اشک پشیمانی کے
خون میں لت پت، مجبور و لاچار ہوکر وہ سڑک کے درمیان پڑی تھی۔ آنے جانے والے لوگ دور دور سے دیکھ رہے تھے۔ وہ تڑپ رہی تھی اور جانکنی کے عالم میں اپنی پوری قوت مجتمع کرتے ہوئے مدد کو پکار رہی تھی، پر کوئی مدد کے لیے آگے نہیں بڑھ رہا تھا، اس کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ پھر ایک کار رکی، اس میں سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور اسے اپنی کار میں ڈال کر اسپتال لے گیا۔ روشنی نے سورج کو بہت روکا تھا کہ یوں انجان راہوں میں گاڑی روک کر کسی کی مدد کے لیے بھاگنا اسے پریشانیوں میں مبتلا کر سکتا ہے پر سورج سے رہا نہیں گیا اور اس نے اسے اسپتال پہنچا کر ہی دم لیا۔ گھر پہنچتے ہی پولیس اسٹیشن سے فون آیا اور سورج کو پولیس تھانے بلایا گیا۔
اس پر روشنی کافی جھلا گئی۔ اس نے جھنجلاتے ہوئے اپنے شوہر سورج سے کہا ’’اس لیے میں نے آپ کو روکا تھا، اب کام کاج چھوڑ کر کاٹو پولیس اسٹیشن اور کورٹ کچہری کے چکر، کہیں یہ مدد کرنا تمہارے گلے کی ہڈی نہ بن جائے۔‘‘
’’کسی بھی حادثے کے وقت زخمیوں کو فوراََ اسپتال پہنچانا ہمارا فریضہ ہے، کیا پتا کسی کی زندگی بچ جائے۔ قانونی کاروائی میں اگر کچھ پریشانی ہوتی ہے تو کیا ہوا۔ انسانیت تو ہر قانون سے اعلی و افضل ہے، جب انسان ہی انسان کی مدد نہیں کرےگا تو کون کرےگا!‘‘
’’تم ہر بات میں اپنی چلاتے ہو کبھی میری بات بھی سن لیا کرو’‘
’’تم بات سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتی ہو اس لیے ہم دونوں میں اکثر بحث ہو جاتی ہے۔‘‘
چند روز بعد روشنی نے سورج سے کہا ’’بہت دن ہو گئے ہم کہیں گھومنے نہیں گئے، چلوکہیں گھومنے چلتے ہیں۔‘‘
‘’ٹھیک ہے بولوکہاں چلیں’‘
’’ایسا کرتے ہیں، اجنتا ایلورا کے غار دیکھنے چلتے ہیں’‘
سورج نے ہامی بھرتے ہوئے اپنی کار نکالی، روشنی نے ضر وری سامان ساتھ لے لیااور دونوں مشہور زمانہء غار دیکھنے نکل پڑے۔ سفر اچھا کٹ رہا تھا اور ان کی کار ہوا سے باتیں کر رہی تھیں۔ اسی دوران راستے میں ایک بکری اپنے چار بچوں کے ساتھ جا رہی تھی، اس میں سے ایک بچے کا پیر کہیں پھنس گیا اور وہ پیچھے رہ گیا، وہ چلا رہا تھا پر بکری کو اس کی خبر نہ ہوئی۔ سورج نے جب یہ منظر دیکھا تو اس نے اپنی کار روکی، اس بچے کا پھنسا ہوا پیر نکالا اور اسے آزاد کیا۔
یہ دیکھ کر روشنی بولی’’آپ کی یہ بھلائی کی عادت کسی دن بہت بڑی مصیبت میں ڈال دےگی‘‘ سورج نے جواب میں صرف مسکرایا اور کار کا اسٹیرنگ سنبھال کر گاڑی کو بیک کرنے لگا۔ اجنتا ایلورہ سے واپسی کے بعد ایک دن روشنی اپنے موبائل میں گم سڑک پار کر رہی تھی۔ سامنے سے آنے والی گاڑیوں کا اسے احساس ہی نہ ہوا اور وہ سڑک حادثے کا شکار ہو گئی۔ اس کے سر میں گہری و اندرونی چوٹیں آئیں، خون بہت بہہ گیا۔ کئی دنوں تک وہ زیر علاج رہی تب کہیں جاکر اسے ہوش آیا۔
جب وہ ہوش میں آئی تو ڈاکٹر نے اسے بتایا ’’تم بڑی خوش قسمت ہو کہ ایک انجان شخص تمھیں بروقت اسپتال لے آیا۔ اگر وہ شخص وقت پر تمھیں نہ لاتا تو آج تم موت کے منہ میں جا چکی ہوتی اور اگر تمہاری جان بچ بھی جاتی تو تم قوما میں ہوتی۔‘‘
ڈاکٹر نے روشنی کو یہ بھی بتایا کہ وہ شخص اسے اسپتال پہنچا کر چلا گیا۔ یہ سنتے ہی روشنی کو بڑا جھٹکا لگااور اسے اپنے شوہر سورج سے کی جانے والی بحثیں یاد آ گئیں۔ اس کی آنکھوں سے بےاختیار آنسو بہنے لگے۔ وہ انجان شخص کون تھا کسی کو نہیں معلوم، روشنی تقریباََ دو ماہ بستر علالت پر رہنے کے بعد گھر واپس آ گئی ہے لیکن اس کی نگاہیں اب بھی اسی انجان شخص کو ڈھونڈتی ہیں۔ اب روشنی اکثر سوچتی رہتی ہے کہ اگر اس مسیحا نے وقت پر اس کی مدد نہ کی ہوتی تو آج وہ اس دنیا میں نہ ہوتی۔ وہ اس سے مل کر ایک مرتبہ اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہے۔ اس حادثے کے بعد اس کی نظروں میں سورج کی اہمیت اب ایک دیوتا کی ہو گئی ہے جو اکثر زمین پر اتر کر مدد کے متمنی افراد کی مدد کرتا ہے۔ ***
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.