Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اسپ کشت مات (۱)

قمر احسن

اسپ کشت مات (۱)

قمر احسن

MORE BYقمر احسن

    آفس سے آکر اس نے ادھ میلی کیتلی میں پانی، شکر، دودھ اور چائے کی پتی سب ایک ساتھ ملاکر اسٹو پر رکھ دیا اور کپڑے تبدیل کر کے ملگجے بستر پر لیٹ رہا۔

    فائل نمبر ۷۹؍۱۰؍۳ کا ریمائنڈر، فسادات کی رپورٹ کا پروفارما، نیلم کے خط کا جواب اور ابا کو خط، ایمی بیاسس، شاید چائے اور سگریٹ پھر بڑھ گئی ہے۔

    دوسری پیالی ختم کر کے اس نے سگریٹ جلا لی۔ سگریٹ ختم ہوتے ہی پھر متلی آنے لگی اور سارا جسم پسینے میں بھیگنے لگا۔ جیسے پیٹ میں بھرا سارا مادہ ابھرنے لگا ہو۔ پھر آنتوں سے سینے تک بہت تیز جلن محسوس ہوئی۔ لیٹتے ہی محسوس ہوا۔ جیسے ناف سے کچھ اٹھ کر حلق تک آ رہا ہو اور آنتوں میں کچھ پک رہا ہو۔ جب امتلائی کیفیت بہت بڑھ گئی اور دماغ دھواں دھواں سا ہو گیا تو اس نے سر سے پیر تک کمبل کھینچ لیا اور پسینے میں شرابور ہونے لگا۔

    رات میں اس کی آنکھ کھلی تو چند ثانیے وہ فیصلہ ہی نہ کر سکا کہ وہ کہاں ہے۔ پھر احساس ہوا کہ وہ اپنے بستر پر لیٹا ہے اور امتلائی کیفیت بالکل ختم ہو چکی ہے۔ سر بھاری ہو رہا ہے۔ آنتیں بھوک سے کھرچ رہی ہیں اور پورے جسم میں پسینے کی چپچپاہٹ ہے۔

    گھڑی دیکھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ ساری دوکانیں اور ہوٹل بند ہو چکے ہوں گے۔ اس نے گلاس کی طرف دیکھا۔ دودھ ختم ہو چکا تھا۔

    کچھ دیر وہ اس حالت میں پڑا رہا، پھر اٹھا۔ کیتلی میں پانی، چائے کی پتی اور شکر ڈال کر اسٹو پر چڑھا دیا۔ بھوک اور تیز ہوگئی تھی۔ پیٹ کے داہنے حصے میں جلن اب بھی باقی تھی۔چائے پی کر محسوس ہوا جیسے آنتوں میں کچھ چل رہا ہو یاجیسے کوئی چوہیا دھیرے دھیرے آنتوں کو کتر رہی ہو۔ اس کیفیت میں وہ پھر سو گیا۔

    صبح منھ اور زبان کساؤ اور کڑوے دائقے سے بھرے ہوئے تھے۔ پیٹ میں کوئی چیز ادھر ادھر دوڑتے اور چلتے محسوس ہو رہی تھی۔ جلن داہنے حصے سے پھیل کر پورے پیٹ میں بھر گئی تھی اور فمِ معدہ پر یوں لگتا تھا جیسے کوئی جلتا ہوا روپے کا سکہ چپکا دیا گیا ہو۔ جس کا کھنچاؤ اور چبھن دونوں پھیپھڑوں کو جکڑے لے رہی ہو۔ جب سانس لینے میں زیادہ دشواری ہونے لگی تو وہ گھبراکر اٹھ بیٹھا۔ تکیہ کے نیچے سے دوا نکال کر کچھ دوائیں منھ میں ڈالیں اور بغیر پانی کے نگل گیا۔

    کھانے کے تصور ہی سے جلن اور بڑھ گئی۔ اس نے سوچا کہ یہ فساد خلوئے معدہ کا بھی ہو سکتا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا پاس کے ہوٹل تک گیا اور جلدی جلدی کھانا نگلنے لگا۔ اس ہوٹل سے شدید گھن کے باوجود وہ یہیں کھانا کھانے پر مجبور تھا جب کہ ڈاکٹروں نے ہمیشہ کھانے میں احتیاط بتائی تھی۔ وہی چاول اور ابلا ہوا پانی۔

    کھانے کے دوران ہی اسے یاد آیا کہ آفس جانے سے پہلے ڈسپنسری جاکر دوا لینا ہے اور اسٹول رپورٹ لے کر ڈاکٹر کو دینا ہے۔ میٹروجل اور میکسافارم کی ٹکیوں کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ احتیاط اور پرہیز ان حالات میں ممکن ہی نہ تھے۔

    جب ساری رپورٹیں لے کر وہ ڈاکٹر کے پاس پہنچا تو اس نے پھر اپنی بات دوہرائی۔ ایمی بیاسس، شدید ایمی بیاسس۔ مسٹر اگر آپ نے اب بھی احتیاط نہ برتی تو مرض ناقابل علاج ہو جائےگا۔

    ’’ڈاکٹر صاحب! مجھے ایمی بیاسس نہیں ہے۔ میرے پیٹ میں کوئی چیز میرا مطلب ہے کوئی جانور، کوئی کیڑا یا کوئی رسولی یا پھر کینسر یا۔۔۔ یا کچھ اور پیدا ہو رہا ہے۔ میری حالت بہت خراب ہو رہی ہے۔ میں اب ایک دو قدم چلنے میں بھی دقت محسوس کرتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے جیسے میرے پیٹ میں کوئی جاندار چیز ہے جو دھیرے دھیرے میری آنتوں کو، میرے پھیپھڑوں اور سینے کو کتر رہی ہے۔‘‘

    ’’جی نہیں۔ آپ کو ایمی بیاسس ہے۔ بہت سخت ایمی بیاسس جس کی وجہ سے ااپ کو نیوراسس بھی ہو گیا ہے۔ اپنے اعصاب کو پرسکون رکھئے اور آرام کیجئے۔ چائے، سگریٹ، مرچ، مصالح اور چکنائی بالکل ختم۔ پانی بھی اگر ہو سکے تو ابلا ہوا پیجئے۔‘‘

    ڈسپنسری سے واپسی میں اس کے دماغ میں پھر فائل نمبر ۷۹؍۱۰؍۳ کا ریمائنڈر، فسادات کی رپورٹ کا پروفارما، نیلم کے خط کا جواب ناچنے لگا۔ اس کا دل چاہا کہ یہیں سڑک پر چیخ چیخ کر رونے لگے اور کپڑے اتار کے چیختا ہوا بھاگ کھڑا ہو۔

    ایمی بیاسس، ایمی بیاسس۔ سارے ڈاکٹر جاہل ہیں۔ کسی کی سمجھ میں میرا مرض نہیں آ سکا۔ میرے پیٹ میں کینسر ہے۔ وہ مجھے بہلا رہے ہیں۔ شاید کوئی جان دار شئے پرورش پا رہی ہے۔ جلن پورے جسم میں پھیلتی جا رہی ہے۔

    اگر کینسر ہوا تو۔۔۔؟ آفس جاتے جاتے وہ پھر پلٹ پڑا۔

    وہ سہ پہر کو نہایت خستہ سا اپنے کمرے میں پہنچا۔ کیتلی میں پانی، چائے کی پتی اور شکر ڈال کر اسٹو پر چڑھاکر بستر پر لیٹ رہا۔

    ظہیر کہنہ، پرانی پیچش، اسپغول مسلم۔ وہ دھیرے دھیرے روپڑا اور روتے ہی روتے سو گیا۔

    کسی کے بار بار دروازہ کھٹ کھٹانے پر آنکھ کھلی تو گھبراکر اٹھ بیٹھا۔ اسٹو کی طرف نظر گئی۔ چائے ابل ابل کر پھیل گئی تھی اور اسٹو بجھ چکا تھا۔ کسی نے پھر دروازہ کھٹ کھٹایا تو وہ لپک کر دروازہ پر پہنچا۔ مالک مکان نے دو تین خط دیتے ہوئے بتایا کہ آفس سے کوئی ملنے آیا تھا اور یہ خط دے گیا تھا۔

    اس نے لفافے الٹ پلٹ کر دیکھے۔ تینوں مختلف تاریخوں میں گھر سے آئے تھے۔ ابا نے لکھا تھا۔۔۔ ’’برخوردار سلمہ تم نے پچھلے خط میں لکھا تھا کہ خدانخواستہ تمہارے پیٹ میں کوئی تکلیف ہے۔ اس کے بعد سے تمہارا اب تک کوئی خط نہیں آیا ہے، جس سے طبیعت پریشان ہے۔ تمہاری والدہ بہت متفکر ہیں فوراً خیریت کی اطلاع دو۔‘‘ اس نے بے دلی سے تمام خط رکھ دئے اور اسٹو جلاکر ٹھنڈی چائے پھر سے گرم کرنے لگا۔

    تھوڑی دیر بعد مالک مکان نے اسے بلایا۔

    ’’بھائی آپ کی طبیعت تو دن بدن گرتی جا رہی ہے۔ چلئے ڈاکٹر گھوشال کے یہاں چلیں۔‘‘

    ’’اچھا میں بس دو منٹ میں تیار ہو جاتا ہوں،‘‘ اس نے جلدی سے کہا۔ لیکن تمام راستہ وہ غصہ اور جبر کی وجہ سے خاموش رہا۔ کلینک پہنچ کر بھی اس کا دل چاہا کہ چیختا ہوا بھاگ جائے۔ جیسے جیسے دیر ہوتی گئی ویسے ویسے اس کا دماغ کھولتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد ا سنے دبے لیکن سخت لہجے میں مالک مکان سے کہا، ’’میرا خیال ہے چلیں۔ پھر کسی دن آکر دکھا دیں گے۔‘‘

    ’’جب آ گئے ہیں تو دکھا ہی لیجئے۔‘‘

    ’’میرے خیال میں کوئی فائدہ نہیں،‘‘ اس نے جھلائے ہوئے لہجہ میں کہا اور ٹہلنے لگا۔ اسی وقت اتفاق سے ڈاکٹر نے انہیں طلب بھی کر لیا۔

    مالک مکان نے بتایا، ’’ڈاکٹر صاحب! تقریباً چھ ماہ سے ان کے پیٹ کا علاج ہو رہا ہے لیکن ابھی تک کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ دن بہ دن ان کی حالت خراب ہوتی جا رہی ہے۔‘‘

    ’’کیا تکلیف ہے آپ کو؟‘‘ ڈاکٹر اس سے مخاطب ہوا تو اس نے جھلاہٹ پر تیزی سے قابو پاکر بہت سپاٹ انداز میں بتانا شروع کیا۔

    ’’ڈاکٹر صاحب! سارے پیٹ میں شدید جلن ہوتی ہے۔ کبھی داہنے حصہ میں کبھی بائیں حصہ میں، کوئی گوشت کا لوتھڑا سا چلتا پھرتا محسوس ہوتا ہے۔ اس کے بعد پیٹ میں مروڑ شروع ہو جاتا ہے۔ بھوک قطعاً ختم ہو چکی ہے۔ کھانے کے تصور ہی سے متلی آنے لگتی ہے۔ دو قدم بھی چلنا دشوار ہو گیا ہے۔ سارا جسم پھوڑے کی طرح دکھتا رہتا ہے اور پیٹ۔۔۔‘‘

    ڈاکٹر اس کی باتوں کی طرف سے توجہ ہٹاکر نسخہ لکھنے لگا تو یہ خاموش ہوگیا۔ جھلا ہٹ پھر واپس آنے لگی۔

    ’’یہ دوائیں لے لیجئے، بیس دن کا کورس ہے اور ایکسرے کرا لیجئے۔ پھر ایک ہفتہ بعد مجھ سے ملئے۔‘‘ ڈاکٹر نے نسخہ مالک مکان کی طرف بڑھایا تو یہ پھٹ پڑا۔

    ’’ڈاکٹر صاحب! دواؤں کی کوئی ضرورت نہیں، چھ ماہ میں یہ ساری دوائیں میں استعمال کر چکا ہوں۔ تمام ٹسٹ بھی ہو چکے ہیں۔ میوکس بھی ہے۔ CYST بھی ہے۔ آنتوں میں خراش بھی پڑ چکی ہے۔ اب میں علاج کراتے کراتے عاجز آ چکا ہوں۔‘‘

    مالک مکان نے لپک کر اسے خاموش کرنا چاہا۔ لیکن وہ دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔ واپسی میں دونوں قطعی خاموش رہے۔

    رات کو کھانا کھاکر آیا تو جلن بہت بڑھ گئی۔ لگاتار کئی گلاس پانی پینے کے بعد اسے محسوس ہوا جیسے کوئی چیز، کوئی جاندار چیز اس کی آنتوں میں تیر رہی ہے اور پیٹ کے کناروں میں کانٹے سے چبھ رہے ہیں۔ جلتا ہوا سکہ فمِ معدہ پر پھر چمک رہا ہے۔ اس نے لفافہ اٹھایا کہ گھر خیریت کا خط لکھ دے، پھر رکھ دیا اور بجلی بجھاکر لیٹ گیا۔

    لیتے ہی اسے محسوس ہوا جیسے پھر کوئی چیز باقاعدہ سارے پیٹ میں دوڑنے لگی ہے۔ اس نے گھبراکر بجلی جلائی۔ سارے کپڑے اتارکر کمرہ میں ٹہلنے اور پیٹ اور سینہ سہلانے لگا۔ پھر آئینہ کے سامنے جاکھڑا ہوا اور پیٹ پر دباؤ ڈال ڈال کر آئینہ میں دیکھنے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پھر بہت تیز مروڑ اٹھی۔ وہ اسی طرح باتھ روم میں گھس پڑا۔ وہاں سے نکلا تو سارا چہرہ اور جسم پسینہ میں بھیگا ہوا تھا۔ سانس پھول رہی تھی۔ اس نے نیند کی گولیاں نگلیں اور بجلی بجھاکر بستر پر گر پڑا۔

    کل کسی آیورویدک کو دکھلاؤں، یا وہی حکیم صاحب والا نسخہ استعمال کروں۔ پیٹ کی جلن بہت بڑھتی جا رہی ہے۔ اگر کینسر ہوا تو بہت پیسے خرچ ہوں گے۔

    رات میں اچانک گھبراکر وہ بستر سے اٹھ بیٹھا۔ کچھ دیر بیٹھا رہا۔ پھر کئی گلاس پانی پی کر نیند کی ایک گولی اور لے کر سوگیا۔ صبح آنکھ کھلی تو خاموشی سے کمرہ کی دیواروں کو دیکھتا رہا۔ پھر آئینہ کے سامنے جاکھڑا ہوا اور غور سے اپنے چہرے کو تکتا رہا۔ قمیص کادامن اٹھاکر گھور گھور کر پیٹ کو دیکھتا اور کچھ ٹٹولتا رہا۔

    تھوڑی دیر بعد اس نے مالک مکان کو بتایا۔ رات ایک بڑا عجیب سا خواب دیکھا۔ جیسے ایک بنسواڑی کا جنگل ہے۔ عجیب گول مٹول سا۔ اس میں ایک گھوڑا چاروں طرف دوڑ رہا ہے۔ جہاں کہیں گھنا کانٹوں دار جنگل ا ٓتا ہے وہاں وہ گھوڑا ایک چوہا بن جاتا ہے اور کانٹے دار جھاڑیوں میں اچکتا کودتا بھاگتا رہتا ہے وہاں سے نکلتے ہی پھر گھوڑا بن جاتا ہے۔

    دوڑے دوڑتے اس کے جسم سے پسینہ ٹپکنے لگتا ہے۔ جہاں جہاں وہ پسینہ گرتا ہے وہاں وہاں آبلہ بن جاتا ہے۔ پھر وہ آبلہ پھوڑا بن کر رسنے لگتا ہے۔ پھر اس کے منھ سے سفید پھین نکل کر زمین پر گرتا ہے۔ وہاں سے ایک چوہا پیدا ہوکر دوڑنے لگتا ہے اور سارا جنگل چوہوں اور آبلوں سے بھر جاتا ہے۔

    ’’ارے یہ سب فاسد خیالات ہیں، کوئی خواب نہیں،‘‘ مالک مکان نے کہا۔

    وہ واپس آکر پھر آئینہ کے سامنے کھڑا ہو گیا اور گھور گھور کر پیٹ دیکھنے لگا۔

    کچھ دیر بعد کپڑے تبدیل کر کے وہ آفس کے لئے چل دیا لیکن جیسے جیسے آفس نزدیک آتا گیا۔ اس کا دل دھڑکنے لگا۔ ایک نامعلوم سا خوف اسے جکڑنے لگا۔ آفس کی عمارت سامنے آتے ہی اسے بڑی تیز مروڑ ہونے لگی۔ سارا جسم پسینے میں بھیگنے لگا۔ اس نے عمارت کی طرف دیکھا اور رکشہ والے کو شہر کے مشہور وید کا پتہ بتاکر واپس ہو لیا۔

    ’’میں تقریباً چھ مہینہ سے اپنے پیٹ کا علاج کرا رہا ہوں، لیکن ابھی تک کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ مجھے لگتا ہے جیسے میرے پیٹ میں کوئی جاندار چیز ہر وقت آنتوں کو کھرچا کرتی ہے، نوچا کرتی ہے۔ آج صبح مجھے لگا کہ میرا پیٹ پھولتا جا رہا ہے اور جلن بہت بڑھ گئی ہے۔‘‘

    معائنہ کے بعد وید جی کچھ دیر تک نسخہ لکھتے رہے۔ پھر بولے، ’’آپ کے پیٹ میں کیچوے ہیں اور بہت دنوں سے ہیں۔ اب تک سارا علاج غلط ہوا ہے۔ اس طرح سے وہ بجائے ختم ہونے کے بہت بڑھ گئے ہیں، طاقتور ہو گئے ہیں۔ آپ کم سے کم سات دن تک یہ دوائیں استعمال کیجئے پھر دکھائیے۔ یہ تو اچھا ہوا کہ آپ جلدی ہی آ گئے ورنہ آپ کا جگر کسی کام کا نہ رہتا۔‘‘

    ’’کیچوے!‘‘ اس کا دماغ سنسناتا رہا۔ ’’وید جی! کیا پیٹ میں کیچوے چلتے گھومتے بھی ہیں۔ آنتوں کو نوچا بھی کرتے ہیں؟‘‘

    ’’جی ہاں! جب پیٹ خالی ہوتا ہے تو وہ آنتو ں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہ دوائیں لینے کے بعد آپ دیکھئے کہ کیچوے گرتے ہیں یا نہیں؟ سات دن میں سب نکل جائیں گے پھر بھی آپ کو ایک مہینہ تک علاج کرانا ہوگا۔ طاقت کے لئے۔‘‘

    وہاں سے نکلا تو ذہن صرف کیچوے میں الجھا ہوا تھا۔ دوائیں لے کر وہ سیدھا مالک مکان کے پاس پہنچا، ’’لیجئے صاحب! اب جاکر بات صاف ہوئی۔ میرے پیٹ میں کیچوے ہیں۔ سارا فساد ان کیچوؤں کا تھا۔‘‘

    ’’اچھا؟‘‘

    ’’جی ہاں۔ وید جی نے یہی بتایا ہے سات دن کے لئے دوائیں دی ہیں کہ ان سے نکل جائیں گے۔ میں اب آفس سے ایک ہفتہ کی چھٹی لے رہا ہوں، ذرا جم کر علاج کروں گا۔‘‘

    رات میں بستر پر لیٹتے ہی اسے پھر نیند کی گولیاں کھاتے ہی نیند آنے لگی تو سرور کے عالم میں ایک فلمی گانا گنگناتا وہ سو گیا۔ علی الصباح ہی اچانک وہ گھبراکر اٹھ بیٹھا اور گھور گھورکر سارے کمرے کو تاکنے لگا۔ پھر آئینہ کے سامنے جاکر قمیص کا دامن اٹھاکر اپنے پیٹ کو دیکھنے اور سہلانے لگا۔ پھر سے سونے کی کوشش کی لیکن نیند نہ آئی۔ صبح ہوتے ہی مالک مکان کے پاس گھبرایا ہوا پہنچا۔

    ’’جی آج پھر وہی خواب نظر آیا۔ رات پھر وہی بالکل وہی گھوڑا تڑاح تڑاخ جنگل اور پہاڑی میں دوڑ رہا تھا۔ جہاں جھاڑیاں سخت ہوتیں وہاں وہ چوہا بن جاتا تھا۔ جہاں دلدل یا کیچڑ آتی تھی وہاں وہ کیچوہ بن کر رینگ کر باہر نکل ا ٓتا تھا۔‘‘

    ’’صبح کوئی کیچوہ نکلا؟‘‘ مالک مکان نے تشویش سے پوچھا۔

    ’’جی نہیں مجھے لگتا ہے کہ پیٹ کا ورم بھی بڑھ گیا ہے۔ امتلائی کیفیت بھی بڑھتی جا رہی ہے اور جلن بھی زیادہ ہے۔ کہیں واقعی کچھ اور تو نہیں ہے؟‘‘

    ’’آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ وید جی کی دوائیں کھا لیجئے تب دیکھئے۔ آج میں بھی ایک ہفتہ کے لئے باہر جا رہا ہوں۔‘‘

    اس نے خاموشی سے گردن ہلا دی۔ کمرہ میں واپس آکر کیتلی میں چائے کی پتی، شکر، دودھ اور پانی ایک ساتھ ڈال کر اسٹو پر چڑھا دیا۔

    ایک ہفتہ بعد جب مالک مکان لوٹ کر آئے تو سیدھے اس کے پاس آئے۔ ’’کہئے کیا حال ہے؟ وید جی کی دوا سے کچھ فائدہ ہوا ہے؟‘‘

    اس نے ان کی طرف دیکھا۔ ایک ٹک بغیر کچھ بولے انہیں دیکھتے رہا۔ پھر پیٹ کو چادر سے ڈھانک کر اٹھ کھڑا ہوا۔

    ’’سات دن میرے پیٹ سے ایک کیچوا بھی نہیں گرا۔ میرا پیٹ پھولتا جا رہا ہے اس میں ایک گھوڑا ہے۔ کبھی وہ کیچوا بن کر رینگنے لگتا ہے۔ کبھی چوہا بن کر پھدکتا ہے اور کبھی جب میں سوجاتا ہوں تو گھوڑا بن کر دوڑنے لگتا ہے،‘‘ پھر وہ کھلکھلاکر عجیب سی ہنسی ہنسنے لگا۔

    ’’گھوڑا؟‘‘ مالک مکان گھبراکر اس کے ساتھ ہنسنے لگے۔ ’’یہ کیسے ممکن ہے؟ آدمی کے پیٹ میں گھورا؟‘‘

    وہ چیخ پڑا۔ ’’ہاں میرے پیٹ میں گھوڑا ہے۔ جو میری آنتوں کو کھارہا ہے اور میرا پیٹ پھولتا جا رہا ہے۔‘‘

    جب وہ آفس پہنچا تو سب نے اسے گھیر لیا۔ ہر شخص نے اس کی اندر دھنسی ہوئی آنکھوں، چہرے کی خشکی اور مردنی کی طرف اشارہ کیا۔ اس نے طبیعت کی خرابی بتاکر مطمئن کرنے کی کوشش کی اور اپنے کمرہ میں گھس گیا۔ دوپہر میں اس نے ایک ساتھی کو بلایا اور اس کے سامنے قمیص اٹھاکر کھڑا ہو گیا۔

    ’’میرا پیٹ تمہیں کچھ پھولا ہوا تو نہیں لگتا؟‘‘

    دوست نے غور سے پیٹ کو دیکھا پھر اس کےچہرے کی طرف دیکھا اور نفی میں گردن ہلاکر کہا، ’’آخر بات کیا ہے؟‘‘ اس نے قمیص گراکر اپنے دوست کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ’’میرے پیٹ میں ایک گھوڑا پرورش پا رہا ہے۔ جو پورے پیٹ میں دوڑتا ہے جب معدہ خالی ہوتا ہے تو وہ آنتوں کو چبانے لگتا ہے۔‘‘

    ’’گھوڑا!‘‘دوست نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔

    ’’ہاں تم نہیں سمجھ سکتے۔ کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ میں بھی کسی کو نہیں بتانا چاہتا، دراصل میرے پیٹ میں گھوڑا ہی ہے جو کبھی چوہا بن جاتا ہے، کبھی کیچوہ۔ پھر گھوڑا بن کر تڑاخ تڑاخ سارے پیٹ میں دوڑتا ہے، فوفو کی آواز نکالتا ہے، ہنہناتا ہے۔ اس کے منھ سے سفید سفید پھین نکل نکل کر ٹپکتا ہے جس سے۔۔۔‘‘

    دوست نے گھبرا کر اس کی طرف دیکھا، ’’تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے چلو میں کسی ڈاکٹر کے پاس لے چلتا ہوں۔‘‘

    ’’تم نہیں سمجھ سکتے۔ کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ اسی لیے تو میں کسی سے کچھ کہتا نہیں۔ تم نے غور سے نہیں دیکھا۔ میرا پیٹ بڑھتا جا رہا ہے۔اب کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ شہر کے تمام ڈاکٹروں کو دکھا چکا ہوں۔ ہر طرح کا علاج کر چکا ہوں۔ کوئی بھی صحیح طور سے نہیں سمجھ سکا کہ میرے پیٹ میں گھوڑا ہے۔ اب تو مجھے اٹھنے بیٹھنے میں بھی دقت ہوتی ہے۔ مجھے اور بھی احتیاط کرنا ہوگی۔‘‘ وہ کرسی پر بیٹھ کر کنپٹیوں سے پسینہ خشک کرنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر بعد آفس سے اٹھ کر چل دیا۔

    کمرہ پہنچنے سے پہلے اس نے بازار سے کئی طرح کے تازہ پھل اور خشک میوے خریدے اور کمرہ میں آکر لیٹ رہا۔

    شام کو مالک مکان نے دروازہ کھٹ کھٹایا تو وہ بڑی آہستگی سے اٹھا اور دروازہ کھول کھر پھر آکر لیٹ رہا۔

    ’’یہ اچھا کیا کہ پھل لے آئے، آپ کے لئے پھل بہت ضروری تھے۔‘‘

    ’’جی ہاں، میں بھی سوچتا ہوں کہ اب مجھے بہت احتیاط برتنی پڑےگی۔ اپنے لیے نہ سہی اس گھوڑے کے لئے ہی مجھے پھل وغیرہ استعمال کرنا پڑےگا۔ آپ دودھ والے سے کہہ دیجئےگا کہ صبح سے ایک کیلو کر دے۔ میرا خیال ہے کہ اب مجھے وزن وغیرہ اٹھانے اور دوڑنے یا تیز چلنے سے بھی پرہیز کرنا چاہئے۔‘‘

    ’’جی میں نہیں سمجھا۔‘‘

    ’’کیا آپ کو پتہ ہے کہ گھوڑا کب پیدا ہوتا ہے۔ یعنی کتنے مہینے میں؟ میرا مطلب ہے گھوڑا؟‘‘

    ’’نہیں مجھے کیا پتہ؟ میرا خیال ہے آپ کچھ پریشان ہیں۔ ذرا کہیں ٹہل گھوم آئیے۔‘‘

    ’’جی ہاں۔ تھوڑا ٹہلنا تو اب ضروری ہے ورنہ۔۔۔‘‘

    مالک مکان کے جاتے ہی وہ آئینہ کے سامنے کھڑا ہوکر پیٹ سہلانے لگا۔ پھر کپڑے تبدیل کر کے باہر ٹہلنے نکل گیا۔ تھوڑی ہی دور پر ملیٹری والوں کے لئے ریس کورس بنا تھا۔ وہاں وہ دوڑتے، اچھلتے اور مشق کرتے گھوڑوں کو بہت دیر تک دیکھتا رہا، پھر تانگے میں لگے گھوڑوں کو دیکھتا ہوا کمرہ واپس آ گیا۔ جیسے جیسے رات ہوتی گئی اس پر خوف سوار ہونے لگا۔ وہ بےچینی سے کمرہ میں ٹہلتا رہا۔ پھر دواؤں کا ڈبہ الٹنے پلٹنے لگا، ’’کمبخت تمام نیند لانے والی ہی گولیاں ہیں۔‘‘ تھوڑی دیر بعد اس کا جسم پسینہ میں شرابور ہونے لگا پھر بہت تیز مروڑ اٹھی۔

    آج سوؤں گا ہی نہیں۔ اس نے سوچا اور ٹہلنے لگا۔ ٹہلتے ٹہلتے جب دماغ بھاری ہو گیا اور پپوٹے جھکنے لگے تو وہ بستر پر بیٹھ گیا۔ پھر اسٹو پر پانی، چائے کی پتی اور شکر ملاکر رکھ دیے اور وہیں بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد اسے محسوس ہوا جیسے پانی کی سنسناہٹ میں گھوڑوں کے دوڑنے کی آواز آ رہی ہے۔ کڑبڑ کڑبڑ اس نے گھبراکر چاروں طرف دیکھا اور اسٹو سے دور جا بیٹھا تو لگا جیسے آواز تیز ہو گئی ہو، سارے کمرے میں گونج رہی ہو۔ جیسے بہت سے گھوڑے بغیر کسی ربط کے لگاتار دوڑ رہے ہوں۔ کڑبڑ۔ کڑبڑ۔ کڑبڑ۔ کڑبڑ۔

    اس نے گھبراکر اسٹو بجھا دیا اور کیتلی اتارکر الگ رکھ دی۔ تھوڑی دیر تک آئینہ کے سامنے کھڑا سوچتا رہا۔ پھر نیند کی دو گولیاں کھاکر بستر پر لیٹ گیا۔

    صبح کسی کے مسلسل دروازہ کھٹکھٹانے پر جب اس نے دروازہ کھولا تو مالک مکان نے پوچھا۔ ’’کیا آج آفس نہ جائیےگا؟‘‘ اس نے صرف نفی میں گردن ہلا دی۔

    ’’اب کیسی طبیعت ہے؟‘‘ وہ خاموشی سے دروازہ پر کھڑا انہیں دیکھتا رہا۔

    ’’رات کیسی گزری، وہ خواب پھر تو نہیں دکھائی دیا؟‘‘

    اس نے بڑے کرب سے مالک مکان کو دیکھا۔ آنکھوں سے خوف جھانکنے لگا۔

    ’’اچھی بات ہے آپ آرام کیجئے۔‘‘

    اس نے واپس آکر دو نیند کی گولیاں نگلیں اور بستر پر گرپڑا۔ تھوڑی دیر تک خالی خالی نظروں سے سامنے کی دیوار دیکھتا رہا۔ پھر آنکھوں کے کونوں سے گرم گرم پانی بہنے لگا اور وہ سو گیا۔

    شام کو کسی نے اس کا نام لے لے کر پکارا تو گھبراکر اٹھ بیٹھا۔ دروازہ پر اس کا باپ کھڑا تھا۔

    اس نے دیکھا وہ بہت بوڑھے سے دکھائی دے رہے تھے اور وہی کاندھوں پر سے سلی ہوئی ملجگی سی شیروانی پہنے کھڑے تھے۔ سوکھے ہونٹ اور تمباکو سے ادھ میلے دانت حیرانی میں کھلے ہوئے تھے۔ اسے فوراً خیال آیا کہ بہت دنوں سے ان کو خیریت کا خط نہیں لکھ سکا ہے۔ ان کے کئی خط آ چکے ہیں۔ فائل نمبر ۷۹؍۱۰؍۳۔۔۔ فسادات کی رپورٹ کا پروفارما۔

    ’’کیسی طبیعت ہے؟‘‘ وہ چونک اٹھا۔ ’’امی کیسی ہیں؟‘‘

    ’’ٹھیک ہیں۔ تمہاری طبیعت کیسی ہے؟‘‘

    ’’ٹھیک ہوں،‘‘ کہتے کہتے وہ جھجھک گیا۔

    ’’تم ایک آدھ مہینہ کی چھٹی کی درخواست لکھ کر مالک مکان کو دیدو۔ میں تمہیں لینے آیا ہوں۔ مجھ سے زیادہ پریشان تو تمہاری ماں ہیں۔ چلو وہیں چل کر اطمینان سے علاج ہوگا۔ کھانے پینے کی احتیاط بھی ممکن ہوگی۔‘‘

    علاج۔۔۔؟ اس نے خالی دماغ سے دوہرایا۔ ’’اچھی بات ہے۔‘‘

    رات ہی کی گاڑی سے دونوں روانہ ہو گئے۔

    سنسناتے ذہن کی دھند میں وہ ماں اور گھر کے دوسرے افراد سے مل کر اپنے کمرہ میں گھس پڑا اور بستر پر لیٹتے ہی سو گیا۔ سوکر اٹھا تو اس نے گھر میں پُراسرار سی ٹھنڈ سی محسوس کی۔ ماں اور چھوٹے بھائی عجب حسرت ناک انداز سے اسے ہر جگہ اپنی نظروں کے گھیرے میں لیے رہے، جسے محسوس کر کے اسے سخت الجھن ہوتی رہی۔

    شام کو اس نے ماں کو کہتے سنا، ’’کیوں نہ کسی مولوی ملا کو دکھائیے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی نے کچھ کر دیا ہو۔‘‘ اسے اور شدید گھٹن کا احساس ہوا۔

    رات ہوتے ہی اسے ایک خوف نے جکڑنا شروع کر دیا۔ گھبراکر وہ گھر والوں کے درمیان آکر بیٹھ گیا کہ شاید دل بہلے۔ اس کے آتے ہی سب خاموشی سے اسے دیکھنے لگے۔ تھوڑی دیر تک وہ برداشت کرتا رہا پھر اٹھ کر اپنے کمرہ میں چلا آیا۔ پاس کی سڑک سے کوئی تانگہ یا یکہ گزرا تو اس کے چہرے سے پسینہ پھوٹ بہا، گھوڑا۔۔۔ بہت دیر تک اس کے دماغ میں گھوڑے کی ٹاپیں گونجتی رہیں۔

    صبح کسی آہٹ سے آنکھ کھلی تو دیکھا کہ اس کی ماں کھڑی چاروں طرف کچھ پڑھ پڑھ کر پھونک رہی ہے اور جگہ جگہ کچھ کاغذ سے رکھ رہی ہے۔ کچھ کاغذات اس کے تکیے کے نیچے بھی رکھے لیکن وہ سوتا بنا رہا۔

    دس بجے کے قریب باپ اسے لے کر شہر کے ایک بڑے ڈاکٹر کے پاس پہنچا اور اسے باہر چھوڑ کر خود اندر چلا گیا۔

    تھوڑی دیر بعد اسے بھی آکر لے گیا۔ ڈاکٹر خاموشی سے چیک کرتا رہا۔ پھر اس سے مخاطب ہوا، ’’کوئی بات نہیں۔ ا ٓپ کو کوئی مرض نہیں ہے۔ خوب کھائیے۔ گھومئے اور آرام کیجئے۔‘‘

    پھر باپ سے مخاطب ہوا، ’’آپ ا یکسرے کرا لیجئے اور یہ دوائیں دیجئے۔‘‘

    ’’لیکن ڈاکٹر صاحب مجھے اب اٹھنے بیٹھنے میں بھی تکلیف ہو رہی ہے اور جھکنے میں پیٹ چرچرانے لگتا ہے۔ یہ دیکھئے میرا پیٹ۔۔۔‘‘ ڈاکٹر نے ہلکے سے پیٹ تھپ تھپاکر کہا، ’’سب ٹھیک ہے بالکل نارمل، آپ بلا وجہ کی باتیں نہ سوچئے۔ ایکسرے رپورٹ سے سب پتہ چل جائےگا۔‘‘

    گھر واپس آئے تو تھوڑی دیر وہ کمرہ میں خاموش بیٹھا رہا۔ جب آنتیں کھرچنے لگیں اور مروڑ بڑھنے لگے تو وہ گھبراکر اٹھ گیا اور خاموشی سے باہر نکل گیا۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد اسے محسوس ہوا کہ اب اسے چلنے میں تکلیف ہورہی ہے اورپیٹ وزنی ہوتا جا رہا ہے۔ قدم زمین پر ہلکے ہلکے پڑ رہے ہیں۔ پورا توازن نہیں بن پاتا ہے۔ گھبراکر وہ ایک جگہ بیٹھ گیا۔ پاس ہی میں جانوروں کو پانی پلانے کا حوض تھا۔ جہاں دو تین تانگے والے کھڑے تھے اور گھوڑے پانی پی رہے تھے۔ پیٹ میں پھر بڑی تیز جلن اٹھی۔ اس کا جی چاہا کہ وہ بھی گھوڑوں کی طرح حوض میں منھ ڈال کر کھڑا ہو جائے اور سیر ہوکر ہی منھ اٹھائے۔ پھر انھیں کی طرح ’فوفو‘ کر کے اپنے نتھنوں سے پانی کی چھینٹ اڑ ائے۔

    خاصی دیر بعد وہ گھر لوٹ آیا۔ رات میں اس کے باپ نے اسے بتایا کہ اس نے شہر کے ایک نفسیاتی معالج سے بھی گفتگو کر لی ہے کل اسے بھی دکھانا ہے۔ ان کے جانے کے بعد وہ قمیص اتار کے پھر آئینہ کے سامنے ٹہلنے لگا اور اپنے جسم کو گھورنے لگا۔ اسے محسوس ہوا جیسے رانیں کمزور اور پتلی ہوتی جارہی ہوں۔ پیٹ اور ناف کا ابھار بہت بڑھ گیا ہو۔ اس نے غور سے دیکھا تو اسے کچھ نشانات سے بنے نظر آئے۔ وہ ٹہلتے ٹہلتے بستر پر آ گرا لیکن تھوڑی ہی دیر بعد گھبراکر اٹھ بیٹھا۔ آئینہ کے سامنے جاکر اپنا منھ کھول کھول کر کچھ دیکھتا رہا۔ پھر نیند کی ایک گولی لے کر لیٹ گیا۔

    رات میں اس کی چیخ سن کر سارا گھر دھڑدھڑاتا ہوا اس کے کمرہ میں گھس آیا۔ دیکھا کہ وہ کمرہ کے ایک کونے میں سمٹا ہوا کھڑا ہے اور خوف زدہ سرخ چڑھی ہوئی آنکھوں سے بستر کو گھور رہا ہے۔

    ’’اسے اپنے ساتھ سلائیے،‘‘ ماں نے کہا۔ لیکن باپ نے خاموشی سے بازو پکڑکر بستر پر بٹھا دیا۔ سب کچھ دیر کھڑے رہے۔ جب اسے نیند آ گئی تو دبے پاؤں کمرے سے نکل گئے۔

    صبح باپ اسے لے کر نفسیاتی معالج کے کلینک پہنچا۔ ڈاکٹر نے پہلے ادھر ادھر کی باتیں شروع کیں تو اسے الجھن اور جھلاہٹ ہونے لگی۔ لیکن خاموش رہا۔ ڈاکٹر نے تمام ہسٹری پوچھنے کے بعد اس سے اور سوالات شروع کئے۔ جسے اس کا اسٹینو لکھتا جا رہا تھا۔

    ’’کیا آپ کو بچپن سے گھوڑے بہت پسند تھے؟‘‘

    ’’جی نہیں۔‘‘

    ’’کیا آپ کو گھوڑوں سے نفرت یا گھن آتی ہے؟‘‘

    ’’جی نہیں۔‘‘

    ’’کیا آپ کبھی گھوڑے سے گرے ہیں؟ یا کبھی کسی گھوڑے سے چوٹ آئی ہے؟‘‘

    ’’جی نہیں۔‘‘

    ’’کیا آپ پہلے خواب میں گھوڑے دیکھتے تھے؟‘‘

    ’’جی نہیں۔‘‘

    ’’کیا آپ کے ارد گرد کوئی ایسا آدمی ہے جس کی شکل دیکھ کر گھوڑا یاد آئے اور آپ اس سے نفرت یا محبت کرتے ہوں؟‘‘

    ’’جی نہیں۔‘‘

    ’’کیا آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کے پیٹ میں واقعی گھوڑا ہے؟ اور اصل گھوڑے جیسا ہے؟‘‘

    ’’جی ہاں۔‘‘

    ’’گھوڑا چلتا بھی ہے اس سے آپ کو تکلیف یا پریشانی ہوتی ہے؟‘‘

    ’’جی ہاں۔‘‘

    ’’آپ محسوس کرتے ہیں کہ یہ گھوڑا ہنہناتا ہے۔ بانچھوں سے آوازیں نکالتا ہے۔۔۔ تیزی سے دوڑتا ہے۔ پھر آپ کی آنتیں چبانے لگتا ہے؟‘‘

    ’’جی ہاں۔‘‘

    ’’آپ کو اس سے خوف یا نفرت محسوس ہونے لگتی ہے؟‘‘

    ’’جی نہیں۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے،‘‘ ڈاکٹر نے باپ کو مخاطب کیا۔ میں کیس کی اسٹڈی کر کے ڈاکٹر مہروترا سے بات کر لوں گا، پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ انھیں بس آرام کرنے دیجئے اور تنہا رہنے دیجئے۔

    رات کو یہ اپنے کمرہ میں پہنچا تو باپ پہلے سے ہی دوسرے بستر پر لیٹا ہوا کوئی کتاب دیکھ رہا تھا۔ وہ خاموشی سے اپنے بستر پر لیٹ رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد خواہش ہوئی کہ آئینہ کے سامنے پیٹ کھول کر دیکھے۔ اس نے پلٹ کر باپ کی طرف دیکھا وہ ابھی تک جاگ رہا تھا۔ اسے بےچینی سی ہونے لگی اور آنتوں میں جلن بڑھنے لگی۔ پھر محسوس ہونے لگا جیسے داہنے حصہ کو کوئی تیزی سے نوچ رہا ہے۔ وہ۔۔۔ اٹھ کر بیٹھ گیا تو اس کا باپ بھی گھبراکر اٹھ بیٹھا۔ وہ کوفت اور الجھن میں پھر لیٹ گیا۔ اچانک بہت تیز مروڑ شروع ہوئی تو وہ باتھ روم میں گھس گیا اور وہاں کا آئینہ کیل سے اتار کر اور گھماگھما کر اپنا پیٹ دیکھتا رہا۔

    دوبارہ آکر لیٹا تو باپ کی موجودگی کی الجھن سے نیند غائب ہو گئی۔ اس نے تکیہ کے نیچے سے نیند کی گولی نکالنا چاہی تو ہاتھ تعویذ سے ٹکرا گیا۔ ’’ماں،‘‘ اس کے دہن نے پکارا۔ پھر بغیر پانی کے دوا نگل گیا۔ ’’ماں،‘‘ دوسری بار اس کے ذہن نے پکارا اور آنکھوں سے گرم پانی بہنے لگا۔

    صبح اس کے باپ کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ وہ سارے کمرے میں ننگے پیر ٹہل رہا ہے۔ پھر آئینہ کے سامنے کھڑے ہوکر قمیص کا دامن اٹھا اٹھاکر اپنا پیٹ دیکھ رہا ہے اور ٹہلنے لگتا ہے۔ گھبراکر وہ اٹھ بیٹا۔ ’’کیا بات ہے کیا پھر تکلیف ہو رہی ہے؟‘‘ وہ چونک کر بھاری آواز میں بولا۔

    ’’گھوڑا! رات میں نے بھر وہی خواب دیکھا۔‘‘

    باپ نے جھک کر اس کا ماتھا چھوا، ’’کیسی طبیعت ہے؟‘‘ اس نے اثبات میں گردن ہلا دی۔

    نفسیاتی معالج نے آگے بڑھ کر کہا، ’’مسٹر! حیرت انگیز، بہت حیرت انگیز واقعی آپ کے پیٹ سے جاتا جاگتا گھوڑا برآمد ہوا ہے۔ دنیا کی واحد مثال ہے یہ کیس۔‘‘

    ڈاکٹر مہروترا نے آگے بڑھ کر پوچھا، ’’بھئی اب کیسا محسوس ہوتا ہے؟‘‘

    اس نے غور کیا۔ واقعی اب پیٹ کا تناؤ بالکل ختم ہو گیا تھا۔ ’’جی، اب تو میں بالکل ٹھیک ہوں۔ جلن بھی نہیں ہے اورنہ تو متلی ہے، نہ تناؤ، اب پیٹ بالکل ہلکا ہے۔ جیسے پہلے تھا۔ اب بالکل نہیں محسوس ہوتا کہ کوئی چیز دوڑ رہی ہے، آنتوں کو کتر رہی ہے یا وہ گھوڑا۔۔۔ آپ لوگ میری بات ہی نہیں سمجھ پا رہے تھے۔‘‘ ڈاکٹر مہروترا خجل ہوکر پیچھے ہٹ گئے۔

    ’’کہاں ہے وہ گھوڑا؟‘‘ اس نے نقاہت سے ادھر ادھر دیکھا۔ نفسیاتی معالج نے آگے بڑھ کر کمرہ کا دروازہ کھول کر پردہ ہٹایا۔

    ایک لحیم شحیم اور صحتمند گھوڑا دھلا دھلایا دروازہ پر کھڑا تھا اور زمین پر ہلکے ہلکے ٹاپیں مار رہا تھا۔

    اچانے اس کے منہ سے خون کا فوراً ابل پڑا۔ آنکھوں کی پتلیاں الٹنے لگیں۔ زخمی پیٹ پر ہاتھ رکھ کر اس نے بےچینی سے بیٹھ جانا چاہا۔ ڈاکٹر اور باپ اس پر ٹوٹ پڑے۔ سب نے اسے جکڑ لینے کی ناکام کوشش کی۔

    ’’کیا بات؟ کیا ہوا؟ کیا ہے؟‘‘

    پیٹ سے بہتے ہوئے خون کی پروا کیے بغیر اس نے اٹھ جانا چاہا۔ لیکن ناکام ہوکر ایک زخم خوردہ پرند کی طرح آنکھیں کھو لیں۔ دونوں ڈاکٹروں کی طرف گھبراہٹ اور حقارت سے دیکھا اور باپ کی طرف سے منھ پھیر کر کہا، ’’اس گھوڑے کا رنگ مشکی ہے۔ میرے پیٹ میں جو گھوڑا ہے وہ تو سفید رنگ کا ہے۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے