Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

عکس

MORE BYنگار عظیم

    اف میرے خدا۔ یہ میں نے کیا دیکھ لیا... میرا وجود پارہ پارہ ہوکر لرزنے لگا ہے۔ دل کی گھٹن بڑھتی ہی جا رہی ہے... کاش میں نے یہ سب کچھ نہ دیکھا ہوتا۔ بچپن سے لے کر جوانی کے آخری لمحوں تک کی یادیں میرے ذہن کو جھنجھوڑنے لگیں۔ اس وقت میں کوئی چھ برس کی تھی۔ ایک صبح سوتے میں میری ران پر اتنی زور سے چانٹا پڑا کہ میں بلبلا کر اٹھ بیٹھی۔ چاروں طرف دیکھا کوئی نہ تھا۔ ابا جان کیاری کے پاس بیٹھے تازہ گلاب دیکھ رہے تھے اور حسب عادت قرآن پاک کی کوئی سورت بآواز بلند پڑھ رہے تھے۔ پوچھنے کی ہمت نہیں کہ کیا ہوا؟ خود ہی خیال کیا کہ غرارہ پہن کر سورہی تھی شاید سوتے میں اوپر اٹھ گیا ہوگا۔ یہی ابا جان کے غصہ کی وجہ ہوسکتی ہے۔ کتنا غصہ تھا ابا جان کو۔ ناک پر مکھی بیٹھنے نہیں دیتے تھے۔ امی جان کو ذرا ذرا سی باتوں پر کس بری طرح سے لتاڑتے تھے اور دوسرے ہی لمحہ ان کے بغیر کھانا بھی نہیں کھاتے تھے۔ جب ابا جان اسکول سے پڑھا کر آتے تھے تو کیا مجال گھر میں ذرا سی بھی کسی کی آواز نکل جائے۔ بقول امی کے ’’تمہارے باپ تھکے ہوئے آئے ہیں آرام کی ضرورت ہے‘‘ یہ تو کبھی سوچا ہی نہیں کہ بچے بھی اسکول سے تھکے ہوئے آئے ہیں کھیلے اور چہکنے کی ضرورت ہے۔

    بس رات کو ابا جان کسی نہ کسی نشست میں ضرور جاتے۔ یہ نام میں بچپن سے سنتی چلی آئی ہوں۔ تب ہم سب بہن بھائی مل کر خوب دھماچوکڑی مچایا کرتے تھے۔

    بچپن کی وہی شرارتیں۔ دوسروں کے ساتھ ساتھ ابا جان کی چیزیں بھی چپکے چپکے چھیڑنا شروع کیں۔ نہ معلوم ابا کو کیسے پتہ چل جاتا تھا۔ صرف غصہ سے آواز لگتی تو خون خشک ہونے لگتا اور ڈانٹ پڑتی تو ڈر کے مارے پیشاب نکل جاتا کچھ پوچھا جاتا تو آواز ہی نہ نکلتی۔

    جوں جوں بچپن جانے لگا توں توں سمجھ آنے لگی۔ ابا جان کی عادتیں کتنی عجیب ہیں یا تو تمام کام خود کریں گے۔ ریڈیو خود ٹھیک کرلیں گے، بجلی کا کام بھی خود ہی کر لیں گے، پریس خود کھول کر بیٹھ جائیں گے، کتنی خوبصورت تصویریں بناتے تھے۔ کتنا خوبصورت ابری کاغذ بنایا کرتے تھے۔ کیا کیا کام کرتے تھے کہ بس... اور دوسری طرف گھڑے سے پانی لے کر بھی خود نہیں پی سکتے۔ ہم بچوں سے کبھی کھیلتے بھی نہیں۔ ہنسی مذاق بھی نہیں۔ اتنی سخت مزاجی کہ ہر بات کا آرڈر... کسی بات میں نا سننے کی عادت تو جیسے تھی ہی نہیں۔

    پانچ منٹ بھی کبھی انہیں اپنے اسکول پہنچنے میں دیر نہیں ہوتی تھی اور اگر کبھی پانچ منٹ ہمیں اسکول جانے میں دیر ہوجائے تو سارا محلہ سر پر اٹھا لیں گے۔ سالن میں نمک مرچ تیز ہوجائے تو سالن کا پیالہ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر آنگن میں بکھر جائے۔ ہر وقت ہر کام قاعدے کا۔ نپا تلا۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ ہر وقت رعب ہی رعب۔ پاس بلاتے آرڈر ملتا بیٹھو۔ ہم بیٹھ جاتے۔ کہتے کہو بیس بار جھوٹ بولنا گناہ ہے، زبان میں گندگی پیدا ہو جاتی ہے۔ پھر کہتے کہو بیس بار دل کی بات نہیں مانتے دل غلط کام کرواتا ہے۔ کس قدر اکتا دینے والا بچپن تھا وہ۔ خدا کی پناہ... آہستہ آہستہ پتہ چلا کہ ابا جان شاعر ہیں۔ دل چاہا چوری چھپے پڑھیں ابا جان کیا لکھتے ہیں... یقین نہیں آتا کہ اتنے سخت مزاج ابا جان شاعر ہو سکتے ہیں۔ شاعری بھی ایسی کہ آہ... دل تڑپ اٹھے... کیا ابا جان اندر سے اتنے نرم ہیں...؟؟ کیا ابا جان کے دل میں بھی اتنے نرم گرم احساسات ہیں۔ بالکل یقین نہیں ہوتا... باہر سے اتنے سخت دکھائی دینے والے ہمارے ابا جان اتنے حساس ہوں گے اور اتنا جذباتی کلام کہتے ہوں گے۔

    تو پھر یہ غصہ؟؟ شاید خاندانی چلن..........

    اب پوری طرح ہمارا شعور جاگ اٹھا تھا اور ابا جان کی پوری شخصیت ہمارے سامنے واضح ہو چکی تھی۔ ابا ہمیں آہستہ آہستہ بہت اچھے لگنے لگے۔ ہر بات میں مردانگی، حسن و وقار، نفاست پسندی، علمیت، اولاد کی پرورش کا ڈھنگ، سبھی کچھ ابا جان میں بڑے نرالے انداز میں موجود تھا۔ ابا کا سارا کام میں خود کرتی اور دل ہی دل میں خوش ہوتی۔ ابا بھی بہت خوش ہوتے۔ کہتے۔ واہ بیٹا شاباش... بہت اچھا جوتا چمکایا ہے میرا...

    آہستہ آہستہ ابا کا مزاج بدلتا جا رہا تھا۔ اب وہ پہلے کی طرح غصہ نہیں ہوتے تھے۔ اب ابا جان کو کسی بات میں ہماری دخل اندازی بری نہیں لگتی تھی۔ ابا جان یہ کپڑے پہنئے... یہ والا جوتا... اور ہاں... یہ والا سوئٹر... اور یہ کالا سوٹ اور فلاں خوشبو لگاکر نشست میں جائیےگا آج.......... لائیے ابا جان..... میں کاٹ دوں آپ کے ناخن.......... بالکل گول کاٹوں گی۔ ذرا بھی کہیں نوک نہیں بچےگی۔ ابا مسکرا کر قینچی تھما دیتے۔

    ایک دن ابا کے دوست جنہیں ہم چاچا کہتے تھے، موجود تھے انہوں نے فرمائش کی کہ کوئی تازہ غزل ہوجائے۔ ابا جان شروع ہوئے..... آخر میں جب مقطع کہہ رہے تھے تو آخری لائن بے ساختہ میرے منہ سے نکل گئی... بڑے تعجب سے مجھے دیکھا۔ جب چچا چلے گئے تو پاس بلایا..... بولے ذرا دہرانا اس وقت کیا سنایا تھا..... مارے ڈر کے کھڑے کھڑے پاؤں کپکپانے لگے۔ ہمت جواب دے گئی... سمجھاکر بولے ’’یہ تمہارے پڑھائی کے دن ہیں، فضول کاموں کی طرف توجہ نہ دیا کرو۔‘‘

    وقت گزرتا گیا۔ نہ جانے کس جذبہ کے تحت میں نے افسانے لکھنا شروع کیے۔ چپ چاپ طبع آزمائی کرتے کرتے ایک دن وہ آیا کہ چھوٹے معمولی پرچوں میں وہ افسانے چھپنے لگے۔ شوق بڑھتا گیا... لیکن ابھی تک اتنی ہمت نہ تھی کہ ابا جان کو دکھا سکوں کہ کیسا لکھا ہے۔ ڈر تھا کہیں برسوں کا گیا طوفان پھر واپس نہ آجائے اور پھر ایک دن امی نے تذکرہ کر ہی دیا... قیامت آ گئی... سارے پرچے طلب کیے... ڈرتے ڈرتے ہم نے وہ تمام پرچے لاکر دے دئیے جن میں ہمارے افسانے چھپے تھے۔

    کئی دن بعد بلایا... افسانہ لکھنے کی تمام باریکیاں سمجھائیں... اور کہا آئندہ کسی پرچے میں بھیجنے سے پہلے کسی کو دکھا دیا کرو... ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی... یہ کیا بات ہوئی...؟؟

    جیسے جیسے ہمارے قدم جوانی کی دہلیز پر بڑھتے رہے وہی ابا ہمارے آئیڈیل بنتے گئے۔ ان کی ہر بات میں آن اور ہر ادا میں شان اور وقار نظر آنے لگا۔ مجھے ابا جان سے اس قدر محبت ہوئی کہ جس کو ظاہر کرنا میرے بس میں نہیں.... تمام عزیزوں کی مرضی کے خلاف ابا جان نے مجھے سب اولادوں سے زیادہ پڑھنے کا موقع دیا۔ ان کی نظر عنایت سب سے زیادہ مجھ پر رہتی تھی۔ ابا مجھ سے ہر طرح کی باتیں بے تکان کیا کرتے تھے۔ امی ٹوکا کرتیں تو کہتے تھے۔ ’’یہ بیٹی نہیں بیٹا ہے۔ زمانے کی اونچ نیچ اور اپنا تجربہ بتاتا رہتا ہوں... تم ٹوکا مت کرو...

    کاش میں بھی ابا کو بتا سکتی کہ میں آپ کو کتنا چاہتی ہوں۔ آپ مجھے اپنا آئیڈیل اور میرے تصورات کا مکمل شاہکار نظر آتے ہیں۔ آپ ہر فن میں استاد ہیں۔ میراجی چاہتا ہے میں آپ کی تمام خوبیوں کی تعریف کروں۔

    عمر کے تیس سال کیسے پر لگا کر اڑ گئے۔ سب کی شادیاں ہوچکی تھیں۔ وقت اور ماحول بدلتا جا رہا تھا۔ ابا کا خاندان طویل ہوتا جا رہا تھا اور امی خوش و خرم و مطمئن نظر آتی تھیں۔ ابا کا غصہ اولاد نواسے نواسیوں اور پوتے پوتیوں نے ختم کردیا تھا۔ سب ابا کے کندھوں پر چڑھے رہتے تھے۔ میری شادی کے بعد ابا بہت غمگین رہنے لگے تھے۔ ان کی والہانہ محبت کا ثبوت وہ خطوط ہیں جو وہ مجھے لکھتے رہے ہیں۔ اب ابا کمزور ہو چلے تھے۔ چوڑا چکلا سینہ نرم پڑنے لگا تھا خود کہا کرتے تھے۔ ’’اب ہم چراغ سحری ہیں‘‘ اور ایک دن ابا کا یہ کہنا درست ثابت ہوا۔ ایک ہی ہفتہ پہلے کی بات ہے۔ ابا کی اچانک طبیعت خراب ہوئی۔ پروسٹریٹ کا آپریشن ہونے والا تھا۔ سارا گھر مہمانوں سے بھر گیا، ابا مسکرا مسکرا کر سب سے باتیں کر رہے تھے۔ گھر میں تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔ جس کو جہاں جگہ ملی پڑکر سو گیا۔ صرف میں ہی تو رہ گئی تھی۔ ابا بھی سو چکے تھے۔ ہر بستر پر دو دو تین تین پڑے تھے۔ امی کو بھی بچوں نے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ صرف ابا کا بستر خالی تھا۔ میں چپکے سے ابا کے لحاف میں گھس گئی اور ان کی پیٹھ سے چپک کر ایسی سوئی کہ ہوش ہی نہ رہا... سویرے ابا کلبلائے۔ ارے بھئی ’’یہ میرے پاس کون لیٹ گیا؟‘‘ ’’میں ہوں اباجی۔‘‘ ابا نے چھوٹے سے بچے کی طرح مجھے سینہ سے چمٹالیا۔ میری آنکھیں محبت کے اس لمس سے بھر آئی تھیں۔

    آپریشن ہوا— تیسرے دن ابا ہم کو چھوڑ کر چل دئیے۔ جس کے تصور سے ہی کلیجہ منہ کو آنے لگتا تھا۔ پاگل ہونے کا گمان ہوتا تھا۔ وہ ہو چکا تھا۔

    آہ ابا— اب میں کس کے لیے لکھوں گی؟ کیسے لکھوں گی؟ کون خوش ہوگا؟ میرے اس ادبی ذوق کے جنم داتا مجھ کو— تنہا چھوڑ کر—

    کئی دن گزر گئے۔ ہر پل ابا کی باتیں ہوتی رہتیں۔ ابا سب کو خواب میں نظر آتے کسی کو کسی طرح کسی کو کسی طرح— میرے دل کی خلش دل میں ہی رہی— ابا مجھے نظر کیوں نہیں آتے؟؟ کیا مجھ سے ناراض ہیں—؟؟ زیادہ سے زیادہ تلاوت کرتی، درود و دعائیں پڑھتی۔ ثواب پہنچاتی۔ تصور کرکے لیٹتی۔ ابا نظر نہیں آتے— کاش میں بھی ابا کو دیکھتی— میں تو ابا کے سب سے زیادہ قریب تھی۔ بیماری میں بھی، زندگی میں بھی، خوشی میں بھی، غم میں بھی۔ ابانے ایک دن کہا تھا مجھے صرف مہر میں اپنا عکس نظر آتا ہے۔ ابا نے ایک خط میں مجھے غزل لکھا تھا۔ ابا سب سے زیادہ مجھے چاہتے تھے۔ کیسا خوش ہوتے جب ابا کے پاؤں دھلاتی، سر دھلاتی، پھر کیا وجہ ہے؟ وقت گزرتا گیا— میری بےچینی بڑھتی گئی— ابا— کاش— ایک بار مجھے بھی نظر آئیے— کیسے ہیں؟ کہاں ہیں؟ آپ کی ایک ایک یاد میرے ذہن کے ٹکڑے ٹکڑے کیے دے رہی ہے..... ابا نظر آئے— اف میرے خدا..... یہ میں نے کیا دیکھ لیا—؟؟ میرا وجود بکھر رہا ہے— یہ سب کیا ہے—؟؟ ابا کی پاکیزگی اور میری والہانہ محبت کا یہ انداز—؟؟ ابا اور میں اتنے قریب—؟؟

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے