Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

امن کے ہاتھ

محمود واجد

امن کے ہاتھ

محمود واجد

MORE BYمحمود واجد

    یہ ان دنوں کی بات ہے جب دوسری جنگ عظیم اپنے شباب پر تھی۔۔۔ فوجی کیمپ اور سپاہیوں کے دستے مکڑی کے جال کی طرح ملک کے چپے چپے میں پھیلا دیے گئے تھے۔ ہمارا علاقہ بھی اس کی زد سے نہ بچ سکا۔۔۔ ہمارے گاؤں کے قریباً چار پانچ فرلانگ کی دوری پر ایک بڑے سے گھنے باغ میں ملٹری کیمپ بننے لگا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یوروپین سپاہی آئے، کمانڈوز آئے، ملٹری کاریں آئیں اور خاصی چہل پہل ہو گئی۔ صبح و شام پریڈ ہوتے، فٹ بال اور ہاکی کھیلے جاتے، سیر اور تفریح ہوتی اور گویا تیزرو زندگی کی لہر دوڑ گئی تھی لیکن شاید اس چراغ کی لو کی طرح جو بجھنے سے پہلے ایک بار زور سے بھڑک اٹھے۔۔۔ یہ فوجیوں کی آخری پناہ تھی، جہاں سے وہ سیدھے میدان جنگ میں بھیج دئیے جاتے تھے اور اس لیے شاید ان میں زندگی کی رمق بھی بہت زیادہ تھی۔۔۔ وہ اپنے مستقبل سے بےنیاز اپنے حال میں مگن تھے۔۔۔ انہیں کسی چیز کا علم نہیں تھا، جیسے ان کا کوئی نہ ہو۔۔۔ ماں باپ، بھائی بہن، بیٹا بیٹی۔۔۔ کوئی بھی نہیں۔۔۔ انہیں کوئی فکر نہ تھی، جیسے انہیں کسی سے لگاؤ نہ ہو۔ گھربار، شادی بیاہ، تعلیم، تربیت۔۔۔ یہ سب فضول اور بےمعنی چیزیں ہوں۔ جیسے وہ حواس خمسہ رکھنے والے جانور ہوں، جو محبت نہیں کر سکتے، جن کے پاس جذبات نہ ہوں، جو اچھے اور برے کی تمیز سے عاری ہوں۔۔۔ وہ کھانے پینے کی چیزوں کو بری طرح ضائع کرتے، وہ پیسوں کو ٹھیکری کی طرح لٹا دیتے، ایک کی جگہ دس دیتے، دس کی جگہ سو اور جہاں خرچ نہیں کرنا ہے وہاں بھی خرچ کرتے۔۔۔ اور گویا انسانوں کو یہ تعلیم دے رہے تھے کہ جب زندگی کا اعتبار نہ رہے، موت کا دن متعین ہو جائے، تو دنیا کی کسی چیز سے محبت نہیں کرنی چاہیے، کسی سے مروت نہ برتنی چاہیے۔ سارے لطیف جذبات کو کچل ڈالنا چاہیے، ارمانوں کا گلا گھونٹ دینا چاہیے اور اپنے کو خود فریبی میں مبتلا کرکے قہقہے لگانا چاہیے تاکہ موت کو بھی ایسی زندگی پر پیار آ جائے۔

    ہمارا گاؤں اس علاقے کا مہذب ترین گاؤں تھا۔۔۔ رہن سہن، تعلیم، تربیت، کھیل کود، کسی چیز میں ایک شہری زندگی سے پیچھے نہ تھا اور پھر چونکہ شہر سے اس کا فاصلہ بھی چند ہی میل کا تھا۔ اس لیے یہ شہر کا ایک محلہ سا معلوم ہوتا تھا، جو ذرا ہٹ کر الگ بس گیا ہو۔۔۔ فوجی کیمپ سے گورے سپاہی اکثر ہماری طرف آ جاتے تھے۔ پرانے خیال کے لوگ اکثر سراسیمہ سے ہو جاتے۔ چونکہ فوجی سپاہی اور خصوصاً گورے سپاہیوں کی دہشت پسندی ایک روایت کی طرح عرصہ سے چلی آتی تھی، لیکن میں اپنے تجربہ کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ میں نے انہیں بےضرر پایا۔۔۔ لاابالی پن اور بےفکری کے البتہ وہ عادی ہو چکے تھے لیکن یہ تو اس تعلیم کا اثر تھا جو انہیں صبح و شام دی جاتی تھی۔ ان گورے سپاہیوں میں طرح طرح کے لوگ تھے۔۔۔ کوئی فٹبال میں ماہر تھا کوئی ماؤتھ آرگن بڑی خوبی سے بجا لیتا اور کسی کو فوٹو گرافی سے دلچسپی تھی۔۔۔ کوئی گھنٹوں بیٹھ کر گاؤں کے جنوبی سمت میں بنے ہوئے ایک خوبصورت تالاب کا نقشہ گاؤں سمیت اپنی پنسل کی لکیر سے اتارتا رہتا اور کوئی پاس کے آموں کے باغ میں بیٹھ کر انگریزی گیت گاتا۔۔۔اور میں اکثر سوچا کرتا کہ ان فنون لطیفہ کو میدان جنگ سے کیا تعلق ہے۔۔۔۔ یہ آرٹ، یہ موسیقی، یہ ادب۔۔۔ کیا ان کا توپوں، ٹینکوں اور بموں سے بھی کوئی رشتہ ہے!

    ہمارے گاؤں کے مہذب لوگوں سے ان کے اچھے تعلقات تھے۔۔۔ اکثر ہمارے اور ان کے درمیان فٹ بال کا میچ ہو جاتا، کبھی ہاکی کا کھیل ہوتا اور اس طرح ہم گھل مل گئے۔ ان گورے سپاہیوں میں ایک سے مجھے بڑی دلچسپی پیدا ہو گئی اور وہ تھا گائیلس نامی سپاہی۔۔۔ بات یہ تھی کہ گائیلس ماؤتھ آرگن بڑی اچھی طرح بجا لیتا تھا اور مجھے بھی ہلکی پھلکی موسیقی سے بڑی دلچسپی رہی ہے لیکن گائیلس زیادہ تر ورڈسورتھ کی مشہور نظم ’’لوسی گرے‘‘ بجایا کرتا۔ جانے کیوں اسے اس نظم سے اتنا پیار کیوں تھا۔۔۔ شاید اس لیے کہ لوسی اس کی اپنی بچی کا نام تھا، لوسی جسے وہ ایک سال کی عمر میں چھوڑ کر فوج میں چلا آیا تھا۔ لوسی جس سے اس کو بےانتہا محبت تھی۔ لوسی جو اس کی کامیاب رومانی شادی کی نشانی تھی، لوسی جو اسے چھوڑ کر نہیں گئی تھی، بلکہ وہ اسے چھوڑ کر آیا تھا۔۔۔ اتنی دور۔۔۔ میدان جنگ میں اپنے پیار کرنے والے ہاتھوں سے اپنی لوسی جیسی کتنی لوسیوں کو مارنے ۔۔۔ لیکن وہ کیوں آیا تھا، مجھے یہ پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی اور شاید وہ اس کا جواب نہیں دیتا۔۔۔!

    دھیرے دھیرے ہمارے تعلقات بہت گہرے ہو گئے۔۔۔ گائیلس کی میں اکثر دعوت کر دیتا اور وہ بھی ہم سے بڑے خلوص سے ملتا۔۔۔ میرے بچے اسے انکل گائل کہا کرتے تھے۔۔۔ میری سب سے چھوٹی بچی سلمیٰ سے اسے پیار سا ہو گیا تھا۔ سلمٰی جو بمشکل آٹھ سال کی ہو گئی، سلمٰی جس میں اس نے اپنی لوسی کا چہرہ دیکھ لیا تھا۔۔۔ وہ اسے پیار سے سلومی کہا کرتا تھا۔۔۔ وہ جب بھی آتا میرے بچوں کے لیے کچھ نہ کچھ لیے آتا۔۔۔ کبھی بسکٹ، کبھی چاکلیٹ، کبھی ٹافی، کبھی دودھ کا ٹین۔ کبھی چھوٹے چھوٹے ماؤتھ آرگنس۔۔۔ میں ہر بار منع کرتا، لیکن وہ نہیں مانتا تھا اور میں بھی اس کی دل آزاری کے خیال سے یا خلوص کی نزر سمجھ کر خاموش ہو جاتا۔ وہ آتا تو اپنے مخصوص لہجے میں سلومی کو پکارتا اور پاس بٹھا کر دیر تک پیار کرتا رہتا۔ اس کے ریشم جیسے نرم، سنہرے بالوں کو سنوارتا، گالوں کو تھپتھپاتا اور سلومی سے ہلکی پھلکی انگریزی میں بات کرنے لگتا، وہ ہماری زبان مشکل سے بول سکتا تھا، ہاں اچھی طرح سمجھ لیتا تھا۔۔۔ سلمیٰ ایک دوسال تک کانونٹ میں انگریز اور غیر ملکی بچوں کے ساتھ پڑھ چکی تھی۔ اس لیے انگریزی بول لیتی تھی۔۔۔ سلمیٰ کے لیے انکل گائل پیاری پیاری تصویریں لاتے۔۔۔ مختلف ممالک کے چھوٹے چھوٹے بچوں کی خوبصورت پھولوں کی اور وہ انہیں بڑی حفاظت سے رکھتی۔ ایک بار گائلس نے بڑی پیاری سی تصویر دکھلائی، جسے اس نے بڑے اہتمام سے ایک خوبصورت سے منی پرس میں رکھا تھا۔ اس تصویر میں وہ خود تھا، ایک حسین سی عورت تھی اور ایک بہت ہی پیاری سی بچی، جو ان دونوں کے پاس ہی کھڑی تھی۔ یہ گائیلس کی اپنی گھریلو تصویر تھی۔جس میں وہ خود ملکی لباس میں تھا۔ اس کی بیوی ایک عمدہ قسم کے گاؤن میں ملبوس تھی اور اس کی ننھی سی بچی ایک اچھا سا فراک پہنے تھی۔۔۔ تینوں کے چہروں سے مسرت اور اطمینان کی روشنی عیاں تھی۔ جیسے امن اور سکون کی دیوی ان پر اپنا مقدس ہاتھ رکھے ہوئے ہو۔ وہ اسی طرح امن وامان کی زندگی گزار رہے تھے،ان کی محبت کی نشانی لوسی ابھی ایک ہی سال کی تھی کہ جنگ کے دیوتا نے اپنا خوفناک دہانہ کھول دیا جس کے بھرنے کے لیے دنیا کے کونے کونے سے لوگ سمٹ کر آنے لگے اور انہیں کے گروہ میں گائیلس بھی تھا۔ گائیلس کے لیے وطن سے دور صرف یہی ایک نشانی تھی۔۔۔یہ تصویر جو اسے ہر وقت مسرور رکھتی، جانے وہ کن امیدوں پر ہی رہا تھا۔ ایک روز وہ اپنی بچی سے ضرور ملےگا یہ یا کچھ اور!

    گائیلس کو سلمیٰ سے والہانہ لگاؤ تھا، جیسے وہ اس کی اپنی بچی ہو۔ وہ اس کا بہت خیال رکھتا۔۔۔اس کو کسی روز سلومی کو دیکھے بغیر چین نہ آتا تھا۔۔۔ سلمیٰ کے سر میں ذرا سا درد ہوتا تو اسے تشویش ہو جاتی۔۔۔ اس نے سلمیٰ کو ورڈسورتھ کا گیت ’’لوسی گرے‘‘سکھانے کی بہت کوشش کی اور وہ بڑی حد تک اسے گا لیتی تھی۔ لیکن جب وہ اس حصہ پر پہنچتی، جہاں پر شاعر نے کہا ہے THEY WEPT AND TURNING HOMEWARDS CRIED IN HEAVEN WE SHALL MEET (وہ رونے لگے اور یہ کہتے ہوئے گھر کی طرف واپس ہوئے، ’’ہم جنت میں ضرور ملیں گے‘‘) تو گائیلس کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آ جاتے۔ لیکن وہ فوراً مسکرانے لگتا، جیسے اسے خوف ہو کہ کوئی دیکھ نہ لے۔

    ایک دن وہ آیا تو سلمیٰ کو ہلکا سا بخار تھا۔۔۔ گائیلس بڑا ہی جذباتی تھا، وہ مجھ پر بہت خفا ہوا اور اچھے سے ڈاکٹر کو بلانے کے لیے کہا، خود ایک ڈاکٹر لانے کو تیار ہو گیا، لیکن میں نے اس کو اطمینان دلایا۔۔۔ بہرحال کسی طرح وہ مان گیا۔۔۔ جانے کیوں وہ اب اداس سا رہنے لگا تھا۔ مجھے بڑی فکر ہوئی اور میں نے باربار پوچھا لیکن اس نے قطعی نہیں بتلایا۔۔۔ ایسا لگتا تھا، جیسے وہ شدید بحران سے گزر رہا ہو، جیسے وہ بڑے ذہنی انتشار میں مبتلا ہو، جیسے وہ سخت کشمکش میں پھنس گیا ہو۔۔۔ بعد میں مجھے اتنا معلوم ہو سکا کہ اب اس کے جانے کی خبریں آ رہی ہیں۔۔۔!

    ادھر وہ خلاف معمول چند دنوں سے ہمارے یہاں نہ آ سکا تھا۔۔۔ سلمیٰ بھی اکثرپوچھا کرتی تھی، انکل گائل کیوں نہیں آتے اور خود مجھے بھی فکر تھی کہ کہیں یہ فرشتوں کا سا پیار ختم نہ ہو جائے۔ کہیں اس معصوم محبت کا خاتمہ نہ ہو جائے کہیں یہ مقدس رشتہ ٹوٹ نہ جائے۔۔۔ آخر وہ آ گیا۔۔۔ گائیلس اپنی سلومی کو دیکھنے لیکن سلومی بیمار تھی، اسے کئی روز سے بخار تھا اور آج بہت تیز ہو گیا تھا۔ زیادہ بخار کی وجہ سے وہ اپنے ہوش میں نہ تھی اس کے سر پر اسپرٹ کی پٹی رکھی جا رہی تھی۔ وہ آتے ہی اپنا توازن کھو بیٹھا۔۔۔ وہ بےاختیار چیخنے لگا۔ IT'S YOUR FAULT... IT'S YOUR YOU ARE KILLING MY CHILD... MY CHILD... MY SLOME (یہ تمہارا قصور ہے، صرف تمہارا، تم میری بچی کا مار رہے ہو۔۔۔ میری بچی، میری سلومی۔۔۔) اور وہ سلمی کے پاؤں پر جھک گیا اور اپنے چہرے پر رگڑنے لگا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے، جیسے آنسوؤں کی مدد سے سلمی کو اچھا کر دے۔۔۔ کچھ دیر بعد سلمیٰ کو ہوش آیا تو اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو جھلملا رہے تھے۔ اس نے اس کی پیشانی کو چوم لیا اور کہنے لگا ...I'M HERE MY CHILD...I'M HERE.... (میں آ گیا ہوں، میری بچی میں آ گیا ہوں۔۔۔) اور سلمیٰ سچ مچ اب اچھی ہونے لگی۔ جیسے اسے بھی اس کی جدائی کا غم تھا اور بس۔۔۔ اس دن گائیلس بہت رات گئے کیمپ گیا، جس کے لیے افسر سے بڑی جھڑپ ہو گئی۔۔۔ اور اس کے ادھر ادھر جانے پر پابندی بھی لگا دی گئی۔۔۔ چونکہ جلد ہی اس کو کیمپ چھوڑ دینا تھا۔۔۔ لیکن دوسرے دن صبح سویرے وہ میرے یہاں پہنچ گیا۔۔۔ اس کا ذہنی توازن ختم ہو چکا تھا۔۔۔ اس کے پیچھے کئی سپاہی اسے پکڑنے آئے، چونکہ وہ بہت سی گولیاں لے کر آیا تھا۔ وہ وہاں سے ہٹ کر نزدیک کے باغ میں چلا گیا، اس کی سمجھ میں کچھ نہ آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے، بالآخر بے اختیار ان گولیوں کو آسمان کی طرف چلا رہا تھا اور چیخ رہا تھا۔۔۔I'LL NOT GO... I'LL NOT... YOU WILL KILL ME... I'LL NOT GO... I'LL NOT... I'M COMING MY CHILD, MY SLOME... MY CHILD, MY LUCY... MY LOCY... MY SOLE... MY CHILD... (میں نہیں جاؤں گا۔۔۔ تم مجھے مار ڈالوگے، تم مجھے میری بچی سے الگ کر دوگے، میں نہیں۔۔۔ میں آرہا ہوں، میری بچی، میری سلومی، میری سلومی، میری لوسی، میری لوسی، میری بچی) اور بالآخر سب گولیاں ختم ہو گئی اور دوسرے سپاہی اسے پکڑ کر لے گئے اور وہ چیختا رہا میں نہیں جاؤں گا۔۔۔ مجھے اپنی بچی سے ملنا ہے۔۔۔ میں نہیں۔۔۔ اس واقعے کی خبر سلمیٰ کو نہ دی گئی چونکہ وہ بیمار تھی۔ کچھ دنوں کے بعد اسے کسی طرح بتلایا گیا تو وہ بہت روئی۔۔۔ وقت نے دھیرے دھیرے اس کے دل سے اس نقش کو ہلکا کر دیا لیکن آج جب وہ امن کے موضوع پر ایک نظم لکھ کر لائی ہے۔ ’’انکل گائل کے نام‘‘ تو اس کی آنکھوں میں آنسو ہیں اور میں سوچ رہا ہوں وہ ہاتھ کتنے مقدس ہیں جو سلمیٰ اور لوسی سے ایک طرح سے پیار کرتے ہیں۔ ان ہاتوں سے کتنے مختلف جو ایٹم اور ہائیڈروجن بناتے ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے