اور بنسری بجتی رہی
کہانی کی کہانی
یہ قدرت کے حسن اور دنیا میں بسنے والے جانداروں کے مزاج کو بیان کرنے والی کہانی ہے۔ جنگل میں ایک بوڑھے برگد کے پیڑ کے نیچے بیٹھا اہیر بانسری بجا رہا ہے۔ اس کی بانسری کی تان سن کر سبھی چرند و پرند جھومنے لگتے ہیں۔ سانپ بھی اپنے بل سے نکل آتا ہے اور بانسری کی دھن پر ناچنے لگتا ہے۔ دور کھیت میں ایک عورت کوئی گیت گاتی ہے اور بتاتی ہے کہ سانپ نے اس کی بہن کو ڈس لیا ہے۔ سانپ اس کی یہ بات سن کر اپنی مادہ کے مارے جانے کے خوف سے اہیر کو ڈس لیتا ہے۔ سانپ اپنے ساتھیوں کو اپنے وجود کو بچائے رکھنے کے لیے ایک مشورہ دیتا ہے، اس مشورے کو آگے چل کر انسان اپنا لیتا ہے۔
برگد سے کتنی ہی ڈاڑھیاں لٹک رہی تھیں۔۔۔بل کھاتے بھیانک سانپوں کی طرح۔ گھنے، سایہ دار درخت نے اس سنسان جگہ کو سڑک سے چھپا رکھا تھا کہیں کہیں گھاس اگ رہی تھی۔ جیسے جوانی سے ذرا پہلے کسی نوجوان کی مسیں بھیگ رہی ہوں۔ ایک طرف ہموار ڈھلوان چلی گئی تھی اور دوسری طرف ایک ٹیکرا تھا۔ جو ایسے معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ کنواری دھرتی کا ابھرا ہوا سینہ ہو۔
پرے کھیتوں میں دھوپ تھی، ہنسی تھی اور سرور کی لہریں۔ فصل کے دانہ دانہ میں دھرتی کا دل دھڑکتا تھا اور کھیتوں کی مٹی سے اناج کی سوندھی سوندھی خوشبو آتی تھی، جیسے گائے کے سانس میں سے دودھ کی بھینی بھینی خوشبو آتی ہے اور شرمیلی دُلہن کی طرح زندگی دھیرے دھیرے حرکت کر رہی تھی۔
دور۔۔۔تا حدنگاہ سبزہ بچھا ہوا تھا اور آسمان پر سیلانی پرندوں کی قطاریں دکھائی دے رہی تھیں۔ ان کی خانہ بدوش طبیعت ان کے بازوؤں میں ایک کبھی نہ ختم ہونے والی رو پیدا کرتی رہتی۔ آدمی انھیں دیکھتا اور اپنی زندگی کے لیے نئے تاثرات حاصل کرتا۔ کس نے سکھائی یہ پرواز ان آزاد بےفکر پرندوں کو؟ سینکڑوں نہیں ہزاروں میلوں سے، بلند برفانی پہاڑوں کی چوٹیوں کو پار کرتے وہ میدانوں کی طرف نکل آتے ہیں، سال کے سال مقررہ موسم میں۔ کس نے سکھایا آدمی کو ہل چلانا اور دھرتی سے اناج کے جواہر پیدا کرنا۔ سال بسال، ہر فصل پر کھیتوں کی کوکھ سے آدمی کی خوراک کا جنم ہوتا ہے۔ دنیا کی وسیع گود میں زندگی کھیلتی رہتی ہے۔۔۔متواتر، اٹوٹ کھلنڈرے پن سے! کون جانے اس کا آغاز کیسے ہوا اور کب؟ اور کیا یہ کبھی ختم بھی ہوگی؟
اس سنسان ٹیکرے پر ایک اہیر بنسری بجارہا تھا۔ گائیوں نے چرنا چھوڑ دیا۔ بنسری کے جادو بھرے نغمے نے ان پر ایک وجدانی کیفیت طاری کر دی۔ ڈھلوان پر سے وہ اوپر چڑھ آئیں۔ جنگل کے ہرن اور مور بھی دوڑے آئے اور مست ہوکر بنسری کا نغمہ سننے لگے۔
سنسار اور اس کی دلچسپیوں سے بے خبر ہوکر اہیر لگاتار اپنا نغمہ الاپ رہا تھا۔ بنسری میں اس نے اپنا دل ڈال دیا تھا۔ جیسے وہ بانس کا بنا ہوا آلۂ موسیقی نہ تھا بلکہ ایک دوشیزہ تھی جو اپنے محبوب کے عمیق ترین احساسات کی ترجمانی کر رہی تھی۔ جب سے اس نے اپنے گانے میں ایک حقیقی پناہ پالی تھی۔ اسے اپنی بنسری سے ایک کبھی نہ ٹوٹنے والا لگاؤ ہو گیا تھا۔ بار بار وہ سوچتا کہ بنسری اس کی دلہن ہے جو اس کے ہونٹوں کے لمس کے لیے ترستی رہتی ہے۔
گائیں مست ہورہی تھیں، مور بھی اور ہرن بھی۔ جیسے ان کی کوئی مدت کی پیاس بجھ رہی ہو، کوئی مدت کی بھوک مٹ رہی ہو۔ یہ کسی نئی زندگی کا نغمہ تھا اس کی ایک ایک تان پر وہ جھوم رہے تھے۔ یہ نغمہ شاید زبان حال سے کہہ رہا تھا کہ زندگی ایک ہے، سدا اِس کا دور جاری رہتا ہے۔
اور پھر آسمان کے پرندے بھی اس ٹیکرے پر اتر آئے۔ یہ دوستی کا نغمہ تھا۔ اس کی ہر لے عشق، حسن اور شباب سے مل کر بنی تھی۔ بڑا میٹھا میٹھا رس تھا۔ بیچ بیچ میں ایک درد سا بھی۔۔۔ایک ابدی درد! کھیتوں کا سارا سنگیت درختوں کی سب سرگوشیاں، جھرنوں اور دریاؤں کے بہتے پانی کے سارے بول تیز ہوا کی سنسناہٹ۔ گائیوں کے دلوں کی دھڑکن۔ تیز سانس اور سررسرر کی آواز جو ان کے دودھ دوہے جانے سے پیدا ہوتی ہے۔۔۔یہ سب کچھ شاید اس نغمہ میں سما گیا تھا اور پھر زہری سانپ بھی اس ٹیکرے پر چڑھ آیا تھا۔
سانپ کی خصلت ہے کاٹنا۔ مگر وہ تو پیار کا نغمہ تھا۔ سنتے سنتے وہ کئی بار چونک اٹھا۔ اس کے کٹھور سر میں زہر حرکت کرنے لگا۔ لیکن اسے اپنے جسم میں ایک جھرجھری سی محسوس ہونے لگی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔۔۔نغمہ نے اس کے زہر پر فتح پا لی تھی۔
نغمہ کی تانیں فضا میں بکھر رہی تھیں۔ چاروں طرف ایک پرسکون خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ زندگی کی ساری نفرت کون جانے کن گہرائیوں میں گم ہو چکی تھی پوربی ہوا بھی تھم گئی۔۔۔یہ شاید اس کی اطاعت کا ثبوت تھا۔
سانپ کا برہنہ جسم چمک رہا تھا۔ پھن پھیلا کر وہ رقص کر رہا تھا۔ وہی ابدی رقص اس وقت وہ اپنے زہر سے بے خبر تھا۔ سانپ کا یہ رقص کوئی مصنوعی رقص نہ تھا۔ یہ پیار کے نغمہ سے پیدا ہوا تھا۔ سانپ کی آنکھوں سے بدستور آنسو گر رہے تھے۔ وہ بھی دل رکھتا تھا، صرف زہر ہی نہیں اور وہ دل کا درد سمجھتا تھا۔۔۔زندگی کی رگ رگ میں حرکت کرنے والا لطیف درد!
دور پوربی افق پر ایک کالی بدلی چھا رہی تھی۔ پرے کھیت سے ایک کسان کی دلہن گا اٹھی۔ ’’اری اور کالی بدلی! تم میری دھرم کی بہن ہو۔ دیکھو، پیاری بدلی، پہلے میرے باپ کے کھیتوں پر برسیو اور پھر سسرال کے کھیتوں پر! چوکنا مت، بہن بدلی! جیسے میں کہتی ہوں، ویسے ہی کرنا پیاری!‘‘
اور اہیر نے اپنے لبوں سے بنسری ہٹا لی۔ نغمہ بند ہو گیا۔ اس کے کان کھیتوں سے آتے ہوئے گیت کی جانب متوجہ ہو گئے۔ گائیں ٹیکرے سے نیچے اتر رہی تھیں۔ ہرن بھی جا رہے تھے اور مور بھی۔ پرندوں کو بھی آسمان کی بلندیاں یاد آ گئی تھیں۔
زہری سانپ بدستور پھن پھیلائے رقص کر رہا تھا۔ اہیر ڈرا نہیں۔ وہ مسکرایا۔ یہ اس کے نغمہ کی دلکشی کا ثبوت تھا۔ وہ خوش تھا۔
اور کسان دلہن نے پھر گایا، ’’نیم پر، ہری ہری نیم پر میری بہن جھولا جھول رہی تھی ہائے! میری ماں رو پڑی۔ میں بھی رو پڑی۔ بہن کو کالے ناگ نے ڈس لیا تھا۔‘‘
کس ناگ نے ڈس لیا تھا جھولا جھولتی کنواری کو؟ کیا یہی سانپ تھا۔ وہ ناگ، جو اہیر کے پاس پھن پھیلائے جھوم رہا تھا؟ اسے تو رونا آتا تھا۔ اب تک اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں اور جب کوئی روتا ہے اس کا زہر مر جاتا ہے!
زہری سانپ ٹیکرے سے نیچے اتر رہا تھا
اس کے بند بند میں ایک غیرمعمولی تھکاوٹ محسوس ہو رہی تھی۔ جذبات کی رو میں وہ بہت دیر تک رقص کرتا رہا تھا۔ ضرورت سے زیادہ۔
یہ نغمہ نہ تھا، ایک منتر تھا۔ ورنہ وہ وہاں کیوں جاتا؟
اس کا جسم گرم ہونے لگا۔ لہو پہلی چال سے چلنے لگا۔ وہ پھر وہی پہلا سانپ تھا۔ جس کی خصلت ہے کاٹنا اور اس کے تاثرات کی خبر صرف اسی کو ہی تھی۔
جب وہ کھیت کی مینڈھ کے پاس پہنچا تو اس نے سانپن کی لاش بدستور پڑی دیکھی۔ اب وہ بدبو دار ہو رہی تھی۔ سانپ کا دل بے چین ہوگیا۔ لاش کے گرد اس نے پانچ چکر کاٹے اور پھر ٹکٹکی لگا کر مردہ سانپن کی آنکھوں کی طرف دیکھنے لگا، اس کے سر میں زہر پھر جاگ اٹھا۔
یہ سانپن اس کی محبوبہ بنی، اس کے پیچھے پیچھے چلا کرتی تھی۔ چاندنی راتوں کے کتنے ہی کیف آور لمحے دونوں نے بارہا ایک ساتھ گذارے تھے۔ اس کی صحبت میں زندگی کتنی خوبصورت معلوم ہوتی تھی، کتنی ملائم اور چمک دار۔۔۔سانپن کے جسم کی طرح اور خود اس کے اپنے جسم کی طرح جب کہ کینچلی ابھی ابھی اتار کر پھینکی گئی ہو! کتنی ہی بار اس نے اپنی زبان سانپن کی زبان پر رکھ کر اسے اپنی دائمی محبت کا یقین دلایا تھا۔ تب وہ کیا جانتا تھا کہ ایک دن اسے یوں اپنی محبوبہ کے بے حس جسم پر آنسو گرانے ہوں گے۔
اس کا زہر اور بھی بھڑک اٹھا۔ اپنا پھن لاش کے نزدیک لاکر اس نے اسے پھر سونگھا اور اس کی آنکھوں میں انتقام کی آگ جلنے لگی۔
فضا میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ پُوربی ہوا کے لمس سے غصہ ور سانپ کا بند بند ایک نئی قوت محسوس کرنے لگا۔
کسی شاہزادے کی چاندرانی سے سانپ کی محبوبہ کیا کچھ کم تھی؟ اس چاند رانی کو کوئی مار ڈالتا تو قاتل کو پکڑنے کے لیے حکومت ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتی اور اگر سانپ بھی اپنی محبوبہ کے قاتل کا دشمن بن گیا تو کون سی بڑی بات ہو گئی؟
پہلے بھی ایک دن اہیر نے بنسری پر اپنا نغمہ چھیڑا تھا اور سانپ اور سانپن نغمہ کی آواز سے مست ہوکر اس ٹیکرے کی طرف چل پڑے تھے، جہاں اہیر اپنی لے کی نرم نرم تھپکیوں سے گائیوں کا من رجھا رہا تھا۔
اور جب سانپ اور سانپن پگڈنڈی کے کنارے کنارے جارہے تھے۔ کسی شریر راہی نے اپنی پرانی عادت کے مطابق سانپن کو نشانہ بنا دیا تھا، سانپ کافی آگے آگے جا رہا تھا، ورنہ اگر اسے اسی وقت اپنی محبوبہ پر کیے گئے اس ظلم کا پتہ چل جاتا تو وہ اُسی وقت اس ظالم راہی کو موت کی نیند سلا دیتا۔ اب وہ راہی کہاں چلا گیا تھا؟ پچھلے غصّہ کی یاد نے انتقام کی آگ کو اور بھی بھڑکا دیا۔
پہلے سانپ نے سمجھا کہ سانپن کی موت کی ذمہ داری اہیر یا اس کے نغمہ پر کسی طرح عاید نہیں ہوتی اور جب سے اس نے اس کی سب سے زیادہ دودھ دینے والی گائے کی پچھلی ٹانگوں میں لپٹ کر اس کا میٹھا میٹھا دودھ پینا شروع کردیا تھا۔ وہ اپنی محبوبہ کی یاد کچھ کچھ فراموش کر بیٹھا تھا۔
مگر سانپن کی لاش دیکھ کر سانپ کے لہو کی ایک ایک بُوند نفرت کی آئینہ دار بن گئی اور وہ سب شانتی جو اسے بنسری کا نغمہ سن کر حاصل ہوئی تھی نہ جانے کہاں غائب ہو گئی۔
وہ راہی اب نہیں ملتا تو نہ ملے۔ وہ اس اہیر کا خاتمہ کر ڈالےگا اور اس کے نغمہ کو ہمیشہ کے لیے بند کر دےگا۔ نہ اس دن اہیر نے نغمہ چھیڑا ہوتا نہ وہ اپنی محبوبہ سمیت ٹیکرے کی جانب چل پڑتا! اور وہ راہی جس نے سانپن پر پتھر پھینکا، ضرور اس اہیر کا بھائی بند ہوگا۔۔۔آدم کا بیٹا، سانپوں کا ابدی دشمن!
کسی دوسری سانپن سے وہ آسانی سے پیار کر سکتا تھا اور اپنی نسل کو آگے بڑھانے میں اسے کیا تکلیف ہو سکتی تھی، آدمی بھی ایک عورت کے مر جانے پر دوسری عورت کا دم بھرنے لگتا ہے مگر اس کا یہ مطلب تو نہ تھا کہ وہ انتقام کے جذبہ سے منہ موڑ لیتا۔
آخر زہر کا مفہوم کیا ہے؟ مارنا! انتقام لینا! زہر بنا ہی ہے مارنے کے لیے آدمی کو سانپ سے ڈرنا چاہیے۔ سانپ کے انتقام سے۔ زہر سانپ کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور جب تک وہ زندہ رہتا ہے اس کا زہر بھی مرتا نہیں۔ جھوٹے امرت سے تو سانپ کا زہر ہی ہزار بار سچا ہے۔ اس کی زبان ناپاک ہے تو ناپاک ہی سہی مگر کیا وہ امرت کی ڈینگیں مارنے والوں سے انتقام لینا بھی چھوڑ سکتا ہے؟ اس کے سر میں زہر سوتا رہتا ہے جب تک کہ کوئی اسے جگا نہیں دیتا۔
زہری سانپ بہت جلد اہیر کے ہاتھ سے بنسری گرا دینا چاہتا تھا ہمیشہ کے لیے۔ تاکہ پھر کبھی اس کا نغمہ فضا میں نہ گونج اٹھے اور اسے اس کے ارادہ سے کون روک سکتا تھا؟
پچھم کی طرف قوسِ قزح کمان کی طرح تنی ہوئی تھی۔
سانپ ٹیکرے کے اوپر چڑھ رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ اہیر سو رہا ہے۔ بڑا اچھا موقع تھا۔ دھیرے دھیرے وہ اس کے قریب جا پہنچا۔ اس نے چھتری کی طرح پھن پھیلا لیا۔ اہیر کے پاؤں کا بوسہ لے لیا۔
اہیر پھر کبھی نہ جاگا۔ گائیں بدستور ٹیکرے کے قریب چر رہی تھیں جہاں ہری ہری گھاس زندگی کا کوئی خاموش نغمہ سنتی ہوئی تیزی سے اگ رہی تھی۔
زہری سانپ نے اہیر کو ایسے غصہ سے کاٹا تھا کہ وہ درد کے ایک شدید احساس سے تڑپا۔ اس کے منہ سے جھاگ نکلی ناک سے خون بہنے لگا اور وہ ہمیشہ کی نیند سو گیا۔
سانپ خوش تھا۔ اس نے اپنے ابدی دشمن کا خاتمہ کر دیا تھا۔ اوپر آسمان پر چاند نمودار ہو رہا تھا۔ سانپ نے چاند کی جانب دیکھا اور اس کے من میں بسی ہوئی خودنمائی بول اٹھی۔ آدمی تو آدمی ضرورت پڑے تو وہ چاند کو بھی ڈس سکتا ہے۔ سانپن کی یاد اب اسے رلاتی نہ تھی۔ وہ تو شہید ہو گئی اور اس نے انتقام لے کر اپنی نسل کی لاج رکھ لی۔ وہ شیطان بن گیا تھا۔
زہر کہتا ہے۔ او زندگی! مجھ سے ڈر۔ کون جانے زہر کا آغاز کیسے ہوا اور کیا کبھی زہر ختم بھی ہو جائےگا؟ مگر زندگی کا سانس ہمیشہ جاری رہتا ہے، جیون تو امر ہے۔
پو ربی ہوا چل رہی تھی اور وہ مردہ اہیر کے نیچے پڑی ہوئی بنسری میں سے گذر کر نغمہ پیدا کر رہی تھی مگر ہوا اداس تھی اور نغمہ کی غمگینی اور دلسوزی فضا کی وسعتوں میں بکھر رہی تھی۔
برگد کی ڈاڑھیاں برابر لٹک رہی تھیں۔۔۔بل کھاتے بھیانک سانپوں کی طرح! پوربی ہوا کے جھونکے ڈاڑھیوں کو ہلار ہے تھے اور ان کی سرگوشیاں بھی غمگین اور دل سوز ہو رہی تھیں۔
نغمہ گونج رہا تھا۔ سانپ حیران تھا۔ کون بنسری بجا رہا ہے؟ اہیر تو مر گیا۔ وہ چاروں طرف حیران نگاہوں سے دیکھتا رہا۔ بار بار پھن پھیلاتا تھا۔ یہ نغمہ ضرور بند ہوجانا چاہیے کسے سوجھی ہے یہ شرارت؟ کیا وہ یہ نہیں جانتا کہ میں اس کا بھی اُسی طرح بوسہ لے سکتا ہوں۔۔۔وہی بوسہ، جس نے اہیر کو موت کے منہ میں دھکیل دیا؟
کس نے پھونکی زندگی میں اتنی خودنمائی؟ شروع میں یہ آہستہ آہستہ پیدا ہوتی ہے۔ جیسے درختوں پر بور نمودار ہوتا ہے کیا امرت میں بھی اتنی ہی خودنمائی ہوتی ہے، جتنی کہ زہر میں؟
زہری سانپ نے سمجھا کہ اہیر کے سب بھائی بند۔۔۔آدم کے بیٹے بنسریاں بجا رہے ہیں۔ اس کے کالے چمکدار جسم کا بند بند دکھنے لگا۔ نہیں وہ ڈرے گا نہیں۔ وہ مقابلہ سے بھاگےگا نہیں۔ اس کا زہر اور بھی کڑوا ہو رہا تھا جیسے بسنت رت میں شہد اور بھی خوشبودار بن جاتا ہے اور میٹھا بھی۔
مگر وہ اکیلا ہے اور آدم کے بیٹے لاتعداد۔ مقابلہ سخت ہے۔ تو کیا ہوا وہ ڈٹ کر لڑےگا۔۔۔مر جائےگا یا سب کو مار ڈالےگا۔۔۔پہلے سب اہیروں کو اور پھر آدم کے باقی بیٹوں کو! اور اگر سب کے ہاتھوں سے بنسریاں نہ گرا دیں، نغمہ نہ بند کردیا، تو اس کا نام ناگ نہیں۔
وقت گذر رہا تھا۔ دھیرے دھیرے ختم ہونے والے پہاڑی سایوں کی طرح۔ برگد کا درخت وہیں کھڑا تھا اور ٹیکرا بھی۔ نغمہ بدستور جاری رہا۔ سانپ کے ذہن میں وقت کے لمبے سائے اپنا عکس ڈالتے رہے۔
اس وقت خدا کا انصاف کہاں تک تھا جب ایک شریر راہی نے پگڈنڈی کے کنارے سانپن کا سر پتھر مار کر توڑ ڈالا تھا۔ اب اگر خدا بھی اسے انتقام لینے سے منع کرےگا تو وہ ایک نہ سنےگا۔ خدا ہوگا اپنے گھر میں وہ بھی بے انصاف ہو سکتا ہے! سانپ پر اب اس کا حکم نہیں چلنے کا۔ وہ سانپ بھی ہے اور شیطان بھی! اگر خدا میں ذرا بھی طاقت ہے تو وہ اس نغمہ کو ہی کیوں نہیں بند کر دیتا؟ خدا بھی غریبوں اور کمزوروں کو ڈراتا ہے۔ اکھڑ اور نڈر کے سامنے اس کی بھی کوئی پیش نہیں جاتی! اور سانپ ضرور کوئی ایسی ترکیب نکال لےگا۔ جس سے وہ آدمی تو آدمی خدا اور آدمی کی مشترکہ طاقت کا بھی مقابلہ کر سکے۔ اکیلا آدمی تو ہرگز اس کے سامنے کھڑا ہونے کی تاب نہ لا سکےگا۔
ایک دن سانپ سو کر اٹھا تو وہ خوشی سے ناچنے لگا۔ مگر پھر بہت جلد اس کی خوشی سنجیدگی میں بدل گئی۔ جیسے الہام کے بعد آدمی کی کایا پلٹ جاتی ہے۔
پاتال کے سارے سانپ دھرتی پر آ گئے۔ زہری سانپ یہ جانتا تھا کہ پاتال کے ان سب سانپوں کی طاقت سے وہ ایک ایک آدمی کی بنسری نہ گرا سکےگا۔ مگر وہ خوش تھا کہ وہ اس کی دعوت پاکر بغیر کسی پس و پیش کے بھاگ چلے آئے تھے۔ وہ ان سب سانپوں کو اپنی طرح طاقت ور بنا دےگا۔
پچھم کی طرف قوس و قزح تنی ہوئی تھی۔ آدم کے بیٹے اسے دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔ یہ کسی بڑھیا کا جھولا ہے۔ جیسا کہ وہ اپنی بڑھیا دادی سے سنتے آئے تھے مگر انھیں یہ بھی تو یاد تھا کہ جہاں سے یہ جھولا اوپر اٹھتا دکھائی دیتا وہاں افق کے قریب ہی زہری سانپ کا بل بھی ہے۔ سانپ سے بچیو۔ بچہ دادی اماں اور ماں کی یہ نصیحت آدم کے ہر بیٹے کو یاد تھی۔
زہری سانپ نے کھانے میں کسی طرح اپنے زہر کا بیشتر حصہ ملا دیا اور یہ کھانا کھانے کے بعد سب سانپ اسی کی طرح مہلک بن گئے۔
رو رو کر اس نے اپنی داستان الم سب سانپوں کو سنائی اور انسان اور اس کے نغمہ کے ابدی دشمن بن جانے کی تلقین کی۔
سب سانپ رضامند ہو گئے۔ باہمی مشورہ سے انھوں نے ایک پنچ سالہ پروگرام مرتب کیا جس میں وہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کریں گے اور زیادہ سے زیادہ آدمیوں کو ڈسیں گے۔
ادھر اولاد آدم نے بھی سانپوں کے اس پروگرام کا بھید پالیا۔ انھوں نے اپنی عورتوں کے مشورہ سے زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ ان کی نسل قائم رہے اور جہاں تک بس چلےگا وہ اپنی لاٹھیاں برسا کر سانپوں کے سر کچلتے رہیں گے۔۔۔انھیں کبھی دودھ نہ پلائیں گے۔
گھنے سایہ دار برگد نے اس سنسان جگہ کو اب بھی سڑک سے چھپا رکھا تھا۔ کہیں کہیں گھاس اگ رہی تھی۔ جیسے جوانی سے ذرا پہلے کسی نوجوان کی مسیں بھیگ رہی ہوں۔ ایک طرف ہموار ڈھلوان چلی گئی تھی اور دوسری طرف ایک ٹیکرا تھا۔ جیسے وہ کنواری دھرتی کا ابھرا ہوا سینہ ہو۔۔۔اور بنسری بجتی رہی!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.