باجی
’’ائی عالیہ! اُدر اُدر دیکھو جی۔ تخت کے نیچے۔ واں بول رئیوں میں۔‘‘ کلثوم وحشت زدہ تھی۔ ’’دیکھ لی جی۔ سو وخت پھول جھاڑو ماری۔ کئیں بھی نئی ہے وہ اُجاڑ ہیرا‘‘، میں جل کر بولی۔ ’’جاؤ جاکے بول دیؤ باجی کو۔ کیکو تو بھی سارے غفار منزل کا جینا حرام کررئیں انوں؟ ہم لوگاں خالی اُن کے خدمتاں کرنے کو نہیں پیدا ہوئے۔ بہت کاماں ہیں ہمارے کو۔ میرا امتحان ہے کل بائیلوجی کا۔ جاؤ یاں سے ! اُجاڑ صورت۔‘‘ میں نے کلثوم کو دھتکارا۔ وہ بے چاری نماز کا دوپٹہ اوڑھے، عصر کی نماز توڑ کر ادھر بھجوائی گئی تھی۔ باجی کا عتاب نازل ہونے کے ڈر سے تھر تھر کانپ رہی تھی وہ۔ آنکھیں حلقوں سے ابلی پڑی تھیں۔ مگر میں عالیہ معین الدین غفار منزل کی بھگت سنگھ تھی۔ میری بلا سے باجی کاہیرا گم ہوجائے یا وہ خود۔ میرے کانوں پر تو جوں نہ رینگی۔
نظام آباد، ہندوستان۱۹۷۵ء
اُس دن میرے نانا کی حویلی ’’غفار منزل‘‘ میں ایک قیامت صغریٰ برپا تھی۔ کیونکہ باجی کے جڑاؤ لچھے کا ایک ہیرا گم ہوگیا تھا، جو اُن کی ساس نے اُن کی منہ دکھائی کے طور پر اُن کے گلے میں ڈالا تھا۔ پندرہ کمروں، چار اونچی چھت والے ہالوں، بے شمار دالانوں، کوٹھریوں، صحن اور صحنچوں پر مشتمل، اس کوٹھی کا نام ’’غفار منزل‘‘ اُس کی دو منزلہ پیشانی پر ایسے کندہ تھا، جیسے دلہن کے ماتھے پر جڑاؤ ٹیکا، جو کہ دلہن کا غرور ہوتا ہے۔ میرے نانا سید اسحق جدی پشتی سید تھے اور انھیں نظام آباد میں واقع اس غفار منزل پر بہت ناز تھا۔
حیدرآباد دکھن سے کوئی ڈیڑھ سو میل کے فاصلے پر واقع، نظام آباد میں وہ خاصے معتبر اور متمول شرفاء میں گردانے جاتے تھے۔ کثیر الاولاد تھے مگر پے در پے بیٹیوں کے باوجود کبھی ماتھے پر شکن نہیں آئی۔ تمام بیاہی بیٹیاں، داماد، بیٹے غفار منزل اور اس کے احاطے ہی میں مقیم تھے۔ ہم پندرہ سولہ خالہ زاد، ماموں زاد، تایازاد اسی حویلی میں گھلے ملے پل بڑھ رہے تھے۔
قصہ مختصر اُس دن ’’غفار منزل‘‘ میں قیامت صغریٰ برپا تھی۔ درجن سے بھی زیادہ ملازمین، بنڈی بان، مامائیں، حمّال، سب چھپنے کے لیے کونے کھدرے تلاش کررہے تھے۔ یہ سب باجی کی دشنام طرازی سے عاجز تھے۔ شمو، جو اُن کی دست راست خادمہ تھی، وہ تو اپنی قبر کھودے تیار بیٹھی تھی۔ بس کفن کا انتظار تھا منہ مری کو، کیوں کہ دنیا میں جو بھی برا ہو، چاہے ہٹلر برطانیہ پر چڑھ دوڑے یا خاندان میں کسی سو سالہ بزرگ کا ہی انتقال ہوجائے، باجی شمو ہی کولے مرتیں۔ ’’شمو ماٹھی ملی صبح صبح اپنا اُجاڑ منہ لے کو آئی تھی، روتی صورت۔ جب اچ میرا جڑاوی لچھا ٹٹ کو گیا اور دیکھے دیکھے تک ایک ہیرا گم ہوگیا۔ انے اچ گمائی ہوں نگی۔ رذیل! کمینی! چُٹی! نکالو اس کو کام سے ڈلاہے انے۔‘‘ باجی سے سب ہی عاجز آئے ہوئے تھے۔ سوائے اُن کے چھوٹے بھائی اختر کے۔ جو دن رات باجی!باجی! کی گردان کیے جاتے تھے اور وہ بھی میرا اختر! میرا اختر! کی دولن کیے جاتیں۔ باجی دراصل میری خالہ نمبر تین تھیں۔ اختر میاں کی باجی! اختر میاں کی باجی! سنتے سنتے پہلے بچوں نے پھر بہنوں، ملازموں، ممانیوں، یہاں تک کہ نانی جان نے بھی متینہ خالہ کو باجی کہہ کر پکارنا شروع کردیااور پھر وہ جگت باجی ہی ہو کر رہ گئیں۔
نظام آباد، ہندوستان۔ ۱۹۵۲ء
میری پیدائش سے بہت پہلے کی بات ہے کہ بٹوارہ ہوچکا تھا۔ سید اسحق، حیدرآبادی اُس پر سے سید، بس کریلا نیم چڑھا ہوگیا۔ کسی رشتے کو خاطر میں نہ لاتے تھے کہ بچیوں کی ابھی عمر ہی کیا ہے۔ لیکن ایک دن جب میرے نانا سارنگ پور کی زمینوں سے واپس آئے تو رضیہ بیگم، اُن کی بیوی نے، انھیں احساس دلایا کہ تمام نہیں توچھ بچیاں یوں جوان ہوچکی ہیں جیسے لکڑی کی پیٹی میں رکھی کیریاں۔ ڈھکن ہٹاؤ تو ایک دن اچانک تمام کی تمام پک کر آم بن جاتی ہیں۔ اب گھبرا کر سید اسحق نے دامادوں کے سید ہونے کی شرط ہٹادی، لیکن حیدرآبادی اور شریف ہونا اب بھی لازم تھا۔ یوں بڑی دو بیٹیوں کے لیے دو دولہے ایک ہی دن غفار منزل آگئے۔ بڑے داماد زمیندار گھرانے کے تھے لیکن مسجد میں موذن تھے۔ منجھلے بہت ہی غریب محلے سے تھے، لیکن حیدرآبادی اور پھر سید نکل آئے۔ دونوں شادیاں مناسب اور عزت دار طریقے سے انجام پائیں۔ میمونہ اور محسنہ اپنے اپنے گھروں کی ہوئیں۔ محسنہ بحری جہاز سے پاکستان سدھاریں۔
چھ ماہ بعد ہی غفار منزل پھر سج گئی۔ کاغذ کے پھول لہرانے لگے۔ ہلدی، مہندی، چکسا، ابٹن، چنبیلی کے تیل اور سہاگ پڑے سے دونوں دلہنوں کی مسہری اور کمرہ مہک اٹھا۔ تمام بچیوں کے لیے بروکیڈ کے ایک ہی تھان سے لمبی فراکیں اور ساٹن کے پاجامے سلوائے گئے۔ اور سارے لڑکے شیروانی اور پاجاموں میں ملبوس یوں ہی معتبر سے لگنے لگے۔ اب باری تھی متینہ عرف باجی اور دوسری بہن معظمہ کی۔ سید اسحق کاروباری آدمی تھے۔ نظامآباد کے واحد ’’جوبلی ہوٹل‘‘ کے تنہا مالک۔ جہاں صرف حیدرآبادی طعام کا انتظام تھا۔ دلّی کے پکوانوں کا وہاں ذکر تک حرام تھا۔ حیدرآبادی دم کی بریانی، بکرے کے کچے گوشت کی بریانی، بگھارے بیگن، قبولی، خاگینہ، تلاہوا گوشت، سکّی دال، میٹھی دال، کھٹی دال، زبان کی نہاری، چاکنہ، بھیجہ وغیرہ تازہ اور خستہ کلچوں کے ساتھ ہمہ وقت میسر ہوتے تھے۔ اُن کے ایک اشارے پر باورچی احاطے میں پہنچ کر دیگیں کھڑکھڑانے لگے۔ بدری ناتھ سنار اور شطاری بنارسی پارچے والے پہلے ہی کپڑا لتا، لٹھا، کمخواب اور زیور پہنچا چکے تھے۔ عقد والے دن تمام خواتین نے بنارسی ساڑھیاں پہنیں۔ زیورات میں حیدرآبادی زیور گلسر، چندن ہار، ست لڑا، چمپا کلی، ترمنی چاند بالیاں، کرن پھول تو گویا مقابلے پر تھے، کہ دیکھیں آج کون زیادہ چمکتا ہے۔
جا بجا لوبان اور تازہ پھولوں کی مہک ماحول کو اور بھی معطر بنارہی تھی۔ ایسے دل آویز اور خوش کن ماحول میں ایک کہرام سا مچ گیا۔ عورتوں نے سینے پیٹ ڈالے۔ یہ دیکھ کر، کہ باجی کی ساس نے اُن کا گھونگھٹ الٹ کر، انھیں منہ دکھائی میں اصلی اکیس ہیروں کا جگ مگ کرتا جڑاؤ لچھا پیش کیا ہے۔ جو اُن کی نازک گردن سے چپک کر اُن کے نمکین حسن کو دوبالا کررہا تھا۔ اس میں کم از کم چھ بڑے اور پندرہ چھوٹے ہیرے جڑے تھے۔
آرسی مصحف کی رسم ہوئی۔ نقشین آئینہ لایا گیا۔ دلہن سر سے پیر تک پھولوں میں لدی، بدلی کے چاند کی طرح چھپی تھی۔ دلہا انور میاں بھی پھولوں کی بدّی پہنے زنان خانے میں چلے آئے۔ عورتوں اور بچوں کا ازدحام تھا جو دلہا دلہن اور آرسی مصحف کے سرخ محضرپر ٹوٹا پڑتا تھا۔ باجی کی آنکھیں شرم سے جھکی رہ گئیں، ورنہ وہ انور کے چہرے پر آنے والی ایک گہری شکن اور ناگواری کے تاثرات واضع طور پر دیکھ سکتیں۔ انور فاروقی پچھلے تین سال سے لندن میں مقیم تھے۔ برٹش لائبریری میں ملازم تھے۔ ناشتے میں نہاری پراٹھے کے بجائے توس، کچی زردی کا آملیٹ اور سیاہ چائے پیتے تھے۔ دن رات گوری میموں میں رہتے۔ بھلا وہ نمکین سی باجی کو کیوں کر پسند کرتے؟ تالاب میں تیرتی سفید جھک بطخوں کے درمیان، ایک فاختہ آکر بیٹھ جائے تو شرم سے ڈوب ہی نہ جائے وہ۔ یہی بے چاری کے ساتھ ہوا۔ آہوں، سسکیوں، دعاؤں اور سرگوشیوں کے درمیان دونوں دلہنوں کی وداعی ہوئی۔ دلہن کے نصیب میں خوشی نہ بندھی ہو، تو یہ ہیرے جواہرات، بھاری سلامی اور تحائف بھی اُسے زندگی بھر کا سکھ نہیں دے سکتے۔ یہی باجی کے ساتھ ہوا۔
دو ہی دن بعد انور میاں ملازمت کا عذرِلنگ تراش، ہوائی جہاز سے ولایت سدھارے۔ ابھی سرخ کھڑے دوپٹے میں بندھی، دلہن نام کی گٹھری کھلی بھی نہ تھی کہ واپس مائکے بھجوادی گئی، کہ دلہن اکیلی سسرال میں کیا کرے گی۔ بھرے پرے مائکے میں رہ کر اُس کا دل بہلا رہے گا۔
مگر کوئی دلہن کے دل سے پوچھتا کہ شرم و حیا کے غلاف میں لپیٹ کر جن ارمانوں کی اُس نے بیس، بائیس سال چوکیداری کی ہے، وہ اگر ناآسودہ رہ جائیں تو سوائے دلہا کے کوئی اور اُنھیں بہلا نہیں سکتا۔ غفارمنزل میں ساتھ شادی ہوئی بہن معظمہ کے ناز اٹھائے جارہے تھے۔ دلہا انھیں چھوڑنے آیا تھا۔ بہانے بہانے سے دہلیز سے لوٹ آتا اور نئی نویلی دلہن سے بات کرنے کا کوئی بہانہ تراش لیتا۔ دو ہی راتوں میں بہن کے چہرے پر سہاگ کا گلال نمایاں تھا۔ باجی دل مسوس کے رہ گئیں۔
’’میں امی کو بولی تھی دیکھو کہ استخارے میں اچھا اشارہ نئیں آیا۔ میری شادی واں نکو کرو۔ مگر ابا جان سنے اچ نئیں۔ میں استخارے کے اِرادے سے سوئی تھی تو کیا دیکھی مالوم کہ میرے ہاتھوں میں دو لڈواں ہیں۔ ایک سفید لڈو ایک کالا۔ میں ہاتھ بڑھاتے اچ کالا لڈو ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا تھا جی۔‘‘ غفار منزل کی ڈیوڑھی میں ٹہل ٹہل کر انھوں نے انور کو جی ہی جی میں کوسا اور ایک فیصلہ کرلیا کہ وہ شمو کے ساتھ حیدرآباد جارہی ہیں، بڑی نانی اماں کے پاس۔ رضیہ بیگم نے فوراً اُن کے حکم کی تعمیل کی۔ دراصل باجی کے دو والدین تھے۔ رضیہ بیگم نے تیسری بیٹی کی پیدائش پر باجی کو اپنی لاولد بہن، عارفہ کی گود میں ڈال دیا تھا۔ جو ڈاکٹر شفیع الدین سے بیاہی گئی تھی اور حیدرآباد کی ایک شاندار کوٹھی میں رہتی تھیں۔ خدا اپنی قدرت پرخود انگشت بدنداں تھا کہ ایک بہن کی گیارہ اولادیں اور ایک بہن اولاد کے منہ کو ترسے۔
دو سال بعد اختر کو بھی وہاں بھیج دیا گیا تھا۔ وہاں اُن دونوں نے بہت شاہانہ ماحول میں پرورش پائی تھی۔ گویا کہ وہ اور اختر دو ہی بھائی بہن ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بھی سگے باپ سے بڑھ کر فرض نبھایا۔ گھڑ سواری، پیراکی کی باقاعدہ تربیت دی گئی۔ شکار پر دونوں بھائی بہن ڈاکٹر صاحب کے ساتھ جایا کرتے۔ لڑکپن میں باجی کبھی کبھار اخترماموں اور بڑی تائی ماں کے ساتھ غفار منزل آتیں، تو کسی بہن بھائی کو منہ نہ لگاتیں۔ اعظم ماموں کی شادی پر سب کنواری بہنوں نے کھڑے دوپٹے پہنے اور باجی نے کتان کی ساڑھی پہن ڈالی۔ گھونگریالے بالوں کا جوڑا باندھا اور چھوٹے آستین کا بلاؤز پہنا۔ اماں دانت پیس کر رہ گئیں مگر اب باجی پر اُن کا کوئی حق نہ تھا۔ بہنیں آگے پیچھے نثار ہوتی رہیں لیکن باجی کے ابرو چڑھے کے چڑھے رہے۔ منہ میں بدبو اٹھ گئی مگر کسی سے کلام نہ کرکے دیا۔ ولیمے کے اگلے دن موٹر میں بیٹھ حیدرآباد واپس چلی گئیں۔ غفار منزل والوں کو یوں لگا جیسے ملکہ وکٹوریہ نظام آباد کے دورے پر آئی تھی۔
اسی باجی کو آرسی مصحف کے دوران نقشین آئینے میں دیکھ کر انور میاں نے منہ موڑ لیا۔ ہوا یوں تھا کہ اس شادی سے دو سال قبل ڈاکٹر شفیع الدین اچانک اللہ کو پیارے ہوگئے۔ بڑی نانی ماں اس مرگ ناگہانی سے گم سم ہوگئیں اور دنیا مافیا سے بے خبر رہنے لگیں۔ رضیہ بیگم نے باجی اور اختر ماموں کو غفار منزل بھیج بلوایا۔ حیدرآباد کے مکان پر تالا ڈال دیا گیا جو کہ ڈاکٹر صاحب باجی کے نام کرگئے تھے۔ اب باجی کے وہ کروفر نہ رہے۔ حیدرآباد میں شب خوابی کا لباس پہن کر اونچے چھپرکھٹ پر تنہا سوتی تھیں۔ غفار منزل میں اُن کے یہ چونچلے کون اٹھاتا۔ چار بہنوں کے ساتھ کمرے میں رہنے لگیں۔ اختر ماموں کچھ دن بولائے پھرے۔ پھر انھوں نے غفار منزل کی حقیقت کو یوں ہی قبول کرلیااور جوبلی ہوٹل میں ہاتھ بٹانے لگے۔
بجائے میز کرسی کے یہاں سولہ افراد کا سلیمانی دستر خوان لگتا اور رات کو مردوں اور لڑکوں کا محمدی بستر۔ بیاہتا جوڑے البتہ اپنے اپنے کمروں میں بسرام کرتے۔ بقول رضیہ بیگم کے باجی بے طرح بگڑ چکی تھیں۔ کسی کام کو ہاتھ لگانا تو دور کسی سے سیدھے منہ بات نہ کرتیں۔ سالانہ پکنک پر سارنگ پور گئیں، تو درخت کے نیچے دھوپ کا چشمہ لگائے کوئی ناول پڑھتی رہیں۔ سب بچوں نے لنگڑی پالا، کھوکھو، پہل دوج کھیلا، رسی کودی۔ تمام خالہ خالوؤں تک نے کوڑا جمال شاہی کھیلامگر وہ اختر ماموں کو قریب بٹھا، ناول میں گم رہیں۔ بالآخر سب نے انھیں اُن کے حال پر چھوڑ دیا۔ جب باجی اور معظمہ خالہ کی شادی ہوئی تو سب نے سکھ کی سانس لی، کہ اب تو یہ انور میاں کے ساتھ لندن چلی جائیں گی۔ سب کی ان سے جان چھوٹے گی۔ مریض چاہتا بھی یہی تھا اور ڈاکٹر نے دوا بھی وہی دی۔ مگر ایسا نہ ہوا۔
نظام آباد، ہندوستان ۱۹۶۲ء
انور میاں منہ موڑ کر بغیر کچھ کہے سنے لندن سدھارے اور باجی کو مائکے بھجوادیا گیا جہاں وہ میلے میں بچھڑے بچے کی طرح بھٹکتی رہ گئیں۔ گھبرا کر بڑی نانی ماں کی طرف لپکتیں تو وہ ہمہ وقت جائے نماز پر یا سجدہ ریز ملتیں۔ حج کے بعد انھوں نے صرف اللہ سے لو لگالی۔ باجی سوچنے لگیں کیا میں مستعار لی ہوئی کوئی چادر یا شال تھی، جسے استعمال کے بعد بڑی بہن نے چھوٹی بہن کو شکریے کے ساتھ واپس کردیا؟ میں کس کی تو بھی ہوں؟ رضیہ بیگم یا عارفہ بیگم یا انور؟ کون ہے میرا؟ یہ سوال وہ ہر کسی سے بولتی آنکھوں اور خاموش ہونٹوں سے پوچھتی رہیں، مگر کہیں سے جواب نہ پاکر وہ اپنے آپ کی ہوگئیں۔ ایک شب والد سید اسحق ایسے سوئے کہ صبح فجر قضا ہوگئی۔ پتہ چلا کہ قضا انھیں لے گئی۔ سلیٹی برقعے میں لپٹی رضیہ بیگم نے غفار منزل کی لگام اپنے ہاتھوں میں لے لی۔ صحن میں بیٹھ کر زمینوں سے آئی فصل کا حساب کرتیں۔ بے شمار ملازمین اور ہرکارے برطرف کردیے گئے۔ شمو اب بھی باجی کے ساتھ ساتھ تھی۔
رضیہ بیگم نے ترس کھا کر اب باجی کو الگ کمرہ دے دیا تھا۔ معظمہ پورے دنوں سے تھیں۔ اُن کا ابھرا ہوا پیٹ اور سوجے ہوئے پیر دیکھ کر باجی کو بہت حیا آتی بلکہ گھبراہٹ سی ہوتی۔ پہلے پہل عورتوں نے اُن سے بہت باز پرس کی کہ اُن کا پاؤں بھاری کیوں نہیں ہوا؟ آخر کو انور دو، چار دن تو ساتھ رہے تھے؟ ہر مرتبہ باجی جواب گول کرجاتیں۔ ذہن میں جھپاکا سا ہوتا، جب دلہن بنی باجی سجی ہوئی مسہری کے ایک کونے میں ساری رات بیٹھی رہ گئیں اور نشے میں دھت انور نے اُنھیں چھونے کی زحمت تک نہ کی۔ کسے بتاتیں دل کا حال؟ کسی کو بھی تو اپنے قریب آنے نہ دیا تھا۔ دم چھلا بنا اختر بھی اب اُن کے پاس کم کم ہی آتا تھا۔ جوان ہوچکا تھا۔ پپا کا جوبلی ہوٹل اُس نے خوش اسلوبی سے سنبھال لیا تھا۔ دن بھر باجی اپنے جہیز کے جوڑے نکال کر انھیں الٹتے پلٹتے رہتیں، بار بار گنتیں۔ کبھی کبھار صحن میں دھوپ دینے کے لیے پھیلاتیں۔ کیسے کیسے مخمل اور جامہ وار کے تنگ بلاوز، دبکے اور کارچوب کے کام والی ساڑھیاں، جوتیاں، لندن کے پرفیوم، پرس اور کمخواب کے لہنگے موجود تھے۔ یہ سب نظام کے میوزیم کا حصہ معلوم ہوتے تھے۔ باجی اس تمام سازوسامان کے پاس کرسی ڈالے سارا دن بیٹھی رہتیں۔ بظاہر کوئی تاریخی ناول پڑھ رہی ہوتی تھیں لیکن دراصل نگاہ اپنے سازوسامان پر ہوتی تھی، کہ کوئی کام والی، مسالہ پیسنے والی یا خاص کر شمو کچھ اچک نہ لے۔ پھر شمو کی مدد سے یہ تمام تر سامان ایک ٹرنک میں بند کرکے اس پر موٹا قفل ڈال دیا جاتا۔ اس اثنا میں دو بھائیوں اور دو چھوٹی بہنوں کی شادی طے ہوگئی۔ باجی مرے دل سے رسومات میں حصہ لیتی رہیں۔ دراصل وہ اپنی حیثیت کا تعین نہیں کرپارہی تھیں کہ کنواری تھیں یا سہاگن؟ مطلقہ کہ بیوہ؟ دھتکاری گئی عورتوں کو اللہ جانے کیا کہتے ہیں۔ وہ سوچتی رہ گئیں کہ اچانک ایک دن انور کا ٹیلی گرام آیا، جو کہ اُن دنوں عام طور پر موت کی خبر دینے کے لیے ہی آیا کرتا تھا۔
غفار منزل میں پھر کہرام مچ گیا کہ اب باجی بیوگی کی چادر اوڑھ لیں گی، مگر پتہ چلا کہ انور حیات ہیں اور اُنھوں نے باجی کو لندن آنے کا کہا ہے۔ باجی بلاوجہ ہی شرما گئیں۔ اور وہ گردن جو کچھ دنوں سے بہنوں کے آگے جھکنے لگی تھی، دوبارہ اکڑ گئی کہ اب تو وہ لندن سدھارنے والی ہیں۔ اماں نے بیٹیوں کے جہیز چھوڑ ان کے اسباب کا بندوبست شروع کردیا۔ درزی آکر گھر ہی بیٹھ گیا۔ انگریزی کیٹلاگ سے مغربی کاٹ کے جوڑے سلنے لگے۔ کٹوری والے بلاؤز بنے۔ ایک بلاؤز کی تو آستین ہی نہیں تھیں۔ کمرے میں باجی اسے پہن کر فٹنگ ملاحظہ کررہی تھیں میں دھڑ سے اندر چلی گئی۔ ڈانٹ تو بہت پڑی لیکن جاتے جاتے میں نے دیکھ لیا تھا کہ باجی کا جسم بہت سانولا ساہے۔ جب کہ دیگر ممانیوں کا اور خود میری امی کا رنگ دمکتے سونے جیسا تھا۔ باجی کا جہیز ازسرِنو تیار ہوگیا۔ پرانے شاہانہ جوڑوں کے ساتھ مغربی لباس بھی سلوا کر سوٹ کیسوں میں بند کردیے گئے۔ باقی زیور انھوں نے اماں کی تحویل میں دیا۔ مگر اُس اُجاڑ صورت ہیرے کے جڑاؤ لچھے کو، لمبے سے مخملی ڈبے میں بہت احتیاط سے رکھ کر ساتھ لیا اور انتظار کرنے لگیں کہ کب ٹکٹ آتا ہے۔ اُن دنوں برطانیہ کے لیے ویزہ وغیرہ کی بندش نہ تھی۔
اچانک ایک دن ڈاکیہ نیلے سے رنگ کا ایروگرام دے گیا۔ انور کا خط تھا جو کہ متینہ بیگم کے نام تھا۔ تھرتھراتے ہاتھوں سے انھوں نے کاغذ کھولا تو انور نے اپنی مالی تنگی کا ذکر کرنے کے بعد، باجی کو خاص تاکید کی تھی کہ حیدرآباد والا مکان بیچ کر اپنا حصہ کھرا کریں۔ اُسی سے جہاز کا ٹکٹ خریدیں، بقیہ رقم ایجنٹ کے ذریعہ لندن انور کے اکاؤنٹ میں منتقل کریں اور آجائیں، ورنہ۔۔۔ اس لفظ ’’ورنہ‘‘ نے سارا کھیل بگاڑ دیا۔ باجی تو اس ’’ورنہ‘‘ کی کبھی عادی نہ تھیں۔ یہ خط کسی طور پر ایک شوہر کا محبت نامہ نہ تھا بلکہ کسی عدالت کا حکم نامہ لگتا تھا جو ڈاکیہ آکر اُن کے ماتھے پر چسپاں کرگیا۔ سب کو خبر ہوگئی۔ آن کی آن میں غفار منزل کی بیبیاں سر جوڑ کر بیٹھ گئیں۔ سادہ سی رضیہ بیگم نے مطلق اعتراض نہ کیا۔ ویسے بھی اسحق صاحب کے گزر جانے کے بعد وہ اٹپٹا سی گئی تھیں۔ بقیہ بیٹیوں کے رشتے اس سرعت سے طے کرنے لگیں جیسے کوئی سبزی بھاجی ہو بلکہ، ڈھنگ دار اور کفایت شعار بیبیاں تو سبزی ترکاری کا مول تول کرنے میں بھی زیادہ وقت لگاتی ہیں۔ نتیجتاً رنگ برنگے اور ذات بے ذات کے داماد، ادھر اُدھر گھومتے غفار منزل میں دھرنہ ڈالے پائے جانے لگے۔ اماں کے اصرار اور اختر میاں کے مشورے پر، وہ ایجنٹ اور شمو کے ہمراہ حیدرآباد مکان کا سودا کرنے تو چلی گئیں، لیکن وہاں جاکر حالات نے پھر سے رُخ پلٹ لیا۔ عصر کی نماز میں سلام پھیرا تو پرانی آرام کرسی پر ڈاکٹر شفیع قیلولہ کرتے پائے گئے۔ ابھی ابھی کانگریس کی میٹنگ سے آئے تھے۔ کوٹ پتلون اتار کر چوڑے پائنچے کے ڈھاکہ پاجامے اور بنیان میں اونگھ سے گئے۔ باجی بار بار ڈیڈی ڈیڈی کی تکرار کیے گئیں، مگر وہ وہاں ہوتے تو جواب دیتے۔ بھلا ہیولے بھی کبھی بات کرتے ہیں۔
مغرب کے وقت مطب میں بتی روشن کرنے گئیں تو دل دھک سے رہ گیا۔ بڑے ابا کے تمام نسخے، طب کی ضخیم کتابیں، ادویات اور خالی بوتلوں پہ کمپاؤنڈر کے ہاتھ کے لگے خوراک کے لیبل پیلے سے پڑ گئے تھے۔ دن بھر آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس، آکاش وانی اور ریڈیو سیلون بجانے والا بڑا ریڈیو خاموش تھا۔ دیوار سے لگی شاٹ گن زنگ آلود ہورہی تھی۔ کلینڈر چار سال پہلے کی کسی تاریخ کو بجا رہا تھا۔ وقت وہیں ٹھہر سا گیا تھا۔ سارے گھر میں ایک سکوت بلکہ سکرات کا سا عالم تھا۔ مکان ہی کیا وہ تہذیب بھی تو جاں کنی سے گزر رہی تھی۔ جو لوگ پاکستان نہیں گئے تھے وہ نہ زندوں میں تھے نہ مردوں میں۔ کچھ کو اپنوں کے ہجر نے مار رکھا تھا، کچھ کو فاقہ کشی نے اور کچھ کو شاہانہ ٹھاٹ باٹ کے لٹ جانے کا ملال تھا۔
رات ہوئی۔ شمو ہی نے سارے گھر کی صفائی کی۔ پڑوس کے رائو صاحب کے ہاں جاکر اُن کے چولہے میں کھٹی دال بگھاری۔ ہر سال بقرعید پر بڑے کے گوشت سے سوکھے ڈوری کے کباب سکھالیے جاتے تھے۔ شمو نے آتے ہوئے ایک پوٹلی میں وہ بھی باندھ لیے تھے۔ پڑوس کی گیتا رائو نے سبزی ساتھ بھجوادی، کہ آخر کو ڈاکٹر صاحب کے والی وارث آج گھر آئے ہیں، کچھ تو خاطر و مدارات ہو۔ شمو نے ایک کانچ کی رکابی دھو کر برآمدے میں بچھے تخت پر دستر خوان لگایا، خود پنکھا لے کر بیٹھ گئی۔ چار سال سے مکان بند پڑا تھا، بجلی کٹ چکی تھی۔ شمو نے لالٹین کی لو تیز کردی۔ دو نوالے کھا کر باجی کے گلے میں کھانا پھنسنے لگا۔ آنکھیں میچ لیں تو آنسو حلق میں اترنے لگے۔ اس آنگن میں کیسی کیسی ضیافتیں ہوتی تھیں، ان آنکھوں نے کیا کیا نہ دیکھا تھا۔
ربیع الاوّل کے کونڈے، کھیر پوریاں، کان چھدائی، عقیقے، بسم اللہ، میٹھی عید پر شیر خرمہ، بقرعید پر دم کی بریانی، محرّم میں کھچڑا، روٹ، ہریسہ، لوز اور دودھ کا شربت جس پر بڑے نانی ماں بہت عقیدت سے لوبان کا دھواں دیتے تھے۔ شبِ برأت پر چنے کا حلوہ پھر ہولی، دیوالی، دھن تیرس، شرادھ اور گن پتی بپا موریا۔ یہ سب تہوار اور ان کی رونقیں تو سانجھی تھیں۔ کبھی نہ سوچا کہ رمضان میرا تو ہولی تیری۔ کنواں تک سانجھا تھا۔ آنگن میں ایک ہی باؤلی تھی، درمیان میں آٹھ دس لال اینٹیں چن کر دیوار سی اٹھادی گئی تھی کہ بڑے نانی ماں پردے کی پابند تھیں۔ پانی کی ضرورت ہوتی تو اُدھر سے رائو صاحب کے گھر والے ڈول ڈال لیتے تھے، کبھی اِدھرسے باجی یا اختر پانی نکال لیا کرتے تھے۔ کسی جھگڑے کا خیال بھی کبھی نہ گزرا تھا۔ لیکن اب ہندوستان کی طرح اس کنوئیں کا بھی بٹوارہ ہوچکاتھا۔ رات سونے کے لیے شمو نے مسہری پر مچھر دانی تان دی، باجی کے نازنخروں سے وہ بہ خوبی واقف تھی۔ بہت دیر باجی کے پیر دباتی رہی مگر حد ادب ملحوظ تھا، غریب یہ نہ پوچھ سکی کہ کروٹ لیے باجی کسے دیکھ رہی ہیں؟ وہاں تو کوئی بھی نہ تھا!اور مسلسل روئے کیوں جارہی تھیں؟ اب تو خیر سے ولائت جانے والی ہیں۔ سنتے ہیں کہ گھنٹوں ہوائی جہاز ہوا میں پرندے کی طرح اڑتا ہی چلا جاتا ہے، جو سانس لینے کو رکے تو گر پڑے۔ شمو گھبرا کر رام رام کرنے لگی۔ شمو ذات کی کھتری تھی مگر بے اندازہ غریب۔ آٹھ سال کی عمر میں نرسہما، جو سید اسحق کی بنڈی (بیل گاڑی) چلاتا تھا، ہیضے سے چل بسا، پیچھے یہ غریب شیاما چھوڑ گیا۔ رضیہ بیگم نے اُسے اپنے سایہ عاطفت میں لے لیااور پھر وہ شیاما سے شمو ہوگئی۔ شمو تلگو سے زیادہ حیدرآبادی بولتی اور ہاتھ کے نیچے کے سارے کاماں کرتی تھی۔ باجی کو سوتا سمجھ کر شمو باہر برآمدے میں چٹائی پر سوگئی۔ ہلکی بارش دو دن سے جاری تھی۔ ٹین پر بجتے سرگم نے لوری کا کام دیا اور وہ جھٹ سے سو گئی۔
وہ رات غضب کی طوفانی رات تھی۔ اُس رات حیدرآباد میں تو برائے نام طوفان آیا مگر باجی کی زندگی میں غضب کے جھکڑ چلے۔ ڈاکٹر صاحب کی آغا حشر کے تھیٹر والی چنگھاڑتی آواز، جب وہ ظلم کے آگے سینہ سپر کھڑے ہوجایا کرتے تھے، باجی کے کانوں میں گونجنے لگی۔ بڑے نانی ماں کے ممتا بھرے ہاتھوں کا لمس، جب وہ باجی کے ماتھے پر بار بار بخار دیکھا کرتی تھیں، باجی کو اچانک محسوس ہوا اور اُن کی رضائی دہکنے لگی۔ اُنھیں انور کا دھتکارنا، ساس کا رال ٹپکاتے ہوئے بولنا، ’’ایو! رضیہ بیگم، انور تو ولایت کے دولا ہیں۔ جوڑے کی رخم پانچ ہزار سے کم کیا لیؤں گی مئیں۔ ہو؟ متینہ کا رنگ بھی ذرا سنولا ائچ ہے۔‘‘ اور پھر وہ منحوس نیلے رنگ کا ایروگرام جو اُن کی مٹھی میں دباہوا تھا۔ صبح ایجنٹ نے خریدار رمل سیٹھ کو لے کر آنا تھا۔ پھر رجسٹری اور دوسرے جھمیلے ہونے تھے۔
صبح فجر کی اذان سن کر باجی کی آنکھ لگی۔ شمو چائے لے کر آئی تو باجی بے خبر سو رہی تھیں۔ جب تک ایجنٹ اور رمل سیٹھ بیعانے کی رقم سنبھالے آتے، باجی مکان پر بھاری تالا ڈال نظام آباد واپس جانے والی ٹرین میں بیٹھ چکی تھیں، کہ ان شرائط پر عقد قائم کرنے سے طلاق اچھی۔ صبح وہ منحوس نیلا ایروگرام بھنگی کچرے میں لے گیا۔ سنتے ہیں کہ چھ مہینے میں باقاعدہ طلاق کے کاغذاں موصول ہوگئے۔ بڑے نانی ماں تویہ سنتے اچ سجدے میں گئے اور وہیں اچ جاں بحخ ہوگئے۔
نظام آباد، ہندوستان ۲۰۰۲ء
باجی غصے میں دندناتی ہوئی آئیں، ’’کون میرے بورچی خانے میں گھسا؟ شکر کی برنی ابھی اچ بھر کو رکھی تھی مئیں۔ آدھی ہوگئی ناں؟ شمو! تم اچ ہیں، چٹی! گانڈ کی ہڈی توڑئیوں تمہاری، ادھر آ لونڈی!‘‘ شمو سامنے زمین پر سجدہ ریز تھی اور تھر تھر کانپ رہی تھی۔ قہرالہی سے بھی بڑھ کر باجی کا عذاب جو اُس پر نازل تھا۔ تیس پینتیس سال میں باجی تیس پینتیس گنا زیادہ چڑچڑی اور بدزبان ہوچکی تھیں۔ ’’کل اچ میں دس آماں گن کو رکھی تھی۔ دیکھے دیکھے تک چار اچ رہ گئے۔ کون تو بی ہے تیرے سوا، بول؟ باپ کا مال سمجھ کو کھارئی؟ لونڈی! چھنال! ڈلا!‘‘
آج پھر پورا غفار منزل اُن کی گالیوں اور مغلظات سے گونج رہا تھا، مگر سب بیبیاں اپنے اپنے کاموں میں ایسے لگی ہوئی تھیں جیسے یہ روز مرہ کا معمول ہے۔ جس دن باجی کاہیرا گم ہوا تھا میں بمشکل سولہ سال کی تھی۔ آج سولہ سال کی میری بیٹی ہے۔ میں عالیہ سے اب ڈاکٹر عالیہ معین الدین FRCS بن چکی تھی۔ اس دوران باجی کو اپنی اور دو ایک کزنز کی شادیوں پر دور سے دیکھا تھا۔ مگر یہ جوسفید جھک بالوں والی چڑچڑی، بے ڈول اور بھدی بڑھیا میرے سامنے شمو کو لتاڑ رہی تھی، وہ باجی کیسے ہوسکتی تھیں؟ مجھے اُن کے کٹوری والے نیم برہنہ بلاؤز اور ریشمی ساڑھی سے جھلکتی، کسی ہوئی سانولی سی کمر اب بھی یاد تھی۔
عید کی تعطیلات تھیں، میں نظام آباد کسی میڈیکل ورکشاپ کے لیے آئی تھی۔ دل نہ مانا اور بے ساختہ اپنے ننھیال غفار منزل چلی آئی۔ نانی اماں اور میرے دو ماموئوں کے گزر جانے کے بعد، غفار منزل اب کسی گھنے مگر خزاں رسیدہ درخت کا سا لگتا تھا جو چھاؤں اب بھی دیتا ہو مگر بچی کھچی۔ بہت سارے کزنز سعودیہ، امریکہ اور یورپ نکل گئے تھے۔ ممانیاں وہی چولہوں سے اٹھ کر پلنگوں پر اٹواٹی کھٹواٹی لیے پڑ جاتیں۔ بیشتر خالہ زاد بہنیں اچھا پڑھ لکھ کر درس و تدریس سے منسلک تھیں۔ ہاں رضیہ بیگم کے چند نکمے داماد اب عظیم الشان نکھٹو ہوچکے تھے اور مجبوراً مساجد اور تبلیغ میں کسی طرح دل لگا رہے تھے۔ کلثوم میری پکی جانثاراور رازداں کزن بھی چھ بیٹیوں کے بعد اب نانی بننے کے مراحل میں تھی۔
باجی سے آمنا سامنا ہوا، اس سے پہلے کہ وہ مجھے پہچاننے کی کوشش کرتیں میں غڑاپ سے منجھلی ممانی کے تاریک کمرے میں گھس گئی۔ باجی کا اور میرا کوئی جھگڑا نہ تھا۔ دراصل میں ہمیشہ سے مختلف اور بہت سوالات کرنے والی بچی تھی۔ شاید اسی لیے ڈاکٹر بن پائی۔ باجی کو دیکھتے ہی میرے ماتھے کی شکنوں میں درجنوں سوالات تحریر ہوجاتے۔ یہ آپ ہیں؟ کہاں گئے آپ کے نخرے؟ کہاں ہیں آپ کی وہ خوشبو میں بسی دستیاں (رومال) جو آپ بھنگی کے صحن میں آتے ہی ناک پر رکھ لیا کرتی تھیں؟ آپ اتنی کنجوس اور شکی کیوں ہوگئی ہیں؟ بڑے نانا کی جائیداد آپ نے کیوں ہڑپ کرلی؟ اور اس قدر دولت کا آپ کریں گی کیا؟ اور ہاں، کہاں ہیں اختر ماموں اور اُن کے بچے؟ آپ کے حاصل حیات اختر ماموں، جو بھائی نہیں آپ کی اولاد تھے؟ اور پھر آپ کے بھتیجے بھتیجیاں، جن کے آگے آپ ہم سے سوتیلوں والا سلوک کیا کرتی تھیں؟ مرحومہ امی کی ڈانٹ کے ڈر سے یہ سوالات میں نے اپنے دماغ میں محفوظ رکھے، باجی کو رعایتی نمبر دے کر اُنھیں پاس کردیا اور بددل ہو کر واپس حیدرآباد نکلنے کی تیاری کررہی تھی، کہ اُسی رات باجی حمام میں پھسل کر کولہے کی ہڈی تڑوا بیٹھیں۔ عابد، جمیل، سجیل انھیں ہسپتال لے گئے۔
میں ممانی کے کمرے میں کان لپیٹے دبکی پڑی رہی کہ میری بلا سے۔ میری امی جان اور دیگر بہن بھائیوں کا حصہ نگل گئیں، مجھے ان سے کوئی ہمدردی نہیں۔ صبح مٹکتے ہوئے تیار ہورہی تھی کہ ہیڈ آفس والوں کا فون آیا، کہ آپ کا ٹرانسفر فی الفور نظام آباد کے رام دیال سرکاری ہسپتال میں کردیا گیا ہے، آج ہی جوائن کرلیں۔ میں وہیں دھم سے پلنگ پر بیٹھ گئی۔ مسلمان ڈاکٹروں کے ساتھ اس طرح کا بے مروت سلوک عام تھا۔ اگر یہ نہ قبول کرتی تو اس سے بھی چھوٹے اور گمنام دیہات، ورنگل یا ناندیڑ وغیرہ میں مجھے بھیجا جاسکتا تھا۔ اس سے تو نظام آباد ہی غنیمت تھا۔
میں عید کے دن شیرخرمہ اور دم کی بریانی ڈُھسکنے کے بعد پیر پھیلائے منجھلی ممانی کے بستر پر ڈھیر تھی، کہ مجھے اب وہیں ڈیرہ جمانا تھا۔ بے شک اُن کا کمرہ تاریک اور دقیانوس تھا مگر وہاں نیند بڑی اچھی آتی تھی۔ اچانک شمو بولائی بولائی ادھر سے اُدھر جاتی نظر آئی، ہولی ہے اِنے، میں نے سوچا۔ باجی ہسپتال میں ہیں، مرنے کو ہیں، چپ چاپ سب زیور ویور(جن کی چوری کا الزام وہ شمو پر پہلے ہی لگا چکی تھیں ) بٹور کر بھاگ کیوں نہیں جاتی پاگل! اتنے میں منجھلی ممانی کبابوں کا قیمہ ہاتھ میں لیے چلی آئیں۔ ’’ائی عالیہ! ذرا چکھ کے بتاؤ جی نمک ومک برابر ہے؟‘‘ ممانی دھپ سے میرے قریب بیٹھ گئیں۔ مسالوں، گوشت اور پھر اُن کے اپنے گوشت کی بو ناک میں گھسنے لگی۔ جانے کب سے نہیں نہائی تھیں۔ میری نظر اپنی فرانسیسی پرفیوم کی بوتل کی طرف غیر ارادی طور پر اٹھ گئی۔ چکھنے کے بہانے میں دو کباب کا مسالہ اور گٹک گئی اور بولی، ’’جی ممانی، وکھلی میں پِیسے ہوں گے ناں آپ؟ بہت مزے کے ہیں۔‘‘ ممانی بولیں، ’’ہو! ہم لوگاں مشیناں میں کاں پیستے؟ ساجد سب مشیناں بھیجے سعودی سے مگر ہم لوگاں شوکیسوں میں سجا کو رکھتے برتناں کے ساتھ، مہماناں آئے تو نکالتے۔ خراب ہوجائیں گے ناں۔ اپنی وکھلی مصل اچ اچھی ہے۔‘‘ میں نے دوبارہ اونگھنے کی تیاری کرلی۔ چار خالاؤں، دو کزنز اور اُن کے شوہروں کو مفت طبی مشورے دے کر میں بے طرح تھک چکی تھی۔ ’’یا اللہ کیسی تو بی عید ہے یہ، بچے، میاں سب سے دور۔‘‘ ممانی بولیں، ’’ائی عالیہ! تم باجی کو جاکے نئیں دیکھے اب تک؟‘‘ میں نے کہا، ’’بھئی گھر آجائیں گے اُنوں تو دیکھ لوں گی۔ کل سے تو اپنے ہسپتال جانا ہے۔ ڈیوٹی جوائن کرنا ہے، ممانی۔ میرا سامان کل حامد لا کے دیں گے۔‘‘ ممانی بولیں، ’’ائی دیوانے۔ باجی کب کا گھر کو آگئے۔ جاؤ اُن کے کمرے میں۔ نیچے تمھارے نانی ماں والا کمرہ دیے ناں اُن کو۔ اب چلیں گے پھریں گے کیسا؟ شمو بے چاری اچ سوب گو موت کررئی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ شکم پورکی ٹکیاں بنانے اٹھ گئیں۔ آخر کو عید کا دن ہے، شکم پوراور شیرخرمہ کے بغیر عید کیسی۔ نہانا دھونا، بننا سنورنا، مہندی، نئے کپڑے ۔۔۔ بھلا غفار منزل کی بیبیاں کیا جانیں۔ ہونہہ! سب پھوہڑ ہیں ہماری ممانیاں۔ باورچی خانہ، حمل، زچگیاں، اولاد اور پھر باورچی خانہ۔ اسی میں بے چاریاں ختم ہوگئیں۔
اُسی رات شمو نے مجھے دھڑ دھڑا کر اٹھادیا، ’’بی بی، بی بی، عالیہ بی، اٹھو جی! باجی کو سانس رک رئا۔‘‘ دل تو چاہا کہوں کہ جاکر اُن کا میلا چیکٹ تکیہ اُن کے منہ پر رکھ دے کہ جان چھوٹے اس مصیبت سے، لیکن پھر ڈاکٹری کا حلف نامہ یاد آیا۔ دوسرے منٹ اُن کے سرہانے موجود تھی مگر وہاں جاکر پچھتاتی ہی رہی۔ باجی نے تو شمو کا کفن کھسوٹ لیا۔ بولیں، ’’اس بدمعاش عالیہ کو کئیکولائے تم شمو؟ انے کاں کی ڈاکٹر۔ اس کو میں پڑھاتی تھی، tomorrow کے spelling اس کو آتے اچ نہیں تھے۔ کیسا بن گئی ڈاکٹر مالوم نئیں۔ اس کو سائنس سمجھ ہی اچ نہیں آتی تھی۔ بالکل مٹھس تھی اِنے۔ نجمہ بگاڑ کے رکھے تھے اس کو۔‘‘ سانس اُن کی نہیں دم میرا گھٹ رہا تھا وہاں آکر۔ ’’MBBSپاس ہوئے کی فیل ہوگئے؟ cheating کرکے نکالے ہوں گے تم ڈگری؟ ہو؟‘‘ میرا دل چاہنے لگا کہ ان کی رہی سہی سانسوں کی گنتی ابھی ختم کردوں۔ سرہانے رکھی ساری دوائیں نالی میں بہادوں اور پلاستر ہوئی ٹانگ پر زور سے وہ ڈنڈا ماروں، جو انھوں نے ساتھ ہی شمو کو بار بار بلانے کے لیے رکھا تھا۔ ’’باجی! میں MBBS کے بعد FRCS بھی کری۔ UK سے فل اسکالرشپ ملی تھی میرے کو۔‘‘ باجی طنزیہ بولیں ’’کس کو donation دیے کی؟ کیا نئیں کی؟ شمو! لونڈی کھڑے رئیں گی کیا۔ پانی پلا مردار۔‘‘ شمو لونڈی نے حکم کی تعمیل کی۔ ’’اس کو کئی کو بلائے تم۔ انے صحیح ڈاکٹر نئی ہے۔ ڈاکٹر ریڈی کو فون کرو بولی تھی میں۔ تکیے کے نیچے ڈائری میں سب نمبراں لکھی میں، نکالو۔‘‘ میں بولی، ’’باجی، آپ بالکل ٹھیک ہیں۔ ڈاکٹر ریڈی کو بلانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بس وہ کھڑکی کھول دو شمو۔ کمرے میں آکسیجن کی شدید کمی ہے۔‘‘ وہ غرائیں ’’نئیں کھولو کھڑکی، مچھراں آئیں گے۔‘‘ میں نے کہا، ’’نئیں آتے۔‘‘ جل کر میں نے پوری کھڑکی کھول دی۔
صبح کی تازہ ہوا کھیتوں کی مہک لیے اندر آگئی۔ ہوا میں خنکی تھی۔ شمو اُن کی پائنتی پر اونگھ رہی تھی، باجی کے چہرے پر بھی تازہ سانس لینے سے سرشاری سی آگئی۔ ڈاکٹرعالیہ نے مریض کے زخموں، پلاستر، ڈائٹ چارٹ، بلڈ پریشر وغیرہ کا مکمل معائنہ کیا۔ باجی سو گئی تھیں۔ میں نے انھیں غور سے دیکھا، ارے یہ تو امی لگ رہی ہیں اس طرف سے۔ میں نے کمرے میں چل کر اُن کو ہر زاویئے سے دیکھنا شروع کیا۔ بس بال اگر ایسے باندھ دیں تو۔۔۔ یا خدا، یہاں سے تو بالکل امی لگ رہی ہیں، امی بھی اسی طرح سینے پر ہاتھ باندھ کر۔۔۔ اچانک مجھ سے دو ہزار سال پرانا پیتل کا کوئی گلاس گرگیا۔ شمو جاگ گئی، ’’کیا ہوا بی؟‘‘ میں بولی، ’’کچھ نہیں، کمرہ بہت گندا ہے۔ صاف نئیں کرتے تم؟‘‘ شموبولی، ’’باجی کوئی چیز ہٹانے نہیں دیتے۔ کچھ بھی ہاتھ لگاتے تو بولتے میں چوری کرریئوں۔‘‘ میں نے کہا، ’’اچھا اچھا! یہ اب ٹھیک ہیں۔ میں سونے جارئی ہوں، کل وقت ملا تو دیکھ لوں گی ان کو۔‘‘
اگلے دن حامد میرا سامان لائے۔ جب میں منجھلی ممانی کے کمرے میں اپنا سامان رکھنے پہنچی تو پتہ چلا کہ کلثوم کی بیٹی، جو میرے ماموں زاد کی بیوی ہے، کی حاملہ بہو کو منجھلی ممانی کے کمرے میں رہنے کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔ اس کی زچگی کوئی چار ماہ بعد متوقع ہے۔ میں نے کہیں کمرہ کرائے پر لینے کا خیال ظاہر کیا توحامد، جو کہ بچوں کو حیدرآباد میں سنبھال رہے تھے، تلملانے لگے کہ اتنی جلدی کس طرح رہائش کا بندوبست ہوسکتا ہے۔ اور یہ، کہ عائشہ نے گھر پر عید پارٹی رکھ لی ہے، اُنھیں راستے سے کیک لے کر پہنچنا ہے۔ زین کی کراٹے کلاس ہے اور پھر گٹار ٹیچر نے آنا ہے۔ اور کہا کہ جب میں اپنے تمام فیصلے خود کرتی ہوں تو اُن کے نتائج بھگتنے کے لیے بھی مجھے تیار رہنا چاہیے۔ افرا تفری میں مجھے میرے سوٹ کیس، میرے طوطے ٹیپوسلطان کے پنجرے اور میرے دوتکیے، رضائی اور کھیس کے ہمراہ چھوڑ گئے ۔۔۔ ٹیں ٹیں ! ٹیپو سلطان مجھے دیکھ کر خوش تھا۔ اُس رات باجی کے کمرے میں چار لوگ سوئے۔ خود باجی، شمو، ڈاکٹر عالیہ معین الدین اور ٹیپوسلطان۔ اُن کا تاریخی بوسیدہ دیوان اب میرا ڈبل بیڈ تھا۔
صبح ہوئی، باجی ناشتے سے فارغ ہو کر سو رہی تھیں، میری آج نائٹ تھی۔ شمو اور میں نے سر پر دوپٹے باندھ کر کمرے کی صفائی شروع کی۔ دھول مٹی، مکڑی کے جالے، میز پر میل کی چیکٹ تہہ، ایک دیوار پر لکھے ہوئے بے شمار فون نمبرز، ٹوٹی الماری میں شاید گوتم بدھ کے زمانے کے اخبار رسالے، ڈاکٹروں کے پرانے نسخے، ہسپتال کی رسیدیں، دھوبی کا پرانا حساب، ٹوٹے چشمے، چشموں کی کمانیاں اور عدسے، پاندان کی ڈبیاں، عطر کی خالی شیشیاں، استعمال شدہ اور نئے ناڑوں کا بنڈل، الجھے ہوئے دھاگے، فریم، ادھوری کڑھائی شدہ کُرتے، اختر ماموں کے لکھے خطوط، امریکہ سے ریحان کے بھیجے پوسٹ کارڈذ اور ریحان کے بچوں کی برتھ ڈیز کی تصاویر، جانے کیا کیا تھا اس کمرے میں۔
اور پھر اچانک ایک تصویر باجی اور انور کے عقد کی نکل آئی۔ دوسری تصویر میں آرسی مصحف ہورہا تھا اور انور بے اعتنائی سے کسی اور جانب متوجہ تھے۔ یکایک باجی کڑکیں، ’’شمو لونڈی! کون میرے چیزاں اِدر اُدر کرا، کیا کیا چرالی تو میرے کو خوابِ غفلت میں دیکھ کے؟ ہاں ! بول!‘‘ شمو صمٌ بکمٌ مجھے دیکھ رہی تھی۔ میں اپنا کوٹ، اسٹتھواسکوپ اور پرس چپکے سے اٹھا نائٹ شفٹ کے لیے باہر نکل گئی۔ طوطا اپنی ’’ٹیں ! ٹیں ! ٹیں کرتا رہا۔‘‘ باجی بولیں ’’اَے اَئی یہ طوطا ماٹھی ملا کیئکو پکار را؟ اس کو لاؤ ادھر! اس کی منڈی چھانٹتیوں میں۔‘‘ شمُو بولی، ’’یہ طوطا نئیں، ٹیپو سلطان ہے۔‘‘ اور پھر ٹیپو سلطان کے ہوتے سوتوں کو جو لطیف گالیاں پڑیں، وہ مجھے سائیکل رکشہ تک سنائی دیں۔ مگر عجیب بات یہ ہوئی کہ میں یہ سب سن کر مسکرادی۔
رکشہ غلیظ سے رام دیال سرکاری ہسپتال کی طرف رواں دواں تھا۔ میں سوچنے لگی، امی میں نے کیوں سمجھ لیا تھا کہ آپ جاچکی ہیں؟ آپ تو باجی میں، معظمہ آنٹی میں، عقیلہ آنٹی میں، سب میں تھوڑی تھوڑی زندہ ہیں۔ کوئی خالہ آپ کی طرح بولتی ہیں تو کوئی آپ کی طرح پکاتی ہیں۔ کسی کے ہاتھ آپ کی طرح ہیں تو کسی کی آواز۔ آپ کا اونچا قد ساجد، عابد اور سجیل میں نظر آتا ہے اور آپ کی وہ روشن آنکھیں؟ جب بھی باجی مجھے دیکھتی ہیں مجھے کیوں لگتا ہے کہ آپ میرے پاس آگئی ہیں، مجھے گھور رہی ہیں۔ کل اُن کے گھنگریالے بالوں کی چوٹی کرنے کو میں ہاتھ لگائی تھی، مجھے لگا آپ لوٹ آئی ہیں۔ بس آپ گالیاں نہیں دیتی تھیں۔ رکشہ والا چندرمکھ رک گیا تھا، ’’اماں آگیا رام دیال۔ اترو جی۔ سوگئے کیا اماں؟‘‘
باجی بولیں، ’’عالیہ تم حامد میاں کو چھوڑ کے ادھر کئی کوتو بھی مرے۔ جاؤ ناں واں حیدرآباد۔ واں گول کنڈاہ ہے، لاڑ بازر ہے، ٹولی چوکی ہے اور پھر ایک اڈک میٹ ہے، بڑے نانی ماں کا محلہ۔‘‘
لگتا تھا پلنگ پر بیٹھے بیٹھے وہ حیدرآباد کی گلیوں محلوں میں گھوم رہی تھیں۔
میں بولی ’’جی، جاؤں گی باجی۔‘‘
فوراً پوچھا، ’’کب تو بی جاتے۔ چھ مہینے سے یہاں میرے سر پہ بیٹھے ۔۔۔ جاؤ۔ واں بچوں کو کیسا تو بی دیکھتا اُنے حامد؟‘‘
’’وہ بچے نہیں ہیں باجی، بڑے ہیں۔ سب کاماں کرلیتے۔ میرے کو کمانا بہت ضروری ہے۔‘‘
’’میاں کے ساتھ رہنا بھی بہت ضروری ہے ہولی، میں زندگی کیسا گزاری مالوم؟ اکیلے ! نہ میں اِس کی، نہ اُس کی۔ نہ کوئی میرا۔‘‘
طعنہ دینے کو تو میں تیار بیٹھی تھی، ’’کیوں اختر ماموں تو تھے ناں آپ کے اپنے۔ جب تک زندہ تھے آپ کا خیال کیوں نئیں کرے انوں؟ اور پھر اُن کے بچے ریحان، رضوان وہ سب کاں گئے۔‘‘
’’اختر میرا تھا، ہو! صحیح بولے۔ اب اُس کی زندگی وفا نہیں کری تو کیا کرنا۔‘‘
’’اور وہ ریحان؟ جس کو عید میں آپ سو روپے اور ہم کو پانچ روپے دیتے تھے؟ میٹرک میں اُنے تھرڈ ڈویژن پاس ہوا تو ہار، پھولاں اور مٹھائیاں آپ کرے۔ ہم کو خالی ڈانٹتے تھے۔ آٹھ آنے نئیں دیے میرے کو، کلثوم کو، غزالہ کو۔ میں تو فرسٹ ڈویژن پاس ہوئی تھی ناں باجی! آپ کو مالوم؟‘‘
میں سفاک عالیہ معین الدین، یہ بھی نہ دیکھا کہ وہاں آنسو تواتر سے رواں تھے۔ باجی بغیر ناک سڑکے روئے جارہی تھیں اور میں آج اُن کے تمام زخم کھسوٹنے بلکہ نوچنے کو بیٹھی تھی۔
’’کیوں نہیں آتے وہ لوگاں آپ کے پاس؟ امریکہ سے خالی فوٹواں بھیجتے رہتے، فون تک نہیں کرتے۔ پیسے تو بھیجتے ہوں گے۔ ہے ناں؟ ڈالراں؟‘‘
’’امریکہ کے حالات خراب ہیں عالیہ۔ مالوم نئی تمھارے کو؟ آئنگا جی۔ ریحان آئنگا۔ ذرا بچوں کے امتحانات ہوں گے تو آئیں گا۔‘‘
’’اچھا اس دفعہ کی عیدی کہاں ہے میری؟ اب تو میں آپ کے پاس ہوں۔ دیجیے۔ عید ابی پرسوں چ گئی ناں۔‘‘
ہمت کرکے انھوں نے تکیے کے نیچے سے بٹوہ نکالا اور پانچ روپے مجھ بھکارن کی ہتھیلی پر دھر دیے۔ میں نے نوٹ کو چوما۔
’’باجی! اب یہ والے پانچ روپے تو چلتے بھی نئیں۔ ڈالراں کاں ہیں جو ریحان آپ کو بھیجتا؟ شمو چرالی ہونگی، نئی؟ اچھا وہ آپ کا اکیس ہیروں کا جڑاوی لچھا کاں تو بی ہے؟ جو آپ علی بابا کے ویسا سات تالوں میں رکھتے تھے۔‘‘
میں انھیں ہنسانے کی ناکام کوشش کررہی تھی۔ میرے سامنے امی جو لیٹی تھیں۔
بولیں، ’’جھوٹی!‘‘
میں چونک گئی۔
’’ماٹھی ملی ہماری ساس! وہ سوب زیوراں نقلی تھے عالیہ۔ انور کے ویسا۔ وہ لوگاں میرا نئیں غفار منزل کا رشتہ لائے تھے، پپا سمجھے اچ نئیں۔‘‘
میرا حیرت سے کھلا منہ ٹیپو سلطان کی ٹیں ٹیں سے بندہوا۔
’’مگر تم یہ نوکری چھوڑو، حیدرآباد کو جاؤ، میاں کے ساتھ رہو۔ سہاگن ہیں ناں بھی تم، کیکو تو بھی مرد مکوڑوں کے ویسا رہتے، ہاں؟ چھوڑو یہ نوکری۔‘‘
’’میاں کی کمائی میں گزارہ نئیں ہوتا۔ مسلمان ڈاکٹروں کو ادھر اُدھر رہنا پڑتا۔‘‘
’’اکیلے رہ جائیں گے عالیہ تم۔ یہ وخت نکل جائیں گا ایک دم۔ تنہائی کا عذاب بڑا عذاب ہے ماں۔ سو عذابوں کا ایک عذاب جی۔‘‘
میری کمینی سوچیں مجھ پر غالب آگئیں۔ میں نے آخر میں اُن پر ہتھوڑا مارا۔
’’تو آپ کیوں یہ عذاب جھیلے؟ چلے جاتے انور خالو کے پاس ناں۔ آپ کی تو ناک بہت بڑی تھی، چالیس گز کی، کیسا جاتے۔ اب بھگتو۔ اور ہاں ! میں کل سے برآمدے میں سوجاؤں گی، باہر۔ یہ آپ کا ٹوٹا قدیم دیوان جس پر فرعون کا مردہ نکلا ہونگا، بھوت چرچر کرتا۔ میرے کو نیند برابر نئی آرئی یاں۔‘‘
اگلے دن ڈیوٹی سے آئی تو نیا دیوان چمکتی لکڑی اور سرخ مخمل کی مسند کے ساتھ کمرے میں یوں دمک رہا تھا، جیسے ویران جنگل میں برسات کے بعد سرخ بیر بہوٹی۔
کلثوم کی آخری بیٹی سعدیہ اور غزالہ کے بیٹے اکمل کی شادی تھی۔ میں FRCS کے لیے چار سال برمنگھم رہ کر آئی تھی۔ کیا ہندو ستانی کیا پاکستانی، ہر ایک کی شادی، ہولی، دیوالی، گربہ، ڈانڈیال، راکھی اور پھر شوخ مستی والی مہندیاں سب میں حاضر اور پیش پیش رہتی تھی۔ سعدیہ کی شادی کا سن کر دل باغ باغ ہوگیا، کہ غفار منزل پھر سے سجائی جائے گی۔ باورچیاں دیگیں کھڑکھڑائیں گے، جوبلی ہوٹل اور سید اسحق کی یاد تازہ ہوگی۔ مہندی گھر میں پیسی جائے گی، ابٹن گھولا جائے گا، چنبیلی کے منڈوے سے ہار پھول، سر کی چوٹی اور دلہا کی بدّی بنائی جائے گی۔ پہلے میلاد ہوگا پھر گانا بجانا۔ بچپن میں بڑی ممانی کو ہاتھ میں گھنگھرو پہن کر ڈھولک بجاتے دیکھا تھا۔
دیلان میں پنائے ہار، کیا خوشنما لگاکے
مالی نے لایا دونا، مالن نے لائی ہار
اماں نے پہنائے ہار، کیا خوشنما لگا کے
کانوں میں یہ گیت خود بہ خود گونجنے لگا۔ مایوں کی پیلی منڈپ، کچی مہندی کی خوشبو نتھنوں میں بھر سی گئی۔ رات بھر مہندی تھوپ کر امی ہمارے ہاتھوں پر کاغذ کے پُڑے باندھ دیتی تھیں، پھر بھی ہم سب کزنز سفید چاندنیوں کو داغدار کردیا کرتی تھیں اور صبح سب لڑکیوں کو پھٹکار پڑتی تھی۔ سوٹ کیس سے میں نے پیلی ساڑھی نکال کر شمو سے استری کروالی۔ ہاسپٹل میں اِڈلی ڈوسے کا لنچ کرتے ہوئے غفار منزل کے رت جگے یاد آئے۔ ساری رات سب خالائیں، ممانیاں، مامائیں اور چھوٹی سی شمو مل کر ملیدہ گلگلے بناتے۔ ہم بچے تو بس کھایا کرتے تھے۔ خستہ گلگلے کا ذائقہ منہ میں گھلا اور اچانک کینٹین کی اِڈلی سخت پتھر سی لگنے لگی۔
سائیکل رکشے میں سوار، آنے والی مہندی، سانچک، عقد خوانی، مہندی کی رسم کے بعد بہنوئی کی انگلی پکڑ کر دھینگانا لڑجھگڑ کر حاصل کرنا، جوتا چھپائی، سب کسی پرانی فلم کی کہانی کی طرح یکدم تازہ ہوگیا۔ ارے ہاں نکاح کا سہرا کون پڑھے گا؟ ابا جو کہ معقول شاعر تھے، ہر حیدرآبادی پڑھے لکھے مرد کی طرح، تو عام طور سے وہ اس خوبصورت روایت کے علَم بردار تھے۔ اب تو وہ بھی نہیں رہے تھے۔ شادی بارات، نوبت، شہنائی، مٹھائیاں، ولیمہ اور جمعاگیاں، ان سب میں میرا اگلا ہفتہ اچھا گزرنے والا تھا۔ شاید حامد بھی آجائیں عائشہ کے ساتھ، زین تو ہرگز نہیں آئے گا۔ خدا کرے باجی کوئی رنگ میں بھنگ نہ ڈالیں۔ ولیمے میں آتشی گلابی کتان کی ساڑھی پہن لوں گی۔ آستین ذرا چھوٹے ہیں توکیا ہوا، گھر والے ہی تو ہیں۔ چندر مکھ لطیف طنز سے بولا، ’’اماں !غفار منزل آگئی۔ پھر سوگئے کیا؟ آپ کے نینداں پورے نئی ہوئے جیسا ہے۔‘‘ لیکن رات تک میرے سب خواب چکنا چور ہوگئے۔ حیدرآباد سے کچھ خالائیں، کزنز اور اُن کی بہوئیں داماد تشریف تو لائے، مگر مرد حضرات زیادہ تر مسجد یا باہر دیوان خانے میں بیٹھے، بڑی بڑی ڈاڑھیوں میں خلال کرتے اور اپنے پیشانیوں کے گٹوں کو مزید گہرا کرنے میں مصروف رہے۔
غفار منزل کی بیبیاں بھی نمازوں اور حال احوال پوچھنے میں مشغول رہیں۔ پیلی ساڑھی پہن کر میں دنیا کی احمق ترین مخلوق لگ رہی تھی۔ وہاں فون سے کھیلتی دلہن سے پوچھا، ’’سعدیہ کب تو بی پانی نہاتے؟ پیلا کھڑا دوپٹہ یا کرتا پائجامہ پہنیں گے؟ بتاؤ، مایوں ہے ناں آج تمہارا۔‘‘ وہ بولی ’’مایوں؟ یہ کیا ہوتاخالہ؟ ابھی میرے کو صلواۃ التسبیح پڑھنے کاہے۔ اماں بولے کل ہمارا نکاح ہئنگا شربت پہ۔‘‘ میں حیران ہو کر بولی ’’خالی شربت پہ؟‘‘ سعدیہ بولی ’’ہاؤ! شکورخالو بولے اخدکا کھاناحرام ہے۔‘‘ میں نے پوچھا ’’اور مہندی؟‘‘ جواب ملا، ’’وہ تو بہت اچ حرام ہے۔‘‘
پھر مجھے پتہ چلا کہ اب غفار منزل کی آئینی دستاویز میں نہ صرف عقد کا کھانا بلکہ ہار پھول، مہندی، سنگھار، خضاب، ڈاڑھی مونڈھنا، بارات شادی کا رقعہ، ڈھول تاشے، گانا بجانا، ڈھولک، گلگلے، ملیدہ، ساڑھی بلاؤز، سنگھار، ہنسنا بولنا قہقہہ لگانا سب حرام ہے۔ ہر چیز ہندوؤں سے منسوب کردی گئی ہے۔ رات کو نئے دیوان پر لیٹے میں نے سوچا کہ کیا پانچ ہزار سالہ پرانی گنگا جمنی تہذیب صرف ہندوؤں کی میراث تھی؟ ہم مسلمان سب مکے مدینے اور سعودیہ میں رہتے بستے آئے تھے جو اب ہم سعودی طور طریقوں کو ہی اسلام سمجھنے لگے ہیں؟ پانچ وقت کی نمازی تو میں بھی ہوں۔ روزے پورے رکھتی ہوں۔ حجاب نہیں لیتی، لیکن یہاں اسلام ٹوپی، ڈاڑھی اور برقعے میں قید کیوں کردیا گیا ہے؟ ٹیپو سلطان ٹیں ٹیں ! ٹیں ٹیں ! کرکے مجھے خاموش کرواتا گیا۔
سعدیہ کے نکاح والے دن میں ڈیوٹی سے آئی تو باجی پلنگ پر اپنا سارا جہیز پھیلائے بیٹھی تھیں۔ اب واکر کے سہارے تھوڑا بہت چلنے لگی تھیں جو اُن کے عزیز از جان ریحان نے شکاگو سے بھجوایا تھا، جس کا ذکر وہ خداکے ذکر سے بھی زیادہ کرتی تھیں۔ شمو کی کمر دہری ہوچکی تھی۔ تمام ساڑھیوں، بلاؤز اور کڑھائی کیے ہوئے ریشمی ساٹن کے لہنگوں کو دھوپ لگا کر سمیٹتے ہوئے اندر باہر ہورہی تھی لونڈی۔ باجی بولیں، ’’اگے اندھی! وہ نکال وہ! کتھئی بنارسی ساڑھی۔ خالہ امی دیے تھے میرے کو عید پے، جیسے کی ویسی ہے۔ وہ استری کرکولا۔‘‘ میں نے پیار سے پوچھا ’’باجی، کتے پیارے ساڑھیاں ہیں جی۔ کس کو دے رئے آپ؟ سعدیہ کو؟ میرے کو بھی دیو ایک دو۔‘‘ جواب آیا، ’’کس کو بھی نئی دے رہی، میں پہن رہئیوں آج۔ سعدیہ کا عخد ہے۔‘‘ میں نے بمشکل ہنسی روکی، ’’اور تم کو دیوان دی میں اور کیا ہونا؟ پورے چھ ہزار کا آیا وہ۔ تم تو بھوت منگتے ہیں !اپنی اماں پہ گئے برابر تم۔ نجمہ بھی میرے کپڑے منگ منگ کے پہنتے تھے۔‘‘ مجھے ان کی گالیوں سے اب صرف مسّرت ملتی تھی۔ میں بولی ’’آٹھ دن سے آپ پانی نہائے نئی۔ چیکٹ ہورئے۔ کھٹی بو آرئی آپ کے پاس سے۔ میل کے بتیاں اتریں گے گردن سے اور آپ یہ بنارسی چوڑے بارڈر کی ساڑھی پہنتے؟ لوگاں ہنسیں گے باجی۔‘‘ شمو بھی کود پڑی، ’’ہو عالیہ بی! جس کو بولو انے انجان مار دے را۔ کون نہلائے گا ان کو؟‘‘ میں نیل پولش لگاتے ہوئے بولی، ’’میرے کو کیا مالوم۔ بلاؤ ریحان کی بیوی کو۔ آئی وی ہے ناں شادی میں۔ جھانک کے دیکھی باجی کے کمرے میں؟‘‘ باجی اڑتے رنگ کے ساتھ بولیں ’’ائی انے پانچ سال بعد امریکہ سے آئی۔ اپنے اماں باوا سے نئی ملیں گی کیا؟ تم بھی ہولے ہیں عالیہ۔ ڈاکٹر کیسا بن گئے کی؟‘‘ میں خود حیران تھی جب تھوڑی دیر بعد نیم گرم پانی کے لوٹے، میں باجی پر ڈال رہی تھی۔ وہ کرسی پر سر جھکائے بیٹھی مسلسل ہم دونوں کو کوس رہی تھیں۔ شمو اُن پر صابن شیمپو لگانے کے بعد اُن کی ایڑیاں نرم کپڑے سے مسل رہی تھی۔ بال روئی کے گالے جیسے ہوچکے تھے اور جلد ململ کے دوپٹے جیسی ہڈیوں پر جھول رہی تھی۔ گوشت ہڈیاں چھوڑے دے رہا تھا۔
مجھے اُس وقت شمو لونڈی کسی حورجیسی پاکیزہ اور حسین مورت نظر آئی۔ اُس کے چیچک زدہ چہرے کی وہ انڈے کی زردی جیسی رنگت، خون کی کمی صاف نظر آتی تھی۔ منحنی سی شمو جو چار گز کی معمولی سی ساڑھی میں مکمل سما جاتی تھی۔ کھچڑی بالوں کا ہمہ وقت چونڈا سر پر بندھا رہتا۔ ساڑھی ٹخنوں تک اور ہاتھ میں ہر وقت باجی کا کوئی نہ کوئی کام۔ اس وقت باجی کا جھانوا اُس کے ہاتھ میں تھا اور اُن کی لاتیں بھی وہ کھاتی جارہی تھی۔ باجی، شمو کو چھوڑ کر ریحان کی بیوی سے اتنی الفت کیوں رکھتی ہیں؟ دماغ نے پھر سوال داغا۔ ’’سر پہ پانی ڈالو بی، ادھر۔‘‘ مجھے لگا میں آج امی کو نہلا رہی ہوں۔ میں اُن کی بیماری میں تو کیا انھیں نہلاتی، میں تو وہ خود غرض ڈاکٹر تھی جو اُن کی میت پر ولایت سے حیدرآباد نہ آسکی، کیوں کہ دوسرے دن مجھے اپنا مقالہ پڑھنا تھا۔ میں اتنی مہنگی اور اعلی تعلیم کو کیسے ادھورا چھوڑ آتی۔ میں نے جانے کتنے لوٹے آنسو باجی کے بالوں کو مسلتے ہوئے اُن پر رول ڈالے۔ امی میں آپ کی خدمت نہ کرسکی۔ شاید اسی لیے آپ نے مجھے پھر ایک موقع دیا ہے۔ آپ کا دل ہمیشہ سے کشادہ تھا۔ شادی ہوتے ہی حامد کے ساتھ یوں رخصت ہوئی جیسے مائکے کا مجھ سے کوئی ناتا ہی نہ تھا۔ ہر وقت حامد اور حامد کے بچوں کی سیوا۔ آج وہی حامد اور بچے مزے سے میرے بغیر جی رہے ہیں۔ ان اٹھارہ سالوں میں کیا کھویا کیا پایا، سب خسارہ ہے۔ کتنے برس ہوگئے حامد اور میں نے ایک دوسرے کو پیار سے دیکھا تک نہیں، چھونا تو دور کی بات ہے۔ دماغ پھر پھوڑے کی طرح پکنے لگا۔ باجی، شمو سے بولیں، ’’اگے جاڑا ہورا میرے کو رانڈ، بس کر۔ شمو!کیا میری میت کا غسل دے رئے تم لوگاں؟ ختم تو بی کرو عالیہ! جاڑے سے مر رئیوں میں۔‘‘
شام کو سعدیہ کے عقد کے اسلامی اور عین شرعی چھوہارے چباتے ہوئے میں نے شربت کا گھونٹ پیا۔ شمو، باجی کی وھیل چیئر دھکیل کر لارہی تھی۔ باجی نے سرخ سنہرے چوڑے بارڈر کی کتھئی بنارسی ساڑھی آخر پہن ہی لی تھی۔ جڑاؤ لچھا، کرن پھول، جھمکے، ہاتھوں میں حیدرآبادی نگوں اور مسالے کا جوڑا، موٹی پازیب اور ہتھیلیوں پر سیاہ ہوتی ہوئی مہندی کی گول ٹکیاں اور انگلی کی پوریں۔ آنکھوں سے کاجل بہہ رہا تھا۔ غضب کا سنگھار کر رکھا تھا باجی نے۔ آج اُن پر کوئی لیبل نہ تھا۔ نہ سہاگن نہ بیوہ، نہ مطلقہ نہ دھتکاری ہوئی۔ آج وہ متینہ بیگم تھیں۔ نہ کسی کو ڈانٹا نہ کسی کو طعنہ دیا، سب سے بڑی شفقت سے ملیں۔ ریحان کی بیوی لمحے بھر کو قریب ہوئی اور سلام کے نام پر مکھی اڑا گئی۔ نہ باجی نے اُسے لتاڑا کے پیٹ میں منڈی ڈالے تو سلام ہوتا، یہ کون سا سلام ہے؟ اُلٹا باجی کو اُسے سلامی کا لفافہ تھماتے میں نے چپکے سے دیکھ لیا تھا۔ شمو اُن کی پشت پر الرٹ فوجی کی طرح کھڑی تھی، کہ باجی کب کوئی حکم صادر کریں اور اُسے بجا لانے میں تاخیر نہ ہوجائے۔ حکم عدولی کی کب وہ عادی تھی۔
اُس رات باجی ختم ہوگئیں۔ کنجوس تو سدا کی تھیں، سوچا ہوگا کہ بعد میں مروں گی تو سب لوگ حیدرآباد سے آئیں نہ آئیں، کیوں نا اسی خرچے میں وہ اپنی تدفین بھی کروالیں۔ برسات زوروں پر تھی۔ سعدیہ کی رخصتی کے بعد ماحول یوں ہی بوجھل سا ہوگیا تھا۔ بادل یوں گرج برس رہے تھے جیسے کبھی باجی غیض و غضب میں ہوا کرتی تھیں۔ اُس رات میں دیوان پر تھی۔ انھوں نے ساڑھی تبدیل کرکے اپنا تاریخی ملجگا جھبلا پہننے سے صاف انکار کردیا تھا، نہ زیور اتارے نہ چوڑیاں۔ بولیں ’’میرے کو بہوت اطمینان ہے عالیہ کہ تم میرے پاس ہیں اب۔‘‘ میں نے پوچھا ’’کیوں باجی۔‘‘ بلاوجہ میں خوش ہوگئی، ’’اس لیے کہ میں نجمہ کی بیٹی ہوں؟ اور امی آپ کو بہوت چاہتے تھے؟‘‘ وہ بولیں، ’’اس لیے کہ تم ڈاکٹر ہیں۔ اب کیسے بی ہیں، اوندھے چتے، میری طبیعت خراب ہوئی تو تم مفت میں میرے کو چیک کرلیں گے۔ ڈاکٹر ریڈی ماٹھی ملا، فیس بڑا دیا ناں۔ پورے دو سو روپے لیتا انے گھر آنے کے۔ واں گئے تو دو سو روپے۔‘‘ میں نے تسلی دی ’’باجی سوجائیں۔ کل میری مارننگ ہے۔‘‘
دراصل میں حامداور ارم کے افیئر کے بارے میں سوچ کر ماتم کرنا چاہتی تھی۔ ارم جو عائشہ کی ٹیوٹر تھی اور حامد سے کوئی پندرہ سال چھوٹی تھی۔ عائشہ نے ایک دن فون پر باتوں باتوں میں ذکر کیا تھا کہ حامد اور ارم گھنٹوں ساتھ رہتے ہیں۔ باجی کے خدشات درست تھے۔ سرہانے بیٹھے ناگ نے آخر میری شادی کو ڈس ہی لیا تھا۔ میں بولی، ’’تو دے دیں ناں چارسو روپے۔ اتی دولت اور جائیداد کیا خبر میں لے کے جائیں گے آپ؟‘‘ باجی مسکرا کر چھیڑتے ہوئے بولیں ’’ہو، لے جاؤں گی۔ تمھارے کو کیا۔‘‘
باجی رات کے جانے کس پہر خاموشی سے ان دیکھے جہانوں کی طرف پرواز کرگئیں۔ ہمیشہ کی طرح شمو پائنتی کی طرف بوسیدہ بوریے پر اور میں مخملی دیوان پر سوتے رہ گئے۔ کسی کو تکلیف نہیں دی۔ نہ نزع کا عالم، نہ جانکنی کا کرب۔ مکھن سے بال کی طرح اُن کی روح مزے سے اُن کا غبارے کی طرح پھولا ہوا جسم چھوڑ کر چلی گئی۔ غفار منزل کی پردے دار بیبیوں نے اسی کمرے میں کسی طرح اُنھیں غسل دیا۔ میں نے بھی ہاتھ لگایا اور امی کا کفارہ ادا کیا۔ اُن کی وہ سرخ کتھئی ساڑھی چوم کر اپنے سامان میں رکھ لی۔ کفن کی ڈھونڈ مچی تو شمو دوڑ کر الماری کے نچلے خانے سے آب زم زم میں بھگویا ہوا وہ کفن لے آئی، جو باجی نے اختر ماموں کے ہاتھوں مکہ سے منگوا کر رکھ لیا تھا جب وہ حج پر گئے تھے۔ کس قدر ڈسپلن تھا ان کی سوچ میں۔ کیسی دور اندیش تھیں۔ وصیت بہت پہلے ہی لکھوا کر وکیل کے حوالے کر رکھی تھی۔
جنازے کو تمام محرموں نے اٹھایا۔ شمو ننگے پاؤں جنازے کے ساتھ بے پردہ قبرستان تک دوڑتی رہی۔ کیسی بے حیا لونڈی ہے یہ۔ نہ برقعہ کا تکلّف نہ حجاب کا تردد۔ غفار منزل میں درود، فاتحہ، میت کا کھانا، سوئم وغیرہ تو حرام تھا ہی۔ اس لیے اگلے دن رات تک سب زندگی کے معمولات میں مگن ہونے لگے۔ شکاگو سے ریحان کا تعزیتی فون آیاتھا۔ پورے دو منٹ کا۔ زارو قطار رو رہا تھا بیچارا۔ صبح سویرے وکیل آیا باجی کی وصیت لے کر۔ سب لوگ دل ہی دل میں باجی کی جائیداد کا حساب کر ہی رہے تھے۔ وکیل کے نمودار ہوتے ہی غفار منزل کے دامادوں کو ٹھنڈ پڑی کہ اب ہوئی ناں بات۔ کیسی جنتی باجی تھیں کہ جانے کے بعد بھی ہمارا خیال کیا۔ لیکن اُن کی اُمیدوں کے برخلاف، بیشتر جائیداد انھوں نے اختر ماموں کی اولاد ہی کو دی تھی۔ سارنگ پور کی زمینوں میں سے ایک بڑا ٹکڑا جس پر ایک مکان بھی تعمیر تھا وہ شمو کو عطا کیا۔ شمو اُ س وقت ہر چیز سے بے نیاز، باجی کا کمرہ سمیٹ رہی تھی۔ اُسے یاد آیا کہ مرنے سے دو دن پہلے وہ پلنگ سے گر گئی تھیں۔ اٹھانے کے لیے محرم مرد اور عورتیں آہی رہے تھے، کہ باجی کی نظر پلنگ کے نیچے پڑے کچرے، کاغذ، مٹی اور جالوں پر پڑی۔ اپنا گرنا بھول، انھوں نے شمو کی خوب خبر لی تھی کہ لونڈی بالکل نکمی ہے، انھیں مرتا سمجھ کر پلنگ کے نیچے پھول جھاڑو لگاتی اچ نئیں۔
آج شمو کے پاس کوئی کام نہ تھا۔ اُس نے سارا کمرہ سینتا۔ پلنگ پر باجی کی پسندیدہ کھیس بچھائی۔ پلنگ کے نیچے اور اطراف پھول جھاڑو سے صفائی کی۔ اُن کے سرہانے میز پر پڑی دواؤں کا ایک ڈھیر تھا۔ پھر کھوپرے کے تیل کی شیشی، زندہ طلمسات کی شیشیاں، رومال، دستیاں، پنجسورہ، چھوٹا بٹوہ، عینک، دو انگوٹھیاں، رسالے، اخبار، دبئی کی ڈیوٹی فری شاپ کی تہہ شدہ تھیلیاں، Nivea کریم جو ریحان کی بیوی لائی تھی، سب صاف کرکے دوبارہ رکھ دیں۔ اُس کی آنکھیں بالکل خالی تھیں۔ ایسے جیسے کرائے دار مکان خالی کرجاتے ہیں۔ وہ خود سے کیا کرتی؟ وہ تو صرف باجی کے چابی دینے پر چلتی تھی۔ حکم کی غلام۔ آج اُسے حکم دینے والی ملکۂ عالیہ نہ رہی تھی۔ وہ بے کار ہوگئی تھی۔ اُس زمین کے ٹکڑے اور مکان کا وہ کرتی بھی کیا؟ غفار منزل ہی اُس کی حیات و موت تھا اور باجی اُس کی مائی باپ۔
اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے
اب رہائی ملے گی تو مرجائیں گے
چپ چاپ شمو نے بند کھڑکی کھول دی، تازہ ہوا برسات کی مہک لیے اندر آگئی۔ باجی کی آواز آئی، ’’ارے بند کر کھڑکی دیوانی! مچھراں اندر آجائیں گے ناں۔‘‘ شمو رونے کے بجائے مسکرادی۔ میں نے بہت پہلے اس کھڑکی میں مچھروں کی جالی لگوادی تھی۔ ہاں ! وصیت میں مجھے اپنی تمام کتابوں، نقلی زیورات، ساڑھیوں کے علاوہ باجی نے وہ دیوان بھی دے دیا۔
لندن، انگلستان ۲۰۱۰ء
آج میں لندن، جی ہاں انور کے لندن کی ایک معتبر میڈیکل یونیورسٹی میں پڑھاتی ہوں۔ آتے ہوئے ٹیپو سلطان اور باجی کا عطا کردہ دیوان بک کروا کے لے آئی تھی۔ اُس دیوان کو اپنے چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں کھڑکی کے ساتھ رکھا ہے۔ جب لندن کی خنک اور نم ہوا چلتی ہے تو غفار منزل سے باجی کی پاٹ دار اورطنزیہ آواز آکر میری روح کو سرشار کرجاتی ہے۔
’’ائی عالیہ۔ کون توبی ڈاکٹر بنادیا تم کو؟ تم کو تو structure of heartتک یاد اچ نہیں ہوتا تھا۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.