Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایلس ونڈرلینڈ میں

شہناز پروین

ایلس ونڈرلینڈ میں

شہناز پروین

MORE BYشہناز پروین

    ہسپتال آنا جانا میرا معمول بن گیا تھا، میں ہر روز اپنی بیٹی عینی کی واپسی سے پہلے استقبالیہ کے سامنے انتظار گاہ میں اس کی راہ دیکھتی رہتی، اس روز ایک بہت خوب صورت کم عمر سی لڑکی میرے قریب آکر بیٹھ گئی۔ اپنی طرف متوجہ دیکھ کر اس نے بڑی دل آویز مسکراہٹ کے ساتھ ’’ہائے‘‘ کہا۔ میرے کڑھائی والے سوٹ کو سراہا اور رنگ برنگی چوڑیوں کی طرف اشارہ کرکے کہا۔

    ’’بہت خوب صورت! تم انڈین ہونا؟‘‘ میں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔

    ’’میں پاکستانی ہوں!‘‘ ۔۔۔پاکستان! ہاں میں نے یہ نام سنا ہے مگر وہاں تو دہشت گرد رہتے ہیں۔۔۔؟ میرا جی چاہا کہ ایک تھپڑ ماروں اس کے مگر وہ تو مجھے نہایت ہم دردی سے دیکھ رہی تھی جیسے اسے میری بہت فکر ہو۔ لہٰذا میں نے اسے اتنا ہی کہا۔

    ’’ایسا نہیں ہے، دہشت گرد تو ہر جگہ ہوتے ہیں، ان کا کوئی ایک ملک نہیں ہوتا۔‘‘ پھر میں نے اسے ساری دنیا کے بڑے بڑے ممالک کے چند دہشت گردوں کے نام گنوائے۔

    ’’دیکھو پاکستان میرا ہوم لینڈ ہے، بہت خوب صورت ہے، کبھی آنا ہو تو مجھ سے ملنا، میں تمہیں خوب سیریں کراؤں گی۔‘‘

    ’’ابھی میرا مرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔۔۔‘‘ وہ ہنس پڑی۔

    ’’اچھا یہ بتاؤ جب کوئی تمہارے ہوم لینڈ کو برا کہے تو کیسا لگےگا؟‘‘

    ’’میں تو اسے جان سے ماردوں گی۔‘‘ اس نے بےساختہ کہا۔

    ’’بس یہی بات ہے نا جب کوئی میرے ملک کو دہشت گردوں کا ملک کہتا ہے تو میرا بھی یہی دل چاہتا ہے اور میر ا دل بہت روتا ہے۔‘‘

    اس نے سوری کہہ کر اپنی مسکراہٹ سے ساری کدورت دور کردی اور اس کے بعد میری اس کی دوستی ہوگئی۔ دو تین دنوں سے وہ اپنے چیک اپ کے لیے آ رہی تھی۔ اس روز بھی وہ میرے پاس ہی آکر بیٹھ گئی۔

    لنچ بریک پر میری بیٹی ڈاکٹروں اور عملے کے دیگر ملازمین کے ساتھ ہسپتال میں موجود نرسری سے اپنے بچے کو لے کر واپس آ رہی تھی۔ اس نے میرے نواسے کو دیکھ کر کہا۔

    ’’میرا بچہ بھی تمہارے نواسے کی عمر کا ہے!‘‘

    ’’اچھا۔۔۔‘‘ میں نے حیرت سے کہا۔ ’’میں تو سمجھی تھی کہ ابھی تمہاری شادی بھی نہیں ہوئی ہے۔‘‘ میں نے خالص پاکستانی عورتوں کے انداز میں کہا۔ وہ ہنس پڑی۔

    ’’ابھی اسی سال تو ہم نے شادی کی ہے۔‘‘

    ’’مگر تم تو کہہ رہی تھی کہ تمہارا بچہ میرے نواسے جتنا ہے۔‘‘

    ’’ہاں ایک اس سے بڑا بھی ہے۔ دو بچے ہیں ہمارے، اینڈریو اور میں دس سال سے ساتھ رہ رہے تھے۔ دوسرے بچے کے بعد ہم نے شادی کا پلان کر لیا۔۔۔‘‘

    اس نے اتنی معصومیت اور بھولپن سے کہا کہ میری سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ کیا کہوں، وہ تو اللہ کا شکر تھا کہ عینی فوراً میرے پاس آ گئی۔ اس لڑکی سے خیریت معلوم کی اور شکریہ ادا کیا کہ اس نے مجھے کمپنی دی۔ میری امی یہاں نئی نئی آئی ہیں۔۔۔اس نے اتنا ہی کہا اور چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے میر ا ہاتھ پکڑ کر باہر آئی۔

    ’’امی، میں نے آپ کی باتیں سن لی تھیں، شکر ہے میں بروقت پہنچ گئی، ویسے امی آپ بھی عجیب و غریب سوال کر بیٹھتی ہیں۔۔۔!‘‘

    ’’ارے میں نے کیا کیا، خود ہی تو کہہ رہی تھی کہ شادی کو ایک سال ہوا ہے، حیرت کی بات نہیں ہے کیا، د وبچے ہیں او روہ بھی ایک۔۔۔‘‘ امی جان ،میری پیاری امی اتنا حساب کتاب لگا کر اپنے ذہن پر بوجھ نہ ڈالیں، پہلی بات یہاں ذاتیات پر باتیں نہیں کرتے او رپھر ان کے بچوں کا شادی سے تعلق نہیں ہوتا۔ وہ تو اس نے جلدہی شادی کر لی، ہو سکتا ہے دس سال بعد کرتی۔۔۔مجھے ایسا محسوس ہو امیں کسی اور پلانیٹ (Planet) میں آگئی ہوں یا اتنی بوڑھی ہو گئی ہوں کہ عقل جاتی رہی ہے۔

    ’’اچھا چھوڑیں ان باتوں کو، اب میں آپ کو شاپنگ مال میں فوڈ کورٹ کے پاس چھوڑکر تھوڑا سا کام کرکے آتی ہوں، آپ مزے سے کھاتی پیتی رہیں، میں شانی کو ساتھ لے کر جاؤں گی ورنہ یہاں آپ کا جینا حرام کر دےگا اور ہاں میری ماں، اب کسی اور سے مت پوچھ بیٹھیےگا، بچے شادی سے پہلے کیوں اور کیسے ہوئے؟‘‘ اس نے ہنستے ہوئے کہا او ربچے کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھ گئی۔

    آدھ گھنٹے تک عینی لوٹ کر نہیں آئی۔ مجھے تو خیر جگہ مل گئی تھی لیکن وہاں اتنا ہجوکہ تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی، میری میز کے گرد تین خالی کرسیاں تھیں اور میرا کھانا بھی ختم ہو چکا تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا، وہاں موجود دو خواتین ایک بچے کے ساتھ میرے اُٹھنے کا انتظار کر رہی ہیں۔

    میں نے نظریں اٹھا کر دیکھا، عادتاً اور رسماً انھوں نے مسکرا کر ’’ہائے‘‘ کہا لیکن یہ نہیں پوچھا کہ میں اٹھنے والی ہوں یا نہیں۔ میں نے خود ہی پہل کی:

    ’’میں اپنی بیٹی کی واپسی کا انتظار کر رہی ہوں، وہ اب آتی ہی ہوگی، آپ چاہیں تو یہاں بیٹھ جائیں۔‘‘

    ان کے چہرے پرخوشی کی لہر دوڑ گئی اور شکریہ ادا کرتے ہوئے ان میں سے ایک لڑکی نے اپنی نشست سنبھالی اور دوسری بچے کے ساتھ پیزا لینے قطار میں لگ گئی۔ جاتے جاتے اس نے مڑ کر بڑے پیار سے میرے پاس بیٹھی ہوئی لڑکی کو دیکھا۔مجھے ایسا لگا جیسے وہ اپنی اپنی سی ہے، خالص پاکستانی، لیکن عینی کے خوف سے میں خاموش رہی۔ اس نے پہلے بھی مجھے بتایا تھا کہ ’’یہاں بہت سے Spanish اور Mexican لوگوں کے بال کالے ہوتے ہیں اور ان پرپاکستانی یا ہندوستانی ہونے کا گمان ہوتاہے۔ ہسپتال میں ایک عرصے تک دوسری ’’کو لیگز‘‘ مجھے بھی Spanish سمجھتی تھیں۔‘‘

    میں نے اپنے پاس بیٹھی ہوئی لڑکی سے کہا۔ ’’اس کا بچہ بہت پیارا ہے!‘‘ اس نے مسکراکر جواب دیا۔ ’’وہ ہمارا بچہ ڈیوڈ ہے، میں باپ ہوں اور سوزی ماں۔۔۔‘‘ شکر ہے اس وقت عینی آ گئی اور اس نے آتے ہی میرے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے جھک کر اُردو میں کہا۔

    ’’میری پیاری ماں، اب جلدی سے مسکراکر اسے ’’بائے‘‘ کہیں اور چہرے پر پھیلی ہوئی حیرت اور بے شمار سوالیہ نشانات کو مٹا کر میرے ساتھ چل پڑیں۔‘‘

    ’’سنو بیٹا۔۔۔‘‘ میں نے باہر نکلتے ہی کھل کر سانس لیتے ہوئے کہا ۔’’اب تم ہی بتاؤ، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘

    اس نے اپنے بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گھر چلیں۔ اب اس کے سونے کا وقت ہو چکا ہے، سو جائے تو آرام سے باتیں کریں گے۔‘‘

    گھر واپس آکر شانی کو سلانے کے بعد، وہ میرے کمرے میں آئی۔

    ’’امی۔۔۔وہ غلط نہیں کہہ رہی تھی، وہ ان دونوں کا بچہ تھا۔ آپ جانتی ہیں نا بہت سی لڑکیاں لسبین (Lesbian) ہوتی ہیں او ریہاں ان میں سے بعضوں کو فیملی بنانے کا بھی شوق ہوتا ہے۔۔۔!‘‘

    ’’وہ تو ٹھیک ہے مگر۔۔۔؟‘‘

    ’’آپ میری پوری بات تو سنیں۔۔۔پھر یہ کہ یہاں ایسے بینک بھی ہیں جہاں سے۔۔۔میرا مطلب ہے ’’اسپرم بینک‘‘ پھر ہوتا یہ ہے کہ ان میں سے جو لڑکیاں ماں بننا پسند کرتی ہیں وہ ایک پروسیس کے تحت حاملہ ہو جاتی ہیں، اس طرح اپنی کوکھ سے جنم دینے والی لڑکی ماں بن جاتی ہے اور دوسری باپ کے فرائض انجام دیتی ہے۔‘‘ مجھ پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔

    ’’چلو شکر ہے تم وقت پر آ گئیں ورنہ میں تو دیوانی ہو جاتی سوال پوچھ پوچھ کر۔۔۔‘‘

    دوسرے دن اس کی دوستوں نے میرے اعزاز میں ایک ہوٹل میں کھانے کا اہتمام کیا تھا اور دوسری بہت سی دوستوں کو بھی بلایا تھا۔ عینی سب کو یہ لطیفے سنا کر محظوظ کر رہی تھی، لڑکیوں کی ہنسی تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی، ایک بردبار سے ذرا بڑی عمر کی خاتون مسز طارق نے کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

    ’’ارے یہ گوریاں بڑی بے حیا ہوتی ہیں، ان کا ہمارا میل جول ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘

    ’’مگر آنٹی یہ باتیں تو اب پاکستان میں بھی عام ہیں۔‘‘ چلو ہٹو، دو چار لڑکیاں ہوں گی مگر ساتھ رہ کر بچے تو پیدا نہیں کرتیں۔۔۔‘‘

    ’’آنٹی وہاں بھی اگر اسپرم اور اووا بینک (sperm & ova bank) کھل جائیں تو آپ دیکھیں گی۔۔۔‘‘ ایک لڑکی نے انہیں چھیڑنے کی خاطر کہا مگر جملہ پورا ہونے سے پہلے انھوں نے غضب ناک آنکھوں سے اسے دیکھا اور برس پڑیں۔

    ’’بس لڑکی بس، لڑکیوں کی زبان سے ایسی باتیں اچھی نہیں لگتیں۔‘‘ اتنے میں ایک نہایت خوبرو لڑکی، دیدہ زیب لباس میں ملبوس، سر پر نہایت سلیقے سے دوپٹہ لیے ہوئے ان کے لیے کھانے کی پلیٹ لے کر آئی۔

    ’’یہ میری بیٹی ہے ’’سوسن‘‘ ایلے سے تعلیم مکمل کی اور اب وہاں ملازمت کر رہی ہے۔ کبھی کبھی ویک اینڈ پر میرے پاس آ جاتی ہے۔‘‘ مجھے اس کا چہرہ بہت شناسا سا لگا۔

    ’’تمہار اچہرہ بہت شناسا لگ رہا ہے، پچھلے ہفتے تم ۔۔۔میرا مطلب ہے تم سے بہت ملتی جلتی لڑکی مال میں ملی تھی۔‘‘

    اس نے ایک ادا سے مسکرا کر میری طرف دیکھا۔ ’’سویٹ آنٹی پچھلے ہفتے میں یہاں دو دنوں کے لیے آئی ضرور تھی مگر کسی مال میں نہیں گئی، اپنی مما کے پاس آتی ہوں تو نہیں چاہتی کہ ایک لمحہ بھی ضائع ہو۔‘‘

    ’’اب اسے ہی دیکھ لیں۔۔۔‘‘ مسز طارق نے تحسین آمیز اور شفقت بھری نظروں سے بیٹی کو دیکھتے ہوئے کہا۔

    ’’میں نے اس پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں کی، یہیں پیداہوئی اور اسی ماحول میں رہی ہے مگر مجال ہے جو بری صحبت اختیار کرے۔۔۔اور تو اور اپنے ساتھ کام کرنے والے لڑکوں سے بھی ضروری باتوں کے سوا کوئی واسطہ نہیں رکھتی۔۔۔‘‘

    عینی کی سہیلی اسما کو مسز طارق سے اللہ واسطے کا بیر تھا۔ ’’آنٹی وہ تو یہاں کی تمام مسلمان لڑکیاں عام طور پر امریکن لڑکوں سے زیادہ گھل مل کر باتیں نہیں کرتیں، ایک حد تک ہی دوستی رہی ہے ہماری۔۔۔بلکہ آج کل تو زیادہ تر لڑکیاں حجاب لینے لگی ہیں۔۔۔‘‘

    ’’اے حجاب والیوں کو بھی دیکھا ہے میں نے۔۔۔‘‘ انھوں نے بڑی تمکنت سے کہا:

    ’’میں نے اسے کبھی حجاب لینے کے لیے نہیں کہا مگر تم سب نے دیکھا ہے اسے، مجال ہے جو ذرا دوپٹہ سر سے اتر جائے۔‘‘

    ’’ایلے میں کہاں رہتی ہو بیٹا؟ اگلے ہفتے پاکستان جانے سے پہلے میرا دو دن کا Stay ہے وہاں میں اپنی دوست کے پاس رہوں گی۔‘‘ میں نے بات بگڑنے سے پہلے گفتگو کا رخ دوسری طرف موڑ دیا۔

    ’’آنٹی میں خود آکر آپ کو اپنے گھر لے جاؤں گی۔ بس ایک کال دے دیجیےگا مجھے۔۔۔‘‘ اس نے خوش اخلاقی سے کہا، مسز طارق کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی جیسے کہہ رہی ہوں ’’دیکھا یہ ہے میری تربیت۔‘‘

    دوسرے ہفتے لاس اینجلس ایئر پورٹ پر پہنچتے ہی وہ پھر نظر آئی۔ اس نے نہایت خوش رنگ گلابی ٹاپ اور نیلی جینز پہنی ہوئی تھی۔ آنکھوں میں نیلے رنگ کی لینسزتھیں، اس کے خوب صورت کالے بال ہوا میں لہرا رہے تھے۔ میں تیزی سے بھاگتی ہوئی اس کے قریب گئی،

    ’’تم۔۔۔سوسن ہو۔۔۔نا؟کتنا عجیب اتفاق ہے، میں ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ تمھیں کال کروں لیکن تم غالباً فینکس(Phoenix) جا رہی ہو۔۔۔؟‘‘ اس نے سنی ان سنی کی مگر مسکراکر میری طرف دیکھا اور قبل اس کے کہ کچھ بولتی اس کی دوست الیزبتھ اپنی گود میں اسی ننھے منے گول مٹول پیارے سے بچے کو لے کر آ گئی، بچہ ہمک کر سوسن کی گود میں آ گیا جسے اس نے زور سے چمٹا لیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے