اللہ خیر کرے
اُسے دفتر پہنچے یہی کوئی پندرہ بیس منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بج اُٹھی۔
محسن کو ایک عرصے کے بعدیاد آیا ‘دِل کی دھڑکن کبھی کبھی سینے سے باہر بھی اُبل پڑتی ہے۔۔۔ دَھک‘ دَھک ‘دَھک۔۔۔ یوں‘ جیسے کوئی زور زور سے میز پر مکے برسا رہا ہو۔
رات بھر کی بے آرامی آنکھوں میں چبھ رہی تھی اور صبح صبح ایک دَھڑکا تھا جو لبنیٰ نے ساتھ کر دیا تھا۔
ٹیلیفون کی گھنٹی دوسری بار بجی۔ اُدھر لبنیٰ ہی تھی جو اُسے گھر جلدی پہنچنے کو کَہ رہی تھی۔
جب وہ اَپنے میز کی دراز کو تالا لگا رہا تھا تو اِس بات پر بھی پیچ و تاب کھا رہا تھا کہ لبنیٰ کو ڈاکٹر ساجدہ پر ہی اعتماد کیو ں تھا؟۔۔۔ حالاں کہ وہ جانتا تھا ‘اِعتماد کیا نہیں جاتا‘وہ تو ہو جایا کرتا ہے اور زورا زوری سے اعتماد کہیں ٹکا بھی دِیا جائے تو وہ وسوسوں کے سیج پر پہلو ہی بدلتا رہتا ہے۔
مگر ڈاکٹر ساجدہ ہی کیوں؟
وہ اس اُلجھاوے سے نہ نکلنے پرتُلا بیٹھا تھا۔
تمام لیڈی ڈاکٹرز تو ایک ہی جیسی ہو تی ہیں۔۔۔ اور جو کام ڈاکٹر ساجدہ نے کرنا ہے ‘وہ کام کوئی اور بھی تو کر سکتی ہے۔
اس نے خود کو وہی دلیل دِی‘ جو صبح لبنیٰ کو دِی تھی ‘اور لبنیٰ خوفزدہ ہو کر اُسے تکنے لگی تھی۔
لبنیٰ رات بھر کراہتی رہی تھی‘ نہ خود سوئی نہ اسے سونے دیا۔ محسن نے جب ڈاکٹر ساجدہ کی بابت ہسپتال والوں کا کہا لبنیٰ کو سنایا کہ وہ شام چار بجے کے بعد ہی مل سکیں گی تو لبنیٰ نے ترت فیصلہ سنا دِیا تھا:
’’شام ہی کو ہسپتال چلیں گے‘‘۔۔۔
ہونہہ شام کو؟۔۔۔
وہ بڑبڑایا ‘بیگ اُٹھایا اور دفتر سے نکل کھڑا ہوا۔
’’اب کیا ہو گا؟‘‘
بےچینی اس کے بدن میں تیرنے لگی۔
گزشتہ سارے عرصے میں ڈاکٹر ساجدہ ہی لبنیٰ کا چیک اَپ کرتی آئی تھی۔ سارے ٹسٹ اس کے سامنے ہوے اور اب آخری مرحلہ تھا۔۔۔
اور لبنیٰ کسی اور پر بھروسہ کرنے کو تیار نہ تھی۔
جب وہ گھر میں داخل ہوا تو لبنیٰ بیڈ روم ہی میں تھی۔ محسن پہلی مرتبہ اُسے ایک نئے زاویے سے دِیکھ رہا تھا۔
چھوٹے قد اور بےتحاشہ بڑھے ہوے پیٹ نے لبنیٰ کو مضحکہ خیز بنا دیا تھا۔ وہ ایک ہاتھ گھٹنے پر ٹکا کر فرش پر پڑے کُشن کو اُٹھانا چاہتی تھی مگر ہاتھ گھٹنے سے قدرے اوپر ہی ٹکا پائی۔ کراہتے ہوے بس اِتنا جھک سکی کہ محض دو اُنگلیاں کشن کو چھو رہی تھیں۔
محسن آگے بڑھا‘ لبنیٰ کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر صوفے پر بیٹھنے میں مدد دی ‘اور خود میز گھسیٹ کر سامنے بیٹھ گیا۔
اب اس کے چہرے پر لبنیٰ کے لیے ہم دردی اور تشویش گتھم گتھا ہو گئے تھے۔
’’تمہیں خود اپنا خیال رکھنا چاہئے‘‘
اس کے لیے صوفے پر جم کر بیٹھنا مشکل ہو رہا تھا۔ محسن اٹھا‘ فرش پر پڑے کشن کو اٹھایا اور اس کی پشت کے ساتھ ٹکا دیا۔ اگرچہ اب بھی وہ صوفے کے اگلے کنارے پر بیٹھی ہوئی تھی ‘مگر کمر کشن کے ساتھ ٹیک کر بہتر محسوس کر رہی تھی۔
وہ مسکرا دی۔۔۔
اور محسن کو لگا‘ یہ مسکراہٹ تو محض اس کے لیے تھی۔ ورنہ وہ اندر سے بہت ڈری ہوئی تھی کہ اسے تو ٹنچر کی بو تک سے بوکھلاہٹ ہونے لگتی تھی۔۔۔
اور اب اسے ہسپتال جانا تھا اور ایک بے بی کو جننا تھا۔ جس کے بارے میں ڈاکٹر ساجدہ کا خیال تھا کہ وہ صحیح رخ پر نہیں تھا۔
اس کا دل بیٹھا جارہا تھا۔
گزشتہ ایک مہینے سے وہ بہت مشکل میں تھی۔ چلنا چاہتی تو چلنا دوبھر ہو جاتا۔ یوں لگتا ‘پیٹ کا سارا بوجھ نیچے کی جانب تھا اور کوئی ٹھوس شے تھی جو اندر ہی اندر سے پشت میں گھسی چلی جاتی تھی اور میٹھا سا درد پیدا کر رہی تھی۔ رات لیٹتی تو عین پہلو اور پسلیوں کے نیچے درد کی شکایت کرتی۔
وہ ہسپتال کے کئی چکر لگا آئے تھے اور ہر دفعہ یہ کَہ کر تسلی دے دی گئی۔۔۔ کہ ’’بعض اوقات یوں ہو جاتا ہے۔۔۔ پریشانی کی کوئی بات نہیں‘‘
لبنیٰ حد درجہ پریشان تھی۔
ان کی شادی کو پونے دو سال گزر چکے تھے۔
اور ان پونے دو سالوں میں لبنیٰ اور محسن ایک دوسرے کے بہت عادی ہو چکے تھے۔ اِس قدر کہ لبنیٰ کی ماں ‘بیٹی کے میکے نہ آنے پر ناراض ہو گئی تو محسن کو دفتر سے چھٹی لینا پڑی۔۔۔ اور جتنے دن لبنیٰ میکے رہی‘ محسن بھی رہا۔ اکیلے گھر رہتا تو کیا کرتا؟۔۔۔ دفتر کے لیے تیار کیسے ہوتا‘ واپس پلٹتا تو راہ کون دیکھ رہا ہوتا؟۔۔۔ کپڑے بدلنے میں مدد کون کرتا ؟۔۔۔کھانا کون چنتا اور ہنس ہنس کر میٹھی میٹھی باتیں کون کرتا؟ ادھر محسن کو پیچھے رہ جانا عجب لگ رہا تھا تو اُدھر لبنیٰ نے بھی صاف کَہ دیا تھا۔
’’آپ ساتھ چلیں گے ‘تو چلوں گی۔ ورنہ میں بھی نہیں جارہی‘ ابھی فون کیے دیتی ہوں۔‘‘
یوں ایک دوسرے کو دیکھتے ‘ایک دوسرے کا اِنتظار کرتے‘ ایک دوسرے کے قہقہوں میں قہقہے ملاتے پونے دو سال گزر گئے۔
بہ ظاہر اِن کی رفاقت مثالی تھی۔ ہموار ‘مطمئن اور پُر سکون زِندگی‘ گہرے پانیوں کی طرح۔۔۔ لبنیٰ کی جانب سے ایک وارفتگی تھی ‘جو ٹھہرے پانی میں دِھیرا سا اِرتعاش پیدا کرتی تھی۔۔۔ مگر محسن کو یوں لگتا‘ کچھ ہے ‘جو نہیں ہے۔۔۔ ایسا‘ جو دِل کو جکڑ لے اُسے مسلے اور مسلتا ہی چلا جائے۔
’’بچہ ہونا چاہئے‘‘
یہ خواہش پہلے لبنیٰ کے من میں جاگی۔ ابھی پہلے سال کی دوسری تہائی بھی پوری طرح نہ گزر پائی تھی کہ اس کی خواہش شدید ہوتی چلی گئی ۔ جب پہلا سال ختم ہو رہا تھا اور اس کے سہیلیاں اِشاروں کنائیوں میں اُس سے پوچھتی تھیں:
’’سناؤ لبنیٰ۔۔۔ کوئی نئی خبر؟۔۔۔ کچھ ہے نا؟۔۔۔‘‘
تو اس کا دِل بیٹھ بیٹھ جاتا تھا اور وہ سچ مچ رو دِیتی تھی۔
دوسرے سال کی پہلی چوتھائی میں ہی خواہش کی شاخ پر اُمید کی کونپل مسکرا دی۔ اب ایک سرشاری تھی جو اُس کے بدن پر دھنک کی طرح برس رہی تھی۔ وہ سوتی تو خوب صورت خواب دیکھتی ‘بیدار ہوتی تو مزے مزے سے سارے خواب محسن کو سناتی۔۔۔
یوں بعد میں محسن بھی ایک ننھے منے وجود کے اِنتظار کی لذّت محسوس کرنے لگا تھا۔
اور اب لبنیٰ محسن کے سامنے تھی تو اس طرح کہ اُس کا چہرہ پسینے سے شرابور ہو رہا تھا۔ بال جو کبھی نفاست سے کنگھی کیے ہوے کندھوں پر جھولتے رہتے تھے‘ سختی سے پیچھے کی جانب بندھے ہوے تھے اور یوں لگتا تھا جیسے خُون نچڑے زرد چہرے پر چھائیاں ہی چھائیاں ابھر آئی ہوں۔
محسن جو کچھ دِیر پہلے ہم دردی اور تشویش سے گتھم گتھا تھا ‘اب لبنیٰ کو دیکھ کر عجب سی الجھن محسوس کر رہا تھا۔ اسے خُوشی تھی کہ وہ جلد ہی باپ بننے والا تھا مگر لبنیٰ کا بےڈھب بدن اور بجھا بجھا چہرہ اس کے اندر حیران کن اُکتاہٹ اُتار رہا تھا۔
لبنیٰ بہت زِیادہ خوبصورت کبھی بھی نہ رہی تھی۔ مگر کنوار پنے میں جوانی کا جوبن ایسا مرحلہ ہوتا ہے جب ہر لڑکی حسین لگتی ہے ۔اور ایسا مرحلہ لبنیٰ پر بھی آیا تھا۔۔۔ اور عین اس مرحلے میں لبنیٰ محسن کی توجہ حاصل کرنے میں کام یاب ہو گئی تھی۔
محسن ایسا لا اُبالی بھی نہ تھا کہ جسے دیکھا دِل پھینک دیا۔ مگر لبنیٰ میں کچھ نہ کچھ تھا جو اسے لبنیٰ کو زِندگی بھر کا ساتھ بنانے پر مجبور کر رہا تھا۔
کرنل فاروق‘ محسن کے ابا جی کا بہت پہلے ہم جماعت وہم مکتب رہا تھا۔ ان کے گھر کے ساتھ جو حویلی مُدّت سے خالی پڑی رہی تھی ‘کبھی یہی کرنل صاحب کا آبائی گھر تھا۔ مگر عمر بھر کی مصروفیات نے انہیں پیچھے پلٹنے نہ دیا۔
ریٹائرمنٹ اور عمر کا ڈھلنا دو ایسے عوامل ہوتے ہیں جو اِنسان کے اَندر اُتھل پتھل مچا دیتے ہیں۔ کرنل صاحب بھی اس عمل سے گزر رہے تھے۔ کبھی ان کی مونچھوں کے ساتھ ان کی نگاہیں بھی اوپر ہی کو اٹھی ہوئی تھیں‘ مگر اب وہ نیچے بھی دیکھنے لگے تھے۔۔۔ اور اس دیکھا دیکھی میں ‘انہیں اپنے آبائی گاؤں کو بھی دیکھنے کا خیال آیا تھا۔
’’کس کے پاس جاکر ٹھہریں۔۔۔؟‘‘
محسن کے ابا یاد آئے۔ ایک ہی ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھا تھا۔ یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا۔ محسن کے ابا نے بچپن کے ہم جماعت کو دیکھا تو بِچھ بِچھ گئے۔
کرنل صاحب کا پورا گھرانہ فوجی کلچر میں رَنگا ہوا تھا۔ وہی نشست برخاست‘ وہی رَکھ رَکھاؤ ‘وہی گفتگو میں دلائل کے ساتھ انگریزی لفظوں کا سہارا۔ کرنل صاحب جس قدر اونچے لمبے تھے‘ ان کی بیگم اسی قدر ٹھگنی۔ جب کرنل صاحب محض کیپٹن تھے تو یہ پستہ قد عورت ایک میجر جرنل کی بیٹی تھی۔ بس یہی خوبی تھی جس نے اس وقت کیپٹن کو اس کا شوہر بنا دیا۔ کہتے ہیں فوج میں سفارش نہیں چلتی مگر بہ ہر حال فوجی بھی اِنسان ہی ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے سے ربط ضبط رَکھتے ہیں ‘سنتے ہیں‘ محسوس کرتے ہیں اور میجر جرنل کا داماد ہونا بھی ایک ایسی کوالیفیکیشن تھی کہ کیپٹن کے بعد کے کئی مرحلے بڑی خوبی سے طے ہوتے چلے گئے۔ میجر جرنل صاحب یوں تو جلد ریٹائر ہو گئے مگر مردہ ہاتھی سوا لاکھ کا نکلا اور وہ کیپٹن جو ‘اُن کا داماد تھا‘ کرنل بن چکنے تک اَپنے سر پر انہی کا دست شفقت محسوس کرتا رہا۔
لبنیٰ نہ تو ساری ماں پر گئی تھی نہ باپ پر۔ قد چھوٹا رہ گیا تھا تو بدن کی تراش اور اُبھار جاذبِ نظر تھے ‘جو چھوٹے قد پر بھی جچ رہے تھے۔ چہرے کے نقوش زیادہ متناسب نہ سہی مگر بُرے نہ لگتے تھے۔۔۔ لیکن اس سب سے بڑھ کر جو چیز لبنیٰ کو خوبصورت کَہ دِینے کا باعث بن سکتی تھی وہ اس کی نیلگوں آنکھیں تھیں۔
محسن پہلے فوجی زِندگی کے رکھ رکھاؤ سے متاثر ہوا تھا اور پھر لبنیٰ سے۔
وہ سلجھی ہوئی گفتگو کا فن جانتی تھی اور مختلف موضوعات پر بات کرتے ہوے نظریں اس پر جمائے رَکھتی تھی۔
اور غالباً انہی گفتگوؤں کے درمیان ایک لمحہ ایسا آیا تھا‘ جب محسن نے نیلی آنکھوں کی گرفت اندر بہت اندر محسوس کی تھی اور انہی نیلی آنکھوں میں جذب ہو کر اس نے لبنیٰ کو دیکھا تھا تو وہ پوری کی پوری حسین لگنے لگی تھی۔۔۔
اس قدر حسین کہ اس کے پیچھے زیبو کہیں چھپ گئی تھی۔
زیبو۔۔۔ وہی کہ جس کا بھائی دوبئی گیا ہوا تھا اور اس کی کمائی سے ‘ان کے اَبا نے کرنل کی حویلی خرید لی تھی۔۔۔
زیبو‘ کہ جس نے محض ابھی میٹرک پاس کیا تھا مگر گاؤں کی مست ہواؤں نے اس کے بدن میں عجب طرح کی مستی بھر دِی تھی۔ اِس مستی میں ایک مہک تھی کہ جو اُٹھتی تھی تو اٹھتی ہی چلی جاتی تھی۔۔۔ اس کی ہنسی میں کھنک تھی۔ نگاہیں چمک سے لبا لب بھری ہوئی تھیں۔ اور اس کی جلد پیتل کے چمکتے ہوے چھنّے کی طرح چکّنی تھی۔۔۔ یوں لگتا تھا ‘وہ انگور کے اس دانے کی مانند تھی جو میٹھے رَس سے تن گیا ہو۔
جب گھر کی دِیواریں تک سانجھی ہوں تو دِن میں سامنا ہونے کے بیسیوں مواقع نکل آتے ہیں۔ محسن نے جب بھی اُسے دِیکھا‘ نظر جما کر نہ دیکھ سکا۔ ہر دفعہ مرعوب ہوا۔ اس کے بدن سے اٹھتی مہک نے اسے بےقابو کیا۔ من میں ایک خواہش پیدا ہوتی ‘کاش وہ اُسے چھو سکے‘ اس کی تنی ہوئی چکنی جلد کے اندر ٹھاٹھیں مارتے رَس کو محسوس کر سکے۔ اسے لگتا اس نے زیبو کو چھو لیا تو اس کی پوروں میں اس کے بدن کا رنگ رس اُتر آئےگا۔ محسن اس کی جانب قدم بڑھاتا تھا تو الٹے پڑتے تھے۔ نظر تھی کہ پھسل پھسل جاتی اور دِل اُچھل اُچھل کر حلق سے باہر جھانکنے لگتا۔ جب کہ زیبو اُس سے بےخبر اور بےنیاز ’ماسی‘ماسی‘ کی صدا لگاتی‘اَپنے مطلب کی بات کہتی‘ چھلاوے کی طرح غائب ہو جاتی۔ تب محسن کے بدن میں اینٹھن ہونے لگتی۔ پورا آنگن جو کچھ لمحے پہلے جگمگاتا ہوا محسوس ہوتا تھا ‘بجھ بجھ جاتا اور وہ اِنتہائی خلوص سے حسرت کرنے لگتا۔ کاش یہ آنگن یونہی جَگ مَگ جَگ مَگ کرتا رہتا۔ یونہی مہک اٹھتی رہتی۔
مگر لبنیٰ یوں آئی کہ زیبو کو اپنے پیچھے چھپا لیا تھا۔
لبنیٰ کے بدن میں اتنی اہلیت نہ تھی جو وہ زیبو کو اپنے پیچھے چھپا سکتا۔ مگر محسن جو پہلے ہی فوجی زِندگی کے رکھ رکھاؤ سے متاثر ہو چکا تھا‘ باتوں باتوں میں اَپنی ساری توجہ نیلگوں آنکھوں پر مرکوز کر بیٹھا تھا اور ان میں جذب ہو کر اُس نے لبنیٰ کو دیکھا تھا تو اسے اس کے پیچھے چھپی زیبو بالکل نظر نہ آئی تھی۔
اور اب جب کہ لبنیٰ محسن کے سامنے صوفے پر بیٹھی تھی تو اس کی آنکھیں بھی بجھی بجھی تھیں اور چہرہ بھی۔۔۔ وہ پوری لبنیٰ کو دِیکھ سکتا تھا اور یہی غلطی وہ عین ایسے عالم میں کر بیٹھا تھا جب اسے ایک نئی خُوشی نصیب ہونے والی تھی۔ نہ جانے کیوں ‘ایک عجب سی مہک کی گھٹا یادوں کی فضا سے اٹھی تھی اور اس پر چھا کر سارا بدن بھگو گئی تھی۔۔۔ اور ایک چمک تھی جو آنکھوں میں سما رہی تھی۔۔۔ اور پوریں تھیں کہ چھولینے کی خواہش میں بے اختیار اُٹھ رہی تھیں۔ اسی بے اختیاری میں اس نے لبنیٰ کے چہرے کو چھو لیا‘ جو پسینے میں شرابور ہو رہا تھا۔
عجب طرح کے درد تھے جو لبنیٰ کے بدن سے اُٹھ رہے تھے۔
’’اب ہسپتال میں شرابور ہو رہا تھا۔
عجب طرح کے درد تھے جو لبنیٰ کے بدن سے اُٹھ رہے تھے۔
’’اب ہسپتال چلنا چاہیے‘‘
’’ہاں مگر سنٹرل ہسپتال میں ‘کہ ڈاکٹر ساجدہ دِن کو وہاں ہوتی ہیں۔ میں نے ٹیلیفون پر بات کر لی ہے۔‘‘
اس کے خیال میں وہ اتنا اچھا ہسپتال نہ تھا مگر مجبوری تھی۔ ہسپتال پہنچے چیک اَپ کیا گیا۔ پچھلی رپورٹیں دیکھی گئیں جو لبنیٰ ساتھ لائی تھی۔ اور فوراً لیبر روم لے جایا گیا۔
آنے والا ایک ایک لمحہ اس کی بے چینیوں کو بڑھا رہا تھا۔
اچانک اس کی نگاہ سیڑھیوں پر پڑی۔ ڈاکٹر ساجدہ کے پیچھے ایک نرس نمودار ہو رہی تھی۔ اُسے یوں لگا‘ جیسے سارے میں روشنی پھیل گئی ہو ۔۔۔ وہ ۔۔۔ وہ تو زیبو تھی۔
اس کے اندر بےچینیوں کی ہیئت یک دَم بدل گئی۔
وہ بےاختیار آگے بڑھا۔ اِتنی تیزی سے کہ پونے دو سال کا سارا فاصلہ ایک ہی جست میں پھلانگ گیا۔ مہک بھی اپنا اثر دِکھا رہی تھی۔ پوریں چھو لینے کی خواہش میں اُس کی سمت اُٹھنا چاہتی تھیں۔
ڈاکٹر ساجدہ کا سپاٹ چہرہ اُس کی جانب مڑا اور کچھ کہے بنا آگے بڑھ گیا۔
زیبو رُک گئی۔۔۔ اُسے دیکھا۔۔۔ پہنچانا۔۔۔ کہا:
’’اوہ محسن صاحب خیریت تو ہے نا؟‘‘
وہ ہڑبڑا گیا۔
اٹھی ہوئی پوریں لیبر روم کی جانب اِشارہ کرتے ہوے کپکپا رہی تھیں۔
زیبو کچھ سمجھتے ہوے کہنے لگی۔
’’اچھا اچھا جو اندر پیشنٹ ہے ‘وہ آپ کی بیگم ہیں‘ فکر نہ کریں ‘اللہ خیر کرےگا‘‘
اور وہ پاس سے گزر گئی۔۔۔
یہ سب کچھ ایک لمحے میں ہوا۔
روشنی پھیلی‘
مہک اٹھی‘
پوریں جاگیں
اور۔۔۔ وہ لمحہ گزر گیا۔۔۔
مگر یوں کہ محسن پر قیامت ڈھا گیا تھا۔
’’اللہ خیر کرےگا‘‘
اس کے کانوں میں دعائیہ جملہ گونج رہا تھا۔
اندر بہت ہی اندر ‘وہاں جہاں کچھ مَسلا گیا تھا‘ کُچلا گیا تھا ‘ایک سوئی ہوئی خواہش ڈھٹائی سے بڑبڑائی۔
اندر کی بڑبڑاہٹ کا مفہوم وہ نہ تھا‘ جو ابھی ابھی فضا میں بکھرا تھا اور کانوں میں گونج رہا تھا۔
’’لَاحَول وَلا قُوۃ‘‘
اُس نے جبر کر کے اندر کی بڑبڑاہٹ کو پرے پٹخ دیا اور اسی تصور کا ہیولا بنانے کی کوشش کی ‘جس میں لبنیٰ کے پہلو میں ننھا سا وجود کلکاریاں مار رہا تھا۔۔۔ اور جس میں ڈاکٹر ساجدہ کو مسکراتے ہوے اسے مبارک باد دے رہی تھی۔
اُسے ڈاکٹر کی مسکراہٹ زہر لگی۔ تصور بہک گیا تھا اب ڈاکٹر چپ چاپ کچھ کہے بغیر کھسک رہ تھی‘ وہ جسے دیکھ کر مسکرا دیا تھا۔۔۔
اور وہاں فقط کلکاریاں تھیں۔
’’نہیں نہیں۔۔۔‘‘
اس نے تصور کی مسکراہٹ نوچنا چاہی۔
بدن میں سراسیمگی اُتری جو بڑبڑاہٹ میں ڈھل گئی۔
پاس کھڑ اشخص ‘جو پہلے بھی چونک کر اسے دیکھ چکا تھا‘ ایک مرتبہ پھر اسے دیکھنے لگا۔ محسن اگرچہ سامنے دیکھ رہا تھا مگر اُسے محسوس ہوا کہ دیکھنے والے کی نظریں اس کے چہرے کو چھید ڈالیں گی۔
بار بار بدلنے والا پہلو ایک بار پھر بدلا۔۔۔ زور زور سے دہرایا۔
’’اللہ خیر کرے۔۔۔ اللہ خیر کرے۔۔۔‘‘
بدن کے اندر کی بڑبڑاہٹ ہونٹوں سے پھسلنے والے لفظوں سے کٹی ہوئی تھی۔ نہ صرف کٹی ہوئی تھی بل کہ اب تو اندر کھلم کھلا نفی ہو رہی تھی۔
وہ بہ ظاہر ’اللہ خیر کرے‘ کا ورد کر رہا تھا مگر دراصل وہ اندر کی گونجتی خواہش کے پھن کو ’’خیر‘‘ کے بھاری پتھر سے کچلنا چاہتا تھا۔ لوگ اسے دلاسا دینے کو آگے بڑھنا چاہتے تھے اور اُس نے سمجھا ‘اس کے اندر کی گونج سن لی گئی تھی۔۔۔ اُسے لگا‘ چاروں جانب سے نظریں اس کے بدن میں چھپی چور خواہش کو ٹٹول رہی تھیں۔
اس کی سراسیمگی بڑھتی چلی گئی۔ خیر کا بھاری پتھر تھا جو اس نے اٹھا رکھا تھا اور وہ سیڑھیاں تھیں ‘جن سے ابھی روشنی پھوٹی تھی‘ مہک اٹھی اور نتیجے میں پوریں جاگ پڑی تھیں۔
وہ دَرَڑ ‘دَرَڑ سیڑھیاں اُترتا جارہا تھا کہ پاؤں دوسرے پاؤں سے الجھ گیا اور وہ شڑاپ لڑھکتا نیچے جا پڑا۔
محض چند سیڑھیاں تھیں جن سے وہ پھسلا تھا اور نیچے جا پڑا تھا۔۔۔ مگر اسے لگ رہا تھا۔ وہ نیچے بہت لڑھکتا چلا جا رہا ہے۔
ننھے منے وجود کے میٹھے انتظار کی لذّت کڑواہٹ ہو گئی تھی۔
اور ایک مہک تھی جو کبھی اٹھتی تھی اور کبھی معدوم ہوتی تھی اور روشنی تھی جو کبھی بڑھتی اور کبھی گھٹتی تھی۔۔۔
اور دو چہرے تھے جو ایک ایک کر کے جل بجھ رہے تھے۔۔۔
اور وہ بار بار کَہ رہا تھا۔
’’اللہ خیر کرے۔۔۔اللہ خیر کرے۔۔۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.