Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اسیر خواب

مریم تسلیم کیانی

اسیر خواب

مریم تسلیم کیانی

MORE BYمریم تسلیم کیانی

    آج بھی وہی ہوا۔۔۔ میرے گلے لگتے ہی اس کا جسم ہلکا ہو کر ہوا میں جھول گیا۔ بےوزن گڑیا جیسا اس کا وجود میری گرفت میں تھا اور میں اس سے جیسے دل کر رہا تھا ویسے کھیل رہا تھا۔ اسے چھو رہا تھا اور بہک رہا تھا۔۔۔ اس کے ہلکے پھلکے وجود میں سرور اور مزے کی لہریں سی لہرا رہی تھیں۔۔۔ جن کو میرا انگ انگ محسوس کر رہا تھا۔۔۔ مقناطیسی انداز میں میرے لب اس کے لبوں سےمل کر ان کا رس پینے لگے۔ میں ان سے اپنے پیاسے ہونٹوں کی طلب بجھاتا اور سر سے لے کر پیر تک جام وصل پیتا۔۔۔ وہ کراہ رہی تھی اور سسک رہی تھی۔۔۔پھر وہ موم بن کر میرے ہاتھوں کی پوروں سے پگھلنے لگی۔۔۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ وہ نشے اور لذت کی آخری حدوں پر تھی۔ مجھے بھی اپنا جسم ہلکا ہوکر ہوا میں تحلیل ہوتا محسوس ہوا پھر میرا سارا کیف پور پور اس پر برسنے لگا۔۔۔ وہ میرے وجود کو بھینچ کر کراہی۔۔۔ میرے بال نوچنے لگی۔۔۔ میرے سر کے بالوں میں اس کی انگلیوں کا لمس محسوس ہوا۔ میرے اندر کوئی بچہ بیدار ہو گیا۔۔۔ مجھ پر ایک کیف طاری تھا۔۔۔ وہ میرے دماغ پر پوری طرح قا بض تھی اور ہم دونوں ایک ہو گئے۔ نہ اس کا کچھ اس کا رہا۔۔۔ نہ میرا کچھ میرا۔۔۔ ہم مکسر میں ڈل گئے اور ملک شیک کی طرح مکس ہوتے رہے۔ ایک فنا سے نمود کی طرح ایک سرشاری سے بھرپور احساس۔۔۔ رات کیسے گزری۔ نشے کے عالم میں جھول جھول کر۔ کچھ ہوش نہ رہتا تھا۔۔۔ تب وہ اس طرح میرےخواب میں آتی تھی۔

    صبح ہو گئی۔ میری آنکھ کھلی۔ میں بادل کی طرح ہلکا ہو کر اٹھا تھا۔۔۔ یہ خواب میری زندگی تھا۔ اس کا گڑیا سا وجود اور اس کا میری دسترس میں آ کر بےبس ہو جانا۔۔۔ یہ ایسا خمار بھرا خواب تھا۔ جس کو میں 15 برس سے جی رہا تھا۔۔۔ اور 5 برس سے اس کا معاوضہ بھی ادا کر رہا تھا۔۔۔ جی ہاں خواب دیکھنے کا۔۔۔ اس کے خمار میں رہنے کا معاوضہ۔۔۔

    میں بہت ہی عجیب و غریب قسم کا انسان ہوں۔۔۔ یہ جملہ اپنے بارے میں اس قدر سن رکھا ہے کہ اسے پر تکیہ کر بیٹھا ہوں۔ اپنی نظر میں تو میں بہت عام سا ہوں۔ درمیانہ قد ہے۔ کبھی باڈی بلڈنگ نہیں کی۔ اوپر سے نیچے تک ایک ہی بناوٹ میں جسم ہے۔ داڑھی مونچھیں کبھی پالی نہیں۔ بس ناک نقشہ گزارے لائق ہے۔ آنکھیں بہت دور تک اور گہرائی تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں مگر یہ کوئی نئی بات نہیں سارے مرد گہری نگاہ رکھتے ہیں۔۔۔ مجھے بچپن سے لکھنے اور پڑھنے کا شوق تھا۔ یہ صلاحیت بڑے ہو کر روزگار کا ذریعہ بنےگی، سو چا نہیں تھا۔۔۔

    سوچا نہیں تھا کہ ایک لڑکی کی زندگی میں نہ آنے کے باوجود اس کے اخراجات کی ذمے داری میرے اوپر آ جائےگی۔

    وہ لڑکی میرے گھر کے نیچے کمپاؤنڈ میں بنے چھوٹے سے گھر میں رہتی تھی ۔ اس کے گھر والوں پر پتا نہیں کیا افتاد ٹوٹی تھی۔ جو وہ فیملی سمیت یہاں آ گئے تھے۔۔۔ میں نے جاننا نہیں چاہا، اس نے بتانا نہیں چاہا۔۔۔ بس آنکھوں ہی آنکھوں میں نہ جانے کیا طے ہوا۔ کہ کسی کو کچھ بولنے کی ضرورت ہی نہیں محسوس ہوئی۔۔۔ مجھے اس کی آنکھیں بےحد پسند تھیں۔

    اس کی آنکھیں۔۔۔ آنکھوں میں معصومیت اور ان میں کبھی درد۔۔۔ کبھی ہنستی آنکھیں۔۔۔ کبھی چپ آنکھیں۔۔۔ کبھی بولتی آنکھیں۔۔۔ مجھے آتے جاتے دیکھتی آنکھیں۔۔۔ ان آنکھوں نے بلاشبہ مجھ پر جادو کر دیا تھا۔ میں ان آنکھوں سے باتیں کرتا رہتا اور خیالوں میں انہیں چومتا رہتا۔ آنسو گرتے تو پیتا رہتا اور اس کو تکتا رہتا۔ شاید اسی لئےمجھے اکثر لوگ کہتے ہیں کہ میں بہت عجیب ہوں۔

    پھر یوں ہوا کہ اس کی ضرورتوں نے مجھے اپنے گھر جانے کے لئے سیڑھیاں نہیں چڑھنے دیں۔۔۔ وہ مجھ سے صرف پیسے نہیں مانگتی تھی ،مجھ سے جیسے میری جان مانگ لیا کرتی تھی۔۔۔ میں نے اس کے لئے دن رات محنت کی۔ پیسے کمائے یہاں تک کہ گھر بھی بس کے بجائے پیدل آتا، تاکہ کرائے کے بھی پیسے بچا کر اسے دے دوں۔ دیکھتے ہی دیکھتے میں اس کی تمام ضرورتوں کا آسرا بن گیا۔

    ہم گھنٹوں ساتھ ساتھ سیڑھیوں پر بیٹھے رہتے۔۔۔ وہ مجھے اپنی روداد سناتی رہتی، میں سنتا نہیں، اس کی باتیں، دیکھا کرتا تھا۔ اس کے لبوں کی جنبش۔ اس کا بالوں کو ایک طرف کر کے جھٹکنا، اس کا جارجٹ کے باریک آنچل کو سنبھالنا۔ سانسوں سے اوپر نیچے ہوتے اس کے سینے کے متوازن ابھار، اس کا اپنے سڈول گھٹنوں پر سر رکھ دینا۔۔۔ عجیب ملتجائی نظروں سے مجھے دیکھنا، کبھی ہنس دینا۔ کبھی تیوری چڑھانا۔۔۔ میں اس کی باتیں کبھی سننا چاہتا ہی نہیں تھا۔۔۔ صرف اسے دیکھتا تھا اور اسے مجسم اپنے دل میں اتارتا تھا۔ اس کی ہر ادا میں جادوئی اثر تھا۔۔۔ میرے دل کے تمام تار اس کے ساتھ جڑ چکے تھے۔۔۔

    پھر ایک دن وہ حادثہ بھی رونما ہو گیا جس کی وجہ سے میری زندگی ہی ویران ہو گئی۔ اس کی شادی اس کے باپ نے زبردستی کروا دی اور وہ مجھے سیڑھیوں پر اکیلا چھوڑ کر چلی گئی ۔۔

    مگر وہ چلی نہیں گئی، اس کے بعد تو وہ میرے پاس آ گئی۔۔۔ اب اس بات کی وضاحت کیا کروں کہ وہ کیسے آ گئی۔

    وہ میرے خواب میں آ گئی، سراپا میری بن کر۔۔۔ اس کو میرے خواب میں میرے سوا کوئی دوسرا نہیں دیکھتا تھا، نہ اسے خواب میں چھوتے ہوئے مجھے کوئی جھجک ہوتی تھی۔ وہ مکمل میری ہوتی تھی۔ میں اسے مجسم محسوس کرتا تھا۔ میں اسے جہاں چاہتا تھا، چومتا تھا اور دیوانہ وار پیار کرتا تھا۔۔۔ اس کا مومی جسم صرف میرے لئے پگھلتا تھا۔ اس کے ہر عضو کا لمس مجھے محسوس ہوتا تھا، میرا رواں رواں اس کے لمس سے بیدار ہو جاتا تھا۔۔۔ میں ایسا سرشار رہنے لگا تھا کہ اپنے ارد گرد کی دنیاوی تبدیلیوں کا ہوش ہی نہیں رہتا تھا۔

    میری شادی ہو گئی۔ بچے ہو گئے اور زندگی کی گاڑی کھینچتے کھینچتے میں ملک سے باہر آ گیا۔۔۔ یہاں میں بالکل تنہا تھا۔۔۔ مگر اس کا نازک بدن، ہر رات میرے ساتھ ہوتا تھا۔۔۔ وہ ہی خمار بھرا خواب۔ وہ ہی لمس اور ویسی ہی لذتیں، سرشاری اور مدہوشی۔۔۔ میری تنہائی میں وصل تھا۔

    ایک دن مجھے اس کا میسج ملا۔۔۔ اس نے مجھے کسی طرح سوشل میڈیا میں ڈھونڈھ نکالا تھا۔ اس میسج میں اس نے اپنے حالات کا رونا اور ضروریات زندگی پوری نہ ہونے کی باتیں کی تھیں۔۔۔

    میں جلد پاکستان آنے والا ہوںـ میں نے اسے جواب دیا۔

    مجھے ملنا ہے تم سے اکیلے میں۔ ویسے ہی جیسے ہم پہلے ملا کرتے تھے۔

    اسے آج بھی اس دھڑکتے دل کی خبر نہ تھی جو اس کی ایک ذرا سی بات پر اچھل اچھل کر بے قابو ہو گیا تھا۔

    ہم کیسے ملیں گے۔ خواب کی لذت روز میری زبان پر اپنے نت نئے ذائقے محسوس کرواتی رہتی تھی۔ کیف وسرور کی لہریں میرے انگ انگ کو گدگداتی اور سرسراتی تھیں۔ اس کے حقیقی وصل کے خیال ہی سے سانپ پھن پھیلاتا اور کلبلاتا تھا۔۔۔ غرض میں دیار غیر سے اپنے وطن چھٹیوں پر آ گیا۔

    وہ میرے سامنے تھی۔۔۔ مگر وہ میرے سامنے تھی ہی نہیں، وہ تو پتا نہیں کون تھی۔۔۔ وہ ایک عورت کا بے دردی سے استعمال شدہ جسم تھا۔

    اس کے نازک پستان بھاری ہو کے لٹک کر اس کے پیٹ تک آ گئے تھے۔۔۔ چہرے کی وہ معصومیت اور دل کشی بالکل کھو چکی تھی۔ آنکھوں میں کھنڈرات بسے تھے۔ جنہیں اس نے شاید میک اپ سے چھپانے کی کوشش کی تھی۔ میک اپ کرنے سے وہ مجھے مزید ڈراونی نظر آرہی تھی۔ اس کے سوکھے، بےرونق اور لپ اسٹک ذدہ لب ہلے۔۔۔ اس کی آواز میں میلوں سفر کی اور انتظار کی عجیب سی گونج تھی۔۔۔

    میرا دل اسے اس حالت میں قبول کرنے کو تیار نہیں تھا، اسے دیکھ کر سینے میں سانسیں بند ہونے کے قریب تھیں۔

    چشم تصور میں، مجھے اپنی نازک اندام محبوبہ کا سراپا نظر آ رہا تھا۔ جسے میک اپ کی ضرورت ہی نہیں تھی، جس کے گلابی بھیگے بھیگے ہونٹوں کو میں صرف ہلتے ہوئے دیکھتا تھا تو ان کا رس میرے منہ میں گھلنے لگتا تھا۔۔۔

    اس کا موجودہ روپ دیکھ کر مجھے کراہیت آ رہی تھی۔ میں چاہتا تھا کہ وہ جلد سے جلد میرے سامنے سے ہٹ جائے۔ میں نے اس سے نظریں پھیر لیں۔۔۔

    میں اپنی نازک اندام محبوبہ کا سراپا کھونا نہیں چاہتا تھا۔ وہ پتا نہیں کون تھی اور کیوں میرے سامنے آ گئی تھی۔

    مجھے لگا جیسے کوئی میرا خواب مجھ سے دور لے جا رہا ہو۔ وہ خواب جو میری زندگی تھا، میں اس خواب کے سہارے ہی تو جیتا تھا اور وہ ہی تو میری زندگی کا حاصل تھا۔۔۔ وہ پتا نہیں کون تھی اور مجھ سے کیا چاہتی تھی۔۔۔

    وہ میری محبوبہ ہرگز نہیں تھی۔۔۔ وہ بھوکے ترستے، بچوں کی مجبور ماں تھی۔۔۔ ایک غریب انسان کی بیوی تھی اور اس کی ہوس کا روز شکار ہوتی تھی۔۔۔ وہ ضرورت مند تھی۔ مجھ سے محبت کی بھیک مانگ رہی تھی۔ وہ محبت جو اس کے لیے تھی ہی نہیں۔۔۔

    وہ اپنے جسم سے حیا کی چادر اتارے میرے بے حد نزدیک آگئی ۔۔ وہ اپنے تیئں اس محبت کو مکمل کرنا چاہتی تھی۔۔۔ جس کو برسوں پہلے کی پیاس نگل چکی تھی۔۔۔

    میں حاضر ہوں تم میرے ساتھ جو چاہے کر سکتے ہو اور آیندہ بھی جب چاہو، مجھے بلا لینا۔۔۔

    وہ آہستہ آہستہ برہنہ بدن اور برہنہ کرنے لگی۔۔۔ میں غصے اور حیرت کی ملی جلی کیفیت میں تھا۔

    اچانک مجھے جیسے ہوش آیا اور اسے چادر اٹھا کر اوڑھا دی ۔ منہ پھیر لیا اور فقط اتنا کہا۔

    تم فکر نہیں کرو۔ میں ہر ماہ تم کو پیسے بجھوا دوں گا، بس اب کبھی دوبارہ میرے سامنے نہ آنا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے