Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آنگن میرے گھر کا

خورشید حیات

آنگن میرے گھر کا

خورشید حیات

MORE BYخورشید حیات

    نام تو اس کا جمیلہ تھا مگر محلّے کی ساری عورتیں اسے پیار سے جمالو پکارا کرتی تھیں۔ وہ آج بہت تھکی تھکی سی تھی، دفتر سے آتے ہی اس نے اپنی بھیگی بھیگی سی تھکن کو باہر الگنی پر ٹانگ دیا اور ریشمی بستر کو چھوڑ، فرش پر پسر گئی۔ گھر میں پھیلے سناٹا نے جب اسے دیکھا تو گلہری کے سہمے ہوئے بچوں کی طرح، آنگن میں کھڑے نیم کی شاخوں میں دبک گیا اور وہ تھی کہ فرش کے ایک کونے میں رکھی کوئلے جیسی تحریروں میں چھپی چنگاری کو تلاش کرنے لگی کہ زندگی جب پائی۔ چوپائی کی طرح ہو جاتی ہے تو اس کی آنچ، آگ کی لپٹ بن جاتی ہے۔

    بھس میں چنگی ڈالو جمالو فرش پر پسری۔

    اس کے ہونٹ ہلتے ہیں اور الفاظ، حرف حرف بکھر کر زوردار قہقہہ لگاتے ہیں۔

    او میا موری دھرتی کاندوچھی/رو رہی ہے۔

    زمین ہو یا عورت کب روتی ہے؟

    زمین زلزلوں سے کب ہلائی جاتی ہے؟؟

    فرش پر گھلٹتے ہوئے اسے محسوس ہوتا ہے کہ دفتر میں کام کرنے والوں کی کیکٹس نگاہوں کا زہر اس کی شریانوں میں سرایت کرتا جا رہا ہے اور جسم۔ روح کی پاکیزگی کے باوجود شکوک و شبہات کی نگاہیں راہوں میں ابھی بھی انتظار کر رہی ہیں۔

    اس کی سہیلی پرتیبھا نے اسے ایک دن لنچ بریک میں بتایا تھا کہ اس کے بینک کا برانچ منیجر یہ چاہتا ہے کہ وہ بیک وقت نسوانی حسن کی پیکر بنی رہے، کسٹمر سے اچھا رویہ اختیار کرے اور مرد لباس میں کتوں کی طرح کام کرے۔ وہ ایسا نہیں کر پائی تو آج بھی اسے کوئی پرموشن نہیں ملا۔

    اف، وہجو کائنات کے لئے وجہہ سکوں تھی جمیلہ سے جمالو تو بن گئی۔ مگر اس بازار کا حصہ نہیں بن پائی، جہاں نسوانی جسم کو چھلنی کرنے والی دکانیں ہیں۔

    جمیلہ کا جمالو سے مکالمہ ابھی جاری ہی تھا کہ دروازہ پر دستک ہوئی۔ وہ اجیار بن فرش سے اٹھتی ہے۔ اس نے دروازہ کھولا تو سامنے مینا سے امینہ بن چکی کام کرنے والی بائی کھڑی تھی۔

    ارے یہ کیا، دفتر سے آ کر بی بی جی آپ نے ابھی تک کچھ کھایا نہیں؟

    نہیں رے امینہ، گھر کے آنگن کی یاد آ رہی تھی اور اس کنواں کی جس کا پانی گاؤں کی ساری عورتیں مٹکے میں بھر کر لے جایا کرتی تھیں۔

    چھوڑو بی بی، اب نہ تو وہ چھلکنے والی گگری ہے اور نہ ہی کنواں۔ ابھی تو؟؟ لیٹر پانی کا گیلن خرید کر نفیسہ باجی کو دے کر آئی ہوں۔

    جب کچھ نہیں تھا تو پانی تھا اور سطح آب پر صرف تم تھے آج سب کچھ ہے مگر پانی نہیں۔ وہ بڑبڑای۔

    بی بی جی ہمارا کوئی آنگن نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی کنواں

    ٹھیک کہہ رہی ہو امینہ، جب سے گھر سے آنگن غائب ہوا ہے ہم ان پرندوں کی طرح ہو گئے ہیں جس کے پنکھ تو نہیں کترے جا سکے، ہاں گھروں کے وہ روشن دان ضرور چھین لئے گئے جہاں ہم گھونسلوں کو بنایا/سجایا کرتے تھے۔

    امینہ میری باتوں کی طرف دھیان دئے بغیر ہاتھ میں جھاڑو لے کر کچن کی طرف چلی گئی۔

    تبھی دیگچی کے لڑھکنے کی آواز کچن سے ابھری، شاید کہ ٹھوکر لگی ہوگی امینہ کے پاؤں سے کہ دھلنے کے بعد سارے برتن کو وہ ہمیشہ زمین پر اوندھے منہہ چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔

    زمین پر لڑھکتے برتنوں کا ارتعاش

    وہ بڑبڑانے لگی۔

    نئی انگنائی

    نئی پروائی

    اور ایک نئے کنواں کی تلاش

    اردا بیگنی کو باہر نکلنا ہوگا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے