تالیوں کی گونج میں وہ سٹیج کی طرف بڑھی۔ آج اس کے لئے بہت بڑا دن تھا۔ اس کی خوشی کی انتہانہ تھی اور خوش ہوتی بھی کیوں نہیں آج وہ اپنی ایک نظم کی وجہ سے ملک کے سب سے بڑے ادبی ایوارڈ کی حقدار قرار پائی تھی۔ یہ اسکا دیرینہ خواب تھا، جو آج پورا ہونے جا رہا تھا۔ سٹیج پر آئی، تالیاں تھمیں تو اس نے پہلے حاضرین کی فرمائش پر اپنی نظم پڑھ کے سنائی، ایوارڈ وصول کیا اور اپنے جذبات کا اظہار کیا، وہی نپی تلی باتیں خوبصورت لہجہ جو اسکی شاعری کو ایک انوکھا روپ دیتا تھا۔ خوشی اور جوش سے اسے اپنے جذبات پر قابو پانا مشکل ہو رہا تھا، مگر ادبی محفل کے تقاضوں نے اسے روکا ہوا تھا۔
لیکن گھر آتے ہی اس کے نہ تو قہقہے تھم رہے تھے نہ باتیں ختم ہو رہی تھیں۔ مبارکباد کے فون آ رہے تھے اور وہ سب سے ہنس ہنس کر مبارکباد وصول کر رہی تھی۔ گھر آتے ہی سب سے پہلے وہ فیس بک پر اپنا سٹیٹس اپ ڈیٹ کرنا نہ بھولی تھی۔ جس میں اس کی نظم اور ایوارڈ کی تقریب کی تصاویر تھیں۔ سارا دن بہت مصروف گزرا تھا۔ تھک کے بھی اسے تھکن کا احساس نہیں ہو رہا تھا۔ اپنے نرم اور آرام دہ بستر پر آکے لیٹی تو جیسے اس کے رگ و پے میں سکون اور خوشی خون کے ساتھ گردش کر رہے تھے۔ اپنے ایوارڈ کی مبارکبادیں فیس بک پر وصول کرتے، ان کے جواب ویتے کب اس کی آنکھ لگی اسے پتہ ہی نہ چلا۔
*
اماں بہت بھوک لگی ہے۔ یہ سوال تھا یا فریاد، جو کہ بشیراں کے بچے ہر وقت اس سے کرتے رہتے تھے۔ چار بچوں کا ساتھ تھا۔ سب سے بڑی بیٹی نو سال کی تھی، پچھلے سال ہی ان کا باپ مزدوری کے دوران عمارت کے اوپری حصے سے پاؤں پھسلنے کی وجہ سے گر کر ہلاک ہو گیا تھا۔ بشیراں کی نہ تو صحت اجازت دیتی تھی کہ وہ بہت زیادہ کام کر سکے نہ ہی حالات، کیونکہ سب سے چھوٹا بچہ جو کہ ابھی صرف ڈیڑھ سال کا تھا اسے کسی کے پاس چھوڑ کے وہ کام کرنے نہیں نکل سکتی تھی۔ غریبوں کی بستی میں نزدیک کوئی ایسا گھر نہیں تھا جہاں وہ کام کر کے کچھ آمدنی کا وسیلہ پیدا کرتی، نہ ہی ارد گرد کوئی ایسا گھرانہ تھا جو خداترسی میں ہی اسے اور اسکے بچوں کو اپنا بچا کچھا دے دیتا، سب کی اپنی اپنی مصروفیات تھیں زندگی کو دھکا دینے کے لئے مرد اور عورتیں برابر مشقت کرتی تھیں ایسے میں کوئی بھی ایسا نہ تھا جو کہ اس کے بچوں کا خیال رکھتا اور وہ مزدوری یا کوئی کام کر سکتی۔ کوئی ہنر بھی اس کے ہاتھ میں ایسا نہ تھا کہ گھر بیٹھے ہی کچھ کما سکتی۔
اس صورت حال میں بچے ایک مستقل بھوک کا شکار تھے، جو تھوڑا بہت ملتا تھا اسے جھپٹ جھپٹ کے کھا لیتے جو کچھ بھی کاغذ یا لفافے پر لگا رہ جاتا اسے اس حد تک چاٹ جاتے تھے کہ کاغذ بھی گل کے پھٹ جاتا تھا۔ اس کے بعد بھی للچائی ہوئی نظروں سے یوں دیکھتے رہتے تھے جیسے کاغذ کے اندر سے ہی کھانا نکل آئےگا اور وہ اسے پھر سے جھپٹ لیں گے۔
ایسا روز ہی ہوتا مگر بشیراں دن میں ایک بار ہی ان کے لئے تھوڑا بہت روکھا سوکھا کھانے کا انتظام کر پاتی تھی۔ باقی سارا وقت اس کا اسی ادھیڑ بن میں گزرتا کہ اگلے دن کہاں سے اور کس طرح وہ ایک وقت کے بھی کھانے کا انتظام کر پائےگی۔
مستقل بھوک کا عفریت ان کے آنگن میں ڈیرا ڈالے بیٹھا تھا، بچوں کی ترسی ہوئی نظریں سارا وقت دروازے پر لگی رہتی تھیں۔ ماں جب گھر میں داخل ہوتی تو یوں اس کی طرف لپکتے جیسے آج تو وہ ان کو خوش خبری دے گی کہ آج کی رات وہ بھوکے نہیں سونے والے، آج کی رات وہ شکم سیر سوئیں گے اور اگلے دن بھی انہیں کھانا ملےگا۔ ہر روز اس امید سے نظریں دروازے سے داخل ہوتی ہوئی ماں کی بجائے اس کے ہاتھوں پر جمی ہوتیں اور ہر روز وہی مایوسی ان کا نصیب ہوتی۔
مگر آج دروازے سے داخل ہوتی ماں کے ہاتھ خالی تھے لیکن ہونٹوں پہ مسکراہٹ تھی۔ایک طمانیت بھری مسکراہٹ۔بچے حیرت زدہ سے اسے دیکھ رہے تھے۔وہ اندر آئی تو سب اس کے گرد گھیرا ڈال کے کھڑے ہو گئے۔
‘‘اماں کھانا؟‘‘ جن لبوں پہ یہ سوال نہ تھا انکی آنکھوں میں بھی یہ پکار تھی۔ماں نظروں کا مفہوم بھی سمجھتی تھی۔
’’سنو!‘‘ اس نے سب کو ایک ساتھ مخاطب کیا۔
’’کل ہم سب ایک ایسی جگہ چلیں گے جہاں بہت سارا کھانا ہوگا، ہمیں بھوکے نہیں سونا پڑےگا، جہاں نہ گرمی تنگ کرے گی نہ سردی،م سب بہت خوش ہونگے، کوئی دکھ نہیں ہوگا وہاں۔‘‘ بچے دبے دبے جوش اور حیرت سے ماں کی بات سن رہے تھے۔
’’اماں کون سی جگہ ہے وہ؟ ہمیں ابھی لے چلونا، چھ سال کی فاطمہ نے توتلی زبان میں کہا۔‘‘
’’نہیں ابھی نہیں، ابھی میں تم لوگوں کو میٹھی روٹی بنا کے دیتی ہوں پھر کھا کے سب سو جانا۔ صبح ہم سب ضرور وہاں ہونگے۔‘‘ ماں کے تسلی بھرے لفظوں سے بچوں کو ڈھارس ہوئی تو سب چولہے کے گرد گھیرا ڈال کے بیٹھ گئے۔ بشیراں نے کنستر میں بچے کچھے آٹے میں چینی ڈال کے اسے گوندھا اور روٹی بنانے لگی۔
*
تاریکی اور گھٹن کا احساس بہت شدید تھا، وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اب وہ ہیولے کچھ واضح ہوئے تھے، وہ پانچ تھے۔سفید لباسوں میں ملبوس، ان کے چہروں پہ طمانیت اور گہرا سکون تھا لیکن ان کی آنکھوں میں گلہ تھا۔ وہ آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھے چلے آ رہے تھے۔
‘‘کون ہو تم لوگ ؟اور کیا چاہتے ہو؟‘‘ خوف سے اس کے حلق سے پھنسی پھنسی آواز نکلی۔
‘‘حیرت ہے تم ہمیں نہیں جانتی؟ عورت کے لہجے میں طنز تھا۔‘‘
’’نہیں میں نہیں جانتی تم لوگوں کو، کون ہو تم لوگ اور یہاں کیوں آئے ہو؟‘‘ اس نے سنبھل کر جواب دیا۔ ایک عورت اور چار بے ضرر سے بچوں سے اسے ڈرنے کی ضرورت بھی کیا تھی؟
’’ہم وہ ہیں جن کی وجہ سے تمہیں اپنی زندگی کے سب سے بڑے خواب کی تعبیر ملی ہے اور اب تم ہمیں ہی نہیں پہچان رہی۔‘‘
’’کون ساخواب کیا تعبیر؟ کیا باتیں کر رہے ہو تم لوگ؟‘‘ وہ واقعی نہیں جانتی تھی یا انجان بن رہی تھی۔
’’تم جانتی ہو اس رات کیا ہوا تھا۔ تم نے سب سنا تم خود وہاں آئی تھیں، تم نے سب کے ساتھ مل کر افسوس کے کچھ جملے کہے اور اپنی گاڑی میں بیٹھنے تک اپنی اگلی نظم کا عنوان اور پہلی کچھ سطریں بھی سوچ چکی تھیں۔‘‘
’’میں نہیں جانتی تم لوگ کون ہو اور کیا چاہتے ہو؟‘‘ اب کے اس کے لہجے میں کچھ خوف ملی جھنجھلاہٹ شامل تھی۔
’’اچھا تم نہیں جانتی تو میں تمہیں بتاتی ہوں۔ جس دن تم ہمارے گھر آئی تھیں اس سے ایک رات پہلے میں نے اپنے بچوں کو دلاسا دیا تھا ایک نئی دنیا کی امید دی تھی ان کی آنکھوں کو کچھ خواب دیئے تھے، جن کی خوشی میں انہوں نے زہر ملی روٹی بڑے آرام سے کھا لی تھی چھوٹے کے دودھ میں زہر ملایا تھا میں نے۔ اگلے دن تم ہم سب کی لاشوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اپنی شاہکار نظم سوچ چکی تھیں بس اب ایک سوال پوچھنے کے لئے ہم یہاں آئے ہیں کہ ہماری خود کشی سے تمہیں تو ایوارڈ مل گیا ہم جیسے باقی لوگوں کو تو آج بھی ایک وقت کا کھانا نہیں ملا اور کتنے لوگ یوں خودکشی کریں گے اور تم جیسے شاعر اور ادیب ہماری قبروں پر ایوارڈ وصول کرتے رہیں گے؟۔‘‘
فلک کی آنکھ کھلی تو وہ پسینے میں شرابور تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.