اپنی اپنی زندگی
یہ دوسری صبحِ کاذب تھی کہ ’’اَلصَّلٰوۃُ خَیْر’‘ مِنَ النَّوْم‘‘ کی آواز پر نہ تو وہ بستر سے ایک جھٹکے سے اٹھی، نہ ہی بِنا دیکھے پیروں میں چپل اُڑسی کہ غسل خانے کی جانب لپکے۔ اس کے ذہن کی اندھیر نگری میں سوچوں کا کہرام مچا تھا،بل کہ سوچ کے دونوں سرے ایک دوسرے سے گتھم گتھا تھے کہ فلاح اور سلامتی کس عمل میں ہے، سکون کی نیندسونے میں اور بھول جانے میں ہے یا تمام کرب کو سینے سے لگا کر خدا کے حضور سر بسجود ہونے میں ہے؟ انسان ہونے کے ناتے صبح دم میری بہتری، میری طمانیتِ قلب کس عمل میں ہے؟
چِت لیٹے لیٹے اس نے نظر گھما کر دیوار کے ساتھ رکھی کرسی کی جانب دیکھا۔ کرسی پر دوچار کپڑوں کے ٹکڑے، ایک دو سینڈل anti ageing creamاور کچھ اور چیزیں پڑی ہوئی تھیں، بقول اس کی بیٹی کے یہ تمام products بہت مہنگے تھے۔
گھاووں کی اس کے پاس کمی نہیں تھی، اب تک کے تمام گھاو اس نے اپنے سینے کی جھولی میں سمیٹ رکھے تھے، کہ گھاو کھانے کی وارداتیں سہنے کے لیے ہوتی ہیں، دوسروں کو بتانے کے لیے نہیں۔ لیکن یہ واردات ایسی تھی کہ جسے وہ کچھ اِس طرح چھپا رہی تھی جیسے زنِ بیوہ نومولود کو چھپائے۔۔۔ بظاہر بات کچھ بھی نہ تھی، لیکن اس لحاظ سے بات کی اہمیت تھی بھی کہ دو سال کم آدھی صدی میں ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا تھا۔
پرسوں صبح دم وہ نماز کے بعد تسبیح پھیرنے میں محو تھی، تسبیح کا معاملہ بھی کچھ یوں تھا کہ سو دانوں کی تسبیح ہزار دانوں پر مشتمل ہو چکی تھی۔ اور خدا معلوم وہ کتنی تسبیحیں پڑھتی تھی۔۔۔ دھوپ کی ایک آدھ کرن آسمان سے زمین تک پہنچنے کی تگ و دو میں تھی، اور برسوں پرانے دیسی آم کے درخت پر بور ابھی پھوٹا ہی تھا۔ اس کی گھنی شاخوں میں سیکڑوں کی تعداد میں چہکارتی چڑیوں اور دوسرے چھوٹے پرندوں کی آوازیں نئے دن کی زندگی کی مہک کا احساس دلا رہی تھیں۔ صبح کے وقت آوازوں کی وساطت سے اس ماحول سے وابستگی کا احساس روزانہ کا معمول تھا۔ تسبیح پھیرتے پھیرتے تھکاوٹ کی وجہ سے پہلو بدلنے کے لیے گھٹنا اٹھاتے میں اس کی نگاہ نے جو دیکھا، اس سے وہ سناٹے میں آ گئی۔ اس کا دبلا پتلا شوہر، مسکراتا ہوا ہاتھ میں گلاب کا پھول لیے کہ جو اس نے گھر ہی کی کیاری سے توڑا ہو گا، اپنے ہونٹوں پر ایک کُھلی اور گرم جوش مسکان لیے اس کی جانب بڑھ رہا تھا۔ قریب آنے میں اس کی بند مسکراہٹ کھلتی جا رہی تھی، اور اس کے پِیک زدہ دانت نظر آ رہے تھے۔ رابعہ حیرانی کے عالم میں اسے دیکھ رہی تھی اور اپنے اندر کے خوف کو چھپا رہی تھی۔ وہ رابعہ کے سامنے آ کر بیٹھ گیا، پھول کو آگے بڑھایا اور بولا ’’آج کے دن تمھاری شادی ہوئی تھی۔ تمھیں شادی کی سالگرہ مبارک ہو، اور پھول رابعہ کے ہاتھ میں تھما نے کی کوشش کی۔ اس سے رابعہ اور بھی خوفزدہ ہو گئی اور تھوڑا پیچھے کو ہٹی۔ رابعہ کی سرد مہری سے وہ ایک دم سنجیدہ ہوا اور دبے قدموں بیڈ روم کی جانب چلا گیا۔ رابعہ نے اپنے بکھرے حواسوں کو درست کیا، لیکن اس کو پکا یقین ہو چکا تھا کہ فہیم کسی ذہنی عارضے کا شکار ہو چکا ہے۔ اس نے نماز کو ختم کیا اور بنا وقت دیکھے سراسیمگی میں کھٹ سے بیٹی کو فون کر دیا۔ تاکہ جلدی سے کسی ڈاکٹر کو دکھایا جا سکے۔ رابعہ وقفے وقفے سے فون ڈائل کرتی رہی۔ لیکن ہر بار فون اسے مصروف ملا۔ اس نے موبائل بھی ڈائل کیا، اور اس پر پانچ چھ پیغامات بھی چھوڑے۔ پیغام میں جس قدر تفصیل وہ بتاسکتی تھی وہ بھی بتائی۔۔۔ چُھٹی کا دن تھا، ڈرائیور بھی نہیں تھا کہ خود چلی جاتی۔ وہ گھر کے چھوٹے موٹے کاموں میں اپنا دھیان بٹاتی رہی۔ اص نے ظہر بھی پڑھی اور پھر عصر بھی ادا کر لی۔ جاے نماز لپیٹتے سمے کسی گاڑی کے اندر آنے کی آواز آئی، اور پھر اس کی بیٹی کی آوازاس کے کانوں سے ٹکرائی۔
ابا، اماں کدھر ہیں؟ اس نے علیک سلیک کے بعد باپ سے پوچھا جو برآمدے میں بکھرے اخبارات اٹھا کر اندر جا رہا تھا۔ برآمدے سے دھوپ خود کو سمیٹ رہی تھی، بیٹی پوچھتے پوچھتے اندر چلی گئی۔ ماں، بیٹی کے درمیان سرسری سی سلام دعا ہوئی۔
اماں! آپ کو کیا ہو جاتا ہے۔ آپ نے صبح سے اب تک ہزاروں فون کر ڈالے ہیں۔ ’’نہیں سنو تو! وہ تمھارے ابا کو سائیکاٹرسٹ کو دکھانا چاہتی ہوں۔ ہوا یوں کہ۔۔۔ رابعہ نے کچھ بتانے کی کوشش کی۔ لیکن عذرا نے ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش کر دیا ’’کچھ نہیں ہوا اماں۔۔۔ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اب آپ نے ابا کو بیمار بنا لیا ہے۔ آپ کا کیا مسئلہ ہے؟ اماں۔۔۔ دیکھیں اماں‘‘! عذرا نے اپنی آواز کو قدرے دھیما کِیا، اور دھیرج سے بولی، ’’پتا ہے آپ کے فونوں سے داؤد بہت چڑتے ہیں۔ میں آپ کو سمجھا دوں، خاص طور پر چھٹی کے دن، جب آپ کا صبح نو دس بجے فون آ تا ہے تو میں پریشان ہو جاتی ہوں، داؤد بھی گھنٹی کی آواز سن کر طنزیہ کہتے ہیں: ’’لو بھئی تمھاری اماں کا فون آ گیا‘‘۔ عذرا نے ماں کے کندھے پر ہاتھ رکھا، اور اسے سمجھانے کے انداز میں بولی۔ ’’دیکھیں نا اماں! سب کی اپنی اپنی زندگی ہوتی ہے۔ سو دوسروں کو ہمارے بارے میں فکر مند نہیں ہونا چاہیے۔ تو اماں آپ اپنی زندگی گزاریے ہم اپنی زندگی جی رہے ہیں، اور بہت اچھا جی رہے ہیں‘‘۔ اس نے کلائی میں پڑی چوڑیوں کو دوسرے ہاتھ سے پورا گُھماتے ہوئے مسکرا کر رابعہ کی جانب دیکھا۔ ’’اچھا! ٹھیک ہے نا! اچھا اماں! میں جا رہی ہوں۔ آج رات کو گھر پر بیس آدمیوں کا کھانا ہے۔ اور ہاں اماں یہ آپ لوگوں کے لیے کچھ چیزیں ہیں، یہ رکھ لیں۔ وٹامن E ہے۔ کچھ Creams وغیرہ بھی ہیں۔ اچھا اماں! میں چلتی ہوں۔ ابا کی فکر کرنی چھوڑ دیں‘‘۔۔۔ پھر وہ باپ کو خدا حافظ کے دو لفظ اچھالتی ہوئی شپاشپ گاڑی میں بیٹھ کر چلی گئی۔
سو آج دوسری صبحِ کاذب تھی، اور وہ بے حس و حرکت بستر پر چت لیٹی تھی۔ اس نے چھت کی جانب دیکھا، بسا اوقات ذِہن کی سوچوں اور نظروں کو کتنا بھی روکو، بس میں نہیں رہتیں، اور نگاہ دُور تک چلی جاتی ہے۔ اسے یوں لگا کہ کنکریٹ کی چھت کے بجاے موٹی ململ کا سفید کپڑا تنا ہے، جس کے آر پار گزرتے وقت سے مات کھائی ہوئی ایک گھسی پٹی ریل چل رہی ہے۔ گزرتے وقت کے بطن سے پیدا ہونے والا زمانہ اس کے سامنے ڈھٹائی سے کھڑا تھا، جانتا تھا کہ رابعہ نے سارے فاصلے پنجوں کے بل چل کر طے کیے ہیں۔
کالی بھنورا آنکھیں، گندم گوں رنگت، ہلکے سرمئی ہونٹ، لمبی قامت، تمام زاویے اور قوسیں بے حد جاذبِ نظر، اور پیٹھ پیچھے لہراتی لمبی گندھی ہوئی چوٹی، پنجابی لیکن سرائیکی خدوخال اور شباہت رکھنے والی رابعہ کو ایف ۔اے کرنے کے بعدبیچلر آف فائن آرٹس میں داخلہ لیے کچھ روز ہی ہوئے تھے۔ ایک دن جب وہ ڈیپارٹمنٹ کی لمبی سیڑھیوں پر دوسرے پیریڈ کے انتظار میں بے خبر بیٹھی تھی، یک لخت اسے محسو س ہوا کہ اک نگاہِ ستایش اس کے گرد اگرد گھوم رہی ہے۔ اسے یہ تعاقب اچھا لگا۔ سرسری سی نظر میں وہ شخص بھی اسے ناگوار نہیں لگا۔ وہ لڑکا سا نہیں تھا، بل کہ چہرے مہرے پر پختگی تھی۔ یہ پختگی اس کی شخصیّت کو خوب صورت بنا رہی تھی۔ یہ خاموش ستایش وقفے وقفے سے رابعہ کو اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہی۔۔۔ اور پھر ایک روز اس کے گھر والوں نے اس سے پوچھا:
’’تم کسی فہیم کو جانتی ہو؟‘‘
’’نہیں! میں تو کسی فہیم کو نہیں جانتی‘‘!
لیکن وہ تو تمھیں جانتا ہے، آج اس کی والدہ آئی تھیں، تمھارا پروپوزل لے کر۔ یہ تصویر دے گئی ہیں! دیکھو! اس کی بہن نے تصویر اس کے سامنے کی!
’’اوہ۔۔۔یہ۔۔۔مَیں اس کو صرف اس قدر جانتی ہوں کہ اس کو مَیں نے دو چار بار گھورتے ہوئے پکڑا ہے۔ بھئی پکڑنا کیا ہے، بس نوٹس کِیا ہے۔ بس اتنا ہی۔ صرف اسی قدر، کتنا گُھنّا شخص ہے‘‘۔رابعہ نے بہن کا ہاتھ آہستگی سے پیچھے ہٹا دیا!
لیکن سنو تو! اس کی اماں کوئی دو گھنٹے بیٹھیں۔ سارا وقت ان کی یہی رٹ تھی کہ میرا بیٹا بڑی مشکلوں سے شادی کے لیے رضامند ہوا ہے۔ آپ مجھے مایوس نہ کریں۔ پڑھائی شادی کے بعد بھی ہو سکتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ بہرحال گھر والوں کی بھی یہی راے ٹھہری کہ واقعی پڑھائی تو بعد میں بھی ہو سکتی ہے۔ رشتہ اچھا ہے، کھونا نہیں چاہیے۔ رابعہ کو بھی بظاہر اعتراض نہیں تھا، بل کہ رابعہ کے من کی اصل بات کچھ ایسی تھی کہ اسے ہم عمر یا خود سے دو چار سال بڑے لڑکے متاثر نہیں کرتے تھے، وجہ اسے خود بھی معلوم نہ تھی۔ بہرحال فہیم احمد اس سے تیرہ برس آگے تھا۔ اور اس پروپوزل پر رابعہ مطمئن تھی۔
لاہور ایک بڑا شہر ہے، اس بڑے اور خوب صورت شہر کے مضافات میں رابعہ کے سسرال کی رہایش تھی۔ دو کنال کے پلاٹ کے دونوں جانب جگہ چھوڑ کر عین بیچ میں گھر بنایا گیا تھا۔ گھر میں سب کمرے چھوٹے سائز کے تھے۔ رابعہ کا بیڈروم بھی مختصر سا تھا۔ گھر کے مکین ملازم سمیت چار افراد تھے۔ رابعہ کے سسر حیات نہیں تھے۔ گھر سے باہر چھوڑی زمین پر جامن کا ایک بڑا درخت تھا، دیسی آم کا ایک اور بڑا پرانا درخت عین گھر کے گیٹ کے پاس تھا، باڑ کے پیچھے سڑک کی جانب املتاس کے دو درخت تھے، موتیے کے پھیلے ہوئے چند پودے تھے، ایک بڑی کیاری گلاب کی تھی۔ لان بہت ہموار اور ہرا نہیں تھا، بل کہ چھدرا چھدرا سا تھا، جیسے اس کی دیکھ بھال نہ کی جا رہی ہو۔ چوں کہ درختوں، پودوں اور کھلے میدانوں کی بستی تھی لہٰذا ہر جانب موسم ہرا کچور نظر آتا تھا، بہار کے دن تھے، فضا پھولوں اور سبزے کی باس سے رچی بسی تھی۔ رابعہ کو یہ سب اچھا لگا۔
رابعہ اپنے پیچھے بہت رونقیں چھوڑ کر آئی تھی، لیکن سسرال کی چھوٹی سی گرھستی بھی اسے بہت اچھی لگی۔ ویسے بھی اس کے باہر، اندر بہار تھی اور دل و دماغ پورے چاند کی چاندنی کے حصار میں تھے۔ رابعہ کا دولھا ایک وجیہ دراز قامت شخص تھا، اگرچہ بقول رابعہ کی بہن کے، وہ آدمی سا ہے۔ رابعہ اپنی شکل و صورت اور رنگ روپ کے حوالے سے اس کے ساتھ بہت سجی اور سسرال میں خوب صورت جوڑے کے نام سے چرچا ہوا۔ خوبروؤں میں رابعہ کا شمار تو تھا ہی، لیکن مرد کی قربت نے اس کے چہرے پر شیشوں کی سی چکاچوند پیدا کر دی تھی۔ یہ مرد جو کہ شوہر کے رُوپ میں رابعہ کی زندگی میں آیا، رابعہ کے لیے پہلا مرد تھا، اور یقیناًرابعہ کی پہلی محبت بھی۔
روایتی شادیوں میں بیوی اور شوہر کی محبت میں دونوں کے وجود کی موجودگی اور آمادگی کو عُرفِ عام میں محبت سمجھ لیا جاتا ہے۔ فقط لمس کی مرہونِ منّت محبت کے نصیب میں جواں مرگی ہوتی ہے، جب کہ اس لمس میں موجود مثبت انسانی رویے وقت کے دریا میں عورت اور مرد کی معمول کی زِن58دگیوں کو طویل عمرعطا کرتے ہیں۔
گھر کا دن بھر کا چلن صبح کی چاے سے شروع ہوتا۔ لان میں کھلے پھول چنگیری میں ڈال کر کھانے کی میز پر رکھے جاتے۔ سرسری سے انداز میں سب لوگ اخبار دیکھتے۔ اتنے میں ملازم لڑکا ناشتا میز پر لگا دیتا۔ رابعہ، رابعہ کی ساس اور فہیم اکٹھے ناشتا کرتے۔ ناشتے کے بعد فہیم دفتر کے لیے تیار ہو کر، گاڑی لے کر نکل جاتا۔ فہیم کو فلم، میوزک، تاش، تمبولا اور سپورٹس سے دیوانگی کی حد تک لگاو تھا۔
یہ کس قدر خوش بختی کی بات ہے کہ گزرا وقت آپ کو بوسیدہ اور پرانا نہ لگے، لیکن فہیم کی فطرت کچھ ایسی تھی کہ وقت اس کے لیے بہت جلد ماضی میں ڈھل جاتا تھا۔ رابعہ اور فہیم احمد ایک دوسرے کا’’ Age Group‘‘ نہیں تھے۔ عمر کے اس نمایاں تفاوت سے جلد ہی دونوں کے درمیان Coordination اندر ہی اندر ایک مسئلہ بنتی چلی گئی۔ رابعہ کے کھانے پینے کے دِن تھے، جب کہ فہیم کے لیے کچھ بھی نیا نہیں تھا، بجز رابعہ کے وجود کے کہ جو فہیم کی دسترس میں تھا۔
متاہل زندگی میں جب ذہنی رفاقت اور دوستی کا رشتہ قائم نہ ہو تو شنید کے مطابق جس طرح زہریلے سانپ کے سال بہ سال یا وقفوں سے ڈسنے کے عمل سے، ڈسے جانے والے کے اندر ایک لذت انگیزی کا عنصر پرورش پانے لگتا ہے، بالکل اسی طرح ازدواجی زندگیوں میں اکثر اوقات محض جسم کا رشتہ غالب آ جاتا ہے، اور وقت قطعی بے معنی اور بے سمتی انداز میں گزرتا چلا جاتا ہے، ذہن اور سوچ زندگی سے غائب ہو جاتے ہیں۔
ایک صبح دفتر کی تیاری کے دوران، فہیم نے بوٹوں کے تسمے باندھتے ہوئے اس سے کہا، ’’مَیں دوستوں کے ساتھ تین چار رو ز کے لیے سوات جا رہا ہوں۔ آپ بی بی کا خیال رکھنا، رابعہ کی ساس کو سب بی بی کہتے تھے، ملازم لڑکا موجود ہے، فکر کی کوئی بات نہیں ۔۔۔ ج۔۔۔ی۔۔۔ رابعہ کی لمبی ’’جی‘‘ میں بے پناہ حیرت تھی ’’ شادی کو بمشکل ڈیڑھ ماہ ہوا ہے اور آپ میرے بغیر دوستوں کے ساتھ تفریح کے لیے جا رہے ہیں، مجھے یقین نہیں آ رہا۔‘‘ وہ بہ یک وقت کھسیانی اور رونکھی ہو رہی تھی۔ فہیم نے لگاوٹ سے رابعہ کے گالوں کو تھپتھپایا اور نظریں چراتا ہوا گاڑی کی جانب چل دِیا۔ اس نے رابعہ کو خدا حافظ کہنے کی بھی مہلت نہ دی جو کہ روز کا معمول تھا۔ گاڑی سٹارٹ ہوتے وقت دونوں ایک دوسرے کو خدا حافظ کہتے تھے، اور رابعہ فہیم کو جلدی گھر واپس آنے کی تاکید کرتے ہوئے خود کو بہت معتبر سمجھتی تھی۔
فہیم کی عدم موجودگی کے یہ چار روز اس قدر طویل ہو جائیں گے، رابعہ کے سادہ سے دل کو اس کا کچھ اندازہ نہِیں تھا۔ وہ دن میں بیسیوں بار انگلیوں کی پوروں پر دن گنتی۔ گھڑی دیکھتی، پہر، دوپہر گزارتی اور شام کے وقت اس کی آنکھیں ڈبڈباتی رہتیں۔ اسے ایسے محسوس ہوتا جیسے کوئی اسے جنگل میں چھوڑ کر چلا گیا ہے۔
اس واقعے نے رابعہ کی خواہشوں اور جذبوں کو جیسے زمین دوز کر دیا ہو۔ دن میں فہیم کا سامنا ہوتا تو رابعہ کی بھنورا آنکھوں میں نہ دیے جلتے نہ بدن میں شوخ کسمساہٹ ہوتی اور نہ د ھول دھپّا، جو کہ رابعہ کی عادت تھی۔ فہیم رابعہ کے اندر کی اس توڑ پھوڑ سے قطعی ناواقف تھا ۔۔۔ رابعہ کی وابستگی ایک خاص سماج سے تھی، جہاں ہر قسم کے شوہروں کو سنبھالنا عورت کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ رابعہ بھی اپنے تجربے، شعور اور عمر کے فہم کے مطابق فہیم کو اپنے قریب لانے کی کوشش کرتی رہی۔۔۔ فہیم کے خاندان میں ایک شادی تھی، من59ہدی کی رسم سے واپسی پر رات گئے، جب رابعہ اپنی گاڑی میں بیٹھنے لگی تو رابعہ کی سیٹ پر فہیم کے ساتھ اس کی فرسٹ کزن زینب بیٹھی ہوئی تھی۔ فہیم نے رابعہ سے کہا ’’تم پیچھے بیٹھ جاؤ۔ بھئی جلدی کرو‘‘۔ اگلے روز ذرا فراغت ہوئی تو رابعہ نے فہیم سے پوچھا؛ ’’من59ہدی سے واپسی پر رات آپ نے کیا حرکت کی‘‘ مَیں کوئی سوٹ کیس یا فالتو سامان تو نہیں تھی جو مجھے پیچھے بیٹھ جانے کے لیے کہا؟ ہم تینوں بھی آگے بیٹھ سکتے تھے ؟ بیٹھ سکتے تھے نا‘‘ رابعہ نے جواب چاہا۔
بھئی دیکھو نا! سمجھا کرو۔ جیسے فرسٹ لیڈی ہوتا ہے، ایسے ہی فرسٹ کزن بھی ہوتی ہے، ٹھیک ہے نا؟ ‘‘فہیم نے ڈھٹائی سے ایک قہقہہ لگایا۔
رابعہ کو یاد آیا۔ اس کی برسوں پرانی دوست نے بتایا تھا: ’’رابعہ تمھارے علم میں ہے کہ تمھارا میاں ہر روز اپنی سیکرٹری کو پک اینڈ ڈراپ کرتا ہے۔‘‘ یہ سن کر رابعہ کو اپنی تذلیل محسوس ہوئی۔ اس نے بے حد تحمل سے جواب دیا: ’’ہاں وہ تو مجھے خبر ہے، دونوں نے ایک ہی جگہ جانا ہوتا ہے تو فہیم اس کو بھی راستے سے بٹھا لیتے ہیں۔‘‘ اس کی دوست خاموش ہو گئی۔ دوچار سرسری باتیں کر کے فون بند کر دیا۔ اگلے روز چھٹی تھی۔ ٹی وی پر کوئی فلم چل رہی تھی اور فہیم ٹی وی کے سامنے بیٹھا تھا۔ رابعہ کاموں سے فارغ ہو کر فہیم کے پاس جا بیٹھی، اور یک لخت فہیم سے سوال کِیا۔
’’یہ آپ اپنی سیکرٹری کو پک اینڈ ڈراپ کرتے ہیں‘‘؟ ’’ہاں تو۔۔۔ تو کیا ہوا‘‘؟ فہیم نے ٹی وی کی آواز دھیمی کی ۔۔۔ ’’ہوا یہ کہ مجھے پسند نہیں۔ اُس کا آپ سے کیا رشتہ ہے۔ بہن ہے، کزن ہے، آخر کیا تعلق ہے‘‘۔ رابعہ نے ذرا تیز لہجے میں بات کی۔
فہیم نے رابعہ کو غور سے دیکھا۔ اس طرح دیکھنے میں حیرت تو نہیں، بل کہ ایک انتباہ تھا۔ وہ بولا، ’’رابعہ بیگم! مَیں اپنی سیکرٹری کو نہ بہن سمجھتا ہوں، نہ کزن البتہ اسے سالی سمجھ سکتا ہوں۔ وہ ڈھٹائی اور کمینگی سے مسکرایا۔
’’سنو!! ‘‘! وہ دوبارہ گویا ہوا ’’میری دادی کہا کرتی تھیں کہ مرد نہاتا گھوڑا ہے۔ اس کے لفظی معنی تو مجھے معلوم نہیں، لیکن جس فخریہ لہجے میں میری دادی بات کرتی تھیں، اور جو مَیں اپنے لڑکپن سے سمجھا ہوں، وہ یہی ہے جو مَیں کرتا ہوں، اور جس پر تم تلملاتی ہو۔ لیکن مَیں شاید یہ کرتا رہوں گا کہ مَیں نہاتا گھوڑا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ ٹی وی بند کر کے وہاں سے اٹھ گیا تھا، اور رابعہ ششدر اور بے بس سی وہاں بیٹھی کی بیٹھی رہ گئی تھی۔ اسے لگا کہ اس کے ہاتھوں میں تان59بے کا ایک بے حد گرم بڑا برتن تھما دیا گیا ہے، جو کہ لبالب بھرا ہے، وہ اسے پکڑ نہیں سکتی، کہ بے حد گرم ہے، اسے سنبھال نہیں سکتی کہ وہ لبالب بھرا ہے۔ سو وہ چھلک رہا ہے، اور اس کے پورے وجود کو گندہ کر رہا ہے۔ یہاں آ کے وقت رابعہ کے لیے تھم گیا، اور ہر آنے والا دن ان دونوں کے درمیان چپ کی دیوار اسارتا چلا گیا۔
فہیم احمد! تم میرے قابل نہیں۔ یا ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے نہیں بنائے گئے تھے۔ مجھ سے غلطی ہوئی۔ میری کچی عمر کا اعتماد مجھے نگل گیا۔ نہ معلوم مَیں نے تمھیں قبُولنے میں کیوں جلدی کی۔ لمحوں میں وہ برسوں پیچھے اپنے گھر کے کچن میں چلی گئی۔ دادی چولھے کے پاس بیٹھی سب کو ناشتا دے رہی ہیں۔ رابعہ سکول کے لیے تیار ہو کر کچن میں جاتی ہے، اور عادت کے مطابق جلدی، جلدی کا شور مچا دیتی ہے۔ دادی جلدی کریں، میری بس آ گئی ہے، اور دادی بڑے تحمل سے کہتیں ’’کاہلے کم شیطاناں دے‘‘۔۔۔ رابعہ کو دادی کو یاد کر کے تھوڑی سی ہنسی آئی، اور پھر تأسف سے گردن کو ہلا کر خود سے کہا ،’’دادی! میری شادی بھی تو ’کاہلا کم‘ تھی۔ آپ نے کیوں نہ سمجھایا۔
ذہن کے بھنڈار پن کو بھرنے کے لیے اس نے آنے والے ہر بچے کو خوش آمدید کہا، حتیٰ کہ تین بیٹے اور ایک بیٹی اس کے گردا گرد گھومنے لگے۔ اس نے ان بچوں میں ایسا کھب کر دل لگایا کہ فہیم کا وجود رابعہ کے لیے ایک ہیولا سا بن کر رہ گیا۔ دنوں، ہفتوں ایک دُوسرے سے بات نہ ہوتی۔۔۔ وقت آہستہ آہستہ ریت کے مانند مٹھی سے اتر کر میدانوں میں سرک گیا ۔ گندم گوں رنگت ذرا میلی ہو گئی ۔ بھنورا آنکھوں کے گرد حلقے براجمان ہو گئے۔ ابھرے گال تھوڑے ڈھلک گئے ، اور بالوں کی چاندی نے اسے محترم بنا دیا۔
بیٹے بڑے ہو گئے، پڑھ لکھ کر دُوسرے ملکوں کو آباد کرنے چلے گئے کہ دُوسرے ملکوں میں ڈالر ہے، آزادی ہے، کوئی کسی کے معاملات میں دخل نہیں دیتا۔
ردِّ ذات کا پتھر رابعہ نے مدتوں اٹھایا اور سارا بوجھ اپنے وجود پر برداشت کیا، لیکن اس سہ پہر جو پتھر اس کی بیٹی نے اسے تھمایا، وہ اسے پہلے بوجھ سے کہیں زیادہ بھاری لگا۔ اس نے اسے چوم کر وہیں چھوڑ دیا۔
روزمرہ والی روشنی کی باریک کرن اس وقت پوری دھوپ میں گھل مل گئی تھی۔ یہ دھوپ کھڑکی کے راستے رابعہ کے منہ پر پڑی تو وہ ہڑبڑا کر اُٹھی۔ ساتھ ہی باہر کسی نے دروازہ زور سے کھٹکھٹایا۔ رابعہ نے دروازہ کھولا، یہ چھیماں تھی۔ چھوٹتے ہی اس نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا، ’’سوہنیو! اَج کیہہ ہویا۔ بوہا نہیں کھولیا‘‘۔ چھیماں کا تکیہ کلام ’’سوہنے‘‘ اور’’ سوہنیو‘‘ تھا۔ رابعہ نے اسے بہت سمجھایا کہ تم سب کے سامنے بھی یہ فضول لفظ بول جاتی ہو۔ کچھ تمیز سیکھو اور وہ ٹاکی لگاتے ہوئے کہتی، جی اب کیا سیکھنا ہے۔ مَیں تو اپنے باؤ کو بھی سوہنا ہی کہتی ہوں۔ حال آں کہ وہ اپنے نشے کے لیے میرے سارے پیسے چھین لیتا ہے۔
رابعہ نے آہستہ آہستہ سارے گھر کی صفائی کروا لی؟ بچوں کے بند اور بے آباد کمروں کی جھاڑ پونچھ کی۔ ملازم نے کھانا بنایا۔ دونوں نے مستقل چپ کے سایے میں حسبِ معمول کھانا کھایا۔ ظہر گزری، عصر کے لیے سایے تھوڑے لمبے ہوئے۔ اب رابعہ مغرب کے انتظار میں تھی۔ آج دن بھر وہ ایک تذبذب کا شکار رہی۔ وہ ایک گہری سوچ میں تھی۔ وہ کھانے کے کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑی ہوگئی، اس کھڑکی سے باہر دیوار کے ساتھ جامن کا بُور سے لدا ہوا درخت تھا۔ تمام چڑیاں اور دوسرے پرندے جامن کے گھنے پتوں اور ٹہنیوں میں پناہ لے چکے تھے۔ کبھی کبھی کوئی پرندہ پر پھڑپھڑاتا اپنی جگہ بدلتا تو آواز پیدا ہوتی۔ یہ گہری شام رات سے گلے ملنے والی تھی۔ ساتھ ہی لاؤنج میں فہیم اخبار دیکھ رہا تھا۔ رابعہ نے اِدھر اُدھر دیکھا ، کھنکھاری، گلا صاف کِیا، مشینی انداز میں جلدی سے لاؤنج کی جانب قدم بڑھائے اور فہیم کو بازو سے پکڑ کر کہا ’’آئیے کھانا کھاتے ہیں‘‘، وہ مردِ ضعیف اس التفاتِ بے محابا سے سراسیمہ ہوا، اور حیرت کے سمندر میں ڈوب گیا۔ دونوں کھانے کے کمرے کی جانب بڑھے، اور اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ ڈونگے سے سالن نکالتے ہوئے رابعہ کے ہاتھ میں لرزش تھی۔ فہیم نے چور نگاہوں سے اس لرزش کو بھانپا اور بے ساختہ رابعہ کی کلائی کو ہلکے سے تھام لِیا۔ رابعہ کی آنکھوں میں موٹے موٹے دو آنسو ڈھلک جانے کو تھے۔ فہیم نے ٹشو پیپر میں انھیں سمیٹ لیا، اور بولا، ’’اب ہم اپنی زندگی جییں گے۔‘‘ رابعہ خود کو سنبھالنے کی کوشش میں تھی۔ فہیم نے اس کی جانب دیکھا، اور پوچھا، ’’تمھیں وہ فلم یاد ہے، وہی Love Among The Ruins. ’’ہاں یاد ہے، آپ تقریباً ہر روز دیکھتے تھے‘‘۔ ’’ہاں! دیکھتا تھا، دیکھتا تھا۔‘‘ فہیم نے ایک کھلا قہقہہ لگایا، اور سناٹوں میں ڈوبے گھر میں مدت بعد گویا زندگی نے آواز دی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.