اصل مرد
میں بیرسٹر زیب النساء انجم ہوں۔ سپریم کورٹ کی ایک سینئر ترین وکیل، کالم نگار، سماجی کارکن اور سیاسی مبصّر جس کی وجۂ شہرت وکالت سے کہیں زیادہ شعلہ بیاں طرز خطابت اور ٹی وی ٹاک شوز پر نڈر سیاسی تبصرے سمجھے جاتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ مجھے اپنے ملک کی سیاسی قیادت سے شدید نفرت ہے اس لیے اخباروں میں میرا قلم، تقریروں اور ٹی وی ٹاک شوز میں میری زبان ان کے خلاف زہر اگلتے ہیں حالانکہ سچ صرف اور صرف یہ ہے کہ مجھے اپنے ملک سے شدید محبت ہے۔ اپنے ملک کا ایک ایک مسئلہ مجھے اپنی جان سے جڑا کوئی پرانا روگ لگتا ہے۔ میری ماں تحریک پاکستان کی گمنام مجاہدہ تھی اوراس جلوس کا حصہ تھی جس میں صغرٰی فاطمہ نے سول سیکریٹریٹ سے یونین جیک کا جھنڈا اتار کر مسلم لیگ کا علم لہرایا تھا۔ لوگ میرے متعلق یہ بھی کہتے ہیں کہ مجھے مردوں سے کوئی خاص پرخاش ہے تو اس میں رتی برابر بھی کوئی شبہ نہیں۔ میں نے اپنی اڑتالیس سالہ زندگی میں آج تک اصل مرد نہیں دیکھا۔ سارا بچپن میں نے اپنے لحیم شحیم باپ کو اپنی ناتواں مگر صابر ماں کی تذلیل، اس پر بےرحمانہ تشدد کرتے اور پھر اکیس برس کی طویل رفاقت کے بعد اسے بےرحمی کے ساتھ طلاق دیتے دیکھا۔ میرے بڑے بھائی کے اندر بھی میرے باپ جیسی ہی ایک فسادی، بے رحم اور ظالم روح تھی۔ سارا بچپن وہ مجھے پِیٹنے اور ذلیل کرنے کے بہانے ڈھونڈا کرتا تھا۔ اس کے باوجود میں نے ایک مرد نما شخص سے ٹُوٹ کر پیار کیا اور جب اس نے مجھے دھوکا دیا تو میں نے برسوں پہلے اپنی ذات کا در مردوں پر کچھ اس مضبوطی کے ساتھ بند کیا کہ اب مسلسل مقفل رہنے کی وجہ سے یہ تقریباً زنگ آلود ہو چکا ہے۔
آج جب جون آسمان سے آتش فشانی کا آتشیں مظاہرہ کر رہا تھا تو میں ۲۱ جون چائلڈ لیبر ڈے کی مناسبت سے منعقد ہونے والی ایک تقریب میں شرکت کے لیے نکلی تھی۔ چونکہ مہمان خصوصی تھی اور کرسئ صدارت کا حق بھی ادا کرنا تھا چنانچہ اس حوالے سے حکومتی اداروں پر بھرپور تنقید اپنی تقریر میں پرو کر مجھے اپنے فنِ خطابت اور اپنی شعلہ بیانی کا ایک اور ثبوت سب پر ثبت کرنا تھا مگر راستے میں ایک ایسا واقعہ ہوا کہ مجھے تقریب میں شرکت کیے بغیر راستے سے لوٹنا پڑ گیا۔ آج وہ ہوا جو آج تک نہیں ہوا تھا۔ میرے سِینے پر برسوں سے دھرا بھاری پتھر آج اپنی جگہ سے سرک گیا۔ آج وہ مقفل زنگ آلود دروازہ سماعتوں کو مجروح کرتی طویل چرچراہٹ کے ساتھ پھر سے کھل گیا ہے!
راستے میں گاڑی کے پہیے میں ہَواکم محسوس ہوئی تو ڈرائیور کو گاڑی راستے میں اس پنکچر شاپ پر روکنا پڑی جہاں وہ غالباً گیارہ بارہ سالہ ’’چھوٹا’‘ دُکان کے باہر پڑی پلاسٹک کی ٹوٹی اور بے رنگ کرسی پر تنہا براجمان تھا۔ ڈرائیور کے بلاتے ہی وہ لپک کر آیا، ٹائر میں پیوست کِیل دریافت کیا، کمال مہارت و سرعت کے ساتھ اس نے جیک لگایا اور اپنی عمر اور سکت سے کئی گنا بھاری ٹائر آناً فاناً میری نئے ماڈل کی کار کے بدن سے جدا کر کے دھکیلتا ہواپنی دکان میں لے گیا۔
میری نگاہیں مسلسل اس چھوٹے پر جمی ہوئی تھیں جو یکساں توجہ کے ساتھ پنکچر بھی لگا رہا تھا اور سکول چھٹی کے بعد لَوٹتے ہوئے بچوں کی ڈارکی طرف بھی دیکھ رہا تھا۔ میں نے بےاختیارچھوٹے اوران بچوں کا تقابلی جائزہ لینا شروع کیا تو اتنا واضح فرق دیکھ کر دل میں ایسا کڑوا دھواں بھرا کہ آنکھوں میں اس کی چبھن گیلی دستک دینے لگی۔ سڑک پر لوٹتے بچوں کے سروں پر ماؤں اور بہنوں کے محبت بھرے ہاتھوں سے کی ہوئی نفیس کنگھیاں بول رہی تھیں جبکہ چھوٹے کے بے ترتیب بال بےوقت برسات کے بعد کسی کسان کی اجڑی ہوئی فصل کی مانند تھے۔ سکول سے لَوٹتے بچوں کے تن پر پہنے صاف ستھرے استری شدہ یونیفارم تھے جن پر نفاست سے کی گئی استری اور محنت سے بنی ایک ایک کریز بولتی تھی جبکہ چھوٹے نے اپنا تن پسینے، گریس اور مٹی کے بےرنگ لباس سے بمشکل ڈھانپ رکھا تھا۔ سکول سے لَوٹتے بچوں کے چہروں سے صرف بے فکری، آسودگی اور گھر پہنچنے کی جلدی جھلکتی تھی جبکہ چھوٹے کے میلے کچیلے چہرے کے پیچھے صرف حسرت اور گمشدہ معصومیت و بچپن جھانکتے تھے۔ سکول سے لَوٹتے بچوں کے ہاتھوں میں سکول کے بستے تھے جبکہ چھوٹے کے ہاتھوں میں پلک پانہ اور پلاس تھے۔ سکول سے لوٹتے بچوں کو دیکھ کر اس کے چہرے پر پھیلی پراشتیاق مسکراہٹ کے پیچھے گویا ایک کرخت چیخ تھی جسے محسوس کرکے مجھے یوں لگا جیسے کوئی بھرے مجمع میں مجھے بےلباس گھما رہا ہو۔ میرے ملک کا مستقبل، ایک خوبصورت مگربے حال بچہ میرے عین سامنے اپنا بچپن انتہائی سستے داموں بیچ رہا تھا۔ اپنی روئی جیسے ہاتھوں میں وہ کالک لیے کھڑا تھا جو اس ملک کے حالات نے اسے ورثے میں اور ہماری قیادت نے اسے انعام میں دئیے تھے، جسے خواب خرگوش میں ڈُوبی ملکی قیادت، بری قسمت، ظالم زمانے اور گھر کے نامساعد حالات نے ملک کی کل آبادی کے ان سوا دو کروڑ چھوٹوں کی فہرست میں شامل کر دیا تھا جو چار سے چودہ سال کی عمروں میں اپنے روئی اور مخمل جیسے ہاتھوں کی ملائمت اپنی عمر سے کئی گنا سخت کام کر کے کھو دیتے ہیں۔ چائلڈ لیبرپر سخت قوانین ہونے کے باوجود ہمارے ملک کی فیکٹریوں اور دکانوں کو چلاتے ہیں، ننھے ننھے ہاتھوں سے قالین بنتے اور مٹی کے برتن بناتے ہیں، سڑکوں پر کچا ناریل، چائے، بھٹے،غبارے،کھانے کی مختلف اشیاء بیچتے ہیں، سڑکوں پر ٹریفک کا اشارہ سرخ ہوتے ہی مستعدی کے ساتھ لوگوں کی گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے ہیں، گندگی کے غلیظ ڈھیروں سے ٹین اور شیشے کی چیزیں اکٹھے کر کے بیچتے ہیں۔ وہ دوسرے بچوں کو حسرت بھری پُراشتیاق سکول جاتا تو دیکھ سکتے ہیں مگر کسی سے یہ سوال بھی نہیں کر سکتے کہ آخر وہ کن وجوہات کی بنا پر اس ڈار کا حصہ نہیں بن سکتے!
’’ادھر آؤ!’‘ جونہی وہ چھوٹا پنکچر لگا کر فارغ ہوا میں نے اپنی آج کی چائلڈ لیبر ڈے تقریر میں تازہ اور طاقتور مواد ڈالنے کی غرض سے چھوٹے کے اندر اترنے کا سفر شروع کیا۔ میرے بلانے پر وہ یوں ڈرے ڈرے انداز میں پاس آیا جیسے اس سے کوئی فاش غلطی ہو گئی ہو!
’’تمہارا کیا نام ہے؟‘‘
’’وسیم جی!’‘
’’ادھر سکول سے لَوٹتے بچوں کی طرف بار بار کیوں دیکھ رہے تھے؟‘‘
’’وہ جی مجھے اچھا لگتا ہے۔ مجھے بھی سکول جانے کا بہت شوق ہے۔ دوسری کلاس تک سکول پڑھا ہوں جی۔ دونوں سال فرسٹ آیا تھا۔ مگر اب دو سال ہوئے سکول چھوڑ دیا ہے!‘‘
’’اوہو۔ وہ کیوں؟‘‘
’’امی کو دوسروں کے گھر کام کرنا پڑتا تھا۔ جہاں کام کرتی تھی وہ میری امی کو جھڑکیاں دیتے تھے جی۔ چھوٹی بہن سے بھی کام کراتے تھے!‘‘
’’اس سے کیا ہوتا ہے۔ کام لینے والے سب لوگ ایسا ہی کرتے ہیں!‘‘
’’مگر مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا تھا جی کہ میری امی کسی کے گھر کام کریں یا کوئی ان سے اونچی آواز میں بات بھی کرے!‘‘
’’تو اب تمہارے اکیلے کی تنخواہ سے گذارہ ہو جاتا ہے؟‘‘
’’اللہ مالک ہے جی۔ کسی کی محتاجی تو نہیں ہے۔ پیسے جمع کر رہا ہوں۔ اگلے مہینے امی کو سلائی مشین لے کر دوں گا۔ میری امی کی سلائی بہت اچھی ہے۔ اب تو چھوٹی بہن کو بھی پھر سے سکول ڈال دیا ہے۔ مجھے بڑا شوق تھا کہ وہ پڑھے۔ بڑی قابل ہے جی۔ بس وہ پڑھ جائے۔ میری خیر ہے!‘‘
’’اور تم؟۔ تم اسی طرح کام کرتے رہوگے؟‘‘
’’نہیں جی۔ تھوڑے حالات ٹھیک ہو جائیں۔ پھر میں کام کے ساتھ ساتھ پڑھنا بھی شروع کروں گا!‘‘
’’چھوٹے سے ہو۔ اتنا سخت کام کیسے کر لیتے ہو؟‘‘
’’میں چھوٹا لگتا ہوں جی۔ مگر ہوں نہیں۔ اپنے گھر کا بڑا ہوں۔ اپنی امی اور چھوٹی بہن کے لیے میں کچھ بھی کر سکتا ہوں جی!‘‘
’’گیارہ بارہ برس کے ہوگے۔ تم بڑے کیسے ہو؟‘‘
’’باپ سر پر نہ ہوتو سب سے چھوٹا بھی بڑا ہی ہوتا ہے۔ گھر کا مرد جو ہوتا ہے ۔ اپنی ماں بہن کی ذمہ داری تو پھر اسی کی ہوتی ہے ناں جی؟‘‘
’’واہ بہت بڑی بڑی باتیں کرتے ہو تم۔ کہاں سے سیکھی ہیں تم نے ایسی باتیں؟‘‘
’’وہ ساتھ والی دکان سے پرانے اخبار اور رسالے لے آتا ہوں جی۔ جب استاد اور کام نہ ہو تو پڑھتا رہتا ہوں۔ اور باقی سب کچھ وقت، زمانہ اور استاد کی مارخود بخود سکھا دیتے ہیں جی!‘‘
’’ارے واہ۔ تم تو واقعی اپنی عمر سے کئی برس آگے ہو۔ دیکھو وسیم۔ میری بات مانو، یہ کام چھوڑ دو۔ اس ملک کو تمہارے جیسے ذہین اور محنتی بچوں کی ضرورت ہے۔ میں تمہارے گھر کا خرچہ اٹھاؤں گی۔ تم دونوں بہن بھائی کی تعلیم کا خرچ بھی برداشت کروں گی۔ تمہاری عمر کام کرنے کی نہیں۔ تمہیں اس دکان میں نہیں سکول میں ہونا چاہیے!‘‘
’’بہت مہربانی بیگم صاحبہ۔ ابھی تو آپ نے کہا کہ میں اپنی عمر سے کئی برس آگے ہوں۔ میں اپنے گھر کا مرد ہوں جی۔ اور ہاتھ پھیلانا، کسی کا احسان لینا مردانگی تو نہیں ہوتی ناں جی۔ خود محنت کرکے اپنا مقام بناؤں گا اور ایک دن بڑا آدمی ضرور بنوں گا۔ میرا استاد مجھے سکول جاتے ہوئے بچوں کی طرف دیکھتے ہوئے پکڑ لے لے تو بڑا مارتا ہے جی۔ مجھے کہتا ہے ادھر نہ دیکھا کر۔ بچہ اپنی عمر میں سکول نہ جائے یا سکول سے نکل جائے تو وہ دوبارہ وہاں فٹ نہیں ہوتا۔۔۔ آپ نے میرے بارے میں سوچا آپ کی بہت مہربانی جی۔ اب چلتا ہوں۔ استاد آنے والا ہے۔ مجھے گاہک سے باتیں کرتا دیکھے گا تو بہت مارےگا!‘‘
وسیم نے سیلوٹ کرنے کے انداز میں ماتھے پر ہاتھ رکھا اور اپنی دکان میں سر جھکائے واپس چلا گیا مگر میں کتنی ہی دیر وہیں ساکت کھڑی اسے دیکھتی رہی۔ اپنی اڑتالیس سالہ زندگی میں آج پہلی بار میں نے اصل مرد دیکھا تھا!!!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.