اولاد
میں بڑی بےچینی سے نانی ماں کا انتظار کر رہی تھی، وہی نانی جن کا اس دنیا میں کوئی نہیں تھا۔ نہ ہی ان کا اپنا کوئی گھر نہ ہی ان کا کوئی رشتہ دار، وہ چند دن اس شہر کی درگاہ میں رہتیں پھر کچھ دنوں کے لیے دوسرے شہر چلی جاتیں، ہر جگہ کسی نہ کسی درگاہ ہی کو سر چھپا نے کا ٹھکانہ بنا رکھا تھا انہوں نے۔۔۔
وہ اکثر جمعہ کے دن ہی ادھر آیا کرتیں، ان کے بائیں ہاتھ میں ایک چھوٹی سی کپڑے کی تھیلی ہو تی تو دائیں ہا تھ میں ایک لاٹھی۔۔۔
وہ بہت ہی بوڑھی اور کمزور ہو گئیں تھیں کمر سے جھکی ہو ئی اس لیے ان کی لا ٹھی ہی ان کے چلنے کا سہارا تھی۔۔۔ جسے ہاتھ میں تھامے زمین پر ٹیکتے ہو ئے دھیرے دھیرے وہ چل پاتیں۔ جب بھی وہ ہماری گلی میں آتیں تو ہمارے پڑوس سے گذرتے ہو ئے ہماری دہلیز تک آنے سے پہلے ہی میں ان کی لاٹھی کے زمین پر ٹیکنے کی آواز سن لیتی اور دوڑتے ہو ئے جلدی سے دروازہ کھول کر ان کے پاس جاتے ہو ئے ان کا ہا تھ تھامے اپنے گھر لے آتی۔ وہ اتنے دھیمے سے بولتی دروازے کے قریب آکر آواز دیتی تو بھی سنائی نہیں دیتا تھا۔ مجھے تو ہر جمعہ سویرے سے ہی ان کی آمد کا انتظار رہتا اور میرے کان ان کی لاٹھی کی آواز کے ما نوس اور منتظر رہتے، اس لیے میں ان کی آمد کو فوراً بھانپ جاتی۔۔۔ وہ کسی کے بھی دروازے پر زیادہ دیر ٹھہرتی بھی نہیں تھیں، بس اپنی دھیمی سی آواز میں اللہ کے نام پر خیرات طلب کرتے ہو ئے آگے بڑھ جایا کرتیں۔۔۔ مجھے ان کی اس بات پر بڑی فکر ہوتی کہ دھوپ میں منہ سکھائے بھٹکتی پھرتی ہیں، پتہ نہیں اپنے گھروں کے اندر مشغول کتنے لو گ ان کی آواز پر میری طرح متوجہ ہو پاتے ہوں گے۔۔۔ ہمارے یہاں آٹھ دن میں ایک بار ہر جمعہ ضرور آتیں لیکن اس مرتبہ پندرہ دن ہونے کو آئے وہ نہیں آئیں۔۔۔ آج بھی جمعہ ہی کا دن تھا اور مجھے فکر لاحق ہو رہی تھی۔ ان سے مل کر مجھے عجیب قسم کی خو شی محسوس ہوتی۔ وہ آج بھی خوبصورت تھیں ان کی آنکھیں بےحد چمکدار اور ستواں ناک، دو دھیا رنگ کا چہرہ اور جھر یوں بھرے چہرے پر نور ہی نور۔۔۔ وہ اتنی کمزور ہو تے ہو ئے بھی پانچوں وقت کی نماز پابندی کے ساتھ کسی نہ کسی کے گھر میں ضرور پڑھ لیتی۔ کھانا تو بالکل کم دو چار نوالے ہی کھا پاتیں۔۔۔ پتہ نہیں میرا دل چند دنوں سے بار بار مجھ سے کہتا کہ نانی ماں کا اس دنیا میں کوئی نہ کوئی تو ضرور ہوگا۔ لیکن پو چھنے پر وہ ہمیں یہی کہتی کہ میرا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ نہ جانے مجھے کیوں ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ضرور ہم سے کچھ چھپاتی ہیں۔ آج میں نے اپنے دل میں یہ تہیہ کر لیا تھا کہ اس بار ضرور میں ان سے کرید کرید کر پوچھونگی اور سچائی جان کر رہوں گی۔
میں انہی خیالوں میں کھوئی گم سم سی بیٹھی ہو ئی تھی۔ اتنے میں مجھے نانی ماں کی لاٹھی کی آواز سنائی دی میں جیسے کھل اٹھی اور جھٹ سے اٹھ کر دروازہ کھولا پھر باہر سے نانی کو پکڑتے ہو ئے اندر لاکر کرسی پر بٹھا یا اور ان سے شکایت بھرے لہجے میں پو چھنے لگی۔ نانی ماں اتنے دن کہاں چلی گئیں تھیں، ہم نے آپ کو بہت یاد کیا، کہیں آپ اپنے کسی رشتہ دار کے پاس تو نہیں چلی گئیں تھیں۔۔۔؟ میر ے سوال پر وہ مسکرا تے ہو ئے کہنے لگیں، بیٹی میں تو پا س والے شہر گئی تھی میرا س دنیا میں کوئی بھی اپنا نہیں ہے۔ بس تم جیسے ہی میرے اپنے ہو۔۔۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے آپ کاکو ئی تو ہوگا اس جہاں میں۔۔۔ میری بات سن کر میری امی نے مجھے ڈانٹا بس چپ ہو جاؤ، تم نانی ماں کو ہر بار اپنے سوالوں سے پریشان کیوں کرتی ہو۔۔۔ نہیں امی میں آج نانی ماں سے ان کی کہانی سن کر رہوں گی۔۔۔ اچھا نانی آپ یہ بتا ئیے کہ کیا آپ نے شادی نہیں کی؟ انہوں نے کہا کی تھی بیٹا۔۔۔ پھر سچ سچ بتایئے آپ کی کوئی اولاد نہیں ہے۔۔۔؟ میرے سوال پر وہ خاموش ہو گئیں میں نے انہیں دیکھا تو مجھے محسوس ہوا کہ میں ان کی دکھتی رگ پر ہا تھ رکھ رہی ہوں۔۔۔ میں نے ہمت کرکے ان سے کہا نانی میں آپ کے زخموں کو چھیڑنا نہیں چاہتی۔ آپ کو معلوم ہے درد بھری کہانیاں لکھنا میرا مشغلہ ہے اس لیے میں آپ کے بارے میں جاننے کے لیے بےچین ہوں۔ ہو سکتا ہے آپ کی داستان سے دوسروں کو عبرت حاصل ہو۔۔۔ آخر میری ضد کے آگے انہیں ہتھیار ڈالنا ہی پڑا۔ انہوں نے مجھے پیار بھری نظروں سے دیکھا اور مجھے دعا دی، خو ش رہو بیٹی اللہ تمہیں تمہارے مقصد میں کامیابی عطا فرمائے۔۔۔ پھر مجھ سے یوں گویا ہوئیں میں تمہیں آج اپنے بارے میں ضرور بتاؤں گی۔۔۔ ایک زمانہ وہ بھی گذرا ہے کہ میں بھی جب اچھے کھاتے پیتے گھر کی بیٹی تھی۔ میرے والدین نے مجھے ایک اچھے گھر میں بیاہ کر دیا پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے دو چاند سے بیٹے عطا فرمائے، پھر اچانک ایک دن میرے خاوند کا انتقال ہو گیا۔ اُس وقت بچے بہت چھوٹے تھے میں اکیلی عورت تھی مگر میں نے دونوں بچوں کو اپنے سینے سے لگاکر بہت سی تکلیفیں اٹھاکر پالا، انہیں اپنے قدموں پر کھڑا ہونا سکھایا، کسی قا بل بنایا۔
وہ جوان ہوئے، بڑے بیٹے کی شادی کی، بہو کے آ تے ہی بیٹے نے ماں کو نظر انداز کر دیا اور سسرال میں جاکر بس گیا۔ میں اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ رہی پھر اس کی بھی شادی ہوئی اس کی بیوی کو میرے ساتھ رہنا پسند نہیں تھا بار بار اپنے میکے چلی جاتی۔ آخر بیٹا ماں کی خاطر بیوی سے جدائی کتنے دن برداشت کرتا۔۔۔ اس لیے مجھے ہی وہاں سے نکلنا پڑا ایک دن میں چپ چاپ کسی کو کچھ بھی بتائے بغیر گھر سے نکل پڑی۔۔۔ آج تک شاید ہی کسی نے بھی مجھے ڈھونڈنے کی کوشش کی ہو۔۔۔ وہ تو یہ بھی جاننا نہیں چاہتے ہوں گے کہ ان کی ماں جس نے انہیں جنم دیا زندہ بھی ہے یا نہیں۔۔۔ نانی ماں کی درد بھری داستان سن کر میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ کتنی بےرحم اور خود غرض اولاد ہے، جس ماں نے انہیں جنم دیا جو ماں انہیں اپنے بدن کا ایک حصہ سمجھ کر حفاظت کرتی رہی، ہر طرح تکلیفیں سہہ کر انہیں آج اس قابل بنایا کہ وہ اس دنیا میں شان سے جی سکیں آج اُس اولاد کے گھر بوڑھی اور بےسہارا ماں کے لیے جگہ نہیں ہے۔ وہ لو گ زندگی کے مزے لے رہے ہیں اور یہاں ان کی ماں در در بھٹکتی پھر رہی ہے یہ کیسا انصاف ہے۔۔۔؟ بیٹی یہ تھی میری زندگی کی کہانی جو میں نے آج تک کسی کو نہیں سنائی۔۔۔ نانی ماں کی آواز پر میں چونک پڑی، خود کو سنبھالتے ہوئے پھر ان سے پو چھا اچھا نانی آپ مجھے ایک بات بتایئے کہ آپ سبھی کو ایسا کیوں کہتی ہیں کہ آپ کا اس دنیا میں کوئی بھی نہیں ہے۔ وہ کہنے لگیں بیٹی تو تو ابھی بچی ہے، تو نہیں سمجھ پائےگی ایسی اولاد کے بارے میں کچھ کہنے سے کیا فائدہ جو اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی نہ ہو نے کے برابر ہو، بےاختیار میں بول پڑی ہاں نانی آپ بالکل ٹھیک کہتی ہیں ایسی اولاد کس کا م کی جو اپنے ماں باپ کو ہی فراموش کر دے۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.