آخری کہانی
اس بار بھی تم نے میری بات پر غور نہ کیا تو یاد رکھنا۔۔۔! آسمان پھٹ جائےگا اور زمین کا سینہ شق ہو جائے گا جس میں تم اپنی منافقت اور فرسودگی سمیت دفن کر دیے جاؤگے۔ یوں تو میں نے پہلے بھی کئی بار تمہیں ایسی دردناک کہانیاں سنائیں اور تم سنتے رہے، بغیر کسی احساس کے۔ لیکن اس آخری کہانی کو میں نے اپنے خون سے کشید کیا ہے۔ کل جب کالا کپڑا میرے چہرے پر ڈال کر پیروں تلے سے زمین کھینچ لی جائےگی اور میری روایت شکن زبان ہمیشہ کے لئے بند کر دی جائےگی تو یہ مت سمجھ لینا، آفت ٹل گئی بلکہ خبردار ہو جاؤ کیونکہ یہ تو شاید پہلی عورت کی آخری کہانی ہے۔ آنے والے وقت میں یہ کہانیاں شدت سے دہرائی جائیں گی، فرق ہوگا تو بس اتنا کہ وہ میری بجائے تمھارے خون سے لکھی ہوں گی۔ تو اب سنو۔۔۔! میرا نام، خیر چھوڑو میرے نام سے تمہیں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے بھلا! بس اتنا کافی نہیں کہ میں ایک ایسا وجود ہوں جس سے لذت پانا ہی تمہارا مذہب ہے۔ جب میں جوان ہوئی۔ چونک گئے نا! عورت کی جوانی پر کیسے تمھارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ چاہو بھی تو اپنے کام سے کام نہیں رکھ پاتے۔۔۔ خیر میں بتا رہی تھی کہ میں جبر کے سائے میں بڑی ہوتی ایک ایسی سٹیج پہ پہنچ گئی جہاں میرا وجود میرے باپ کی پیشانی پر لکریں کھینچنے لگا۔ اسی لیے روایت کی ہاں میں ہاں ملاتے اپنی ذات کی ہجرت پر مجبور کر دی گئی۔ ایک بات غور سے سن لو! اس دنیا میں گھنے درختوں کی چھاؤں جیسے کچھ مہربان مرد بھی موجود ہیں جو انسانیت کی تشکیل کا اہم جزو ہیں اور عورت کے لیے فطرت کا حسین ترین تحفہ بھی۔۔۔ یہ کہانی ان کے لئے ہرگز نہیں بلکہ صرف تم جیسے بےرحم مردوں کے لئے لکھی گئی ہے جنہیں آئینہ دیکھتے ہی کراہت آنے لگتی ہے۔ تم میں سے اکثر مرد بڑے سفاک گورکن ہو۔ تمہیں یاد ہیں ناں وہ تمام واقعات، بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کرنے والے؟ تم ہمیشہ ہی بہانے بنا بنا کر عورت کے سارے خوابوں، تمناوں اور خوشیوں پر مٹی ڈالتے رہتے ہو۔ جیسے اب میری بغاوت پہ بھی ڈالنے والے ہو۔ اسی لئے مرنے سے پہلے آج تمہیں یہ ہولناک کہانی سنانے پر مجبور ہو گئی ہوں تاکہ تمہاری آنکھوں پہ پڑے آسیبی جالے ہٹ جائیں اور تم میری ذات کا مکمل احاطہ غیر جانبداری سے کر سکو۔
جونہی میں نے ہوش سنبھالا، یا یوں کہو کہ ہوش سنبھالتے ہی مجھے محسوس ہوا کہ’‘اف’’ میرے صبر کی دشمن ہے، کسی بھی حال میں اف نہیں کر سکتی۔ روایتوں کی پاسداری کی بازگشت میرے کانوں میں گونجتی رہی اور ابھی پوری طرح آنچل سنبھالنا بھی نہ سیکھ پائی تھی کہ میرا وجود سب کی آنکھوں میں کھٹکنے لگا۔ میرا قصور صرف اتنا تھا کہ قدرت نے مجھے اچھی شکل وصورت سے نوازا تھا اور تم جانتے ہی ہو ہمارے معاشرے میں خوبصورتی کیسے لڑکیوں کے لئے وبال جان بن جاتی ہے۔ ہر گزرتے دن مجھے محسوس ہوتا جیسے ہر کوئی مجھے بالشت بھر بھرکے ناپتا ہے۔ ویسے اگر تم مجھے جسم کے علاوہ بھی جاننا چاہتے ہو تو جاؤ تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کرو، دیکھو کیسے تم نے حقائق کی روح مسخ کرتے ہوئے ہمیشہ صرف منافقت کی آنکھ سے مجھے دیکھا ہے۔ تمہیں لفظ فی میل، عورت، مستور اور خاتون کے معنی بھی پھر سے بغور دیکھنے ہوں گے۔۔۔تمہیں شاید معلوم نہیں۔۔۔ یہ لفظ نہیں، ذلت اور کم مائگی کی زنجیریں ہیں جو مرد نے۔۔۔،ہاں کسی تمہارے ہی جیسے مرد نے عورت کو جانے اور پہچانے بغیر صدیوں سے پہنا رکھی ہیں۔ ارے یہ اچانک تمھارے ماتھے پر بےزاری کی سلوٹیں کیوں آ گئیں؟
اچھا اچھا۔۔۔! میرا اپنے حق کے لئے لڑنا تمھیں پسند نہیں ہے نا؟ تم جیسے لوگ اسے ہمیشہ پروپپگنڈہ ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں یا عورتوں کی خود ساختہ مظلومیت کا ڈھونگ۔۔۔ وغیرہ۔ وغیرہ۔۔۔ ہاں بھئی آئینے میں اپنا کریہہ چہرہ کون دیکھنا چاہےگا بھلا؟۔۔۔ اچھا چلو خیر۔۔۔ چھوڑو! یہ منہ دکھائی کی رسم پھر کبھی سہی، ابھی تو تم میری کہانی سنو۔۔۔ہاں ہاد آیا۔۔۔ اس کہانی کو سمجھنے سے پہلے اس پچاس سالہ رنڈوے کردار کو تو جان لو جسے اس وقت میرے پہلے شوہر کے رتبے پر فائز کر دیا گیا جب میں صرف سولہ سال کی تھی۔ شادی کے دو سال بعد جب وہ زبردستی مجھے طلاق دینے پر اتر آیا تو میرے سسرال والے سخت پریشان ہوئے۔ وہ میرے شوہر کو پاگل سمجھ رہے تھے جو اتنی کم عمر، نیک سیرت، حسین صورت اور انتہائی خدمت گزار بیوی کو بلا وجہ چھوڑنا چاہتا تھا۔ وہ اس پر چیخ رہے تھے، بری طرح چلا رہے تھے اور وجہ جاننا چاہتے تھے۔ جواب میں ہم دونوں چپ تھے جیسے پتھر کے مجسمے۔ زبان کھولیں بھی تو کیسے۔۔۔ دونوں ہی ظلم کی حد تک اپنے معاشرتی رسم ورواج کے کفنائے ہوئے۔ وہ کیسے اپنے گھر والوں کو بتاتا کہ وہ تو کسی اور ہی دنیا کا باسی تھا۔ اس کو میرے جیسی سمٹی سمٹائی لجاتی ہوئی کچی عمر کی بیوی بالکل پسند نہیں آئی تھی۔ میری شرم و حیا اس کے خوابوں کا تاج محل ڈھیر کر دیتی تھی اور وہ بےبس پرندے کی طرح پھڑپھڑا کر رہ جاتا۔ پیاسا آتا اور تہ در تہ لپٹی جذبوں کی گھٹری پوری طرح کھل نہ سکنے کے باعث پیاسا ہی گالیاں دیتا، پیر پٹختا نکل جاتا۔ میں اپنی انا اور خودداری اس کے پیروں پہ رکھے گڑگڑاتی رہی مگر وہ کسی طور نہ مانا۔ اس کے بقول مجھ سی سرد لاش کے ساتھ ٹھٹھرنے سے کہیں بہتر تھا کہ خود کو گھڑی دو گھڑی بازاری شعلوں سے گرما لیا جائے۔ دو سال تک بڑی مشکل سے مجھے برداشت کیا اور پھر ایک دن طلاق کی تینوں برچھیاں میرے سینے میں اتار کر بولا ’‘تو اپنے گھر جا کر بوڑھے باپ کی خدمت کر، میری زندگی میں تیرے جیسی نیک پروین کی کوئی جگہ نہیں ہے’‘
ارے۔۔۔! حیرت سے چہرہ کیوں بگڑنے لگا تمھارا، ابھی تو یہ ابتداء ہے۔۔۔ تمارے لئے میری زندگی الف لیلوی داستاں جو بن گئی ہے۔ سچ کہو۔۔۔! کیا واقعی تم نے مجھ پر صدیوں سے روا ظلم و ستم کی داستانیں اس سے پہلے کبھی نہیں سنی؟ نظریں کیوں چراتے ہو۔ مان کیوں نہیں لیتے کہ سنی تو ضرور ہیں۔۔۔! مجھ سے بھی، مگر حسب دستور دوسرے کان سے نکال دی ہوں گی۔ تمھیں کسی سے پیار ہو ہی نہیں سکتا۔ محبت کی جمالیات تم کیا جانو، تم تو وصل کے میدان میں بھی جنگی لباس پہن کر اترتے ہو تاکہ عورت کو فتح کیا جا سکے۔ کیا میں تمھیں نہیں جانتی؟ تمہارے ماتھے پر لکھا ہے کہ میرا پراسرار حسن اور بڑا عہدہ تمھاری نام نہاد مردانگی کے لئے ہمیشہ چیلنج بنا رہتا ہے۔ اوہ۔۔۔ تم تو روٹھ کر جانے لگے ہو سنو، رکو! اگر تم نے میری پوری کہانی نا سنی تو بہت غضب ہو جائےگا اور تمھیں ہی پچھتانا پڑےگا۔ اس میں تمھارا ہی فائدہ ہے تاکہ تم یہ غلطی دہرانے سے باز رہ سکو۔ میں بھی کیا بات بےبات دل کے پھپھولے پھوڑنے بیٹھ جاتی ہوں۔ اس سے پہلے کہ تمھارے ضبط کا بند ٹوٹ جائے کہانی کا دوسرا حصہ سنو۔
میرے ماتھے پر لگا طلاق کا داغ میری بدبختی کی طرح گہرا ہوتا جا رہا تھا اور میں چار سال تک خود کو یقین دلانے کی ناکام کوشش کرتی رہی کہ واقعی مجھے میری پارسائی اور باحیا ہونے کی ایسی بھیانک سزا ملی ہے۔ جب یقین آ گیا تو دھیرے دھیرے خود کو بدلنا شروع کر دیا کیونکہ میں دوبارہ زندگی میں اتنا بڑا نقصان اٹھانے کو تیار نہیں تھی۔ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ آزاد خیالی کی نئی منزلیں طے کرتی چلی گئی۔ شرم وحیا کو اپنے بدن سے نوچ نوچ کر جب میں کسی اندھے کنوئیں میں پھینک رہی تھی تو اس وقت تم میری گھائل روح کی اذیت کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ تمھاری ساری دلچسپی تو محض میرے جسم تک محدود رہی ہے۔ پھر ہوا یوں کہ میں مر گئی اور میرے اندر ایک سفاک اور بےباک عورت نے جنم لیا جسے دیکھ کر فاحشہ بھی شرما جاتی۔ اپنی دوسری سہاگ رات میں نئے شوہر کو بے حیائی کے ایسے ایسے جلوے دکھائے کہ اس کی مردانگی ٹھٹھرتی ہوئی کسی کونے میں منہ چھپا کر جا سوئی۔ میں نے جو سوچا تھا وہی کر دکھایا۔ اس کے ہوش اڑ گئے اور وہ مفعول بنا میرے اشاروں پر ناچتا رہا۔ میں نے سکھ کا سانس لیا کہ اب مجھے کبھی ٹھکرایا نہیں جا سکےگا۔ ویسے بھی رہا سہا خوف میرے بھاری جہیز اور طلاق کی صورت میں ملنے والے حق مہر نے دور کر دیا تھا جسے وہ اپنی تنخواہ سے کبھی ادا نہیں کر پاتا۔ زندگی اب کافی پرسکون ہو گئی تھی۔ اگر کچھ شکایت تھی تو بس اتنی کہ اس کو زیادہ بولنے کی عادت نہ تھی اکثر چپ چاپ بیٹھا خلاؤں میں جانے کیا گھورتا رہتا یا پھر میرے گھر کے کام کاج ختم ہونے سے پہلے ہی سو جایا کرتا تھا۔
شروع کے چند مہینے جب میری گود ہری نہ ہوئی تو دبا دبا سسرالی احتجاج شادی کے دو سال بعد بانجھ پن کے الزام میں ڈھل گیا اور میرے شوہر کی دوسری شادی کی باتیں ہونے لگیں۔ زیادہ صدمے کی بات تو یہ تھی کہ میرا شوہر بھی اپنے گھر والوں کا ہم خیال نظر آ رہا تھا۔ میری ساری محبتوں، وارفتگیوں اور قربانیوں کی کوئی قیمت ہی نہ تھی۔ میں تو جیسے کہیں موجود ہی نہ تھی۔ اس کو صرف اولاد سے غرض تھی۔ یہ دیکھ کر میرے قدموں تلے سے زمین نکل گئی۔ میں دوبارہ طلاق شدہ ہونے کو ہرگز تیار نہ تھی اور دوسرا کوئی راستہ بچا ہی نہ تھا۔ اپنی دوسری شادی بچانے کے لئے میں کسی حد تک بھی جا سکتی تھی۔۔۔ سنا تم نے۔۔۔! کسی حد تک بھی۔۔۔ میری کہانی کی جزیات نگاری کو محسوس کیے بغیر تم میری روح کا کرب نہیں سمجھ سکتے۔ جبر میری لوکیل، استحصال میرا بھرم، خواب میری ذات کا استعارہ، خوف میرا بیانوی وقت رہا اور پھر ایک دن ہمت کر کے یہ ساری زنجیریں میں نے توڑ ڈالیں لیکن آہ۔۔۔! کیا علم تھا کہ ایک بھیانک کہانی کو جنم دوں گی۔ جب ساری دعائیں اور دوائیں بےاثر رہیں تو فوری اولاد حاصل کرنے کے لئے کالے جادو کے ماہر ایک کریہہ صورت خبیث بڈھے کے ہاتھوں کھلونا بن گئی۔ غلاظت اور بدبو سے بھرپور گندی تاریک کوٹھری میں جب وہ میری مجبوری کی من مانی قیمت وصول کر رہا ہوتا تو دل چاہتا کہ اس کے سینے میں خنجر اتار دوں۔ گھر آ کر بھی دیر تک جی متلاتا اور گھنٹوں نہانے سے بھی روح کی غلاظت دور نہ ہوتی۔
تم کیا جانو کہ تمھاری نسل کو جنم دینے اور قائم رکھنے کے لئے میری روح کو کیسے بانجھ ہونا پڑتا ہے پھر وہی بات۔۔۔تم کیسے میری روح کی اذیت سمجھو گے بھلا؟ مجھے ہر حال میں ماں بننا تھا۔ اس کے لئے آنے والے کئی سال تک’’ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں’’ جیسے فلسفے پر اعتقاد رکھنا ممکن نہ رہا تھا۔ پڑھی لکھی ہونے کے باوجود اس دیس کے بےشمار ضعیف الاعتقاد لوگوں کی طرح جھوٹے اشتہاری بابے کو سچ مان کر اپنے جسم کی بھینٹ تک دینے پر مجبور ہو گئی۔ اس خبیث جادوگر کے بقول نوچندی جمعرات میری فتح کی رات تھی اور اس کے بتائے طریقوں پر عمل کر کے اس دن میری گود بھر جانی تھی۔ میں نے باقی سب پوشیدہ رکھ کر اپنے شوہر کو صرف یہ بتایا کہ جمعرات کو آدھی رات کے بعد قبرستان میں خصوصی وظائف کرنے سے میں ماں بن سکتی ہوں۔ سب سے چھپ کر بالکل اکیلے جانا ہوگا ورنہ وظیفہ الٹا پڑ جائےگا۔ اس لئے اپنے باپ کے گھر جا رہی ہوں جہاں سے قبرستان بھی قریب ہے۔ پہلے تو وہ ڈر گیا اور سختی سے مجھے منع کر دیا لیکن پھر جانے کیا سوچ کر اجازت دے دی۔ اپنے بچے کے تصور سے ہی اس کی آنکھوں میں خوشی اور سرشاری کی انوکھی چمک آ گئی اور وہ بہت شوق سے میرے قبرسان آنے جانے کا وقت پوچھنے لگا۔
وہ ایک سرد خون کو رگوں میں جما دینے والی بھیانک شام تھی۔ میں اپنے میکے آ چکی تھی اور اپنے بوڑھے باپ کے کھانے میں نیند کی دوا ملا کر اسے سلا دیا تھا۔ بہن بھائی کوئی تھا ہی نہیں۔ ماں بھی بچپن میں مر چکی تھی۔ سو ہم دونوں ہی ایک دوسرے کا سہارا تھے۔ کچھ دیر پہلے ہی دوسرے محلے سے کزن کے تین سالہ بیٹے کو چپکے سے مٹھائی کا لالچ دے کر اپنے گھر لے آئی وہ مجھ سے ویسے بھی مانوس تھا۔ خوشی خوشی لپک کر گود میں آ گیا۔ اپنی مامتا کے نشے میں دھت میں نے کسی کی معصوم مسکین اولاد کو دودھ میں نشہ آور دوا پلا کر بستر کے نیچے سلا دیا جو مجھے جادوگر نے دی تھی۔ لوگ اسے ڈھونڈنے آئے تو بالکل انجان بن گئی۔ کہرام برپا کرنے والی اس کی ماں تو سال بھر پہلے دنیا چھوڑ گئی تھی اور باپ دوسرے ملک مزدوری کرتا تھا سو باقی لوگ جس طرح اسے تلاش کریں گے مجھے سب معلوم تھا۔ آج عمل کا دن تھا اور راجھدانی کی رات، میں ہمیشہ کے لئے اپنے شوہر کے دل میں جگہ پانے اور جنت کو زبردستی اپنے قدموں میں لے آنے والی تھی۔ یہ بھی سوچے بنا کہ جنت کا راستہ ابلیس کے گھر سے کیونکر مل پائےگا۔
یہ رات کا دوسرا پہر تھا۔ قبرستان میں ہولناک سناٹا چھایا ہوا تھا۔ میرے ایک ہاتھ میں مقدس کتاب اور بالٹی تھی جس کے اندر ایک تیز دھار خنجر، الو کے پر، بندر کا دماغ، اونٹ کی ہڈیاں اور میرے شوہر کے سر کے بال تھے۔ دوسرے ہاتھ سے نشے میں لڑکھڑاتے بچے کی انگلی تھامے دھیرے دھیرے ایک مخصوص قبر کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ننھا بچہ کچھ نیند اور کچھ خوف میں ڈوبا بار بار میری گود میں چڑھنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ رونے کی کوشش بھی کرتا تو میں اسے مٹھائی کا لالچ دے کر چپ کرا دیتی۔ پھر وہ خوف زدہ آواز میں اپنی دادی کے پاس جانے کی ضد کرنے لگا۔ اس کے چھوٹے چھوٹے ٹوٹے پھوٹے جملے اور اس کے ہاتھ کا لمس میرے جسم میں مامتا کی گرمی پیدا کر رہا تھا۔ بار بار جی چاہتا سب کچھ یہیں چھوڑکر اسے سینے میں چھپا کر گھر چلی جاؤں، مگر کونسے گھر، جہاں مجھے بے آبرو کرنے کی پوری تیاری کر لی گئی تھی؟ دوسری بار میرے سر سے چھت چھین کر معاشرے کی ٹھوکروں میں روندا جانے والا تھا۔ نہیں، اب ایسا نہیں ہو سکتا۔ میں ایسا نہیں ہونے دوں گی۔ ان ہی خیالوں میں الجھی میں اپنی مطلوبہ قبر تک پہنچ گئی۔ ذہن میں فکروغم کے اتنے جھکڑ چل رہے تھے کہ قبرستان میں پھیلی خوف اور سناٹے کی گونج بھی مجھے سنائی نہ دے رہی تھی۔ بچہ گھبرا کر رونے لگا تھا۔ اس کی آواز سن کر کوئی بھی وہاں آ سکتا تھا اس لئے اس کو چپ کروانا بہت ضروری ہو گیا تھا۔ ایک جھٹکے سے اسے گھسیٹ کر زمین پر گرا دیا۔
میرے ہاتھوں کی سرد بےرحمانہ گرفت سے وہ بری طرح سہم گیا۔ آہ۔۔۔کاش میں عورت نہ ہوتی، کاش میں اتنی مجبور نہ کر دی گئی ہوتی۔ اپنی بےبسی پر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ میری سسکیاں سن کر بچہ رونا بھول گیا اور حیرت سے مجھے دیکھنے لگا۔ اس نے زمین پر لیٹے لیٹے اپنا ننھا سا ہاتھ بڑھا کر میرے گال سے آنسو صاف کرنا چاہے۔ اسی لمحے میں نے اپنی آنکھیں بند کیں اور سانس روک کر اس کے گلے پر خنجر چلا دیا۔ ننھا سا ہاتھ میرے گال پر ٹکا تھا اور وحشت بھری بےاعتبار آنکھیں میری روح میں شگاف ڈال رہی تھیں۔ اس کی گردن سے خون کی تیز دھار بھل بھل بہنے لگی۔ ایک پل کو ایسا لگا جیسے زمین آسمان نے گھبرا کر آپس میں جگہ بدل لی ہو۔ کائنات نے پلک چھپکنے میں سوگ کی گہری چادر اوڑھی اور قبریں وحشت سے پہلو بدلنے لگیں۔ چاند نے دہشت زدہ ہو کر کالے بادلوں میں پناہ لی اور زمین پر انسانیت کا جنازہ نکل گیا۔ میں اس وقت اپنے حواس میں نہ تھی۔ کسی معمول کی طرح اس خون کو تیزی سے بالٹی میں بھر لیا۔ اس کے بعد جادوگر کے حکم کے مطابق بھاری پتھر سے اس کے نازک بدن کو اچھی طرح کچلنے لگی تاکہ لاش کو پہچانا نہ جا سکے۔ خون بھرے گوشت کے لوتھڑے اڑ اڑ کر دور تک جا رہے تھے اور میں بےحس بنی اس پنجر پہ ضربیں لگا رہی تھی۔ تم سن رہے ہو یہ سب میں کر رہی تھی۔۔۔ایک عورت۔۔۔ جو ایثار، وفا اور قربانی کی دیوی سمجھی جاتی ہے مگر تم مردوں نے مجھے اس قدر مجبور کر دیا تھا کہ میری سرشت ہی بدل گی۔ اس کے بعد ساری چیزوں اور مقدس کتاب کو ایک خاص ترتیب سے قبر پر الٹا رکھا۔ خود بے لباس ہو کر اس کے اوپر بیٹھ گئی۔ یہ وہ کتاب تھی جس کو عام حالت میں چھوتے بھی ڈرتی تھی کہ کہیں بے ادبی نہ ہو جائے لیکن مجبوری نے آج مذہب کو بھی میرے تابع کر دیا تھا۔
اس کہانی میں تمھارے ہر سوال کا جواب پہلے سے موجود ہے تا کہ تمہارے جیسے غیرت مند قاری مجھے ظالم ،خود غرض، بےحس اور ایسی دل دہلا دینے والی سچی کہانیوں کو پروپیگنڈہ کہنے سے پہلے خود اپنے گریبان میں جھانکیں۔ یہ سب میں نے کس لئے کیا۔؟ صرف تمھاری نظر میں معتبر ہونے کو ناں جو میری حماقت تھی۔۔۔! اور تم نے مجھے بدلے میں کیا دیا؟ دیا بھی کہاں؟ تم نے تو ہمیشہ مجھ سے صرف لیا ہی لیا۔۔۔ آج جبکہ میرا دل غم سے پھٹ چکا ہے اور میں فنا ہو چکی ہوں، مرنے سے پہلے تمھاری اس نام نہاد عظمت کو دھتکارتی ہوں۔ یہ لو اپنے پیروں تلے روندتی ہوں۔۔۔آخ تھو۔۔۔ ویسے بھی جب یہ کہانی تم تک پہنچے گی میری لوکیل زمین کے سات فٹ اندر بےنام و نشان پتھریلی چاردیواری بن چکی ہوگی جہاں مدتوں کے لئے وقت ٹھہرا ہوا ہے اور تمام جذبے پتھرائے ہوئےہیں۔ لرزہ طاری کرنے والے اختتام سے پہلے مجھے تم سے کچھ ضروری سوال کرنے ہیں۔ زرا سوچ کے بتاو کہ تمھارا کلیجہ کیوں نہیں پھٹتا جب تم مجھے ونی اور ستی کرتے ہو۔ کبھی میرے ناک کان کاٹتے ہو تو کبھی میرے چہرے پر تیزاب ڈالتے ہو۔ یہاں قرآن سے میری شادی کر دی تو وہاں جرگے میں گائے بھینسوں کے ساتھ گن کر دشمنوں کے حوالے کردیا۔۔۔ تم شرم سے مر کیوں نہیں جاتے جب میں صرف چار سال کی ہوتی ہوں اور تم چالیس سال کے چار مرد مل کر میرے نازک کومل بدن کو چیتھڑوں میں بدل دیتے ہو۔
کبھی میرے سات سالہ پھولوں سے نازک معصوم جسم کو چھریوں سے چھید چھید کر ڈارک ویب کے لیے لائیو ویڈیوز بناتے ہو۔ اف۔۔۔! کتنے بےدرد اور بےرحم ہو تم۔۔۔ تف ہے تمھاری بےغیرتی سے بھری مردانگی پر۔ میرے پاس اب وقت بہت کم ہے، کہانی اپنے اختتام جسے تم ایک خونی کلائمیکس کہوگے، کی طرف تیزی سے بھاگتی جا رہی ہے، اسی طرح قبر پر بیٹھے بیٹھے میں نے کچھ منتر پڑھے اور بچے کے خون سے نہانے لگی۔ درختوں کے بھیانک ہیولے طویل ہو کر میری طرف یوں بڑھ رہے تھے جیسے عفریت ہوں اور میرے بھاگنے کی راہیں مسدود کر رہے ہوں۔ اسی لمحے اچانک آسماں پھٹ پڑا اور موسلا دھار بارش برسنے لگی۔ میں نے جلدی جلدی اپنے منتر ختم کر کے بچے کے بچے کھچے پنجر کو ایک گڑھے میں ٹھونسا اور اس کو مٹی سے بھرنے لگی۔ جب میں ایسا کر رہی تھی تو اس کی اڑتی ہوئی ایک انگلی مامتا کے منہ پر طمانچہ بن کر میرے گال سے ٹکرا ئی اور ایسا لگا جیسے میں ہمیشہ کے لئے بانجھ ہو گئی ہوں۔ اسی تیز بارش میں نہاکر میں صاف ہوئی اور جلدی جلدی چیزیں سمیٹ کر گھر کی طرف بڑھنے لگی۔ ایک نظر ننھی قبر کو دیکھا تو جی چاہا کہ کاش کوئی میرا بھی یہی انجام کر دے۔ اس وقت جب میرے جسم پر پچھتاؤں کا لرزہ طاری تھا اور دماغ، دل کو تنہا چھوڑے بھاگا جا رہا تھا کہ قبرستان سے باہر نکلتے ہی اپنے شوہر کو منتظر پایا۔ اس کے چہرے پر عجیب مکروہ سی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔
مجھے دیکھتے ہی بولا ’‘تجھ سے جان چھڑانے کے لئے بہت دنوں سے موقع ڈھونڈ رہا تھا۔ طلاق تجھے دے نہیں سکتا اور تیرے ساتھ ایک پل رہنا مجھے گوارا نہیں۔ تجھے جان سے مار کر اب میں شرمیلی اداؤں والی کسی حیادار عورت سے شادی کروں گا تاکہ میری مردانگی کی تسکین ہو سکے۔ تو نے تو الٹا مجھے ہیجڑا بنا رکھا ہے کنجری’’ الفاظ تھے یا پگھلا ہوا سیسہ۔ مجھ میں کچھ اور سننے سمجھنےکی سکت نہ رہی۔اس بار پھر قصور میرا ہی نکلا تھا ہمیشہ کی طرح۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ ہاتھ میں پکڑی رسی میرے گلے میں پھندہ بنا کر ڈالتا میں اپنا تیز دھار خنجر اس کے دل میں اتار چکی تھی۔ نہیں۔۔۔! تم اتنی نفرت سے مجھے نہ دیکھو۔ اب نہیں۔۔۔ برداشت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ اس کے جسم سے نکلتا گرم گرم خون میرے پیروں کو بھگو رہا تھا۔ وہ زمین پر گرا تڑپ رہا تھا اور میرے ذہن میں لفظ کنجری کے جھکڑ چل رہے تھے۔ ہاں اس نے ٹھیک ہی تو کہا تھا۔ میں ابھی تک مسلسل ایک کے بعد دوسرے مرد کو خوش کرنے کے لیے ان کے اشاروں پر ناچتی ہی تو آئی تھی۔ کم سے کم اس خبیث بڈھے جادوگر نے تو مجھے واقعی بنا کر چھوڑا تھا۔ اس کا خیال آتے ہی میں نے جھک کر اپنے شوہر کے سینے میں گھسے خنجر کو کھینچ کر باہر نکالا تو خون کے ساتھ ساتھ گوشت کے کچھ لوتھڑے بھی باہر آ گئے۔ اسے بارش کے پانی اور اس کے کپڑوں سے اچھی طرح صاف کیا اور شراب کے نشے میں دھت سوئے ہوئے کالے علم کے ماہر خبیث جادوگر کو جا لیا۔ اسے تو چیخنے اور تڑپنے کا موقع بھی نہ ملا۔ اس کا کوئی جادو بھی خود اسے نہ بچا سکا۔ میں سراپا قہر بنی اس وقت تک خنجر کے وار کرتی رہی جب تک لوگوں نے مجھے پکڑ کر پولیس کے حوالے نہ کر دیا۔۔ مگر دیکھو! میں تمہاری طرح بزدل نہیں ہوں۔ میں نے تمھاری طرح غلط کو درست ثابت کرنے کی کوشش بھی نہیں کی، جو غلط کیا عدالت میں اس کا اعتراف بھی کیا، لو اب میری آخری کہانی تمام ہوئی اور جلاد مجھے لینے آ پہنچے ہیں۔۔۔ میں جا رہی ہوں مگر تم یہ مت سمجھ لینا کہ آفت ٹل گئی۔ یاد رکھنا۔۔۔! یہ تو صرف پہلی عورت کی آخری کہانی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.