انگوٹھی
کہانی کی کہانی
یہ کہانی ایک پنڈت کو مغل سردار کی تیمارداری کے عوض بطور انعام ملی ایک انگوٹھی کے گرد گھومتی ہے۔ وہ انگوٹھی کئی اہم واقعات کی گواہ بنتی برہمن خاندان میں نسل در نسل گزرتی ہوئی اس خاندان کےایک داماد کے ہاتھوں تک پہنچ جاتی ہے۔ وہ انگوٹھی کسی طرح ایک ڈاکو کے ہاتھ لگ جاتی ہے اور پھر اسے ایک پولس والا اڑا لے جاتا ہے۔ پولس والے کے ہاتھ سے نکل کر انگوٹھی منسٹر کے پی۔ اے کے ہاتھ میں جا پہنچتی ہے اور پی۔ اے سے انگوٹھی منسٹر لے لیتا ہے۔ اب وہ انگوٹھی منسٹر کے انگلیوں کی رونق تھی، جو اس بات کی ضمانت تھی کہ جس کسی کے پاس وہ انگوٹھی ہوگی، وہ ہر پریشانیوں سے دور رہےگا۔
اس غریب برہمن کسان کے گھر پکھراج کی وہ قیمتی انگوٹھی کہاں سے آئی یہ بھی دراصل ایک داستان ہی تھی۔ وہ غریب کسان دراصل اتنا غریب بھی نہ ہوتا اگر وہ چمپارن میں نہ ہوتا اور نیل کی کاشت کرانے والے نلہے صاحبوں نے اسے محتاجی کی کگار پر نہ لاکھڑا کیا ہوتا۔ زمین تو اس کے پاس اچھی خاصی تھیں لیکن نیل کی جبری کاشت اور اس کاشت کی وجہ سے باقی زمینوں کی زرخیزی کم ہوجانے کی وجہ سے وہ تقریباً تباہ ہوگیا تھا۔
کسان کے پردادا یا شاید لگڑدادا، گاؤں کے پروہت تھے۔ ججمانی سے کچھ زمینیں مل گئی تھیں اور وہ کیتی کرنے لگے تھے۔ برہمنوں نے تو چھتری دھرم تک نبھایا ہے پھرکھیتی کسانی تو ہمیشہ سے ہوتی چلی آئی تھی۔ رشیوں منیوں تک کے پاس کھیت ہوا کرتے تھے۔ ایک زمیندار نے بڑی خوبصورت، تنومند گائے دان کی تھی۔ وہ بھی بندھی ہوئی تھی اور بیانے کے بعد اچھا دودھ دے رہی تھی۔ تبھی ان کے دروازے پر وہ زخمی مغل سردار اپنی ہی طرح کے بھوکے پیاسے، زخمی گھوڑے پر سوار آن کر گرپڑا تھا۔ بزرگ برہمن نے اسے اٹھایا۔ گھوڑے کو گائے کے بتھان کے پیچھے آم اور کیلے کے جھنڈ میں چھپا دیا۔ دھان کے کوٹھار میں ان دنوں بھوسہ بھرا ہوا تھا۔ وہاں کتھری بچھاکر مغل بچے کو رکھا اور گاؤں کے وید کو بلایا۔ بزرگ پنڈتائن نے معترض لہجے میں کہا، ’’ترک ہے۔‘‘
’’انسان ہے۔‘‘پنڈت جی نے مختصر سا جواب دیا اور مٹی کے کلہڑ میں گیا کا دودھ لے کر کلہڑ اس کے مونہہ سے لگایا۔ وید جی بھی برہمن تھے اور زیادہ تر ویداچاریہ برہمن ہی ہوا کرتے تھے۔ دونوں نے آپس میں صلاح کی کہ اس کی خبر کسی کو نہیں لگنی چاہیے ورنہ اس مغل سپاہی کے ساتھ وہ سب بھی مع زن و بچہ مارے جائیں گے۔ اٹھارہ سو ستاون کے زلزلے کی لہریں پوری طرح بیٹھی نہیں تھیں۔ اب بھی لوگ مارے جارہے تھے، جائدادیں قرق ہو رہی تھیں۔
بھوسے دانےکے باوجود گھوڑا تیسرے دن مرگیا۔
سردار نے کہا، ’’بابا کوئی بات نہیں۔ اب ہم کون سا گھوڑے پر بیٹھ کر کہیں تیر تفنگ چلانے جارہے ہیں۔ ہمارے بادشاہ جلاوطن کردیے گئے۔ شہزادوں کے سرکاٹ کر طشت پر پیش کیے گئے۔ ہمارے جورو بچوں کی کون ہے۔ اب ہمارا گھوڑا تک مرگیا۔ ہم بھی مرجائیں گے۔ آپ کے یہاں کا پاکیزہ آب و دانہ قسمت میں لکھا تھا، جتنے دن کھالیں۔‘‘
آٹھویں دن وید جی نے کہا، ’’ انہیں کچھ اچھا کھانا کھلادو۔‘‘ برہمن میتھل تھا۔ قرض دام کرکے اس نے مچھلی پکوائی اور پوریاں اور باریک سفید باسمتی کا بھات۔ گھر کا نہایت عمدہ خشک دہی کہ انگوچھے میں باندھ کے لے چلو تو پانی نہ ٹپکے، اور گھی اور گڑ۔ کیلے کے پتل پر یہ سارا کھانا پروسا گیا۔ کھانا کھاکے سردار پوری طرح اٹھ کے بیٹھ گیا۔
’’ہمارے پاس کچھ نہیں بچا۔ زن و بچہ مارا گیا۔ گھر گوروں نے لوٹ لیا۔ بس یہ انگوٹھی ہے۔‘‘ اس نے داہنے ہاتھ کی انگشت شہادت سے سونے کی موٹی سی انگوٹھی اتاری جس میں بڑا سا پکھراج جگمگارہا تھا۔ دونوں کونوں پر دو ننھے ہیرے اور تھے۔ ’’یہ ہماری زوجہ کی سخت محنت اور محبت دونوں کی نشانی ہے۔ وہ جانہارزری کا کام نہایت عمدہ بناتی تھی۔ دن کو گھر کے سارے کام نمٹاتی، چھوٹوں کو پالتی، بڑوں کی خدمت کرتی اور رات کو چراغ کی روشنی میں مخمل کے ٹکڑوں پر پھول پتے، چاند تارے یوں بناتی کہ دیکھنے والے کی سمجھ میں فوری طور پر یہ نہ آتا کہ یہ کشیدہ کیے گئے ہیں یا چھاپے گئے ہیں۔ بدخشاں سے آکے جواہرات کے ایک سوداگر نے تین سو کشیدہ کیے ہوئےمخملی ٹکڑوں کے بدلے یہ انگوٹھی دی تھی جو اس عفیفہ نے اس لیے قبول کی کہ سوداگر نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ پتھر ہماری حفاظت کرے گا۔ وہ اس نے ہماری انگلی میں پہنائی، اب اسے آپ رکھ لیجیے۔‘‘
بزرگ پنڈت نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔ ’’ہم نے کسی بدلے کی نیت سے سیوا نہیں کی۔ ہم کچھ نہیں لیں گے۔‘‘ وہ ہنسا۔ ’’تب کس کو دیں گے آپ؟ ہمارا اور کون وارث ہے؟ گھوڑے کی زمین اور لگام کی اچھی قیمت مل جائے گی۔ وہ بیچ کر ویدجی کا پیسہ چکادیجیے گا۔‘‘
’’رام رام رام۔ وید جی گاؤں میں کسی سے بھی پیسہ نہیں لیتے۔‘‘
’’نہ لیں۔ بیٹی کا ذکر کر رہے تھے۔ اس کے بیاہ کے وقت دے دیجیے گا۔ ہماری طرف سے تحفہ ہوگا۔‘‘
’’ایسی باتیں کیوں کرتے ہیں؟‘‘
’’جلدی پتہ لگ جائے گا کیوں کر رہے ہیں۔‘‘ اس نے انگوٹھی زبردستی مٹھی میں پکڑا دی۔ بس یوں سمجھ لیجیے ہم آپ کے پاس رکھ رہے ہیں۔ جی بچ گئے تو واپس کردیجیے گا۔ اس سے گھوڑا خریدلیں گے اور چل دیں گے۔ مر گئے تو آپ کی۔‘‘ بزرگ برہمن نے آبدیدہ ہوکر انگوٹھی رکھ لی۔
دوسرے دن علی الصبح سردار نے اپنے چاروں طرف پھلوں کے باغات دیکھے۔ سردے اور سرخ انار اور انگور او ر خوبانیاں اور سونے کے طشت اور چاندی کے ظروف میں بہترین شراب جیسے شفتالو کے درختوں کے نیچے بادام جیسی آنکھوں والی حسینائیں رقص کرتےہوئے پیش کر رہی تھیں اور ان سب کے درمیان کیلے کے پتل پر سوکھا دہی اور گڑ اور گھی پروسا ہوا تھا (دہی جسے انگوچھے میں باندھ کر لے جایا جائے تو ایک بوند پانی نہ ٹپکے) اور ساتھ میں بھنی ہوئی مچھلی اور پھولی ہوئی سنہریاں پوریاں۔
دہی مچھلی کی صدائیں سنتے، دل میں کلمہ طیبہ دوہراتے اس مغل سپاہی نے اس دار فانی سے کوچ کیا۔ بزرگ برہمن نے گاؤں کی مسجد کے پیش امام کو بلایا جو اس سے بھی زیادہ بوڑھے تھے۔ ان کی بھویں اور پلکیں تک سفید ہوگئی تھیں۔ وہ زیادہ تر روزے سے رہا کرتے تھے۔ بھوسہ گھر سے رات کے کسی پہر بھوسہ ہٹاکر وہاں قبر کھودی گئی۔ امام صاحب نے نماز پڑھائی اور سپاہی کو شہید قرار دے کر انہیں کپڑوں میں بغیر غسل دیے دفن کردیا گیا۔
’’ترک کی کبر ہمارے بتھان میں؟‘‘ پنڈتائن نے کہا۔
’’سوتنترتا سینانی کی وشرام استھلی ہے، ترک کی کبر نہیں۔‘‘ گھر کے بزرگ نے سختی سے کہا اور وہاں روز رات کو چالیس دن دیا جلوایا۔ پنڈتائن شوہر سے انحراف کرنا نہیں جانتی تھیں۔ خود دیا جلاکر آیا کرتی تھیں۔ (ایک لمبے عرصے کے بعد کستوربائی نے بھی شوہر کے حکم پر سرجھکاکر ہریجن مہمانوں کو گھر میں جگہ دی۔ گھر کے سنڈاس خود صاف کیے)۔
بزرگ پنڈت نے انگوٹھی دھان کی بھوسی کے بیچ ڈال کر اسے ایک چھوٹی سی ٹین کی بکسیا میں رکھا اور کچے گھر کے ایک کونے میں گاڑ کر بڑے بیٹے سے کہا، یہ مغل سینانی کی امانت ہے۔ اگلے بیس برس میں شاید اس کی آل اولاد میں کوئی آنکلے۔ کوئی نہیں جانتا ودھاتا کیا رچتا رہتا ہے۔ سوکوئی آجائے تو اطمینان کرکے اسے دےدینا۔ بیس برس تک کوئی نہ آیا تبھی تم کو اس پر ادھیکار ملے گا۔ لیکن یاد رکھنا اسے مصیبت کے وقت ہی استعمال کرنا۔ جیسے ہم اس ویر کے کام آئے وہ ہمارے کام آئے گا۔ عام دنوں میں ویسے بھی اتنی قیمتی انگوٹھی ہم غریب برہمنوں کی انگلی میں شوبھا نہیں دے گی۔ دس سوال اٹھیں گے۔ بزرگ برہمن نے لمبی عمر پائی۔ پھر لوگوں اور گایوں کی خدمت کرتے ہوئے سورگ سدھارے۔ ملک ان کے سامنے غلام ہی تھا۔
اٹھارہ سو ستاون کے بعد انگریز زیادہ مضبوط اور زیادہ سفاک ہوگئے تھے۔ غریب برہمن کسان کاکنبہ اور زیادہ غریب ہوگیا تھا۔ گائے مرگئی تو دوسری گائے بھی نہ خرید سکا۔ کھیتی کے لئے بیل چاہئیں تھے۔ کنبے کے نئے سربراہ نے مہاجن سے قرض لیا کہ کم از کم ایک بیل خرید سکے اور بیٹی کی شادی بھی کرے ۔ مہاجن نے کہا کہ وہ اتنا پیسہ بغیر کوئی چیز گروی رکھے نہیں دے سکتا۔ تب بزرگ برہمن کے پرپوتے نے جو پڑوس کے گاؤں میں بیٹی کا رشتہ ٹھیک کرآیا تھا، مٹی کھود کر وہ انگوٹھی نکالی اور دل ہی دل میں ترک سپاہی کو پرنام کرکے اسے مہاجن کے پاس گروی رکھ دیا۔
انگوٹھی کا نگینہ دیکھ کر ساہوکار کے منہ میں پانی بھر آیا۔ اسے لوٹانا نہیں ہے، سوچ کر اس نے اسے شہر لے جاکر جوہری کو دکاویا تو یہ ارادہ اور پختہ ہوگیا۔ سود کاجال کچھ اس طرح جکڑا گیا کہ غریب برہمن کی اگلی چار پانچ نسلیں بھی اس سے آزاد نہ ہوسکیں۔ انگوٹھی مہاجن کے پرپوتے کی انگلی میں لو دینے لگی۔ کچھ اور وقت گزرنے کے بعد ہل بیل زمین سب مہاجن کے خاندان کے قبضے میں آگئے۔ برہمن کسان کھیت مجوری کرنے لگا۔
پھر ملک آزاد ہوا اور دو ٹکڑوں میں بٹ گیا۔
مہاجن خاندان میں انگوٹھی سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہی۔ اصول کے مطابق وہ بڑے بیٹے کو ملتی تھی۔ اب کے بڑے بیٹے نے بیٹی کی شادی طے کرنے کے لیے سمدھیانے میں قدم رکھے تو سمدھی کی نظر انگوٹھی پر ٹکی رہ گئی۔ ایسی انگوٹھی راجے مہاراجوں کے پاس ہوتی ہے۔ شاطر آنکھوں نے سوچا۔ سکھایا پڑھایا لڑکاشادی کے بعد سسرال کے آنگن میں کلیوا پر بیٹھا تو اس نے انگوٹھی کی ضد پکڑ لی۔ ایک انگوٹھی ہی تو ہے۔ کون سا محل دو محلہ مانگ رہے ہیں۔ سسر نے انگوٹھی اتار کر دے دی۔ پڑھا لکھا داماد تھا، گریجویشن کر رہاتھا اور آگے وکالت پڑھنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ لڑکی جاہل تھی اور شکل صورت کی بھی دب تھی۔ بھاری رقم اور لوگوں کی ہڑپی ہوئی زمینوں میں سے ایک بڑے پلاٹ پر معاملہ طے ہوا تھا۔ اب کلیوا پر بیٹھے لڑکے کی فرمائش کو کیسے ٹھکرایا جاتا۔ ساہوکار خوب سمجھتا تھا کہ سماج میں سودی کاروبارکرنے والوں کی اتنی عزت نہیں ہے جتنا پیسہ ہے۔ شان شوکت کے لیے ایک آدھ وکیل، افسر، ڈاکٹر کا کنبے میں آنا ضروری ہے۔
انگوٹھی وکیل بننے والے داماد کی انگلی میں جگمگانے لگی۔
وکیل صاحب چمپارن میں کوئی لاء کالج نہ ہونے کے سبب پٹنہ سے وکالت پڑھ کے آنے کے بعد کچھ دن گاؤں والوں کے مقدمے لڑتے رہے پھر پٹنہ مستقل طور پر منتقل ہوگئے۔ ہاں زمینیں ادھر سستی ہونے کے سبب بتیا کےآبائی گاؤں میں خریدیں یا پھر تپاہی میں کہ وہاں نانہال تھا۔ نہایت گھاگھ وکیل ثابت ہوئے تھے اور گھاگھ تھے اس لیے کامیاب بھی ہوئے۔ لوگوں کو ٹھگنےمیں اپنے مہاجن سسر سے کم نہیں تھے۔ ایک بڑے راجپوت گھرانے کے ولی عہد بہادر نے ایک دلت لڑکی کے ساتھ زنابالجبر کیا۔ دلتوں کو گاندھی بابا خاصہ سرچڑھا گئے تھے اس لیے انہوں نے ایف آئی آر درج کرادی اور مقابلے پر اتر آئے۔ بڑے ٹھاکر صاحب کے کچھ سیاسی ارادے بھی تھے اس لیے اور زیادہ خم ٹھوک کر میدان میں اترے۔ مقدمہ انہیں وکیل صاحب نے لڑا اور ریپ کو اس صفائی کے ساتھ اپوزیشن کے سرمنڈھ کر لڑکے کو ایسا بے داغ چھڑایا کہ دھوم مچ گئی۔ خود جج سمجھ رہا تھا کہ لڑکا قصوروار ہے لیکن شہادتوں کی فراہمی اور عدم فراہمی دونوں نے مجبور کردیا کہ لڑکے کو باعزت بری کردیا جائے۔ وکیل صاحب کے بینک بیلنس میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور شہرت میں بھی۔ پھر وہ لڑکی کہاں گئی، زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا کچھ پتہ نہ چلا۔
وکیل صاحب ایک عرصہ دراز کے بعد اپنی نانہال پتا ہی آئے۔ کسی ماموں کی پوتی کی شادی تھی۔ اب وہ خود تقریباً ادھیڑ عمر تھے اور ایک بیٹا بیٹی بیاہ چکے تھے۔ پرانی یادیں تازہ کرتے، گاؤں میں گھومتے پھرتے ان کی ملاقات ایک پھٹے حال شخص سے ہوئی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو آنکھیں سکوڑ کر دیکھا۔
’’ارے بنواری ہو کیا؟‘‘وکیل صاحب نے خوش دلی سے سوال کیا۔
’’وکیل بابو؟‘‘ جواب میں بھی سوال کیا گیا۔
دونوں لپک کر آگے بڑھے لیکن اپنے اپنے حلیے بشرے کااحساس کرکے بغل گیر ہونے سے ذرا پہلے رک گئے۔ بچپن میں جب وکیل صاحب نانہال آتے تو بنواری کے ساتھ فٹ بال، گلی ڈنڈا، کبڈی سارے وہ کھیل کھیلتے جو کم عمر لڑکے کھیلا کرتے ہیں۔
’’کیسے ہو بنواری؟‘‘انہوں نے خلوص سے پوچھا۔
’’ٹھیک ہیں بابو۔ دیا ہے بابو لوگوں کی۔‘‘
’’بال بچے کتنے ہیں، کہاں ہیں، اور یہ تم ہمارے سنگی ساتھی ہم سے اتنے زیادہ بوڑھے کیسے دکھ رہے ہو؟‘‘
’’آپ؟ آپ ابھی کہاں بوڑھے ہوئے اور وکیل بابو ہم تنک جلدی میں ہیں۔ وہیں آجائیے نا ہوٹلوا پہ۔ اوسرکاری اسکلوا کے پاس۔ برگدوا ہے نا۔ وہی کے نیچے۔‘‘
’’ارے تم نے ہوٹل کھول لیا ہے بنواری؟‘‘ بنواری لپک جھپک کر آگے بڑھ چکے تھے۔ پیچھے پلٹ کر مسکرائے۔ پاس سے گزرتے رادھا سوامی اوجھا سے وکیل صاحب نے سوال کیا۔ ’’ارے یہ بنواری نے ہوٹل کب کھولا۔ چائے خانہ ہوگا۔‘‘ اوجھا جی زور سے ہنسے۔ ’’جائیے، جائیے نا۔ پکوان کھاکے آئیے گا۔‘‘
یہ بنواری بھی گاؤں کا ایک نہایت اہم فیچر تھے۔ ان کے بغیر پتاہی پتاہی نہ رہتا۔ کوئی پوچھتا کہ وہ کیا کرتے ہیں تو بڑے فخر سے بتاتے کہ ہوٹل چلاتے ہیں۔ لپک جھپک کہیں چلے جارہے ہوں اور کوئی بات کرنے کو روکتا تو کہتے، وہیں آجاؤ بھیا، وہیں ہوٹلواپہ۔ بیٹھ کے آرام سے بتیانا۔ اور واقعی وہ آجاتا تو اپنے نیچے کے چارگموں میں سے دو کھینچ کر اسے دے دیتے۔ ہوٹل کا کل اثاثہ ایک انگیٹھی، بنواری کی صورت سے میچ کرتی سیاہ رنگ کی بڑی سی کڑھائی، اس میں ویسی ہی رنگت کے ابلتے ہوئے تیل، المونیم کی پرات میں خوب پیاز اور ہری مرچیں ڈال کر سانے ہوئے بیسن اور ایک بڑے سے ٹیڑھے میڑھے المونیم کے کٹورے میں تیتے کی طرح ڈنک مارنے والی ہرے دھنیے کی کھٹی چٹنی پر مشتمل تھا۔
وہ سڑک کے کنارے پلیا کے پاس یہ سارا سامان رکھ لیتے اور بندر کی طرح اچک کر گموں پر بیٹھ جاتے۔ ایک طرف تھوڑی سی دوری پر سرکاری اسکول تھا اور مخالف سمت لگ بھگ اتنے ہی فاصلہ پر تاڑی خانہ۔ گیارہ بارہ بجے تک وہ پکوڑے چھان چھان کے اسکولی لونڈوں کے ہاتھ بیچتے، دوپہر میں گھر چلے جاتے اور چار بجے لوٹ کر پھر ہوٹل کھول لیتے۔ شام گہراتی تو ان کے گاہک تاڑی خانے جانے والے لوگ ہوتے۔ پکوڑے کے دونے اور تاڑی کے چکڑ لے کر وہ اسکول کے برآمدوں میں بیٹھ جاتے اور جوا کھیلتے۔ کبھی کبھار کوئی زیادہ پی کر وہیں لم لیٹ ہوجاتا۔ گالی گلوج اور مارپیٹ بھی ہوتی رہتی۔ جس دن زیادہ شور مچتا تو کوئی کانسٹیبل ٹہلتا ہوا آنکلتا۔ کبھی کبھار دروغہ جی آجاتے۔ جس کی جیب سے جو نکلتا وہ جھڑوالیتے اور دوچار ڈنڈے مار کر سب کو وہاں سے بھگاکر خود بھی غائب ہوجاتے۔
بنواری چھ عدد بچوں کے باپ تھے۔ لشٹم پشٹم زندگی چل رہی تھی۔ اہلیہ محترمہ کبھی کبھی ’بڑے گھروں‘ میں جاکر اناج پھٹک آتیں۔ موسم میں اچار کے مسالے کوٹ دیتیں۔ بدلے میں کبھی چھاچھ مل جاتی، کبھی دودھ، کبھی تازہ گڑ اور چوڑا۔ یہ گویا بونس ہوجاتا۔ سارے اسکولی بچوں سے بنواری کو خداواسطے کی محبت تھی۔ وہ ان کے گاہک تھے۔ نہ جانے کیسے کیسے پیسے بچاتے، ماں باپ کو تنگ کرتے یا دادی نانی کو لیکن ان کے پکوڑے ضرور کھاتے۔ ان کے اپنے ننگ دھڑنگ بچے واہی تباہی گھومتے پھرتے تھے۔ لاکھ چاہو اسکول جاکے نہ دیتے۔ پڑھائی ویسے خود بنواری کو بھی کوئی خاص کارآمد مشغلہ نہیں لگا کرتی تھی۔ جو پڑھ رہے تھے وہ کون سا تیر مار رہے تھے یا مارلیں گے۔ ہاں جب سے مڈ ڈے میل ملنا شروع ہوا تھا وہ دوپہر کے وقت اسکول پہنچ جاتے اور پتلی کھچڑی کھاکے بھاگ نکلتے۔ کچھ بے وقوف ضرور تھے جو پابندی سے اسکول آتے۔ اور ا ن میں سے ایسا کوئی نہیں تھا جس نے بنواری کا نمک نہیں کھایا تھا۔
بنواری دونے میں پکوڑے رکھ کر ان پر چٹنی ڈالتے اور اس دوران لڑکے کے سارے خاندان کی خیریت پوچھتے جاتے۔ لڑکے کے پاس پیسے نہ ہوتے تو ادھار دے کر بنواری اس سے کبھی تقاضہ نہیں کرتے تھے۔ گاؤں کی بھجن منڈلی کے وہ سربراہ تھے۔ پھاگن میں چیتی گانے والوں میں سب سےاونچی آواز ان کی ہوا کرتی تھی۔ بدمعاش سے بدمعاش لڑکے نے بھی کبھی ان کے پیسے مارے نہیں تھے خواہ ان کی رقم چکانے کے لیے کسی اور سے بے ایمانی کرکے روپیہ کیوں نہ اینٹھنا پڑجائے۔
گھومتے پھرتے لوگوں سےملتے ملاتے وکیل صاحب بنواری کے ہوٹل پر بھی پہنچ گئے۔ پہنچ کیا گئے راستہ ہی ادھر سے نکلتا تھا۔ ’ہوٹل‘ دیکھ کر وہ نہایت محظوظ ہوئے۔ تبھی اسکول کی چھٹی ہوئی تھی اور بنواری لڑکوں سے گھر گئے تھے۔ ’’بنواری کا کا پچاس پیسے کے پکوڑے، بنواری چاچا ایک روپے کے پکوڑے، بنواری بابو ایک روپے کے پکوڑے اورا یک روپیہ ادھار۔۔۔‘‘ بچوں نے اسے گھیر رکھا تھا۔ وکیل صاحب چپ چاپ کنارے کھڑے ہوگئے۔ جب غول بیابانی چھٹاتو وہ سامنے آئے ’ارے وکیل بابو۔ کب سے کھڑے ہیں؟ آئیے آئیے۔ انہوں نے نہایت بے تکلفی سے دو گمے نکال کر انہیں بھی ویسے ہی بٹھالیا جیسے وہ اوروں کو بٹھایاکرتے تھے۔ دونے میں اپنے حساب سے دوڈھائی روپے کے پکوڑے رکھے اور چٹنی ڈال کر انہیں پیش کیے۔ پھر نام بنام سات پشتوں کی خیریت پوچھ ڈالی اور اپنی بھی بتادی۔
’’سندر یاد ہے وکیل بابو؟‘‘
’’ہاں وہ تمہارا چچیرا بھائی۔ تم سے تو بہت چھوٹا تھا۔‘‘
’’پورے پندرہ برس۔ اب تو تیس برس کا ہوگیا۔ جوانی ڈھلنے پر آگئی۔ بیاہ ہی نہیں کرتا۔ کرے تو کیسے۔ جاکے چندریکا سنگھ سے مل گیا ہے۔ گاؤں کی ایک لڑکی سے سگائی کردی تھی۔ وہ اس کے نام پر بیٹھی ہے۔ کیا کریں وکیل بابو۔ ہمارے نہ لوگ نہ بہن نہ بھائی۔ ایک وہی ہے اور اتنا آدر، مان دیتا ہے کہ ہم رشتہ بھی نہیں توڑ پاتے۔‘‘
وکیل صاحب چندریکا سنگھ کے نام پر بڑے زور سے چونکے۔ وہ چمپارن کا مشہور ڈکیت تھا۔ دنوں دن اس کی ناموری بڑھتی جارہی تھی۔
’’چندریکا تو ڈاکو ہے۔‘‘
’’یہی تو رونا ہے وکیل بابو، ہماری سات پیڑھیوں میں کوئی بدمعاش نہیں ہوا۔ سب سیدھے سپاٹے لوگ۔ لگتاہے، جب یہ پیٹ میں تھا تو چاچی کسی مسان یا کبرگاہ سے گزری ہوگی۔ کوئی ڈکیت تبھی مرا رہاہوگا۔ اس کی کوکھ میں آن بیٹھا۔‘‘
’’یہاں آتا جاتا ہے؟‘‘ وکیل صاحب، مزید پریشان ہوئے۔
’’اب کیا کہیں۔ وہ ہمارے پڑوس میں ہی رہتی ہے، اس کی منگیتر۔ پھر جب ڈاکو ارہر کے کھیت میں ڈیرا ڈالتے ہیں تو پکوڑے ہمیں سے چھنواکے لے جاتا ہے۔‘‘
’’کیا غضب کرتے ہو بنواری۔ پکڑے جاؤگے۔ چکی پیسوگے جیل میں۔ ڈاکو کو کیا فرق پڑتا ہے۔ تم ٹھہرے گرہست۔ بال بچوں والے، محنت کی کمائی کھانے والے۔‘‘
’’ہم تو وکیل بابو، تھر تھر کانپنے لگتے ہیں وہ آجاتا ہے تو۔ مگر کہتا ہے کسی نے ٹیڑھی آنکھ سے بھی بھیا کو دیکھا تو وہیں کھود کے گاڑدیں گے۔‘‘
’’ہم تمہیں آگاہ کر رہے ہیں۔ اپنے کو الگ کرلو۔‘‘
’’کیا الگ کرلیں وکیل بابو۔ اس کی منگیتر کو ہم بھاہو مانتے ہیں۔ پیر چھوکے ہمیں، ہماری گھروالی کو پرنام کرتی ہے۔ بچوں پہ جان دیے رہتی ہے۔ کب تک ہیں آپ گاؤں میں؟ کرشن بن کر اس غریب سداما کے گھر پدھاریے۔۔۔‘‘
’’تم سے مل لیے بنواری اب کل بتیاجانا ہے۔ سسرالی رشتہ داروں میں شادی ہے۔‘‘
’’بتیا! ہوشیا رہیے گا بابو۔ ادھر ڈکیتوں نے ڈاکے ڈالنے چھوڑ کر پھروتی کی رقم کے لیےلوگوں کو اٹھانا شروع کردیا ہے۔ سندر کہہ رہا تھا سالے پیسہ رکھتے ہیں بینک میں اور گہنا رکھتے ہیں لاکر میں تو اب ڈاکہ کون چیز پر ڈالا جائے، پکڑ کے ٹیٹوا دباتے ہیں تو روپیہ ملتا ہے۔‘‘
وکیل صاحب ہنسنے لگے۔ پھر سو روپے کا نوٹ بنواری کے گموں پر رکھ کے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ’’بچوں کے لیے مٹھائی لے جانا۔‘‘
چندریکا کا گروہ بھی بتیا میں ہی سرگرم تھا۔ پھروتی کی رقم مل جاتی تو لوگ چھوڑ دیےجاتے۔ قتل کی کوئی واردات اب تک نہیں ہوئی تھی لیکن پولیس ان لوگوں پر ہاتھ نہیں ڈال پائی تھی۔ وکیل صاحب کی شامت جو آئی تو شادی کی تقریب ختم ہونے کے بعد بھی ایک دن کے لیے زمینیں دیکھنے کو رک گئے۔ شوگر کے مریض تھے اس لیے صبح شام ٹہلنے نکلتے۔ جس دن واپس لوٹنا تھا اس دن علی الصبح کمبل ڈال کے کھینچ لیے گئے۔
ڈاکو کھیتوں کھیتوں گھومتے۔ ان کی کوئی مستقل قیام گاہ نہیں تھی۔ بتیا کے علاقے میں گھاٹیاں نہیں تھیں۔ ارہر اور گنے کی کھیتی بہت تھی جس میں لانبے اور گھنے پودے ان کی پردہ پوشی کرتے۔ گاؤں والوں کو نقل و حرکت کی خبر ملتی بھی تو جان کے خوف سے خاموش رہتے۔
ڈاکوؤں نے وکیل صاحب سے ہی ان کے گھر والوں کو خط لکھوایا۔ فون بوتھ اور موبائل عام نہیں ہوئے تھے بلکہ موبائل تو قطعی نہیں آئے تھے۔ اس لیے پھروتی ہمیشہ خط کے ذریعے مانگی جاتی۔ رقم اور اس کی ادائیگی کے طریقے کی پوری وضاحت کردی جاتی تھی۔ وکیل صاحب بارسوخ آدمی تھے لیکن ان کی جان کو خطرہ لاحق سمجھ کر گھر کے لوگ بہت احتیاط اور سست رفتاری سے کام کر رہے تھے ۔ چاہ رہے تھے کہ پولیس درمیان سے ہٹ جائے اور رقم ادا کرکے ہی گھر کے سربراہ کو چھڑا لیا جائے۔ بیوی بچوں کارو رو کر برا حال تھا۔
چندریکا سنگھ نےوکیل صاحب کو مشرقی اور مغربی چمپارن کے انہیں گنے اور ارہر کے کھیتوں کے درمیان دوڑا رکھا تھا۔ ادھر وکیل صاحب کے جوڑوں پر گٹھیا کا بھی اثر ہوچلا تھا۔ اتنا چلنےکی عادت بھی نہیں تھی، ٹہلا ضرور کرتے تھے۔ اوبڑ کھابڑ زمین پر کئی کئی کلومیٹر چلنا پڑتا، وہ بھی شانے جھکاکر تو پیر سوج جاتے۔ گھٹنوں پر ورم آجا تو ایک ڈاکو کڑوا تیل گرم کرکے ان کے پیروں پر مالش کرتا۔ تیار رہیے وکیل بابو۔ کل تو دس کلومیٹر سے کم نہیں دوڑائیں گے۔ یہاں پولیس نے خاص خبری چھوڑ رکھے ہیں۔ زیادہ ٹھہرے تو مارے جائیں گے۔ اب یہ نہ پوچھیے کہ ہمیں کیسے پتہ۔ ہمارے بھی تو خبری ہیں۔‘‘ وہ قہقہہ لگاکر زور سے ہنسا۔
نوجوان ہاتھوں سے گرم تیل کی مالش نہایت سکون بخش تھی۔ وکیل صاحب کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ ’خوش رہو‘ انہوں نے بے اختیار ڈاکو کو ایسے دعا دی جیسے اپنے خاص ملازم کو دیا کرتے تھے۔ پھر بولے ، ’’ارے بھیا کچھ بھگوان کا ڈر خوف ہے کہ نہیں۔ ہمیں کیوں پکڑ رکھا ہے۔ ہمارے ساتھ اپنی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ کیوں حرام کی کمائی کھاتے ہو۔‘‘
لڑکے کے چہرے پر تمسخر کے آثار نظر آئے۔ پھر وہ دوبارہ کھلکھلا کر ہنسا۔ ’’بھگوان کا ڈر آپ کو ہے وکیل صاحب؟ دودھ کا پانی اور پانی کا دودھ کرکے راج محل بنوائے ہوئے ہیں، زمینیں خریدتے جارہے ہیں اور سنا کہ بہنوں کو جائداد میں حصہ نہیں دے رہے۔ آخر جائیں گے تو خالی ہاتھ نا۔ پھروتی کی رقم جلدی منگوالیجیے تو مرتے سمے بال بچوں کا منہ دیکھتے ہوئےپران آسانی سے نکلیں گے۔ ودھی ودھان کے ساتھ کریا کرم بھی ہوجائے گا ورنہ یہیں گنے کے کھیت میں توپ دیے گئے تو بھوت بن کر بھٹکیں گے۔ لائیے ہاتھ دیجیے ادھر۔‘‘ اس نے انگلیوں پر بھی گرم تیل لگایا تو نظر ایک بار پھر داہنے ہاتھ کی درمیانی انگلی پر پڑی۔ بڑے نگینے کی دپ دپ کرتی انگوٹھی صورت سے ہی بہت قیمتی لگتی تھی۔
’’وکیل صاحب یہ کیوں پہنتے ہیں؟‘‘اس نےانگوٹھی والی انگلی پکڑ کر پوچھا۔
’’ہمارےاندر منگل دوش ہے۔ جیوتشی مہاراج نے پکھراج پہننے کو کہا تھا۔‘‘
’’کتنےمیں خریدی؟‘‘ پھر قہقہہ لگاکر بولا، ’’ خریدی یا پھر ٹھگی ہے؟‘‘
’’بہت دامی ہے۔‘‘ وکیل صاحب اتنا ہی بولے، پھر سوچا اب سسر سےانگوٹھی مانگ کر لینا ٹھگنا تو نہیں ہوا۔
’’منگل دوش تو ہمارے اندر بھی ہے۔ نہ گھر نہ دوار۔ بکو بکائن کی طرح گھومتے پھرتے ہیں۔ لائیے انگوٹھی ادھر دیجیے۔‘‘ سندر پھر ہنسا اور انگوٹھی اتار لی جو تیل کی وجہ سے نہایت آسانی سے سرک آئی تھی۔
اس دن وہ لوگ مشرقی چمپارن میں تھے۔ شام کو بڑے اطمینان سے سندر پتاہی پہنچ گیا۔ بھائی کی کڑھائی کے پاس آکر پورے تسلے کا بیسن تلوالیا۔ انگوچھے میں پکوڑے باندھ کر کیلے کے بڑے سے دونے میں ساری چٹنی انڈیلی۔ پھر اس نے انگلی سے وکیل صاحب کی انگوٹھی نکال کر بنواری کی انگلی میں پہنادی اور سوسو کے دو نوٹ بھی وہیں پلیا پردھر دیے۔ یہ پکوڑوں کے دام ہیں۔ کل کے لیے تیل بیسن لے آنا۔ انگوٹھی رمیا کو دے دینا۔ سنار سے اپنے مطابق چھوٹی کرالے گی۔ ابھی اس کے پاس جانا مناسب نہیں۔ وہ پیر چھونے کو جھکا۔
’ہمارے پاس آنا مناسب تھاکیا‘ بنواری نے بڑے بھائی کی حیثیت سے اسے ڈانٹا۔ سندر مسکرایا۔ اس کا سیاہ چہرہ غضب کاملیح تھا۔ ہنستا تو سفید چمکیلے دانت چہرے پر بجلی دوڑاتے چلے جاتے۔ کتنی بار کہیں بھیا ہم سے سوال جواب مت کیا کرو۔ اور پکوڑے سنبھال کر چلتابنا۔ سندر کے جانے کے کوئی گھنٹہ بھر بعد داروغہ آن نکلے۔ انہیں چیکھنا لینا تھا۔ آج ولایتی بوتل کھلی تھی۔
’’اتنی جلدی سب جھاڑ پونچھ کے چھٹی؟‘‘ انہوں نے ذرا مشکوک نظروں سے بنواری کو گھورا۔ فوراً ہی نظر اس انگلی پر پڑی جس میں ایک قیمتی نگ والی انگوٹھی چم چم کر رہی تھی۔ کتنی قیمتی ہوگی یہ تو پوری طرح سمجھ میں نہیں آیا لیکن لگ رہی تھی نہایت بیش قیمت (اصلی پکھراج ٹھہرا)۔ شکل سے ہی راجسی لگ رہی تھی۔
’’اب ڈکیتی میں حصہ بھی لگنے لگا۔‘‘ انہوں نے اس کی پسلیوں میں ٹہوکا دیا اور انٹی کھلوائی۔ وکیل صاحب کا دیا نوٹ ابھی خرچ نہیں کیا تھا ساٹھ ستر بکری کےتھے۔ اتنی رقم، اور انگوٹھی کہاں سے آئی؟ اتار۔ انہوں نے انگوٹھی اترواکر جیب میں ڈال لی اور روپے بھی رکھ لیے۔
’’سندر کہاں ہے آج کل؟‘‘
بنواری رونے لگا۔ ’’مرجائیں گے ہجور۔ سب پیسوا مت لیجیے۔ کل دوکان کیسے لگائیں گے۔ بال بچہ کیا کھائے گا۔‘‘
’’سندر کہاں ملے گا؟‘‘
’’ہم کیا جانیں ہجور۔ یہ تو آپ ہی پتہ کریں گے۔‘‘
’’اس چھنال، چندریکا سنگھ کی رکھیل رمیا کو دھرنا ہوگا تب صحیح پتہ چلے گا۔‘‘
سندر کی محبوبہ کو بنواری اپنی ’بھاہو‘ مانتاتھا۔ وہ گھر آتی تو بنواری اور اس کی بیوی کے پیر چھوتی، دروغہ نے اسے چھنال کہا تو کسی ایسی چیونٹی کی طرح جو دب کر کاٹ لے، بنواری کمر پر دونوں ہاتھ رکھ کر تن گیا اور تیز لہجے میں بولا، ’’دروگہ جی جبان سنبھال کر بات کیجیے اور انگوٹھی بھی واپس کیجیے۔ ہم ایسے نیمردوبر نہیں ہیں۔‘‘
جواب میں دروغہ جی نے اسے تابڑ توڑ کئی ڈنڈے لگائے اور مجرموں کاساتھ دینے، پولیس افسر کے ساتھ گالی گلوج کرنے کے الزام میں لے جاکر حاجت میں بند کردیا۔
یہ سارا گاؤں جانتا تھا کہ سندر باقاعدہ چندریکا سنگھ کے گروہ میں شامل ہے لیکن پھر سارا گاؤں یہ بھی جانتا تھا کہ بنواری کا اس کی ڈکیتیوں سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ اس کی گرفتاری کی خبر دوسرے دن دوپہر تک گاؤں میں گشت کر گئی۔ ادھر کچھ دن سے پتاہی بلکہ چمپارن کے کئی حصوں میں سیاسی سرگرمیاں بہت بڑھ گئی تھیں۔ آئے دن جلسے جلوس۔ الیکشن قریب تھے۔ لونڈوں کو بڑا مزا آتا، تالیاں بجاتے ساتھ ہولیتے۔ کوئی مقامی نیتا تقریر کرتا ہوتا تو کبھی زندہ باد کبھی مردہ باد۔ پھر قہقہے لگاتے چل دیتے۔
تین منزلہ پختہ مکان میں رہنےوالے گاؤں کے سربرآوردہ کنبے کا لڑکا جو بچپن میں بنواری کے پکوڑے کھاکر بڑا ہوا تھا اور اس کی بھجن منڈلی میں کھڑتال بجایا کرتاتھا ، پٹنہ میں پڑھ رہا تھا اور آج کل چھٹیوں میں آیا ہوا تھا۔ اس نے کچھ نوجوانوں کو بٹورا اور تھانے چلا آیا۔
’’بنواری کو کیوں گرفتار کیا چچا؟‘‘ اس نے دروغہ سے پوچھا۔
’’اس دوکوڑی کے پکوڑے والے سے آپ کو کیا لینا دینا، اشوک بابو؟‘‘ اشوک کے دادا ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر کے افسروں کے ساتھ مل کر آتے تھے اور نیتا گیری کرنے والے پتاہی آتے تو ان کے یہاں بھوج بھات ضرور ہوتا۔ اس لیے ایک لونڈے کے ذریعے جواب طلب کیے جانے کے باوجود انہوں نے لہجے کی جھنجھلاہٹ پر قابو پانے کی پوری کوشش کی۔
’’یہی تو ہم پوچھ رہے ہیں تاؤ کہ اس دوکوڑی کے پکوڑے والے سے آپ کو کیا لینا دینا۔‘‘
اب کی دروغہ جی نے خاصہ چیں بہ جبیں ہوکر جواب دیا، ’’ڈاکوؤوں سےسانٹھ گانٹھ رکھنےوالے آدمی کے بارے میں آپ ہم سے سوال کر رہے ہیں؟‘‘
’’کیا ثبوت ہے؟ ہمت ہے تو چندریکا کو پکڑیے۔ وہ بے چارہ بھگوت بھجن میں ڈوبا غریب آدمی۔‘‘
’’ہاں ہاں چندریکاکو پکڑیے۔ چندریکا کو پکڑیے۔‘‘لڑکوں نے شور مچایا۔ گروہ میں رمیا کے بھائی اور اس کی برادری کے کئی اور نوجوان بھی تھے۔ چندریکا دروغہ کی دکھتی رگ تھا۔ ایک بار گرفت میں آگیا تھا لیکن ایسا جل دے کر بھاگا تھا کہ داروغہ جی منہ دکھانے لائق نہیں رہ گئے تھے۔
انگوٹھی دروغائن کے زیوروں کے ڈبے میں رکھ دی گئی اور سندر کے حوالے سے بنواری پر سختی کی گئی۔ وہ بے چارہ دل کامریض تھا اور یہ جانتا بھی نہیں تھا کہ اکثر اسے اچانک پسینہ کیوں آتا ہے۔ سانس کیوں پھولتی ہے اور وہ اپنی عمر سے زیادہ تھکتا کیوں ہے۔ تھانے میں اس پر دل کادورہ پڑا اور وہ مرگیا۔ طالب علموں کی برادری نے مزید شور مچایا۔ کچھ سیاسی لوگ بھی شامل ہوئے تو داروغہ جی معہ ایک اے ایس آئی معطل کردیے گئے۔
وکیل صاحب کو بھاری پھروتی دے کر ان کے عزیزوں نے چھڑا لیا۔
انگوٹھی دروغائن کے ڈبے میں جگر جگر کرتی رہی۔
’’نیک بخت وہ انگوٹھی نکال۔‘‘ ایک دن دروغہ جی نے دروغائن سے کہا۔
’’کیوں؟‘‘
’’ہم کہہ رہے ہیں اس لیے۔‘‘
’’کسی کو دے مت دیجیے گا۔‘‘
’’نہیں دیں گے تو ایک دن فاقے کی نوبت آئے گی۔ سال سے اوپر ہوگیا معطل ہوئے۔ ابھی تک انکوائری ہی چل رہی ہے۔‘‘ انہوں نے جھڑک کر جواب دیا۔ ’’ اور ہم کیا کریں گے انگلی میں پتھر لٹکا کے۔‘‘
اس سے پہلے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر میں پولیس افسر ذرانایاب نسل کے انسان تھے یعنی ایماندار۔ اب جو آئے وہ بالکل نارمل تھے۔ انگوٹھی جس کے نگ کی قیمت کوئی پندرہ بیس لاکھ آنکی گئی اور جس کی بناوٹ کو تاریخی قرار دیا گیا، دروغائن کے ڈبے سے نکل کر ایک بڑے پولیس افسر کے پاس پہنچ گئی۔ انہوں نے اسے اطمینان سے انگلی میں ڈال لیا اس لیے کہ وہ بڑے افسر تو تھے ہی، دولت مند خاندان کے داماد بھی تھے۔ ان کی انگلی میں وہ انگوٹھی دیکھ کر سوال نہیں اٹھ سکتے تھے۔ نہ ہی انگوٹھی کی اصل قیمت کالیبل اس پر چسپاں تھا۔
داروغہ اور ساتھ کے اے ایس آئی، دونوں بحال ہوگئے۔ چندریکا سنگھ کا گروہ کچھ عرصے اور فعال رہا۔ پھر کچھ سال بعد چندریکا اور سندر دونوں پولیس انکاؤنٹر میں مارے گئے۔ سندر کی منگیتر اور محبوبہ کی پولیس کسٹڈی میں اجتماعی عصمت دری کی گئی۔
’’ہم کیا سندر سے برے ہیں۔ بھول جا اسے۔ وہ مرچکا۔‘‘ پولیس والوں نے اسے برتتے ہوئے اس کے کانوں میں کہا۔ رمیا نے چھوڑے جانے کے بعد دوسرے ہی دن خودکشی کرلی۔ انگوٹھی ابھی اس بڑے پولیس افسر کی انگلی میں جگمگارہی تھی۔
’’یار اس پوسٹنگ کے لیے تو لاکھوں چل رہے ہیں۔‘‘ پولیس افسر سے اس کے ایک ہم منصب نے کہا۔
’’ٹھیک ہی تو ہے یار۔ بیس پچیس لاکھ دے کر کروڑ کمالیے تو برا کیا ہے۔ پچھتر تو ڈب میں رہے۔‘‘
’’تو لگ جاؤ لائن میں۔ شاید قسمت ساتھ دے جائے۔‘‘
’’ہمارے پاس ایسا گرومنتر ہے کہ آزمائیں تو پوسٹنگ ہماری جیب میں ہوگی۔‘‘
’’منسٹر صاحب کے پی۔ ایس سے بات کرکے دیکھو۔ ان کا بیٹا سارے معاملات طے کرا رہا ہے۔‘‘
’’سنا تو ہم نے بھی ہے۔‘‘
’’جوہری نے ہمیں بتایا کہ یہ اینٹیک (Antique) ہے۔ لگ بھگ ڈیڑھ سو برس پرانی۔ اور اس کانگ بدخشاں سے آیا لگتا ہے۔ اس کی بناوٹ بھی سنٹرل ایشیا کی ہے۔‘‘ منسٹر صاحب کے پی۔ ایس کے قریبی وشوموہن جھا کو بتایا گیا۔ پھر پی۔ ایس کے صاحب زادے درمیان میں آئے۔ بات سیڑھی در سیڑھی چل کر ’تھرو پراپر چینل‘ (through proper channel) آگے بڑھی۔ پولیس افسر نے انگوٹھی انگلی سے اتاردی اور ’بہترین‘ پوسٹنگ پر چلے گئے جہاں انہیں صرف کوئلے کے مافیا کی طرف سے آنکھیں بند کرلینی تھیں۔ دہلی میں ان کی بے نامی کوٹھی کا نقشہ تیار ہونے لگا۔ انگوٹھی اب منسٹر صاحب کی انگلی میں لودے رہی تھی۔ انگوٹھی جسے ایک محنتی، ایماندار اور وفاشعار عورت نے راتوں کا تیل جلاکر مخمل کے تین سوٹکڑوں پر زری کی باریک ترین کشیدہ کاری کرکے بدخشاں کے ایک سوداگر سے حاصل کیا تھااور اپنے شوہر کی انگلی میں اپنی محبت کی نشانی کے طور پر ڈالا تھا۔ ساتھ ہی سوداگر نے یہ بھی کہا تھا کہ ستارہ شناسوں کے مطابق انگوٹھی کا نگینہ پہننے والے کو آفات سے محفوظ رکھتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.