اجنبی
اجنبی کی رخصتی کے بعد اس نے باہر جھانک کر دیکھا شام رات کے گلے مل رہی تھی۔ اسٹریٹ لائیٹس بلا غرض اپنی روشنی بکھیر رہے تھے۔ جن کے اطراف ٹڈے اڑ رہے تھے۔ اس نے دروازہ بند کر لیا اور پھر آکر وہ کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کے ذہن میں اجنبی سے متعلق سوالات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔ مگر کوئی تشفی اور اطمینان بخش جواب نہیں مل رہا تھا۔ وہ بہت دیر تک اپنے آپ میں گم سوچوں میں غرق تھا۔ اسی اثنا میں اس کا دوست جو بچکانہ سوالات کرنے کا عادی تھا موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اجازت لے کر وہ بھی رخصت ہو گیا۔ اس کے بعد اس کی بیوی رسوئی سے ہال میں آ گئی اور اپنے شوہر کو گم صم دیکھ کر اپنے آپ کو اخلاقی مجرم تصور کرتے ہوئے پوچھنے لگی۔ شاید آپ یہ سوچتے ہوں گے کہ میں اس اجنبی کو۔۔۔ اور میرے اس سے۔
اس نے اپنی بیوی کی طرف دیکھے بغیر زمین پر نظریں جمائے جواب دیا۔ نہیں تو۔۔۔ میں کیوں اس معاملہ پر غور کرنے لگوں۔ آخر جس کا ہم سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی ہماری جان پہچان۔ اس سے کیامطلب۔
بیوی نے صفائی پیش کرتے ہوئے کہا۔ بات صرف اتنی ہے کہ۔۔۔ پرسوں جب۔۔۔ میں بازار میں کپڑوں کی دکان گئی تھی اس وقت وہ۔
اس نے بیوی کی طرف تعجب خیز نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ خیر چھوڑدو ان باتوں کو۔۔۔ خواہ مخواہ کیوں اس الجھن میں پڑتی ہو، کوئی سر پھرا ہوگا۔ ورنہ اس خود غرض اور مفاد پرست دنیا میں کون اس طرح کرم کرتا پھرےگا اور بےکار میں ناآشنا لوگوں کو مٹھائی بانٹتا پھرےگا۔ کیا ہم نے بھی کبھی۔
بیوی نے اس مسئلہ کو طول نہ دیتے ہوئے اسے ختم کر دینے کی نیت سے کہا۔ میری بات تو سنیئے۔ دراصل وہ مجھے۔۔۔یعنی میں اس سے پہلے۔
اس نے پھر بات کاٹتے ہوئے کہا۔ اب بس کر دو۔ وہ کوئی بھی ہو۔ اس سے ہمیں کیا مطلب۔
ان دونوں کی باتیں ابھی جاری تھیں کہ بچے کمرہ میں ہوم ورک کرنے کا ڈھونگ کر رہے تھے ان کی آنکھوں میں مٹھائی کا ڈبّہ رقصاں تھااوران کے منہ سے رال ٹپک رہی تھی۔ بڑی دیر تک اپنے آپ پر کنٹرول کرنے کے بعد اپنے ماں باپ کو باتوں میں مصروف دیکھ کر مٹھائی کے ڈبہ کی طرف لپک پڑے۔ تھوڑی مٹھائی کھا لینے کے بعد بھائی نے اپنی بہن سے پوچھا۔ کیا تو ان انکل کو جانتی ہے جو مٹھائی لائے ہیں۔
ہاں بھیا! پرسوں میں اور امّی جب بازار گئے تھے اس وقت وہ انکل ہمیں ملے تھے۔ بہن نے نہایت معصومیت سے جواب دیا۔
بہن کے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ تھا وہ جلدی جلدی مٹھائی کھا رہی تھی۔ اس کے ہاتھ سے مٹھائی کا ڈبہ چھینتے ہوئے بھائی نے کہا۔ تیرے دانتوں میں کیڑ ہے، تو زیادہ مٹھائی مت کھا۔
بہن نے جواب دیا۔ اب تم دیتے ہو یا ڈیڈی کو بلاؤں۔
تو ہمیشہ ڈیڈی کا ڈر دکھاتی ہے۔ کیا یہ مٹھائی ڈیڈی نے۔۔۔ بھائی نے اسے دھمکاتے ہوئے کہا۔
تم ہمیشہ زیادہ کھا تے ہو اور مجھے روکتے ہو۔ میں ضرور کھاؤں گی۔ بہن ضد کرنے لگی۔
میں کھا سکتا ہوں کیونکہ میرے دانت اچھے ہیں۔ لیکن تو مت کھا۔ کہتے ہوئے بھائی نے بہن کو روکنے کی کوشش کی۔
لاؤ۔۔۔ مجھے مٹھائی دو۔۔۔ دیتے ہو یا۔۔۔ کہتے ہوئے بہن نے بھائی کے ہاتھوں ڈبہ چھیننے لگی۔ بھائی نے اسے ایک دھکا لگا دیا۔ مٹھائی کا ڈبہ نیچے گر پڑا اور وہ بھی گر کر رونے لگی۔ اس آواز پر میاں بیوی دونوں کے کان کھڑے ہو گئے اور وہ کمرہ میں گئے۔ بیٹی کو روتے ہوئے دیکھ کرماں اپنے بیٹے کو برا بھلا سناتے ہو ئے بیٹی کو مارنے لگی۔ شوہر خاموش تماشائی بنا دیکھتا رہا۔ بیوی اپنی قسمت کو کوستے ہوئے مٹھائی چننے لگی اور مٹھائی کے ٹکڑے زور زور سے ڈبہ میں پٹخنے لگی ایسا لگ رہا تھا گویا اس اجنبی کا سارا غصّہ قہر بن کر اس ڈبہ پر پڑ رہا ہو۔
رات کے تقریباً نو بج چکے تھے۔ بیوی اب تک کچن روم میں وہی باتیں اپنے آپ دہرائے جا رہی تھی اس کا ذہنی تناؤ بڑھ چکا تھا۔ شوہر نے بیوی کواس طرح دیکھ کر سمجھاتے ہوئے کہا۔ اب بس بھی کرو۔ کیوں بے کار میں ماتھا گرم کرتی ہو۔ کھانے کا وقت ہو چکا ہے اب کھانا لگا دو۔
بیوی نے دستر خوان پر افسردہ حالت میں کھانا لگایا۔ کھاتے وقت سب اپنے آپ میں گم تھے ایسے لگ رہا تھا گویا انہیں سانپ سونگھ گیا ہو۔ کھانے سے فراغت کے بعد وہ حسبِ معمول ایک ہاتھ میں کتاب لئے ورق گردانی کرنے لگااور دوسرے ہاتھ میں سگریٹ تھامے دھواں کمرہ بھر چھوڑنے لگا جس سے بیوی بچوں کو گھٹن ہونے لگی حالانکہ وہ اس کے عادی بن چکے تھے۔ اس معاملہ میں وہ مختار تھا اور یہ سب مجبور تھے۔بیوی بچوں نے اس پر کئی مرتبہ اعتراضات کئے تھے لیکن وہ اپنی عادت سے باز نہیں آیا تھا اس لئے وہ اکثر خاموش رہنے میں ہی بھلائی سمجھتے تھے۔آج اس کی بیوی اعتراض نہیں کر سکی اور وہ بچوں کو سلانے کی غرض سے کمرہ میں چلی گئی۔بہت دیر تک وہ خاموش بیٹھے سگریٹ پر سگریٹ پینے کے بعد بیڈروم میں پہنچا تو اس کی بیوی کی آنکھ لگ چکی تھی۔وہ بھی سونے کی کوشش کرتا رہامگر اس کی آنکھوں سے نیند غائب ہو چکی تھی وہ دیر تک کروٹیں بدلتا رہا۔عالم اضطراب میں اسے کب آنکھ لگی معلموم نہیں ہو سکا۔
حسب معمول صبح وہ اپنے دفتر چلا گیا۔ وہ ایک ملازم تھا تنخواہ اتنی تھی جس سے زندگی گذاری جاسکتی تھی اور صرف ضرورتیں ہی پوری ہو سکتی تھیں لیکن خواہشات نہیں۔ وہ اپنی بیوی اور بچوں سے مطمئن اور خوش تھا۔ لیکن کل ان کی زندگی میں اچانک ایک اجنبی کے آ جانے سے بھونچال سا آ گیا تھا۔وہ اس شخص کو بھلانے کی بہت کوشش کرتا رہا مگر کوشش کے باوجود وہ اجنبی اس کے ذہن پر سوار رہا۔ دفتر میں اس نے طے کر لیا تھا کہ شام گھر پہنچنے کے بعد اس اجنبی کا ذکر بالکل نہیں ہوگا اور حسب عادت اپنی مشغولات زندگی میں منہمک ہو جائےگا۔ اسی نیت سے گھر پہنچا اور حسبِ عادت اپنے کام میں لگ گیا۔ حالانکہ دو تین دن تک یہ خمار اس کے ذہن و دل پر چھائے رہا مگر اس نے اپنے آپ پر فتح پا لیا اور سب کچھ بھلا کر اپنی پہلی روش پر آ گیا۔
ویسی ہی ایک شام تھی ۔وہ ایک ہاتھ میں اخبار اور دوسرے ہاتھ میں سگریٹ جلائے بیٹھا کمرہ دھواں دھواں کر رہا تھا۔ٹیپ ریکارڈ پر ہلکی اور نہایت دھیمی آواز میں گانا بج رہا تھا۔بچے ہوم ورک کرنے کا سوانگ رچ رہے تھے کا ل بیل بج اٹھی۔ اس کی نظریں یک لخت دراوزہ کی جانب اٹھیں اس نے کن انکھیوں سے بیوی کو یوں دیکھا جیسے دروازہ کھولنے کے لئے کہہ رہا ہو۔ بیوی نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا۔ دروازہ پر وہی اجنبی کھڑا تھا۔ جیسے ہی نظریں ملیں اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر ’’نمستے‘‘ کہا۔ بیوی نے اس کا جواب دینے کی بجائے اپنے شوہر کی طرف مڑ کر دیکھا۔ اجنبی کی آواز سن کر وہ چونک اٹھا۔ اجنبی نے دیکھتے ہی اسے بھی نمستے کہتے ہوئے گھر میں داخل ہو گیا اور وہ بلاتکلف اندر آکر کرسی پر بیٹھ گیا۔ بیوی ہٹ کر پردے کے پیچھے چلی گئی۔ شما چاہتا ہوں۔ آپ شاید یہ سوچتے ہوں گے کہ میں یہاں دوبارہ کیوں آیا ہوں۔ دراصل میں آج بچوں کو کھلونے دینے کی غرض سے آیا ہوں، یہ لیجئے۔ اجنبی نے کھلونوں کا پاکٹ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے اس نے کہا۔ دیکھو بھائی ! یہ ہماری دوسری ملاقات ہے پہلے اپنا تعارف تو کر والو کہ آخر تم کون ہو اور یہاں پھر کیوں آئے ہو۔
میں نے پچھلی ملاقات میں کہا تھانا۔۔۔ کہ میں آپ کی بیوی کو جانتا ہوں، ہم دونوں کی ملاقات ہو چکی ہے کپڑوں کی دکان میں۔۔۔ اور میں آج دوبارہ یہاں کیوں آیا ہوں وہ میں نے ابھی بتا دیا ہے کہ بچوں کو کھلونے۔۔۔ اجنبی نے اطمینان سے جواب دیا۔
وہ تو ٹھیک ہے۔ لیکن تمہارا کوئی تو نام ہوگا جس سے تم جانے پہچانے جاتے ہو۔ اس نے پوچھا۔
نام میں کیا رکھا ہے۔ یہاں تو ہر گھڑی نام بھی موسموں کی طرح بدلتے ہیں۔ دراصل آدمی کے اخلاق و کردار ضروری ہیں۔ اجنبی یہ کہتے ہوئے بار بار کچن کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔ میں کل اسی مقام پر کھڑا بڑی دیر تک ان کا انتظار کرتا رہا مگر وہ نہیں آئیں۔
تو کیا کل پھر تم ان کا انتظار کرتے رہے۔ مگر کس لئے؟
دراصل میں ان کے درشن کرنا چاہتا تھا۔
آخر تم ان کا انتظار کیوں کرتے ہو اور تم چاہتے کیا ہو؟
کیونکہ میں ان کو۔۔۔ اور وہ میں۔۔۔یعنی ہم دونوں۔۔۔ بچے کہاں ہیں؟ بات بدلنے کی کوشش کرتے ہوئے اجنبی نے پوچھا۔
وہ اب تک شرافت کا دامن تھامے نہایت سنجیدگی اور متانت سے کام لے رہا تھا۔ وہ آپے سے باہر ہوکر کہنے لگا۔ یہ تو زیادتی ہے۔ اب تک ہم خاموش ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم ہمارے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کرنے لگو۔ آخر تم کون ہو۔ کہاں سے آئے ہو اور چاہتے کیا ہو۔ صاف صاف کہہ دو ہماری زندگی میں اس طرح اچانک آ کر ہمارا سکھ اور چین غارت کرنے پر کیوں تلے ہو۔
آپ اس قدر ناراض کیوں ہوتے ہیں۔ میں اجنبی تھوڑی ہوں یہ ہماری دوسری ملاقات ہے ہم ایک دوسرے کو۔۔۔ اجنبی پر اعتماد لہجہ میں وقفہ وقفہ سے کہنے لگا۔
لیکن تمہاری یہ حرکتیں تو شریفوں کی نہیں معلوم ہوتی ہیں اور تم نہایت۔۔۔ اس نے کرخت لہجہ میں کہا۔
بھائی صاحب آپ خواہ مخواہ اپنا خون کیوں جلاتے ہو۔۔۔ ایک بار ان کو بلا دو۔ میں یہاں سے چلا جاؤں گا۔ اجنبی نے سنجیدگی سے کہا۔
اب تک اس کی بیوی دروازہ کے پیچھے کھڑی ساری باتیں سن رہی تھی جب برداشت نہ کر سکی تو باہر آ گئی اور غصہ سے کچھ کہنے والی ہی تھی کہ وہ فوراً کھڑا ہو گیا آنکھ بھرکر اسے دیکھا اور دونوں ہاتھ جوڑ کر ’’نمستے‘‘ کہا اور مڑکر باہر نکل گیا۔
اجنبی کے جانے کے بعد اس نے اپنی بیوی کو دیکھا وہ ایک مجسمہ بنی کھڑی سوچ رہی تھی۔ اسے وہ ایک سوالیہ نشان لگ رہی تھی اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اس کا ذہن پھر کشمکش میں مبتلا ہو گیا۔ اس نے بیوی سے کچھ نہیں کہا اور وہ کرسی پر خاموش بیٹھا سگریٹ جلا کر گہری سوچ میں ڈوب گیا اور ماضی میں کھوگیا۔ وہ اپنی بیوی کے اخلاق و کردار اور حسن سلوک کے بارے میں سوچنے لگا۔ شادی سے اب تک کاایک ایک لمحہ اس کے ذہن میں رقص کرنے لگا مگر کہیں بھی شک و گمان کی گنجائش نہیں دکھائی دی وہ اسی طرح دیر تک سوچوں کے سمندر میں غرق تھا اس کی بیوی نے اس کے قریب آکر اس کا سر اپنی گود میں لے لیا۔ وہ ایک معصوم بچے کی طرح اس کی گود میں سمٹ گیا۔اسٹیانڈ پر ٹیپ ریکارڈ یوں ہی بج رہا تھا۔ کھلونوں کی بیاگ سامنے پڑی اس کا منہ چڑا رہی تھی۔
دو تین دنوں تک وہ اپنے ذہن پر یہی بوجھ ڈھوئے اور بوجھل ذہن لئے پھرتا رہا۔ اسے کسی کام میں دل لگا اور نہ کھانے پینے میں دلچسپی رہی۔ اسے اپنے آپ کو سنبھالنے میں بڑی دشواری پیش آنے لگی۔ وہ چند دنوں تک یہی خمار لئے گم سم رہنے لگا۔ دن گذرتے گئے وقت کے ساتھ زخم بھرنے لگے اواس میں تبدیلی رونما ہونے لگی۔
ایک دن دفتر سے وہ گھر لوٹ رہا تھا کہ اسی سڑک پر اچانک اجنبی سے اس کی ملاقات ہو گئی۔ وہ اس سے دامن بچاکر نکلنے کی کوشش کرتا رہا لیکن اجنبی نے اصرار کرتے ہوئے اسے ایک ہوٹل لے جا کر چائے پلائی۔ اس دوران اس نے کہا کہ اسی مقام پر اس کی ایک دکان ہے اور وہ ایک تاجر ہے۔ اس نے بتایا کہ اسی راستے پرکپڑوں کی دکان میں اس کی ملاقات اس کی بیوی سے ہوئی تھی۔ پھر اجنبی نے اس کی بیوی سے متعلق کئی سوالات کرنا شروع کیا۔ اسے اس کی بیوی میں غیر معمولی دلچسپی لیتے ہوئے دیکھ کر وہ اچھنبے میں پڑ گیا اور صرف ہاں۔ جی ہاں اور ٹھیک ہے وغیرہ میں جواب دیتے ہوئے اسے ٹالنے کی کوشش کرتا رہا۔ چائے سے فارغ ہو کر وہ اپنے گھر چلا آیا اور اس بات کا ذکر اپنی بیوی سے نہیں کیا۔ مگر بیوی کے تعلق سے کئی سوالات اس کے ذہن میں پھر سے کرچیاں بن کر چبھنے لگے۔ مگر وہ ہر سوال کا جواب نفی میں پانے لگا۔ رات بھر کروٹیں بدلتا رہا۔ کبھی بیوی کے معصوم چہرے کو دیکھتا اور اس معصوم چہرہ کے پیچھے چھپے گہرے راز کو ٹٹولنے کی کوشش کرتا رہا۔ لمحہ بھر کے لئے اس کے چہرہ اور اس کے وجود اور تصور سے بھی نفرت ہونے لگتی۔ مگر وہ فوراً بےچین ہوکر شکوک و شبہات کو ذہن سے جھٹک دیتا رہا۔ اسی کیفیت میں اس نے رات گذار دی۔
صبح بیوی کی آنکھ کھلی توشوہر کو بستر پر نہ پایا وہ بے چین ہوکر ادھر ادھر دیکھنے لگی ۔باہر آکر دیکھا تو وہ خلافِ عادت برآمدے میں بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔ بیوی سے رہا نہیں گیا۔ اس نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔ سگریٹ پی پی کر کیوں اپنا خون جلاتے ہو؟ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بیوی کچن میں چلی گئی اور اپنے کام میں مشغول ہو گئی۔ وہ بھی تھوڑی دیر بعد ضروریات سے فارغ ہوکر ناشتہ کیا اور دفتر جانے کے لئے تیار ہوا مگر نیند کی کمی اور ذہنی تناؤ کی وجہ سے سر بھاری لگنے لگا اور اس نے دفتر جانے کا ارادہ بدل دیا۔
بچے اسکول جا چکے تھے۔ وہ تھوڑی دیر آرام کرنے کی نیت سے بیڈ روم میں چلا گیا۔ وہ ابھی بستر پر دراز ہوا ہی تھا کہ دروازہ کی گھنٹی بجی۔ دروازہ جیسے ہی کھلا ’’نمستے‘‘ کی آواز نے اسے بے قرار کر دیا۔ بیوی نے اپنے شوہر کو آواز دی اتنے میں وہ اٹھ کر ہال میں آ چکا تھا۔ کیا دیکھتا ہے کہ وہی شخص سامنے کھڑا ہے ۔اس کے حواس باختہ ہو گئے۔ اجنبی نے اسے دیکھتے ہی دوبارہ ’’نمستے‘‘ کہتے ہوئے بے خوف اندر داخل ہوا۔ اجنبی کی اس حرکت پر اسے بہت غصّہ آیا مگر وہ اپنے آپ پر قابو پانے کی پوری کوشش کرتے ہوئے کہنے لگا۔ ارے یہ کیا بدتمیزی ہے۔ تم نے ہمیں کیا سمجھ رکھا ہے۔ اب یہاں سے جاتے ہو یا میں۔۔۔ اب تک ہم نے تمہیں برداشت کیا ہے لیکن برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ تمہاری خیریت اسی میں ہے کہ تم۔۔۔
آپ ناراض کیوں ہوتے ہیں۔۔۔ میں آپ کی زندگی میں بھلا کیوں۔۔۔ پہلے اطمینان سے بیٹھیں تو سہی۔۔۔ اجنبی نے سنجیدہ اور شائستہ لہجہ میں کہنا شروع کیا۔
تم نے ہمارا جینا دشوار کر دیا ہے۔ پھر اطمینان کی بات کرتے ہو۔ بات چیت سے تو نہایت شریف معلوم ہوتے ہو لیکن حرکتوں سے تو۔۔۔ اب صاف صاف بتا دو کہ آخر تہیں کیا چاہیئے۔ اس نے کرخت لہجہ میں پوچھا۔
دراصل اس دن دکان میں۔۔۔ یعنی جب ہم ملے تھے اس وقت۔۔۔ میں ان کو۔۔۔ مجھے ان کی آنکھوں میں۔۔۔ اجنبی ہکلاتے ہو ئے کہنے کی کوشش کرتا رہا۔
تم ہماری شرافت کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہو۔ یہاں سے نکل جاؤ۔ اس نے زور سے کہا۔
میں ضرور چلا جاؤں گا۔ بس ایک نظر میں ان کو دیکھ لوں اور ان سے بات کر لوں۔ ان کی آنکھیں مجھے۔۔۔ ان کو دیکھتا ہوں تو مجھے اپنی۔۔۔ وہ پھر وہی الفاظ دہرانے لگا۔
اب بھلائی اسی میں ہے کہ تم اپنی آنکھوں کی دعا مانگو۔ اگر تم یہاں سے نہیں جاؤ گے تو مجھے پولس بلانی پڑےگی۔۔۔ یہ کہتے ہوئے وہ فون کی طرف بڑھنے لگا۔
غصّہ میں آنے اور ناراض ہونے کی آخر بات کیا ہے اور میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے۔ جو آپ مجھ سے اس طرح۔۔۔ وہ اپنی ضد برقرار رکھتے ہو ئے کہنے لگا۔
تم انسانیت کی ساری حدیں پار کر چکے ہو۔تم ایک سڑک چھاپ کی سی حرکتیں کر رہے ہو اور پھر پوچھتے ہو کہ میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے۔
اس کی بیوی اب تک کمرہ میں پردے کے پیچھے کھڑی اجنبی اور اپنے شوہر کی باتیں سن رہی تھی اسے اپنے شوہر کی حالت پر ترس اور اجنبی کی حرکت پر بہت غصہ آیا۔وہ باہر نکل آئی۔ اب بتا دو کہ تمہیں کیا چاہیئے۔ تم کب تک ایک ملاقات کو بنیاد بنا کر اور اسی کا سہارا لےکر ہمیں پریشان کرتے رہوگے۔ ہر بار میری آنکھوں کی بات کرتے ہو۔ آخر کیا ہے میری آنکھوں میں۔۔۔تم جیسے بدتمیزوں کی وجہ سے عورتوں کا گھروں سے نکلنا دشوار ہو گیا ہے۔ دو گھڑی ہمدردی کی باتیں کیا ہوتی ہیں تم جیسے لوگ اسے کچھ اور نام دیتے ہیں اور محبت کا سوانگ بھرنے لگتے ہیں۔ دلوں میں خواہشات کے محل تعمیر کرنے لگتے ہیں۔ تم جیسوں کی بدولت ہی۔۔۔ آخر تم اپنے کام کاج چھوڑ کر اس طرح کے بےکار جھمیلوں میں پڑ کر اپنا وقت اور ہماری اچھی خاصی زندگی برباد کرنے پر کیوں تلے ہو۔ اب یہاں سے چلے جاؤ اور یاد رکھو پھر کبھی ہمارے گھر کا رخ مت کرنا ورنہ۔۔۔ وہ اسی طرح اجنبی کو کھری کھری سنا رہی تھیمگر اجنبی کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے وہ صرف اسے گھورے جا رہا تھا۔
بہ مشکل اس کی زبان سے نکلا۔ اب بس بھی کرو بہن۔ میں کوئی بدمعاش اور بد کردار آدمی نہیں ہوں۔ میں تمہارا بھائی ہوں۔ دراصل مجھے تمہاری آنکھوں میں میری بہن دکھائی دیتی ہے۔ تمہیں دیکھ کر مجھے اپنی اکلوتی بہن یاد آ جاتی ہے اور مجھے اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ میری معصوم بہن ’’سپنا‘‘ وہ بچے کی مانند روتے ہوئے کہنے لگا۔ میری بہن شرپسندوں کی ہوس کا شکار ہو گئی اور ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہو گئی۔ میرا ارادہ تمہیں پریشان کرنے اور تکلیف دینے کا ہرگز نہیں ہے۔ جب سے میں نے تمہیں دیکھا ہے مجھ میں ہمت پیدا ہو گئی ہے۔ مجھے تمہیں دیکھنے اور ملنے سے خوشی ہوتی ہے اور تسلی ہوتی ہے۔ اگر آپ لوگوں کو میری وجہ سے تکلیف ہوتی ہے تو بھگوان کے لئے مجھے معاف کر دو۔ میں یہاں کبھی نہیں آؤں گا۔ کبھی نہیں آؤں گا۔ وہ روتے ہوئے دونوں ہاتھ جوڑ کر ’نمستے‘ کہا اور گھر سے نکل گیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.