بالٹی سوار
سارا کوئلہ ختم، بالٹی خالی، بیلچہ بے مصرف، آتش دان ٹھنڈی سانسیں بھرتا ہوا، کمرہ منجمد ہوتا ہوا، کھڑکی کے باہر بتیاں ٹھٹھری ہوئیں، پالے میں لپٹی ہوئیں، آسمان ہر اس شخص کے مقابلے پر روپہلی سپر بناہوا جو اس سے مدد کا طلب گار ہو۔
مجھے کوئلہ مہیا کرنا ہوگا۔ میں ا کڑ کر نہیں مرسکتا۔ میرے پیچھے بے رحم آتش دان ہے۔ میرے آگے بے رحم آسمان ہے۔ تو مجھے ان دونوں کے درمیان سے گزرنا چاہیے اور اس سفر میں کوئلے والے سے کمک لینا چاہیے، مگر اس نے تو اب معمولی درخواستوں پر کان دھرنا چھوڑ دیا ہے۔ مجھے اس کے سامنے ناقابل تردید طور پر ثابت کردینا چاہیے کہ میرے پاس کوئلے کا ایک ریزہ بھی نہیں رہ گیا ہے، کہ میرے لیے اس کی ہستی ایسی ہی ہے جیسے آسمان پر سورج۔ مجھے ایسا بھکاری بن کے پہنچنا چاہیے جو کسی دروازے کے سامنے ہی جان دے دینے پر تلا ہوتا ہے اور اس کے گلے میں موت کی خرخراہٹ شروع ہوجاتی ہے۔ اور اسی لیے شرفا کا باورچی اسے کافی کی کیتلی میں سے تلچھٹ دینے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ بالکل اسی طرح یہ بھی ہونا چاہیے کہ کوئلے والا غصے میں بھرجانے کے باوجود ’’تو کسی کی جان نہیں لے گا‘‘ کے مقدس حکم کا پاس کرتے ہوئے ایک بیلچہ بھر کوئلہ میری بالٹی میں پھینک دے۔
وہاں میرے پہنچنے کا ڈھنگ ایسا ہونا چاہیے جو معاملے طے ہی کردے۔ اس لیے میں بالٹی پر سوار ہوکر نکلتا ہوں۔ بالٹی پر بیٹھا ہوا، ہاتھ بالٹی کے کنڈے پر جو لگام کی سادہ ترین قسم ہے۔ میں بمشکل خود کو ٹھیلتا ہوا سیڑھیوں سے اترتا ہوں۔ لیکن ایک بار نیچے پہنچ کر میری بالٹی بڑے ٹھاٹھ سے اوپر اٹھنے لگتی ہے، بڑے ٹھاٹھ سے۔ زمین پر بیٹھے ہوئے اونٹ بھی ساربان کی چھڑیاں کھاکر جھرجھری لیتے ہوئے اس سے زیادہ پروقار انداز میں نہیں اٹھتے۔ سخت یخ بستہ سڑکوں پر سے ہم سبک رفتاری کے ساتھ گزرتے ہیں۔ اکثر تو میں مکانوں کی پہلی منزل کی بلندی تک اٹھتا چلا جاتا ہوں۔ میں دروازوں کی پستی تک کبھی نہیں اترتا۔ اور آخر کار میں کوئلے والے کے محرابی چھت سے ڈھکے ہوئے تہ خانے پر کی غیرمعمولی بلندی تک تیرآتا ہوں۔ دوکاندار کو میں دیکھتا ہوں کہ میز کے سامنے سکڑا ہوا بیٹھا کچھ لکھ رہا ہے۔ اس نے فاضل گرمی کو نکالنے کے لیے دروازہ کھول رکھا ہے۔
’’کوئلے والے!‘‘ میں پکارتاہوں۔ کہر نے میری آواز کھوکھلی کردی ہے اور میری سانس کے بنائے ہوئے بادل نے اسے ڈھانپ رکھا ہے۔ ’’کوئلے والے! مہربانی کرکے مجھے تھوڑا سا کوئلہ دے دو۔ میری بالٹی اتنی ہلکی ہوچکی ہے کہ میں اس پر سواری کرسکتا ہوں۔ مہربانی کرو۔ جب بھی مجھ سے ہوسکا، میں تمہیں قیمت ادا کردوں گا۔‘‘
دوکاندار اپنے ایک کان پر ہاتھ رکھتا ہے۔
’’کیا مجھے ٹھیک سے سنائی دے رہا ہے؟‘‘ وہ پیچھے بیٹھی ہوئی اپنی بیوی سے پوچھتا ہے، ’’کیا مجھے ٹھیک سنائی دے رہا ہے؟ کوئی گاہک؟‘‘
’’مجھے تو کچھ بھی سنائی نہیں دیتا۔‘‘ اس کی بیوی کہتی ہے۔ بنائی کرتے ہوئے وہ سکون کے ساتھ سانسیں بھر رہی ہے۔ آگ اس کی پیٹھ کو بڑے مزے میں سینک رہی ہے۔
’’ہاں، ہاں، سنو تو سہی۔‘‘ میں چلاتا ہوں، ’’یہ میں ہی ہوں، پرانا گاہک، سچا اور کھرا گاہک، البتہ اس وقت محتاج ہوں۔‘‘
’’بیوی۔‘‘ کوئلے والا کہتا ہے، ’’کوئی ہے، بالکل ہے۔ میرے کان اتنا دھوکا تھوڑی دے سکتے ہیں۔ ضرور کوئی پرانا گاہک ہے۔ کوئی بہت پرانا گاہک جو مجھ سے اس طرح منت کر رہا ہے۔‘‘
’’کیوں پریشان ہو رہے بھلے آدمی۔‘‘ اس کی بیوی ذرا دیر کے لیے کام چھوڑ کر کہتی ہے اور بنائی کا سامان اپنے سینے سے بھینچ لیتی ہے، ’’کوئی بھی نہیں ہے، سڑک سونی پڑی ہے۔ ہمارے سب گاہکوں کو مال پہنچ چکا ہے۔ اب تو ہم کئی دن تک دوکان بند کرکے آرام کرسکتے ہیں۔‘‘
’’لیکن میں یہاں اوپر بیٹھا ہوں، بالٹی پر۔‘‘ میں چیخ کر کہتا ہوں اور بے حس جمے ہوئے آنسو میرے نظروں کو دھندلادیتے ہیں۔ ’’خدا کے لیے ادھر اوپر دیکھو۔ صرف ایک بار۔ میں تمہیں فوراً دکھائی دے جاؤں گا۔ میں منت کرتا ہوں۔ صرف ایک بیلچہ بھر۔ اور اگر کچھ زیادہ دے دو تو خوشی سے پاگل ہوجاؤں۔ تمام دوسرے گاہکوں کو مال پہنچ چکا ہے۔ مجھے بالٹی میں کوئلے کی کھڑکھڑاہٹ سننے ہی بھر کو مل جاتی۔‘‘
’’میں آرہا ہوں۔‘‘ کوئلے والا کہتا ہے اور اپنی چھوٹی چھوٹی ٹانگوں سے تہہ خانے کی سیڑھیاں چڑھنے چلتا ہے لیکن اتنے میں اس کی بیوی اس کے برابر پہنچ جاتی ہے، اس کا شانہ پکڑ کر کھینچتی ہے اور کہتی ہے، ’’یہیں ٹھہرو تم! تمہارا وہم نہیں جاتا تو میں خود جاکر دیکھے لیتی ہوں۔ رات کس بری طرح کھانس رہے تھے، اس کا تو خیال کرو۔ گاہک کا وہم بھی ہوجائے تو بیوی بچوں کو بھول بھال کر اپنے پھیپھڑے بھینٹ چڑھانے پر تل جاتے ہو۔ میں جاکر دیکھتی ہوں۔‘‘
’’تو اسے بتاضرور دینا کہ ہمارے پاس کون کون سا کوئلہ موجود ہے۔ میں یہیں سے پکار پکار کر دام بولتا جاؤں گا۔‘‘
’’اچھا اچھا۔‘‘ اس کی بیوی سیڑھیاں چڑھ کر سڑک پر آتے ہوئے کہتی ہے۔ ظاہر ہے وہ مجھے فوراً دیکھ لیتی ہے۔
’’کوئلے والی!‘‘ میں چلاتا ہوں، ’’میرا سلام قبول ہو۔ بس ایک بیلچہ بھر کوئلہ، اسی بالٹی میں میں خود اسے گھر لے جاؤں گا۔ سب سے گھٹیا میں کا بس ایک بیلچہ بھر۔ میں پورے دام دوں گا۔ ظاہر ہے، مگر ابھی نہیں، ابھی نہیں۔‘‘
یہ ’’ابھی نہیں‘‘ کے الفاظ کیسے گھنٹی کی طرح بجتے ہیں۔ کیسے چکرادینے والے انداز میں یہ الفاظ قریبی گرجاگھر کے مینار سے آتی ہوئی شام کے گجرکی جھنکار میں مل جاتے ہیں۔
’’ارے بھئی، اسے کیا چاہیے؟‘‘ دوکان دار پکار کے پوچھتا ہے۔
’’کچھ بھی نہیں۔‘‘ اس کی بیوی پکار کے جواب دیتی ہے، ’’یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ مجھے تو نہ کچھ دکھائی دے رہا ہے نہ سنائی دے رہا ہے۔ چھ کا گھنٹہ بج رہا ہے، بس اب دوکان بند کرنا چاہیے۔ بلا کی سردی ہے۔ کل بھی کاروبار سے فرصت ملنا مشکل ہی ہے۔‘‘
اسے کچھ دکھائی نہیں دیتا، کچھ سنائی نہیں دیتا۔ لیکن پھر بھی وہ اپنے سینہ بند کی ڈوریاں کھولتی اور مجھے ہنکادینے کے لیے سینہ بند کو ہوا میں گھماتی ہے۔ بدقسمتی سے وہ کامیاب ہوجاتی ہے۔ میری بالٹی میں عمدہ گھوڑے کی ساری خوبیاں موجود ہیں، سوا مزاحمت کی قوت کے، وہ اس میں نہیں ہے۔ میری بالٹی بہت ہلکی ہے، اتنی کہ ایک عورت کا سینہ بند اسے ہوا میں اڑا سکتا ہے۔
’’خبیث عورت!‘‘ میں جاتے جاتے چلاتا ہوں اور وہ مڑ کر دوکان میں داخل ہوتے ہوتے تحقیر اور اطمینان کے ملے جلے ا نداز میں مٹھی بھینچ کر ہوا میں لہراتی ہے۔
’’خبیث عورت! میں نے تجھ سے فقط ایک بیلچہ بھر سب سے بدتر کوئلہ مانگا، اور تو نے وہ بھی نہ دیا۔‘‘
اور یہ کہہ کر میں برف پوش پہاڑوں کے علاقے کی سمت پرواز کرتا ہوں اور ہمیشہ کے لیے کھوجاتا ہوں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.