Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اکیلے آدمی کی موت

مشرف عالم ذوقی

اکیلے آدمی کی موت

مشرف عالم ذوقی

MORE BYمشرف عالم ذوقی

    عزیزالدین دیر تک اپنے کمرے میں ٹہلتے رہے۔ صبح سے موسم بھی خراب تھا۔ پرانی کھانسی کی شکایت بھی تھی۔ چلتے چلتے کھانسنے لگتے۔ سانس پھول جاتی تو کرسی پر کچھ دیر کے لئے سستانے بیٹھ جاتے۔ کوئی تو نہ تھا اس بڑے سے گھر میں ان کے سوا۔۔۔ اور جب سے اُن کی نظر اس عجیب سے اشتہار پر پڑی تھی، تو بڑھاپے کے کمزور سے دل پر جیسے زلزلہ آ گیا تھا۔ دیر تک اشتہار کو عجیب سی نگاہوں سے گھورتے رہے۔ احمد حسین زندہ ہے۔ میرا دوست، میرا یار، ابھی بھی زندہ ہے اور اپنے ہی جیسا اس دنیا میں تنِ تنہا اکیلا۔۔۔ بےچینی بڑھ جاتی تو کمرے میں ٹہلنے کا عمل ایک بار پھر شروع ہو جاتا۔ دمے کے مریض ٹھہرے۔ سانس پھولنے لگتی۔ جب سے یہ خبر پڑھی تھی ایک سیکنڈ بھی چین سے نہیں بیٹھے تھے۔ خود ہی اٹھے اور لاٹھی ٹیکتے ہوئے دوستوں کو خبر کرنے چل دئے۔ کچھ ہی دنوں بعد عید تھی اور اس وقت عزیزالدین بےصبری سے اپنے دوستوں کے آنے کا انتظار کر رہے تھے۔

    سب سے پہلے حمید بھائی آئے۔ رکشہ سے بڑی مشکل سے اُترے۔ لاٹھی ٹیکتے ہوئے عزیزالدین کو آواز دی۔ پوپلے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ حمید بھائی ایک دو سال بڑے رہے ہوں گے۔ سہارا دیتے ہوئے، خود بھی گرتے پڑتے حمید بھائی کو اندر لے آئے۔ حمید بھائی صوفے پر پھیل گئے۔

    اب چلا نہیں جاتا عزیزو۔

    عزیزالدین نے ایک لمبی سانس کھینچی۔ بڑھاپے نے کسی لائق نہیں چھوڑا۔ کل تک اس بارے میں کچھ نہیں سوچا۔ مگر اب سوچتا ہوں اکیلے آدمی کی موت کیسے ہوتی ہوگی؟

    حمید بھائی کے ’’رعشہ‘‘ بھرے ہاتھ صوفے کی دھول صاف کرتے رہے۔ آنکھیں یوں ہی بے مطلب سی ادھر ادھر گھورتی رہیں۔

    موت ہمارے لئے سب سے تکلیف دہ چیز ہے۔ موت جو بغیر خبر کئے آئے گی موت جو اکیلی آئےگی اور رونے والا کوئی نہ ہوگا، اور سہارا دینے والا کوئی نہ ہوگا۔ آخری منزل کو پہنچانے والا کوئی نہ ہوگا۔ عزیزبھائی پھیکی مسکراہٹ اگلتے ہوئے بولے، کوئی پاس پڑوس میں خبر دینے والا نہ ہوگا۔ مزار پر فاتحہ پڑھنے والا نہ ہوگا۔

    بس اکیلے پن کو کاٹ رہے، کم بخت موت سے ڈر لگتا ہے۔ ہمارے بعد کون ہے، ہمارے پیچھے کون ہے؟

    دروازے پر ایک ساتھ کئی قدموں کی آہٹ گونجی۔۔۔ عزیزالدین سنبھل گئے۔۔۔ لگتا ہے سب آ گئے۔۔۔ تیز قدموں سے باہر نکل آئے۔ کھانسی ایک بار پھر تیز ہو گئی تھی۔ باہر قمر بھائی، مشتاق بھائی اور سمیع بھائی تینوں کھڑے تھے۔۔۔ اپنے اپنے جان لیوا بڑھاپے کے ساتھ۔۔۔ جھری بھرے پوپلے ہونٹوں پر سنجیدگی طاری تھی۔

    ’’آئیے، آئیے۔۔۔‘‘ عزیز الدین کی آنکھوں میں چمک تھی۔

    تینوں بوڑھے قدم دابے اندر چلے آئے۔ حمید بھائی سے ہاتھ ملایا۔ پھر اپنے اپنے صوفے پر جم گئے۔ قمر بھائی کی آنکھوں میں موتیا بند اتر آیا تھا۔ کمزور آواز میں بولے، ’’تم نے آج بلایا تو بےحد مسرت ہوئی کہ اس بڑھاپے میں بچپن کی تاریخ دہرائی جا سکتی ہے۔۔۔ اپنا احمد زندہ ہے۔۔۔ اور اسی شہر میں ہے۔ اس خبر سے بتا نہیں سکتا کیسی خوشی ہورہی ہے۔‘‘

    عزیزالدین سمیت پانچوں بوڑھے کرسیوں پر سرجھکائے بیٹھ گئے۔ عزیز نے اخبار سے اشتہار والا صفحہ کھول لیا۔ کمرے میں پراسرار خاموشی پھیل گئی۔

    عزیز نے دوبارہ کہا، ’’بھائی۔۔۔! اکیلے پن کا ایک غم یہ بھی ہوتا ہے کہ میں تم لوگوں کو کھلا پلا نہیں سکتا۔ کوئی خاطر نہیں کرسکتا۔ مگر ٹھہرو۔۔۔ حلیم کو آواز دیتا ہوں۔۔۔ وہی تو ہے۔۔۔ فرمانبردار۔۔۔ خاندانی۔۔۔‘‘

    ’’ح۔۔۔ ل۔۔۔ ی۔۔۔ م۔۔۔‘‘ کھانسی سے ابھری ہوئی آواز کمرے کے اندر ہی دم توڑ گئی۔ عزیز الدین کی آنکھیں بھر آئیں، مگر حلیم آئےگا کہاں سے۔۔۔ حافظہ ساتھ نہیں دیتا۔ یادداشت کمزور ہو گئی ہے۔ سب کچھ بھول جاتا ہوں۔

    ’’کیا ہوا۔۔۔ حلیم کہاں ہے۔۔۔؟‘‘ قمر بھائی نے اکڑتے ہوئے پیر کو سیدھا کرتے ہوئے پوچھا۔

    حلیم نہیں رہا۔ عزیز بھائی کی آواز بیٹھ گئی۔ مگر جی نہیں مانتا کہ وہ نہیں ہے۔ ہر بار لگتا ہے وہ یہیں کہیں موجود ہے۔ ابھی نکل کر سامنے کھڑا ہوگا۔ اکیلے بیٹھے بیٹھے میں گھبرا جاتا ہوں تو اسے آواز دیتا ہوں۔۔۔ مگر حلیم ہے کہاں جو آئےگا۔۔۔ صدا لوٹ آتی ہے!

    حلیم نہیں رہا۔ کمرے میں سناٹا پھیل گیا ہے۔

    اس کے کھلائے ہوئے پکوان اب تک یاد ہیں۔ کتنی خاطر کرتا تھا ہماری! کیسی میٹھی میٹھی باتیں کیا کرتا تھا۔ وہ بھی تو ہم میں سے ہی ایک تھا۔ تن تنہا اور اکیلا۔ سمیع بھائی بولے۔

    حلیم کے قصّے اب تک یاد ہیں۔ چٹخارے لے لے کر سنانے کا انداز۔۔۔ کیسی کیسی باتیں کیا کرتا تھا۔ خبطی، کم بخت کبھی اپنے سے الگ نہیں لگا۔ قمر بھائی کی آواز بیٹھ گئی۔

    مگر حلیم کو ہوا کیا تھا؟

    کچھ نہیں۔ نیک مرد تنہائی سے گھبرا گیا تھا۔ مرنے سے کچھ روز پہلے عجیب بہکی بہکی باتیں کرنے لگا تھا۔ ایک صبح جب چائے کے لئے اسے آواز لگائی تو کوئی آواز نہیں آئی۔ دل بیٹھ گیا۔ باورچی خانے کے پاس ہی چارپائی نکال کر وہ سویا کرتا تھا۔۔۔ وہاں چارپائی پر اس کا بیٹھا ہوا مردہ جسم پڑا تھا۔ کتنی مشکل پیش آئی تھی۔ کسی طرح محلے والوں کو تیار کیا۔ پیسے دئے۔ انتظامات کئے۔ مگر خود اس کا کاندھا دینے نہ جاسکا۔۔۔ عزیز بھائی کی آواز بھاری ہو گئی تھی۔

    کم بخت حلیم کو کتنے لوگ مل گئے تھے سہارا دینے کے لئے۔۔۔ ہماری خبر محلے والے کو کون دےگا۔۔۔؟

    کمرے میں ایک بار پھر خاموشی چھاگئی۔ جھری بھرے چہرے پریشانی میں ڈوب گئے۔

    خود ہی چائے بناتا ہوں۔۔۔ روٹیاں بناتا ہوں۔۔۔ ادھ جلی سبزیاں بنالیتا ہوں اور کھا لیتا ہوں۔ گوالا دودھ دے جاتا ہے۔ کبھی کبھی بغل سے فہمیدہ آکر صفائی کر جاتی ہے۔ پڑوس کا نوکر آکر بجلی کا بل بھر جاتا ہے۔ بس ساراکام اسی طرح ہوجاتا ہے۔ ہاں رات بڑی تکلیف میں گذرتی ہے۔

    رات ہم سب کے لئے موت سے بدتر ہے۔ چاروں بوڑھے ایک ساتھ بولے۔ پھر چپ ہو گئے۔

    حمید کانپتی آواز میں پھر بولے۔ بس رات نہیں کٹتی یارو! دن تو کتابوں میں کٹ جاتا ہے۔۔۔ رات نہیں کٹتی۔ آسیبی خیالات دماغ کو بوجھل بنا دیتے ہیں۔

    ہم ہمیشہ سے اکیلے رہے۔ سمیع بھائی نے برسوں پرانی کہانی کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔۔۔ میں، عزیز، مشتاق، قمر، احمد حسین اور حمید۔۔۔ سب اکیلے رہے۔۔۔ ہم میں خوش قسمت احمد حسین رہا۔۔۔ جس نے اس دوستی سے بغاوت کی اور شادی کر لی۔ کہتا تھا جب اکیلے پن میں تم لوگ تھک جائو تم ہمارے یہاں آ جانا۔۔۔ بیوی بچوں میں دل بہل جائےگا۔ مگر بدقسمت رہا احمد حسین بھی۔ شادی کے تین سال بعد ہی بیوی رخصت ہوگئی اور بٹیا بھی ایک چھوٹی سی بیماری میں چھوڑ کر چلی گئی۔۔۔ ننھی منی سی جان کے مرنے پر کتنا رویا تھا احمد حسین۔۔۔! پھر ہماری اس تنہا بزم میں شریک ہو گیا۔

    احمد حسین ہے کہاں۔۔۔؟

    عزیز الدین نے کانپتے ہاتھوں سے اخبار کا بیچ والا صفحہ کھولا، جس میں ایک بڑا سا اشتہار شائع ہوا تھا،

    میرے دوستو! اگر تم زندہ ہو اور اچھے حال میں ہو تو میں چاہتا ہوں کہ زندگی کی آخری عید تمہارے ساتھ منائوں۔ میں تمہارے ہی شہر میں ہوں اور کچھ ہی دن پہلے آیا ہوں۔ مگر افسوس لاچار ہوں، مل نہیں سکتا۔ اگر یہ اشتہار میرے کسی بھی دوست کی نظر سے گذرے تو وہ باقی دوستوں کو اس کی خبر کر دے کہ احمد حسین زندہ ہے مگر عجب حال میں ہے۔۔۔ اور آخری عید دوستوں کے ساتھ منانے کا خواہش مند ہے۔

    وہ ہمارے ہی شہر میں ہے اور تنہا ہے۔

    سب پھر چپ ہو گئے۔ اچھا ہوگا کہ ہم عید میں ہی اس سے ملیں اور حیرت میں ڈال دیں۔ بوڑھی آواز کپکپی کا شکار ہو گئی تھی۔

    احمد حسین زندہ ہے۔ مگر عید کیا یوں بھی آتی ہے کہ دبے پائوں رخصت ہو جائے۔ کچھ خبر نہ ہو۔ نہ گھگھنی نہ پھلوڑی۔ نہ وہ رمضان کے ہنگامے نہ وہ افطار کی خوشبو۔ وہ مزے مزے کی حکایتیں، سب پرانے قصّے ٹھہرے۔ قمر بھائی کہہ رہے تھے۔ ایسے میں بچپن یاد آتا ہے عزیز بھائی! پھولوں کے بستر پر گذرا ہو بچپن۔۔۔ افطار کی خوشبو یاد آتی ہے اور عید کے ہنگامے۔۔۔ مگر نوکری میں آنے کے بعد زندگی میں ایک بھی لمحہ ایسا نہیں آیا۔

    آتا بھی کیسے؟ سمیع بھائی بولے۔ ہماری دوستی بےمثال رہی۔ اس لئے کہ ہماری کہانی ایک تھی۔ زندگی جینے کا طریقہ ایک تھا۔۔۔ ہم سب اپنے ماں باپ کی واحد اولاد تھے۔ ہم نے زندگی کا اہم ترین فیصلہ بھی ایک ساتھ کیا کہ شادی نہیں کریں گے۔ صرف احمد حسین نے اس رائے سے اختلاف کیا اور وہ بھی صرف تین سال بعد ہماری برابری میں آ گیا۔

    بےچارہ احمد حسین!

    پانچوں بوڑھے پھر چپی اوڑھ کر بیٹھ گئے۔ احمد حسین کہاں ہوگا۔ ہاں یاد آیا۔ پتہ اُسی گھر کا ہے جہاں پہلے رہتا تھا۔ دوسرے شہر میں نوکری کرنے کے باوجود اس گھر کو اُس نے نہ کرائے پر چڑھایا نہ فروخت کیا۔ پنشن یافتہ ہونے کے کافی سال بعد پھر اسی شہر میں لوٹ آیا۔ مگر خبر تو کرنی چاہئے تھی۔

    احمد حسین نے خبر کیوں نہیں کی۔۔۔؟

    ہاں خبر کیوں نہیں کی؟ بوڑھے پھر سوالوں میں کھو گئے۔ بڑھاپے سے ابھرتے بہت سارے سوالوں پر کسی جواب کی مہر نہیں لگائی جا سکتی۔ اس نے ایسا کیوں کیا؟ کیوں نہیں کیا۔۔۔؟ نہ اعضاءہی سلامت رہتے ہیں نہ شعور باقی رہتا ہے۔ ہاں اب سوال یہی ہے کہ عید کے روز ہمیں اچانک ایک ساتھ جاکر اسے حیران کر دینا ہے کہ بوڑھے صرف تم ہی نہیں ہم بھی ہیں اور آخری عید کیوں۔۔۔ جب اس شہر میں ہیں، تو بہت ساری عیدیں ابھی ساتھ ساتھ ہی منائیں گے۔۔۔!

    حمید بھائی کے ساتھ ساتھ تمام بوڑھی آنکھوں میں چمک جاگ اٹھی۔

    قمر بھائی نے آہستہ سے کہا، ہم میں اب تک کتنا جوش ہے یارو جبکہ ہم میں سے تقریباً سبھوں کو ریٹائر ہوئے دس سال گذر چکے ہیں۔ گورنمنٹ سمجھتی ہے کہ ساٹھ سال کی عمر میں آدھی بوڑھا اور ناکارہ ہوجاتا ہے اور ایک دوسال میں موت اچک لیتی ہے۔ ہم نے ایک ساتھ گورنمنٹ اور موت دونوں کو بھینگا ہوا تماچہ مارا ہے۔۔۔

    ہم میں سے ہر آدمی ابھی دس سال اور زندہ رہےگا۔۔۔ سمیع نے جوشیلی آواز میں کہا۔

    بوڑھی آنکھیں ذرا دیر کو روشن ہو گئیں۔ پھر عزیز بھائی اندر گئے۔ کچھ میٹھا نمکین لے آئے۔ خود ہی چائے بنائی۔ سب کو پیش کی۔ اس طرح بوڑھوں کی یہ محفل برخاست ہو گئی اور یہ بات طے پائی کہ عید کی نماز سے فارغ ہوکر وہ لوگ رکشے پر سوار ہوکر احمد حسین کے گھر کے لئے روانہ ہو جائیں گے۔

    پرانے راشن کی یاد تازہ کرتے ہوئے باقی چاروں بوڑھے، تھکے ہارے قدموں سے اپنے اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گئے۔

    اور یہ عید کی دوپہر کا قصّہ ہے جب پانچوں بوڑھے ایک خستہ سے مکان کے دروازے پر رکشہ سے اتر رہے تھے۔ رکشے والے کو پیسہ تھماتے ہوئے حمید نے اپنی خشخشی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، پتہ نہیں احمد حسین اب کیسا ہوگا۔ پہچانےگا بھی یا نہیں؟

    کیسے نہیں پہچانےگا۔ ہماری طرح ہی بوڑھا ہوگیا ہوگا۔

    اس کی شادی بھی تو ہوئی تھی۔ ہم میں سب سے بوڑھا وہی ہوگا۔ حمید بھائی نے پھیکا سا قہقہہ اچھالا۔ پھر ایک ساتھ سب کے ہاتھ دروازے پر دستک کے لئے اٹھ گئے۔ عزیزالدین نے دستک کے ساتھ صدا بھی لگائی،

    احمد حسین، ہم ہیں۔

    عید کی صبح بارش سے نہائی ہوئی جان پڑ رہی تھی۔ آسمان پر ابر چھایا ہوا تھا۔

    اندر کوئی نہیں ہے کیا۔۔۔؟ بوڑھی آنکھوں میں تشویش کی لہر جاگ اٹھی۔

    دروازہ تو کھلا ہے۔ احمد حسین کو اندر ہونا چاہئے۔ حمید بھائی نے رائے دی۔

    اکیلا آدمی ہے۔ دستک کیا دینا ہے۔ چلو اندر چلو۔ کہیں گیا بھی ہوگا، تو آ جائےگا۔

    پھر پانچوں بوڑھے کھلے دروازے سے اندر داخل ہو گئے۔ اندر گہرا سناٹا پھیلا ہوا تھا۔ دیوار سے خوفناک آنکھیں جھانک رہی تھیں۔ سامنے ایک کمرہ تھا اور کمرے میں بستر پر۔۔۔!

    بوڑھے جسم میں جیسے کسی نے نشتر اُتار دیا ہو۔ سن سے رہ گئے پانچوں بوڑھے۔

    یہ اپنا احمد حسین ہے۔۔۔

    جسم میں لرزہ سا طاری ہوا۔ تیز قدموں سے سب آگے بڑھے۔ پھر اپنی اپنی جگہ جیسے بت ہو گئے۔ احمد حسین کی آنکھیں خلاء میں دیکھ رہی تھیں۔ سرہانے کالی بلّی بیٹھی تھی جو دیکھتے ہی بھاگ کھڑی ہوئی۔ ٹیبل پر جلتی ہوئی اگربتی کی راکھ پڑی تھی۔

    احمدحسین نہیں رہا۔۔۔! حمید کی بوکھلائی ہوئی آواز غمزدہ ماحول میں لرز اٹھی، سمیع بھائی نے کانپتے ہاتھوں سے دوست کے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے چہرے پر چادر کھینچ لی۔۔۔ پھر سب کے سب کانپتے ہوئے نیم مردہ وجود کے ساتھ زمین پر بت بن کر بیٹھ گئے جیسے اپنے ہوش وحواس بحال کر رہے ہوں۔۔۔ کمرے سے وحشت ٹپک رہی تھی۔ کافی دیر بعد عزیز بھائی نے جھُریوں سے جھانکتی بدحواس بوڑھی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا،

    عید کا دن احمد حسین کے لئے خوش قسمت ثابت ہوا ہے۔ لگتا ہے آج صبح ہی اس کی موت ہوئی ہے۔ جلتی ہوئی اگربتی کی راکھ اس بات کی گواہ ہے کہ مرنے والے کو اپنی موت کا احساس ہو گیا تھا۔ اس نے خود ہی اگربتی جلائی اور چادر اوڑھ کر سو گیا۔ خوش قسمت تھا احمد حسین کہ اسے سہارا دینے کے لئے ہم آ گئے ہیں مگر۔۔۔

    بوڑھی آواز کمرے کی ویرانی میں تھرتھرا اٹھی۔۔۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے لئے کون آئےگا۔۔۔ کون آئےگا۔۔۔؟

    بوڑھی آنکھیں ڈبڈبا آئی تھیں۔ پھر پانچوں بوڑھے مضمحل قدموں سے باہر نکل آئے۔

    آخری سفر کی تیاری جو کرنی تھی۔۔۔!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے