Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بایاں ہاتھ

خالدہ حسین

بایاں ہاتھ

خالدہ حسین

MORE BYخالدہ حسین

    جناب والا! میں سچ کہوں گی۔ بالکل سچ۔ پورا سچ اور کچھ نہیں مگر سچ، گو کہ یہ سب کچھ کہتے ہوئے بھی میں نہیں جانتی کہ سچ کیا ہے۔ یہ تو ایک ایسی شبیہ ہے جو کوئی ایک دیکھے تو سیاہ بالکل سیاہ نظر آتی ہے۔ کوئی دوسرا دیکھے تو روشن چمکتی دھوپ ایسی روشن، تو کیا یہ کوئی آنکھ کا نقص ہے۔ دونوں میں کون آشوب چشم کا شکار ہے۔ بہرحال یہ تو بالکل غیر متعلق سی بات بیچ میں آن پڑی تھی۔

    میں تو بات اس لمحے سے شروع کرنا چاہوں گی جب اپنے حواس پر میرا ایمان اٹھ گیا۔ وہ دن بڑا تباہی کا دن تھا۔ صد حیف اس دن پر کہ جب میں نے ایک دم یہ جانا کہ دنیا سے رنگوں، خوشبوؤں اور آوازوں کا تنوع مر گیا۔ ہر چیز کا ذائقہ ایک سا ثقیل تہہ میں زبان پر جمنے لگا اور تمام لمس ایک سے لمس ہو گئے۔ بس ایک مٹیالا، زرد نیند میں ڈوبا دن ہر چیز پر محیط ہو گیا۔ میں نے جو چیز منھ میں ڈالی ایک مٹیالا ذائقہ چھوڑ گئی۔ چیزوں کے رنگ ان مٹھی بھر ساعتوں میں ڈوب گئے اور اپنے پیاروں کے لمس دور دراز کے لاتعلق سابقے بن گئے۔

    کچھ دن تو میرے کنبے کے لوگ یہ سب کچھ دیکھتے اور برداشت کرتے رہے، پھر سب کو میرے چہرے کی لاتعلقی اور آنکھوں کے خالی پن سے کوفت ہونے لگی۔ میرے زوج نے تنگ آکر کہا۔ مجھے لگتا ہے میں کسی پتھر کے ساتھ قید کاٹ رہا ہوں۔ مجھے اس کی یہ بات بہت پسند آئی۔ کیونکہ ایک عرصہ سے مجھے اپنا آپ سڑک کے کنارے کھڑے، گرد میں اٹے حرف مٹے سنگ میل کی طرح نظر آ رہا تھا۔ شاں شاں قریب سے تیز رفتار گاڑیاں گرد اڑاتی چلی جا رہی تھیں اور اب ہر طرف صرف شاں شاں کی مسلسل دبی ہوئی کبھی ابھرتی ہوئی گونج تھی۔ شاید یہ سب باتیں آپ کو نہایت غیرضروری اور لاتعلق نظر آتی ہیں۔ مگر پھر آخر آنکھ کو کچھ تو دیکھنا، کان کو کچھ تو سننا ہے۔ اگر یہ نہیں تو اس کے علاوہ بھی اور جو کچھ بھی ہے یہی ہے۔ شاید اب میں آپ کو الجھا رہی ہوں۔ میں اس تمہید کو ختم کر کے اب اصل واقعہ کی طرف آتی ہوں۔

    جناب والا جیسا کہ میں نے عرض کیا وہ دن بڑا خرابی کا دن تھا۔ جب اپنے حواس پر سے میرا ایمان اٹھ گیا۔ کچھ روز تو میں اپنے آپ کو ملامت کرتی رہی۔ میں نے اپنے آپ کو خوب خوب کوسا کہ اے بنت حوا لعنت ہے تجھ پر جو تونے اپنے آپ کو یوں نفس کے حوالے کر دیا۔ ہاں یہ نفس سے کے حوالے کرنا نہیں تو اور کیا ہے کہ انسان ہوتے ہوئے کوئی اپنے حواس کی نعمتوں سے فیض یاب نہ ہو۔ جی لبھانے والے رنگ دیکھے نہ میٹھی سریلی صدائیں اس کے کان میں پڑیں۔ انواع و اقسام کے ذائقوں کے لیے اس کی زبان مر جائے۔ چنانچہ میں نے اپنے آپ پر سوبار لعنت کی اور میں بہت روئی گڑگڑائی اپنےخالق کے حضور کہ بس اب ایک مہیب اندیشہ منھ کھولے میرے سامنے چلا آتا تھا۔ وہ اندیشہ ایک عجب اٹل ساعت کا تھا۔ نہ ٹلنے والی ساعت۔

    میں نے بہت چاہا کہ میں ایک بار پھر وہی وجود بن جاؤں جو دراصل میں تھی۔ وہ جو دیکھنے والوں کو بہت بھاتا تھا۔ جو لطیف خوشبوؤں اور رنگوں کی شبیہ تھی اور روح پرور موسیقی کی لہر تھی۔ لیکن ایسا نہ ہوا میں نے سب سے، ان سب سے جو میری ذات کے ساتھ کوئی تعلق رکھتے تھے کہا دیکھو سائیں سائیں کرتا ایک مہیب آسیب منہ کھولے میرے سامنے چلا آتا ہے۔ اگر اس آسیب نے مجھے نگل لیا تو تم کیا کروگے؟ اور پھر مجھے اپنی اس بات پر خود ہی ہنسی بھی آ گئی۔

    دراصل کہنا تو مجھے یہ تھا کہ اگر اس آسیب نے مجھے نگل لیا میں کیا کروں گی؟ آخر دوسروں کے لیے اس آنے والی واردات کی کیا اہمیت ہو سکتی تھی اور پھر کون سا تعلق ایسا ہے کہ ٹوٹ نہیں سکتا۔ جب مجھے یہ احساس ہوا تو میں اپنے خالق کی حضور بہت روئی۔ گڑگڑائی کہ مجھے اس آنکھ کے عذاب سے پناہ میں رکھ کہ یہ بڑی سفاک ہے۔ جب اپنی جان پر ظلم کرنے پر آتی ہے تو ٹلتی نہیں۔ مگر جناب والا اب میں آپ کو یہ بھی بتادوں کہ اس وقت بھی دراصل یہ رونا، گڑگڑانا کچھ عجب تھا کہ اندر سے جیسے گہرے خالی کنوئیں میں سے کوئی برابر کہتا تھا کہ ایسا نہ ہو تو اچھا۔ اسی طرح ٹھیک ہے۔ ایک تاریک تجسس پنجے کھولے مجھے پکڑنے کو پل پل بڑھ رہا تھا۔

    جناب والا آپ ان باتوں سے یہ اندازہ لگائیے کہ میں ان دنوں نارمل زندگی بسر نہیں کر رہی تھی۔ جی نہیں ابھی مجھ میں اتنی روحانی منافقت تھی کہ میں تمام دنیاوی معمولات کو پورا کر سکوں اور دیکھنے والو ں کو محض اتنا احساس ہوتا تھا کہ اس عورت کا چہرہ ایک دم سپاٹ اور خالی ہے اور اس کی آواز کہیں دور سے آتی محسوس ہوتی ہے۔ بس یہ انہی دنوں کا ذکر ہے جب میں اپنے شہر کے اس بڑے اسٹور کے قریب سے گزری۔ ان دنوں اکیلے اکیلے سڑکوں پر پھرنا کچھ میرا معمول سا ہو گیا تھا۔ اس اسٹور کے باہر کھڑی ہو گئی اور اس کے بڑے برے شوکیسوں میں جھانکنے لگی۔ کچھ لمحے میں نے تمام چیزیں ایک لاتعلقی سے دیکھیں جو ایک عرصہ سے مجھ پر حاوی تھی۔ مگر پھر وہ عجیب واقعہ ہوا۔

    جناب والا مجھے یوں لگا جیسے کسی نے بجلی کا تیز جھٹکا لگایا ہو۔ اس سے بجلی کی تھرتھراہٹ سر سے لے کر میرے پاؤں کے ناخنوں تک پھیل گئی۔ پھر یکدم ایک عجیب طرح کی میٹھی آسودگی میرے تمام جسم میں بھر گئی اور مجھے اپنے گرد رنگ ہی رنگ، خوشبوئیں ہی خوشبوئیں، سر ہی سر پھیلے نظر آئے۔ اتنی خوبصورت دنیا تو میں نے کبھی بھولے بسرے بچپن میں دیکھی ہوگی۔ جب کبھی ماں کا ہاتھ تھامے کھلونوں بھرے بازار سے گزری تھی۔ اب مجھے حیرت تھی کہ دنیا ایک دم اتنی خوبصورت اتنی رنگین کیوں کر ہو گئی۔ شوکیس میں سجی خوبصورت بوتلوں اور ان پر لگے رنگا رنگ لیبل میری آنکھوں سے چپک گئے۔ وہاں ان شیشوں کے اندر رنگ و بو، حسن و موسیقی کی ایک دنیا آباد تھی۔ وہ دنیا جو میرے لیے مرچکی تھی۔ یہ دنیا خریدی تو جا سکتی تھی مگر اس کے بھاؤ تاؤ میں اس کے سراب ہو جانے کا خطرہ تھا۔ میں مسحور نظروں سے وہ سب کچھ دیکھتی رہی۔

    مجھے وہ سات رنگا شیشہ یاد آ گیا۔ جو کبھی بچپن میں اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر روشنی کے سامنے رکھ کر دیکھتی تھی۔ کس قدر خوبصورت چمکتے، شفاف اور شگفتہ رنگ نکلتے تھے اس میں سے۔ جی چاہتا تھا کہ ان کو انگلیوں سے چھو کر دیکھوں مٹھیوں میں قید کر لوں۔ وہ رنگ اکیلے اس سات رنگے شیشے میں سے نہ نکلتے تھے۔ ان کے ساتھ ہی وہ ایک خوشبوؤں، سروں اور محبت بھرے لمحوں کی لہریں تھیں کہ گرد اگرد بہنے لگی تھیں اور جاتے جاتے ایک نیم بےہوش اداسی دل کو دبائے جاتی تھیں۔ تو آج وہ سب رنگ و بو حسن و موسیقی کی دنیا اس شوکیس میں، اس سات رنگ میں بند تھی۔ میں نے شوکیس کے شیشے کے ساتھ ناک چپکا دی تھی۔ اتنی بہت سی خوبصورت چیزیں گویا ایک جنت گم گشتہ تھی اور اس جنت گم گشتہ کو پالینے کا ایک جنون، میٹھی میٹھی لہریں بن کر میرے دل و دماغ کو جکڑتا گیا۔ میں ایک دھڑکتے لطیف جال میں لپٹ گئی کہ جس سے نکلنا اس خوبصورت دنیا کی موت تھی۔ دنیا جو برسوں بعد مجھے نظر آئی تھی۔ وہ ایک عجیب شوق انگیز لہر تھی کہ مجھے مست بناتی چلی گئی۔

    بیگم صاحب اندر تشریف لے آئیے۔ اسٹور کے دروازے پر سے سیلز مین نےمجھے مخاطب کیا تھا۔ میں چونکی، کوئی انجانا فیصلہ ابہام کی حدوں کو کاٹنے والی سوچ میرے ذہن میں داخل ہوئی۔ میں مسکراتی ہوئی اندر چلی گئی۔ جناب والا! میرا بیگ اس وقت بھی نقدی سے بوجھل تھا۔ مگر وہ آسیب منھ کھولے چلا آ رہا تھا۔ وہ اٹل ساعت آ چکی تھی اور میں اس کے گھیر میں تھی۔ میں نے بہت سی چیزیں نکلوا کے دیکھیں۔ پھر میں خود ہی اپنی اس فنکارانہ چابک دستی پر حیران رہ گئی۔ میرے بائیں ہاتھ نے خوبصورت رنگ برنگی چیزیں خاموشی سے یوں پکڑیں کہ دائیں ہاتھ کوخبر نہ ہو اور بیگ میں انڈیل لیں۔ سروں اورخوشبوؤں کی ایک دنیا میرے بیگ میں تھی۔ وہ ساتوں رنگ میری مٹھی میں اسیر تھے۔ بظاہر میں نے ایک معمولی سی بوتل پسند کر کے اس کی قیمت ادا کی اور اڑتے اڑتے قدموں کے ساتھ دکان سے نکل آئی۔ میں زمین پر نہیں گویا بادلوں پر چل رہی تھی۔ ایک رنگین امنگ میری آنکھوں میں اتر آئی تھی۔ ایک خاص وحشی جذبہ میرے اندر رقصاں تھا۔

    جناب والا میرا جی چاہتا تھا سڑکوں پر قہقہے لگاتی پھروں۔ آج پھر دنیا اتنے بہت سے رنگوں اور خوشبوؤں سمیت زندہ ہوگئی تھی۔ گھر کی دہلیز پار کر کے میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ وہ بیگ کھولا اور رنگ و نور کی اس دنیا کو میز پر انڈیل دیا۔ ان سب چیزوں کو مختلف زاویوں سے الٹ پلٹ کر دیکھا۔ ان کے رنگوں کو آنکھوں میں بسایا اور تب مدتوں سے رکے آنسو بہہ نکلے۔ میرے کنبے نے مجھے کبھی روتے کبھی ہنستے دیکھا اور میز پر لگے اس رنگ و نور کے انبار کو بھی۔

    ’’یہ تم نے کیا کیا؟‘‘ اس نے خوف اور نفرت بھری آواز میں کہا۔ تب میں چونکی اور میں نے سوچا اور خود سے پوچھا ہاں واقعی یہ تم نےکیا کیا؟ اور اس سوچ کے ساتھ ہی وہ رنگ و نور کی دنیا پھر مر گئی۔ وہ سب کچھ مردہ لکڑی میں سے نکلا برادہ بن گیا اور تمام دنیا پر وہ مٹیا لادن محیط ہو گیا۔ چنانچہ جناب والا میں نے وہ سب کچھ اٹھایا اور متعلقہ افسروں کو اس واردات کی اطلاع کی۔

    مجھے اپنے بائیں ہاتھ کی جدائی کا دکھ نہیں۔ جب وہ ہاتھ مجھ سے الگ ہوا تو گویا سیاہ آسیب بھی میرا وجود چھوڑ گیا۔ تب میں نے شکر ادا کیا کہ مجھے اس بائیں ہاتھ سے نجات ملی اور اب صرف وہ نور بھرا پاکیزہ دایاں ہاتھ میرا ساتھی تھا اور میں خوش تھی اور کہتی تھی۔ اے بنت حوا تو خوش قسمت ہے کہ آج تیرے وجود کا سیاہ سایہ مٹ گیا۔ اب تیرا یہ مبارک روشن دایاں ہاتھ تیری اچھی اچھی خبریں سب کو دےگا۔

    مگر جناب والا اب میں اصل واقعہ کی طرف آتی ہوں۔ یہ کل رات ہی کا ذکر ہے۔ میں اس مٹیالے دن اور مٹیالی رات کی عادی ہوچکی تھی۔ رنگ ونور، حسن و موسیقی کی اس دنیا کی تلاش میرے ذہن سے مٹ چکی تھی۔ وہ میرا بایاں ہاتھ سب منحوس یادیں اپنے ساتھ لے جا چکا تھا اور میں سکھ کی نیند سوتی تھی۔ سکھ کی کی گہری نیند مگر کل رات سوئی تو اس گہری نیند سے میں ایک سرسراہٹ سے جاگ اٹھی جیسے میرے بستر میں کوئی جان دار چل رہا ہو۔ میں نے بیڈ لیمپ روشن کیا اور یہ دیکھ کر میری پیشانی عرق ندامت میں ڈوب گئی کہ وہ سرسراتی، کلبلاتی چیز وہ میرا بایاں ہاتھ دوبارہ میرے بازو کی طرف بڑھ رہا ہے۔ میں نے بہت کوشش کی اپنے آپ کو اس بائیں ہاتھ سے محفوظ رکھنے کی۔ مگر دیکھیے اب میں آپ کے سامنے ہوں۔ یہ پھر اسی طرح میری کلائی سے جڑا ہے۔ میرے وجود کا حصہ ہے جسے کبھی کاٹا نہ گیا ہو۔ جناب والا کیا آپ بھی یقین نہ کریں گے کہ یہ کٹا تھا مگر پھر زندہ ہو کر آن جڑا۔ صد حیف ہے میرے وجود پر کہ میں اپنے بائیں ہاتھ سے نجات نہ پا سکی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے