Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بارش کے اس پار

قرۃ العین خرم ہاشمی

بارش کے اس پار

قرۃ العین خرم ہاشمی

MORE BYقرۃ العین خرم ہاشمی

    کن من کن من برستی بوندیں اسے اچھی لگتیں تھیں مگر۔۔۔!

    تیز موسلا دھار بارش اسے عجیب سی بے چینی میں مبتلا کر دیتی تھیں۔

    وہ ایک توانا مرد تھا۔ باہمت اور جوان۔۔۔! اپنے حوصلوں سے پہاڑ کو مٹی میں بدل دینے والا۔۔۔!

    وہ آسمان سے برستے پانی سے ڈرتا نہیں تھا مگر اسے برستا دیکھ کر چونک پڑتا تھا۔ جیسے کچھ یاد کرنے کی کوشش کرتا ہو مگر کیا؟ یہ اسے سمجھ نہیں آتی تھی۔ ایک پردہ سا حائل تھا۔ کسی ہونی اور انہونی کے درمیان۔ مگربارش دیکھ کر مہک ہمیشہ مچل جاتی تھی۔ وہ بارش میں بھیگنے کو ہر وقت تیار رہتی اور اس کی پوری کوشش ہوتی کہ حسن کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لے۔ مگر حسن ہاتھ اٹھا کر صاف منع کر دیتا۔

    ‘’تم نے بارش میں بھیگنا ہے تو بھیگو مگر مجھے مت کہنا۔ مجھے بہت الجھن ہوتی ہے۔‘‘

    مہک یہ سن کر کھلکھلا کر ہنس پڑی تھی۔

    ’’آپ کے نخرے تو لڑکیوں کی طرح کے ہیں۔ نہیں آنا تو نہ سہی، میں ہمااور ارم کو اپنے ساتھ لے جاتی ہوں۔‘‘ مہک نے اپنی دونوں چھوٹی نندوں کا نام لیا اور کمرے سے باہر نکل گئی۔ حسن نے سر جھٹکا اور لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گیا۔ کھڑکی پر برستی بوندوں کی آواز، اس کی خاموشی میں خلل ڈال رہی تھیں۔ اسے لگا جیسے وہ مسلسل دستک دے رہی ہوں۔ اسے پکار رہی ہوں۔ قدرت کے اس حسین نظارے کی دعوت دے رہی ہوں۔ کچھ دیر تک وہ کوشش کرتا رہا کہ اپنے کام پر توجہ مرکوز کر سکے مگر پھر تنگ آکر اپنی جگہ سے اٹھا اور کھڑکی کھول کر نیچے صحن میں دیکھنے لگا۔ آج بھی تیز ہوا کے ساتھ، پانی بہت تیزی سے برس رہا تھا۔ صحن میں مہک، ہما اور ارم نے شور ڈالا ہوا تھا۔ اماں اور ابا اندر سے انھیں مسلسل پکار رہے تھے۔ مگر وہ کچھ بھی نہیں سن رہی تھیں۔ حسن کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس کا چھوٹا سا گھر محبت اور امن کا گہوارہ تھا۔ جہاں تین سال پہلے مہک کے آنے سے مزید رنگ بھر گئے تھے مگر یہ رنگ ادھورے تھے ان کی ذات کی طرح۔ مہک کی میڈیکل رپورٹس کے مطابق وہ بانجھ تھی۔ اس کے ماں بننے کے چانسز نہ ہونے کے برابر تھے۔ حسن نے یہ سب جاننے کے باوجود بھی کبھی مہک کو چھوڑنے کا نہیں سوچا تھا۔ مہک کے والد اور ابا بہت قریبی دوست تھے۔ مہک کی ماں تو اس کے بچپن میں ہی وفات پا گئیں تھیں۔ اس لئے مہک نے اپنے والد کے علاوہ کوئی اور رشتہ نہیں دیکھا تھا۔ مہک حسن کے والدین کی پسند تھی۔ شوخ و چنچل، زندگی سے بھرپور۔! شادی کے بعد اسے گھر کے سب لوگوں سے اتنا پیار ملا کہ وہ اپنی ہر کمی بھول گئی۔ اس نے اپنی خوش اخلاقی سے سب گھر والوں کے دل موہ لئے تھے۔ حسن بہت خوش اور مطمئن تھا مگر شاید رب کو ان کی آزمائش منظور تھی۔ مہک نے ہر علاج سے ناکام ہونے کے بعد حسن کو دوسری شادی کرنے کی بخوشی اجازت دے دی تھی۔ اس کے باپ کا کچھ عرصہ پہلے انتقال ہو گیا تھا۔ اب جو بھی تھا، یہ گھر اور اس کے لوگ ہی اس کا سب کچھ تھے۔ حسن نے کبھی دوسری شادی کا ارادہ ظاہر نہیں کیا تھا مگر مہک کا دل جانتا تھا کہ ایسا ایک دن ضرور ہوگا۔

    وہ ان ہی سوچوں میں گم تھا جب بادل کی گرج دھمک سے ساری فضا گونج اٹھی۔ کالے بادلوں کی وجہ سے دن میں بھی رات کو سماں بندھ گیا تھا۔ اسی وقت بجلی زور سے کڑکی۔ ساتھ ہی تینوں نے چیخ ماری اور اندر کی طرف بھاگ گئیں۔ حسن کے ذہین میں ایک کوندا سا لپکا تھا۔ موسلادھار آسمان سے اترتا پانی اور پانی کی اوٹ میں سے جھانکتے دو سائے۔۔۔!! اس سے پہلے کہ وہ اپنے لاشعور کے پردے کو چاک کرتا، کمرے کا دروازہ کھول کر مہک اندر داخل ہوئی۔

    ‘’توبہ! اتنے زور سے بجلی چمکی کہ ہماری تو جان ہی نکل گئی تھی۔ اللہ رحم کرے۔‘‘ مہک نے الماری سے اپنا سوٹ نکالا اور واش روم کی طرف بڑھ گئی۔ جبکہ حسن پھر پنڈولم کی طرح ہونی اور ان ہونی کے درمیان جھولتا رہ گیا۔ اس نے گہری سانس لے کر دوبارہ کھڑکی سے باہر جھانکا تھا بارش کا زور ٹوٹ چکا تھا۔اب ہلکی کن جاری تھی۔ حسن نے اکتا کر کھڑکی بند کی تھی۔حالانکہ اسے کن من اچھی لگتی تھی مگرکبھی کبھی اپنی من پسند چیزیں بھی دل کو نہیں بھاتیں ہیں۔

    ’’پتا نہیں یہ دل کس گورکھ دھندے کا نام ہے۔ جو کبھی کسی حال میں بھی خوش نہیں ہوتا ہے۔‘‘

    حسن نے لیپ ٹاپ کے سکرین پر چمکتی روشنی کو دیکھ کر سوچا تھا۔

    ‘’نویدہ خالہ کے گھر سے کارڈ آیا ہے۔ اس کے پوتے کی شادی ہے۔‘‘ حسن شام کی چائے اماں اور ابا کے ساتھ بیٹھ کر پی رہا تھا۔ جب اماں نے ایک کارڈ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ اسی وقت مہک بھی وہاں آکر بیٹھ گئی۔ جبکہ ہمااور ارم اکیڈمی گئیں ہوئیں تھیں۔ ہما ایف۔ ایس سی کی طالبہ تھی۔ جبکہ ارم بی۔ ایس سی آنرز کی طالبہ تھی۔

    ‘’شادی تو اگلے ہفتے ہے۔’‘ حسن نے کارڈ دیکھ کر کہا۔

    ‘’ہاں آج نویدہ خالہ کا فون بھی آیا تھا۔ بہت اصرار کر رہی تھیں کہ ہم لوگ شادی میں ضرور شرکت کریں۔ میں نے تو اپنی طبعیت کی وجہ سے معذرت کر لی ہے۔ ایسا کرنا تم اور مہک چلے جاو۔ اچھا ہے اسی بہانے مہک ہمارا گاوں بھی دیکھ لےگی اور بہت سے رشتے داروں سے بھی مل لےگی۔‘‘ اماں نے تفصیل سے کہا تو حسن سوچ میں پڑ گیا۔

    ‘’مگر اماں! مجھے گاوں گئے ہوئے کافی سال ہو گئے ہیں۔ میں تو کسی کو جانتا بھی نہیں ہوں اور نہ ٹھیک سے کوئی یاد ہے مجھے۔ میں وہاں جا کر کیا کروں گا؟‘‘ حسن نے الجھے ہوئے لہجے میں کہا۔

    ‘’ارے بیٹا! پریشان ہونے والی کیا بات ہے۔ مانا کہ ہمارے زیادہ تر قریبی رشتےدار شہر میں سیٹ ہو گئے ہیں مگر ابھی بھی بہت سے لوگ ہیں وہاں۔ تم فکر مت کرو۔ یہاں سے بھی کافی لوگ جائیں گے۔ وہ تمہاری راہنمائی کر دیں گے۔‘‘

    اب کی بار ابانے بارعب انداز میں کہا تو حسن سر ہلا کر رہ گیا۔ اماں اور ابا بڑھتی عمر کے ساتھ لگی کئی بیماریوں کی وجہ سے بہت کم کہیں آتے اور جاتے تھے۔ اس لئے حسن کو خوش اسلوبی سے یہ ذمہ داری نبھانی پڑتی تھی۔ اب تو اس کے ساتھ ساتھ مہک پر بھی یہ ذمہ داری لاگو ہو گئی تھی۔

    ‘’میں نے کبھی گاوں نہیں دیکھا۔ سچ میں بہت مزہ آئےگا وہاں۔‘‘ مہک نے خوشی سے چہکتے ہوئے کہا تو اماں اور ابا نے مسکرا کر تائید کی اور اسے گاوں کے قصے سنانے لگے۔ حسن کا بچپن وہاں گزرا تھا۔ اماں، ابا کی زبانی اپنے بچپن کے قصے سنتا ہوا، وہ بھی زیر لب مسکرا رہا تھا۔

    ’’اور ہاں حسن! اپنی رحمت بوا سے ضرور ملنے جانا۔ وہ تم سے بہت پیار کرتیں تھیں۔ مہک کو دیکھ کر بہت خوش ہو ں گی۔ تمہیں ایک مزے کی بات بتاوں مہک۔۔۔! حسن جب دس سال کو تھا تو رحمت بوا کی اکلوتی بیٹی ریشماں سے شادی کرنے کا خواہش مند تھا۔‘‘ اماں نے ہنستے ہوئے کہا تو مہک حیرت سے آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگی۔

    ‘’سچ میں اماں۔۔۔!‘‘ مہک نے پوچھا تو ابا بھی ہنس پڑے۔

    ‘’تو اور کیا۔۔۔! وہ اس سے پانچ سال بڑی تھی۔ حسن کی بڑے تایا کے بیٹے انور کی منگ تھی۔ اسی کی منگنی کرنے ہم گاوں گئے تھے۔ جب یہ ریشماں کو دیکھ کر شادی کی ضد کر بیٹھا تھا اور بعد میں بھی کتنے سال ہی۔۔۔! سب اس کو بہت چھیڑتے تھے۔‘‘ اماں کے کہنے پر سب ہنس پڑے۔

    ‘’اماں آپ بھی ناں۔۔! کیا کیا یاد رکھا ہو اہے!‘‘ حسن جھینپ کر رہ گیا اور وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔ جبکہ وہ سب مزے سے اس واقعے دہرانے لگے۔

    ’’اف او اماں! مجھے یہاں لے کر کیوں آئی ہیں!’‘ دس سالہ حسن نے گاوں کی ٹوٹی ہوئی گلیوں میں چلتے ہوئے چڑ کر کہا تھا۔ وہ سب لوگ تیار ہو کر پیدل ہی اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔ جو کہ قریب کے چند گھر چھوڑ کر موجود تھی۔

    ‘’ارے بھئی! آج تمہارے انور بھائی کی منگنی ہے۔ اس لئے ہم لڑکی والوں کے گھر جا رہے ہیں۔ آ جا میرا بیٹا! تھک گیا ہے تو میں گود میں اٹھا لیتا ہوں۔‘‘ تایا ابو نے کہا تو ابا فورا بولے۔

    ‘’ارے نہیں بھائی! بچہ ہے ناں۔۔۔! اس لئے گھبرا گیا ہے۔ میں دیکھ لیتا ہوں۔‘‘ ابا کے کہنے پر تایا ابو مطمئن ہو کر آگے بڑھ گئے۔ وہ تقریبا بیس لوگوں پر مشتمل چھوٹا سا قافلہ تھا۔ جو رحمت بوا کے رنگ برنگی جھنڈیوں اور چھوٹیت برقی قہمقوں سے سجے گھر کے صحن میں پہنچ کر رکا تھا۔ سب ایک دوسرے سے بہت تپاک سے مل رہے تھے۔ جانتے تو یہ سب ایک دوسرے کو کئی سالوں سے تھے۔ بس کچھ عرصہ پہلے ہی تایا ابو کے ساتھ ساتھ حسن کے والد نے شہر کی طرف کوچ کیا تھا۔ مگر یہاں سے جاتے ہوئے وہ رحمت بواسے ریشماں کا ہاتھ مانگ گئے تھے۔ اب انور کے نوکری لگتے ہی وہ منگنی کرنے چلے آئے تھے۔ انور کو کویت میں بہت اچھی نوکری مل گئی تھی۔ بیس سالہ انور، نے جب پہلی بار ریشماں کو دیکھا تھا تو اپنا دل ہار بیٹھا تھا۔ ریشماں تھی ہی ایسی۔۔۔! حسن اور نزاکت کا مجموعہ۔۔۔! اس کے حسن کی وجہ سے بہت سے لوگ اس کے رشتے کے طلب گار تھے مگر رحمت بوا نے انور کے لئے ہاں کی تھی۔ رحمت بوا، بیوہ عورت تھی۔ جس کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ گاوں میں اس کی بہت عزت تھی۔ سب اسے رحمت بوا کے نام سے جانتے اور پہچانتے تھے۔ رحمت بوا کے دونوں بیٹے شادی شدہ اور بچوں والے تھے۔ اب صرف ریشماں کی ذمہ داری اس کی بوڑھے کندھوں پر تھی۔ آج وہ دن بھی آ پہنچا تھا۔ جس کا انتظار اسے ایک مدت سے تھا۔

    چھوٹی سے رسم کے بعد ریشماں کی نازک انگلی میں انور کے نام کی انگھوٹھی جگمگانے لگی۔ مبارک سلامت کے شور سے فضا جونگ رہی تھی۔ سب خوش تھے۔ ہنس رہے تھے۔ حسن اماں کو ڈھونڈتا ہوا، عورتوں والے حصے میں چلا آیا۔ جہاں سب گھونگھٹ میں سر جھکائے بیٹھی ریشماں کو مٹھائی کھلا رہے تھے۔ حسن نے بھی ضد کی۔

    ‘’میں بھی دلہن کو مٹھائی کھلاوں گا!‘‘ سب ہنس پڑے اور اسے آگے کیا۔

    ‘’پہلے دلہن کامنہ تو دکھاؤ۔۔۔!‘‘ حسن نے کہا تو ہر طرف سے قہقہہ ابل پڑا۔

    ‘’بھئی چھوٹا سا بچہ ہے مگر بہت تیز۔۔۔!کس نے پٹی پڑھائی ہے تمہیں۔۔۔!‘‘ ریشماں کی کسی سہیلی نے ہنس کر کہا۔

    ‘’جی نہیں۔۔! مجھے دلہن کو دیکھنا ہے، بس!‘‘ حسن کے ضد کر نے پر رحمت بوا نے آگے بڑھ کر تھوڑا سا ڈوپٹہ پیچھے کیا اور کہا۔

    ‘’بچہ ضد کر رہا ہے تو دیکھا دو چہرہ۔۔۔! ویسے بھی یہاں کون سے مرد ہیں۔‘‘

    حسن نے خوشی سے سر جھکائے بیٹھی ریشماں کو دیکھا۔ اسی وقت ریشماں نے بھی سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ ریشماں کا چہرہ خوشی سے سرخ ہو رہا تھا۔ بڑی بڑی آنکھوں میں بے تحاشا چمک تھی اور جب وہ مسکرا رہی تھی تو اس کے سفید چمکتے دانت صاف نظر آ رہے تھے۔ حسن مٹھائی کھلانے کے بجائے کچھ سوچتا رہا۔

    ‘’اماں کیا دلہن سچ میں اتنی پیاری ہوتی ہے؟ مجھے بھی لینی ہے دلہن۔۔۔!‘‘ حسن کی معصوم فرمائش پر ساری محفل کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

    ‘’پگلا کہیں کا۔۔۔! چل ادھر آ۔۔۔!‘‘ اماں نے ہاتھ پکڑ کر اسے وہاں سے اٹھا یا مگر حسن اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے کافی ضدی تھا۔ سارے راستے یہ ہی بات کہتا رہا۔ جو آہستہ آہستہ سب میں پھیل گئی۔ سب اسے بچے کی معصوم نظر سے دیکھتے اور ہنستے رہے۔ جبکہ حسن ایک کونے میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ ‘’میں نے ایسا کیا کہہ دیا کہ کوئی میری بات کو لے کر سنجید ہ ہی نہیں ہو رہا ہے۔‘‘

    انور اور ریشماں کی شادی اگلے سال ہونا قرار پائی۔ ان دنوں انور کو نئی نئی نوکری ملی تھی۔ سب کی خواہش تھی کہ وہ تھوڑا سیٹ ہو جاتا۔تب ہی اس کی شادی کرتے، منگنی کے بعد باقی رشتے دار تو چلے گئے مگر تایا ابو اور ابا زمین کی کچھ قانونی کاروائی کی وجہ سے وہاں ہی رک گئے۔ ان کا قیام اپنے چچازاد بھائی کے گھر پر تھا۔ حسن کو پہلے ایک دن بھی گاوں رہنے پر تیا ر نہیں تھا اب یہاں سے جانے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ وہ اور انور بھائی اکثر گھر سے نکل جاتے اور کسی نہ کسی بہانے در صنم پر حاضری لگانے پہنچ جاتے۔ انور خود تو پیچھے رہتا مگر حسن کو ریشماں کے پاس بھیج دیتا کبھی کوئی رقعہ لکھ کر او رکبھی کوئی پیغام بھیج دیتا۔ حسن کو اکثر انور کے پیغام بھو ل جاتے اور وہ خود مزے لے لے کر ریشماں سے باتیں کرتا رہتا اور باہر کسی درخت کی اوٹ میں کھڑا انور اس کا انتظار کرتا رہتا۔ کبھی انور حسن کو کہتا کہ ریشماں کو لے کر ندی پر آ جائے، حسن ہاں میں سر ہلا دیتا مگر ریشماں کو لے کر ندی پر نہیں آتا تھا۔ اسی طرح اگر انور کہتا کہ اسے کسی بہانے چھت پر لے آؤ۔ تاکہ میں دیکھ ہی سکوں مگر حسن اس بات پر بھی عمل نہیں کرتا تھا۔ وہ ریشماں کے پاس بیٹھ کر خود ہی باتیں کرتا رہتا۔ ریشماں اس کی باتوں پر ہنستی تھی۔ اس سے باتیں کرتی تھی۔ ان دنوں ہی ان کی واپسی کے دن آ گیا۔ حسن بہت بوجھل دل کے ساتھ وہاں سے آیا۔ انور کا بھی منہ لٹکا ہوا تھا۔ شہر آکر کچھ دن تو اس کا دل نہیں لگا مگر پھر زندگی معمول پر آنے لگی۔ انور پردیس چلا گیا۔ یاتا ابو یا تائی امی کے ساتھ حسن اکثر گاوں چلا جاتا۔ وجہ صرف ایک ہی تھی۔ ریشماں۔۔۔! ابا کا گاوں کا چکر بہت کم لگتا تھا مگر تایا ابو اور تائی امی نئی رشتے داری کی وجہ سے بھی گاوں آتے اور جاتے رہتے تھے۔ جس کی وجہ سے حسن کو بھی ایک راستہ مل گیا تھا۔

    ‘’یہ کیا بات ہوئی بہن۔۔۔! میری تو خواہش تھی کہ جلد از جلد اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کر دوں مگر آپ کہہ رہی ہیں کہ ابھی انور کو دو سال اور لگے گے پہلے ہی ایک سال کا کہہ کر اتنا وقت نکال دیا ہے۔ تین سال ہو گئے ہیں۔ ان دونوں کی منگنی ہوئے۔۔!‘‘

    رحمت بوا نے تائی امی کی بات سن کر پریشانی سے کہا تھا۔ پتا نہیں جواب میں تائی امی نے کیا کہا۔ حسن وہاں سے اٹھ کر بھاگتا ہوا ریشماں کے پاس گیا۔ جو کوئی کتاب کھولے گم صم سی بیٹھی ہوئی تھی۔ جیسے جیسے انور کے پاکستان آنے کے چانس کم ہونے لگے تھے، ویسے ویسے ریشماں زیادہ تر گم صم رہنے لگی تھی۔ حسن کو دیکھ کر چونکی اور مسکرا کر اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

    ’’انور بھائی اس سال بھی پاکستا ن نہیں آ رہے ہیں۔۔۔! بس دیکھ لینا! آپ کی شادی مجھ سے ہی ہو گی۔‘‘ حسن کے کہنے پر ریشماں نے ہلکی سے چیت اس کے سر پر لگائی۔

    ‘’بری بات ایسے نہیں کہتے۔۔! بھابھی کہا کرو مجھے۔۔۔!‘‘ ریشماں کی ہمیشہ کی طرح اسے سمجھایا تھا۔

    ‘’کوئی نہیں۔۔۔! بھابھی کیوں بولوں؟’‘ حسن نے ضدی لہجے میں کہا۔ریشماں گہری سانس لے کر رہ گئی۔

    ‘’اب تم بڑے ہو رہے ہو حسن۔۔۔! اس سال چودہ کے ہو جاوگے۔ اچھا نہیں لگتا کہ تم میرا نام لو۔‘‘ ریشماں نے سنجیدگی سے کہا تو حسن منہ بنا کر رہ گیا۔

    ‘’مگر مجھے ایسے ہی اچھا لگتا ہے۔‘‘ حسن کہتے ہوئے وہاں سے اٹھ گیا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ جبکہ ریشماں گہری سانس لے کر رہ گئی۔

    ‘’تائی امی کہا ہیں؟‘‘ حسن نے اکیلی بیٹھی ہوئی رحمت بواکے پاس آکر پوچھا۔تو انھوں نے سامنے بنے غسل خانے کی طرف اشارہ کیا۔

    ‘’وضو کرنے گئیں ہیں۔‘‘ رحمت بوا کا لہجہ اور آنکھیں بجھی ہوئیں تھیں۔

    ‘’رحمت بوا۔۔۔! دیکھ لیں میں کتنا بڑا ہو گیا ہوں۔ ریشماں سے بھی لمبا۔۔۔! آپ میری شادی کر دیں ریشماں سے۔ آپ کی پریشانی ختم ہو جائےگی۔ وعدہ میں ریشماں کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاوں گا۔‘‘ حسن نے بھولے پن سے کہا کہ رحمت بوا کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔

    ‘’بری بات ہے بیٹا۔۔۔! ریشماں آپ سے عمر میں بڑی ہیں۔ اس کا نام مت لیا کرو۔ بھابھی یا باجی کہہ لیا کرو۔ تم یہاں بیٹھو۔ میں بھی نماز پڑ ھ لوں۔ وقت نکلا جا رہا ہے۔‘‘

    رحمت بوا ن نرمی سے اسے سمجھایا اور وہاں سے اٹھ کر چلیں گئیں۔

    حسن خاموشی سے انھیں جاتا ہوا دیکھتا رہا۔

    پھر کتنے ہی سال گزر گئے۔ تعلیمی مصروفیات کے بڑھتے ہی اس کے گاوں کے چکر لگناکم سے کم ہوتے گئے۔ تایا ابوا ور تائی امی انور بھائی کے پاکستان نہ آنے کی وجہ سے شرمندگی کے مارے گاوں نہیں جاتے تھے۔ رحمت بوا تک بھی خبر پہنچ گئی تھی کہ انور نے کویت میں کسی مالدار آدمی کی اکلوتی بیٹی کے ساتھ شادی کر لی ہے۔ اس لئے وہ پاکستان نہیں آ رہا تھا۔ مگر جو بھی تھا اسے ایک بار گھر بتانا چائیے تھا۔ اس کی وجہ سے رحمت بوا انتظار کی سولی پر لٹکی ہوئیں تھیں اور تایا ابو اور تائی امی شرمندگی کے مارے گاوں کا رخ نہیں کرتے تھے۔ وقت نے اچھی خاصی گرد ڈال دی تھی۔ پھر بڑھتی مصروفیات کے دوران آپس میں ملنا ملانا بھی کم سے کم ہوتا چلا گیا۔ ابا اور حسن ایک بار کسی قریبی رشتےدار کی وفات پر گاوں گئے تھے۔ تب حسن ایف ایس۔سی کے امتحان دے کر فارغ ہوا تھا۔ اس کے بعد پھر کبھی اس کا وہاں جانا نہیں ہوا تھا۔ اس دوران انور بھائی پاکستا ن آئے تھے اچانک۔ سب حیران رہ گئے تھے۔ سنا ہے کہ وہ سب گاوں بھی گئے تھے اور بار بار گئے، معافی مانگی۔ تلافی کا یقین دلایا، مگر حیرت کی بات کہ ان کے انتظار میں کئی سال سے بیٹھی ریشماں نے شادی سے انکار کر دیا تھا۔ اگر انکار ہی کرنا تھا تو اتنے سال تک انتظار کیوں کیا؟ سب کے ہونٹوں پر ان گنت سوال تھے مگر سامنے والے کی ایک چپ۔۔۔! سب پر بھاری تھی۔ ریشماں مان کیوں نہیں رہی تھی۔سب کی منتیں کر نے کے باوجود۔ وہ اتنی پتھر دل تو نہیں تھی۔۔۔! پھر ایسا کیا ہوا کہ وہ چٹان کی طرح اپنی بات پر اڑ گئی تھی۔

    جب دیکھا کہ کسی طرح بھی وہ نہیں مان رہی تو انور نے اپنے والدین کی مرضی اور پسند سے ایک پکی عمر کی لڑکی کے ساتھ شادی کر لی تھی۔ اسے لے کر واپس چلا گیا اور کچھ عرصے کے بعد تایا ابو کی ساری فیملی وہاں سیٹ ہو گئی۔ اب ان کا پاکستان آنا بہت کم کم ہوتا تھا۔ حسن کو یاد ہے کہ ایک بار تایا ابو نے ابا کو باتوں ہی باتوں میں بتایا تھا کہ انور نے جس لڑکی سے وہاں شادی کی تھی، اس نے کچھ عرصے پہلے ہی انور سے طلاق مانگ لی تھی۔ جس کے بعد اس نے فورا پاکستان کا رخ کیا تھا۔ یہ تو شکر تھا کہ اس دوران ان کے یہاں اولاد نہیں ہوئی تھی نہیں تو ان کی کسٹڈی کے لئے بھی مزید کئی سال انور کو کیس لڑنا پڑتا۔وقت تیزی سے گزرنے لگا۔ماضی کی باتوں پر حال کی گرد پڑ گئی تھی۔ بہت سی باتیں اور تعلقات صرف یادوں اور قصوں میں رہ گئے تھے۔ شہر کی تیز رفتاری اور سرد مہری نے گاوں سے جڑے ہر رشتے اور تعلق پر لاتعلقی کی چادر ڈال دی تھی اور اب اتنے سال کے بعد حسن ان راستوں پر ایک بھر پھر سے سفر کرنے جا رہا تھا۔ جہاں کچھ بھی تو باقی نہیں بچا تھا۔ مگر شاید ماضی کی راکھ میں یاد کے کسی لمحے کی کوئی چنگاری، آج بھی جلتی اور بجھتی تھی۔

    ‘’گاوں کی زندگی کتنی مزے کی ہے نا۔.۔! ایک ہفتہ کیسے گزرا پتا ہی نہیں چلا۔ مزے مزے کے دیسی کھانے، دیسی گھی میں پکے ہوئے، تندور کی تازہ روٹیاں، تازہ مکھن، دودھ کا ذائقہ تو میں کبھی نہیں بھول پاؤں گی۔ ہر طرف سرسبزو شاداب کھیت، نہر کا ٹھنڈا پانی، سب سے بڑی بات یہاں کے لوگوں کا خلوص اور پیار۔۔! کچھ بھی کہیں! ابھی بھی شہروں اور گاوں کی زندگی میں بہت فرق ہے۔ بہت خالص ہے یہاں کی دنیا۔۔۔!‘‘ مہک حسن کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر پگڈنڈی پر چلتی ہوئی مسلسل بولے جا رہی تھی۔

    ‘’ویسے آپ لوگوں کو گاوں کی سار ی زمین نہیں بیچنی چائیے تھی۔ کم از کم ایک گھر تو بناتے۔ کبھی کبھار ہی سہی یہاں آکر رہتے ہم لوگ۔‘‘ مہک نے افسردگی سے کہا۔

    ‘’یہ اس وقت کی بات ہے جب میں بہت چھوٹا تھا۔ اماں بتاتیں ہیں کہ ہمارے اچھے مستقبل اور تعلیم کے لئے تایا ابو اور ابا نے اچانک گاوں چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ پھر ان کی دیکھا دیکھی اور بھی رشتے دار یہاں سے کوچ کر گئے مگر ابھی بھی کچھ خاندان ہیں جو اپنی مٹی سے جڑے ہوئے ہیں۔ دراصل گاوں سے شہر میں سیٹ ہونے کے لئے ایک مناسب سرمایے کی ضرورت تھی۔ اس لئے سب کچھ بیچنا پڑا۔ ویسے ایک بات تو بتاو! اگر میں گاوں میں ہی پلا بڑھا ہوتا تو کیا تب بھی تم اس رشتے کے لئے حامی بھری۔ کیونکہ شہر کے لوگوں کی مستقل یہاں آکر رہنا بہت مشکل لگتا ہے ناں۔۔۔!‘‘ حسن کے پوچھنے پر مہک ایک لمحے کے لئے سوچ میں ڈوبی تھی پھر بولی۔

    ‘’شاید عام حالات میں میرا جواب نہ ہی ہوتا مگر میں ایک بات پر یقین رکھتی ہوں کہ آپ کی قسمت آپ کو کہیں بھی لے جا سکتی ہے۔ اس لئے بڑے بول بولنے سے ہمیشہ اجتناب کریں۔۔۔!‘‘مہک کے جواب پر حسن کی آنکھوں پر ستائش کے رنگ ابھرے تھے۔

    ‘’کل صبح ہم نے یہاں سے چلے جانا ہے۔ آپ مجھے رحمت بوا کے گھر تو لے کر نہیں گئے۔ چلیں ابھی چلتے ہیں!’‘ مہک کے اچانک یاد دلانے پر حسن چونکا۔ پہلے سوچا کہ اسے ٹال دے مگر پھر اماں کی ہدایت بھی یاد آ گئی۔

    ‘’وہ تو ٹھیک ہے مگر یہاں سے تھوڑا دور ہے۔ تم اتنا چل لوگی!‘‘ حسن نے سوچتی نظروں سے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا تھا۔

    ‘’چلنا کیوں؟ وہ سامنے ٹانگا دیکھ رہے ہیں نا! اس پر جائیں گے۔ اب یہاں آکر بھی اپنے سب شوق پورے نہ کروں!‘‘ مہک کے کہنے پر حسن اثبات میں سر ہلا کر رہ گیا۔ جب ٹانگا رحمت بوا کے گھر کے سامنے رکا تو سارا آسمان کالے بادلوں سے چھپ گیا تھا۔

    ‘’بھائی آپ تھوڑی دیر ہمارا انتظار کر سکتے ہیں۔ دراصل موسم کے تیور ٹھیک نہیں ہے۔ واپسی پر مشکل ہو جائےگی۔‘‘حسن کے کہنے پر ٹانگے والا مان گیا اور ایک درخت کے سائے میں رک کر ان کا انتظار کرنے لگا۔ حسن نے آگے بڑھ کر لوہے کے دروازے پر زور سے دستک دی اسی وقت کن من بارش شروع ہو گئی تھی۔ کچھ لمحوں کے بعد ایک چاپ ابھری۔

    ‘’کون ہے؟‘‘ مترنم اور سنجیدہ سی آواز میں پوچھا گیا۔

    ‘’میں ہوں!‘‘ حسن کو سمجھ نہیں آئی کہ اپنا تعارف کیسے کروائے۔

    ‘’اپنا نا م بتائیں۔۔! ایسے کیسے سمجھ آئے گی انھیں۔۔!‘‘ مہک نے ہلکی آواز میں ٹوکا۔ اس سے پہلے کہ حسن کچھ کہتا۔ جھٹ سے دروازہ کھل گیا۔ سامنے کالی چادر میں ہیرے کی طرح دمکتی ریشماں کھڑی تھی۔

    ‘’واو! یہ تو بہت خوبصورت ہے!‘‘ مہک کے منہ سے بے اختیار نکلا تھا۔ ریشماں کا سوگوار حسن ہر دیکھنے والی آنکھ کو اسیر کر لیتا تھا۔

    حسن اور مہک نے سلام کیا۔ ریشماں نے آہستگی سے جواب دے کر انھیں اندر آنے کا اشارہ کیا۔ وہ دونوں ریشماں کے پیچھے پیچھے بڑے سے صحن سے گزر کر سامنے بنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔ ریشماں انھیں وہاں بٹھا کر کمرے سے باہر چلی گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد رحمت بوا کمرے میں داخل ہوئیں۔ حسن کو دیکھ کر بہت خوشی کا اظہار کیا۔ مہک کے سر پر پیار کیا اور کچھ نوٹ اس کی مٹھی میں تھما دئیے۔ حسن اور مہک نے بہت منع کیا مگر رحمت بوا نے کہا کہ یہ میری طرف سے تحفہ سمجھ کر رکھ لو۔ حسن کو افسوس ہونے لگا کہ جلدی میں ان کے گھر خالی ہاتھ کیوں چلا آیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ریشماں گرم چائے کے ساتھ مختلف لوازمات کی ٹرے سجا کر چلی آئی۔

    ‘’اس کی کیا ضرورت تھی! ہم کھانا کھا کر گھر نے نکلے تھے۔ بس اماں نے خاص تاکید کی تھی کہ آپ سے ضرور مل کر آنا ہے۔ اس لئے آج فراغت ملتے ہی چلے آئے۔‘‘ مہک نے کہا تو ریشماں نے دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ اس کی طر ف دیکھا تھا۔

    ‘’شہری لوگ چائے کے زیادہ شوقین ہوتے ہیں۔ اس لئے میں جلدی سے بنا کر لے آئی۔‘‘

    ‘’بہت شکریہ!’‘ مہک نے متاثر لہجے میں کہا۔

    ‘’حسن بیٹا بہت چپ چپ ہے۔ ارے بیٹا بھول گئے! کبھی تم روز یہاں آنے کے بہانے ڈھونڈتے تھے اور سار ا سارا دن یہاں گزرا دیتے تھے۔ تمہیں پتا ہے مہک! یہ چھوٹا سا تھا جب۔۔۔!!‘‘ رحمت بوا بھی اماں کی طرح مزے لے لے کر مہک کو اس کے بچپن کا قصہ سنانے لگی۔ مہک چہرے پر مسکراہٹ سجائے سننے لگی۔ جب تک ریشماں کو نہیں دیکھا تھا مہک کو اس قصے کو سن کر اچھا لگتا تھا مگر آج ریشماں کو دیکھ کر وہ عجیب سی بے چینی کا شکار ہو گئی تھی۔

    ‘’حسن سے صرف چانچ سال ہی تو بڑی ہے یہ مگر دیکھنے میں مجھ سے بھی چھوٹی لگتی ہے۔‘‘ مہک کے دل میں عجیب سے وسوسے سر اٹھانے لگے تھے۔

    ‘’مجھے خبر ملی تھی کہ تم اپنی بیوی کے ساتھ گاوں آئے ہوئے ہو۔ اس دن سے ہم دونوں ماں بیٹی تم لوگوں کی آمد کے منتظر تھے۔‘‘ رحمت بوا نے سادگی سے کہا۔ مہک نے ایک تیکھی نظر سر جھکائے بیٹھی ریشماں پر ڈالی تھی۔

    ‘’اس لئے نام پوچھے بغیر ہی دروازہ کھول دیا تھا محترمہ نے۔۔۔!!‘‘ مہک اپنی سوچ پر غصے سے پہلو بدل کر رہ گئی۔

    ‘’ریشماں! گڑ والے چاول لے کر آو۔ حسن کو میرے ہاتھ کے بنے ہوئے چاول بہت پسند تھے۔ آج بھی چاول بناتے ہوئے تمہیں یاد کر رہی تھی اور تم آ گئے۔۔۔!‘‘ رحمت بوا کے کہنے پر ریشماں اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

    ‘’واہ کیا ٹیلی پیتھی ہے۔۔!‘‘ مہک نے چڑکر سوچا اور فورا اپنی جگہ سے کھڑے ہوتی ہوئی بولی۔

    ‘’نہیں خالہ! ہمیں بہت دیر ہو رہی ہے۔ وہ تو اماں نے کہا تھا اس لئے میں حسن کو مجبور کر کے یہاں لے آئی۔۔ حسن کو تو یاد بھی نہیں تھا آپ سے ملنا۔۔۔!‘‘ مہک کے بات پر رحمت بوا کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑ گیا تھا۔ جبکہ دروازے کی طرف جاتی ریشماں نے مڑ کر دیکھا تھا۔ حسن کی آنکھوں میں حیرت اور چہرے پر واضح شرمندگی تھی۔ اسے مہک سے اس بات کی امید نہیں تھی۔

    ‘’چلیں حسن! ٹانگے والا کب سے انتظار میں کھڑا ہے۔‘‘ مہک نے جلدی سے کہا اور کمرے سے باہر نکل گئی۔

    ‘’بیٹا! بارش ہو رہی ہے۔ تھوڑی دیر رک جاتے تو۔۔!‘‘ رحمت بوا نے سمجھانا چاہا مگر مہک رکنے پر تیار نہیں تھی اور برستی بارش میں بھاگتی ہوئی ٹانگے میں جا کر بیٹھ گئی۔ کوچوان نے بڑی شیٹ آگے کر دی تھی۔ جس کی وجہ سے وہ بارش سے محفوظ رہی تھی۔

    ‘’اماں! آپ آرام کریں۔ میں دروازہ بند کر کے آتی ہوں۔۔!‘‘ ریشماں نے ماں سے کہا مگر دیکھا حسن کی طرف تھا۔ جیسے اسے جانے کا کہہ رہی ہو۔ حسن نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔ وہ دونوں آگے پیچھے کمرے سے باہر نکلے۔ صحن کے بیچ میں پہنچ کر حسن ریشماں کے پکارنے پر رک گیا اور پلٹ کر دیکھا۔

    ‘’یہ آپ کی امانت۔۔۔! مجھے اب اس کی ضرورت نہیں ہے!‘‘ ریشماں نے کالے رنگ کی چادر اس کی طرف بڑھائی تھی۔ بارش دونوں کو بھگو رہی تھی۔ حسن نے نا سمجھی کے انداز میں ہاتھ آگے بڑھایا۔ جیسے ہی اس نے چادر تھامی، اس کے ذہن میں ایک کوندا سالپکا تھا۔ اس نے غور سے دیکھا یہ وہ ہی چادر تھی جو کچھ دیر پہلے ریشماں نے اوڑھی ہوئی تھی۔ مگر یہ چادر مر دانہ تھی اور۔۔۔! حسن آہستہ آہستہ سے قدم اٹھاتا دروازے کی طرف بڑھا۔ بارش کی بوندیں سرخ اینٹوں کے بنے فرش پر ناچ رہی تھیں۔ ان کو دیکھتے ہوئے وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا آگے بڑھ رہا تھا چادر اس نے اپنے کندھوں پر ڈال لی تھی۔ ایک عجیب سے احساس نے اسے گھیرا تھا۔ اسی خوشبو سے کسی یاد کا در کھلا تھا۔ اس کے ذہن میں کئی سال پہلے کی، ایک ایسی ہی شام برسات کی تیز جھڑی میں بھیگتے دو سائے لہرائے تھے و ہ چونکا تھا۔

    اسے یاد آیا۔ جب آخری بار وہ ابا کے کسی عزیز کی فوتگی پر گاوں آیا تھا۔ تورحمت بوا سے ملنے ان کے گھر بھی آیا تھا۔ تب رحمت بوا کے کہنے پر ریشماں کو لینے اس کی سہیلی کے گھر گیا۔ جو دو گلیاں چھوڑ کر تھا۔ اس دن صبح سے موسم کے تیور خطرناک تھے۔ حسن کو یاد آیا واپسی پر بہت تیز موسلا دھار بارش شروع ہو گئی تھی۔ جس سے بچنے کے لئے وہ ایک چھپر کے نیچے کھڑے ہو گئے تھے۔ اس دوران ہی ریشماں کا پاوں سلپ ہوا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کیچڑ میں گرتی، حسن نے ہاتھ پکڑ کر اسے سنبھال لیا۔چھوئی موئی سی ریشماں، لمبے چوڑے سے حسن کے سامنے چھپ سے گئی تھی۔ حسن نے بارش کے پانی سے بچنے کے لئے اپنی کالی چادر اس طرح تانی تھی کہ وہ دونوں پانی سے محفوظ رہ سکیں۔ بس کچھ لمحوں کی بات تھی مگر ان لمحوں نے ریشماں کے دل کی دنیا بدل دی تھی۔ واپسی کے سفر میں ریشماں کالی چادر کے حصار میں بہت گم صم سی تھی۔ جبکہ حسن کو جلد از جلد گھر پہنچنے کی جلدی تھی۔ ریشماں کی خاموشی پر وہ بہت حیران ہوا تھا مگر ریشماں نے کہا کہ اسے سردی لگ رہی ہے۔ حسن اسے بحفاظت گھر پہنچا کر وہاں سے چلا گیا تھا۔ مگر شاید کبھی نہ جانے کے لئے۔۔۔!!

    حسن فورا پلٹا اور بھاگتے ہوئے شیڈ کے نیچے کھڑی ریشماں کے پاس آیا۔

    ‘’آپ نے آج تک شادی کیوں نہیں کی؟ کیا انور بھائی کی بے وفائی کی وجہ سے۔۔۔!’‘

    ریشماں نے ایک نظر اٹھا کر بارش میں بھیگتے حسن کو دیکھا تھا۔

    ‘’انور جیسا عام اور کم ظرف مرد، میری جیسی عورت کی وفا اور محبت کے قابل نہ پہلے کبھی تھا اور نہ ہی آج ہے۔۔۔۔!‘‘

    ‘’تو پھر۔۔!‘‘ حسن با ضد تھا کچھ جاننے کے لئے۔۔۔!

    ’’تو پھر کیا۔۔۔! مٹی کی سوندھی خوشبو آرہی ہے نا۔۔۔!’‘ ریشماں نے فضامیں پھیلی خوشبو کو اپنی سانسوں میں اتارا تھا۔

    حسن نے پاس ہی موجود کیاری میں جمع ہوتے بارش کے پانی کو دیکھا تھا۔

    ’’اچھا یہ بتاو کہ کچی مٹی ہمیشہ بارش کی پہلی بوندوں سے ہی کیوں مہکتی ہے؟ اس کی سوندھی سوندھی خوشبو میں کیسا فرحت بخش احساس ہوتا ہے! مگر پھر بعد میں آنے والے ساون اسے یا تو کیچڑ بنا دیتے ہیں، یا پھر مٹی پانی کے سنگ بہتی کہیں دور نکل جاتی ہے مگر وہ پہلی بارش کا لمس، وہ احساس ہمیشہ ہی کیوں محسوس ہوتا ہے؟’‘ ریشماں نے کھوئے کھوئے سے انداز میں کہا تھا۔ حسن کو اس لمحے وہ بھی پہلی بارش کی طرح لگی تھی۔ خود میں ہی سمٹی ہوئی، اپنی خوشبو سے ہی مہکی ہوئی سی۔۔۔! اس کے ارتکاز کو ریشماں کے نرم لہجے کی پھورا نے چھوا تھا۔

    ‘’پھربہت عرصے کے بعد میں نے جانا تھا کہ محبت کا رشتہ وہ ہوتا ہے جو دل کے تاروں سے بنتا ہے۔۔۔! جو دل کے تاروں سے کسی کو جوڑ دیتا ہے بغیر کہے، بغیر کچھ سنے۔۔۔! پھر یہ راز مجھ پر منکشف ہوا کہ عورت اور مٹی کا ایک ہی جیسی ہیں۔ایک ہی اجزائے ترکیبی ہو گی ان کی یا شاید عورت کی مٹی زیادہ حساس یا وفا شناس ہوتی ہے۔ اس لئے تو عورت محبت میں پجارن بننے میں لمحے بھر کی دیر نہیں لگاتی ہے۔ کوئی بھی معمولی سا لمحہ، کوئی بھی معمولی سی بات، اسے ہمیشہ کے لئے اپنا اسیر بنا لیتے ہیں۔۔۔!

    کچی مٹی بھی پہلی بارش کی بوندوں سے مہکتی ہے اور عورت بھی اپنی زندگی میں آنے والے اس پہلے مرد کو کبھی بھی نہیں بھولتی ہے جو اس کے دل کی بنجر زمین پر اپنے لمس سے محبت کے ان گنت پھول کھلا دیتا ہے۔جس کی ہونے سے اس کے دل کی سوئی زمین کروٹ لے کر بیدار ہوجاتی ہے۔ پھر اس زمین سے اٹھنے والی خوشبو، اس عورت کو کسی اور کا نہیں ہونے دیتی۔ کہ شرک تو محبت میں بھی معاف نہیں ہے ناں۔۔!!

    مجھے آج بھی چھپر تلے، ایک انجان بارش کی اوٹ میں بھیگا وہ لمحہ یاد ہے۔ زندگی میں جب کبھی اس لمحے کے سحر سے نکلی تو ضرور آگے کا بھی سوچوں گی۔۔۔!‘‘

    ریشمان کا انداز دو ٹوک تھا۔ حسن تھکے قدموں سے پلٹا۔ اسے وقت کی ستم ظریفی پر افسوس ہو رہا تھا۔ کہاں آ کر اسے ‘’آگہی’‘ ملی تھی۔جب پیچھے مڑنے آسان نہیں رہا تھا۔زمانے کے ڈر، رسم و رواج کے پردے کے پیچھے اس نے اپنی ہر ممکن کوشش کی تھی، اسے بھلانے کی، بچپن کی ایک معصوم خواہش سمجھ رک سر جھٹکنے کی۔۔۔ اس لئے تو خود سے بھاگتا وہ ہونی اور ان ہونی کے درمیان جھولتا رہتا تھا مگر سچ آج بھی اپنی جگہ مجسم کھڑا تھا۔

    حسن نے گھر کی دہلیز پار کی۔ ٹانگے میں بیٹھی مہک نے ہاتھ ہلا کر اسے متوجہ کیا۔ حسن نے کچھ لمحے خاموشی سے اسے دیکھا اور پھر پلٹ کر شیڈ کے نیچے کھڑی ریشماں کو۔۔۔!

    عورت اپنی زندگی میں آنے والی پہلے لمس کو کبھی نہیں بھولتی ہے۔۔۔!

    تو مرد بھی اپنے دل کی زمین پر برسنے والی پہلی بارش کو کبھی نہیں بھولتا ہے۔ باقی تو سب ساون آتے اور جاتے ہی رہتے ہیں۔۔۔!

    وہ بارش میں بھیگ رہاتھا مگر اس کے اندر سب ایک مدت سے سوکھا ہوا پڑا تھا۔

    وہ اس لمحے جان گیا تھا کہ بارش کے اس پار کھڑی، محبت کی خاموش پجارن، اس کا ‘’عشق’‘ تھی۔۔۔!

    وہ اس کی دل کی وہ پہلی بارش تھی، جو عشق کاروپ لئے، ہر موسم میں دل کی بنجر زمین پر برستی رہتی تھی۔۔۔!

    بارش کی رفتار بہت تیز ہو گئی تھی۔ مہک اسے آوازیں دے رہی تھی۔حسن نے موسلا دھار بارش کے اس پار سے ریشماں کو بھاگتے ہوئے دروازے کی طرف آتے دیکھا۔ دروازہ بند کرنے کے بجائے وہ اس کے جانے کا انتظار کرنے لگی۔ یہ بھی محبت کے اصولوں میں سے ایک اصول تھا کہ جب تک محبوب نظر آتا رہے، اسے دیکھتے رہنا۔۔۔! حسن مضبوط قدم اٹھاتا آگے بڑھا۔ ریشماں ڈر کر پیچھے ہوئی۔ مہک نے اپنی جگہ سے اٹھنے کی کوشش کی۔ کچھ ایسا تھا اس لمحے میں جس کا سامنا کرنے سے وہ تینوں ڈر رہے تھے۔

    حسن نے اپنے کندھے سے کالی چادر اتار کر، ریشماں کے سر پر ڈالی تھی۔ ایک لمحے کے لئے ہر چیز اپنی جگہ ساکن ہو گئی تھی۔ مہک کے شک نے یقین کا لبادہ اوڑھ لیا تھا۔ ریشماں حیرت سے گنگ اپنے منہ پر ہاتھ رکھے کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔ پیچھے جھروکے سے جھانکتی رحمت بوا کی آنکھوں میں مدت بعد خوشی کے آنسو چمکے تھے۔ بیٹی محبت کے روگ میں ایک مدت سے جوگن بنی ہوئی تھی، وہ جانتی تھیں مگر مجبور تھیں کہ محبت کے جوگ یا تو مٹی میں لے جاتے ہیں یا مٹی بنا دیتے ہیں۔

    ’’ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا۔۔۔! مرد کے دل کی زمین بھی مٹی سے بنی ہوئی ہے۔ جس پر برسنے والی محبت کی پہلی بوندیں اسے بھی ہمیشہ مہکاتی رہتی ہیں۔ بات صرف محسوس کرنے کی ہوتی ہے اور مجھے اعتراف ہے میں نے اسے تسلیم کرنے میں کچھ دیر کر دی مگر شکر ہے کہ بہت دیر نہیں ہوئی۔۔! تھوڑا وقت لگےگا۔ واپسی کے سفر میں۔۔۔! مگر وعدہ رہا۔ لوٹوں کا ضرور۔۔۔! کیونکہ اب کی بار میں بارش کے اس پار اپنا عشق چھوڑے جا رہا ہوں۔۔۔!

    اور عشق تو سوئے دار بھی نچاتا ہے۔ یہ تو پھر در جاناں ہے۔۔۔!!!‘‘

    حسن نے پہلی بار زندگی سے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا اور پلٹ گیا۔ مہک نے خفگی سے منہ پھیر لیا تھا۔ اس بارش میں اس کے آنسو بھی شامل تھے۔ جن سے حسن انجان نہیں تھا مگر وہ فیصلہ کر چکا تھا اور مردایک بار فیصلہ کر لے تو پیچھے نہیں ہٹتا ہے۔ اس ٹانگے میں بیٹھتے ہوئے مہک کے نرم ہاتھ تھام کر تسلی دی تھی۔ مہک نے روتے ہوئے اپنا سر اس کے کندھوں پر ٹکا دیا تھا۔ جس کے ہونے کا خوف اسے پچھلے تین سال سے تھا۔ وہ گھڑی آج سامنے آکھڑی ہوئی تھی۔ جس کا سامنا اسے ہر حال میں کرنا ہی تھا۔ بہرحال حسن نے اسے جو عزت اور مان ہمیشہ دیا تھا۔ اسے بھی اس کا پاس رکھنا ہی تھا۔

    ریشماں نے تیز بارش کے اُس پار اسے جاتے ہوئے دیکھا تھا۔

    اور پھر سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا تھا۔ بارش اس کی بینائی کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہی تھی مگر آج وہ بارش سے ناراض نہیں ہوئی تھی۔ یہ بارش ہی تھی جس نے اسے محبت کا پہلا لمس عطا کیا تھا اور یہ بارش ہی ہے جس نے آج کسی کے عشق کا تاج اس کے سر پر سجایا تھا۔۔۔!

    ’’بارش تو رحمت ہوتی ہے اور بھلا رحمت سے بھی کوئی ناراض ہوتا ہے۔۔۔!!‘‘

    اس سے مسکراتے ہوئے دروازہ بند کیا تھا۔ کچے آنگن کے وسط میں، سرخ اینٹوں کے بنے فرش پر دونوں ہاتھ پھیلا کر وہ گول گول گھوم

    رہی تھی۔

    آسمان سے برستی بارش زمین کے سبھی منظر وں کو بھگو رہی تھی۔۔۔!

    اورمحبت کی بارش، دل کی زمین پر برستی، خوابوں کی قوسِ قزح سے سب منظر سجا رہی تھی۔

    بارش کے اس پار بھی زندگی بھیگ رہی تھی اور بارش کے اس پار بھی۔۔۔!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے