Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اماوس نگری

سید تحسین گیلانی

اماوس نگری

سید تحسین گیلانی

MORE BYسید تحسین گیلانی

    میں کس زمانے کا آدمی ہوں اور کب سے ہوں بتانا مشکل ہے۔۔۔مگر کتاب۔ وقت میں درج کہانی کے صفحے پلٹوں تو لفظ بتاتے ہیں کہ میں اس بستی میں نیا تھا اور وہاں سورج نکلنے کا انتظار کئی برسوں سے امید کے کھونٹے سا بندھا سسک رہا تھا۔ خوف ناک اندھیرا روشنی کو نگل کر راج کر رہا تھا۔ اذہان، اوہام وابہام کے اسیر بےسمت منزل کی جانب رواں دواں تھے۔ تہذیب اور ثقافت ہر روز کسی داشتہ کی مانند اپنا بستر بدلتی تھیں۔ دماغوں میں سوچیں بےلباس ہوکر باہر کی دنیا کو برہنہ کرتی تھیں۔۔۔اقدار و نظریات ناجائز اولاد کی طرح کچرے کے ڈھیر پہ روتے ہوئے پائے جاتے تھے۔۔۔جن کی کرلاٹ سن کر چلتے پھرتے مردے قہقے لگا کر آگے گزر جاتے تھے۔

    وہاں کوئی ’’زندہ‘‘ بھی تھا یہ اندازہ لگانا مشکل تھا۔ ہاں نقل و حرکت سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ لوگ زندہ ہیں لیکن کیا صرف ’’زندہ‘‘ ہونا زندگی ہے؟؟

    ایسے میں مجھے کچھ لوگ نظر آئے جو لوگوں میں ڈر بانٹ رہے تھے پل بھر کو سب نے اپنے اپنے وعدے ان کی ہتھیلی پر رکھ دئیے۔۔۔جھوٹے وعدوں کی گٹھڑی باندھ کر وہ سب کو جواباً جھوٹی مسکراہٹوں کا تحفہ دے کر چل دئیے شاید وہاں اعتبار کی منڈی تھی جہاں کاروبار الفت مندا تھا۔۔۔مگر ایک دوسرے کو بےوقوف بناکر ’’زندہ ‘‘کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔

    وہاں پاس ہی ایک عورت بیٹھی زار و قطار رو رہی تھی اور وعدہ دینے اور لینے والوں سے کہہ رہی تھی ’’تم سب ڈھونگی ہو تمہارے وعدوں اور مسکراہٹوں میں مجھے کئی نسلوں کے خوابوں کے چیتھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔۔۔تم سب قاتل ہو نسلوں کے قاتل، ماوں کی کوکھ کے قاتل۔ جن کے وارثوں کی جوانیوں کا خون پی کر کون سی نسل سینچ رہے ہو تم سب۔۔۔؟؟

    جب تک مائیں اس بستی میں روتی رہیں گی اس بستی میں سورج نہیں نکلےگا۔۔۔یاد رکھو کبھی نہیں۔۔۔!!

    گریہ فلک کی سمت اٹھتا رہا تھا۔۔۔

    وہیں مجھے وہ مست الست نظر آیا جو برگد کے درخت کے نیچے دھونی رمائے اپنی دھن میں مگن بیٹھا آنکھوں کے اس پار کہیں جھانکتا تھا مرد و زن اس درخت سے گفتگو میں مصروف تھے سب اپنی اپنی آس کی ڈوری اس درخت سے باندھے جاتے اور اندھیرا مزید بڑھتا جاتا۔

    اس برگد پر انسانی کھوپڑیاں لٹک رہی تھیں اور انسانی آنکھیں اس برگد سے جھانک رہی تھیں جیسے کئی انسان اس قدیم درخت میں مقید ہوں وہ شخص زندہ تھا یا مردہ اس سے کسی کو کوئی غرض نہیں تھی سب اپنی اپنی کھوپڑیاں اور آنکھیں اس برگد کے حوالے کرکے اس میں مقید ہوتے جا رہے تھے وہاں ہزاروں چراغ جل رہے تھے جو پوری بستی کو اندھیرا بانٹ رہے تھے۔ روشنی کہیں قبروں میں سو رہی تھی۔

    اندھیرا تھا کہ مزید گہرا ہوتا جا رہا تھا مجھے یوں لگا جیسے میں بھی گم ہو جاوں گا اس بستی کا کوئی برگد مجھے بھی قید کر لے گا کوئی مسکراتا چہرہ میرے وعدے بھی چھین لےگا لیکن ایسا کیوں کر ہوگا میں تو ان کو اجالے سے ملانے کا سوچ کر آیا تھا مگر اس اندھیرے نے تو جیسے میری سوچ کو بھی گہنا دیا۔۔۔

    میں اس منظر سے نکلا تو دور ایک پراسرار جنگل میں پناہ لی اس اندھیرے جنگل میں مجھے یوں لگا جیسے زندگی بھاگ کر یہاں آ چھپی ہے بستی کا کوئی انسان مجھے دیکھ نہ پایا لیکن ان جانوروں کے بیچ مجھے اچھا لگ رہا تھا کہ یہ مجھے دیکھ رہے تھے۔۔۔سب میرے اردگرد اکٹھے ہو گئے۔۔۔

    ‘’سنو اگر تم بھی اس اندھیر نگری کے باسی ہو تو فورا جنگل چھوڑ دو ہم نہیں چاہتے کہ زندگی یہاں سے بھی روٹھ کر بھاگ جائے۔۔۔’’

    ‘’ارے نہیں نہیں میں ان میں سے نہیں ہوں لیکن ان جیسا ضرور نظر آتا ہوں تم بے فکر رہو میں حیات و ممات سے ماورا ہوں لیکن میں ان کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔۔۔!!’’

    میں نے پھر پوچھا۔۔۔

    ‘’یہ اندھیر نگری کب سے اس اندھیرے میں مبتلا ہے کیا کوئی مجھے یہ بتا سکتا ہے؟’’

    ایک بوڑھا جانور میرے استفسار پر مخاطب ہوا۔۔۔

    ‘’برسوں پہلے اس بستی میں سورج نکلا تھا اس کی کرنوں نے اس بستی کے لوگوں کی ذہنی کالک کو روشنی دینے کی کوشش کی تو یہ سب اس سورج پر ایمان لے آئے اور اسے اپنا خدا سمجھنے لگے۔۔۔اس کارن سورج روٹھ گیا۔۔۔اور اندھیرے نے تخت سنبھال لیا۔ اب اندھیرا ہی ان کا خدا ہے۔

    یہ سب اندھیرے میں رہنا پسند کرتے ہیں؟؟؟ ہاں۔۔۔ تاریکی سے بغاوت کیوں نہیں کرتے؟؟

    ایک دیوتا آیا تھا جس نے انہیں اس بستی کی اہمیت سے آگاہ کیا تھا لیکن انہوں نے اسے بھی اپنے افکار کی بو سے مار ڈالا پھر کبھی یہاں کوئی دیوتا نہ آیا نہ پیدا ہوا کیوں کہ یہ سب اندھیرے میں رہنا پسند کرتے ہیں کبھی کبھی کوئی آواز روشنی کے حق میں بلند ہوتی ہے لیکن اس کی زبان یا تو کاٹ دی جاتی ہے یا اسے سولی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ خبردار!!!! تم ان اندھیر نگر کے باسیوں سے دور رہو اور لوٹ جاو ورنہ یہ تمہیں بھی اپنا دشمن سمجھ کر کاٹ ڈالیں گے بہتر ہے چلے جاو یہ تو اچھا ہے تم ان کی نگاہوں سے اوجھل ہو ورنہ اب تک تو یہ تمہیں کب کا لٹکا چکے ہوتے!!!’’

    نہیں۔۔۔ نہیں ۔۔۔ نہیں!!!!!

    ‘’شاید ان کو میری ضرورت ہے مجھے ان کو روشنی کے معنی سمجھانے ہی ہوں گے۔ تم سب میرے ساتھ چلو میں خود کو ان پر ظاہر کروں گا اور تم میری تصدیق کرنا میں تمہیں بھی زبان دوں گا کہ یہ تمہاری آواز بھی سن سکیں تو شاید یہ مان جائیں کہ اور خود کو اندھیرے سے نکال پائیں۔’’

    تو ایک معزز جانور بولا؛

    ‘’ہم ضرور ساتھ چلیں گے اگر ہم ایک بار پھر انسانوں کے کسی کام آ سکیں تو یہ ہماری خوش بختی ہوگی لیکن بتا رہا ہوں یہ سیاہ پرست نہیں مانیں گے۔’’

    لیکن مجھے تو قدم اٹھانا ہی ہے ۔۔۔میں نے کہا۔’’

    یہ سوچ کر میں جانوروں کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ جب اس بستی میں داخل ہوا تو ساری بستی کو پکارا۔۔۔

    جب ساری بستی کے لوگ جمع ہو گئے تو چبوترے پر چڑھ کر میں ان سے مخاطب ہوا۔

    ‘’سنو!! میری بات سب غور سے سنو!!!!

    محبت کی روشنی سے دلوں کو بھر لو۔۔۔ٹہنیو!! شجر سے لپٹ جاو سدا موسم بہار کا یہاں ٹھہر جائےگا۔ چراغوں سے دوستی کر لو روٹھا ہوا سورج پلٹ آئےگا۔ خود کو پہچانو!!! قطرے میں اترو سمندر ہو جاوگے۔۔۔ابھی بات پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ پتھروں کی بارش نے میرا جسم چھلنی کر دیا۔۔۔میں اپنا لہو اس بستی میں بانٹ آیا جسے اندھیرا پی گیا۔’’

    ہزاروں برس بیتے گئے۔ اب بس جنگل میرا بسیرا ہے اور یہ میرے ساتھی۔

    تب سے اب تک میں خضر کی تلاش میں ہوں۔۔۔

    (شاید وہ بھی کہیں انتظار کرتا ہوگا۔۔۔)

    لیکن

    شاید اندھیرا زیادہ گہرا ہو چکا ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے