آسیب زدہ خواب
تاریکی روشنی کو تیزی سے نگل رہے تھی۔ شام کی دہلیز پر اندھیرے کا رقص جاری تھا۔ سورج غروب ہوکر مغرب کی جانب اب تک طویل سفر طے کر چکا ہوگا۔ رات نے اپنی ہولناک حکمرانی کا اعلان کر دیا تھا۔ راستے پر اکا دکا چہرے اب پرچھائیوں کی مانند دکھنے لگے تھے جیسے چلتے پھرتے سائے ہوں۔ میں حیران و پریشان اس گھر کی تلاش میں سرگرداں تھا جہاں ہم نے بچپن اور جوانی کے بیس سال گزارے تھے۔ اس شہر میں کرائے کا کھپریل نما معمولی سا ایک مکان تھا۔ لیکن اب سب کچھ بدل چکا تھا۔ صرف آڑے ترچھے راستوں نے ہی اپنا وجود بچا رکھا تھا۔ چھپر کا وہی پرانا گھر اور پاس میں بہتا ہوا گندا نالہ تنگی سے کشادگی کی جانب جاتی ہوئی ایک شاہراہ اور برگد کا ایک بوڑھا درخت اب تک اپنی جگہ قائم تھا۔ یہ سب میرے وجدان میں ثبت تھے۔ بیس سال بعد میں اس بھولی بسری یادوں کو یکجا کر کے اس ادھوری کہانی کی تکمیل چاہتا تھا۔
تبھی ایک بوڑھا لاٹھی ٹیکتا ہوا پتلی سی گلی کے موڑ سے نکل کر برگد کے درخت کی جانب جانے والی پراسرار راستے کی طرف سے اچانک باہر آیا۔ جہاں شام ڈھلے خاموش صدائیں بولتی تھیں۔ ہم سب بچے سورج ڈھلنے کے بعد برگد کے اس درخت کے پاس جاتے ہوئے ڈرتے تھے۔ جھکی ہوئی کمر کانپتے ہاتھ لرزتے ہونٹھ لڑکھڑاتے پیر جھریوں سے بھرا خاموش چہرہ۔ ڈنڈے کو زمین پر ٹیک کر خود کو بمشکل سنبھالتا اپنے آپ کو آگے دھکیلنے کی کوشش کرتا ہوا آگے بڑھتا رہا یہاں تک کے میرے سامنے آکر رک گیا۔
کون ہو؟ کی صدا نے مجھے یک بیک جھنجھوڑ دیا تھا۔ میں کون ہوں؟ اس وقت کہاں ہوں؟ میں کیا تلاش کر رہا تھا؟ سنسان راستے پر اتنی رات میں اکیلے کیوں کھڑا ہوں؟ دماغ کے اوراق کو تیزی سے پلٹتے ہوئے ماضی نے حال میں آتے آتے طویل راستے طے کیے تھے۔ برق رفتاری سے روشنی کی سفر سے بھی کہیں زیادہ تیز۔
مجھے گم گشتہ یادوں نے جب تک اپنی منزل تک پہنچایا تب تک اس نے اپنے کھرچے ہوئے ٹیڑھے ڈنڈے سے پیروں پر ٹھوکر لگاتے ہوئے دوبارہ پوچھا۔ کون ہو بھائی؟ اتنی رات گئے اس ویران راستے پر کسے ڈھونڈ رہے ہو؟ اس کی قدرے بھاری بھرکم آواز نے مجھے ایسے جگایا جیسے بروز حشر مردے کے جسم میں روح ڈال دی گئی ہو اور اچانک ہی اسے سب کچھ یاد آ گیا ہو۔ میں خوفزدہ سا تھوڑی سی دوری بناکر ایک قدم پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔
اس کا حلیہ قدوقامت وضع قطع چال ڈھال کانوں تک بکھرے ہوئے لمبے الجھتے بال اور سفید داڑھی نے دماغ کے خلیوں میں بھولی بسری یادوں کے کچھ گوشے کو تلاش کرنے کی کوشش شروع کر دی تھی۔ جس سے سر پر کافی بوجھ پڑ رہا تھا اور اعصاب میں تناو کی کیفیت پیدا ہو رہی تھی۔
مفلسی و تنگ دستی نے اس کی حالت کسی فقیر سے بدتر کر دی تھی۔ غربت و افلاس نے اس کی قبا چاک کر دی تھی۔ حالات اور زمانے کی گردش نے اس سے اس کا حسن و جوانی چھین لیا تھا۔ بازو لٹک گئے تھے۔ کندھے اس بوڑھے برگد کے درخت کی ٹہنی کی مانند زمین پر جھک رہے تھے جس ٹہنی پر بچپن میں ہم کبھی جھولہ جھولا کرتے تھے جو کبھی زمین پر آتا تو کبھی اوپر کو چلا جاتا تھا۔ پیروں کی کپکپاہت کسی مخدوش و پر خطر حویلی کی گرتی ہوئی دیوار اور ٹوٹے ہوئے بام و در کی یاد تازہ کرا رہی تھی۔ اتنی سی دیر میں قدرت کے بنائے ہوئے سپر فاسٹ کمپیوٹر نے دماغ کی میموری سے بیس برس قبل کے اس نوجوان بوڑھے کو میرے سامنے لا کھڑا کیا تھا۔
میری زبان سے یک لخت نکلا حیدر؟ اپنا نام سنتے ہی وہ چونک اٹھا۔ ایک قدم آگے بڑھ کر اس نے ڈنڈے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر زمین کے سینے پر گاڑ دیا۔ کمر سیدھی کی سر اٹھایا لڑکھڑاتے قدم کو سنبھالا اور کانپتے ہاتھوں کو میرے کندھے پر رکھ کر رات کے گھپ اندھیرے کو چیرتی ہوئی آنکھوں کی تیز شعاوں سے میرے چہرے اور لفظ کو ایک لمحے بھر پہچاننے کی دیر نہ کی۔ اکرم کہتے ہی مجھ سے لپٹ کر زاروقطار رونے لگا۔
انسیت پیار و محبت الفت چاہت جسے آج تک کسی مٹی نے کھانے کی جلدی نہیں مچائی اور نہ ہی کسی کیڑے کے شکم میں قدرت نے اتنی طاقت و صلاحیت پیدا کی جو اسے پچا سکے۔ بیس سال پہلے کا سینکڑوں زاویہ بدلتا ہوا ایک چہرہ ٹوٹتے ہوئے الفاظ جسے بوڑھے کانوں کی لرزتی ہوئی سماعتوں نے آنکھوں کے ذریعہ آواز کے راستے ایک آن میں ہی پہچان لیا تھا۔ دائیں اور بائیں جانب بیٹھے فرشتے حیرت زدہ ہوں گے کہ بولنے سننے اور دیکھنے کی اللہ رب ذوالجلال کی اس خوبصورت و لازوال تخلیق کی ایک زمانے میں ایک دوسرے سے کتنی شناسائی رہی ہوگی؟
رونے کی دل خراش آواز سن کر اہلیہ پاس آکر جھجھوڑتے ہوئے مجھے اٹھا رہی تھیں۔ اٹھیے جاگیے آپ رو رہے ہیں! شاید کوئی ڈراونہ خواب دیکھ رہے تھے۔ سورج خوب روشن ہو چکا تھا۔ آفتاب کی تیز کرنیں چھن چھن کر دالان سے گزرتی ہوئی کمرے میں دریچے سے اندر آ رہی تھیں۔ میں اٹھ کر بھی جاگ نہیں پایا تھا۔ حیدر سے اس کی گزری ہوئی اتنی کرب ناک زندگی کے حال و احوال نہ جاننے کا افسوس اور صدمہ لیے ہوئے میں بستر سے اٹھ کر بھی نیم بے ہوشی کے عالم میں بیٹھا کئی سوچوں میں گم تھا۔ آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ بیگم نے مجھے دوبارہ زور سے ہلاتے ہوئے کہا نیند سے بیدار نہیں ہوئے اب تک؟ کوئی خوفناک خواب دیکھ لیا کیا؟ میں پانی لے کر ابھی آتی ہوں کہہ کر باورچی خانے کی جانب چلی گئیں۔
میں اب جاگ چکا تھا۔ لیکن حیدر کا وہ بوڑھا نحیف چہرہ اب تک میرے اعصاب پر مسلط تھا۔ دماغ عجیب و غریب سی کیفیت سے گزر رہا تھا اور دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ میں نے بیگم کو آواز دی دواخانے سے نیند کی ایک گولی منگا دو؟ مجھے دوبارہ سونا ہے۔ مجھے حیدر سے پھر ملنا ہے۔ مجھے جاننا ہے کہ وقت نے اس کے ساتھ ایسا ستم کیوں کیا؟ آخر وہ وقت سے پہلے اتنا زیادہ بوڑھا اور لاغر کیسے اور کیوں کر ہو گیا؟
معمولی سے وقفے میں پانی اور چائے کے ساتھ بیگم حاضر تھیں۔ میں نے منھ دھویا چائے پی اور کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا۔ مجھے اب قدرے سکون سا محسوس ہو رہا تھا۔ لیکن دل کو اب بھی ذرہ برابر اطمینان حاصل نہیں تھا۔ وہ پوچھ رہی تھیں! کون حیدر؟ آج آپ نے خواب میں کسی بد روح کو دیکھ لیا ہوگا؟ میں نے بیگم کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑ کر کہا، ہاں ایک بدروح بوڑھا لڑکھڑاتا اور لاٹھی ٹیکتا ہوا ضعیف و پریشان حال کمزور حیدر اور کوئی نہیں؟ انہوں نے فرط جذبات میں سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا استغفار پڑھیے لاحول کا ورد کیجئے تھوڑی بہت دیر میں راحت و قرار حاصل ہو جائے گا۔
کپڑے لے آو؟ جوتے اور موزے بھی لا دو؟ اور کچھ پیسے بھی لیتی آنا؟ میں ابھی گیا اور ابھی آیا کہہ کر گھر سے نکل پڑا تھوڑی سی دیر بعد گھر پر حاضر ہوا۔ بیگم بھاگی ہوئی دروازے پر آئیں کہنے لگیں۔ کیا دواخانے سے دوا لانے چلے گئے تھے؟ میں نے نفی میں سر ہلایا نہیں، ہم آج رات کی گاڑی سے شہر جا رہے ہیں۔ لیکن اتنا جلدی کیوں؟ کیا کوئی بات ہو گئی؟ وہاں سب خیریت تو ہے نا؟ بیگم نے قدرے تعجب سے میری جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔ وہاں کس سے ملنا ہے؟ میں نے کہا میرا وہ بچپن کا دوست حیدر نہایت بوڑھا اور کمزور ہو گیا ہے۔ اسے شدید تکلیف ہے۔ مجھے اس سے ملنا ہے۔ کچھ پوچھنا ہے۔ کچھ جاننا یے۔ انھوں نے میری جانب حیرت بھری نظروں سے دیکھا۔ ان کی تجسس بھری نگاہیں مزید کچھ سوال کر رہی تھیں۔ میں نے کہا وہی خوابوں والا بد روح حیدر؟ آسیب زدہ بوڑھا و لاغر حیدر؟ اور کون؟
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.