Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اپنی مٹی

نعیم بیگ

اپنی مٹی

نعیم بیگ

MORE BYنعیم بیگ

    بنجر اور پتھریلے پہاڑوں کے درمیان گھرا ہوا سا یہ ریلوے اسٹیشن سہ پہر کے ڈھلتے ہوئے سایوں کی اوڑھ لئے ایک طلسماتی منظر پیش کر رہا تھا۔ ان پہاڑی علاقوں میں شام جلد ہو جایا کرتی ہے۔ یہ بات یہاں کے باسیوں کو تو معلوم تھی لیکن امبرین اور اسکا بیٹا معصومیت سے پہاڑوں پر چوٹیوں کے سایے گہرے ہوتے دیکھ کر حیران ہو رہے تھے۔

    ہلکی ہلکی خنک ہوا جب انکے کانوں میں سرسراہٹ کرتی اور گالوں کو چھوتی ہوئی گزرتی تو امبرین پلیٹ فارم کے بنچ پر بیٹھے بیٹھے ہی نوید کو اپنی بغل میں دبوچ لیتی۔ ٹرین کب سے انہیں اتار کر آگے کوئٹہ کی جانب بڑھ چکی تھی۔ سبی سے کوئی تیس کلومیٹر دور شمال مغرب میں پہاڑوں کے درمیان گھرا ہوا یہ چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن اپنے نام ’آب گم‘ کی وجہ سے کافی پر اسرار لگتا ہے۔

    ادھیڑ عمر اسٹیشن ماسٹر بلوچ خان ایک دو بار خود امبرین کے پاس آکر کہہ چکے تھے جب تک ماسٹر عبداللہ نہیں آ جاتے وہ اندر آکر ان کے کمرے میں بیٹھ جائے، کیونکہ شام کے سایے گہرے ہوتے ہی خنکی بہت بڑھ جائے گی اور باہر پلیٹ فارم کے بنچ پر بیٹھنا مشکل ہو جائے گا لیکن امبرین نے انہیں ممنونیت سے دیکھا اور باہر کھلے میں ہی لوہے کے بنچ پر بیٹھنے کو ترجیح دی۔

    بلوچ خان گزشتہ کئی ایک برسوں سے یہاں اسٹیشن ماسٹر تھے۔ تعلق تو انکا سبی کے ایک بلوچ گھرانے سے تھا لیکن اب تک غیر شادی شدہ ہونے کی وجہ سے اپنی خواہش پر آب گم میں بحیثیت اسٹیشن ماسٹر تعینات تھے۔ دو کمروں کا چھوٹا سا کوارٹر، دو سگنل میں، ایک چوکیدار اور چند ایک گینگ مین اور دن بھر میں صرف چار ٹرینیں، دو کوئٹہ کی جانب اور دو سبی کی جانب انکا کل سرمایہ تھا۔ دن بھر اخبار اور کتابیں پڑھنا، چند مقامی بلوچ دوستوں اور اسکول ٹیچرز کے ساتھ بلوچی احوال کرنا اور شطرنج کھیلنا انکا مشغلہ تھا۔

    یوں تو مقامی لوگوں میں آب گم ریلوے اسٹیشن سے منسوب طرح طرح کی کہانیاں زبان عام پر تھیں جن ممیں اکثر غیر مرئی اور ماورائی علامتوں سے بھرپور تھیں۔ بلوچ خان جب نئے نئے یہاں آئے تو یہ پر اسرار کہانیاں سن کر پہلے تو تھرا گئے لیکن پھر آہستہ آہستہ انہیں یقین ہونے لگا کہ سب کہانیاں توہم پرستی اور بیکار ذہن کی اختراح ہیں۔ ہاں البتہ انہیں اس بات کا یقین ہو چکا تھا کی میرزا ہادی رسوا نے ایک صدی پہلے یقیناً یہیں بیٹھ کر اردو ادب کا معرکۃالآراء اور لافانی ناول امراؤ جان ادا تخلیق کیا تھا۔ اس یقین کا سبب بہرحال میرزا رسوا کا یہاں بحیثیت اسٹیشن ماسٹر کئی سالوں کا قیام اور وہ طلسماتی ماحول جو رفتہ رفتہ انسان کے اندر جذب ہوتا چلا جاتا ہے اور تخلیق کا موجب بنتا ہے۔

    ”بہن، اندر آجاؤ۔ اب سردی بڑھ چکی ہے۔“ اسٹیشن ماسٹر بلوچ خان امبرین کے قریب آ کر آہستہ سے بولے۔

    ”ہاں امی۔۔۔ مجھے سردی لگ رہی ہے۔“ نوید نے فوراً لقمہ دیا۔ امبرین کے پاس کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ بلوث خان کو انکار کر سکے۔ لہذا نوید کو اشارہ کرتے ہوئے ہولے ہولے قدموں سے اپنا بیگ اٹھائے وہ بلوچ خان کے پیچھے چل پڑی۔

    اسٹیشن ماسٹر کا کمرہ اچھا خاصا بڑا ہونے کے باوجود کافی سامان سے اٹا پڑا تھا۔ اونچی چھت لوہے کے گارڈر پر دراز تھی۔ اندر داخل ہوتے ہی دائیں طرف ایک کشادہ لکڑی کا میز پڑا تھا جس کے وسط میں ایک جہازی کرسی پڑی تھی۔ اس کے ساتھ ہی ریلوے سگنل کا مواصلاتی نظام نصب تھا۔ اسی کے سامنے دیوار کے ساتھ ایک جہازی سائز کا صوفہ دھرا تھا جو صوفہ سے زیادہ بستر کی مانند لگ رہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی دیوار سے جڑی ایک ڈریسنگ ٹیبل تھی جس پر چائے کا سامان اور کچھ برتن پڑے تھے۔ برابر میں کھڑکی کے نیچے مٹی کے تیل کا ایک اسٹوؤ دھرا تھا اور عین وسط میں برطانوی دور کا چھت سے لٹکا ایک آئل لیمپ کمرے میں ملگجی روشنی پھیلا رہا تھا۔

    ”ماسڑ عبداللہ تک میں نے پیغام تو بھیج دیا تھا، انہیں اب تک آ جانا چاہئے۔“ بلوچ خان اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا۔

    اس اثناء میں امبرین اور نوید دیوار کے ساتھ لگے جہازی صوفہ پر ایک طرف سمٹ کر بیٹھ چکے تھے۔

    ”تم ماسٹر عبداللہ کی رشتہ دار ہو؟“ بلوچ خان نے دریافت کیا۔ ”نہیں!“ امبرین نے آہستگی سے کہا۔ ”وہ میرے والد کے شاگرد رہ چکے ہیں۔ میرے والد بلوچستان یونیورسٹی میں استاد تھے اور ماسٹر عبداللہ ان کے شاگرد تھے۔ والد کے قتل کے بعد انہوں نے پڑھائی چھوڑ دی تھی اور ٹیچر ہو گئے تھے۔“

    ”اوہ“ بلوچ خان نے افسوس سے کہا۔ ”مجھے تمارے والد کے بارے میں سن کر بہت افسوس ہوا۔ یہ کب کی بات ہے؟“

    ”یہ چند سال پہلے کی بات ہے۔ ان کے انتقال کے بعد ہم پنجاب منتقل ہو گئے تھے۔“

    ”بہن! ہے تو یہ ایک ذاتی سا سوال، اگر تم برا نہ مناؤ، تم خیریت سے یہاں ماسٹر عبداللہ سے ملنے آئی ہو؟“ بلوچ خان نے اپنے دل میں نا جانے کیوں درد کی ایک ہلکی سی کسک محسوس کی اور پوچھ لیا۔

    ایک جوان عورت کا اپنے دس سالہ بیٹے کے ساتھ تنہا یوں بلوچستان کے ایک دور افتادہ گاؤں میں چلے آنا، بلوچ خان کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا۔ اور پھر ماسٹر عبداللہ کے تو مقامی پرجوش نوجوانوں سے گہرے تعلقات تھے۔ بلوچ خان نے خود کو گہرے تفکرات میں گھرا ہوا محسوس کیا۔ اسے اس لڑکی کی سلامتی نا جانے کیوں خطرے میں نظر آئی۔ لیکن کس طرح اور کیونکر؟ یہ عقدہ ابھی حل طلب تھا۔

    اچانک کمرے کی خاموش فضا میں ایک ارتعاش سا پیدا ہوا۔ باہر ویران پلیٹ فارم پر تیز قدموں کی ملی جلی آوازیں سنائی دیں جو لمحہ بہ لمحہ قریب آ رہی تھیں۔ پھر چند آوازیں معدوم ہو گئیں صرف ایک آواز دروازے کی طرف بڑھ رہی تھی۔

    بلوچ خان جھٹ سے اپنی کرسی سے اٹھے اور دروازے کی طرف بڑھے۔ اتنے میں ماسٹر عبد اللہ کا ہیولہ دروازے میں نمودار ہوا۔ بلوچ خان نے ایک گہری سانس لی اور ماسٹر عبداللہ سے مخاطب ہوئے۔

    ”واللہ تم نے تو ماسٹر ڈرا دیا تھا۔ اتنی دیر لگا دی آتے آتے، آؤ بیٹھو! یہ کہہ کر بلوچ خان خود اپنے کرسی پر جا بیٹھے۔

    ماسٹر عبد اللہ نے پہلے تو ادھر ادھر نظر دوڑائی اور بیٹھنے کے لئے کوئی اور مناسب جگہ نہ دکھائی دینے پر خود ہی کمرے کے واحد صوفے پر دوسری طرف سکڑ کر بیٹھ گئے۔

    ”واجہ۔۔۔ میں در اصل مصروف تھا، مجھے معلوم تھا کہ آج امبرین بی بی آ رہی ہیں۔ انہوں نے مجھے اطلاع کر دی تھی اور آپکا پیغام بھی مل گیا تھا، لیکن میں چاہتا تھا کہ انکا کام جلد از جلد ہو جائے اکہ یہ کل صبح کی ٹرین سے واپس چلی جائیں، اس لئے کچھ مصروفیت رہی۔“

    بلوچ خان کے چہرے پر تفکرات کے ساتھ اب تجسس کے آثار بھی نمایاں ہونے لگے۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ معاملہ کیا ہے۔

    ”ماسڑ صاحب! کیا میں کچھ مدد کر سکتا ہوں؟ مجھے نہیں معلوم کہ معاملہ کیا ہے لیکن مجھے اتنا اندازہ ہو رہا ہے کہ کوئی سنگین بات ہے۔

    ”ہاں، یقیناً آپکی مدد کی ضرورت ہے۔ پہلے تو یہ کہ آپ انکے ٹھہرنے کا بندوبست کریں۔ پھر میں آپکو تمام روئیداد سناتا ہوں۔“

    ”ٹھہرنے کا کوئی مسلہ نہیں ہے۔ بہن پچھلی طرف میرے گھر میں اپنے بیٹے کے ساتھ ٹھہر جائیں۔ میں یہیں پڑا رہوں گا اور پھر صبح دیکھ لیں گے، ہاں البتہ ان کے کھانے کا پہلے بندوبست کرتا ہوں۔“

    یہ کہہ کر بلوچ خان نے میز پر پڑا کالے رنگ کا فون اٹھایا اور اسکے ساتھ جڑا ہو ا لیور زور سے گھمایا۔ شاید دور کہیں کوئی گھنٹی بجی ہوگی۔ چند منٹوں میں شلوار قمیض میں ملبوس ایک نوجوان سا لڑکا دروازے پر نمودار ہوا۔

    ”جی واجہ“ لڑکا براہوی میں بولا۔

    ”شاکر خان، مہمان آئے ہیں تم جلدی سے کھانے کا بندوبست کرو۔ حلیمہ سے کہنا تین چار مہمان ہیں۔“

    جیو، واجہ“ شاکر سر ہلاتا ہوا واپس چلا گیا۔

    ”ہاں، ماسٹر عبداللہ۔ اب کہو کیا معاملہ ہے؟ بلوچ خان نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔

    ”بلوچ خان، آپ جانتے ہیں کہ یہاں علاقے کے متوالے نوجوان کس طرح اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔ ایک طرف حکومت ہے۔ اسکی نالائقی، بے حسی اور مصلحت کوشی ہے۔ دوسری طرف محرومیاں، بدگمانی اور بے اعتمادی اپنے روایتی ظالم پنجے معاشرتی زندگی میں گاڑے انتقام کی آگ کو ہوا دے رہی ہیں۔ اور اس سارے معاملے میں غریب اور مظلوم عوام کی زندگی مزید اجیرن ہو گئی ہے۔ نوجوانوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا کہ وہ اپنی زندگی کی باگیں خود سنبھال لیں، گو اس میں گرنے کا احتمال زیادہ ہوتا ہے۔ دانشور اور بزرگ دونوں طرف کے دباؤ کے خوف میں خاموش ہو چکے ہیں۔ ان کے خیال میں سیاسی گراوٹ اور معاشی محرومیوں نے اب نوجوان نسل کو آگے بڑھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اب وہ رک نہیں سکتے۔“

    ”لیکن میں بہن امبرین کے معاملے کی بات پوچھ رہا ہوں۔“ بلوچ خان نے ماسٹر عبدا للہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔

    ”ہاں، میں اسی طرف آ رہا ہوں۔ امبرین بی بی کے شوہر یہاں ملیشیا میں تعینات تھے اور پھر ایک دن وہ جب چھٹیوں میں اپنے گھر جانے کے لئے ٹرین پر سوار ہو رہے تھے کہ کسی برقعہ پوش شخص نے انہیں گولیوں سے چھلنی کر دیا تھا۔ اور اپنے بیٹے کی سالگرہ پر پہنچنے والا باپ اپنے خاموش لاشے کے ساتھ گھر واپس آ گیا۔ یہ دو مہینے پہلے کی بات ہے۔ امبرین بی بی نے بڑی بہادری کے ساتھ یہ دکھ جھیلا لیکن اپنے شوہر کے قتل کو وہ بھول نہ سکی۔ ابھی تو اس کے باپ کا غم ہی کم نہ ہوا تھا۔ پھر امبرین نے مجھ سے رابطہ کیا اور مجھ سے مدد کی درخواست کی۔ اسکی خواہش تھی کہ میں اسکے شوہر کے قاتل کو ڈھونڈنے میں اسکی مدد کروں۔ قاتل سے یہ خود نبٹا چاہتی ہے۔“

    ”تو کیا یہ مسلح ہو کر یہاں آئی ہے۔“ بلوچ خان نے اچانک سوال داغ دیا۔

    ”مجھے نہیں معلوم، لیکن یہ سوال آپ امبرین بی بی سے پوچھیں تو بہتر ہے۔“

    ”نہیں، میں ایسی کوئی بات ذہن میں لیکر نہیں آئی ہوں اور نہ ہی میں مسلح ہوں۔ میں نے تو بھائی عبداللہ سے کہا تھا مجھے قاتلوں تک پہنچا دو۔ میں خود ان سے بات کرنا چاہتی ہوں۔ پھر چند روز پہلے بھائی عبدا للہ نے مجھے فون کر کے بتایا کہ انہیں قاتلوں کا پتہ چل گیا ہے لہذا تم اگر آنا چاہو تو چلی آؤ، اور یوں میں آج یہاں ہوں۔“

    ”ہاں تو ماسٹر بتاؤ کون ہیں وہ لوگ جنہوں نے امبرین کے شوہر کو قتل کیا ہے۔“

    ”میں دو خواتین کو اپنے ساتھ لایا ہوں، آپ خود ان سے مل لیں اور پھر یہ عقدہ حل کریں۔“ یہ کہہ کر ماسٹر عبد اللہ اپنی جگہ سے اٹھے اور کمرے کے باہر جاکر ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے آواز دی ”اندر آ جاؤ۔“

    اتنے میں دو خواتین چادر میں لپٹی ہوئیں سہمی سہمی سی آہستہ آہستہ قدموں سے چلتی ہوئیں کمرے میں داخل ہوئیں۔ معاملہ کچھ عجیب و غریب پراسراریت اختیار کر چکا تھا۔

    ”بلوچ خان آپکو دو کرسیوں کا مزید انتظام کرنا ہوگا۔“ ماسٹر عبد اللہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

    بلوچ خان نے فون اٹھایا اور شاکر خان کو مزید کرسیاں لانے کو کہا اور فون نیچے رکھ دیا۔ چند لمحوں میں کرسیاں آ گئیں۔ ماسٹر عبداللہ نے اپنے ساتھ آنے والی لڑکیوں کو اشارہ کیا کہ وہ بیٹھ جائیں۔ دونوں لڑکیا ں خاموشی سے بیٹھ گئیں۔ ماحول پر گہری سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔ گہرے سکوت کو توڑتے ہوئے ماسٹر عبداللہ نے امبرین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

    ”بہن! یہ دونوں لڑکیاں آپس میں بہنیں ہیں۔ بڑی لڑکی کا نام زرین اور چھوٹی مہ نور ہے۔ انکا آپ کے شوہر کے قتل سے بڑا گہرا تعلق ہے۔“ ماحول پر خاموشی طاری تھی۔

    ماسٹر عبد اللہ نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ”تین سال پہلے دونوں بہنیں اپنے والد اور دو بھائیوں کے ساتھ یہاں سے بیس کلومیٹر دور ایک گاؤں میں ہنسی خوشی رہتی تھیں۔ والدہ ایک بیماری میں چند سال پہلے وفات پا چکی تھیں۔ اب گھر کا سارا انتظام زرین ہی سنبھالتی تھی۔ ہاں البتہ چھوٹی کو ڈاکٹر بننے کا بہت شوق تھا جو اب ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ دو سال پہلے جب نوجوانوں کی سیاست اور آزادی کی لہر نے چاروں طرف گھر کر لیا تو زریں کے دونوں بھائی بھی اس میں شامل ہو گئے اور پھر ایک دن اچانک بڑے بھائی کی لاش گھر میں آ گئی۔ معلوم ہوا کہ وہ بے گناہ پولیس کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔ ابھی اسکا کفن میلا نہ ہوا تھا کہ چھوٹا بھائی اچانک غائب ہو گیا۔ گاؤں والوں اور دوست احباب سب نے اسے ملکر بہت ڈھونڈا لیکن بے سود۔ رفتہ رفتہ یہ خبر عام ہوئی کہ سرفراز بلوچ کو کسی نے لاپتہ کر دیا ہے۔“

    ماسٹر عبداللہ سانس لینے کے لئے چند لمحے رکا اور پھر بولا۔

    ”امبرین بہن مرنے والے کا غم تو سنبھالا جا سکتا ہے لیکن زندہ انسان کے کھو جانے کا غم بہت گہرا اور انمٹ ہوتا ہے۔ اس غم میں مبتلا گزشتہ دو سال سے زرین کا باپ اپنے بیٹے کو نگر نگر تلاش کرتا رہا۔ وہ مرنے سے پہلے آخری دم تک یہ یقین کرنے کو تیارنہیں تھا کہ اس کے بیٹے کو اسی ملک کے کسی ادارے یا پولیس نے اغوا کیا ہے۔ وہ ملکی اداروں کو شک سے بالاتر سمجھتا تھا۔ وہ تو جب کچھ اور لڑکے بھی اسی طرح غائب ہوئے تو یہ معاملات تمام اخبارات میں آنا شروع ہو گئے اور رفتہ رفتہ باپ کو یقین آ گیا۔ جب سے وہ ایسا دکھی اور بیمار ہوا کہ بالآخر موت نے اسے سکون دیا۔ بوڑھا باپ مرتے دم تک اپنے بیٹے کو پکارتا رہا۔“

    یہ کہہ کر ماسٹر عبداللہ خاموش ہو گیا۔ اس کے پاس کہنے کو کچھ اور نہ تھا اچانک کمرے میں آہستہ آہستہ سسکیوں کی آوازیں آنے لگیں۔ بلوچ خان اور ماسٹر عبداللہ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ادھر صوفے پر امبرین ہلکے ہلکے سسکیاں لے رہی تھی دوسری طرف زرین اور اسکی بہن۔ اتنے میں عنبرین اٹھی اور زرین کے پاس جا کھڑی ہوئی۔ آہستہ سے اسکا بازو پکڑا اور اپنے ساتھ کھڑا کر لیا۔ زرین اپنے آنسوؤں پر قابو نہ پا سکی اور بلکتے ہوئے امبرین سے لپٹ گئی۔ وہ زار و قطار رو رہی تھی۔ دونوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکا تو سوائے درد کے کچھ اور نہ ملا۔ دونوں کے دکھ اس قدر گہرے تھے کہ ان کی روحیں تک بلبلا اٹھی تھیں۔

    امبرین نے زرین کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے پاس صوفے پر بٹھا لیا تو زرین سے رہا نہ گیا۔ وہ زندھی ہوئی آواز میں بولی۔ ”امبرین اب تم بتاؤ اپنے دو بھائیوں اور باپ سے محروم لڑکی اور کیا کرتی۔ جس بد گمانی نے اسکا پورا خاندان لوٹ لیا تھا بالآخر وہ اسکا شکار کیونکر نہ ہوتی اور وہی وہ لمحہ تھا جب میں نے بدلہ لینے کا سوچ لیا اور بدقسمتی نے تمارے شوہر کو چن لیا۔“

    زرین اب بلک بلک کر رو رہی تھی اور کہتی جا رہی تھی ”میں تماری مجرم ہوں۔۔۔ ہاں میں تماری مجرم ہوں۔“

    امبرین کو ایسے لگا جیسے اس کے سینے میں کسی نے کوئی چھرا گھونپ دیا ہو اور درد کی لہریں اس کے سینے سے نکل کر پورے جسم میں زود اثر زہر کی طرح پھیل رہی ہوں۔ اس نے نوید کا ہاتھ کھینچ کر اپنے قریب کیا اور زرین سے مخاطب ہوئی۔

    ”لو یہ میرا لخت جگر نوید اب تمارا چھوٹا بھائی سرفراز بلوچ ہے۔ یہ آج سے تمارا ہے۔ تم سمجھو کہ تمارا کھویا ہوا سرفراز تمیں واپس مل گیا ہے۔“

    میں تمیں معاف کرتی ہوں لیکن صرف ایک شرط پر کہ تم اب ماہ نور کو میرے ہمراہ کر دو تاکہ اس کے اور اسکے بھائی سرفراز بلوچ کے خواب پورے ہوں اور یہ ایک ڈاکٹر بن جائے۔“

    بلوچ خان اور ماسٹر عبداللہ یہ سارا منظر خاموشی سے دیکھ رہے تھے۔ بڑے عرصے کے بعد انہوں نے محبت کے شفاف چشمے پھوٹتے دیکھے تھے دونوں آہستہ آہستہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے اپنی ڈبڈبائی ہوئی آنکھیں لیکر کمرے سے باہر کھلی ہوا میں آ گئے۔

    پہاڑوں سے آنے والی باد خنک ان کے گالوں کو تھپتھپاتے ہوئے انہیں ایک نئی زندگی کی نوید دی اور آب گم کے ویران ریلوے اسٹیشن نے رات کے اس پہر میں پپوری ایک سدی کے بعد ایک نئی کہانی کو جنم لیتے ہوئے دیکھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے