Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بازگشت

MORE BYتاج الدین محمد

    سکینہ کے گھر یکے بعد دیگرے دو بچیوں نے جنم لیا لیکن جب اسے تیسرا حمل ٹھہرا تب سکینہ نے کسی انچاہے خوف سے اپنے حمل کو اپنے شوہر سے چھپائے رکھا۔ پسماندگی درندگی و جہالت کا بھرپور تجربہ آنے والے کو اپنے جیسا انسان سمجھنے کے لیے غالباً تیار نہ تھے۔ لیکن جب علامت ظاہر ہوئی تب تک سات ماہ گزر چکے تھے۔ سکینہ کا شوہر جو دبئی میں رہتا تھا کام ختم ہونے سے اچانک گھر واپس آ گیا۔ جب اسے حقیقی صورت حال کا علم ہوا تو اس نے ہمدردی جتاتے ہوئے کسی ڈاکٹر سے سکینہ کا معائنہ کرایا۔ جب اسے پوری طرح یقین ہو گیا کہ تیسرا بچہ بھی بیٹی ہی ہوگی تب خدا کی خدائی میں دخل اندازی کا کھیل شروع ہوا۔ جب انسان خدا کی تقسیم پر راضی نہیں ہوتا اور قدرت کہ نظام میں چھیڑ چھاڑ کرتا ہے تب روئے زمین پر کبھی کبھی ایسا سانحہ رونما ہوتا ہے جسے دیکھ کر نگاہیں عبرت حاصل کرتی ہیں اور دل دہل جاتے ہیں۔

    سکینہ کے شوہر نے نیم حکیم خطرے جان کی کہاوت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے گاؤں کے کسی ڈاکٹر سے بات کی اور ادویات کی کئی چھوٹی بڑی شیشی لاکر سکینہ کو دی اور اسے سخت و سست کہتے ہوئے وقت پر دوا کھانے کی تاکید کر کے باہر چلا گیا۔ اس نے سوچا یقیناً سکینہ میرے چھل کا تعاقب نہیں کر سکتی۔ لیکن اس میں میری اور اس کی بھلائی پوشیدہ ہے۔ سکینہ اس پرخطر وقت میں اور کس پر بھروسہ کرتی۔ انسان بڑا جلد باز واقع ہوا ہے وہ اپنے جرم کو دوسروں کے سر ڈالنے کے ہنر سے بخوبی واقف ہے۔ لیکن اس کے خطرناک انجام سے بے خبر اپنا تصنع و ریاکاری سے بھرا بناوٹی چہرہ معاشرے کے سامنے پیش کرتا ہے۔ سب کچھ عورت پر ڈال کر خود شرافت کا چولہ پہن لیتا ہے۔ سکینہ اس غلیظ معاشرے کی وہ سہاگن تھی جس نے اپنے کوکھ کے بچے کو زندہ رکھنے کا اختیار کھو دیا تھا۔ سدا دکھ سہنے والی صابر و شاکر سکینہ بے چاری۔

    پھر یک لخت ہی ایک خوشگوار زندگی پر آشوب زندگی میں بدل گئی چند دنوں دوا کھانے کے بعد مکر اور فریب سے بھری ایک زندگی نے دوسری زندگی کی بساط الٹ دی۔ یہ انسانی فطرت کا ایک ایسا کھلا تضاد ہے جس نے لاتعداد دوشیزاؤں کو لقمہ اجل بنایا ہے۔ پھر کائنات پھیل کر وسیع ہو گئی۔ کمرے سے ایک بچے کے رونے کی آواز باہر آ رہی تھی۔ ایک شفیق تبسم سکینہ کے ہونٹوں پر بکھرنے لگا اور اچانک ہی ایک چراغ بجھ گیا اور ماں سننے والی ایک آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔ چاند بادلوں میں کہیں چھپ چکا تھا۔ سکینہ کا آخری جملہ آج بھی میری سماعتوں میں لرزہ پیدا کرتا ہے۔ اس نے سات ماہ کی نوزائیدہ بچی کو بغور دیکھا اور پیشانی چومتے ہوئے کہا۔ تمہارا نام روشن آرا ہوگا میرے خوابوں سے تمہاری زندگی میں اب قیامت تک کا فاصلہ ہے۔

    سکینہ کے شوہر نے اپنی بساط بھر پوری کوشش کی کہ سکینہ کو بچا لیا جائے اور نو مولود کی دنیا اس کی مرضی سے اجڑ جائے اور معصوم زندگی پر خاک کی چادر اوڑھا دی جائے اور اس کی سانسیں منجمد کر دی جائیں لیکن کاتب تقدیر کا قلم چل چکا تھا اور حکم خداوندی کے آگے وہ بے بس و لاچار تھا۔ دھاڑیں مار کر زاروقطار روتے ہوئے اس نے اپنے آپ سے کہا مجھے اس سے اتنا عشق تھا یہ آج تک مجھے معلوم نہ ہو سکا۔ مجھے خود سے نفرت ہے مجھے مکاری و عیاری سے نفرت ہے۔ کاش کے میں جلد بازی نہ کرتا۔ افسوس صد افسوس مجھ پر اور میرے فریب و دغا پر مجھے ضرور اس کی سزا ملنی چاہیے۔

    روشن آرا اب بڑی ہو گئی ہے لیکن وہ دماغی طور سے مفلوج ہے کبھی مہینوں سالوں ٹھیک رہتی ہے کبھی رہ رہ کر اس پر اختلاجی دورہ پڑتا ہے۔ اس کے علاج و معالجہ کی ساری کوششیں بیکار ثابت ہوئیں۔ کوئی رسی کوئی زنجیر اور گھر کا آہنی دروازہ اسے گھر میں روکنے سے قاصر تھا۔ سنسان راستے، گندے گلی کوچے، لچے لفنگوں کے وحشت زدہ چوراہے، نشیڑیوں جواریوں اور شرابیوں کے اڈے اور ویران پڑے کوچہ و بازار اس کے پسندیدہ مسکن تھے۔ اس ناقابل فہم الجھن کو میں کبھی سلجھا نہ سکا۔ سکینہ میری سگی بہن تھی۔ روشن آرا کی دماغی کیفیت دیکھ کر ماضی کے جھروکے میں جھانکتے ہوئے سوچتے سوچتے میرا دماغ آج بھی ماؤف ہو جاتا ہے۔ میں نے اپنے فرائض کو بحسن و خوبی انجام دیا۔ ہماری یہ مخصوص دنیا اور نفرت و محبت کا یہ عجیب و غریب رشتہ جسے سنبھالنا اب میرے اختیار سے باہر تھا۔

    برآمدے میں مدھم بلب روشن تھا صبح کے پانچ بج رہے تھے اچانک اماں کی آواز کان میں گونجی، روشن آرا نہیں ہے! ماں غصے میں میرے کمرے میں داخل ہوئی اور مجھے بغور دیکھتے ہوئے تلخی سے منھ بنا کر بولی۔ میں نے تم سے کئی بار کہا ہے کہ اپنے کمرے کے دروازہ پر تالا لگا کر رکھو لیکن تم سنتے نہیں، صدر دروازہ تو بند ہے۔ جاو اسے باہر تلاش کرو، زمانہ خراب ہے کوئی اونچ نیچ ہو گئی تو ہماری عزت خاک میں مل جائے گی۔ میں اماں کے سامنے خاصا نادم نظر آیا۔ اماں لال پیلی ہو کر کمرے میں ادھر ادھر گھومتی رہیں اور پھر اندر چلی گئیں۔

    اسی طرح تین دن گزر گئے اور روشن آرا کا کہیں پتہ نہ چل سکا۔ ایک دن وہ اچانک گھر میں آن موجود ہوئی۔ وہ بے حد پریشان اور ملول نظر آ رہی تھی۔ میں نے اسے انتہائی مشتبہ نگاہوں سے دیکھا اس کے بال الجھے ہوئے تھے اور آنکھیں سرخ تھیں۔ اس سے کچھ پوچھنا لاحاصل تھا۔ بیماری کے دنوں میں وہ اکثر اپنا دماغی توازن کھو بیٹھتی تھی۔ پھر بھی میں نے ہمت کر کے اس سے کچھ پوچھنے کی کوشش کی۔ یک لخت ایک تلخ قہقہ بلند ہوا، میں نے اچنبھے سے اسے دیکھا، مدتوں بعد آج وہ ہنسی تھی پھر وہ بالکل خاموش ہو گئی وہ قاصر اللسان و قاصر البیان تھی۔ مجھے افسوس ہے کہ میں اس کی بے چین نگاہوں کو سمجھنے سے قاصر رہا اور کوئی خاص کھوج بین نہ کی۔ کوئی تھا جو اس کا پیچھا کر رہا تھا میں نے اس مشکوک چہرے کو کئی بار اس کے پیچھے آتے دیکھا تھا۔ اس کے قدم من من بھر کے ہو چکے تھے۔ خوف اس کے اوپر بری طرح مسلط تھا۔ اصلیت غالباً یہ تھی کہ وہ پہلے والی روشن آرا نہ رہی تھی۔

    چند دنوں وہ گھر میں قید رہی اس کی یہ حالت مجھ سے دیکھی نہ جاتی تھی۔ میری شدید تمنا تھی کہ وہ کسی طرح ٹھیک ہو جائے اور میں اسے کہیں بیاہ دوں۔ میں اپنی اس ذہنی کوفت اور اس صدمہ و تکلیف سے حد درجہ فکر مند تھا۔ میں اس سے متنفر نہ تھا لیکن اس ترجیحی سلوک سے نالاں و پریشان ضرور تھا۔ چنانچہ ایک دن رحم کھا کر میں نے اسے زنجیروں سے آزاد کر دیا اور صدر دروازے پر تالا لگا کر رکھنے کی تاکید کر کے اپنے کمرے کو باہر سے بند کر کے آفس چلا گیا۔

    روشن آرا چند دنوں بعد پھر اچانک غائب ہو گئی۔ میں نے دوبارہ گمشدگی کی رپورٹ تھانے میں درج کرا دی۔ ہم سب نے پہلے کی طرح اس کی کھوج میں دن رات ایک کر دیے لیکن اس کا کہیں پتہ نہ چلا۔ ایک صبح میں اور ماں بازار کے ویران پڑے ایک مکان میں اسے تلاش کرنے گئے ہوئے تھے کہ وہ لڑکا مجھے پھر نظر آیا۔ میں نے اس کا تعاقب کیا لیکن وہ کسی تنگ گلی میں گم ہو گیا۔ میں نے اسے ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ ایک گلی سے دوسری گلی ہوتا ہوا آگے نکل گیا اور کہیں نظر نہ آیا۔ گمان غالب ہے کہ وہ روشن آرا کا کوئی پرانا ہم جماعت تھا جب وہ اسکول جایا کرتی تھی۔

    ایک آدمی نے ہمیں پریشان دیکھ کر جو میرا شناسا تھا اور ہمارے حالات سے واقف تھا میرے کانوں میں کچھ کہا۔ ہم اسے تلاش کرتے ہوئے جمنا کے کنارے پہنچ گئے۔ چلو تیز چلو جلدی جلدی چلو میں نے ماں کا ہاتھ پکڑ کر اسے سہارا دیتے ہوئے کہا وہ کافی تھک چکی تھیں اور نڈھال ہو گئی تھیں۔ ہم سرعت سے ریت کے ٹیلے تک جا پہنچے۔ وہاں کچھ لوگ پہلے سے موجود تھے۔ جمنا کے گھاٹ پر ریت سے ڈھکا روشن آرا کا عریاں و نیم برہنہ جسم خون میں لت پت تھا۔ ماں نے اپنا دوپٹہ جلدی سے اس کے اوپر ڈال دیا۔ میں نے جب نگاہ آسمان کی جانب اٹھائی تو کئی گدھوں کو اپنے اوپر منڈلاتے دیکھا۔ وہ سب زمین کے رہنے والوں پر رہ رہ کر چیں چیں کی آواز میں افسوس کی صدائیں بلند کر رہے تھے۔

    ماں نے اسے جھنجھوڑ کر ملتجی و پر امید نگاہوں سے دیکھا شاید کہ سانس کی کوئی لو اندر پھڑپھڑا رہی ہو۔ اس کے بس میں نہ تھا کہ جمنا سے دو بوند آب حیات نکال کر اس کے منھ میں ڈال دیتی۔ میری آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ ماں اسے دیکھ کر بہت روئی۔ سکینہ کی موت اور روشن آرا کی پیدائش کے بعد گرچہ ہماری زندگی بےچینی و اضطراب سے پر تھی۔ وہ کسی بھی لحاظ سے پرامن و پرسکوں نہ رہی تھی پھر بھی اس میں یک لخت ایک زلزلہ سا آ گیا۔ ماں نے روتے ہوئے آنسو پوچھا اور پورے وثوق سے کہا وہ ایک بہتر جگہ چلی گئی اس کرب و اذیت کی دنیا کو چھوڑ کر۔ ماں نے اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور آسمان کی خلاؤں میں گھورتی ہوئی اس کی آنکھوں کے پپوٹے کو بند کر دیا۔

    چند لحظہ خاموشی چھائی رہی۔ لوگوں کا اژدہام تھا۔ ہم سب نے پولیس کو بلا لیا تھا۔ پوسٹ مارٹم کے بعد لاش ہمارے سپرد کر دی گئی اور کبھی نہ ختم ہونے والی تفتیش چلتی رہی۔ جمنا کے گھاٹ پر چڑیا چہچہا رہی تھی۔ انسانوں کی دنیا سے بے نیاز چرند پرند کی دنیا، نہ پانے کی خوشی نہ کھونے کا غم، بے نیازی بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔ اس کی میت پر ماتم کرنے والا دل، تڑپتی اور روتی ہوئی آنکھیں بہت پہلے خاک آلود ہو چکی تھیں اور اسے وجود بخشنے والا اس کا باپ کبھی لوٹ کر اپنے بچوں میں واپس نہ آیا۔ لوگ کہتے ہیں وہ دیوانہ ہے اسے کچھ یاد نہیں۔ کسی شہر کوئی قریہ میں کسی مجذوب کے ساتھ رہتا ہے مزاروں اور خانقاہوں میں اس کا بسیرا ہے۔

    دوسرے دن اخباروں میں مفصل خبریں آئیں۔ اس کا مردہ ننگ دھڑنگ قابل رحم جسم اس قابل نہ تھا کہ اس کا تذکرہ کسی مہذب سیاق و سباق میں کیا جائے۔ ہم نے اپنی ذمے داری کیا خوب نبھائی؟ واقعی ہم اپنے آپ میں شرمندہ ہیں۔ ہم اس اخلاقی برتری اور دیانت داری میں کہاں کے امین ٹھہرے؟ یقیناً ہم سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں لیکن اس کا نتیجہ اس درندگی کی صورت میں رونما ہوگا کبھی سوچا بھی نہ تھا۔

    میں جب بھی کسی میت کے ساتھ قبرستان جاتا ہوں اس کی قبر پر لگے کتبہ کی عبارت تمہارا نام روشن آرا ہوگا دیکھ کر بہن کا یہ آخری جملہ ضرور یاد آتا ہے۔ میرے خوابوں سے تمہاری زندگی میں اب قیامت تک کا فاصلہ یے اس کی زندگی کی طویل مسافت کو آخر کار منزل مل گئی۔ اس کی یادوں کا قبرستان آج بھی میرے دل میں زندہ ہے اور میرے دماغ میں اس کا چہرہ روشن ہے۔ میں نے ہزار احتجاج کے باوجود آخر کار بہن کی پرانی و خستہ حال قبر کھود کر روشن آرا کی معذور زندگی کو اسی مرقد میں مدفون کر دیا اور سکینہ کے خوابوں سے ملا دیا۔

    روشن آرا کا گلا سڑا وجود اس کی ماں کی بوسیدہ ہڈیوں میں کہیں ضم ہو گیا ہے اور اس کا پاک اور ارفع ترین جسم ماں کی روح میں پیوست ہو چکا ہے۔ روشن آرا کا ماضی گرد آلود کونوں کھنڈروں پراسرار اور تنگ و تاریک گلیوں میں بہر حال غیر محفوظ تھا۔ مجھے اسی گلی کوچوں چوراہوں اور اندھیرے راستے کی بنسبت قبر کی دو گز زمین میں اس کا مستقبل ہر خطرات و خدشات سے پاک محفوظ پرامن اور پرسکون نظر آتا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے