Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انجانی تشنگی

شہناز رحمن

انجانی تشنگی

شہناز رحمن

MORE BYشہناز رحمن

    میں جیسے ہی زمرد ولا میں داخل ہوئی نومی کھڑا ہو گیا اور اطلاع دینے والے انداز میں چلاتے ہوئے اندر چلا گیا۔ اس کی خطرناک صورت دیکھ کر میرے قدم وہیں رک گئے ایک لمحے کے بعد وہ خاموشی سے واپس آیا اور اجازت دینے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے وہیں بیٹھ گیا۔

    ’’زمرد بیگم سے ملتے ہی سب سے پہلے میں نے یہی پوچھنا ضروری سمجھا کہ آپ اسے کہاں سے پکڑ لائی ہیں‘‘

    ارے پکڑ کر نہیں لائی ہوں یہ برسوں سے حویلی میں رہتا تھا آخر حویلی تو اجڑ ہی گئی اور نئے طرز کے مکانوں میں رہنے کا جنون ہمیں یہاں لے آیا حویلی کو چھوڑنے کے ساتھ رسم و رواج آداب وسلام بھی وہیں چھوڑ آئے مگر نومی سے ہمیں بڑی انسیت ہو گئی تھی اس لئے اسے اپنے ساتھ لے آئے یہ وفادار ہونے کے ساتھ ساتھ فرمانبردار بھی ہے بلا اجازت کبھی باہر قدم نہیں رکھتا اور اگر کبھی کبھار چلا بھی جاتا ہے تو مطمئن رہتی ہوں کہ ابھی تو واپس آ ہی جائےگا۔

    اسی درمیان میں نے دیکھا کہ نومی بیگم صاحب کی قدموں میں بیٹھا دستک دینے والے انداز میں اپنے آگے کے دونوں اعضاء کو استعمال کر رہا ہے میں چونک گئی۔ انھوں نے کہا چونکیے مت یہ مجھ سے ناشتہ لانے کی یاد دہانی کرا رہا ہے۔ پھر اس کا کان سہلاتے ہوئے کہا!! ’’ارے نومی یہ کوئی مہمان نہیں، تم پریشان مت ہو، تا نیہ لے آئےگی۔ وہ نومی جو کچھ لمحے پہلے مجھے نہایت خوفناک معلوم ہو رہا تھا اب بہت معصوم نظر آنے لگا۔ میں بے ساختہ بول پڑی شکر ہے آپ نے حویلی کی ایک نشانی تو بچالی‘‘

    آفس سے لوٹنے کے بعد کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے چھوٹو سے پانی لانے کے لئے کہا پانی کا گلاس پکڑتے ہوئے اس کا دل چاہا کہ چھوٹو کا ہاتھ پکڑ کر مروڑ دے یا پھر گلاس کی کرچیوں سے اپنے ہاتھ زخمی کر لے۔

    دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد آرام کرسی پر ٹیک لگائے دیوار پر لگی ہوئی تصویروں کو بغور دیکھنے لگا ایک تصویر ایسی تھی جسے دیکھ کرکبھی وہ آنکھیں بند کرتا اور کبھی کھول دیتا ایسا کرتے ہوئے اس کے دھیان کی جو ڈوری بندھی ہوئی تھی کھلنے لگی اور اس کے پیچھے ایک ایسی صورت دکھائی دی جس کے کچھ نقوش سے وہ مانوس تھا اسے دیکھتے دیکھتے اس کی رگیں پھڑپھڑانے لگیں۔۔۔ پھر اس کی نظر کیلنڈرپہ پڑی تو تھوڑی سی حالت بہتر ہوئی اور وہ فوراً تیار ہوکر زمردؔ ولا پہنچا۔

    سرمئی رنگ کے چست لباس میں دوپٹہ گردن میں چپکائے ہوئے قد آور آئینے میں اپنے وجود کو سراہتے ہوئے بیوٹی بون کے ظاہر ہونے پہ وہ خوش ہورہی تھی ’’کوئی بات نہیں تانیہ تھوڑی سی ڈائٹنگ کرنی پڑی لیکن اب تو پوری طرح سیکسی گرل کہنے کے لائق ہو گئی‘‘ وہ اپنے آپ سے کہہ رہی تھی ‘‘کہ تبھی فون کی گھنٹی بجی!‘‘

    سمیر کا فون؟ کیا؟ تم میرے گھر کے سامنے کھڑے ہو؟

    ’’جی ہاں! تم بالکونی میں تو آؤ اور نیچے دیکھو‘‘

    ’’بھول بھٹک کے تم یہاں کیسے آ گئے؟ چلو اندر اور ممیؔ سے مل لو‘‘

    بعد میں ملوں گا ابھی ٹائم نہیں ہے بس تم جلدی سے تیار ہوکر میرے ساتھ چلو۔

    کہاں؟

    اس سال کی آخری شام خوشگوار بنانے اور تنہائی میں گزرے ہوئے بے چین لمحوں کی ساری تشنگی مٹانے!

    ’’ایں؟‘‘ ہو سکتا ہے ممیؔ اجازت نہ دیں ۔ لیکن دیکھتی ہوں بہلا پھسلا کے کہہ دوں گی کہ فرینڈز کی پارٹی میں جا رہی ہوں ۔ مڑتے ہوئے سمیر کی نظر اس کے Back Less کپڑے پر پڑیں جو صرف دو پٹیوں کے سہارے جسم پر ٹکا ہوا تھا۔

    ’’اس کی رگیں پھڑپھڑانے لگیں!

    اوکے تم اپنا پلان کرو تب تک میں کیفے میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں‘‘۔

    اس کے جانے کے بعد وہ بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بیوٹی بون کو ذہن سے ہٹانے کی کوشش کرنے لگا جو کانٹے کی مانند اٹکی ہوئی تھی اور ماضی قریب کے کچھ دھندلے نقوش گڈمڈ ہونے لگے اس کا دل چاہا کہ نسیم اپارٹمنٹ واپس چلا جائے اور۔۔۔

    گہرے آسمانی رنگ کافراک زیب تن کر کے کٹے ہوئے بالوں کو سمیٹنے کے لئے چار پانچ پن ٹھونک کر انھیں Bird's Nest کی طرح بنا کر تیار ہو گئی چھوٹی بہن سے کہا میرا اے۔ ٹی۔ ایم۔ کارڈ نئے پرس میں ڈال دو ‘‘ممی کو گلے لگاتے ہوئے کہا: انجو ائے نیو ایر ممی‘‘۔۔۔ میں جلد ہی لوٹوں گی اور ہاں میں فارم ہاؤس کی چابی لے لیتی ہوں اگر دیر ہو گئی تو دوستوں کو لے کر وہیں چلی جاؤں گی فکر مت کرنا اور میز پر رکھا ہوا Goggles اٹھا کر چلتی بنی، نومی اس کے پیچھے لپکا مگر روک نہ سکا۔

    سمیر کی بانہوں میں ہاتھ ڈالے ہوئے ہال میں داخل ہوئی تو یہاں کا منظر دیکھ کر مسحور ہو گئی ایسا لگ رہا تھا کہ پورے سال کے خوبصورت لمحوں کو چراکر اس شام کو رنگین بنانے کی کوشش کی گئی ہے، گلدانوں میں مختلف رنگوں اور خوشبو ؤں والے پھول سجے ہوئے تھے یہاں کی ہر چیز اسے اپنی پسند میں رنگی ہوئی لگ رہی تھی۔ ان کے پہنچنے پر وہاں موجود دوسرے دوستوں نے تالیاں بجاتے ہوئے ان کا استقبال کیا تانیہ کو محسوس ہوا کہ وہ خوابوں کی دنیا میں آ گئی ہے۔

    ’’تعلقات تو برسوں سے تھے مگر محترم کی اتنی نوازشوں کی احسان مند تو کبھی نہیں ہوئی۔۔۔ خیر کوئی بات نہیں۔۔۔ دیر آید درست آید‘‘

    اتفاق سے اس پارٹی میں مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا ایک سفید غلاف والی لال پٹیوں سے سجی ہوئی کرسی پہ بیٹھ کر پارٹی کا مزا لینے لگی اور دوسری مصروفیات میں حصہ لینے سے ذرا دور رہی۔ مگر میں نے یہ نتیجہ ضرور نکالا کہ اس پارٹی میں نسائی دلکشی ایک اچھوتے رنگ میں دکھائی دے رہی ہے لیکن کچھ لوگوں کی حس مفقود ہے اور اس پارٹی کے ذائقے سے متلذزنہیں ہو رہے ہیں۔

    تھوڑی دیر میں کچھ نوجوان اپنے دوستوں کے ساتھ پھولوں اور مصنوعی قوس وقزح سے لطف اندوز ہوکر آئے اور اپنی اپنی جوڑی بنا کر کرسیوں پر بیٹھ گئے، سمیر اور تانیہ تو بالکل میرے پہلو میں بیٹھے سب نے اپنی اپنی پسند کے مشروبات کی فرمائش کی اور ساتھ ساتھ پسندیدہ میوزک بھی play کروائی اور پھر سب کے اعضاء تھرکنے لگے۔

    چلو سمیر دیر ہی سہی تمہیں خیال تو آیا کہ زندگی میں ایک فرض دوستوں اور رشتہ داروں سے ملنا بھی ہے تم نے تو بالکل رہبانیت اختیار کر لی تھی اور بتاؤ اس لمبے عرصے میں تمہاری کیا مشغولیات رہیں۔

    تم بتاؤ میری کیا؟۔۔۔ میں تو بس یوں ہی۔۔۔

    تم بتاؤ۔۔۔ تمہارے پاس توٹورزم subject تھا نا؟؟

    اوہ۔۔۔ پوووووچھومت۔۔۔ ہم نے تو بہت سی جگہوں کی سیر کی مگر Castle ہوہنز ولرن کیسل کی سیر تو اب تک یا ہے یار بتا نہیں سکتی ہم نے کتنے مزے کیے۔۔۔ تانیہ نے زور دے دے کر کہا۔۔

    ’’یہ کہاں ہے؟‘‘

    ’’یہ جرمنی کے مشہور شہرٹنگارٹ کے جنوب میں تقریبا ۵۰ کلو میڑ کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ پہاڑ کی چوٹی پر ہے پتلے لمبے میناروں اور برجوں پر مشتمل ہے مجموعی طور پر مصری اہراموں کی طرح دکھائی دیتا ہے‘‘

    میں ان کے پہلو میں ہی بیٹھی تھی اس لئے سب کچھ سنتی رہی مگر تجاہل عارفانہ سے کام لیا اور ان کی گفتگو سے لطف اندوز ہوتی رہی لیکن ایک موقع ایسا آیا کہ مجھے اپنی بے نیازی کو بالائے طاق رکھنا ہی پڑا۔۔۔

    جب تانیہ نے کہا ’’کیا بتاؤں یار یہ کیسل کتنا سیکسی دکھائی دیتا ہے‘‘؟؟

    بالکل اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور مزید یہ کہ اس کے اندر دیواروں پر تاریخی نوعیت کی پینٹگس آویزاں ہیں اور Unique کتابوں سے بھری لائبریری، آرٹ گیلری، بادشاہوں کی نجی رہائش گاہ اور Princess کا خوبصورت باغ وغیرہ دلچسپی کا حامل ہے اور وہاں ایک قلعہ ہے جس میں شکسپئر کے ناولوں اور ڈراموں کو اسٹیج پر پیش کیا جاتا ہے۔ سمیر اس کی باتیں سننے کے بجائے اس کے لبوں کی سرخی کو دیکھتا رہا اور اچانک لائٹ جلنے کی وجہ سے اس کی نظر تانیہ کے ابھرے ہوئے سینے پر پڑ گئی۔ ڈوپٹہ گلے سے چپکے ہونے کی وجہ سے صاف صاف نقوش کی نمائش ہو رہی تھی۔

    اس نے اپنی پھڑ پھڑاتی ہوئی رگوں پر قابو پانے کے لئے گلاس میں بھرا ہوا جام غٹا غٹ پی لیا اور کھڑکی پر لٹکے ہوئے پردوں کو زور سے کھیچ کر نیچے گرا دیا۔

    ایسے سحرخیز ماحول کے باوجود وہ بیزار اور مضطرب ہونے لگا۔۔۔ دل کو بہلانے ور دیوار پرلگی تصویر میں پوشیدہ مانوس لذت کو بھولنے اور اپنی متواتر لرزشوں سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کرتار ہا مگر اس کے اعصاب گویا ایک سازکے تار ہوگئے جو پیہم لزرش میں تھے۔

    اس کی شکل دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ وہ اپنی نفسیات اور طباعی کی اندرونی آگ میں جھلس رہا ہے مگر وہ ان کیفیات کی وجوہ سمجھنے سے قاصر ہے۔

    مگر جھلستی آگ کی وجہ؟

    مجھے بھی نہیں معلوم!

    شاید کچھ لوگوں کے اندر یہ کیفیت ہوتی ہے، جسے وہ اپنا امتیاز یا کوئی رعایتی شئے سمجھتے ہیں۔۔۔

    آخرکار وہ اٹھا اور اس بھیڑ سے کنارہ کش ہوکر فوارے کے پاس چلا گیا اوپر اٹھتے ہوئے پانی کی لہروں اور رات کی کالی گھٹاؤں کو دیکھ کر اس کے ’’جسم ‘‘ کے سلوٹ پڑے ہوئے کپڑے یاد آ گئے جن میں ان گھٹاؤں سے زیادہ۔۔۔

    اس نے پھر وہی کیفیت محسوس کی، تنگ آکر گاڑی اسٹارٹ کی اور آفس کی طرف متلاشی نظروں سے نکل پڑا۔

    سمیر کو پارٹی سے غائب دیکھ کر تانیہ اس کے رویہ سے بہت نالاں ہوئی اور ادھر ادھر نظریں گھماتی ہوئی فوارے کے پاس چلی گئی میری نظروں نے اس کا تعاقب کیا اور پھر دھیرے دھیرے دبے قدم اس کے قریب گئی۔

    ’’سمیر کو آپ نے کہیں دیکھا؟‘‘

    ’’نفی میں جواب دینے کے سوا میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا‘‘ جھنجھلا کر اس نے کہا ایسا کرنا بعض لوگوں کا جزوحیات ہوتا ہے ‘‘بالکل صحیح کہا تم نے’’ حقیقت کی بنیاد دھوکہ پر ہی ہے۔

    مطلب۔۔۔؟ مطلب کچھ بھی نہیں۔

    تھوڑی دیر بعد سمیر اپنے دوستوں کے ساتھ نظر آیا۔ روشنیاں گل ہو گئیں candle light dinnerکا انتظام تھا تب تک تانیہ بھی وہیں آ گئی۔۔۔ کھانا کھاتے ہوئے سمیر اور تانیہ شیشے کے Artificial پونڈ میں تیرتی رنگ برنگی مچھلیوں کو ایک دوسرے سے ٹکراتے اور بغل گیر ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے Dinner کرنے کے بعد لائٹ تو جلائی گئی مگر صرف اتنی گویا کہ چودہویں کی شب کا سماں باندھنے کی کوشش کی جا رہی ہو۔

    سمیر کے موڈ کو دیکھتے ہوئے تانیہ اسے ہال سے باہر لے کر چلی گئی وہ دونوں ریت کے ڈھیر کے پاس بیٹھ گئے۔

    کچھ بولنے کی زحمت کرو گے؟؟؟ تانیہ نے کہا۔

    تمہاری شادی کا کیا ہوا؟ سمیر نے خشک لہجے میں پوچھا۔۔۔

    ’’وہ کشمکش میں پڑ گئی مگر اس کے سوال کو نظر انداز نہ کر سکی۔۔۔’’ ان محترم کو شادی کی جلدی تھی اور میرے سامنے میرا کیریر تھا ،فیشن ڈیزائنر کی جاب کا ایک بہت ہی اچھا آفر آیا تھا میں اسے کھونا نہیں چاہتی تھی۔۔۔ عالی جاہ سے انتظار کرنے کو کہا مگر انکار کر دیا۔ پھر کیا تھا، Tension+Misunderstanding=breakup

    میرا تو منھ کھلا رہ گیا اور اس سے آگے سننے کی قوت برداشت نہیں رہی۔

    لیکن سمیر یوں ہی ساکت بیٹھا رہا۔۔۔

    ’’اور پھر عجیب حرکتیں شروع کر دیں۔۔۔ اس نے اپنی مٹھی میں ریت لی اور مٹھی زور سے بند کرتے ہوئے کہا دیکھو اس ریت کو جتنا ہی تم اپنی مٹھی میں رکھنا چاہوگی اتنا ہی پھسلتی چلی جائےگی‘‘

    میں نے تو فرار میں ہی عافیت سمجھی کیوں کہ اس قدر فلسفیانہ باتوں کو میرا ذہن قبول نہیں کرتا ہے اور دور سے ہی خلل ڈالتے ہوئے کہا!! تانیہ ابھی تک تم کیسل کو لے کر پیکر تراشی کر رہی تھی اور اب سمیر فلسفہ طرازی کر رہا ہے یہ دونوں ہی صورتیں میرے لئے نامانوس ہیں۔ میں یہاں سے جارہی ہوں ویسے بھی پارٹی اختتام پر ہے۔

    ’’ایک زمانہ تھا جب میری ہستی تم سے وابستہ تھی‘‘

    چلو چھوڑو تانیہ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد اس وقت کا ذکر اتنے شدید جذبے کے ساتھ کیوں کر رہی ہو؟؟

    اتنے میں اس نے محسوس کیا کہ اس کی پیٹھ پر کچھ رینگ رہا ہے وہ تذبذب میں پڑ گئی۔ اتنی پریشان کیوں ہو؟ اف۔۔۔ اوکے، اوکے ریلیکس Zip کھل گئی ہے میں بند کردیتا ہوں پھر اس کی رگیں نہ صرف پھڑ پھڑانے لگیں بلکہ خود کو سنبھالنا پہاڑ کے مانند ہو گیا اور وہ دوبارہ ہال میں گیا ویٹر سے پوچھا ٹیبل پر رکھی ہوئی وہسکی کیا ہوئی۔

    ’’سروہ تو blue سوٹ والی میم جو آپ کے ساتھ تھیں انھوں نے۔۔۔ What۔۔۔ اس نے دیکھا کہ وہ بیٹھے بیٹھے لڑھکنے لگی۔‘‘

    صبح ہوئی تو تانیہ نے خود کو فارم ہاؤس میں فراک کے بجائے سمیر کی کوٹ میں ملبوس پایا اور میز پر New years card کے ساتھ ایک کاغذ تھا جس میں لکھا ہوا تھا کہ افسوس وہ مجھ سے دامن چھڑا کر ہمیشہ کے لئے اس دنیا سے روٹھ گئی!

    مجھے معاف کرنا۔۔۔! شاید کہ تم کو یقین نہ آئے مگر یہی سچ ہے کہ۔۔۔

    میں جا رہا ہوں میرا بیٹا تنہا میرا انتظار کر رہا ہوگا۔

    نئے سال کی مبارکباد دینے میں زمردولا پہنچی تو نومی غائب تھا میں نے وجہ دریافت کی تو زمرد بیگم نے بہت ہی پثر مردگی سے کہا کہ حویلی کی بچی کچی نشانی ہوا میں دھند بن کر اڑ گئی۔ نومی رات کو موقع پاکر ہمارا امید ویقین توڑ کر چلا گیا!!!!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے