باؤلا
وہ ایک چلچلاتی دوپہر کو شمشان گھاٹ میں داخل ہوا۔ راستے کی دھول پر اس کے قدموں کے نشان دور تک بکھرے ہوئے تھے۔ گاؤں پیچھے رہ گیا تھا۔ شمشان گھاٹ کے گرد گھنی چھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ وہ ہانپتا لڑکھڑاتا ان کی چھاؤں میں آکر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر تک سستاتا رہا۔ پھر جیب سے کاغذ کا ایک پرزہ نکالا، کاغذ پر وقفے وقفے سے جھک کر کچھ لکھتا رہا۔ شمشان گھاٹ کسی دیو کی غضبناک آنکھ کی طرح جل رہا تھا۔ جھاڑیاں ہولے ہولے سرسرا رہی تھیں۔ کبھی کبھی کسی پرندکی پھڑ پھڑاہٹ بھی سنائی دے جاتی۔
درختوں پر نئی کونپلیں شمع کی ساکت لو کی طرح تنی کھڑی تھیں۔ ان کی گہری ٹھنڈی چھاؤں زمین پر پسری ہوئی تھی اور وہ اس چھاؤں میں لیٹا، رہ رہ کر کاغذ کے پرزے پر کھ لکھ رہا تھا۔ اس کا لباس میلا چیکٹ ہو رہا تھا۔ اس کے لمبے لمبے بال ا س کی گردن تک بڑھ آئے تھے۔ حلیے سے وہ ایک مفلس شکستہ حال شخص لگ رہا تھا مگر اس کے چہرے پر ایک عجیب سی طمانیت تھی۔ ایک ایسی طمانیت جو ہمیشہ خوابوں میں ڈوبے رہنے والے شخص کے چہرے پر ہوتی ہے۔ وہ تھوڑی تھوڑی دیر سے پرزے پر کچھ لکھتا، لکھ کر چند لمحوں تک ان لفظوں پر غور کرتا اور پھر یک سرخوشی کے عالم میں گنگنانے لگتا۔ اس کی آواز سے دبے دبے جوش کا اظہار ہوتا تھا۔
پھر دھیرے دھیرے شمشان کے سکون میں دراڑ سی پڑنے لگی۔ شمشان کے پاس بنی ویران شکستہ جھونپڑی سے کتوں کے بھونکنے کی آواز آ رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک ایک دو دو کرکے کتنے ہی کتے جھونپڑوں سے نکل کر میدان میں جمع ہونے لگے۔ رفتہ رفتہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اب وہ علی الاعلان اجنبی کی طرف منہ اٹھاکر بھونکنے لگے۔ ان کے جبڑے کھلتے اور تیز نکیلے دانتوں کی لمبی قطار کی ایک جھلک دکھائی دے جاتی۔ لگتا ان کے بھونکنے کی آوازیں ان کے دانتوں کے شگافوں سے پھوٹ رہی ہیں۔ ان کا بے پناہ غصہ لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جا رہا تھا۔ اس جھنڈ میں ایک بلند قامت سیاہ کتے نے اپنے خونخوار آنکھیں اجنبی کے چہرے پر گاڑتے ہوئے غرا کر کہا، ’’عجیب آدمی ہے یہ، ایسی چلچلاتی دھوپ میں شمشان میں کیا کر رہا ہے؟‘‘
’’تس پر مزے سے گابھی رہا ہے۔‘‘ ایک پستہ قد کتے نے لقمہ دیا۔
اس بلند قامت سیاہ کتے کو ا س کا درمیان میں یوں لقمہ دینا پسند نہیں آیا اور اس نے ’عف‘ کرکے اپنے نکیلے دانت اس کی گردن میں پیوست کر دئے اور اسے ہوا میں اچھال کر دور پھینک دیا۔ دیگر کتوں نے بیک آواز بھونک کر اس کی ’جے جے کار‘ کا نعرہ لگایا پھر اس اس سیاہ فام کتے نے اس جملے کو اس طرح دہرایا جیسے وہ جملہ اس کی اختراع ہو۔
’’تس پر مزے مزے سے گا بھی رہا ہے۔ ‘‘
اجنبی کتوں کی زبان سے تو نابلند تھا لیکن اسے زخمی کتے کی حالت زار پر ترس آ گیا۔ اس نے اپنی جیب میں پڑی سوکھی پاؤروٹی کا ایک ٹکڑا نکالا اور پچکار کر اس کتے کو پاس آنے کا اشارہ کیا۔ لیکن اس کے یوں جیب میں ہاتھ ڈال کر باہر نکالتے ہی کتوں میں خوف کی ایک لہر سی دوڑ گئی اور وہ سب ایک دم پیچھے ہٹ گئے۔ اس نے آگے بڑھ کر دھول اور مٹی میں تڑپتے اس پستہ قد زخمی کتے کو گود میں اٹھا لیا۔ اس کی گردن پر ایک گہرا زخم تھا۔ جس سے خون رس رہا تھا۔ اس نے اس کے زخم کو باندھنے کے لئے جیب سے رومال نکالا۔ اس سے پہلے کہ وہ اس کے زخم پر رومال باندھتا کتے نے اپنے تیز دانت اس کی کلائی میں گاڑ دئے اور تڑپ کر اس کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ پھر بےتحاشا گرتا پڑتا بھاگا اور ہانپتا ہوا اپنے جھنڈ میں شامل ہو گیا۔
بلند قامت کالے کتے کی آنکھیں اور بھی سرخ ہوگئیں۔ اس کے منہ سے کف نکلنے لگا وہ زور سے بھونکا۔
’’یہ آدمی باؤلا ہو گیا ہے۔‘‘
’’ہاں! یہ آدمی باؤلا ہو گیا ہے۔‘‘
دوسرے کتوں نے اس کے سر میں سر ملایا،
’’یہ ہمیں ٹھوکر مارنے کی بجائے روٹی دیتا ہے۔‘‘
’’ہاں! روٹی دیتا ہے۔‘‘
’’دوسرے لوگ ہمیں دھتکارتے ہیں، یہ پیار کرتا ہے۔ گود میں اٹھاکر پچکارتا ہے۔ یہ آدمی دوسرے آدمیوں جیسا نہیں ہے یہ باؤلا ہو گیا ہے۔‘‘
ان الفاظ کے ساتھ ہی کتو ں کے جبڑے عجیب وحشیانہ انداز میں وا ہو گئے۔ مگر وہ سب اجنبی سے بری طرح خوف زدہ تھے۔ گویا اس کے صرف ایک لمس ہی سے ان کی موت واقع ہو جائےگی۔ دھونکنی کی طرح پھولتی پچکتی ان کے پسلیوں کی ہڈیاں کمانوں کی طرح تن گئیں۔ وہ کالا کتا کسی رینگتے سائے کی طرح دبے پاؤں آگے بڑھا۔ دوسروں نے بھی اس کی تقلید کی۔ ان کی آنکھیں اجنبی پر گڑی ہوئی تھیں اور ان کی سرخ بانچھوں سے رال ٹپک رہی تھی۔ قریب پہنچ کر کالے کتے نے ایک بیک آدمی پر چھلانگ لگا دی اور اپنے تیز سلسلاتے دانت اس کی گردن میں پیوست کر دیے۔
اس کی تقلید میں دوسرے کتے بھی آدمی پر ٹوٹ پڑے۔ چند لمحوں تک غضبناک غراہٹوں سے دوپہر کا سناٹا کانپتا رہا اور آدمی کتوں کے غول میں چھپ کر رہ گیا۔ گھنی جھاڑیوں سے دو چار پرند پھڑپھڑاکر اڑے۔ تھوڑی دیر بعد تمام کتے ایک ایک کرکے رخصت ہو گئے۔ آدمی بےحس وحرکت پڑا تھا اور اس کے نیچے کی زمین سرخ ہو رہی تھی۔ کاغذ کا پرزہ ہوا سے اڑ کر ایک جھاڑی میں پھنسا پھڑپھڑا رہا تھا۔ زخمی کتے نے پاس ہی بڑے دھول میں سے پاؤروٹی کے ٹکڑے کو چپکے سے منہ میں دباکر ایک طرف کھسک جانا چاہا۔
تبھی وہ قد آور کتا جانے کہاں سے ایک بار پھر اس پر جھپٹا اور اس کے تیز نکیلے دانت دوبارہ اس کی گردن میں پیوست ہو گئے۔ پستہ قد کتے کے جبڑے سے پاؤروٹی کا ٹکڑا چھٹک کر دور جاگرا اور وہ ایک بار پھر دھول اور مٹی میں لوٹتا ہوا کیو کیو کرنے لگا۔ کالے کتے نے جھپٹ کر پاؤروٹی کے ٹکڑے کو اپنے مضبوط جبڑے کی گرفت میں لے لیا اور ایک طرف کو چل دیا۔
اب پیڑوں کے پتوں سے پیدا ہوتی اداس سرسراہٹ کے سوا وہاں کچھ نہیں تھا۔ البتہ کہیں کہیں ایک آدھ پرند کی پھڑ پھڑاہٹ ضرور سنائی دے جاتی۔ درختوں کی نئی کونپلیں شمع کی ساکت لوؤ کی طرح تنی کھڑی تھیں اور زمین پر آدمی کی خون آلود لاش اس جلتی دوپہر میں یوں لگ رہی تھی جیسے کسی دودھا گرم بدن پر تازہ رستا ہوا زخم۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.