اندھ وشواس
مجھے اس کا لونی میں آئے زیادہ دن نہیںہوئے تھے اس لیے آس پاس والوں سے ابھی تک راہ و رسم استوار نہیں ہوئی تھی ۔ وقت گزاری کے لیے میں سارا دن پڑا اخبار پڑھتا رہتایا کسی رسالے کا مطالعہ کرتا رہتا۔ کبھی کبھی میری نظریں سامنے والے فلیٹ کی طرفاٹھ جاتیں کیونکہ ادھر ہونے والا شوو غل مجھے اس طرف متوجہ ہونے پر مجبور کر دیتا تھا۔ شروع شروع میں یہ شور شرابا مجھ کو بہت گراں گزرتا۔ کبھی ایسا ہوتا کہ بچوں کی چیخ پکار سے میں سوتے میں چونک کراٹھ جاتا۔ عجیب مصیبت تھی سوچتا یہ میںکہاں آپھنسا ۔ دل چاہتا اسی وقت گھر چھوڑدوں ۔ لیکن دوسرا مکان تلاش کرنا آسان نہ تھا۔ اور اس وقت میری جھلّا ہٹ انتہا کو پہنچ جاتی جب صبح صبح میں میٹھی نیند کے مزے لے رہا ہوتا تبھی سامنے کے فلیٹ سے آتی ہوئی پاٹھ اور شنکھ کی آوازیں میرے خوشگوار خواب کے سارے مزے کرکرے کر دیتیں۔ نینداچٹ جاتی تو میں بالکونی میں جاکر کھڑا ہوجاتا۔ سامنے لڈّو اور پھلوں سے بھری تھالی رکھی ہوتی ۔ ایک تلک دھاری پنڈت زور زور سے اشلوک پڑھ رہا ہوتا او راصلی گھی کی اشتہا انگیز خوشبو پوری فضا میں پھیلی ہوتی۔ اس فلیٹ میں تقریبا ًایک درجن سے زیادہ افراد رہتے تھے ۔ لڑکے لڑکیوں سے گھر بھرا پڑا تھا۔ لڑکیاں ساری بڑی تھیں جن میں بعض جوانی کی حدود میں داخل ہوچکی تھیں ۔ بعض ان حدود کو چھو رہی تھیں۔ انھی میں ایک لڑکی کا نام لبلی تھا۔ غالباً یہ لَولی کی بگڑی ہوئی شکل تھی۔ وہ اپنی سب بہنوں میں بہتر تھی ۔ ویسے خوبصورت کہے جانے کی مستحق نہ تھی ۔ لیکن اپنے نام کے حساب سے پیاری ضرور تھی ۔ اور ہر پیاری شے تو جہ طلب ہوتی ہے اس لیے میری نظریں بار بار اس پر جا کر ٹک جاتیں۔ پھر رفتہ رفتہ میں اس ماحول کا عادی ہوتا گیا۔ زندگی اپنے معمول پر آتی گئی۔ میرا آدھا وقت کالج میں گزر تا اور آدھا وقت گھر پراورچونکہ ابھی نئی نئی تقرری ہوئی تھی تو لکچر دینے کے لیے مجھے خاصی تیای کرنی پڑتی تھی۔ میں اسی میں مشغول رہتا ۔ شور وغل اور ہنگامہ بدستور ویساہی تھا لیکن چونکہ اب میں اس کا عادی ہوچکا تھا۔ لہٰذا میرے شب و روز کے معمول پر یہ زیادہ اثرا نداز نہیں ہوتا۔
ادھر کئی دنوں سے سامنے کے فلیٹ میں بڑی شانتی تھی ۔ مجھے اس خاموشی کی وجہ سمجھ میں نہیں آرہی تھی ۔ اتفا ق سے ایک دن کالج سے آرہا تھا تو وہیں پنڈت نظرآگیا ۔ میں نے کہا۔
” کہئے پنڈت جی! سب کشل منگل تو ہے نا ؟ کئی دنوں سے درشن نہیں دیئے؟“
وہ حیرت سے مجھے دیکھنے لگا ۔ میں نے کہا ۔
”آپ مجھے نہیں جانتے لیکن میں آپ کو اچھی طرح جانتا ہوں اور صبح صبح آپ کا اشلوک سن کر تو میں دھنیہ ہوجاتا ہوں۔ آخر کئی دنوں سے کہاں غائب تھے ؟“
”در اصل لڑکی کو تیرتھ استھان لے جایا گیا ۔ بڑے بڑے گیانی پنڈت اوجھا سے جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈا دلوانے کے لیے ۔“
” کون لڑکی ؟“
”وہی جس پر بھوت آتاہے ۔“
”اوہ! گو یا آپ بھوتاتارنے میں ناکام رہے۔ ویسے آپ کتنے دنوں سے یہ کام کر رہے ہیں ؟“
”وہ تو جب سے ہوش سنبھالا ہے تب ہی سے۔ یہ تو میرا خاندانی پیشہ ہے۔“اس نے بڑے فخر سے کہا۔
”ایسے کام نہیں چلے گا پنڈت جی کچھ اور دھیان گیان پراپت کیجیے۔ “
پنڈت نے تو اپنی راہ لی او رمیں دیر تک یہ سوچتا رہا کہ ہو نہ ہو یہ بھوت والی لڑکی لولی ہی ہے کیونکہ وہ کچھ دنوں سے نظر نہیں آرہی ہے ۔
پھر گرمیوں کی چھٹی میں گھر چلا گیا ۔ وہاں تقریباً دو ماہ میرا قیام رہا۔ اس درمیان اکثر لولی کی معصوم صورت میرے ذہن کے پر دے پرابھر آتی۔ نہ جانے اس بیچاری کا کیا حشر ہوا۔ بھوت پریت پر تو مجھے یقین نہیں لیکن کوئی نہ کوئی افتاد اس پر ضرور آپڑی ہے۔ چھٹی گزار کر جب میں واپس آیا تو حسب سابق اکثر میں بالکونی میں آکر کھڑا ہوجاتا اور غیر ارادی طور پر میری نظر اس فلیٹ کی طرف اٹھ جاتی لیکن لولی کہیں نظر نہ آتی۔
ایک رات میں گہری نیند میں سویا ہواتھا کہ کسی کے رونے کی آواز سے میر ی آنکھیں کھل گئیں ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی کسی کو زور زور سے مار رہا ہو کیونکہ رونے کی آواز دردناک چیخ میں تبدیل ہوتی جارہی تھی ۔ میںنے اس طرف سے اپنا دھیان ہٹا کر پھر سے سونے کی کوشش کی لیکن کافی دیر تک مجھے نیند نہیں آئی۔
اس دن کے بعد سے تو یہ آواز رات کے سناٹے کو چیر تی ہوئی روز ہی سنائی دینے لگی ۔آواز کی سمت کا اندازہ کر کے میرا دل بے چین ہوجاتا۔ بچپن سے سنتا آیا تھا کہ اکثرجوان لڑکیوں پر بھوت کا سایہ ہو جاتا ہے اور عموماً رات کے و قت جب بھوت اسے اپنے خوفنا ک پنجوں میں جکڑ لیتاہے تو وہ رونے لگتی ہے۔ پھر اسے لات اور جوتوں سے مار مار کر بھگانا پڑتاہے ۔ یہ خیال آتے ہی میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے او رمیں بڑے ہی دکھ سے سوچنے لگتا کہ اکیسویں صدی میں جبکہ دنیا ترقی کی طرف گامزن ہے کمپیوٹر اورانٹر نیٹ کی اس مشینی دور میں جہالت کا یہ عالم ۔
یہ مُلّاپنڈت کچھ ساد ہ لوح او رمعصوم لوگوں کو جہالت کا پاٹھ پڑا کر اپنا الّو سیدھا کرتے ہیں اور دونوں ہاتھوں سے انھیں لوٹتے ہیں ۔
پھر ایک دن میں نے ایک عجیب تماشاد یکھا ۔ کئی پنڈت لڑکی کو گھیرے میں لیے ہوئے تھے ۔ اس کے بال کھول دیئے گئے تھے اور اسے ایک کالا لباس پہنا دیا گیا تھا ۔ وہ لوگ کچھ پڑھ پڑھ کر اس کے کانوں میں پھونک رہے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ کچھ پوچھتے بھی جارہے تھے۔ لڑکی نہیں کے اشارے میں سرہلا رہی تھی۔ کرب کے آثار اس کے چہرے پر نمایاں تھے۔ پھر ان کی آواز تیز ہوتی گئی۔
” بول کیا چاہتا ہے ؟ کنیا کو چھوڑے گا کہ نہیںکیا بھینٹ لے گا؟ “ایک پنڈتاٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ یہ ایسے نہیں مانے گا۔لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔“اتنا کہہ کر اس نے نیم کی بڑی سی چھڑیاٹھائی اور اسے لڑکی کی پیٹھ پر توڑنا شروع کردیا۔ لڑکی نڈھال ہو کر ایک طرف لڑھک گئی ۔ وہ شاید بے ہوش ہوگئی تھی ۔ میری نگاہیںجوا یک پل کے لیے بھی ادھر سے ہٹ نہیں رہی تھیں ،اس اذیت ناک منظر کی تاب نہ لا کر جھٹ بند ہوگئیں۔ یہ منظر بڑا ہی انوکھا او ردردناک تھا۔
ایک شام میں ادھر سے گزر ہا تھا تو دیکھا کئی آدمی لولی کو پکڑ کر گاڑی میںبٹھا رہے تھے۔ اسے دیکھ کر ایک لمحہ کے لیے میرا دل دھڑکنا بھول گیا۔ ایسا لگا جیسے کوئی خزاں رسیدہ زرد پھول ہو۔ کیایہ وہی لولی ہے جس کے چہرے پر شفق پھوٹتی تھی؟ اب نہ وہ روپ تھا نہ رنگ۔ جسم سوکھ کر کانٹا ہو گیا تھا جس میںکوئی حلاو ت باقی نہ رہی تھی ۔ شاید اسے ہاسپیٹل لے جایا رہا تھا۔ انھیں عقل توآئی تھی لیکن دیر سے ۔ اور بالآ خروہی ہو اجس کا مجھے اندیشہ تھا ۔ لولی اندھ وشواس کی بھینٹ چڑھ گئی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.