اندھا بھکاری
کلکتہ کا ایک مکروہ محلہ۔۔۔ پچھلے پہر کا وقت۔
جاڑے کی راتیں۔۔۔ ٹھنڈی ہوا کے جھکڑ۔
ہوا تاڑی اور بنگلا کی بدبو سے بوجھل ہو رہی ہے۔ گلیوں میں آبخوروں کے ٹکڑے، بوتلوں کی کرچیں، جھوٹے پتل اور انڈوں کے چھلکے بکھرے پڑے ہیں۔ طوائفیں منہ چھپائے سو رہی ہیں۔ تکیوں کے نیچے ان کی نسوانیت کی قیمت رکھی ہوئی ہے۔ روپے کم اور پیسے زیادہ۔ پہرے داروں کے ’’جاگتے رہیو ہو۔‘‘ کی صدائے باز گشت کتوں کی ’’بھوں بھوں بھوں‘‘ میں سنائی دیتی ہے۔ آسمان پر کچھ تارے کوڑھ کے داغوں کی طرح جھلملا رہے ہیں۔
وہاں ایک گھر ہے جس کی دیواریں بانس کی کھچیوہں پر مٹی کے تودے چڑھا کر بنائی گئی ہیں۔ چھپر پھوس کا ہے اور دروازہ ٹین کا۔ اس دروازے کے سامنے ایک بھینسا گاڑی کھڑی ہوئی ہے۔ بھینسے سردی کے مارے کبھی کبھی اپنی موٹی کھال کو سکوڑ لیتے ہیں اور پھر اطمینان سے جگالی کرنے لگتے ہیں۔ دور سے دیکھو تو ان کی آنکھیں مندر کے چھوٹے چھوٹے دیووں کی طرح چمک اٹھتی ہیں۔
اس گھر کو سب لوگ ’’اندھا ٹولا‘‘ کہتے ہیں۔
گاڑی بان کے جسم پر ایک موٹا کمبل تھا، ایک ہاتھ میں ناریل کی گڑگڑی دوسرے میں چمڑے کا چابک۔ اس نے ٹین پر چابک کے دستے کا ایک ہاتھ لگایا اور بے صبری سے انتظار کرنے لگا۔ دفعتاً اندر اندھیرے میں کچھ لوگوں کے جمھائی لینے اور کھنکھارنے کی آواز سنائی دی۔ کتے کان پھڑ پھڑا کر ایک طویل ’’اوہو‘‘ کے ساتھ صبح کا بھجن گانے لگے، پھر آدمیوں کے ٹٹول ٹٹول کر چلنے اور لڑکھڑانے کی آہٹ سنائی دی۔
اندھے بغل میں اپنا جھولا دبائے، ہاتھ میں لکڑی لئے یکے بعد دیگرے باہر نکلنے لگے۔ ان کے پیچھے کتوں کا غول ایک دوسرے کو بھنبھوڑتا ہوا باہر آیا۔ گاڑی بان چابک سے کونچ کونچ کر انہیں گننے لگا۔ سولہ سترہ۔ ’’اب بھی سو رہے ہیں۔‘‘ ایک اندھا اور ایک اندھی ایک دوسرے کا لحاف بنے اب بھی سو رہے تھے۔
گاڑی بان اندر گیا۔ ایک لمحہ کا وقفہ۔ پھر چابک کا چھپاٹا اوراندھوں کی چیخ۔ مردہ بیل کی کھال زندہ انسان پر اور ان دونوں کی رگڑ، ایک دردناک فریاد بن کر عرش کی دم سے ٹکرائی اور اسی میں کھو گئی۔
روز یہی ہوتا تھا۔ پو پھٹنے سے پہلے یہ اندھے ایک گاڑی میں بٹھا کر مختلف چوراہوں پر چھوڑ دیئے جاتے تھے۔ دن بھر وہاں بیٹھ کر وہ بھیک مانگا کرتے تھے۔ راہ چلتوں کا رحم حاصل کرنے کے لئے ان میں سے کوئی لنگڑا بن جاتا تھا کوئی اپنا چمڑا ادھیڑ لیتا تھا اور کوئی تھگلیاں لپیٹ کر سٹرک پر پڑ جاتا تھا۔
وہ سب اندھے تھے، وہ کبھی نہ دیکھ سکتے تھے۔ ان میں سے کسی کی پتلیاں سفید تھیں۔ کفن کی طرح۔ کسی کی آنکھیں سرخ تھیں، خون کی طرح۔ کسی آنکھوں میں گڑھے تھے۔ قبر کی طرح، یہ بے بصر اور پتھرائی ہوئی آنکھیں خلا میں کسی نامعلوم شے کو ڈھونڈا کرتی تھیں۔ ان میں کبھی آنسو نہ آتے تھے۔ وہ اندھے بھکاریوں کی آنکھیں تھیں۔
وہ سب خدا کو یاد کرتے تھے۔ ’’اندھا گھوڑا کالا کمبل دے خدا کی راہ پر۔‘‘ ’’میرا چمبل بھر دے، تجھے مولا ملے۔‘‘ ’’اندھے کا سوال ہے سب کے اوپر۔‘‘
خدا کی رحمت جھوٹے ٹکڑوں اور کافی کوڑیوں کی شکل میں ان پر نازل ہوا کرتی تھی۔ ان کے بے رنگ تخیل میں ہمیشہ سوکھی روٹیاں اور پھٹی چٹائیاں اڑا کرتی تھیں۔ راہگیروں کی ٹھوکر سے بچنے کے لیے وہ چوراہے کے نابدان کے قریب بیٹھ جاتے تھے۔ اس نابدان میں سماج کی ساری عفونت اور غلاظت بیک جا جمع ہوا کرتی تھی۔ جو مرغی کلمہ طیبہ کے فیض سے کھانے والوں پر حلال ہو کر راھی ملک بقا ہو گئی، اس کی پیٹ کی آلائش اور نچے ہوئے پر نابدان میں پڑے رہتے تھے۔ نرم نرم گوشت انسان کے لیے گرم گرم خون کتوں کے لیے اور آنتیں چیل کووں کے لیے۔ شریفوں کے کھانے سے جو کچھ بچ جاتا تھا۔۔۔ سڑے ہوئے پھل سوکھی روٹیاں۔۔۔ وہ نابدان کے حصے میں آتا تھا۔ دوپہر کو جب آمدورفت کچھ کم ہو جاتی تھی تو اپنے کتوں کی مدد سے اندھے اس کا جائزہ لیا کرتے تھے۔ گوشت خور کتے سڑی گلی ترکاریاں اور پھل اپنے اندھے دوستوں کے آگے ڈال دیتے تھے اور وہ اسے ایک نعرہ مسرت کے ساتھ حلق کے نیچے اتار لیتے تھے۔ پھر وہ جھوم جھوم کر سڑک پر چلنے والوں کو دعائیں دینے لگتے تھے۔
اس طرح اندھیرا ہو جاتا تھا۔ وہ بھینسا گاڑی آتی تھی اور یکے بعد دیگرے ان اندھوں کو لاد کر اپنے ٹھکانے لے جاتی تھی۔ وہاں پہنچ کر چودھری ان سب کی جامہ تلاشی لیتا تھا۔ ہر فقیر کو روز کم از کم چونی کمانا ہی پڑتی تھی۔ اگر کوئی اس سے کم لاتا تو اسے کھانا نہیں ملتا تھا اور مار الگ پڑتی تھی۔
محلہ کے بھٹیار خانوں میں برتنوں سے جو جھوٹا بچ رہتا تھا وہ ایک جگہ جمع کر کے اندھوں کے لئے بھیج دیا جاتا تھا۔ ان کے چمبل میں چسی ہوئی ہڈیوں پسیجے ہوئے چاولوں اور باسی روٹیوں کا ڈھیر لگ جاتا تھا۔ کتے چمبل میں منہ ڈال کر ہڈی نکالتے تھے اور اسے جبڑے میں دبا کر اس طریقے سے چباتے تھے۔ گویا کوئی پکا گویا الاپ رہا ہو۔ اندھے انہیں دیکھ نہ سکتے تھے۔ جب آواز سے پتہ چلتا بھی تو وہ ایک آدھ بار دھتکار کر چپ ہو رہتے تھے۔ کتوں کے سوا ان کا ہمدم اور غمگسار کون تھا۔ کہیں وہ بھاگ نہ جائیں۔
پھر وہ پھٹی اور سیلی ہوئی چٹائیوں پر اپنی گدڑیاں بچھاکر لیٹ جاتے تھے۔ اندھے ایک طرف، اندھیاں دوسری طرف اور کتے ان دونوں کے مابین سخت گیر والدین کی طرح، ایک سد سکندری قائم کر دیتے تھے۔ جب اندھے کورس میں اپنی دعائیں یاد کرتے تو پہلے تو کتے دھیان سے سنتے اور آخر میں ایک درشت آمین کے ساتھ وہ بھی ان کے ہمنوا ہو جاتے تھے۔
پھر اندھوں کی اندھیری دنیا میں خاموشی چھا جاتی تھی۔ آرتی کا گھنٹہ ہوا میں ہلکا سا ترنم پیدا کر کے چپ ہو جاتا تھا اور اذان کی آواز بھی فضا پر تھر تھرا کر کھو جاتی تھی۔ البتہ بہت دور سے اکی دکی سارنگی کی ریں ریں، مچھروں کی طرح بھنبھنا اٹھتی تھی۔
جب اندھیرا دور ہوگا تو صبح ہوگی۔ لیکن اندھوں کی دنیا میں کبھی سورج نہ چمکےگا۔ دعائیں، کوڑے، سوکھی روٹیاں اور کتے۔۔۔ یہی اندھوں کا سنسار تھا۔
ایک شام کو جب اندھے اپنی کوٹھری میں آئے تو کتوں کی بازپرس سے انہیں کسی اجنبی کی موجودگی کی اطلاع ہو گئی۔ انہوں نے اپنی حساس ناکوں کو ہر طرف گھما کر فوراً بھانپ لیا کہ ان کے گروہ میں کوئی اندھی عورت شامل ہو گئی۔
’’کیا نام ہے جی تمہارا۔‘‘
’’جمنا۔‘‘آواز میں جوانی گا رہی تھی۔
نینا جنم سے اندھا نہ تھا۔ کبھی وہ بھی آنکھ والا تھا، کبھی وہ بھی ہر رنگ کو دیکھ سکتا تھا۔ ہر صورت کو پہچان سکتا تھا۔ وہ کیمیا سازی کے کسی کارخانے کا مزدور تھا ایک روز تیزاب کی بوتل چٹخ گئی اور اس کے کچھ چھینٹے نینا کی آنکھوں میں پڑے اور وہ اندھا ہو گیا۔ کارخانہ والوں نے اسے نکال دیا۔ برسوں وہ مارا مارا پھرتا رہا اور اب یہاں آ پھنسا۔
ابھی اس کے تن میں جوانی کی رگ ماؤف نہ ہوئی تھی۔ کبھی کبھی وہ شدت سے محسوس کرتا تھا کہ تاریکی کی عمیق چادر کو پھاڑ کر کوئی چیز روشنی میں آنا چاہتی ہے۔ اگر کوئی اسے خیرات میں کچھ دیتا تو اس کی پیٹھ پھرتے ہی وہ اسے ایک گندی گالی دیتا تھا۔ وہ سوچا کرتا تھا کہ اگر اس میں قوت ہوتی تو وہ ان پیسوں کو آگ میں تپا کر ان سخیوں کے پپوٹوں پر رکھ دیتا۔ وہ بآواز بلند راہگیروں کو بد دعائیں دیا کرتا تھا اور یہ لوگ کوئی پہونچا ہوا درویش سمجھ کر اس کی عزت کرتے تھے۔
جوانی کا مقناطیس جوانی ہے جب رات بھیگنے لگی تو نینا کو نیند میں یہ محسوس ہوا کہ کوئی اس کی گدڑی کھینچ رہا ہے۔ پہلے تو وہ سمجھا کہ کوئی کتا ہے لیکن ایک نرم ہاتھ اس کے پیروں سے لگا اور وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’جاڑا لگ رہا ہے جمنا؟‘‘
’’ہاں جی۔‘‘
نینا نے اپنی گدڑی اسے اڑھا دی اور خود پیتانے بیٹھ گیا۔ اس کی زندگی بنجر زمین تھی جس میں ایک پودا خود بخود ابھرتا آیا تھا۔ نیا اندھیرے میں دیر تک خاموش بیٹھا رہا۔ اسے وہ دن یاد آئے جب اس کی رگوں میں تازہ خون بہا کرتا تھا۔ غلیل سے پانی کی کلسیوں کو توڑ دینا سر سے گھاس کے گٹھوں کو گرا دینا، لڑکیوں کے میٹھے میٹھے کوسنے۔۔۔ وہ دن اور اب!!
اندھوں کو ایسا لگنے لگا گویا جاڑے کی راتوں میں دھوپ نکل آئی ہے۔ جمنا کے بھولے گیت سن کر ان کی بے نور آنکھیں پرنم ہو جاتی تھیں، اس کی الہڑ ہنسی انہیں ایک نئی مسرت کا پیام دیتی تھی تو اندھے سہم جاتے تھے کہ کہیں وہ گر نہ پڑے۔
کئی راتیں آئیں اور گزر گئیں۔ ایک بار جب سب سوچکے تھے تو جمنا نے نینا کو اپنی زندگی کا افسانہ سنایا تھا۔
’’وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی اوراندھی ہونے کے باوجود حسین تھی۔ اس کا باپ کسی مہاجن کی دوکان پر منشی تھا۔ جب جمنا کی عمر چودہ سال کی ہوئی تو اس کا باپ مر گیا۔ کوئی ایسا نہ تھا جو بوڑھی ماں اور اندھی بیٹی کی دست گیری کرتا۔ ایک ایک کر کے تمام زیور اور برتن بنئے کی نذر ہو گئے۔ تاہم ان کے دکھ کے دن نہ بیتے۔ خستہ حالی بڑھتی گئی اور فاقوں کا طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔ پہلے تو محلے والوں میں سے کوئی ایک دو وقت روٹی دیدیتا لیکن آخر کب تک۔‘‘
انہیں دنوں جمنا کے گھر اس کی کسی دور دراز کی خالہ کا آنا ہوا۔ جانے کیوں ماں عرصہ سے اس کی آمد کا انتظار کر رہی تھی۔ کئی روز تک اماں اور خالہ ایک کونے میں بیٹھ کر سرگوشیاں کرتی رہیں۔ ایک روز ماں نے جمنا سے کہا کہ آج تجھے اپنی خالہ کے گھر جانا ہے۔ صبح سے اس کی کنگھی چوٹی ہونے لگی اور جب جمنا اپنی پراسرار خالہ کے ساتھ رکشا پر بیٹھ گئی تو اسے اپنی ماں کی ہچکیوں کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ معلوم نہیں کیوں جمنا کا دل اندر سے بیٹھنے لگا اور وہ کسی آنے والی مصیبت کے خوف سے آپ ہی آپ لرز اٹھی۔
خالہ نے جمنا کی خاطر تواضع میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھا۔ گھر پہونچتے ہی اسے طرح طرح کی مٹھائیاں کھلائیں۔ دیر تک اس کا بناؤ سنگار کرتی رہی۔ تاہم جمنا کا خوف ہرا ٓن بڑھتا ہی جاتا تھا۔
بہت دیر ہو گئی، دیا جلے، نیچے کی سیڑھیوں پر کسی کے چڑھنے کی آہٹ سنائی دی، قدم اتنے بھاری تھے کہ جمنا سمجھ گئی، کوئی مرد ہے۔
دروازہ کھلا اور خالہ جان، ’’آیئے سیٹھ،‘‘ کہتی ہوئی آگے لپکیں۔ تھوڑی دیر دونوں میں کانا پھوسی ہوتی رہی، پھر روپوں کی چھن چھن ہوئی۔ خالہ سہمی ہوئی جمنا کے پاس آئی۔ اس کے آنچل میں روپے باندھ دیئے اور اسے چمکار پچکار کر باہر چلی گئی۔
قبل اس کے کہ جمنا کچھ سمجھے، اسے اپنے منہ پر کسی جانور کا گرم گرم سانس محسوس ہوا۔ اس کے سخت ہاتھوں نے جمنا کی کلائیاں پکڑ لیں اور اسے اپنے آغوش میں گھسیٹ لیا۔
جب جمنا گھر لوٹی تو وہ عورت بن چکی تھی۔
کسی شام کو جب حسبِ دستور اندھے فقیر بھینسا گاڑی پر لوٹ رہے تھے، توگاڑی بان اور چودھری میں باتیں ہونے لگیں۔
’’چودھری اور جو بھی ہو تھی تو لونڈیا سندر۔‘‘
’’اجی، ایسی ویسی، سونے کی چڑیا تھی۔ پورے پانچ سو روپے ملے، تھوڑے نہ بہت، بھیا، لڑکی کیا تھی، گڑیا تھی گڑیا۔ آنکھ نہ ہونے سے کیا ہوا۔‘‘
نینا کے ہوش اڑ گئے۔ بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا، ’’چودھری کیا بات ہے؟‘‘
گاڑی بان زور سے ہنسا اور اس کے منہ پر کوڑے کا دستہ کونچ کر کہا، ’’بیٹا بہت مزے کئے اب چڑیا اڑ گئی۔ وہ اندھی ٹھکانے لگ گئی۔ اب لکیر پیٹا کرنا۔‘‘
چودھری نے گاڑی بان کے ہاتھ سے کوڑا لیا اور نینا کو بیدردی سے پیٹنا شروع کیا۔ لیکن نینا بے حس و حرکت بیٹھا رہا۔ وہ کیوں روئے کیوں تڑپے، اب زندگی میں رہ کیا گیا تھا۔ اس کی دنیا ایک مرتبہ پھر روشن ہوئی تھی لیکن آج وہ جوت سدا کے لئے بجھ گئی۔
سورج مغرب میں ڈوب چکا تھا اور بجلی کے قمقمے گھنگھرؤں کی طرح ہوا میں ناچ رہے تھے۔
نینا نے کھانے کو ہاتھ بھی نہ لگایا۔ جب چودھری کا بیٹا فقیروں کے چنبل میں ٹکڑے ڈال کر باہر چلا گیا تو وہ چپکے سے اٹھا، لکڑی ہاتھ میں لی اور باہر نکل گیا۔
سٹرک چل رہی تھی۔ اندھا لپکا ہوا ایک گلی میں گھسا اور اس بھول بھلیاں میں غائب ہو گیا۔
ہر راہ گیر سے وہ پوچھتا، بھائی تم نے کسی اندھی بھکارن کو ادھر جاتے دیکھا ہے؟ کوئی حقارت سے اسے گھور کر چلا جاتا تھا، کوئی ایک دھپ جما دیتا تھا، کوئی ہنس پڑتا تھا، جب کوئی سنسان سڑک آتی تو اندھا اپنی بے بصر آنکھیں آسمان کی طرف اٹھاکر نحیف آواز میں ’’جمنا جمنا‘‘پکارنے لگتا تھا۔
آدھی رات گزر گئی اور نینا چلتے چلتے تھک گیا۔ جھولا سرہانے رکھ کر وہ فٹ پاتھ پر لیٹ گیا اور فوراً ہی سو گیا۔ معلوم نہیں وہ کب تک سوتا رہا لیکن سینکڑوں آدمیوں کے شور غوغے نے اسے چونکا دیا۔ پہلے تو وہ سمجھا ہی نہیں کہ ماجرا کیا ہے، لیکن جب تابڑ توڑ کئی لٹھ اس کے سر پر پڑ چکے تو اسے معلوم ہوا کہ پولیس والوں کی لاٹھیاں۔۔۔ قسمت سے زیادہ جابر اور دوست سے زیادہ بے مروت! پولیس کی لاٹھیاں۔۔۔طوفان سے زیادہ تیز اور امیروں سے زیادہ بے حس! فٹ پاتھ پر سونے والے آوارہ گردوں کی سرزنش کے لئے آج پولیس کا معیادی ’’ہلہ‘‘ نکلا تھا۔
اندھا بھکاری کہاں بھاگتا۔ وہ سر پر ہاتھ رکھ کر پکارتا رہا، ’’بابا میں اندھا ہوں۔‘‘ لیکن لاٹھی بھی اندھی ہوتی ہے۔
جب یہ آندھی گزر چکی تو نینا آگے بڑھا۔ اس کے سراور منہ سے خون بہہ رہا تھا۔ چلتے چلتے وہ کئی بار گرا اور پھر اٹھ کر چلنے لگا۔
جب وہ اس سڑک کے موڑ پر پہونچا تو اسے سامنے کوٹھے سے گانے کی آواز سنائی دی۔ اندھے کی روح کانپنے لگی۔ یہی وہ آواز تھی جس کی جستجو میں وہ مارا مارا پھر رہا تھا لیکن یہ آواز کہاں سے آ رہی تھی؟
گیت کی تان وحشیانہ قہقہوں میں ڈوب جاتی تھی۔ بیچ بیچ میں بوتلیں اوپر سے نیچے گر کر چکنا چور ہو جاتی تھیں۔
آسمان سے ایک تارا ٹوٹا، اس نے اندھے کو دیکھا، اندھا اسے نہ دیکھ سکا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.