Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اندھا الو

سفینہ بیگم

اندھا الو

سفینہ بیگم

MORE BYسفینہ بیگم

    وہ کھانا کھاکر بستر پر دراز ہوا تو بہت سے مسائل نے اس کے دماغ میں یلغار کردی ہر ایک مسئلہ اس کے سامنے مختلف روپ دھارے کھڑا تھابنیادی ضرورتوں کی بے تحاشہ فکر نے مجسم صورت اختیار کرلی تھی جو آسیبی شکل میں ہمہ وقت اس کے اردگرد چکر لگایا کرتیں اور دن ورات اس کا پیچھا کیا کرتیں کبھی اس کی جانب دیکھ کر ہنستیں، کبھی منھ چڑھاتیں، کبھی اس کی حالت پر آنسو بہانے لگتیں اور ان کے یہ آنسو خود اس کے جسم کے تہہ خانے میں ٹپکا کرتے، ان کے مسلسل ٹپکنے سے جسم میں ایک گہرا گڈھا ہوگیا تھا اس نے ذہن کو جھٹکا تو تمام افکار دماغ کے کونے کھدڑوں میں سہم کر بیٹھ گئے لیکن ان کے چہروں پر طنزیہ مسکراہٹ موجود تھی۔ اسے نیند آگئی

    وہ سو کر اٹھا تو کمرے میں گھپ اندھیرا تھاہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا اس نے آنکھیں پھیلا کر اور پھرمینچ کرکسی بھی چیز تک رسائی چاہی لیکن اندھیرا اپنے حقیقی رنگ سے بھی زیادہ گہرا تھا اس نے گھر کے لوگوں کو آواز دی۔ حلق خشک ہوچکا تھا اور پانی کی طلب نے پیٹ میں آگ لگا رکھی تھی اس نے کئی مرتبہ آوازیں لگائیں مگر کوئی نہیں آیا وہ دروازے کی جانب اندھے کی مانند ہاتھ چلاتا ہوا بڑھا اور پکی اینٹوں کی مضبوط مگر کھردری دیوار پر اس کا ہاتھ جا پڑاوہ دیوانوں کی طرح ادھر ادھر دروازے کا ہینڈل ٹٹولنے لگا جو موجود نہیں تھااسے یہ اندھیرا اپنے وجودکے اندر گہرا اترتا ہوا محسوس ہوا وہ کھڑکی کی جانب مڑاکہ اسے کھول کر زور سے چِلّائے تاکہ گھر کے مکین کمرے میں دوڑے چلے آئیں وہ یقین کے ساتھ کھڑکی کی طرف گیا اور اس کا سر زور سے دیوار سے ٹکراگیا۔ وہ سر پکڑکر بیٹھ گیا۔

    کیا مصیبت ہے یہ آخر کیا ہوگیا ہے۔۔۔ کیا میں اندھا ہوگیا ہوں۔ اس خیال سے اس کے کان کی لَو گرم ہوگئی اس نے اپنی آنکھوں کو رگڑا۔ وہ ٹٹولتا ٹٹولتا غسل خانے کی جانب بڑھا۔ پیٹ میں گھبراہٹ نے گھر بنا لیا تھاچھوٹے چھوٹے بلبلے جسم میں اوپر سے نیچے تک سرپٹ دوڑ رہے تھے۔ غسل خانہ ندارد، وہ پیٹ پکڑ کر وہیں بیٹھ گیا اور اس زور سے چیخ ماری کہ پیشاب خطا ہوگیاوہ پسینے میں ڈوب گیا اور بری طرح رونے لگا۔ جسم سے خارج ہونے والی ان تینوں سیال اشیا نے کافی حد تک بدن کو خالی کردیا تھا اس نے اٹھنے کی کوشش کی، پتلون گندگی میں لت پت ہو چکی تھی، قمیص بھی جگہ جگہ سے چپکنے لگی تھی اس نے کپڑے اتارے اور بستر کی طرف بڑھا تاکہ لیٹ کر کچھ سکون محسوس کرے اور آگے کے لیے عملی قدم اٹھائے لیکن اس کا پلنگ اپنی جگہ موجود نہیں تھا، سنسناہٹ اس کے جسم میں تیر گئی بلکہ کافی دیر تک یوں ہی چکر کاٹتی رہی آخر کار دماغ کے کسی اندھیرے گوشے میں غائب ہوگئی وہ چند لمحے اسی طرح ساکت کھڑا رہا۔

    مجھے سمجھ نہیں آرہا ہے یہ سب۔۔۔ کیا میں خواب میں ہوں یا مر چکا ہوں۔ کل تو سب کچھ ٹھیک تھا تمام اشیا اپنی جگہ پر صحیح سالم تھیں۔ اس نے دوسرے ہاتھ پر تیزی سے چٹکی لی، سر کو جھٹکالیکن اب بھی اسی اندھیرے میں خود کو پایااس نے حواس کو مجتمع کیا اور سوچنے لگا زمین بھی میرے نیچے باقی ہے کہ نہیں۔ اس نے جھک کر زمین کو چھوا اور دوزانو بیٹھ کر غور کرنے لگا

    آخر یہ سب ہوا کیسے مجھے اچھی طرح یاد ہے رات میں میں اپنے کمرے میں آیا تھا پھر غسل خانے میں گیا تھا تیز آندھی چلنے کی وجہ سے کھڑکی بند کی تھی المای سے کپڑے نکال کر تبدیل کیے تھے اور کھانا کھا کر لیٹ گیا تھا یہی میرے روز کا معمول تھا میں آنکھیں بند کرکے بھی یہ سب کام بآسانی کرسکتا ہوں یہاں تک کہ اندھیرے میں بھی، مگر یہ اندھیرا نامعلوم اور غیر معتبر ہے اس سے میں پہلی مرتبہ واقف ہواہوں میں نے اتنا گہرا کالا بھجنگ اندھیرا کبھی نہیں دیکھایہاں تک کہ خواب میں بھی نہیں، کیا رات کی آندھی نے کمرے کو تلپٹ کردیا ہے لیکن یہ تلپٹ کس قسم کا ہے یہاں تو کچھ بھی موجود نہیں ہے شاید یہ کچھ اور ہے۔ وہ بہت دیر تک یوں ہی بیٹھا دھاگوں کو جوڑتا رہااسے ہلکی ٹھنڈ کا احساس ہوااور اپنی الماری میں رکھے کپڑے ذہن کے افق پر رقص کرنے لگے اسے اپنے ننگے پن پر شرم محسوس ہوئی وہ پر امید الماری کی جانب بڑھا اور ایک بار پھر دیوار سے ٹکراگیا لیکن اس نے ہار نہیں مانی اور ٹٹوٹلتا ہوا آگے بڑھا، یوں اس نے پورے کمرے کا چکرلگا ڈالا۔ وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو دیوار پر پھیلا کر چل رہا تھاوہ ذہنی طور پر تھک چکا تھا اور اعصاب شل ہوگئے تھے۔

    میں اتنا کمزور تو نہیں ہوں مگر اس سے کمزور ہونے کا کیا تعلق، یہ سازوسامان یہ اشیا تو میری زندگی کا حصہ تھیں ان کے بغیر تو جینا ناممکن۔۔۔ اور ان حالات میں زندگی کو کیسے ممکن بنایا جاسکتا ہے یہاں تو زندگی کاٹنا بھی مشکل ہے آخر میں کیا کروں۔ وہ اپنا سر پکڑ کر تیز تیز چکر کاٹنے لگا اور تھکن سے چور ہوگیا بھوک نے شکم میں انگڑائی لینا شروع کی اور کچھ ہی دیر میں پیٹ سے عجیب و غریب آوازیں آنے لگیں۔

    ہوسکتا ہے گلاس میں رات کا بچا پانی موجود ہو۔ وہ آہستہ آہستہ قدم بڑھاتا آگے چلا اور آگے تھوڑا اور آگے، کچھ اور آگے بڑھا ہی تھا کہ اس کے تلووں میں کانچ کے ٹکڑوں نے جلن پیدا کردی وہ لڑکھڑا کر وہیں بیٹھ گیا اس کا پیر زخمی ہوگیاتھا۔

    میں پاگل ہوگیا ہوں۔۔۔ آخر میں یہ کیوں بھول جاتا ہوں کہ کوئی بھی چیز اپنی جگہ موجود نہیں ہے بلکہ باقی ہی نہیں بچی یا سرے سے غائب ہوگئی ہے۔ میری زندگی نیچے کی اوپر اور اوپر کی نیچے ہوچکی ہے۔ کاش میں آنکھ کھلنے سے پہلے ہی مرگیا ہوتابلکہ پیدا ہی نہیں ہوتا، زندگی تو خود مجھے مار رہی ہے، اب زندگی سے لڑنا اوراپنی چیزوں کو واپس پانے کے لیے لڑتے لڑتے مرجانا ہی میرا مقدر ہے۔ یہ میں کون سی دنیا میں آگیا ہوں کیا مجھے اب یہیں رہنا پڑے گا، وہ مسلسل روتے ہوئے بڑبڑائے جا رہا تھااس کو اچانک کانچ کے ٹکڑوں کا خیال آیا اور دماغ میں ایک جھماکا سا ہوا۔ یہاں کچھ بھی نہیں بچا سوائے ان کانچ کے ٹکڑوں کے، کیا وجہ ہو سکتی ہے، زمین پر کچھ نہیں ہے دیواریں خالی ہیں صرف ایک چھت باقی رہ گئی ہے۔ اس نے دماغ پر زور دیا ہے مگر کچھ سمجھ نہیں آیا۔ آخر اوپر کوئی بھی چیز کیسے چلی جائے گی میں بھی بیوقوف ہوں، ویسے بھی چھت تک پہنچنا ممکن نہیں۔۔۔ ہاں اگر چھت تک پہنچا نہیں جاسکتا تو محسوس تو کیا جا سکتا ہے، خدا کا شکر ہے، میرے حواس نے کام کرنا بند نہیں کیا ہے۔

    اس نے کانچ کا ایک ٹکڑا ہاتھ میں پکڑا اور پوری قوت سے اوپر کی جانب اچھالا جو کسی چیز سے ٹکرا کر واپس آگیا اسے کچھ اندازہ ہو ا اور اس کے سارے حواس کان کے راستے دماغ کی خالی جگہوں کو پُر کرنے لگے وہ آنکھیں بند کرکے ٹکرانے کی آواز کی قسموں کو اپنے اندر اتارنے لگا ایک بڑے ٹکڑے کو اس نے کئی مرتبہ الگ الگ سمتوں میں اچھالا اور محسوس کیا اب اس نے کانچ کے ہر ٹکڑے کے ساتھ اشیا کا اندازہ لگانا شروع کیا۔ بستر، لکڑی کی کوئی چیز، کوئی کپڑا، شیشا، برتن اور اس مرتبہ جب کانچ کا ٹکڑا واپس لوٹ کر نہیں آیاتو اس نے گھبراکر آنکھیں کھول دیں تو کیا حقیقت میں سب تلپٹ ہوگیا ہے۔ لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے، کیا میں کسی جادوئی دنیا میں آگیا ہوں جہاں جادوگر کی چھڑی نے سب کچھ الٹ پلٹ کردیا ہے۔ وہ بار بار اپنی آنکھوں کو مسلتا اور پھیلاتا، اس کی تمام اشیا اس کے دسترس سے دور تھیں اس کا سر چکرانے لگا، ٹھنڈے ٹھنڈے پسینے آنے لگے، پیر کانپنے لگے اوروہ دھڑام سے زمین پر گرگیا۔۔۔ یکایک کمرے کی اوپری سطح پرجہاں کھڑکی کھلی ہوئی تھی ایک اندھا اُلّو پر پھڑپھڑاتا ہوا آیااور لڑکے کی حالت دیکھ کر مسکراتاہوا تیزی سے اڑگیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے