انا کا زخم
کہانی کی کہانی
یہ افسانہ ایک شخص کی احساس کمتری کا زائیدہ ہے جو اپنے دوست راہی کی طبعی کجی اور ذہنی نخوت کو برداشت نہیں کر پاتا۔ اس کے من مانے طریقوں سے کڑھتا ہے اور انتقام لینے کی ٹھان لیتا ہے۔ سوچتا ہے کہ اسے انا کی خول سے باہر نکالے گا جبکہ اس کے تمام عوامل یہ واضح کرتے ہیں کہ وہ خود انا کی سخت قید میں ہے اسی لیے راہی سے حسد بھی کرتا ہے۔
شاید تیسرا دور تھا۔ بہکنے کی منزل تو ابھی بہت دور تھی مگر سرور کا گہرا رنگ سب پر چڑھ چکا تھا۔ خدا جانے کس طرح بات چیت ذاتی پسند اور ناپسند پر رک گئی۔ میں نے غور سے سنا راہی کہہ رہا تھا۔
’’یارو! میں ان بچوں کو پیار کرتا ہوں، بار بار چومتا ہوں۔ جو ماں باپ سے چار چوٹوں کی مار کھاتے ہیں مگر ان کا کہا پھر بھی نہیں مانتے ہیں۔ جو ہر حادثے سے بے نیاز ہوکر سڑک کے عین بیچ میں گلی ڈنڈا کھیلتے ہیں اور گلی سے کبھی کبھی کسی کار کا شیشہ بھی توڑ دیتے ہیں۔ جو محلے کے بزرگوں کی موٹے موٹے شیشوں سے ڈھکی ہوئی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے ماہر ہیں۔ جن کی وجہ سے تمام سال استاد کی ناک اور کان کی لویں غصے کے مارے سرخ رہتی ہیں، مگر جو تمام سال کھیل کود میں مصروف رہنے کے باوجود بھی ماں باپ اور استاد کو شرمسار کرنے کے لئے امتحان میں اچھے نمبر حاصل کرتے ہیں۔
مجھے وہ نوجوان اچھے لگتے ہیں، جن پر ہر وقت سنجیدگی مسلط رہتی ہے۔ جو بہت کم بولتے ہیں مگر جن کے سینے میں آٹم بم چھپا رہتا ہے۔ اور مجھے ان فنکاروں سے عشق ہے جو جوانی کے عالم ہی میں ایک عالم کو روتا چھوڑ گئے ہوں۔ جنہیں زمانے نے کچلا ہو، پاگل خانے بھیجا ہو، عدالتوں میں گھسیٹا ہو مگر جنہوں نے محض اپنی ہمت، اپنی ذہانت کے بل بوتے پر زمانے کو سر کے بل چلنے پر مجبور کیا ہو اور جن کی جواں مرگی پر زمانہ خون کے آنسو رویا ہو۔‘‘
میں گزشتہ دو ماہ سے راہی کی ہر بات ناپ تول رہا تھا۔ میری دلی خواہش تھی کہ وہ کہیں لغزش کھائے اور میں اسے آڑے ہاتھوں لوں۔ میں اس سے چڑ گیا تھا۔ اس کی ہر بات، اس کا ہر عمل اس کی انا کی کیل کو ہم دوستوں کے سروں پر گاڑ دیتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مجھے اس سے نفرت سی ہوتی چلی جا رہی تھی۔ میں اس کی انا کے خول کو توڑ دینا چاہتا تھا جو اس نے اپنی ذات کے اوپر چڑھا رکھا تھا۔
ہم سب دوست موڈ میں تھے اور چہک چہک کر وہسکی پی رہے تھے۔ راہی کی آنکھوں کی وسعت بتا رہی تھی کہ وہ سرور میں آ چکا ہے۔ پھر جانے کیا ہوا کہ اس نے اپنی پسند کو، اپنے مخصوص لہجے میں، ایک ایک لفظ کو انفرادیت بخشتے ہوئے ہماری طرف اچھال دیا۔ اس کی بات سن کر میں نے سب کا بغور جائزہ لیا، مگر سب ہلکے سے رد عمل سے بھی کوسوں دور تھے۔ میں راہی کے بارے میں حساس تھا، اس لیے مجھ پر سخت رد عمل ہوا۔ راہی کی پسند میں اس کا کردار، اس کا بچپن اور اس کی جوانی پوشیدہ تھی اور جواں مرگ فنکاروں سے اس کا عشق اس کے اپنے مستقبل کی طرف اشارہ تھا۔ اس کی پسند اس کے عمل کی تخلیق تھی اور اس کا عمل بچپن ہی سے احترام، آداب، رسم و رواج، غرض ہر بات سے بغاوت رہا تھا۔
میرا موڈ فنا ہو چکا تھا۔ وہسکی کا ہر جرعہ اب کڑوی دوا کے مترادف تھا۔ میں نے چند لمحے غور کرنے کے بعد راہی کی ٹانگ گھسیٹنا چاہی۔ میں نے کہا۔’’ایک کردار تو ہر شخص کا ہوتا ہے، دوسرا کردار کچھ لوگ اپنی اہمیت دوسروں پر لادنے کے لئے اوڑھ لیتے ہیں۔ مجھے تو بس یہ دوسری قسم کا کردار ناپسند ہے اور مجھے باقی کی ہر شے پسند ہے۔‘‘
میں نے راہی پر سیدھا حملہ کیا تھا۔ اب سب چونکے۔ راہی مسکرایا اور پھر بےنیازی سے کہنے لگا۔ ’’بلراج ہم سب دوستوں میں سب سے زیادہ ایماندار ہے۔ چند لمحے سوچنے کے بعد اس نے جو کچھ کہا ہے، اس میں اس نے اپنی ذات کو بھی نہیں بخشا۔ اگر تم سب سوچو، اپنے من کو ٹٹولو، تو بلراج کی بات کی صداقت سے انکار ممکن نہیں۔ اچھا، بلراج ہی کو لو۔ ایک کردار تو یہ ہے کہ تیس دن کی مشقت کے بعد ایک سو چالیس روپے ملتے ہیں۔ اور گھر کے پانچ افراد نمک، پیاز اور روٹی کھا پاتے ہیں اور ایک کردار یہ ہے کہ یہاں وہسکی پی جا رہی ہے۔ اس دوسرے کردار کو نوچ پھینکا جا سکتا ہے، مگر بلراج حساس ہے، اس لیئے خود فریبی کا سہارا بڑے خلوص سے قبول کرتا ہے۔۔۔ تو یارو، ایک ڈبل پیگ، بلراج کے نام!‘‘
راہی نے اطمینان سے مجھ پر جوابی حملہ کیا تھا۔ اس کے جوابی حملے میں میری زندگی کی بڑی بھیانک حقیقت چھپی ہوئی تھی۔ میں نے خاموشی سے اپنی شکست کے نام معنون ڈبل پیگ ایک ہی گھونٹ میں اپنے اندر لگی ہوئی آگ کو تیز کرنے کے لئے انڈیل لیا اور محفل سے اٹھ آیا۔
۱۹۵۰ء کی بات ہے، میں سناتن دھرم اسکول میں ہائر سکینڈری کے فائنل ایئر میں تھا۔ ان دنوں راہی نے کلاس میں داخلہ لیا۔ چھ ماہ تک تو میں اس کی طرف متوجہ ہی نہ ہوا۔ میرا کلاس کے تین چار ذہین طلبہ میں شمار ہوتا تھا۔ اس لیے برتری کا احساس مجھے اپنے ہم جماعتوں کی صحبت سے دور رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ ان دنوں راہی میں کوئی خوبی بھی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ دبلا پتلا بیمار سا جسم گہری سانولی رنگت، گہرے سیاہ حلقوں میں گھری ہوئی اور کچھ بہت ہی زیادہ اندر کو دھنسی ہوئی آنکھیں، پورے چہرے پر ہڈیوں کی کھچیوں پر منڈی ہوئی کھال، لباس سے لاپروائی کا اظہار اور پھر کلاس میں اس کا سب سے آخری بنچ پر تن تنہا بیٹھے رہنا۔ میں اس کے قریب کیسے جا سکتا تھا؟ مگر کچھ عرصہ بعد ان احساسات کے باوجود میں نے ہی اس کی صحبت میں رہنے کی جستجو کی۔
سالانہ امتحان کے قریب دو ماہ پہلے ہمارے انگریزی کے استاد کالرہ صاحب نے ڈکنز (Dickens) کا ناول ڈیوڈ کاپرفیلڈ (David Copperfield) پڑھاتے ہوئے اچانک راہی سے ایک سوال پوچھا۔ راہی حسب معمول سب سے آخری بنچ پر بیٹھا ہوا تھا اور کالرہ صاحب اپنی کرسی پر۔ کالرہ صاحب نے سوال پوچھا تو سب لڑکے راہی کی جانب دیکھنے لگے۔ راہی سر جھکائے شاید کچھ گنگنا رہا تھا۔ اسے علم ہی نہیں تھا کہ اس سے سوال پوچھا جا رہا ہے۔ کالرہ صاحب اس کی ذہنی غیر حاضری سے بھنا گئے اور زور سے چلائے۔
’’یو ایڈیٹ یو۔۔۔‘‘ (You Idiot! You!) کلاس کے سناٹے کو کالرہ صاحب کی چیخ نے توڑا تو راہی کو اپنی غفلت کا احساس ہوا۔ فوراً ہی کھڑا ہوکر اس نے کہا۔’’جی!‘‘
کالرہ صاحب اور زور سے چلائے۔
’’یو ایڈیٹ۔۔۔ ویر ویر یو!‘‘ (You idiot! Where were you?)
کالرہ صاحب نے اتنی ہی بات کہی تھی کہ راہی کے کمزور ہاتھوں کی گرفت میں دوات آ گئی اور آن کی آن میں دوات کالرہ صاحب کے منہ پر تھی۔ دوات کالرہ صاحب کی آنکھ کے نیچے ابھرے ہوئے گال پر لگی۔ ان کا منہ لہو سے بھر گیا۔ کپڑے سیاہی سے لت پت ہو گئے۔
اس حادثے کے بعد ایک ہنگامہ ہو گیا۔ پرنسپل صاحب راہی کو اسکول سے نکالنا چاہتے تھے مگر راہی کے والد، جو بہت بڑی فوجی شخصیت تھے، کی یہ دھمکی تھی کہ وہ عدالت میں سب کو قطار میں کھڑا کر دیں گے۔ بات دب گئی۔ راہی اسکول کا ہیرو تھا۔ مگر ’اسی طرح وہی آخری بنچ‘ لباس سے لاپروائی اور خاموشی۔
اس حادثے سے پیشتر میں راہی کو کلرکوں کے کسی خاندان کا فرد سمجھتا تھا مگر یہ جان کر کہ ایسا نہیں ہے اور اس حادثے سے راہی کے وقار کے اظہار نے مجھے اس کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا۔ کئی دن تک متواتر وہ دن رات میرے ذہن پر سوار رہا، آخر چند دن بعد انٹر اسکول کرکٹ فائنل میں جس میں ہمارا اسکول داخل ہوچکا تھا، مجھے راہی سے بات کرنے کا موقع مل گیا۔
راہی تھرمس سے کپ میں بیئر انڈیل رہا تھا۔ میں نے قریب جا کر کہا، ’’کیا خیال ہے آپ کا؟ ہم جیت جائیں گے۔‘‘
اس نے میری طرف دیکھا ور میری بات کو نظر انداز کرتے ہوئے مجھ سے پوچھا، ’’بیر پیوگے؟‘‘
میں نے اچنبھے سے کہا، ’’بیر!‘‘
’’ہاں بیر۔۔۔ “Nothing like beer, nothing like coffee and noting like cricket”
“Nothing like cricket” کے پیش نظر میں نے کہا، ’’تو آپ کرکٹ کاذ وق رکھتے ہیں۔‘‘
’’نہیں اب نہیں۔ کبھی کبھی میچ دیکھنے چلا جاتا ہوں۔ ایک حادثے کی نذر ہوگیا، یہ جان لیوا شوق۔۔۔!‘‘
میں اس حادثے کے بارے میں استفسار کرنے ہی والا تھا کہ اس نے خود ہی کہا۔’’۔۔۔ ہم بنگلور میں تھے، ملٹری کیمپ جلاہلی میں۔ میرا اور روشن کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ہم دونوں ایک ہی ٹیم میں تھے۔ جب ہم دونوں کھیلتے تھے تو بڑے بڑے باؤلروں کے پسینے چھوٹ جایا کرتے تھے، ہماری ٹیم کی جیت پتھر کی لکیر کی مانند ہوتی تھی۔ مسلسل جیتنے رہنے نے میرا جان لڑا دینے کا جذبہ سرد کر دیا تھا۔ اس لیے میں مخالف ٹیم میں شامل ہو گیا تاکہ اور کوئی نہیں تو روشن ہی سے دو دو ہاتھ ہو جایا کریں۔ ایک بار کیمپ کرکٹ لیگ کے فائنل میں روشن کی ٹیم اور ہماری ٹیم پہنچ گئی۔ میچ ہو رہا تھا۔ تمام ملٹری افسر، ان کی بیویاں، بچے، سب کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ہمارے کرکٹ میچ کیمپ کی واحد دلچسپی تھے۔
اتفاق کی بات یہ ہے کہ میں بالنگ کر رہا تھا اور روشن بیٹنگ۔ اسی وقت دور سے روشن کو اس کی محبوبہ رین بو آتی دکھائی دی۔ ایمپائر سے بات کرنے کے بہانے اس نے میرے پاس آکر مجھے لوز (Loose) بال پھینکنے کو کہا کہ وہ اپنی محبوبہ کے سامنے چھکا لگا سکے۔ میں نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی طرف سے بڑا خطرناک بال پھینکا۔ وہ آگے بڑھا اور بال وکٹوں کے بیچ میں تھی۔ وہ دن اور آج کا دن، میرے اور روشن کے درمیان جو کچھ تھا، سب ختم ہو چکا ہے۔۔۔‘‘
خدا جانے اس کی اس بات میں کہاں تک صداقت تھی مگر مجھے اس بات نے متاثر کیا۔ اس ملاقات کے بعد ہم کئی بار ملے مگر یہ ملاقاتیں میری کوششوں کا نتیجہ تھیں۔ سالانہ امتحان کے بعد بھی میرے اصرار کرنے پر وہ مجھے کئی بار کناٹ پیلس میں ملا۔ میں نے کالج میں داخلہ لے لیا تھا اور اس نے پڑھائی ختم کر دی تھی۔ مجھے تعجب ہوتا تھا کہ اس کے والد نے اسے اور پڑھنے پر کیوں مجبور نہیں کیا۔ میں کئی بار اس کے گھر گیا تھا۔ وہ اور اس کے والد گہرے دوستوں کی طرح بے تکلف تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ اس کے والد نے اس کی زندگی کے دھارے کو آپ سے آپ بہہ نکلنے اور راستہ تلاش کرنے کے لئے چھوڑ دیا ہے۔ ان کا کام تو صرف راہی کی آسودگی کے لئے ہر شے مہیا کرنا ہے۔
میں پانچ سال میں راہی کو اچھی طرح جان گیا تھا۔ اس کی Nothing Like فہرست میں ادب اور پانامہ سگریٹ بھی شامل ہو گئے تھے۔ اسکول کی زندگی تک تو اسے اپنے وجود کا احساس غیرشعوری طور پر تھا، مگر اب اسے اپنے وجود کی اہمیت ہر وقت رگوں میں خون کے ہمراہ گردش کرتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ اس کی پسند، اس کا عمل اور اس کا کردار سماج کے سخت اور بھونڈے اصولوں کے مطابق نہ تھا۔ اس کے والد اور اس کے چند دوستوں کے علاوہ اسے قریب قریب ہر شخص نفرت کی نگاہ سے دیکھتا تھا، اس لئے وہ اپنے اصولوں پر شدت سے عمل کرنے لگا تھا۔ اس کے اصول یہی تھے کہ جسے زمانہ اپنائے، اسے ٹھکرا دو، جس کام کو زمانہ برا سمجھے، اسے کر گزرو۔ یہی وجہ تھی کہ اس کی شادی نہیں ہو پاتی تھی۔ نوکری وہ کرتا نہیں تھا۔ رات کو گھر آتا تو رات رات بھر کمرے کیبتی جلتی رہتی تھی اور وہ ناول پڑھتا رہتا تھا اور اگر وہ گھر نہیں آتا تھا تو ہفتوں نہیں آتا تھا۔
’’اب کون نکھٹو، دبلے پتلے، بیمار سے راہی کو لڑکی دیتا۔‘‘
حالانکہ ایسے خاندان کے لئے لوگ ترستے ہیں۔ میرے سامنے ایک بار اس کے والد نے کہا، ’’بیٹا! میجر رام لال کا رویہ انکار کا سا ہے۔ شاید ان کی لڑکی ششی رشتے پر رضامند نہیں۔‘‘
راہی نے ایسی بات کہی کہ میں چکرا گیا، ’’ڈیڈی! میجر رام لال کی لڑکی ششی کے بارے میں کہہ رہے ہیں آپ؟ وہ راضی نہیں۔ مگر تعجب ہے ڈیڈی، ابھی تھوڑے دن ہوئے اس نے خوشی سے اپنا جسم مجھے سونپ دیا تھا۔۔۔ یہ پڑھی لکھی لڑکیاں بھی خدا جانے کیا ہوتی ہیں؟‘‘
یہ تھا اس کا کردار ان گنت رعنائیاں لیے ہوئے۔ ششی نے سماج کے ڈر سے اسے اپنانے سے انکار کردیا تھا، مگر اسے چند لمحوں کے لئے پانے کے لئے اپنے جسم کی دولت لٹانے سے گریز نہیں کیا تھا۔۔۔ یہ راہی کی جیت بھی تھی اور ہار بھی۔۔۔ جیت اس کے خون میں شامل ہو جاتی تھی اور ہار وہ سمجھ ہی نہیں پاتا تھا۔
میں نے راہی کو جتنا قریب سے دیکھا، اتنا ہی اس کے بارے میں سوچا اور جتنا اس کے بارے میں سوچا، وہ اتنا ہی میرے قریب آگیا۔ اور نئے نئے انکشافات مجھ پر ہوئے۔۔۔ ہم دس بارہ دوستوں میں سبھی دوست راہی کی وجہ سے ہی ایک دوسرے سے متعارف ہوئے تھے۔ وہ کہتا تھا، ’’میں فوراہ ہوں اور تم سب میری دھاریں!‘‘
ہم میں سے ہر ایک نے خود اپنی اپنی جگہ پر راہی سے راہ و رسم بڑھانے کی پہل کی تھی۔۔۔ اس کی غیر موجودگی میں سب دوست صرف اس کے بارے میں باتیں کرتے تھے۔ ایک چھوٹی سی دنیا میں صرف وہی وہ تھا جہاں اس کی انا کی بادشاہت تھی۔
کوئی دوسال ہوئے، ٹی ہاؤس میں ایک صاحبہ رما واسو دیوا کا بہت ذکر ہونے لگا۔ رما جرنلسٹ تھی اور دو سال لندن میں رہ کر واپس دلی آئی تھی۔ ہم لوگوں نے بھی اس کا اچھا خاصا ذکر کیا کہ قیامت ہے، خراماں خراماں چلتی ہے تو دل رک جاتے ہیں۔ ٹی ہاؤس کا مالک رام سنگھ بات کرتے ہوئے گھگھیاتا ہے۔ آدھا Inteligentsia تڑپ رہا ہے۔۔۔
راہی نے سب باتیں مشکل ہی سے برداشت کی ہوں گی کیوں کہ دو ماہ بعد غیرمتوقع طور پر وہ رما کی کمر میں ہاتھ لپیٹے ٹی ہاؤس میں داخل ہوا۔ Inteligentsia کے لبوں سے سگرٹیں چھوٹ کر ٹیبل پر جا گریں۔ اس دن کے بعد ہم نے رما کو اکیلا کبھی نہیں دیکھا۔ وہ اور راہی اکٹھے گھومتے ہوئے نظر آئے۔
مجھ سے انجانے میں صرف ایک بھول ہوگئی تھی، جس کی وجہ سے دو ماہ سے ہر محفل میں راہی مجھے نشانہ بنا رہا تھا۔ پہلے پہل تو میں خاموش رہا، مگر راہی کے ساتھ اتنے سال اکٹھے رہنے کی وجہ سے مجھے بھی اپنی ذات کا احساس ہو گیا تھا، اسی لیے میں نے بار بار اس کے سامنے ڈٹ جانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ مجھ سے چھوٹی سی یہ بھول ہو گئی تھی کہ میں نے راہی کو تین بجے ٹی ہاؤس پہنچنے کو کہا تھا اور پھر ہمارا ارادہ فلم دیکھنے کا تھا۔ اتفاق سے میں بھول گیا۔ دوسرے دن راہی سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگا، ’’بلراج! معاف کرنا۔ میں کل تین بجے آ نہ سکا۔‘‘
اس کا لہجہ قدرے تیکھا تھا مگر میں نے غور نہ کیا کیوں کہ یہ اس کے موڈ کی وجہ سے بھی ہو سکتا تھا۔ مگر شام کو ٹی ہاؤس کے ویٹر سوامی نے، جو راہی کو بہت پیار کرتا ہے، مجھے کہا، ’’کل ساب بہت ویٹ کیا۔ ساب آگ کے مافک تھا جو پاس آکر بیٹھا جل گیا۔۔۔‘‘ یہ تھی میری چھوٹی سی بھول۔ وہسکی کے سرور میں راہی نے مجھ پر بھیانک حملہ کیا تھا، اس وقت تو میں قریب قریب روتا ہوا اپنی مجروح ذات کو گھر لے آیا۔
مگر میں نے ٹھان لی کہ راہی کو انا کے خول سے باہر نکال کر ہی دم لوں گا۔۔۔ مجھے اپنی بھول کا احساس تھا مگر اسے دوستی کا احساس نہیں تھا۔ میں نے بڑے بڑے پروگرام بنائے، ذہن میں نقشے تیار کئے مگر رد کر دیے۔ آخر دن رات کی مسلسل اور کربناک سوچ سے پتہ چلا کہ راہی کی شخصیت کا راز اس کی اہمیت ہے، جس کا اسے احساس ہے۔ اس کی اہمیت کو نظرانداز کیا جائے تو اس کی انا مجروح ہوگی اور اس کا انا سے تعمیر کردہ کردار گھروندے کی صورت بیٹھ جائےگا۔
میں نے اپنے گھر دعوت کا انتظام کیا۔ سب دوستوں سے مل کر انہیں شمولیت پر آمادہ کر لیا۔ کسی کے خواب میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی تھی کہ میں نے ابھی تک راہی کو دعوت پر نہیں بلایا ہے، جس کی شمولیت ازحد ضروری تھی۔ جب سب راضی ہو گئے تو میں نے راہی سے کہا، ’’بھائی جان، کل گھر پر مختصر سی صحبت رہےگی۔ سب کو مشکل سے راضی کیا ہے۔ آپ کو پہلے اس لیے نہیں کہا کیوں کہ آپ تو اپنے ہی ہیں، اور پھر آپ کو جب چاہیں، جہاں چاہیں پکڑ لے جا سکتے ہیں۔ تو کل شام آپ ضرور آئیےگا۔‘‘
راہی کو فنا کرنے کے لئے میری دانست میں اتنا کافی تھا۔ میں نے بھرپور اور غیر متوقع طمانچہ مارا تھا کہ سب دوست مشکل سے راضی ہوئے ہیں۔ اور وہ، اس کی کوئی بات ہی نہیں، اس کی شمولیت قریب قریب غیرضروری ہے۔ ہم دس بارہ دوستوں کی دنیا، جہاں اس کی انا کی بادشاہت تھی، میرے انتقام سے لرز گئی تھی۔
راہی تھوڑی دیر خاموش رہا۔ اداس، فکر مند، جیسے کوئی بہت بڑا فیصلہ کر رہا ہو۔
آخر اس نے کہا، ’’کل شام کس وقت؟‘‘
میں نے فتح سی محسوس کرتے ہوئے جواب دیا، ’’سات بجے۔‘‘‘
اس نے اپنی خطرناک مسکراہٹ کے ساتھ مجھے زندگی بھر کے لئے فنا کر دیا۔
’’بھئی معاف کرنا۔ میں کل شام چھ چالیس کی گاڑی سے بمبئی جا رہا ہوں۔‘‘
دوسرے دن سب دوست اسے رخصت کرنے اسٹیشن پر گئے، اس لیے میرے ہاں دعوت پر نہ آ سکے۔
اس کی انا جسے میں انڈے کا خول سمجھتا تھا، قلعہ تھی جس میں وہ زمانہ بھر کی سرد مہری سے محفوظ تھا۔ زندہ تھا اور میں، میری انا شدید طور پر مجروح ہو گئی تھی اور وہ زخم اب میری روح کا ناسور بن چکا ہے!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.