Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایش ٹرے

توصیف بریلوی

ایش ٹرے

توصیف بریلوی

MORE BYتوصیف بریلوی

    جِم (Gym) نے آخری بار ایک لمبی سانس چھوڑی اور اسٹیلا (Stella) کے برابر میں ہی ڈھیر ہو گیا۔ دونوں کافی دیر تک چھت کو دیکھتے رہے۔ سانسوں کی بازگشت دھیمی ہوئی۔ اسٹیلانے اپنا نازک ہاتھ جم کے پیٹ پر پھیرتے ہوئے کہا، ”دس سال پہلے جب ہم ٹین (Teen) تھے تب تمہارے Six Pack Abs ہوا کرتے تھے۔ تمہاری Physique بہت Attractive تھی لیکن اب تمہارا پیٹ نکل آیا ہے اور تم میں وہ Passion بھی نہیں رہا جس پر میں فدا تھی۔“ اسٹیلا کی بات سن کر جم کو غصہ آ گیا۔ اس نے اسٹیلا کا ہاتھ پکڑ کر جھٹکا اور تقریباً چلاتے ہوئے کہا، ”بات تو تمہارے اندر بھی وہ نہیں رہی ہے جو پہلے ہوا کرتی تھی۔“ کہتے ہوئے جم کمرے کا دروازہ تیزی سے کھول کر باہر نکل گیا۔

    آسمان صاف تھا۔ ڈوبتا ہوا سورج دھیرے دھیرے پگھل کر سمندر میں تحلیل ہوا جاتا تھا۔ لہریں اپنا سر چٹانوں سے پھوڑ رہی تھیں۔ دور جہاں پتھروں کا سلسلہ ختم ہوا تھا وہاں سیاح چہل قدمی کر رہے تھے۔ کوئی نہا رہا تھا تو کوئی کسی کے پیچھے ریت میں دوڑ رہا تھا۔ چٹان پر بیٹھا ہوا جم سگریٹ کے کش کھینچتے ہوئے لہروں پر نظریں مرکوز کئے ہوئے تھا۔ اسے اپنے شانے پر کچھ محسوس ہوا۔ مڑ کر دیکھا تو اسٹیلا کھڑی مسکرا رہی تھی۔ اس نے اپنی سفید بانہیں جم کے گلے میں ڈالتے ہوئے پیار سے کہا، ”جم تمہیں کیا ہوا ہے۔۔۔؟ کیوں ایسا Behave کر رہے ہو۔۔۔؟ تمہیں تو معلوم ہے کہ میں ابھی چھبیس کی بھی نہیں ہوئی اور تم ہو کہ ۔۔۔“

    ”ہم ساتھ میں جوان ہوئے۔ اسکول میں ایک ساتھ کتنے مزے کئے۔ تمہیں یاد ہے نہ وہ دن جب تم نے اپنے ڈیڈ کی جیب سے روپئے چرا کر میرے تیرہویں برتھ ڈے پر پہلی بیئر (Beer) پلائی تھی اور شام کو انکل نے تمہارے کان کھینچے تھے۔ تمہارے موم ڈیڈنے اپنے کام کی وجہ سے کئی شہروں میں رہائش اختیار کی اور اس طرح ہم جدا ہو گئے اوراب پورے دس سال بعد ملے۔ ہمیں ملے ہوئے کچھ ہی دن ہوئے ہیں۔ ابھی تو میں نے تمہیں جی بھر کے دیکھا بھی نہیں اور تمہارا مجھ سے جی بھر گیا۔۔۔کہتے ہوئے وہ روہانسی ہو گئی۔ جم ساری باتیں بے توجہی سے سن رہا تھا۔ اس کی سگریٹ کب کی ختم ہو چکی تھی۔ اس نے دوسری سگریٹ نکال کر ہونٹوں میں دبا لی۔ کیا تمہیں ان دس سال میں میری بالکل یاد نہیں آئی؟ اسٹیلا نے خاموشی توڑی۔ تم ملے تو ایسا لگا کہ سب ٹھیک ہو گیا ہے لیکن میں غلط تھی۔“

    ایک لمبی مدت کے بعد دونوں اتفاق سے ملے تھے لیکن کچھ ہی وقت تک تعلق خوشگوار رہ سکے۔ جم، اسٹیلا سے اس قدر بد دل ہوا کہ وہ اسے بے معنی لگنے لگی۔ وہ اس سے محظوظ نہیں ہو پا رہا تھا۔ پتہ نہیں اس کے دماغ میں کیا چل رہا تھا۔ حالانکہ شروع میں دونوں نے بڑی محبت سے چند دن گزار لئے۔ اب وہ صبح سویرے اپنی دوکان پر پہنچ جاتا اور دور دراز سے آئے ہوئے سیلانیوں کو کاجو کی شراب بیچتا۔ یہ سمندر کے کنارے بسی ہوئی چھوٹی سی آبادی تھی پھر بھی یہاں کی خوبصورتی اور قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے سیلانی خوب آتے تھے۔ اسٹیلا اس کے لیے لنچ بنا کر لاتی تو وہ اکیلے ہی کھانے کے لیے بیٹھ جاتا۔ جم کی بے رخی دیکھ کر اسٹیلا دل ہی دل میں کڑھتی لیکن اس سے دور نہیں جانا چاہتی تھی۔ وہ اسے بہت چاہتی تھی۔ اس کے بر عکس جم اس سے بہت کم بات کرنے لگا مگر اپنے گھر سے جانے کے لیے نہیں کہا۔ زندگی بس یوں ہی گزر رہی تھی۔ جم نے کبھی اسٹیلا کے گزشتہ احوال جاننے کی ضرورت نہیں سمجھی اور نہ ہی اپنے بارے میں زیادہ بتایا تھا۔ جبکہ اسٹیلا اپنے اوپر گزری ہر ایک واردات جم سے بانٹنا چاہتی تھی۔ صحیح وقت کے انتظار میں وہ اب تک کچھ نہیں بتا پائی تھی۔

    ایک صبح جم باتھ روم سے ٹاول لپیٹے باہر آیا تو اسٹیلا نے آگے بڑھ کر تپاک سے اسے گلے لگاتے ہوئے برتھ ڈے وش کیا۔ جم نے بھی ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس کا شکریہ ادا کیا اور اسٹیلا سے الگ ہو گیا۔ جم کو یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اسٹیلا کو اس کا برتھ ڈے ابھی بھی یاد ہے لیکن اس نے خوشی کا اظہار نہیں کیا۔ شام کو جم گھر لوٹا کیک اورRed Wine دیکھ کر اور بھی خوش ہو ا۔ وہ ماحول کو خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے کیک کاٹا گیا اور دونوں نے ایک دوسرے کو کھلایا بھی۔ اس کے بعد شراب سے شوق فرمایا گیا۔ جام سے جام ٹکرائے تو دل بچوں کی مانند ہمکنے لگے۔ ”اسٹیلا۔۔۔ تم بہت اچھی ہو۔ تمہیں میرا برتھ ڈے یاد رہا۔ میں نے اپنا آخری برتھ ڈے ڈیڈ کے ساتھ سیلی بریٹ کیا تھا۔ ان کے گزرنے کے بعد اب تک نہیں منایا بلکہ مجھے تو یاد بھی نہیں تھا۔“ جم کی زبان فرط جذبات لڑکھڑا رہی تھی۔ ان چند دنوں میں جم نے اسٹیلا کو یہی بتایا تھا کہ اس کے ماں باپ گزر چکے ہیں۔ آج اس نے بتایا کہ ”ڈیڈ کے گزر جانے کے بعد موم کسی کے ساتھ چلی گئی۔“ اتنا کہہ کر وہ بچوں کی طرح رونے لگا۔ اسٹیلا نے فوراً اسے اپنے سینے سے لگا لیااور اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے اسے تسلیاں دینے لگی۔ میں ہوں نہ۔۔۔ ہم م م م!سب ٹھیک ہو جائیگا۔ تم فکر نہ کرو میں تمہارا خیال رکھوں گی۔ جم نے خود کو اسٹیلا کی بانہوں میں ڈھیلا چھوڑ دیا۔ وہ سکون محسوس کر رہا تھا۔ اچھا چلو اب کھانا کھاتے ہیں میں نے تمہاری پسند کا Stew بنایا ہے۔ تمہیں پسند ہے نہ۔۔۔ کہتے ہوئے اسٹیلااس سے الگ ہو گئی۔

    رات آدھی گزر چکی تھی۔ بستر پردونوں اپنے ماضی کے قصے دوہرا رہے تھے۔ بیچ بیچ میں دونوں اپنے بچپن کی شرارتوں کو یاد کر کے زور سے ہنس پڑتے۔ قہقہے تھمے اور خاموشی چھانے لگی۔ کمرے کی مدھم روشنی میں دونوں سنجیدگی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ خاموشی اور بھی خاموش ہونے لگی تب جم نے اسٹیلا سے اس کے بارے میں جاننا چاہا۔ اسٹیلا تو جیسے اپنا بوجھ ہلکا کرنے کی در پہ تھی۔ اس نے بتانا شروع کیا۔۔۔موم تو بچپن میں ہی گزر گئی تھیں یہ تو تم جانتے ہی ہوکچھ سال بعد ڈیڈ کی بیماری بڑھی انھیں ایک ایک سانس مشکل ہو گئی اور وہ بھی مجھے اکیلا چھوڑ گئے۔ ایک دن میری دور کی آنٹ گھر پر آئیں۔ انھوں نے مجھے گھر بیچنے پر اکسایا اور اپنے ساتھ لے جانے کے لیے کہا۔ شروع میں تو میں نے منع کیا لیکن دھیرے دھیرے میں بھی مان گئی۔ اکیلے رہنے کے بجائے ان کے ساتھ رہنا ٹھیک سمجھ رہی تھی۔ مجھے ان کی جھوٹی شفقت کا علم تب ہوا جب میں ان کے گھر جاکر ان کے بچوں کی آیا بن کر رہ گئی تھی۔ میرے گھر کو بیچ کر جو رقم ملی تھی وہ انھوں نے ضبط کر لی۔ اب میں گھر کی رہی تھی نہ گھاٹ کی۔ ڈیڈ کی موت کے بعد ان کی شیلف سے موم کا ایک نیکلس اور برسلیٹ ملا تھا۔ جس کے بارے میں میں نے آنٹ کو کچھ نہیں بتایا۔ کاش نیکلیس اور برسلیٹ پہلے ہی مل جاتے تو شاید ڈیڈ کا علاج ٹھیک سے ہو جاتا۔ ایک دن آنٹ کے گھر سے بھاگ نکلی اور پھر۔۔۔

    اتنا کہہ کر اسٹیلا خاموش ہو گئی۔ اور پھر کیا ہوا۔۔۔؟ جم نے سنجیدگی سے پوچھا۔ اسٹیلا کی سانسیں بے ترتیب ہوئیں، آنکھیں دھندلانے لگیں اور پھر یکایک کچھ سوٹیڈ بوٹیڈ ہیولے اس کے سامنے پھرنے لگے۔ ان میں سے کسی کی بھی شکل ٹھیک سے دکھائی نہیں دے رہی تھی جس سے ان کی شناخت ہو سکے۔ وہ سب سگریٹ پی رہے تھے۔ ان کی سگریٹس (Cigarettes) سلگنے کی بجائے لپٹیں چھوڑ رہی تھیں۔ ان میں اپنی سگریٹ پہلے بجھانے کے لیے ہوڑ لگی ہوئی تھی۔ باری باری سے وہ اپنی سگریٹ کو ایک نہایت خوبصورت اور نازک ایش ٹرے میں بجھا رہے تھے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ دو سگریٹ ایک ساتھ ایش ٹرے میں ڈال کر بجھانے کی کوشش کی جاتی۔ جم نے پھر کہا۔۔۔ اسٹیلا۔۔۔! خاموش کیوں ہو بتاتی کیوں نہیں؟ جم کی آواز اب سنجیدہ نہیں رہی تھی۔ جم۔۔۔! ہم اتنے سال بعد ملے ہیں۔ میں تمہیں کوئی بات بتا کر دکھ نہیں دینا چاہتی۔ میں در بدر پھرتی رہی ہوں لیکن اب تمہارے ساتھ ہی زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔ میری زندگی کے یہ دس سال مجھ پر بہت سخت گزرے ہیں۔ اسٹیلا عاجزی سے کہے جا رہی تھی اور غیر شعوری طور پر اس کا ہاتھ جم کے چہرے پر تھا۔ جم کے چہرے کے تاثرات ایک بار پھر بدل گئے تھے لیکن کسی طرح خود کو ضبط کئے ہوئے تھا۔ اب وہ مزید کچھ سننا بھی نہیں چاہتا تھا اس لیے اس نے اسٹیلا کی طرف سے کروٹ لے لی۔ اسٹیلا بھی دم بخود پڑی رہی اس نے خاموشی میں ہی عافیت جانی۔

    جم۔۔۔! ناشتہ تو کر لو۔ مجھے کچھ نہیں چاہئے۔ مجھے تمہارے وجود سے بھی نفرت ہو رہی ہے۔ تمہیں کیا لگاتم اگر نہیں بتاؤگی تو مجھے پتہ نہیں چلے گا۔ میں سب سمجھتا ہوں۔ ضرور تم اتنے سال تک کہیں عیش کرتی رہی ہوگی۔ You are a floozy ۔۔۔ جم نے گرجتے ہوئے حقارت آمیز لہجہ استعمال کیا۔ کیا کہا تھا تم نے میرے اندر Passion باقی نہیں رہا اور تمہارے اندر۔۔۔؟ تم تو کھوکھلی ہو چکی ہو۔ تم وہ اسٹیلا نہیں ہو جو دس سال پہلے مجھ سے جدا ہوئی تھی۔ تم کسی کو خوش رکھنے کے لائق نہیں ہو بلکہ تم اب ضرورت کا سامان بھی نہیں رہی ہو۔ تمہاری مارکیٹ ویلیو ختم ہو چکی ہوگی اور اسیلئے تم اپنا جھوٹا پیار جتاتے ہوئے میرے پاس آگئیں۔ آخر اس سے پہلے تم نے مجھے کیوں نہیں ڈھونڈا۔۔۔؟ تمہاری محبت نے اتنی دیر بعد کیوں جوش مارا؟ میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ جم کی آواز پھٹ رہی تھی اور اسٹیلا کی کہیں اندر ہی دفن ہو گئی تھی۔ اس کی نیلی آنکھیں اور گلابی گال گیلے ہو رہے تھے۔ ہمت کرکے اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔ ہاں، میں حالات کا شکار ہوئی ہوں۔ میرے دل میں تمہارے لیے کتنی محبت ہے، یہ میں تمہیں نہیں سمجھا سکتی۔ میں نے کوئی کام اپنی مرضی سے نہیں کیا ہے۔ بس اتنا کہوں گی۔۔۔ تمہارے بغیر میں بہت تڑپی ہوں اور اب بھی تمہیں بہت محبت کرتی ہوں ہم پھر ملیں گے۔ اسٹیلا نے جذباتی ہوتے ہوئے کہا اور جم نے منہ پھیر لیا۔

    ٹرین پٹریوں پر دوڑی چلی جا رہی تھی۔ اسٹیلا کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی ہوئی میگزین پڑھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں پر مہنگا گاگل تو تھا لیکن گلے سے نیکلیس اور ہاتھ سے برسلیٹ غائب تھے۔ اسٹیلا کے ہاتھ سے میگزین چھوٹ کر اس کے پیروں پر آ گرا۔ میگزین کا جو ورق اوپر تھا اس کی ہیڈنگ تھی۔۔۔ Reverginity Surgery۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے