Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انّاجی

ثمینہ نذیر

انّاجی

ثمینہ نذیر

MORE BYثمینہ نذیر

    انّاجی، عرف کتوں والی خالہ کا اُس دن لانڈھی بابرمارکیٹ سے خریداری کرکے نکلتے ہوئے حادثہ ہوگیاتھا۔ موٹر سائیکل پر سوار دو لڑکوں نے انھیں ٹکر ماردی تھی۔ اُن کی خریداری کے تھیلے اور بید کی ٹوکری سے بڑے گوشت کے چھیچڑے، پارچے، بڑی آنتوں کے ٹکڑے، ہڈے اور چربی کے لوتھڑے اچھل کر ڈامر کی سڑک پر بکھر گئے تھے۔ انّا جی نے کتوں کی خوراک سمیٹتے ہوئے لڑکوں کو انگریزی میں گالیاں دینا شروع کیں۔ Stupid bastard اور foolishجیسے الفاظ سن کر لڑکے مرعوب ہوگئے اور انھیں کسی طرح سہارا دے کر گھر پہنچا گئے۔ انھیں چوٹ آئی تھی، لیکن وہ ا پنی تکلیف کی پرواہ کیے بغیر مصر تھیں کہ انھیں ہسپتال نہیں بلکہ اُن کے گھر لے جایا جائے۔ جہاں ٹائیگر، مینا اور نادرشاہ اُن کا بے چینی سے انتظار کررہے ہیں۔ لڑکے سمجھے یہ اُن کے بیٹے ہیں، لیکن جب گھر کے قریب گرانڈیل ٹائیگر اُن پر لپکا تو وہ انّا جی کو گلی کے کونے میں پٹک سر پٹ دوڑ گئے۔

    اُسی دن بلکہ اُس وقت، میں اپنے نئے نویلے ڈبل کیسٹ ریکارڈر کی گویا آرتی اتار رہا تھا، جو مزمل بھائی نے دبئی سے کسی کے ہاتھ میرے لیے بھجوایا تھا۔ بھجوانے سے پہلے انھوں نے قسمیں دی تھیں کہ میں میٹرک میں شاندار نمبر لاؤں گا۔ ابا نے ہمیشہ کی طرح گھر سے نکال دینے کی دھمکی دے رکھی تھی، کہ میں ہر وقت ناچ گانوں اور ٹی وی میں لگارہتا ہوں پڑھتا خاک بھی نہیں وغیرہ۔ امی نے کہا تھا کہ ان بے ہودہ گانوں کی آواز نیچے کی منزل تک نہ آئے۔ دادی نے البتہ اُسے دیکھ کر پوچھا تھا، ’’اس میں سے سہگل کی آواز آئے گی؟‘‘

    ’میری عمر کے نوجوانو، دل نہ لگانا او دیوانو، ‘سمیت سائیڈ A پر ’’قرض‘‘ اور سائیڈ B پر ’’شان‘‘ فلم کے گانے میں نے گرومندر کے Koyokoyo میوزک سینٹر سے بھروا رکھے تھے۔ رشی کپور اور متھن میرے آئیڈیل تھے اور ڈانس تو گویا میری رگ رگ میں دوڑ رہا تھا۔ لیکن ان حرامزادے کتوں کی بھوں بھوں نے میرا سارا مزہ کرِکرِا کر دیا تھا۔ جانے کہاں مرگئی تھیں انا جی، جو اُن کے بغیر یہ منحوس کتے میرے گانوں کا ستیاناس کیے دے رہے تھے۔ جھنجلا کر میں نے ٹیپ ریکارڈر بند کیا اور کھڑکی سے نیچے اُن کے صحن میں جھانکا، انا جی کا دور دور تک کوئی پتہ نہ تھا۔ کتوں کا مسلسل بھونکنا میرے سر پر ہتھوڑوں کی طرح لگ رہا تھا، بھو بھوبھو! چڑ کر ایک ٹوٹی چپل نیچے اُن بھیڑیوں پر کھینچ ماری جس کا ذرہ برابر بھی نوٹس نہ لیا گیا۔۔۔ آخر کو وہ انا جی کے کتے تھے۔ اُن ہی کی طرح بے حس، ڈھیٹ اور ہٹ دھرم۔

    اگلے دن جب میں اناجی کے ہاں ٹی وی دیکھنے گیا، تو پتہ چلا کہ اُن کی تو دائیں ٹانگ ٹوٹ چکی ہے، گھٹنے تک پلاستر ہے اور وہ پلنگ پر آگئی ہیں۔ خیر مجھے کیا، میں تو آرام سے رنگین ٹی وی پر ’’تنہائیاں‘‘ کی پانچویں قسط دیکھنے میں مشغول رہا۔ مجھے سنیعہ بہت اچھی لگتی تھی، کچھ کچھ مونا جیسی۔۔۔ مونا ہمارے سامنے والے پڑوسی انصاری صاحب کی بیٹی۔ اچانک انا جی نے پانی مانگا، میں بے دلی سے اٹھا۔ اُسی وقت نشریاتی رابطہ منقطع ہونے سے ٹی وی پر مکھیاں آنے لگیں۔ میں نے ٹی وی کو دوچار مکّے مارے مگر وہاں صرف مکھیاں ہی بھنبھنا رہی تھیں۔ پانی اُن کے پاس پٹک کر میں وہاں سے چل دیا۔ قاری صاحب کے آنے کا وقت ہورہا تھا اور ابو کے خبرنامے کا بھی۔ میں نے انا جی کی طرف مڑکر بھی نہ دیکھا۔ مجھے لنگڑے لولے بدصورت لوگوں سے نفرت تھی۔ ہونہہ! لنگڑی انا جی۔ ویسے تو سارے محلے کی جان عذاب کر رکھی تھی انا جی اور ان کے بھیڑیئے نما کتوں نے، لیکن ہماری چونکہ دیوار ایک تھی اس لیے سب سے زیادہ عذاب ہم جھیلتے تھے۔ کہنے کو ہم لوگ ہمسائے تھے یعنی ایک دوسرے کا سایہ، لیکن ایک دوسرے کے سائے سے بھی بیزار تھے۔

    کراچی ایئرپورٹ کے قرب و جوار میں بسی ملیر کی یہ کالونی، بہت قدیم اور سفید پوش نفوس پر مشتمل تھی۔ یہاں اونچی سرخ چھتوں والے بڑے بنگلے بھی تھے جن کے اندر لان، آگے باڑھ اور ہرے بھرے درخت تھے۔ سول ایوی ایشن کے عملے کے لیے چھوٹے کوارٹرز کی کئی قطاریں تھیں، جو میرے والد اور اُن جیسے معمولی ملازموں کے لیے بنائے گئے تھے۔ انا جی کے شوہر، لقمان صاحب بھی ابا کے ہمراہ کام کیا کرتے تھے۔ بڑے ہی ملنسار اور وجیہہ مرد تھے بے چارے، پتہ نہیں کیسے اس چڑچڑی، بدمزاج اور بدشکل انا جی سے شادی کرلی تھی۔

    بارش کے آثار تھے۔ ٹیپ ریکارڈر کو قریب کرکے میں سونے کی کوشش کرنے لگا۔ انا جی کا نوٹس پہلی مرتبہ میں نے کئی سال پہلے، کسی عیدمیلادالنبی کی شام کو لیا تھا۔ اُس دن محلے میں ایک آدھ مکان کے آگے مٹی کے چراغ جل رہے تھے اور تقریباً ہر گھر سے سوجی بھوننے یا پوریاں تلنے کی خوشبوئیں آرہی تھیں۔ امی نے مجھے سارا دن سودا لینے کے لیے بہتیرا دوڑایا تھا۔ اتنی بار کہ مجھے اس عید ہی سے چڑ محسوس ہورہی تھی۔ صبیحہ باجی کے ساتھ مل کر میں نے ڈرائنگ روم کا فرنیچر ہٹایا تھا، سفید چاندنیاں بچھائی تھیں اور پارے مسجد سے لاکر ترتیب سے جمائے تھے۔ امی دادی کے ساتھ کھیر بنانے اور پوریاں تلنے میں مشغول تھیں۔ ایک ایک کرکے محلے کی سیدھی سادھی عورتیں جمع ہونے لگیں، کہ قرآن ختم کرکے انھوں نے میلاد پڑھنا تھا۔ یہ ہر سال کا معمول تھا۔ مجھے اُس وقت اپنے بلیک اینڈ وہائٹ ٹی وی پر ٹام اینڈ جیری دیکھنا تھا کہ گیٹ پر گھنٹی بجی۔ باہر انّا جی سر پر سوتی ساڑھی کا پلو جمائے، ہاتھ میں طشتری سے ڈھانکے ایک پیالہ لیے کھڑی تھیں۔ میں نے پوچھا، ’’یہ کیا ہے؟‘‘ انا جی بولیں ’’کھیر بنائی تھی بیٹا، بارہ وفات ہے ناں۔‘‘ انا جی ایک دم اپنا پیر اندر رکھ کربولیں، ’’گھر میں میلاد ہورہی ہے؟ ارے واہ! میں سلام بہت اچھا پڑھتی ہوں۔‘‘ وہ اندر آنے لگیں۔ اس سے پہلے کہ دادی آکر اُن کا خیر مقدم کرتیں، بجلی کی سی تیزی سے امی باہر آئیں۔ پیالہ میرے ہاتھ میں تھا۔ امی جلدی سے بولیں، ’’انا جی لوگ پورے ہوگئے ہیں آپ رہنے دیں ہم خود ہی میلاد پڑھ لیں گے۔ آپ کا شکریہ۔‘‘ اور اُنہیں تقریباً نکار کر گیٹ بند کرلیا۔ میں نے طشتری اٹھا کر اندر دیکھا، اچھی کھوئے والی فیرنی تھی۔ انگلی ڈال کر چاٹنا چاہتا تھا کہ امی نے پیالہ چھین کر وہیں کیاری میں الٹ دیا۔ سفید کھیر مٹی پر پڑی چاندنی کی طرح دمک رہی تھی۔ امی بولیں، ’’پھینکو اسے گندے لڑکے۔‘‘ میں نے پوچھا، ’’کیوں؟‘‘ جواب ملا، ’’ارے کتے والے گھر کی کوئی چیز ہم نہیں کھاسکتے۔ توبہ! توبہ! سب غلیظ ہوتا ہے ان کے گھر کا، رحمت کے فرشتے بھی نہیں آتے ان کے یہاں تو۔ کہیں ان کے کتوں کی وجہ سے فرشتے ہمارے گھر کو بھی نہ نظرانداز کردیں، ویسے ہی تمھارے ابا کی نوکری خطرے میں ہے۔ گھن آرہی تھی اس عورت سے مجھے، گندی سی کھیر لیے چلی آئیں ! آئی اماں جان،‘‘ کہہ کر لپک جھپک اندر چلی گئیں۔ لیکن چولہے پر پکنے سے تو سب جراثیم مرجاتے ہیں، کل ہی تو سائنس کی مس تسلیم نے سمجھایا تھا۔ خیر میرا ٹام اینڈ جیری نہ ختم ہوجائے، پانچ منٹ کے لیے تو آتا ہے۔ میں اندر بھاگا۔

    دیوار کی دوسری طرف کھڑی انا جی نے امی کا یہ مقدس درس بڑی رسان سے سنا اور آنگن میں لگے نلکے سے بالٹی بھر کر صحن دھونے لگیں۔ اُن کے تین شیر نما کتے ۔۔۔ ٹائیگر، نادرشاہ اور کتیا مینا، اُن کے اور پانی کے ساتھ کھیلنے لگے۔ ذرا دیر میں انا جی کھلکھلانے لگیں، ’’یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک‘‘ کی آواز پر تخت سے اٹھ کر قبلہ رو کھڑی ہوگئیں۔ سر پر پلو جمالیا اور ہاتھ باندھ لیے۔ زیرلب سلام پڑھنے لگیں، ’’یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک۔‘‘ اندر لقمان صاحب چھوٹا سا بیگ باندھے گھر چھوڑنے کو تیار کھڑے تھے۔

    انا جی اُس وقت ٹائیگر کی جوؤں کو چننے میں ایسے منہمک تھیں، جیسے کوئی کنواری چاند رات میں اپنی مہندی کے نقش و نگار اور محبوب کے خیالات میں محو ہو، بالکل غرق۔ بھاری بیگ لٹکائے لٹکائے لقمان صاحب کا کاندھا شل ہوگیا۔ دیر تک ادھر سے اُدھر کوئیک مارچ کرتے رہے، صراحی سے کئی کٹورے پانی پی گئے مگر انا جی کے کان پر جوں نہ رینگی۔ مجبوراً پھٹے، ’’میں جارہا ہوں۔‘‘ انھیں وہم سا ہوا کہ انا جی نے ’’کہاں‘‘ بولا ہے۔ ویسے انھوں نے لقمان صاحب کے بجائے ٹائیگر کو چپت لگاتے ہوئے کہا تھا کہ کہاں سے لے آئے ہو یہ ticks، شریر۔ لقمان صاحب تلملا کر جزبز ہوتے ہوئے گویا پھٹ پڑے، ’’آج فیصلہ کرلو انیلا! یا تو یہ ملعون کتے اس گھر میں رہیں گے یا پھر میں۔‘‘ انا جی لاپرواہی سے بولیں، ’’ٹائیگر پھر ticksلے آیا۔ بدتمیز !naughty ہاں تو لقمان صاحب آپ کس کے ہاں رہیں گے اب؟ صدیق کے ہاں؟ ٹھیک ہے۔ اُس کی بیٹھک خالی ہی پڑی رہتی ہے۔ اچھا ہے اس کی بھی صحبت ہوجائے گی۔‘‘ اتنا کہا اور تینوں کتوں کے لیے شام کا کھانا تیار کرنے میں لگ گئیں۔ لقمان صاحب کو اپنے بہرے ہونے کا کامل یقین ہوگیا۔ دل و دماغ سے چنگاریاں پھوٹ رہی تھیں، پیر پٹکتے ہوئے گھر سے نکل گئے۔ جاتے جاتے بولے ’’جارہا ہوں میں، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ تمھیں مجھ سے اور بچوں سے زیادہ یہ منحوس خون خوار اور گدھے کے بچے کتے عزیز ہیں، انیلا بیگم! خدا حافظ۔‘‘ ٹائیگرنے مالکن کی جانب اُن کے غصے کو اشتعال جانا اور لپکا اُن کے پیچھے، لیکن وہ جان کی سلامتی کے لیے پہلے ہی کواڑ بند کرچکے تھے۔

    باپ کو جاتا دیکھ دونوں بچے، معین اور جہاں آراء بھی مچلنے لگے لیکن انا جی کی ایک ہی ڈانٹ نے دونوں کو سہمادیا۔ جوان ہوتے معین کے چہرے سے بغاوت عیاں تھی البتہ جہاں آراء اسکول یونیفارم پہنے باقاعدہ لرز رہی تھی۔ معین بولا، ’’ابا ہمیشہ کے لیے چلے گئے کیا؟‘‘ اناجی بولیں ’’کہیں نہیں گئے، وہ آجائیں گے۔‘‘ معین اُداس ہوگیا، ’’کھانا؟‘‘ انا جی بولیں، ’’ابھی ٹائیگر، نادر شاہ کسی نے کھانا نہیں کھایا تم لوگ کیسے کھا سکتے ہو۔ ویسے ہم نے کچھ پکایا بھی نہیں ہے۔‘‘ معین بولا، ’’جہاں آراء کو بھوک لگی ہے۔‘‘ انا جی نے جواب دیا، ’’چائے بنالو دو کپ اور پاپے پر مکھن لگا کر کھالو۔ اور ہاں پھر دونوں آکر یہاں ان بچوں کے ticks صاف کرو۔‘‘ جہاں آراء کو ٹائیگر کی جوئیں چننے کے خیال سے بھی متلی ہوئی۔ وہ ابکائی لیتی غسل خانے کی طرف بھاگی۔ مرتے کیا نہ کرتے، دونوں جوان ہوتے بچے کتوں کی خدمت کرتے رہے، ورنہ انھیں رات کو بھوکا ہی سونا پڑتا اور اب تو ابا بھی نہیں ہیں۔ یہ تقریباً روزانہ کا ہی معمول تھا۔

    اسکول سے بھاری بستے لادے میں اور ارمان چلنے سے زیادہ رک رہے تھے۔ کبھی گولا گنڈا چوستے، کبھی بنگالی کی مچھلیاں دیکھتے اور کبھی بیوٹی ہیئر سیلون پر لگے امیتابھ اور رشی کپور کے پوسٹرز دیکھتے۔ بے خیالی میں، میں نے بال امیتابھ کی طرح سنوارنے کی کوشش بھی کی تھی کہ ارمان تھک کر سیلون کے سامنے تھڑے پربیٹھ گیا اور بولا، ’’دیر ہورہی ہے یار جلدی گھر چلو، مجھے تین بجے ڈاکٹر فاطمہ کے پاس بھی جانا ہے۔‘‘ میں نے بھی شرارت سے کہا، ’’کیوں، وہ تو لیڈی ڈاکٹر ہیں۔ تمھیں کیا مسئلہ ہوگیا ہے، ہیں؟‘‘ ارمان اُداسی بھرے لہجے میں بولا، ’’بس یار وہ آپا کے ساتھ جانا ہے، تین سال ہوگئے آپا کو بچہ نہیں ہو رہا ہے۔ امی کی زندگی بڑی tough ہے۔ بچہ نہ ہوا تو آپا کو شاید طلاق ہو جائے۔ مسرور علی خان! ابو امریکا سے نہ خط لکھ رہے ہیں نہ پیسے بھیج رہے ہیں۔ میرا یونیفارم پھٹ گیا ہے، جوتا چھوٹا ہوگیا ہے، پیر کی چھوٹی انگلی زخمی ہوگئی ہے، مجھ سے چلا بھی نہیں جاتا۔ گھر میں بالکل پیسے نہیں ہیں، دو مہینے سے فیس نہیں گئی ہے میری۔ کل مس ناہید سارا دن کھڑا رکھیں گی مجھے اور میں روؤں بھی نہیں؟ مسرور میں خودکشی کرلوں؟ یار ایسے میں خودکشی حرام تو نہیں ہوتی ناں؟‘‘ میں نے بیگ سے اپنی رپورٹ نکال کر کہا ’’اُلو کے پٹھے، نامرد، یہ دیکھ پوری رپورٹ لال ہے۔ خاص کر منحوس maths میں 0 اور انگلش میں صرف 05نمبر ملے ہیں پھر بھی میں گولا گنڈا چوس رہا ہوں، امیتابھ کی طرح پوز کررہاہوں اور تم۔۔۔؟‘‘ ارمان کو روتے دیکھ کر میں نے کہا، ’’مرد بنو یار!سنو ایک کام کرو، شام کو مجھے ابا سے یہ رپورٹ سائن کروانی ہے، میں خود کرلیتا مگر اب وہ اردو میں دستخط کرنے لگے ہیں۔ دستخط کیا، ایک بل کھاتی مکڑی کے اوپر ایک اژدھا بٹھا کر سائیڈ میں کرکٹ کا بلا رکھ دیتے ہیں، بس اتنی سی بات ہے ۔۔۔ شام کو آجانا۔‘‘ ارمان رونا بھول کر بولا ’’کیوں آؤں شام کو؟‘‘ میں نے کہا، ’’جو رونا تم ابھی رو رہے تھے وہ عین ٹائم پر ابا کے سامنے رونا۔ یہ۔۔۔ ابا جو امریکا میں کھوگئے ہیں، آپا کابچہ نہ ہونا، وغیرہ۔ بس وہ مجھ پر زیادہ غصہ نہیں کرسکیں گے اور کھٹ سے دستخط کردیں گے۔‘‘ پھر اسے پچکارتے ہوئے میں نے کہا، ’’دیکھو میری جان آج ہے جمعرات۔۔۔ کل ہے چھٹی۔ تو، سلیم ویڈیو سے لارہا ہوں VCR، صرف تیس روپے کرائے پر تین فلمیں۔ نمک حلال، شان، قرض اور مغل اعظم دادی کے لیے۔ باقی سب کو بھی بلالیں گے۔ بس بڈھا دستخط کردے اس پر۔‘‘ ارمان بولا، ’’مگر سلیم ویڈیو کے VCR کا ہیڈ کیسٹ چباتا ہے، اُس سے مت لو۔‘‘ میں نے اسے گھورااور ہمیشہ کا تابعدار ارمان خاموش ہوگیا۔ ارمان کو ڈھارس دلا کر میں مطمئن ہوگیا۔ اس رات سب کچھ پلان کے مطابق ہوا۔

    ابا، اخبار جسارت کے لیے پارٹ ٹائم کام کرتے تھے۔ مہاجروں کی کسی نئی تنظیم نے ہر طرف ہلچل مچا رکھی تھی۔ اباکو اُن کے قائد اور اُن کے نظریات سے شدید اختلاف تھا۔ وہ تھے تو مہاجر، مگر سندھ میں رہنے کے باعث اپنے آپ کو سندھی کہتے تھے۔ جے پور سے ہجرت کرکے لٹ پٹ کر اب یہ چھوٹا سا آشیانہ اُنہیں ملا تھا۔ اُس کو بھی اپنے کھرے اور بے باک کالم لکھ لکھ کر برباد کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ دستخط پر بلا بٹھاتے ہوئے انھوں نے اپنا مخصوص جملہ۔۔۔ ’’اگلی مرتبہ فیل ہوئے تو گھر سے نکال دوں گا۔۔۔‘‘ کہا۔ بس میں مطمئن ہوگیا کہ ابا ٹھیک ہیں۔

    اُس رات اوپر میرے کمرے میں امی، اُن کی چھ سہیلیاں، ارمان، پندرہ محلے کے دوست، پڑوسی اور اُن کے شیرخوار بچے تک ٹھسم ٹھسا بیٹھے تھے۔ دادی نے مغل اعظم تو برائے نام دیکھی کہ وہ دیکھ رکھی ہے، پھر پاکیزہ کو یاد کرتے ہوئے فجر قضا کرکے ’’نمک حلال‘‘ بھی دیکھ ڈالی۔ ’’جوانی جان من حسین دلربا‘‘ جب چلا تو مجھے ناچار پروین بوبی کے خوبصورت ڈانس کو آگے بڑھانا پڑا۔ سارا وقت میں VCR سے چپک کر بیٹھا رہا کہ کوئی اور گندہ سین نہ آجائے اور دادی، ابا سے شکایت کر، ہماری یہ واحد تفریح بھی بند نہ کروادیں۔ یکایک میں نے جمائیاں لینا شروع کردیں تاکہ سب جائیں۔ سب کے جانے کے بعد ارمان سلیقے سے دریاں طے کرنے لگا۔ نیند سے گرا پڑتا تھا بے چارہ، لیکن پھر میری دکھائی اصل فلموں نے اُس کی آنکھیں پوری طرح کھول دیں۔ صبح ہوچکی تھی، دیر تک سو بھی نہیں سکتے تھے۔ جمعہ کی نماز جماعت سے پڑھنا بھی تو لازمی تھی۔ انا جی کو جھوٹے منہ بھی بلاوا نہ دیا گیا تھا۔ کیوں کہ اُس دور میں، بلکہ ہر دور میں اہلیان محلہ نے اُن کا مکمل بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ وجہ بلکہ وجوہات تھے اُن کے کتے۔

    اُس دن جہاں آراء اور نادر شاہ دونوں بخار میں پھنک رہے تھے۔ معین، بہن کے ماتھے پر پٹیاں ڈال رہا تھا اور اناجی نادر شاہ کو گود میں لیے اُس کے لیے ایسے پریشان تھیں، گویا اُن کی پہلوٹی کی اولاد ICU میں جاچکی ہو۔ انا جی بولیں، ’’نادر شاہ کھانے کی طرف دیکھ بھی نہیں رہا۔ اسے دیکھو معین، دیدے ڈھلکائے دے رہا ہے۔ سانس بھی رک رک کر لے رہا ہے۔‘‘ معین بولا، ’’انا جی۔۔۔ جہاں آراء کے دست اور الٹیاں رکنے میں نہیں آرہے۔ اس کو ڈاکٹر آغا کے ہاں لے چلتے ہیں، چلیں ناں، بٹوہ نکالیں، میں اسے اٹھاتا ہوں۔‘‘ انا جی نے ایک بھائی کی التجا سنی تک نہیں اور اپنے کان نادر شاہ کی تھوتھنی سے لگادیے، جیسے کہ وہ اُس سے مکالمہ کررہی ہوں۔ اناجی بولیں، ’’اس محلے کے بدذات بچوں نے پتھر مارے ہیں میرے نادر شاہ کو اوپر چھت سے، بزدل کہیں کے۔ نادر شاہ بیٹا! زیادہ درد ہورہا ہے؟ کھانا کھاؤ گے؟ ادھر ہی لادوں؟‘‘

    معین بہن کے پاس جاکر دیوار سے ٹکر مارنے لگااور زور زور سے ابا! ابا! چلانے لگا۔ جہاں آراء کو رونے کاتو موقع ہی چاہیے تھا۔ اتنے میں انا جی اندر آئیں اورکڑک کر بولیں، ’’چپ ہوجاؤ دونوں۔ یہ لو صدیق کا نمبر۔‘‘ ڈائری سے ایک فون نمبر ڈائل کرنے لگیں 62311۔ انا جی نے گھورتی نظروں سے معین کو بہت کچھ سمجھادیا۔ معین فون پر، ’’ہیلو، ہیلو ابا! آپ واپس آجائیں جہاں آراء کی طبیعت بہت خراب ہے آپ کو پکار رہی ہے۔‘‘ جواب میں ابا بولے ’’اور انیلا کے وہ ملعون شیطانی کتے؟ وہ حرامزادے؟‘‘ معین تھوک نگل کر بولا، ’’وہ چلے گئے ابا۔ اناجی نے انھیں کسی کو دے دیا۔ جہاں آراء کی طبیعت بہت خراب ہے۔‘‘ اناجی نے لائن کاٹی، ریسیور چھینا۔ تار لپیٹتی ہوئی فون اٹھا کر اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ فون پر تالا ڈالنا نہ بھولیں۔ معین نے اُسی دم فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ انیس سال کی عمر میں شارجہ سے ملی، الیکٹریشن کی نوکری کی پیشکش کوقبول کرکے پیسہ کمائے گا اور جہاں آراء کو اس جہنم سے نکال لے گا۔ انا جی نادر شاہ کو ڈراپرسے کال پول پلا رہی تھیں۔

    سردیاں آگئی تھیں، میں اپنے یونیفارم کے پھٹے سوئٹر کو خود سی رہا تھا۔ دراصل میں اپنے آپ کو مضبوط بنارہا تھا، کہ اگر آٹھویں میں فیل ہونے پر ابا نے سچ مچ گھر سے نکال دیا تو کیا ہوگا؟ دادی کی سانس کبھی کبھار اٹک جاتی ہے، اگر سالانہ امتحان کے نتیجے تک وہ نہ رہیں تومجھے کون ابا کے عتاب سے بچائے گا؟ تین سو مرتبہ شعلے دیکھنے کے بعد میں اور ارمان جے اور ویرو تھے۔ اُن ہی کی طرح کسی ٹھاکر کی مدد کرکے امیر ہونے کا پلان میں بناچکا تھا۔ چلا جاؤں گا اس گھر سے، ہے کیا یہاں پر؟ محلہ بھی بالکل بیکار، فالتو اور پھر مجھے مونا یاد آگئی۔ بے اختیار نظر صبح کے چمکتے سورج پرجاپڑی اور پھر مایوسی سے اپنے کمرے میں جلتے دس واٹ کے بلب پر۔۔۔ مونا اور مجھ میں بس اتناہی فرق تھا۔ اُتنا ہی فرق ماما پارسی اسکول اور لٹل اسٹار گرامر اسکول میں تھا۔ صبح صبح جب میں اور ارمان پولیس کی وردی جیسے یونیفارم۔۔۔ جو صابن سے دھل دھل کر اور بھی بدرنگ ہوچکے تھے ۔۔۔ پہن کر پیدل اسکول جارہے ہوتے، تو عین اُسی وقت انصاری صاحب، ماما پارسی کے سفید اور کلف زدہ یونیفارم میں ملبوس، اپنی تینوں بیٹیوں کے ساتھ فوکسی چلاتے ہوئے ہمارے قریب سے گزرتے۔ میں ہمیشہ مونا کو دیکھ کر ہاتھ ہلاتا، مگر وہ ہمیشہ گردن اکڑائے سامنے دیکھتے رہتی اور گاڑی زن سے گزر جاتی۔

    پتہ نہیں کیوں مجھے لگنے لگتا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی اور انگریز راج اب بھی قائم ہے۔ یہ جو گاڑی گزری ہے یہ ملکہ وکٹوریہ کی بگھی ہے اور میں بلڈی ہندوستانی۔ اُس وقت انا جی کے کتے اور وہ خود گہری نیند میں ہوتے تھے۔ گلی ہر خطرے سے پاک ہوتی اور ہم بچے بڑے آزادانہ وہاں سے آتے جاتے۔ دن کے تین بجے سے صبح فجر تک کرفیو لگ جاتا اور وہاں ٹائیگر، جگا اور نادر شاہ یوں ڈیوٹی بدلتے، جیسے مزار قائد پر گارڈز کی تبدیلی ہوتی ہے۔ مجھے ان کتوں کی وجہ سے دو گلی گھوم کر بشیر کریانہ اسٹور تک جانا پڑتا تھا۔ جہاں امی مجھے لاہوری نمک، دہی، صابن، تیل، رائی، پاپڑ، بادیان کا پھول، آٹا، باجرہ اور پھول جھاڑو لینے کے لیے دوکروڑ چکر لگوایا کرتی تھیں۔ ٹائیگر تو مجھے بہت ہی زہر لگا کرتا تھا کیوں کہ دوسال میں وہ میری اکلوتی سفید شلوار، سفنچ کی ہری چپل، میرا نیا اسکول بیگ، امی کے منگوائے آدھے پاؤ قیمے کی تھیلی اور لنڈا سے لائے جاگرز تک بھنبھوڑ کر چیتھڑے کر چکا تھا۔ انا جی سے شکایت کی تھی، جواب ملا، ’’بچہ ہے ٹائیگر۔ ابھی دانت نکال رہا ہے، ہر چیز چبا ڈالنے کو دل کرتا ہے اُس کا۔‘‘ میں چپ چاپ اپنی ٹانگ کو گھورتا رہ گیاکہ جانے کب اسے بھی چبانے کو دل کرے اُس کا۔ اب میں مونا کو بھول، ٹائیگر کے خاتمے کے بارے میں دن رات منصوبے بنانے لگا۔ جاسوسی ڈائجسٹ اور سسپنس ڈائجسٹ سے سراغ رسانی کی کہانیاں خصوصی توجہ سے پڑھنے لگا، کہ معلوم چلا لقمان صاحب واپس آگئے۔

    انا جی گھر بہت صاف ستھرا رکھتی تھیں۔ باورچی خانہ کبھی نہ اجڑتا تھا، کیوں کہ وہاں انسانوں کے لیے کبھی کچھ پکتا بھی نہ تھا۔ لقمان صاحب نے آتے ہی گھر کا جائزہ لیا۔ گھر میں بڑا سکون تھا۔ معین شارجہ میں نوکری کے لیے مختلف دفاتر اور ایجنٹ کے چکر کاٹ رہا تھا۔ جہاں آراء میٹرک کے رزلٹ کا انتظار کررہی تھی۔ کتوں کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔ انا جی بھی اطمینان سے اخبارجہاں کا مطالعہ فرما رہی تھیں۔ قریب ہی جنگ، جسارت اور نوائے وقت جیسے اخبار دھرے تھے۔ لقمان صاحب نے ہوا میں تھوتھنی اٹھا کر بالکل کتوں کے انداز میں سونگھا اور فضا کو کتوں کی بو سے پاک پاکر بہت خوش ہوئے، کہ بالآخر وہ کتوں سے برتر ثابت ہوئے اور انا جی نے اُن کی خاطر اپنے لاڈلوں سے جدائی برداشت کرلی۔

    لقمان صاحب بہت سا پھل، بسکٹ اور بندوخان کے کباب پراٹھے لے کر آئے تھے۔ خوشی خوشی گھر میں ایک احساس ملکیت لیے گھومنے لگے، مگر اُن کی یہ خوشی عارضی ہی ثابت ہوئی۔ دو چار دن بعد انا جی بابر مارکیٹ گئیں اور واپسی میں زبانیں لپکاتے اُن کے تینوں لخت جگر ساتھ چلے آئے۔ لقمان صاحب نے خون کے گھونٹ پیتے ہوئے اُن سے استفسار کیا، بلکہ کوشش کی تو انا جی نے کہا کہ وہ جھوٹی ہرگز نہیں ہیں۔ ان تینوں کو کسی قصائی کے ہاں رکھوادیا تھا۔ یہ وہاں اپنے کام سے گئیں تو بچے ساتھ چلے آئے۔ بے چاری جہاں آراء ان کی جوئیں چننے کے لیے پھر تیار تھی۔ لقمان صاحب بڑی دیر اس ادھیڑبن میں کھڑے رہے کہ انیلا یہ سب انتقاماً کررہی ہے، نفسیاتاً یا پھر عادتاً؟ وہ اس گتھی کو زندگی بھر سلجھا نہ سکے۔

    اُس رات سردی کڑاکے کی تھی۔ کہنے کو نیوائر نائٹ تھی مگر ہمارے محبوب جنرل کے اُس بے نور دورِ حکومت میں عیسائی سال نو کے بارے میں سوچنا بھی حرام تھا۔ شام کی کرکٹ بھی بند تھی۔ اب ہم سب بچے سرشام ہی گھروں میں قید کردیے جاتے تھے۔ میں اُس رات بہت بے چین تھا، کیوں کہ ارمان خبر لایا تھا کہ ماما پارسی کی لڑکیاں مونا کے ہاں پارٹی کررہی ہیں اور میرا وہاں جانا ضروری ہے۔ کیسے اور کیوں؟ یہ دو سوال اتنے ہی بڑے تھے جتنے کہ سویت یونین بڑی سپر پاور ہے یا امریکا؟ یا خالائیں ہمیشہ اچھی اور پھوپھیاں ہمیشہ بری کیوں ہوتی ہیں؟ ہمارے آخری سانسیں لیتے بلیک اینڈ وہائٹ ٹی وی کے خبرنامے پر ابا کی نظریں یوں جمی تھیں، گویا صمد بانڈ سے چپکی ہوئی ہوں۔ کیوں کہ بالآخر مارشل لاء اٹھالینے کی خوشخبری قوم کو دی جارہی تھی اور اب ضیا الحق چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے بجائے، جلد ہی صدر ضیا الحق بننے جارہے تھے۔ مجھے کیا۔ ملک جائے بھاڑ میں، فوج رہے یا ریفرنڈم ہو۔ مجھے تو مونا کی پارٹی میں جانا تھا۔

    خاص متھن کو کاپی کرتے ہوئے میں نے سفید کوٹ پتلون اور سفید جوتے لنڈا کی سب سے چھوٹی کیبن، بلکہ زمین پر پڑ ے ڈھیر سے تقریباًچنے کے مول اٹھائے تھے۔ محلے میں کوئلے کی استری سے سوٹ کی تمام شکنیں مٹا کر میں نیوائر پارٹی کے لیے تیار تھا، کہ گھنٹی بجی۔ اس اُلّو کے پٹھے ارمان کو کہا بھی تھا کہ نو بجے کے بعد کبھی گھنٹی مت بجانا، بڈھا گھر پہ ہوتا ہے۔ میں گرتے پڑتے باہر لپکا مگر وہاں ارمان کے بجائے اناجی کھڑی تھیں، ہاتھوں میں گندھے آٹے کا تسلہ لیے۔ میں نے ان کی پلاستر والی ٹانگ پر نظر ڈالی تو وہ بولیں، ’’بیٹا! امی سے کہو کہ اس آٹے کی چھ بڑی بڑی روٹیاں بنادیں۔‘‘ میں نے تسلہ ہاتھ میں لے لیااور انا جی بولیں، ’’ہمارے بچے بھوکے ہیں، اس پلاستر کی وجہ سے ہم نیچے بیٹھ کر روٹی نہیں پکاسکتے۔ ٹائیگر تو تندور کی روٹی کو منہ بھی نہیں لگاتا، نہ ہی نادر شاہ کھاتا ہے باہر کی روٹی۔‘‘ یہ سن کر میں تیزی سے پلٹا۔ اور تسلہ اُنھیں واپس تھماتے ہوئے بولا، ’’امی کبھی آپ کے کتوں کے لیے روٹی نہیں بنائیں گی، لے جایئے۔‘‘ میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس آٹے میں وہ چوہے مار زہر ملادوں، جو امی کل ہی لے کر آئی تھیں۔ انا جی التجا سے بولیں، ’’بیٹا وہ انصاری صاحب کے ہاں خانساماں ہے وہاں لے جاؤ۔ مہربانی کرو۔ وہ پکا دے گا بیٹا۔ ہمیں تو کوئی اُن کے گھر میں آنے بھی نہیں دے گا۔‘‘ کچھ سوچ کر میں مسکرادیا۔

    تھوڑی دیر میں گندھے آٹے کا تسلہ ہاتھ میں لیے، میں یوں انصاری صاحب کے گھر پر دستک دے رہا تھا، جیسے نیوائر کا سہ منزلہ کیک تھامے اُس پارٹی میں آیاہوں۔ خانساماں ہی نے گیٹ کھولا۔ دور رکھے کرسمس ٹری پر قمقمے جل بجھ رہے تھے۔ کن اکھیوں سے میں نے مونا کو لان میں سفید میکسی میں ڈانس کرتے دیکھ لیا تھا۔ باقی لڑکیاں بھی لانگ اسکرٹس پہنے ہنسی کے فوارے چھوڑ رہی تھیں۔ میں خانساماں سے بولا، ’’وہ ہماری امی کو ہارٹ اٹیک ہوگیا ہے اور دادی تو بس آخری سانسیں گن رہی ہیں۔ دو چار دن تک ہماری روٹیاں آپ بنادیں گے سر؟‘‘ بنگالی خانساماں عبدالرزاق ’’سر‘‘ سن کر پاگل ہی ہوگیا اور دانت نکوستے آٹا اندر لے گیا۔

    میں معصوم شکل بنا کر لڑکیوں کو نظر انداز کرتا، اپنے سفید کوٹ پتلون کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے سردی کو چھپاتا، بلاوجہ چنبیلی کے پھول سونگھنے لگا کہ ایک لڑکی کی آواز آئی،

    ’’I didn't know Mona that you invited boys too?‘‘

    ابھی مونا نے ’ہاں کہا تھا کہ ’ناں ‘، کہ مائیکل جیکسن کا Thriller بجنے لگا اور میرے قدم بے اختیار ناچ اٹھے۔ بس پھر کیا تھا۔ بریک ڈانس کا بھرپور مظاہرہ ہوا اور پھر moon walk پر تو لڑکیوں کی انگریزی میں چیخیں نکل گئیں۔ بہانے سے میں نے مونا کو ڈانس پارٹنر بھی بنالیا اور جھک کر اُس کے کان میں سرگوشی کی، ’’میں تو صرف انگلش میوزک ہی سنتا ہوں۔‘‘ مونا کے ساتھ ساتھ یہ اطلاع میں نے اُسی وقت اپنے آپ کو بھی دی تھی۔ کسی نے کہا،

    ’’Look at his costume, how wonderful‘‘

    پلٹا تو رزاق روٹیوں کا چنگیر لیے کھڑا تھا۔

    مونا اور اُس کی وکٹورین دوستوں نے مجھے گرمجوشی سے بائے کیا اور میں مون واک کرتے ہوئے باہر نکل گیا۔ ارمان نے یہ ساری رام کہانی بعد میں کھلے منہ اور پھٹی آنکھوں سے سنی۔ اُس رات مجھے انا جی اور اُن کے کتوں سے تقریباً پیار ہوگیا۔

    برسات کا مہینا تھا۔ اُس دن لقمان صاحب ہمیشہ کی طرح دفتر سے سائیکل پر گھر آرہے تھے لیکن پندرہ منٹ کا راستہ دو گھنٹے کا ہوگیا کیوں کہ محلے کے تقریباً تمام ہی لوگوں نے انھیں روک کر کتوں کی شکایت کی۔ رجب علی قادری نے پورے مکان پر گہرا سبز آئل پینٹ کروا کر اوپر سبز گوٹا لگا اسلامی پرچم چڑھا رکھا تھا۔ ہرماہ قوالی کا اہتمام کرواتے تھے اور عنقریب وہاں پیرکرم الدین قادری کا عرس ہونا تھا۔ ایسے میں آس پاس نجس، بلکہ حرام کتوں کا کیا کام۔

    تجمل حسین کے بچے انا جی کے کتوں سے خوفزدہ تھے اور ڈر کے مارے بستر میں پیشاب کردیا کرتے تھے۔ اُن کے خیال میں کتوں کو رفع دفع کردینے سے اُن کے بچوں کا یہ طبی مسئلہ فوراً حل ہوسکتا ہے۔ زبیدہ آنٹی حال ہی میں ریاض سے آئی تھیں اور اب برقعہ چھوڑ چمکیلی پٹی کا عبایہ اوڑھتی تھیں۔ راستہ روک کر انھوں نے کئی من گھڑت احادیث لقمان صاحب کو سنا ڈالیں کہ کتوں کی سرپرستی کرکے نہ صرف وہ دین و دنیا بلکہ اپنی عاقبت بھی حرام کررہے ہیں۔ نیز قیامت میں وہ اندھے اٹھائے جائیں گے۔

    لقمان صاحب پھر آگ بگولہ ہوتے گھر میں داخل ہونے لگے۔ دروازے پر کباڑیا کھڑا ردّی اخبار، معین (جو اب شارجہ جاچکا تھا) کے پرانے جوتے، کتابیں، دفتر کی ردّی اور کتوں کی بچ جانے والی سوکھی روٹیاں تول رہا تھا۔ ایک بلیک اینڈ وہائٹ تصویر بھی مُڑی تُڑی اُن کاغذوں سے باہر جھانکتی، لقمان صاحب کی بے بسی پر قہقہہ وار ہنس رہی تھی۔ اس تصویر میں وہ اور انیلا (انا جی) دلہا دلہن بنے بیٹھے تھے۔ ساتھ ہی دس سالہ معین اور پانچ سالہ جہاں آراء بیٹھے نئی امی اور پرانی خالہ کو ٹکر ٹکر دیکھ رہے تھے۔ لقمان کی نظریں مشتاقانہ۔۔۔ انیلا کی نظریں البتہ بیزار تھیں۔ دہلیز پر کھڑے کباڑیے کو اخبار تولتے دیکھ کر لقمان صاحب کی سمجھ میں نہیں آیا کہ پہلے کس کا ماتم کریں۔ دس سال سے سسکتی بلکتی اُن کی دوسری شادی کا؟ انیلا کی مسلسل بے حسی اور بے اعتنائی کا؟ یا تین کتوں کے آگے خود کو کتا محسوس کرنے کی بے بسی کا؟ تب اُ ن کی نظر اناجی پر پڑی، جو اب کباڑیے سے مول تول کرنے کے بعد ایک نئے کتے، بلکہ کتیا کو گود میں پکڑ کانچ کی بوتل پر نپل لگا کر دودھ پلا رہی تھیں۔ وہ ہکا بکا رہ گئے کہ اب یہ نئی آفت کہاں سے نازل ہوئی۔ اناجی نے خود ہی ابرآلود مطلع گویا صاف کردیا۔ بولیں، ’’ارے آپ آگئے ! ملیے، مینا سے۔ Russian Puppy ہے۔ وہ سعید ہے ناں، 136 نمبر کوارٹر والا، وہ دے گیا ہے۔ اُن لوگوں کو اچانک ماسکو جانا پڑ گیا، اُس کا فوجی سسر افغان جنگ میں مارا گیا۔ آپ تو جانتے ہیں، سعید کی بیوی Russian ہے۔ وہیں سے تو آئے تھے مینا کے ماں باپ۔ تو وہ لوگ چلے گئے۔ ارے مینا! مینا!‘‘ وہ میناکو پچکارنے لگیں اور بولیں، ’’مینا کی وجہ سے ہم کھانا نہیں بناسکے۔ جہاں آرا سے کہیے آپ کے لیے کھچڑی بنادے، اچار اور پاپڑ سے کھالیجیے گا۔‘‘ لقمان صاحب جل کر بنیان اتارنے لگے۔ صحن میں ٹائیگر، جگا اور نادرشاہ اپنی نئی کزن مینا کے آنے سے بہت خوش تھے۔

    مس قیصرنے کلاس میں پوچھا، ’’حبیبہ! تم بتاؤ، تم آگے انٹر کے بعد کیا پڑھو گی؟‘‘ حبیبہ بولی، ’’مس میں ڈاکٹری پڑھوں گی۔‘‘ مس قیصر آگے بڑھیں، ’’اور تم راحیلہ، تم کیا بنو گی؟‘‘ راحیلہ بولی، ’’مس قیصر میری تو انٹر کے رزلٹ سے بھی پہلے شادی ہے۔ محسن میرا کزن ہے اور ہم دونوں کی منگنی بچپن میں ہی ہوگئی تھی۔ میں تو بس دلہن بنوں گی۔‘‘ کلاس کی سب لڑکیاں ہنسنے لگیں۔ مس قیصر انیلا سے مخاطب ہوئیں، ’’اور تم انیلا؟‘‘ سپاٹ لہجے والی انیلا پھرتی سے کھڑی ہوئی اور تن کر بولی، ’’میں astronaut بننا چاہتی ہوں مس۔‘‘ ساری کلاس انیلا کے اس جواب پرسشدر رہ گئی، لڑکی اور astronaut؟ اُن دنوں نیل آرم اسٹرانگ ویسے بھی چاند پر جھنڈے گاڑھ کر امر ہوچکا تھا۔ مس قیصر حیران ہو کر بولیں، ’’astronaut؟ مانا کہ تمھاری حساب اور فزکس وغیرہ میں distinction آسکتی ہے لیکن انیلا!‘‘ انیلا بولی، ’’مس میں spaceship اڑا کر کسی نئے سیارے کو دریافت کرنا چاہتی ہوں۔ مجھے لگتا ہے زمین کے علاوہ کسی دوسرے سیارے پر بھی زندگی پائی جاسکتی ہے۔ مس میں وہیں پہنچنا چاہتی ہوں۔‘‘ راحیلہ آوازہ کستے ہوئے بولی، ’’لو جی۔ ہم سج سنور کر اپنے دلہا کے دل تک پہنچنا چاہ رہے ہیں اور یہ مریخ تک۔‘‘ لڑکیوں کے قہقہے انیلا نے اسکول کے گیٹ سے نکلنے تک سنے۔ انیلا کچھ عجیب سی تھی۔ بہت پڑھاکو، کم بات کرتی تھی۔ ہمیشہ اوّل آتی تھی۔ میٹرک میں رہتے ہوئے BSc کا کورس پڑھتی تھی۔ لیکن یہ باتیں خاص تو ہوسکتی ہیں عجیب نہیں۔

    عجیب بات یہ تھی کہ اُس میں نسوانیت نام کو نہ تھی، دوپٹہ اوڑھے یا نہیں، کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ لڑکیاں ہر وقت اپنے کزنز اور منگیتروں کی باتیں کرتیں۔ بس اسٹاپ پر کھڑے اُن کے انتظار میں پتھر ہوتے ہوئے لڑکوں کی باتیں کرتیں، جب کہ انیلا خود ایک ایسا پتھر تھی جس کی زندگی میں ان سب خرافات کی کوئی جگہ نہ تھی۔ اسپیس انجینئرنگ اُس کا خواب تھا۔ گھر جاکر بھی وہ کتابوں اور خوابوں میں گم رہتی۔ نہ اُسے بننے سنورنے کا شوق تھا، نہ پہننے اوڑھنے کا۔ دس سال پہلے آپا کی شادی ہوچکی تھی۔ اُن ہی کے چھوڑ گئے کپڑے وہ پہن لیتی تھی، بلکہ کبھی تو ابا کی پرانی پتلون قمیض بھی پہن لیتی۔ نلکے، بجلی کے سوئچ اور پانی کی موٹرٹھیک کرنے سے لے کر بلب وغیرہ بدلنے تک، سب شوق سے کرتی۔ یہاں تک کہ چاند رات کو ابا کے ساتھ مل کر کمروں میں رنگ بھی کرڈالتی۔ بھاری سامان اِدھر سے اُدھر لے جانے کے لیے اُس نے خود ایک لوہے کی ٹرالی بنائی تھی۔ اُسے بچے زہر لگتے تھے۔ آپا کے دو بچے تھے، معین اور جہاں آرا۔ ۱۷ سالہ انیلا کے خیال میں بچے ایک تو عورت کی ترقی میں رکاوٹ ہوتے ہیں، دوسرے وہ ماں کو موٹا، بھدا، بیمار اور چڑچڑا کردیتے ہیں۔ لقمان بھائی تو اُسے ڈریکولا لگتے تھے، جنھوں نے آپا کا خون چوس کر بہن کو حسین گڑیا سے بڑھیا بنا ڈالا تھا۔

    آپا، جو کبھی اقبال بانو کی غزلیں اور گیت گایا کرتی تھیں، ’’پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے‘‘، اب مائکے آکر بچوں کی بیماری، اپنی بیماری، لقمان کی بیماری، ساس کی اجارہ داری، بڑھتی مہنگائی، قرضے اور مکان دار کے تقاضوں کا ہی تذکرہ کیے جاتیں۔ آئینہ دیکھنے کا وقت ہی نہ ہوتا اُن کے پاس۔ اُجڑے خشک بال جن میں ہفتوں کنگھا نہ ہوتا، گندے ناخن اور پھٹی ایڑیاں۔ مسکرانا تو جیسے بھول ہی چکی تھیں۔ اپنا گھر بہت گندہ رکھنے لگی تھیں۔ اور تو اور کھٹی ڈکاریں لینے لگی تھیں۔ انیلا سے بھی برائے نام بات کرتیں بلکہ انیلا خود ایک اجنبی، پھوہڑ عورت کو اپنی آپا سمجھنے سے قاصر تھی۔ انیلا نے ایک مرتبہ لقمان بھائی کو کھری کھری سنادی تھی، کہ آپا کو اس حال میں پہنچانے کے وہی ذمہ دار ہیں۔ اُس دن تو وہ نادم سے ہوئے اور نتیجتاً کچھ ماہ بعدآپا کو پھر حاملہ کر کے مائکے بھجوادیا۔ اب تین مہینے سے آپا کھٹی ڈکاروں اور مٹکا سا پیٹ لیے اُس کے سر پر سوار تھیں۔ اُن کو آتا دیکھ کر انیلا اپنی کاپیوں میں خوامخواہ دقیق سوالات حل کرنے لگتی۔ معین پڑھنے میں نالائق تھا اور جہاں آراء کی maths بہت خراب تھی۔ انیلا کے خیال میں خراب حساب رکھنے والوں کو دنیا میں جینے کا کوئی حق نہیں تھا۔

    بس اسٹاپ سے چلتے ہوئے انیلا تیزی سے گھر کی طرف جارہی تھی۔ آج ہی آتے ہوئے اُس نے کباڑی سے کسی کے ریسرچ کیے ہوئے فیثاغورث تھیورم پر لکھے thesis کا مسودہ خرید لیا تھا۔ گھر جاکر وہ اس پر غوروخوص کرنا چاہتی تھی، کہ دروازے ہی سے امی اور پڑوسنوں کے رونے دھونے کی آوازیں باہر آنے لگیں۔ دھڑکتے دل سے اُس نے دروازہ دھکیلا۔ صحن کے بیچوں بیچ آپا لیٹی ہوئی تھیں۔ سفید چادر سے ڈھکی ہوئی۔ پھولا ہوا پیٹ پچک چکا تھا۔ بال الجھ کر اور بھی سوکھی رسی جیسے ہوگئے تھے، مگر اُن کے چہرے پر آج بڑا اطمینان تھا۔ آگے ہو کر انیلا نے انھیں دیکھا تو وہ مسکرا رہی تھیں، جیسے کہہ رہی ہوں، انیلا اب میرے پاس وقت ہی وقت ہے۔ تیل ڈال کر بال سنواروں گی، نیا گوٹا لگا جوڑا پہنوں گی، اُسی رنگ کی چوڑیاں پہن کرکھنکاؤں گی۔ اب اکیلی جو ہوں ۔۔۔ نہ بچوں کا جھمیلا ہے نہ میاں کا۔ اب نہ زندگی کادھڑکا رہا نہ موت کا۔ انیلا کو اُس وقت روتے بلکتے معین اور جہاں آراء سے اور بھی نفرت ہوئی۔ لقمان بھائی مسکین بنے آنسو پونچھ رہے تھے اور ابا کے ساتھ تجہیز و تکفین کی باتیں کررہے تھے۔ وہ آگے بڑھی کہ لقمان بھائی کو ایک تھپڑ رسید کرے کہ بس میری آپا کو واپس لاکر دو! میں کچھ نہیں جانتی! مگر لقمان نے سختی سے انیلا کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کرلیا، بلکہ جکڑ ہی لیا۔ دور بیٹھی اماں دھیرے سے بس مسکرادیں۔ لا الہ اللہ محمد الرسول اللہ! مرد جنازے کو کاندھا دینے آگے بڑھے۔ انیلا کو محسوس ہوا کہ اُس صحن سے اُس شام ایک نہیں دو جنازے اٹھے تھے۔

    جس رات لقمان، انیلا کو اپنے نکاح میں لے کر ملیر کی اس آبادی میں آئے، اُس رات چاند نے بھی انیلا سے اپنا منہ چھپالیا تھا۔ شاید وہ اُس سیارے کی جانب چلا گیا تھا جہاں کبھی انیلا اپنا اسپیس شپ لے کر جانا چاہتی تھی۔ اماں کی آواز دور سے آتی رہی، ’’ارے تو لقمان تمھیں انجینئر بننے سے روکیں گے کیا؟ شادی کے بعد پڑھائی جاری رکھنا۔ ہاں اب معین اور جہاں آراء کی تم خالہ نہیں ماں ہو۔‘‘ انیلا گم سم تھی۔ ارسلا کے حمل، پھر اُس کی جان لیوا زچگی اور اس سارے تکلیف دہ عرصے کے بعد آج لقمان کو راحت نصیب ہونے والی تھی۔ آنے والی سہاگ رات کا سوچ کر وہ مست تھے۔

    ذرا سر پھری ہے انیلا تو کیا ہوا۔ مرد کے سائے میں بیٹھ کر کسی بھی سرکش عورت کا دماغ درست ہوجاتا ہے۔ بچوں کو آج نانی کے ہاں چھوڑ آئے تھے وہ۔ راستے ہی سے پھل دودھ مٹھائی خرید لیا تھا۔ ساس نے پلاؤ زردہ ساتھ بڑے سے ٹفن کیرئیر میں باندھ دیا تھا، کہ انیلا نے باورچی خانے کی کبھی شکل بھی نہیں دیکھی تھی۔ انھیں کیا معلوم تھا کہ انیلا نہ صرف باورچی خانے سے، بلکہ بہت سی جبلی اور فطری نعمتوں سے بھی محروم تھی۔ ساری رات لقمان حیلے بہانے سے انیلا کو سیج پر بلاتے رہے، مگر وہ اندھیرے صحن میں بیٹھی کائنات کی کروٹ، ستاروں کی الٹی چال، سیاروں کے ٹکرانے اور اِس کے نتیجے میں نکلنے والی آگ، توانائی اور تپش کی حدت پر غور کرتی رہی۔ اپنی زندگی ختم کرنے کے بارے میں بھی سوچنے لگی۔۔۔ کہ اچانک ایک چھوٹی سی حیوانی بھو بھو نے اُس کی توجہ اپنی طرف مبذول کروالی۔ گلی میں بھوک سے بلبلاتا اور اپنے زخم چاٹتا یہ چھوٹا سا کتے کا پلا ٹائیگر تھا۔ سترہ سالہ انیلا نے سب بھول بھال ماتھے سے گھونگھٹ، ٹیکا نوچا اور کٹوری سے کتے کو دودھ پلانے لگی۔ وصل کے لیے تڑپتے لقمان جب حجلۂ عروسی سے اٹھ کر صحن میں آئے، تو کم سن دلہن ٹائیگر کو گود میں لیے وہیں سر جُھکائے سوچکی تھی۔

    سردی کی شدید لہر آئی ہوئی تھی۔ رجب علی قادری نے پیر کرم الدین قادری کے سالانہ عرس کا بڑھیا اہتمام کر رکھا تھا۔ قوالی کے بعد لنگر کا انتظام تھا۔ غلام فرید صابری، مقبول صابری اور ہمنوا پوری عقیدت سے، ’’خواجہ کی دیوانی، میں تو دیوانی‘‘، گارہے تھے۔ رجب علی قادری پھولوں کے ہار پہنے سجادہ نشین بنے بیٹھے تھے۔ مریدین قوالوں پر بڑے بڑے نوٹ نچھاور کررہے تھے۔ بیشتر مرد سفید کرتے پاجامے میں تھے۔ مشتاق حسین کو سخت حال آیا ہوا تھا، جھوم جھوم کر نوٹ اچھال رہے تھے۔ خواتین کے لیے پردے کا خصوصی انتظام تھا، محلے کی پردہ دار بیبیاں وہاں سے محفل سماع میں شریک تھیں۔

    انا جی دو ایک مرتبہ ادھر سے اُدھر متوحش نظروں سے کسی کو تلاش کرتی گزر چکی تھیں۔ میں جو سفید کرتے پاجامے پر سیاہ شال اوڑھے، ’’بھر دو جھولی‘‘ پربلاوجہ جھوم رہا تھا، انا جی کو دور سے دیکھ کر ارمان کے پیچھے لگے گاؤ تکیے کی اوٹ میں تقریباً لیٹ گیا۔ ارمان نے مجھے گھورا کہ کیا ہوا؟ میں بولا، ’’یار، کوئی کام دے دیں گی ابھی۔ ہمارے کتوں کی دوا لادو، روٹیاں پکوادو یا پھر مونگ پھلیاں لادو۔ میں نہیں جارہا یہاں سے اٹھ کر۔‘‘ ارمان بولا، ’’چلتے ہیں ناں، میرے تو سر میں درد ہورہا ہے۔ ہم اسپیکر کے اتنے پاس بیٹھے ہیں اور وہ ڈھول والا، کتنے زور زور سے ڈھول پیٹ رہا ہے۔‘‘ میں ارمان کو لتاڑتے ہوئے بولا، ’’وہ ڈھول نہیں، کانگو ڈرمس ہیں بے وقوف، جاہل! مغربی افریقہ میں افریقن قبیلے بجاتے ہیں۔‘‘ میں ارمان کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔ ویسے بھی وہ آجکل بہت چپ چاپ اور اُداس رہتا تھا۔ اُس کے ابو امریکا سے آگئے تھے۔ وہ کہیں لاپتہ نہیں ہوئے تھے، بلکہ انھیں بلڈ کینسر ہوگیا تھا۔ میں اب ہر وقت اُسے ساتھ رکھتا اور اوٹ پٹانگ مذاق کرکے اُسے ہنسایا کرتا تھا، کہ کہیں وہ سچ مچ خودکشی نہ کرلے۔ ارمان نے پھر بیزاری سے کہا، ’’مسرور۔ چلو ناں۔ بہت نیند آرہی ہے، گھر جانا ہے۔‘‘ میں نے بتایا، ’’ارے، ابھی تو تاجدارِ حرم نہیں پڑھی انھوں نے۔‘‘ ارمان بولا، ’’گائی نہیں انھوں نے۔‘‘ میں نے کہا، ’’قول سے ہے قوالی اورقوالی پڑھی جاتی ہے، گائی نہیں جاتی جاہل۔ اس کے آخر میں ترانہ پڑھا جاتا ہے، پھر رنگ گایا جاتا ہے۔ اور پھر محفل سماع کا سب سے متبرک اور اہم مرحلہ آتا ہے، لنگر کا۔ یعنی بریانی، قورمہ اور تافتان و زردہ۔ اسے کھائے بغیر تو میں نہیں ٹلنے کا۔ گناہ ملتا ہے اگر لنگر میں شامل نہ ہوں۔‘‘

    انا جی پھر پریشان سی ایک قنات کے پاس سے ٹائیگر، ٹائیگر کہہ کر پکارتی گزریں۔ یہ دیکھ کر میں بولا، ’’افوہ! تو ان کا منحوس ٹائیگر کہیں دفعان ہوگیا ہے۔‘‘ بچھیا کی پندرہ بیس بوٹیاں بھنبوڑنے کے بعد، اب میں نلی سے جھٹک جھٹک کر گودا نکالتے ہوئے بولا، ’’سارا مزہ کرِکرِہ کردیا اس لنگڑی بڑھیا نے۔‘‘ ارمان نے ڈانٹا، ’’ایسے نہیں بولتے بدتمیز۔‘‘ میں نے کہا، ’’بھئی میں ذرا حقیقت پسند ہوں۔ جو ہے سو ہے۔ تم وہ زردہ پلیٹ میں اوپر تک بھر کر لے آؤ، کاہل! دیکھتے نہیں لوگ دستر خوان سے ہاتھ پونچھ کر اب زردے پر ٹوٹ پڑنے والے ہیں۔ پھر ایسی افراتفری ہوگی، کہ جیسے کہ قیامت کا صور پھونکا جاچکا ہو۔ کوئی کسی کو نہیں پہچانے گا۔ جلدی جاؤ اُدھر۔‘‘ ارمان شرمندگی سے بُدبُدایا، ’’میں نہیں لارہا۔ ابھی لوگ بریانی کھا رہے ہیں میں زردہ لے آؤں۔ مجھے شرم آتی ہے بھئی۔‘‘ میں نے اُسے کڑی نظروں سے گھورا، جس میں بغیر کہے یہ الفاظ پنہاں تھے، کہ اب نہ تو انا جی سے maths کے ٹیوشن پڑھواؤں گا اور نہ ہی VCR پرخاص فلمیں دکھاؤں گا۔ اور نہ واک مین، جو مزمل بھیا نے مجھے بھیجا ہے، وہ تو بالکل بھی سننے کو نہیں دوں گا۔ ارمان ڈش تھماتے ہوئے بولا، ’’یہ لو۔‘‘ وہ سدا کا تابعدار۔۔۔ ایک نہیں دو پلیٹ بھر زردہ لے آیا۔۔۔کہ اچانک انا جی مجھے کالر سے اوپر گھسیٹتے ہوئے بولیں، ’’مسرور، مسرور! فوراً میرے ساتھ آؤ۔ ٹائیگر کہیں نہیں ہے۔ دوپہر سے غائب ہے۔ اُس نے کھانا بھی نہیں کھایا۔ سارا محلہ چھان چکے ہیں ہم۔ نادر شاہ بھی عجیب سویا سویا پڑا ہے۔ کسی نے کوئی شیطانی کی ہے ہمارے بچوں کے ساتھ۔‘‘ میں نے نلی سے نکالے گودے اور زردہ کو ملا کرجلدی جلدی تقریباً نگلتے ہوئے کہا کہ، ’’میں اور ارمان محلے کے باہر چھوٹے تالاب تک دیکھ کر آتے ہیں۔ اگر یہاں نہیں ہے تو چھوٹے تالاب کی طرف چلا گیا ہوگا، کبھی کبھار جاتا ہے وہ وہاں۔‘‘ دل ہی دل میں کتوں کی تمام نسلوں اور اناجی کے آباء واجداد تک کو کوس کر میں چھوٹے تالاب تک پہنچا۔ فجر ہورہی تھی، ارمان نیند سے لڑھک رہا تھا۔ ہم لوٹ ہی رہے تھے کہ دلدل میں کوئی چیز ہلتی ہوئی نظر آئی۔ ارمان چلایا، ٹائیگر! ٹائیگر!

    بوڑھا ٹائیگر امید بھری نظروں سے ہم دونوں کو دیکھنے لگا۔ مجھے تو وہ میری خوشبو سے پہچانتا تھا۔ میں آگے جاتے جاتے رک گیا۔ ارمان یہ دیکھ کر بولا، ’’کیا ہوا؟ جاؤ ناں آگے۔ مجھے تو کتوں سے ڈر لگتا ہے اور تمھیں تو وہ کچھ بھی نہیں کہے گا، جاؤ۔ وہ کیچڑ اور دلدل میں پھنس گیا ہے، کہیں مر نہ جائے جلدی جاؤ۔‘‘ میں نے اطمینان سے کہا، ’’مر ہی جانے دو اُسے یار۔ امی نے عید کا نیا جوڑا دیا تھا پہننے کو، اس شرط پہ کہ میں اس پر کسی قسم کے داغ نہیں لگاؤں گا۔ دیکھ رہے ہو یہ سفید کرتا پاجامہ، اگر خراب ہوگیا تو رمضان کی عید پر کیا پہنوں گا؟ تم تو ہو پورے احمق۔‘‘ ارمان آہستہ سے بولا، ’’اور ٹائیگر؟‘‘ میں بے بسی سے گویاہوا، ’’میں نے کل ہی مونا کے ہاں Readers Digest میں پڑھا تھا، کتوں کی عمرآٹھ سے دس سال ہوتی ہے۔ جلد یا بدیر ٹائیگر کو مر ہی جانا ہے ! تو، آج ہی سہی۔‘‘

    کچھ دیر بعد میں سینہ تانے، ٹائیگر کی لاش اٹھا کر محلے کی طرف آنے لگا جو مجھے ایک مچھیرے نے نکال کر دی تھی۔ انا جی پر تو سکتہ طاری ہوگیا۔ دس دن تک انھوں نے باقاعدہ ٹائیگر کا سوگ کیا۔ اُس کی لاش قریب ہی ایک خالی پلاٹ میں دفنائی گئی۔ نادرشاہ اور جگا بھی عرصے تک ماتم کناں رہے۔ سوائے میری دادی کے اور کوئی ٹائیگر کی تعزیت کو نہ گیا، جس کا انا جی نے خاصا برا مانا۔

    انا جی نے ٹائیگر کی ناگہانی موت کا ذمہ دار نہ صرف رجب علی قادری اور اُن کے مریدوں کو ٹھہرایا، بلکہ اس کی FIR کٹوانے ملیر تھانے بھی پہنچ گئیں۔ یہ اور بات کہ رپورٹ درج کرنے کے بعد SHO نے انھیں چائے پلائی، عزت سے رخصت کیا اور رپورٹ پھاڑتے ہوئے بولا، ’’بے چاری! اچھی خاصی عورت پاگل ہوگئی ہے۔‘‘

    جب رشتۂ مناکحت عداوت پر قائم ہو، تو وہی ہوتا ہے جو انیلا اور لقمان کی زندگیوں کے ساتھ ہوا۔ انیلا جب بھی یونیورسٹی سے داخلہ فارم لاتی، لقمان صاحب فارم اور فیس بھرنے کے بجائے بہاولپور اور لاڑکانہ کے دوروں پر نکل جاتے۔ اماں تو اُسے لقمان کے سپرد کرکے صرف حج عمرہ کی باتیں کرتیں۔ ابا گھریلو معاملات میں دخل اندازی پسند نہیں کرتے تھے۔ ویسے بھی انھیں اپنے شاعر دوستوں اور مشاعروں سے فرصت نہ تھی۔ دو چار مرتبہ لقمان نے انیلا کے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی تو اُس نے بہت واویلا مچایا۔ اتنا کہ باہر سوئے معین اور جہاں آراء سہم گئے۔ اگلے دن پڑوسی خیریت پوچھنے آگئے کہ کیا وہ نئی دلہن کو زدوکوب کررہے ہیں؟ اب لقمان کسی کو کیا بتاتے، کہ انھیں شرعی حق حاصل ہو کر بھی کچھ میسر نہ ہوا۔ انیلا کسی نفسیاتی مریضہ کی طرح سارا دن پلنگ پوش اور تکیے کے غلاف دھوتی رہی۔ انیلا کے خیال میں اُس کے جسم کے ساتھ ساتھ اُس کا سارا گھر بھی گندا ہوگیا تھا۔

    بہت جلد ٹائیگر کے ساتھی جگا اور پھر نادرشاہ بھی آگئے۔ اب برسوں سے انیلا کا معمول تھا کہ دن کے بارہ بجے قریبی مارکیٹ سے کتوں کی خوراک خرید کر، راستے بھر ملنے والے آوارہ کتے بلیوں کو بھی فیضیاب کرتی ہوئی گھر تک پہنچتی۔ کبھی کبھارباقی بچ جانے والے چھیچڑے وغیرہ، اپنی چھت پر کھڑی ہو کر چیل کوؤں کے لیے بھی اچھالتی کہ پرندے بھی کیوں اس من و سلویٰ سے محروم رہیں۔ کبھی یہ چھیچڑے صحن میں پڑھتے کسی بچے کی کاپی پر جاگرتے، کبھی میرے ابا کی چائے کی پیالی میں اور کبھی انصاری صاحب کے انگلش لان میں یوگا کرتی اُن کی بیگم کے منہ پر۔ محلے میں غم و غصہ بڑھتا جارہا تھا کہ ہندوستان کی جانب سے سنہ ۷۱ء میں جنگ کی دھمکیاں آنے لگیں بلکہ ہوائی اڈے پر بمباری کی افواہیں اڑنے لگیں۔ ملک پر جنگ کے سائے منڈلانے لگے، جس کے اثرات برسوں رہے اور شاید ہمیشہ رہیں گے۔

    انصاری صاحب بڑے افسر تھے۔ وہی ایئرپورٹ سیکورٹی کے ہائی الرٹ ہونے کی خبر لائے تھے۔ انھوں نے سارے محلے کے مرد حضرات کو جمع کیا، البتہ لقمان صاحب حسب دستور اپنے بچوں کے ہمراہ اُن دنوں سکھر کے دورے پر تھے۔ انصاری صاحب نے تمام مکینوں کو انخلا کا نوٹس پڑھ کر سنایا اور یہ بھی بتایاکہ سب کے پاس صرف آٹھ گھنٹے ہیں۔ خواتین، بچوں اور ضروری سامان کے ساتھ کارساز پرواقع فوجی بیرکس میں منتقل ہونے کے لیے۔ ایک بھگدڑ سی مچ گئی۔ ۷۱ء کی جنگ سے پہلے ہی، عالمی جنگ کا سا سماں ہوگیا اُس محلے میں۔ کئی فوجی ٹرکوں میں لد کر جب اہلِ محلہ نکلنے لگے تو میری دادی ہی کو انا جی کا خیال آیا۔ میں اُس وقت امی کی گود میں سورہا تھا۔ دادی بھاگی بھاگی گئیں اور اناجی کو حکومت کے اس نوٹس کے بارے میں بتایا۔ خطرے کے سائرن بار بار بج رہے تھے اور ماحول عجیب ہولناک ہوگیا تھا۔

    لیکن انا جی اُس وقت حسب معمول، اطمینان سے، ٹائیگر کے لیے، ٹین کے کنستر میں چھیچڑے ابال رہی تھیں۔ سارے گھر بلکہ سارے محلے میں سڑی بساند پھیلی ہوئی تھی۔ دادی نے تحمل سے ناک پر کپڑا رکھا اور اناجی کے اٹھنے کا انتظار کرنے لگیں۔ اناجی بولیں، ’’ہم کیسے جاسکتے ہیں اماں جان۔ اگر ہمارے ساتھ ہمارے بچے بھی جانے دیے جائیں تو ضرور، ابھی چلتے ہیں۔‘‘ دادی بولیں، ’’ہاں، ہاں، بچے تو جائیں گے ہی۔ کیوں نہیں۔ بلاؤ بچوں کو۔‘‘ انا جی نے جیسے ہی ٹائیگر اور جگا کو چلنے کے لیے اٹھایا، دادی نے لاحول ولا قوۃ کہا اور ٹرک میں سوار ہو گئیں۔ راستے بھر اہالیان محلہ ہندوستانی فوج سے زیادہ اناجی پر تبرّہ بھیجتے رہے۔

    کئی ماہ تک جنگ، ہوائی اڈے کی جگہ بندرگاہ پر شدیدبمباری، شہری و املاکی نقصان اور محاذ پر تباہ کاریاں ۔۔۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا۔ ملک دو لخت ہوا۔ گھر چھوڑ کر جانے والے تارکین محلہ واپس لوٹ آئے۔ زندگی ذرا لنگڑا کر پھر ایک ڈھب پر چلنے لگی، مگر انیلا عرف انا جی ٹس سے مس نہ ہوئیں۔ اس کے دوچارسال بعد، لقمان صاحب کا اچانک حرکت قلب بند ہوجانے سے انتقال ہوگیا۔ انا جی نے نہ تو ان کی تعزیت کسی سے قبول کی، نہ چالیسواں کیا، نہ عدت بیٹھیں۔ بلکہ ہر وقت زور دار آواز میں دن کوریڈیو اور رات میں ٹی وی چلا کر اپنے کام کرتی رہیں۔

    معین شارجہ واپس چلا گیا اور جہاں آراء کی اُس کے ددھیال میں شادی ہوگئی۔ جہاں آراء نے وہاں سے رخصت ہوتے ہوئے سوچا تھا، کہ اب کبھی وہ اس دہلیزپر قدم نہیں رکھے گی۔ مگر قسمت اُسے جلد ہی پھر انا جی کے جہنم میں دو بچوں سمیت لے آئی۔ میں اور ارمان میٹرک کا امتحان دینے والے تھے۔ اب ہماری دوپہر کی شفٹ تھی، لیکن مونابہ دستور مجھ سے اُتنی ہی دور تھی جتنا کہ ریل کا پہلا اور آخری ڈبہ۔

    امی جلدی سے بولیں، ’’یہ لو ٹفن اور بھاگو جلدی۔ دیر ہورہی ہے۔‘‘ انھوں نے اسٹیل کا چھوٹا سا ڈبہ آگے سرکایا، میں نے شوق سے ڈبے میں جھانکا اور منہ بناتے ہوئے بولا، ’’پھر رات کا سالن اور پراٹھا؟ امی اس سے سارا دن کلاس میں ادرک، لہسن اور مسالے کی بو پھیل جاتی ہے۔ سب دوست ہنستے ہیں۔‘‘ امی کے ہاتھ میں لوہے کا چمٹا تھا جس سے مار بڑی زور دار لگتی تھی۔ اس لیے میں مدھم لہجے میں بولا، ’’آپ سینڈوچ کیوں نہیں بناتیں امی؟ چکن سینڈوچ، بیف سینڈوچ‘‘ امی دانت پیستے ہوئے بولیں، ’’ڈبل روٹی کے سینڈوچ؟‘‘ وہ اُس وقت دوپہر کے لیے آدھا پاؤ گوشت سے تین لیٹر شوربہ بنارہی تھیں، تاکہ ہم سب کو پورا آسکے۔ میں نے فوراً ہی کہا، ’’جی۔ یا پھرپاستہ، نوڈلز، چائنیز ہی بنادیا کریں۔‘‘ امی کی گرفت چمٹے پر مضبوط ہونے لگی، بولیں، ’’وہ انگریزوں کے کھانے ہیں، عیسائیوں کے۔‘‘ میں بولا، ’’مگر عیسائی تو اہل کتاب ہیں امی۔ ان سے تو نکاح بھی جائز ہے۔ آپ ہی نے بتایا تھا۔‘‘ امی کا پارہ اب بہت چڑھ چکا تھا، ’’بہت زبان چلانے لگے ہو بڑوں سے؟ تمھارے ابا بھی کہہ رہے تھے کہ مسرور بڑوں کو جواب دیتا ہے۔‘‘ امی جب بھی لاجواب ہوتیں تو ان ہی دو باتوں کا سہارا لیا کرتیں، ’’اچھانوڈلز؟ یہ کیا ہوتاہے۔ وہ موٹی سوئیاں؟ ہمارے ہاں نہیں بنتے یہ فرنگی اور چینی کھانے۔ کہاں سے سیکھ کر آرہے ہو یہ سب خرافات۔ بستہ اٹھاؤ اور نکلو۔ اور ہاں راستے میں تمھارے ابا یونین آفس میں بیٹھے ہوں گے، کہنا کہ جلدی گھر آئیں۔ میری دوا لانا ہے ہومیو سے۔ جہاں جاتے ہیں وہیں کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ جاؤ اٹھاؤ یہ ٹفن۔ ورنہ بھوکے رہو۔‘‘ امی بڑبڑاتی رہیں، ’’اب سینڈوچ بنیں گے ان کے لیے۔ ڈبل روٹی، مرغی مکھن، الَابلَا۔ دنیا کا خرچہ۔ انا جی کے ہاں ٹی وی دیکھ دیکھ کر دماغ خراب ہورہا ہے لڑکے کا۔‘‘

    اب میں انھیں کیا بتاتا کہ مونا کے ہاں دیکھے ہیں، بلکہ کھائے ہیں انگریزی کھانے۔ مجھے مونا کے یہاں سلیقے سے سجی چھری کانٹے والی میز، کلف دار نیپکنز، مسز انصاری کے بیک کیے ہوئے کیک، بسکٹس اور ٹی کوزی میں لگی شام کی چائے کی ٹرالی یاد آگئی۔ میں نے ارمان سے کہا، ’’ارمان، میں بڑا ہو کر ناں، سمندر کے کنارے فلیٹ خریدوں نہ خریدوں، ایک بڑا سا فرج ضرور خریدوں گا۔ جس میں صرف jam، بٹر، فروٹس، کیچپ کی بڑی بوتل، بریڈ، چاکلیٹس، کولڈ ڈرنکس اور بنے بنائے سینڈوچز رکھا کروں گا۔ بس برگر اور نوڈلز کھایا کروں گا۔ دیکھنا تم۔‘‘ ارمان نے فوراً پوچھا، ’’اور رات کا بچا ہوا سالن، کھچڑی، ادرک، لہسن سبزی اچار حلیم وغیرہ؟ وہ کہاں رکھو گے؟‘‘ میں نے جیسے کانوں پر ہاتھ رکھ لیا اور یونین آفس میں جھانکا، ’’ارے، یہاں تو محلے کی میٹنگ چل رہی ہے۔‘‘ کٹنیوں کی طرح میں نے اندرکان لگادیے۔ زوروشور سے جاری یہ میٹنگ سراسر اناجی کے خلاف جاری تھی۔ وہاں ابا تو نہیں البتہ دادی دوسرے اہلیان محلہ کے ساتھ موجود تھیں۔ صدر کی کرسی پر انصاری صاحب بیٹھے تھے۔

    رجب علی نے پان کی پیک گالوں میں گھمائی اور بولے، ’’اُن کتے کے بچوں نے سارے محلے کا سکون درہم برہم کر رکھا ہے۔ یہاں وہاں پاخانہ کرتے ہیں اور ساری رات کمینے بھونکتے ہیں۔‘‘ دادی طرف داری کرتے ہوئے بولیں، ’’اس سے محلے کی چوکیداری بھی تو ہوجاتی ہے رجب میاں۔ آج تک اس محلے میں چور نے قدم نہیں رکھا۔ ہم تو دروازے پر کنڈی تک نہیں لگاتے۔ دن ہو یا رات۔ بے ضرر کتے ہیں۔‘‘ رجب علی بھی جواباً بولے، ’’اور اگر ان بے ضرر مسٹنڈوں نے کسی دن اچانک ہمارے بچوں کو یا ہمیں کاٹ کھایا تو؟‘‘ دادی لاجواب ہونے لگیں رجب علی بولے، ’’کتے کو پاگل ہونے میں کیا دیر لگتی ہے اماں جان؟‘‘

    شمیم آنٹی نے حجاب کے پیچھے سے جواب دیا، ’’اور تو اور اب وہ مینا بھی لے آئی ہیں۔ مینا نام کی کتیا۔ جو کہ میری بہو کا نام ہے۔ جدہ سے آئی ہے میری بہو۔ اُس کے نام سے اپنی کتیا کو بلاتی ہیں۔ توبہ توبہ۔ وہ تو میرے قاسم سے خلع کا سوچ رہی ہے اسی بات پر۔‘‘ دادی بولیں، ’’شمیم! تمھاری بہو بعد میں آئی ہے، مینا نام کی کتیا انا جی کے ہاں پہلے سے تھی۔‘‘ رجب علی تسبیح کے دانے گراتے ہوئے چلائے، ’’ارے مار ڈالوحرامزادوں کو۔ مادر۔۔۔‘‘ پھر گالی کو پان کی پیک کے ساتھ پی کر بولے، ’’مردودوں کو زہر کھلادو یا چھوٹے تالاب کے دلدل میں چھوڑ آؤ، جیسے ٹائیگر کو ہم نے۔‘‘ سب اُن کو گھورنے لگے تو وہ کھسیانی ہنسی ہنس کر بٹوے میں نئے پان کابیڑہ تلاش کرنے لگے۔ دادی بولیں، ’’نہیں نہیں۔ جانور سے بھی صلۂ رحمی کا حکم ہے۔ اللہ کا عذاب پڑے گا۔‘‘ انصاری صاحب بھی یک دم بول گئے، ’’بھئی میں نہیں مانتا اللہ کے عذاب و ذاب کو۔ بندہ اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے۔‘‘ اب ساری توپوں کا رخ اُن کی طرف ہوگیا۔ رجب علی نے سکوت توڑا اور بولے، ’’انصاری صاحب سنا ہے کہ آپ دہریے ہیں۔ اڑتی اڑتی سنی ہے ادھر اُدھر سے۔ ویسے بھی مسجد میں کبھی آپ کو دیکھا نہیں۔ جمعہ کی نماز تک آپ باقاعدگی سے گول کرتے ہیں۔ آپ کی زوجہ اور بچیاں بھی کبھی میلاد وغیرہ میں شرکت نہیں کرتیں، برقعہ عبائیہ تو دور کی بات ہے۔ معاملہ کیا ہے؟‘‘ انصاری صاحب بھی اکھڑے لہجے میں بولے، ’’یہ میرا ذاتی معاملہ ہے۔ میرے اور خدا کے درمیان کچھ اختلافات ہیں۔‘‘ رجب علی بولے، ’’اللہ تعالیٰ سے اختلافات؟ توبہ توبہ! اللہ کے آگے صرف سر جھکایا جاتا ہے، اُس سے اختلاف نہیں کیا جاتا۔ آپ لوگ سن رہے ہیں اس مرتد کی باتیں۔ مجھے تو عرصے سے شبہ تھا۔ انا جی کے کتوں کو تو بعد میں نکالیں گے، پہلے اس کے بارے میں سوچیں۔ اصل کتا تو یہ ہے۔‘‘ کھڑکی کی سلاخوں سے لگ کر بیٹھامیں گھبرا گیا، کہ اب مونا کا کیا ہوگا؟ اتنے میں انصاری صاحب پیر پٹکتے باہر نکل گئے۔ مجلس میں زوروشور سے بحث، سرگوشیاں، کھسر پھسر اور چہ مگوئیاں ہونے لگیں۔

    میں اور ارمان اسکول کی طرف چل پڑے، یہ سوچتے ہوئے کہ دہریہ کیا ہوتا ہے؟ دہر کا لفظ تو علامہ اقبال نے بھی استعمال کیا ہے۔ اردو کی مس عذرا سے پوچھیں؟ یا اسلامیات کے سر اعظم سے دہریے کے متعلق سوال کیا جائے؟

    کراچی میں بلدیاتی انتخابات کا چرچا تھا۔ میٹرک کے امتحانات دے کر میں اور ارمان فارغ تھے۔ ابا گھر کا اکلوتا بلیک اینڈ وہائٹ ٹیلی ویژن بھی ایک دن سیاسی غصہ میں آکر توڑ چکے تھے۔ اناجی کے ہاں PTV کی صبح کی نشریات، پانچ روزہ کرکٹ سیریز اور شام کی نشریات دیکھنے کے باوجود بھی میں اُداس رہتا تھا، کیوں کہ انصاری صاحب نے یہ محلہ اور پھر ملک ہی چھوڑ دیا تھا۔ سنا تھا کہ امریکا جا بسے ہیں۔ مونا کے جلوؤں کے بغیر میری دنیا اندھیری ہوچکی تھی۔ ارمان کے والد بھی گزر چکے تھے۔ روزانہ ہم رات کو دونوں محلے کے چبوترے پر فارغ بیٹھے، ہوائی قلعے تعمیر کیا کرتے تھے۔ وہ اپنے ابوکو اور میں مونا کو رویا کرتا۔

    ریشماں کا گایا ’’لمبی جدائی‘‘ ہم دونوں کا پسندیدہ بھی تھا۔ ایسے میں ہم دونوں نے محلے کے یونٹ میں جاکر نئی جماعت میں شمولیت اختیار کرلی۔ ہمارا محلہ بلکہ میرا اپنا گھر پاکستان کا مکمل نمونہ تھا۔ میں اور دادی نوزائیدہ مہاجر جماعت کے ساتھ، امی جماعتِ اسلامی کی حمایتی اور ابا ہر سیاسی جماعت کے مخالف، محب وطن پاکستانی تھے۔ کافی پہلے البتہ وہ بھٹو کے حامی تھے۔ بے نظیر بھٹو لوٹ آئی تھیں اور اہالیان محلہ کو جب پتہ چلا، کہ انا جی بے نظیر کا استقبال کرنے ایئرپورٹ گئی ہیں، تو رجب علی سمیت سب نے اُن کا حقہ پانی بالکل بند کردیا۔

    محلے میں بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ میں نے اور ارمان نے اپنی جماعت کی پُرزور حمایت کی۔ اُن کے بوتھ پر کام کیا، جوشیلے نعرے لگائے۔ اُن کے تمام محلہ functions، سیاسی جلسوں اور کنسرٹس میں حلق پھاڑ کر گانے گائے۔ دادی نے قائد کا بڑا سا پوسٹر منگوا کر عین اپنے نماز کے تخت کے ساتھ لگالیا۔ میں یہ دیکھ کر بولا، ’’دادی! تصویر قریب ہو تو فرشتے نہیں آتے۔‘‘ دادی بولیں، ’’ائے، یہ تو خود فرشتہ ہے۔ اس کے ہوتے مہاجروں کو فرشتوں کی کیا ضرورت۔‘‘ پھرپارٹی فنڈ کے لیے اپنے ڈھیر سارے زیورات اور پرائز بانڈ ناصر بھائی کے حوالے خوشی خوشی اور بارضاورغبت کردیے۔ ابا نے یہ سنا تو بکتے جھکتے اپنی Vespa پر بیٹھ کر اخبار کے دفتر بلاوجہ چلے گئے۔ اور روزانہ بلکہ ایک دن میں دو مرتبہ غصیلے اور بھڑکیلے کالم، تمام سیاسی اور خصوصاً اس مہاجر جماعت کے خلاف لکھنے لگے۔

    دراصل دادی کی جائے پیدائش مشرقی پاکستان کا چھوٹاسا شہر نارائن گنج تھی، جو ڈھاکہ سے ملحقہ تھا۔ وہ مشرقی پاکستان کی پٹ سن، ڈھاکہ کی سوتی ساڑھیاں، نارائن گنج کی ہلسا مچھلی اور کٹھل کو بھلائے نہیں بھولتی تھیں۔ آدمجی کیمپ میں اُن کے دو درجن خالہ زاد اور ماموں زاد بہن بھائی کتوں سے بدتر زندگی اسیری میں گزار رہے تھے، صرف پاکستان کے نام پر۔ آج بھی اُن محب وطن اسیروں نے پاکستان کا جھنڈا وہاں بلند کر رکھا تھا۔ تو اس لحاظ سے ہم بہاری تھے اور ہمارے قائد نے وعدہ کیا تھا، کہ وہ آدمجی کیمپ سے تمام مشرقی پاکستانیوں کو بذریعہ جہاز پاکستان لاکر انھیں یہاں باعزت بسائے گا۔ ہر جمعہ کو باقاعدگی سے دادی اورنگی ٹاؤن جاکر تمام شکیلاؤں اور صغراؤں کو پارٹی میں شامل ہونے کی تلقین، بلکہ دھمکیاں دے کر آیا کرتیں۔ میں ہمیشہ اُن کے ساتھ ہوتا کہ وہاں کے مشہور چھولے کچوریاں اور بھاشانی کی مٹھائی کھانے کو جو ملتے تھے، چائے کے ساتھ۔

    ایک رات ہم دونوں باری باری واک مین، میں ’’مظلوموں کا ساتھی‘‘ سن رہے تھے کہ میں بولا، ’’ارمان! تم کون ہو؟‘‘ ارمان نے جواب دیا، ’’میں ارمان مظہر ہوں۔ پاکستانی اور کیا۔‘‘ میں نے مزید کریدتے ہوئے پوچھا، ’’مطلب یار، بہاری، میمن، مہاجر، دلی والے، ہندوستانی، پٹھان، سندھی؟ ان میں سے بتاؤ کہ تم لوگ کون ہو؟‘‘ ارمان سرکھجا کر بولا، ’’کبھی سوچا نہیں اس بارے میں۔ ابو تو چلے گئے ورنہ اُن سے پوچھتا۔ آپی بچے کے ساتھ مصروف ہوتی ہیں۔ امی سے پوچھ کر بتاؤں گا۔ کیوں کیا ہوا؟‘‘ میں ارمان سے کیا کہتا کہ اب صرف پاکستانی اور مسلمان ہوناکافی نہیں ہے۔ ذات پات، سیاسی عقائد، مہاجر، نان مہاجر، سنہ ۷۱ء سے پہلے کے مہاجر کہ ۴۸ء کے بعد کے مہاجر، بریلوی، دیوبندی، عبائیہ والے کہ jeans والے، قادیانی کہ مسیحی، سنی کہ شیعہ کہ کافر۔ یہ سب اب ہماری شناخت کا لازمی حصہ ہیں !

    الیکشن میں رجب علی قادری کی بری طرح شکست ہوئی اور ہم مہاجروں نے انا جی کے گھر کے آگے خوب جشن منایا، پٹاخے پھوڑے۔ اُس رات تو نادر شاہ اور جگا بھی سہم کر اندر چلے گئے تھے۔ انا جی کا قصور صرف یہ تھا، کہ وہ مہاجر ہو کراور ساڑھی پہن کر بھی پیپلز پارٹی کی حامی نکلیں۔ ارمان کہنی مار کر مجھے باور کرانے لگا، کہ انا جی نے ہمیں حساب کے مفت ٹیوشنز دیے ہیں اور ہم اُن کے گھر میں ہر وقت نہ صرف ٹی وی دیکھتے ہیں بلکہ چائے، بسکٹ، نمکو بھی کھاتے ہیں۔ مگر میں نے ارمان کی ایک نہ سنی۔

    انا جی اب بہت خاموش ہوگئی تھیں، بیمار رہنے لگی تھیں۔ پیر میں مستقل لنگ آگیا تھا، لیکن کتوں کی خدمت میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ یا تو کتوں سے باتیں کرتیں یا وہ سو بھی جاتے تو اکیلے ہی زور زور سے Maths کی equations دہراتیں۔ کاغذ قلم کے بجائے ہوا میں انگلی سے لکھتیں اور حساب کے سوال، ہوا ہی میں حل کیا کرتیں۔ اس تمام کے پس منظر میں کھیلوں کی خبریں، سندھی خبریں، عربی خبریں، ٹریکٹر کی مرمت، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے اسباق، بولتے ہاتھ، ٹام اینڈ جیری، قاری خوشی محمد، قومی ترانہ، سب چلا کرتا۔ اس قدر آوازوں میں بھی وہاں ایک سناٹا تھا۔۔۔ تنہائی کا سناٹا، وحشت۔۔۔ صحن میں لگے جامن کے پیڑ سے کوئی سوکھا پتا یا جامن کبھی گرپڑتا، تو انا جی کو یوں لگتا جیسے وہ بے نام سیارہ پورے کا پورا اُن کے صحن میں آگرا ہو جس پر کمند ڈالنے کے خواب کبھی انیلا نے دیکھے تھے۔

    ایسے میں روتی پیٹتی، دوبچے لیے جہاں آراء وہاں آن بسی۔ معین کے بھیجے روپوں سے اُس کے نکمے شوہر نے بہت سے بڑے چھوٹے کاروبار کیے اور تباہ کردیے۔ مجبوراً معین نے ناکارہ بہنوئی کو شارجہ بھیج بلوایا اور جہاں آراء کو گھر جاکر خالہ کا خیال رکھنے کے لیے کہا۔ ماں تو کبھی وہ کہلائیں ہی نہیں۔ جس جہنم کو جہاں آراء بھگت کر وہاں کبھی واپس نہ آنے کی قسم کھا کر گئی تھی، اُسی جہنم کی آگ نے دوبارہ اُسے بھیج بلوایا تھا۔ جسے اب وہ تنہا نہیں بلکہ دو بیمار بچوں کے ساتھ بھگتنے کے لیے آئی تھی۔ اب شام کا کھانا انھیں اس صورت میں نصیب ہوتا جب وہ تینوں باالترتیب نادر شاہ، جگا اور مینا کی جوئیں صاف کرکے اُنھیں نہلائیں اور باہر ٹہلانے کو لے جائیں۔ ٹائیگر کی دردناک موت اور محلے والوں کی دھمکیوں سے گھبرا کر اب انا جی نے اُن تینوں کے لیے زنجیریں خرید لی تھیں، تاکہ باہر جاکر وہ کم از کم بے لگام نہ رہیں اور آپے سے باہر نہ ہوجائیں۔ معین کا کبھی فون آتا، بہن کی خیریت لے کر وہ خالہ سے پوچھتا کہ آپ کے لیے دبئی سے کیا بھیجوں؟ شیفون جارجٹ کی ساڑھیاں کہ خالص پرفیوم؟ وہ سادگی سے کہتیں ہمارے بچوں کے لیے شیمپو اور کھلونے بھیج دو۔ معین کھول کر رہ جاتا۔ عمرہ کا ٹکٹ، ویزا، یہ کہہ کر منع کردیا کہ ہمارے بچوں کو کون دیکھے گا، وہ تو ہمارے بغیر مرجائیں گے۔ پھر اچانک ایک دن انھیں دل کا دورہ پڑا اور وہ ہسپتال پہنچادی گئیں۔

    دسمبر کا مہینہ تھا۔ میں اُس وقت ککری گرائونڈ میں ہورہی بے نظیربھٹو کی شادی میں ناچ رہا تھا۔ ارمان اور میں جئے بی بی کے نعرے لگاتے، اجرک اوڑھے مفت کھا پی رہے تھے۔ ارمان دبی آواز میں کہنے لگا، ’’کسی نے ہمیں دیکھ لیا تو گولی سے اڑا دے گا سائیں۔‘‘ ارمان بُرا ایکٹر تھا، میری ہنسی چھوٹ گئی۔ پھربولا، ’’ہم تو ان کی پارٹی کے خلاف کام کرتے ہیں، ہم کیسے بی بی کی شادی کے چاول کھاسکتے ہیں۔ یہ گناہ ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’کچھ گناہ نہیں ہوتا۔ رزق کی بے حرمتی کرنا البتہ گناہ ہے۔ دیکھو اُدھر سفید زرین لباس میں کس قدر باوقار دلہن لگ رہی ہیں بی بی، قوم کی بیٹی۔ مگر یار یہ دولہا، اسے دیکھو۔ دولہا کم اور ڈاکو زیادہ لگتا ہے۔ میں تو سمجھا تھا کہ بی بی عمران خان سے شادی کریں گی۔ کیا باؤلر ہے وہ۔‘‘ ارمان ڈرتے ہوئے بولا، ’’مسرور! تم پٹنے والے ہو۔ میں یہاں سے کھسک رہاہوں، نکلو اب۔‘‘ میں نے جواب دیا، ’’ہاں ہاں نکلتے ہیں۔ پہلے وہ ربر پلانٹ کا بڑا والا گملا تو کھسکاؤ۔ بھاری ہے ناں۔ بس مبشر کی سوزوکی تک تو لے جانا ہے۔ سب سمجھیں گے ہم ڈیکوریشن والے ہیں۔‘‘ ارمان ہمیشہ کا معصوم، بولا، ’’یہ بھاری گملا مبشر کی سوزوکی میں کیوں جائے گا؟‘‘ میں نے بھی ہٹ دھرمی سے کہا، ’’وہ ڈاکو ملک کی بیٹی لوٹ رہاہے سمجھو ملک لوٹ رہا ہے اور ہم ایک گملے کے حقدار نہیں؟ ہم بھی قوم کے بیٹے ہیں۔ اٹھاؤ اسے۔ امی کب سے کہہ رہی تھیں کہ ڈرائنگ روم میں ایک اِنڈور ربرپلانٹ ہوتا، تو آپا کے سسرال والوں پر بھرم پڑ جاتا۔ اٹھاؤ احمق۔‘‘

    رات کو جہاں آراء نے ہمیں دکھ سے بتایا کہ اناجی ہسپتال میں ہیں۔ دل کا دورہ پڑا تھا، اب بہتر ہیں۔ دو ایک دن میں گھر آجائیں گی۔ مجھے سخت نیند آرہی تھی۔ بڑی کافر بریانی کھا کر آیا تھا میں اور اُس وقت مجھے انا جی کا ذکر، اُن کے کتوں سے بھی زیادہ زہر لگ رہا تھا۔ کراچی تک آتی کوئٹہ کی سرد ہوائیں، میری جیکٹ کو چیر کر اندر گھس رہی تھیں۔ جہاں آراء بولی، ’’اب انکا کیا ہوگا؟‘‘ میں نے پوچھا، ’’ان کا؟ کن کا؟‘‘ جہاں آرا سرگوشی میں بولی، ’’ان کتوں کا۔‘‘ وہ ایسے سرگوشی میں بولی، جیسے وہ کتے نہیں اناجی ہوں اور اپنے خلاف ہوتی سازش سن کر جہاں آرا پر حملہ آور ہوجائیں گی۔ میں نے بھی ڈھٹائی سے کہا، ’’بھئی ان سے چھڑائو جان۔ ایدھی والوں کو کرو فون، وہ آکر لے جائیں گے۔ آجکل مولانا ایدھی انسانوں اور جانوروں سب کے لیے رحمت کا فرشتہ بن کر آئے ہیں۔‘‘ جہاں آرا تپ کر بولی، ’’اور وہ اناجی، جو ہسپتال میں ہر ایک سے اپنے ان ناخلفوں کے بارے میں پوچھ رہی ہیں۔ اُس کا کیا؟‘‘ میں نے خود کو الگ کرتے ہوئے کہا، ’’بھئی یہ آپ لوگوں کا خاندانی اور قطعی ذاتی معاملہ ہے، میں کیا کرسکتا ہوں۔ مجھے تو نیند آرہی ہے۔ اوپر سے یہ گملا۔‘‘ جہاں آرا گملا دیکھ کر بولی، ’’اوہ اتنا مہنگا پودا! کہاں سے لائے ہو مسرور؟ اور گملا کتنا خوبصورت ہے۔ یہاں کا تو نہیں لگتا۔‘‘ میں نے بھرم سے کہا ’’ڈیفنس کی نرسری سے خریدا ہے۔ کیوں، ہم لوگ اِن ڈور پودے خریدنہیں سکتے کیا؟‘‘ میرا بھرم دیکھ کر جہاں آرا فوراً مجھ پر ایمان لے آئی۔ مجھے اپنے پیچھے نادر شاہ اور جگا کے غرّانے کی آواز آئی، جیسے انھوں نے میری چوری پکڑ لی ہو۔ میں دم دبا کر اپنے گیٹ کی طرف بھاگا۔

    آپا کی شادی ہوگئی اور اُس کے بعد میرے ابامستقل طور پر چڑچڑے، بدمزاج بلکہ کھڑوس ہوگئے۔ ہر آئے گئے، بلکہ راہ چلتے سے لڑ پڑتے۔ نائی، قصائی، سبزی والا، درزی، موچی سب انھیں دیکھ کر دکان لپیٹنے لگتے تھے۔ اور تو اور ایک دن کسی اندھے فقیر سے الجھ پڑے، کہ دیکھ کر کیوں نہیں چلتا اور اُن سے جان بوجھ کر کیوں ٹکرایا ہے۔

    دراصل اُن کے بے باک اور کھرے اخباری کالم لکھنے کی پاداش میں اُنہیں بالآخرفارغ کردیا گیا تھا۔ وہ جو پہلے انگریزوں کے خلاف، پھر مسلم لیگ کے خلاف، قیام پاکستان کے خلاف، پھر ایوب خان سے لے کر ضیا الحق کے مارشل لاء، امریکا، روس، افغان مجاہدین، راجیو گاندھی کے خلاف، چین کے خلاف، فوج کے خلاف، مہاجروں کی بقا کے لیے بننے والی نام نہاد جماعت کے خلاف، بھٹو کے داماد کے خلاف۔۔۔ بلکہ ساری دنیا کے خلاف ہی بولنے اور لکھتے رہنے کے عادی تھے، اُن پر اچانک قدغن لگادی گئی۔ نتیجتاً اُن کا خبطی ہوجانا برحق تھا۔ میرے ابا کے نظریے کے مطابق تو اللہ تعالیٰ نے ’’کُن‘‘ کہہ کر ہی ایک فاش غلطی کی تھی، ویسے وہ اُن کے خلاف بھی کبھی کبھار اڑ جایا کرتے تھے۔

    دادی کاچل چلاؤ تھا۔ وہ چچا کے ہاں جاچکی تھیں۔ مجھے اُن کی کمی بہت محسوس ہوتی تھی۔ امی ہمیشہ کی طرح بیگن اور آلو کے سستے ترین ٹھیلوں کی معلومات حاصل کرنے میں جان توڑ محنت کرتیں۔ آپا رخصت ہوچکی تھیں۔ اب لے دے کر ابا کا غصہ اوپر والے کے بجائے نیچے والے، یعنی مسرور احمد خان پر اترتا۔ ’انگریزو بھارت چھوڑو‘ سے بھی زیادہ پرانے نعرے اُن کے، ’’اگر میٹرک میں فیل ہوئے تو گھر سے نکال دوں گا۔ مکان کس طرح بنتا ہے، روزگار کیسے کمایا جاتا ہے سب پتہ چل جائے گا۔‘‘ یہ مکالمے میرے کانوں میں مستقل پیوست ہوچکے تھے۔ جیسے کسی مکان کے ستون اٹل ہوتے ہیں۔

    میں اُس وقت اناجی کے ایک خاص شو کیس کا تالا توڑ رہا تھا۔ اس میں عجیب و غریب وضع کے کھلونے ۔۔۔ کھلونے ہی کی طرح کچھ تھا۔ جیسے جہاز، انجن، پانی کا جہاز، پرزے جوڑ کر بنایا گیا روبوٹ۔ عجیب سی مشین اور موٹر بوٹ کا ماڈل۔ ان سب میں خاص بات اُن کا ادھورا پن تھا۔ کوئی ایک مشین کھلونا بھی مکمل نہ تھا، بالکل اناجی کی طرح ہر شے ادھوری، مگر مکمل تھی۔

    گھر میں ٹی وی چل رہا تھا۔ اناجی دل کے دورے سے بچ جانے کے بعد بھی اپنے دیرینہ معمول پر کاربند تھیں۔ یعنی ان کی ٹوکری، دھوپ سے بچنے کے لیے چھتری، بید کی چھڑی، چھیچڑے اور بابرمارکیٹ۔ میں ٹی وی دیکھنے کے بہانے رک گیا تھا۔ جہاں آراء لڑ بھڑ کر اپنی پھوپھی کے ہاں جاچکی تھی، جب کہ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ وہ اُس کا عارضی ٹھکانہ ہے۔ جہاں آراء کا مستقل پتہ اب یہی ۲۱۵ ملیر کالونی تھا۔ میں ایک آدھ جہاز سے کھیل کر اکتا چکا تھا۔ اُس میں جلتی لائٹ بھی اناجی کی طرح لنگڑا کر چل رہی تھی، کہ شو کیس کے نچلے خانے میں سے ایک صندوقچی سی برآمد ہوئی۔ ’’ہوں تو انا جی اچھے والے کریم بسکٹس اور چاکلیٹ اس میں چھپا کر رکھتی ہیں۔‘‘ کھولا تو نئے پرانے، ٹوٹے اور مکمل جڑاؤ زیورات وہاں موجود تھے۔ موٹے موٹے بھدے کڑے، بھاری سونے کی چوڑیاں، گلے کے ہار، بندے، جھمکے۔ میں حیران ہوگیا۔ انا جی نے تو زیور نام کی کوئی چیز کبھی نہیں پہنی، پھر یہ کس کے ہیں؟ اچانک نادر شاہ صحن میں ٹہلنے لگا۔ میں نے گھبرا کر سب واپس رکھ دیا۔ مجھے سونے چاند ی سے کیا؟ معین بھائی کے بھیجے چاکلیٹ ملتے تو بات تھی۔

    دھیرے دھیرے کتوں والی خالہ، یعنی اناجی مکمل پاگل ہوگئیں۔ جہاں آرا کو کبھی پہچانتیں، کبھی نہیں۔ اُس کے بچوں کی تو وہ ازلی دشمن تھیں۔ آئے دن الزامات لگانے لگیں کہ بچے اُن کے بٹوے سے پیسے چراتے ہیں۔ لقمان صاحب کی پنشن ہر تین ماہ میں کسی طرح لے آتی تھیں۔ کبھی کئی کئی دن خاموش رہتیں، کبھی بات کرتیں تو صرف نادر شاہ، جگا اور مینا سے۔ اُن کو بھی ۱۹ کا پہاڑہ یاد کروانے کی کوشش کرتیں۔ ہمارے بچے تندور کی روٹی نہیں کھاتے، کہنے والی انا جی، اب خود کسی طرح اپنے بچوں کے لیے روٹی منگا کر گوشت اور ہڈی کے شوربے میں ڈبو کر دیتی تھیں۔ کبھی پڑوس کا کوئی بچہ اور کبھی جہاں آرا کے بچے ہی سامنے والے افغانی تندور سے روٹیاں لے آتے۔ شہر بھر میں افغانی تندور کے ساتھ ساتھ اچانک افغانی پلاؤ، افغانی اسلحہ، کلاشنکوف اور پھر اعلی درجے کی افغانی ہیروئن ہربچے بڑے اور خاص و عام میں مقبول ہونے لگے تھے۔

    معین اور اُس کی بیوی شارجہ سے آئے ہوئے تھے۔ انا جی نے اُن سے پہلا سوال اپنے بچوں کے شیمپو کے بارے میں ہی کیا تھا۔ معین کی بیوی نے ایسا عجوبہ پہلے کہاں دیکھا تھا۔ چمکیلا عبائیہ سمیٹ کر اٹھ گئی۔ کچھ دنوں کے لیے معین، اپنی بہن اوربھانجا بھانجی کو اپنے ساتھ لے گیا۔ جانے سے پہلے معین کی بیوی ٹٹولتی نظروں سے انا جی کے سازوسامان، صندوق اور لوہے کی الماری کو جانے کیوں غور سے دیکھ رہی تھی۔ شام تک سب چلے گئے۔ گھر میں سنا ٹا ہوگیا۔ انا جی نے اٹھ کر پائپ لگایا۔ صحن کتنے دنوں سے دھلا نہ تھا۔ صفائی کی تو وہ خبطن تھیں ہی۔ معین کے لائے ولایتی شیمپو سے کتوں کو نہلاتے ہوئے صحن بھی دھونے لگیں۔ شام ڈھل رہی تھی اور میں اُس وقت ارمان کے ساتھ کراچی کی سڑکوں پر آوارہ گردی کررہا تھا۔ اتنے میں ہر طرف افراتفری پھیل گئی۔ ٹی وی، اخبار، ریڈیو اور لوگ یہ خبر چلا چلا کر دینے لگے، ’’صدر محمد ضیا الحق جہاز کے حادثے میں ہلاک۔‘‘ پتہ چلا کہ جہاز میں رکھی آموں کی پیٹیاں پھٹ پڑی تھیں اوراس کے نتیجے میں اُس چھوٹے سے جہاز میں بیٹھے، تمام گورے کالے اہم آدمی بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر چکے تھے۔

    اُس ساری رات میں ڈھنگ سے سو نہ سکا۔ برابر کے گھر یعنی اناجی کے ہاں سے کتوں کے بھونکنے، بلکہ بھونکنے سے زیادہ رونے کی آوازیں آتی رہیں۔ میں نے سوچا صبح جاکر اناجی سے ان کے لاڈلوں کی خوب شکایت کروں گا، کہ ان کا اب تو کچھ کریں۔

    اُسی رات بلکہ شام اناجی گزرچکی تھیں۔ پائپ سے بہتے پانی نے باہر نالے کی شکل اختیار کرلی تھی۔ آدھی رات تھی کہ صبح کاذب۔ معین، معین کی بیوی اور جہاں آرا اپنے بچوں سمیت بلوائے گئے۔ دروازہ اندر سے بند تھا۔ جہاں آرا کی لڑکی دیوار ٹاپ کر اندر کودی، تو اُس کی نانی جس سے وہ بھی شدید نفرت کرتی تھی، وہاں اوندھے منہ برآمدے میں گری پڑی تھیں۔ سب لوگ لپک کر اندر آئے۔ محلے والے بھی اکھٹے ہوچکے تھے۔ میرے بھی جانے کیوں درد کی اک ٹیس سی سارے جسم میں لہراگئی۔ اُس وقت میں کوئی بھی وجہ جاننے سے قاصر تھا۔

    اُن کے بچے نادر شاہ، جگا اور مینا، انھیں جگانے کی کو شش کرتے تھک چکے تھے۔ جب اناجی کو سیدھا کیا گیا تو اُن کے جسم پر کھرنچوں کے نشان واضع نظر آتے تھے۔ انا جی کے چہرے پر بلا کا اطمینان تھا۔ آنکھیں کھلی، دور چمکتے سیاروں اور ستاروں پر تھیں۔ میری نظر اُن کی کھلی ہتھیلی کی لکیروں سے اٹھ کر، ستاروں کی چال بنانے والی constellations پر چلی گئی۔ دونوں کتنے ملتے جلتے لگ رہے تھے۔ آسانی سے نہ رونے والی میری آنکھیں، آنسوؤں سے بھر گئیں۔ ٹی وی پر نشریات ختم ہو کر مکھیوں کی آواز سارے گھر میں بین کررہی تھی، کہ معین کی بیوی کی کرخت آواز نکلی، ’’جہاں آرا! انھوں نے سارا زیور کہاں چھپا رکھاہے۔ معین کی امی کا ڈھیر سارا زیور تھا جو یہ بڑھیا دبا گئی۔ چلو اندر! ڈھونڈو میرے ساتھ۔‘‘ دونوں عورتیں چلی گئیں۔

    وہ یقیناً ایک تاریک رات تھی۔

    ایدھی کی کتا گاڑی، لاوارث کتوں کو جمع کرتی ہوئی جب مکان ۲۱۵ ملیر کالونی پہنچی، تو جہاں آرا اور میں اناجی کے لواحقین اور ورثاء کی رسیاں تھامے کھڑے تھے۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے اُن تینوں کو روتے دیکھا۔ نادر شاہ، جگا اور مینا، چپ چاپ روتے ہوئے کتا گاڑی میں بیٹھنے لگے۔ میں خود حیران رہ گیا، جب بے ساختہ میرے ہونٹ ہلے اور میں نے تینوں کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ’’خداحافظ میرے بچو! تمھاری مالکن انا جی اوپر اپنے سیارے سے تمھیں دیکھتی رہیں گی۔‘‘ آج پھر کباڑیا مالا مال ہو کر اپنا ٹھیلا لاد رہا تھا۔ اناجی کے رکھے ڈھیروں انگریزی اردو اخبار، فزکس اور maths کے ریسرچ کے کاغذات، غیرملکی جرمن و فرنچ رسالے، ٹوٹی چپلیں، اُن کی چھتری، چھڑی، وھیل چیئر، کتوں کے کھیلنے والے کھلونے، شیمپو، اناجی کے شوکیس میں رکھے ڈھیروں ادھورے کھلونے نما ماڈل۔ سب سمیٹ کر کباڑیا جانے لگا۔ میں نے چپ چاپ جلتی بجھتی خوبصورت کشتی اٹھالی۔ اُس شوکیس کے نیچے دبی صندوقچی، جس سے انا جی کو کبھی کوئی غرض نہ تھی، اب وہاں نہیں تھی۔ جانے کون لے گیا۔ کباڑیا آواز لگاتا جارہا تھا۔ ’’پرانا سامان دے دو۔ پیتل تانبا لوہا لکڑی دے دو۔‘‘ مجھے لگا وہ اپنے ٹھیلے پر انا جی کا جنازہ لیے جارہا ہے۔ اناجی کے خواب، حسرتیں، اُن کا وقت، اُن کی زندگی۔ سب۔ اُس ایک ٹھیلے پر لدا تھا۔

    نیویارک جنوری ۲۰۰۸ء۔

    نیوایئرنائٹ گزر چکی تھی۔ برف صاف کرنے والی گاڑیاں میرے گروسری اسٹور، ’’Karachi Grocers‘‘ کو آنے والے راستے اور پارکنگ لاٹ کی صفائی میں مشغول تھیں۔ شیشے کا دروازہ کھولتے ہوئے میں نے روزانہ کی طرح ’’کراچی گروسرز‘‘ کے بورڈ پر فخریہ نظر ڈالی۔ ’’پاکستانی، عربی اور انڈین مصالحے، پان، حلال میٹ، بالی ووڈ فلموں کی DVD کرائے پر دستیاب ہیں۔‘‘ مجھے لنگڑاتے ہوئے آتا دیکھ کر ہمیشہ کی طرح برابر کے سیلون والی پولش لڑکی نے مجھے ہاتھ ہلایا۔ ’’Mr۔ Khan, how are you doing today‘‘ یہ روز کا معمول تھا۔ ’’Good‘‘ میں نے مسکرا کر جواب دیا۔ یہ بھی روزانہ کا معمول تھا۔ Happy New Year کا اضافہ ہم دونوں نے اُس دن کیا۔ گوشت کاٹنے والا لبنانی لڑکا ابھی آیا نہ تھا۔ میں نے اسٹور کے تمام فریزر، گوشت کے ورکنگ stations اور دال چاول مصالحوں کے پیکٹوں پر لکھی expiry dates کا معائنہ کیا۔

    کبھی کبھار یہ نیویارک بھی مجھے ایک الگ ریاست سے زیادہ، ایک الگ سیارہ لگا کرتا ہے۔ بہت وسیع و عریض، لیکن لالوکھیت کی طرح کھچا کھچ بھرا ہوا اور مصروف۔ کئی سال پہلے جیکسن ہائٹس کی ایک بغلی گلی میں، میں نے یہ اسٹور کئی لاکھ ڈالرز میں خریدا تھا۔ یہ کئی لاکھ ڈالرز برسوں پہلے ایک شدید حادثے میں، مجھے اپنی بائیں ٹانگ گنوانے کے سبب ملے تھے۔ میرا حساب کتاب بہت اچھا ہے۔ بہت پہلے، حساب میں کسی نے مجھے طاق کردیا تھا۔ اس لیے امریکی حکومت پر ہرجانہ دائر کرنے کا سنہرا موقع میں نے ہرگز نہیں گنوایا۔ روزانہ کی طرح دوTylenol, pain killers کھائے اور حسب معمول ٹی وی پر پاکستانی نیوز چینل لگالیا۔ صدر کی تقریر جاری تھی۔ میں بے دلی سے گاہکوں کو نبٹانے لگا۔ دو نو عمر Mexicanلڑکے آکر مجھ سے سگریٹ طلب کرنے لگے۔ میں نے ان کی ID طلب کی اُن سے پیسے لیتے ہوئے اُن کے بے ساختہ مذاق اور ابلتے قہقہے سن کر مجھے ارمان یاد آگیا۔

    مجھے ۱۹۹۴ء میں کراچی چھوڑ کر نیویارک آنا پڑ گیا تھا۔ بدامنی، قتل وغارت اور بے روزگاری سے بچنے کا جیسے ہی موقع ملا، میں یہاں ناجائز ویزے اور جعلی پاسپورٹ پر آگیا۔ مجھے یہاں کما کر اپنا مکان بنانا تھا اور امی ابا کو اس میں رہنے کے لیے ضرور لانا تھا، مگر ایسا کچھ نہ ہوسکا۔ کیوں کہ اگلے ہی برس ارمان مارا گیا۔ میرا سادہ لوح، احمق اور جاہل ارمان، مسجد سے جمعہ کی نماز پڑھ کر نکلا اور نا معلوم افراد کی گولیاں اُسے چاٹ گئیں۔ اُس کی بیوہ بس حیران تھی اور اُس کا چھوٹا سا بیٹا، جس نے ابھی باپ کا لفظ کہنا سیکھا بھی نہ تھا اپنے باپ کو کھوچکا تھا۔ میں اُس کا دغاباز دوست اُس کے آخری دیدار کو بھی نہ جاسکا۔ کیوں کہ میرے تو کاغذات اور US status ہی اس قابل نہ تھے، کہ میں پاکستان جاکرامریکا واپس آسکتا۔ لڑکے سگریٹ اور چیونگم لے کر چلے گئے۔

    صدر پاکستان کی بے معنی تقریر جاری تھی۔ بی بی کو گزرے سال ہوچکا تھا۔ میں نے بیزارگی سے ڈرامہ چینل لگالیا۔ تنہائیاں کی قسط ۱۲ دوبارہ چل رہی تھی۔ سنیعہ اور قباچہ لان میں دوڑ رہے تھے۔ مجھے مونا کا لان اور نیو ایئر پارٹی یاد آئی۔ میں نے اپنا hearing aid سرکا کر ٹی وی کی آواز بہت بڑھادی۔ پھر مجھے انا جی یاد آگئیں۔ سانحہ 9/11 کے وقت میں Twin Towers میں سامان ڈلیور کرنے گیا تھا۔ دھماکوں سے بہرا ہوگیا اور شاید اسی لیے تنہا رہ گیا۔

    اب مجھ جیسے لنگڑے بہرے اور جھکی آدمی سے کون شادی کرے گا۔ گھر میں صرف پرانے ڈرامے دیکھتا ہوں۔ کبھی اباکی طرح کالم لکھ کر پھاڑ دیتا ہوں۔ محلے والوں سے اور گاہکوں سے بلاوجہ الجھ پڑتا ہوں کہ میں انڈین نہیں، پاکستانی ہوں، صرف پاکستانی۔ ہاں اب گھر پر ایسا ایک فرج ضرور ہے جس میں صرف کولڈ ڈرنکس، چاکلیٹ، آئس کریم، جوس، کیک، مکھن اور مایونیز ہوتے ہیں۔ لیکن یہ صرف بھولے بھٹکے مہمانوں کے لیے ہیں۔ ویسے بھی ارمان کا بیٹا، فیصل مظہر جلد ہی اسٹوڈنٹ ویزا پر میرے پاس آنے والا ہے۔ اس کا سارا خرچہ اُس کے اکلوتے چچا، یعنی میں نے اٹھایا ہے۔ وہ ضرور اس فرج سے آئس کریم اورچاکلیٹ نکال کر کھائے گااور یقینا ارمان سے بھی زیادہ قابل بنے گا۔

    دوسرے فرج میں اب سبزی، رات کا سالن، فروزن پراٹھے، کباب اور ادرک لہسن کی بوتل، ٹائیگر کے کھانے کے ساتھ رکھتا ہوں۔ کئی سال پہلے ’’اردو ٹائمز‘‘ میں اشتہار آیا تھا، کہ کوئی چھوٹا ساگولڈن retriever puppyکسی محبت کرنے والے مالک اور گھر کا منتظر ہے، جو کتوں سے محبت کرتا ہو۔ مجھ سے زیادہ کتوں اور اُن کی نفسیات کے بارے میں کون جانتا ہوگا۔ نیویارک میں انسانوں سے زیادہ کتے ہیں۔ ہر رنگ اور ہرسائز اور ہر نسل کے۔ شاید اسی لیے انا جی کو اور خاص کر ٹائیگر کی بے بسی سے روتی آنکھوں کو میں کبھی بھلا نہیں پایا، جب وہ دلدل میں موت سے نظریں ملائے بیٹھا تھا۔ اب ٹائیگر میرے دم کا ساتھی ہے۔ رات کو اسے ٹہلانے نکلتا ہوں، تو وہ میری لنگڑی چال کا خیال کرتے ہوئے دھیرے دھیرے چلتا ہے۔ دراصل میں نہیں، وہ مجھے ٹہلاتا ہے۔

    ایک دن ایک لمبی داڑھی والے نورانی صاحب، میرے اسٹور پر حلال میٹ خریدنے چلے آئے۔ میں صرف آواز سے پہچان پایا کہ وہ انصاری صاحب تھے۔ سب بیٹیوں کی خوشگوار شادیوں اور کیرئر کے بارے میں بتاکر وہ جانے لگے، تو میں نے ہمت کرکے مونا کے بارے میں پوچھ ہی لیا۔ کہنے لگے مونا دو طلاقیں لے کر اب کسی افریقن لڑکے کے ساتھ رہتی ہے۔ بہت بڑی بینکر ہے۔ خردماغ ہوچکی ہے۔ نہ نکاح کو مانتی ہے نہ مذہب کو، سمجھو دہریہ ہوچکی ہے۔ مونا کی خیریت سن کر میرا دل پرسکون ہوگیا۔

    ہاں اس ملک کی ترقی، ڈالر کی بڑھتی وقعت، خوراک کی بھرمار اور لوگوں کی خوشحالی دیکھ کر میں سوچتا ہوں، کہ یہاں تو ہر گھر میں کتا ہے۔ پھر رحمت کے فرشتے کیسے ان کے پاس چلے آتے ہیں؟

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے