؟

    دروازہ کھولا تو سامنے سلیم سیٹھ کھڑے تھے۔

    نصیبن نے یکلخت پوچھا ’’بھیا کوئی کام ہے کیا۔‘‘

    بس تمہیں دیکھنے آیا تھا۔

    نصیبن کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ اپنی شرافت اور عظمت کا لباس اتار کر درندگی کا لبادہ اوڑھ کر آئے ہیں۔

    انہوں نے اس کی سونی کلائیوں کوپکڑ لیا اور قریب کرتے ہوئے کہا۔

    یہ جوبن میرے لئے جان لیوا ہے۔ نصیبن! خود پر قابو کرتے کرتے ٹوٹتا جا رہا ہوں، دن کا چین راتوں کی نیند تمہارے خاموش ہونٹوں نے چھین لی ہے۔ تمہارے جسم کے دلآویز خطوط میرے ذہن سے ہٹتے نہیں۔ اتنا کہتے کہتے انھوں نے نصیبن کو۔۔۔

    چیخنے کے لئے لب کھلے ہی تھے کہ بےبسی کے تالے نے انھیں بند کردیا زبان گنگ ہوگئی دہشت سے پورا بدن کانپنے لگا۔

    نگار عصمت وعفت، مقیم جلوہ گاہ راز آوارہ رسوا ہو گئی۔

    صبح ہوئی تو آنکھیں مثل شفق سرخ ہو رہی تھیں ،ضبط غم سے دل ریزہ ریزہ ہو رہا تھا، دردسے سر پھٹا جا رہا تھا اور ہونٹ سوجے ہوئے تھے۔

    یا خدا اس ذلت کی روٹی سے تو بہتر ہے کہ موت آ جائے اس کے سینے سے بے بسی کا دھواں اٹھ رہا تھا۔

    ’’نوکر نے آکر بتایا کہ سلیم سیٹھ جی بلرامپور جا رہے ہیں اگر کوئی خبر بھیجوانا ہے تو بتادو‘‘

    اس نے نفی میں سر ہلایا۔

    چنکو ہوٹل میں برتن دھوت بھیا اور اپنے ماں کے لیے بہت روت ہے نصیبن کیسن ہے ٹھیک ہے کام وام کرت ہی کہ ناہیں۔

    وہاں اسے کوئی تکلیف نہیں ہے۔ صرف امی جان کی دیکھ بھال تو کرنا ہے۔ سلیم سیٹھ نے کہا۔

    ’’بابو چنکو ا کے اب کی کاٹھمانڈو لیے جاؤ‘‘

    ’’چھوٹے سیٹھ جی باہر رہتے ہیں بہو آفس جاتی ہیں ان کے بچے کو کوئی دیکھنے والا نہیں ہے فون کیا تھا کہ کوئی مل جائے تو بھیج دو اسی لئے میں سو چ رہا ہوں اسی کو بھیج دوں‘‘

    ’’ناہیں سیٹھ جی اتنا دور نائی رہ پائی‘‘ اچھا ایکر فوٹو لے جاکر نصیبن کو دے دیو

    ’’میں آج تو باہر جا رہا ہوں ایسا کرو کہ ملازم جو میرے ساتھ آیا ہے اس کے ہاتھ سے بھیج دو‘‘ اور ایک ہزار روپیہ رکھ لو بچوں کے لئے کپڑے وغیرہ لے لینا۔ میں چلتا ہوں۔

    ’’سلام الیکم بھیا۔ جلدی آئیوتہرین کے بنا بلام پور (بلرامپور) سون لاگت ہے‘‘

    سورج کی سنہری کرنیں زمین پر آخری ضرب لگاتے ہوئے بلند و بالا پہاڑ کی چوٹیوں کے عقب میں چھپنے لگی تھیں سارے ملازم اپنے اپنے فرائض انجام دے رہے تھے دوسرے دن سلیم کی ماں واپس آنے والی تھیں ۔سلیم سیٹھ گاؤں جا چکے تھے۔ نصیبن نے موقع غنیمت سمجھا اور بچے کو ڈاکٹر کے یہاں لے جانے کا بہانہ کر کے نکل آئی۔ اس طرح گھٹن زدہ ماحول سے نکل کر اس نے سکون کی سانس لی۔ لیکن باہر آنے کے بعد نہ تو کوئی اس کی زبان سمجھ رہا تھا نہ ہی یہ بتا نے والا تھا کہ کون سی گاڑی اسے اپنے گھر پہنچائے گی تھوڑی دیر ادھر ادھر چکر کاٹنے کے بعد ایک شخص نے اپنی ٹوٹی پھوٹی ہندی میں بتایا کہ یہاں سے دائیں ہاتھ مڑ کر دکھن میں بس اسٹینڈ ہے وہاں سے اسے گاڑی مل جائےگی۔

    صبح سویرے سلیم کی ماں پوکھرا کی سیر سے واپس آ گئیں گیٹ کیپر نے بتایا کہ نصیبن شام میں ہی نکلی تھی واپس نہیں آئی۔ سلیم سیٹھ بھی دوسرے ہی دن باخبر ہو گئے کہ وہ بھاگ گئی۔ وجہ تو معلوم ہی تھی مگر پھر بھی سارے نوکروں کو ڈانٹا پھٹکارا ایک مہینے کی تنخواہ ضبط کر لی۔

    خوف کا پرندہ سر پر منڈلا رہا تھا۔گھر پہ چھوٹی بہن کی شادی کی تیاریاں ہورہی ہوں گی سوچا تھا نئے کپڑے اسی کو دے دوں گی۔ نصیبن نے سوچا۔

    آنکھوں میں سرمہ بھرے ہاتھ میں تسبیح لئے سہرن کی اماں داخل ہوئیں، سنا ہے نصیبن کا ٹھمنڈو سے بھاگ آئی ہے ‘‘ارے یہ کیسی عورت ہے ایک در پر سکون نہیں رہتا وہاں پہ نہ کچھ کر نانہ دھرنا صرف بیٹھ کے روزہ نماز کرنا تھا تو کیسے رہ لیتی، اس گلی اس گلی گھومنے کو نہیں ملتا رہا ہوگا ادھر ادھر نظارہ بازی کا موقع نہیں ملتا ہوگا۔ سہرن کی اماں چپ ہونے کانام نہیں لے رہی تھیں۔‘‘

    آپ صحیح تو کہہ رہی ہیں چھوٹی بہن کی شادی ہونے والی ہے۔ بوبو نے آس پاس کے گاؤں سے مانگ جانچ کے جہیز کا انتظام کر دیا ہے۔ صرف باراتیوں کے کھانے کا انتظام کرنا رہ گیا تھا۔ امید تھی کہ سلیم سیٹھ سے مانگنے پر فوراً مل جائےگا مگر اس مردانی نے تو بہن کو بھی اپنے ساتھ برباد کر دیا۔ بھاگ کر چلی آئی کس منھ سے ان کے سامنے ہاتھ پھیلانے جائیں گے۔ تائی اماں نے کہا۔

    سنجو کو مہندی لگ رہی ہے۔ ڈھولک لئے لڑکیاں گا رہی ہیں’’ہاتھ پہ کچھ مہندی کی لالی۔۔۔ ارے ہاتھ پہ کچھ مہندی کی لالی کچھ ساجن کا پیار۔ صندل ایسی پیشانی پر۔ ہورے صندل ایسی پیشانی پر۔۔۔ بند یالائی بہار۔۔۔ بندیا لائی بہار۔‘‘

    اوئے ہوئے کل باراتیوں کے ساتھ دولہے راجہ آئیں گے اور دلہنیا کو اڑاکے لے جائیں۔

    یہی سماں تھا جب سسرا لیوں کی طرف سے مہندی آئی تھی۔ نندیں گارہی تھیں بیتے دن سوکھے پتوں کی طرح بکھرگئے۔ نصیبن کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔

    لگ رہا ہے نصیبن میری پگڑی اترواکے رہےگی۔ کھانے کا انتظام کہاں سے کروں؟

    ’’یہ تو ابا کی آواز ہے۔ اس کے وجود کے اتنے ٹکڑے ہوگئے کہ سمیٹنے کے قابل نہیں رہی وہ خشک آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر لئے بیٹھی تھی اس کے کرب کو کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا ایک طرف گھر والوں کی عزت کی لاج دوسری طرف اپنی عصمت کا سودا۔ ٹوٹتے بکھرتے رشتوں کے خاطر اسے یہ قربانی دینی ہی تھی۔‘‘

    سورج مغربی افق کی جانب جھکتا چلا جارہا تھا۔ ترسولی ندی کے کنارے دور دور تک سورج مکھی کے زرد پھول اس کے زخموں کی طرح لہلہا رہے تھے، کہیں کہیں پہاڑوں کے دامن میں بڑے بڑے جھنڈ کی شکل میں پھولوں کے گچھے اوپر سے گلابی اور نیچے سے سفید آسمان کے رخ پر پیالوں کی طرح منھ کھولے کھڑے تھے۔ لہروں کے شور کے علاوہ پوری فضا خاموش تھی۔ جیسے جیسے کاٹھمانڈو قریب آتا گیا اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوتی گئی۔

    سیٹھ صاحب مجھے معاف کردیجئے غلطی ہو گئی۔ بنا بتائے بھاگ گئی خدا کے لئے باراتیوں کے سامنے میرے باپ کی عزت رکھ لیجئے آپ جیسا کہیں گے میں ویسا ہی کروں گی۔ میں آپ کی۔۔۔

    تیز آری سے اس کا وجود کٹتا چلا گیا۔

    ’’ٹھیک ہے انصاری ہوٹل فون کر دیتا ہوں‘‘ سلیم سیٹھ نے کہا۔

    سجوکی شادی ہو گئی دلہن بن کے سسرال چلی گئی۔ اماں نصیبن کو بددعائیں دے رہی ہیں۔

    ’’کرم جلی نہ جائے کہاں سے ہمرے کوکھ میں جنم لے لیہس رہا پہلے تو وہاں سے بھاگ آئی سادی میں اڑنگا ڈالس اور پھر نہ جانے کے کر دیوانی رہی سادی کے دن پھرار ہوئے گئی۔ اللہ کری تو سکھ کے دانہ نصیب نہ ہوئی اللہ تعالی انصاری ہوٹل والے کے بہوت کچھ دیں کہ باراتن کے کھانا کھلائے دہن‘‘

    پورے علاقہ میں خبر پھیل گئی کہ نصیبن بھاگ گئی۔ اس نے کسی سے شادی کر لی ہے۔ ببلو بابو کہہ رہے کہ دلی میں نظر آئی تھی، شبیر پر دھان کہہ رہے کہ دبئی میں مصری کے ساتھ رہتی ہے۔ جتنے منھ اتنی باتیں سننے میں آ رہی ہیں۔

    رافعہ کی ریسرچ ’’عرب کے صحراؤں میں کھیتی باڑی کے امکانات‘‘ پر ہے۔ اس لیے وہ مختلف عرب ممالک کے دورے کر چکی ہے پچھلا سفر اس نے قطر کا کیا تھا۔ قطر کے ریگستانی سفر کے دوران ایک دن اس کی ملاقات ایک بوڑھے اونٹ سوار سے ہوئی۔ اس کا سفید عمامہ اور چاندی کی طرح سفید داڑھی گرد آلود تھی اور وہ اونٹ کی نکیل کھینچ کر تیزی سے ہانکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بلبلاتے ہوئے اونٹ نے اپنی رفتار تیز کر دی۔ پھر وہ دریا کے کنارے پہنچا گھاٹ پر اونٹ کو پانی پلایا اور خود بھی نیچے اترکر گھٹنوں کے بل ریت پر بیٹھ کر چلو سے پانی پیا۔

    دریا کے کنارے ایک کھلے اور وسیع میدان میں لکڑی کی شہ نشیں کے اوپر اطلس کے شامیانے لہرار ہے تھے۔ رافعہ وہیں بیٹھی سارے مناظر دیکھ رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ بوڑھا بھی سستانے کے خاطر وہاں آ گیا۔

    بوڑھے شخص نے رافعہ کا حلیہ دیکھ کر اس کے متعلق دریافت کیا۔ رافعہ نے اپنے مقصد کی وضاحت کی۔ بوڑھے شخص نے بتایا کہ وہ بھی سیاحت کی غرض سے یہاں آیا ہے اس کے آباء و اجداد بغداد کی سرزمین سے تعلق رکھتے تھے مگر جب ہلاکو خاں نے اس ملک کو تباہ وبرباد کر دیا تو انھوں نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی اور اب میں اپنے آباء و اجداد کی نشانیاں تلاش کر نے یہاں آیا ہوں۔

    رافعہ نے کہا میرا اور آپ کا مقصد ایک ہی ہے کیا آپ میری مدد کریں گے۔ اس نے کہا ضرور۔

    اس نے بتایا کہ میں یہاں نہیں ٹھہر سکتا کیوں کہ مجھ پر ایک دو شیزہ کی ذمہ داری ہے وہ اپنے مالک سے تنگ آکر دریائے دجلہ کے بادبانوں کی خدمت گزاری کر رہی تھی میں نے اسے اپنی پناہ میں لے لیا ہے۔ اس کا مالک اسمگلروں کا سرغنہ ہے اور پورے سال مختلف ممالک کے سفر کرتا ہے بڑا عاشق مزاج عیاش ہے، اس دوشیزہ کو ساتھ رکھتا ہے لیکن جب بیرون ملک جاتا ہے تو یوروپی لڑکیوں سے معاشقے کرتا ہے، اس غریب کو اکیلے شہر میں چھوڑ کر مہینوں غائب رہتا ہے اور اپنے جاسوسوں کو اس کے پیچھے لگا دیتا ہے اس کی غیرحاضری میں ہمیشہ وہ بھاگ کر کسی نہ کسی کرم فرماکے سائے میں پنا ہ لیتی ہے اور جاسوس اس کاسراغ لگا لیتے ہیں مگر اس بار میں اس مظلوم کو خبیث کے چنگل سے آزاد کرا کے رہوں گا باتیں کرتے ہوئے وہ دونوں بل کھاتی ہوئی پگڈنڈی پر پہنچ گئے۔

    اس نے بتایا کہ اس کا خاندان مختلف ملکوں لبنان، سیریا، کویت، قطر وغیرہ میں مقیم ہے اس لئے وہ ان جگہوں کی سیر کر چکا ہے اور ان کے ریگستانی زمینوں میں کن چیزوں کی فصلیں اگائی جاتی ہیں اس کے متعلق بھی کافی معلومات ہے۔

    رافعہ بہت خوش تھی۔ بوڑھے نے کجاوے کی پشت پر ٹیک لگاکر اونٹ کی رفتار تیز کر دی اور گانے لگا بوڑھے کی جوان اور توانا آواز میں تانت کے باجے کی طرح سوزو فریاد کرنے والی شہنائی جیسا مغموم انداز تھا۔ رافعہ کو محسوس ہوا کہ اس کی آواز سے فضائیں وادیاں اور دریاؤں کی لہریں رقصاں ہو گئی ہیں۔

    سورج غروب ہونے سے پہلے دونوں سرائے پر پہنچ گئے۔ آبنوس کی کرسی پر بیٹھی ایک لڑکی دیوار پر آویزاں تصویر کو دیکھ رہی تھی۔ تاریکی اپنے پنکھ پسارنے لگی تب اس لڑکی نے اپنی چادر ہٹائی اور خالص ہندوستانی انداز میں آکر کہا۔

    السلام علیکم۔

    رافعہ انگشت بدنداں رہ گئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے