Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بازار، طوائف اور کنڈوم

مشرف عالم ذوقی

بازار، طوائف اور کنڈوم

مشرف عالم ذوقی

MORE BYمشرف عالم ذوقی

     

    بازار

    پہلے بازار اِس طرح نہیں پھیلا تھا۔ 

    وہ بازار کے، اِس طرح پھیلنے پر اداس تھا۔ پہلے بازار میں اتنی بھیڑ نہیں ہوا کرتی تھی۔ پہلے بازار میں اِتنی ڈھیر ساری دکانیں نہیں ہوا کرتی تھیں۔ پہلے دکانوں میں اِتنے سارے کام کرنے والے مزدور یا ’’چیزیں‘‘ نہیں ہوا کرتی تھیں۔ پہلے گلیاں اِتنی تنگ نہیں تھیں۔ سڑک پر آدمی آرام سے گزر سکتا تھا۔ آج کی طرح نہیں کہ پیچھے سے آنے والی بھیڑ آہستہ آہستہ آپ کو آگے کی جانب دھکاّ دے رہی ہے اور جسم پر پڑنے والا ’’بوجھ‘‘۔۔۔ بازار کی بھیانک شکل کے سامنے ہر لمحہ آپ کو بے بس اور لاچار کرتا جا رہا ہو۔۔۔!

    پہلے بازار میں اچھے آدمی ہوا کرتے تھے۔ دیسی چیزیں ملا کرتی تھیں۔ اِس بار بازار میں غیرملکی اشیاء کی باڑھ آئی ہوئی تھی۔ سچی بات یہ ہے کہ بازار کی شکل ہی بدل گئی تھی۔ وہ اِس شہر میں دو تین برس کے بعد آیا تھا۔ دو تین برس میں شہر کا چہرہ اتنا بدل جائےگا، اسے یقین نہیں ہو رہا تھا۔ جو دکان والے اُسے دیکھتے ہی آواز دے کر بلا تے۔۔۔ چائے پلاتے۔۔۔ سامان خریدتے۔۔۔ انہوں نے جیسے اُسے پہچاننے سے ہی انکار کر دیا تھا۔۔۔ 

    نہیں، اسے پختہ یقین تھا۔ یہ وہ لوگ نہیں تھے۔ 

    ’’پھر ان کے بیٹے ہوں گے؟‘‘

    نہیں بیٹے بھی نہیں۔ بازار کے ساتھ، اخلاق، زبان اور لوگ بھی بدل گئے تھے۔ شاید اِسی لئے اس کے دیسی برانڈ کو دیکھ کر کچھ لوگ ہنسے تھے۔ 

    ’’یہ کیا ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’وہی جو ہمیشہ سے ہم سپلائی کیا کرتے ہیں۔‘‘ 

    ہنسنے کی آواز۔۔۔ ’’معنی، دیسی ہے۔۔۔ پھر ہنسنے کی آواز۔‘‘ نہیں۔۔۔ نہیں چلے گا۔‘‘ 

    ’’نہیں چلےگا۔۔۔؟‘‘

    ’’لیکن دور دراز، گاؤں، قصبوں کے لوگوں کو تو۔۔۔‘‘ 

    ’’جواب میں کہا گیا۔۔۔‘‘ اب دور دراز کچھ بھی نہیں ہے۔ گاؤں، قصبے۔۔۔ سب لوگوں کو غیرملکی چیزیں پسند ہیں۔۔۔ اور ہاں۔۔۔ بازار میں ہم وہی کچھ فروخت کرتے ہیں، جس کے آرڈر آتے ہیں۔۔۔ جو سکہ چلتا ہے، ہم وہی لیتے ہیں۔۔۔ 

     اس بار ہنس کر کہا گیا تھا۔۔۔ ’’بازار بدل گیا ہے۔ تم بھی اپنے کو بدل ڈالو۔‘‘ 

    وہ جیسے سناٹے میں تھا۔۔۔ حوصلہ پست ہو چکا تھا۔ ایسا تو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ وہ آتا تھا۔ سامان فروخت کرتا تھا۔ رات گئے ہوٹل میں آرام کرتا تھا۔۔۔ بازار کے درمیان دو ایک ’’دھندے‘‘ کی دکانیں تھیں۔ ان میں سے کسی ایک طوائف کو پٹا کر لے آتا۔ ساری رات عیش کرتا۔ پھر دوسرے دن بڑا مال آرڈر لے کر اپنے گھر روانہ ہو جاتا۔ 

    مگر اس بار بازار نے جیسے اپنا مکمل چہرہ ہی تبدیل کر لیا تھا۔۔۔ اس نے سوچ لیا تھا۔۔۔ یہ بازار اب تمہارا نہیں رہا۔ تمہیں اپنے لئے چھوٹے بازار تلاش کرنے ہوں گے۔ جہاں تمہارے سکے، تمہارے ’’ٹکسال‘‘ چلتے ہوں۔ جہاں سستی دیسی سامانوں کی خرید و فروخت اب بھی ہوتی ہو۔۔۔ اس نے گھبرا کر واپس لوٹنے کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن لوٹنے سے قبل آج کی رات ہوٹل میں وہ آرام سے اور کچھ کچھ ’’عیش‘‘ سے گزارنا چاہتا تھا۔۔۔ ایک عدد طوائف کے ساتھ۔۔۔ اس نے واپسی کا پروگرام انتہائی خوبصورتی سے ترتیب دیا تھا۔ ’’دھندے‘‘ کی جگہ تلاش کرنے میں اسے دشواری نہیں ہوئی اور ایک بار پھر وہ چونک گیا تھا۔ 

     پہلے یہاں دو تین چھوٹی چھوٹی دھندے کی دکانیں ہوا کرتی تھی۔ اب اِنہیں توڑکر ایک بڑے بازار میں تبدیل کیا جا چکا تھا۔۔۔ رنگین بورڈ۔ خوبصورت غالیچہ۔ گھماؤ دار سیڑھیاں۔ ریموٹ سے کھلنے والا دروازہ۔ دروازے کے اندر کھلنے والی جنت کی کنجی۔۔۔ اوپر نیچے خوبصورت، حسین و جمیل، جنت کی اپسراؤں کو لےکر آتی جاتی نرم و نازک کانچ کی تعمیر شدہ ایک ایسی لفٹ۔۔۔ جس کے آر پار کا تمام ’’جغرافیہ‘‘ آسانی سے دیکھا اور پڑھا جا سکتا تھا۔۔۔ ہر طرف پاگل اور مدہوش کرنے والی عطر کی مہک۔۔۔ شاندار صوفے۔۔۔ وہ اِس نئے بازار کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا تھا۔۔۔ اچانک ’’وہ‘‘ نظر آ گیا۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ بالکل نہیں بدلا تھا۔ پہلے وہ اِس دھندے میں ’’دلاّ‘‘ کہلاتا تھا۔ سر پر ترچھی ٹوپی۔۔۔ پاؤں میں لنگی۔۔۔ منہ میں پان، گلے میں لال رومال اور ایک گندہ سا کُرتا۔۔۔ پچھلے دو تین برسوں میں وہ جانے کتنی کتنی بار اِسی ’’دلّے‘‘ سے اپنے لئے طوائف کا انتخاب کر کے، اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ اُسے تعجب اِسی بات پر تھا۔۔۔ بازار کے ساتھ ’’دلاّ‘‘ بھی بدل گیا تھا اور اس کے طور طریقے بھی۔۔۔ ’’دلّا‘‘ سفاری سوٹ میں تھا۔ بال ’’ہیئر بیونگ‘‘ سے، قاعدے سے سیٹ کرائے ہوئے۔۔۔ دلّے کے ساتھ کچھ بے حد خوبصورت لڑکیاں تھیں۔ ایک لڑکی پر جیسے اس کی نظر ایسے چپک کر رہ گئی کہ ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔۔۔ وہ کسی فلمی ایکٹریس سے زیادہ خوبصورت تھی۔۔۔ لیکن اِس وقت وہ کسی گہری سوچ میں گُم تھی۔۔۔ دلّے کا چہرہ بھی دوسری طرف تھا۔۔۔ ایک لمحے کو اس نے سوچا۔۔۔ بازار بدل گیا ہے۔ اور یہ طوائف بازار بھی۔۔۔ دلاّ بھی بدل گیا ہے۔ بہتر ہو گا، وہ چپ چاپ یہاں سے کھسک لے۔ دلاّ بھی اسے کہاں پہچانےگا۔ 

    مگر دوسرے ہی لمحے دلّے کی نگاہیں اُس کی جانب گھوم گئی تھیں۔۔۔ اس کی آنکھوں میں پہچان سے زیادہ ایک شکاری کی چمک آ گئی تھی۔۔۔ 

    ’’آئیے صاحب۔۔۔‘‘ 

    ’’جی۔۔۔‘‘ وہ ہکلا رہا تھا۔ 

    ’’اب غریب خانے میں آ ہی گئے ہیں تو، شوق فرما کر ہی جانے دیں گے ہم۔۔۔‘‘ دلّے نے انتہائی مہذب انداز میں اسے سیلیوٹ مارا۔۔۔ آئیے۔ یہاں۔۔۔ یہاں تشریف رکھئے۔ اس نے لڑکیوں کو وہیں رہنے کا اشارہ کیا۔ پھر اس کی طرف گھوما۔ 

    ’’سب کچھ بدل گیا۔۔۔ کیوں۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘ 

    ’’لیکن آپ نہیں بدلے صاحب۔۔۔ یہ جگہ نہیں بدلی۔۔۔ وہ کسی فلاسفر جیسے انداز میں، گہری سوچ میں ڈوبا ہوا کہہ رہا تھا۔۔۔‘‘ جگہ نہیں بدلتی صاحب، بس رنگ بدل جاتے ہیں۔ روپ بدل جاتا ہے۔۔۔ اور بازار تو بدلنے کے لئے ہی ہوتا ہے صاحب۔۔۔‘‘ 

    ’’تم بھی تو بدل گئے۔۔۔؟‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ میں۔۔۔ وہی دلاّ۔۔۔‘‘ وہ قہقہہ مار کر ہنسا۔۔۔ صرف کپڑے بدلے۔۔۔ کپڑے بدلے۔ اِس لئے زبان بھی بدلنی پڑی۔‘‘ 

    اِس درمیان وہ اپسرا جیسی خوبصورت لڑکی دلّے کی طرف گھومی تھی۔۔۔ 

    ’’میرے لئے کیا حکم ہے۔ یا سونے جاؤں؟‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ ابھی ٹھہرو۔۔۔ وسندھرا۔۔۔‘‘ 

    ’’و۔۔۔ سُن۔۔۔‘‘ وہ جیسے اِس نام کے نشے میں ڈوب گیا۔ ایک بے حد پیارا سا خوبصورت چہرہ۔۔۔ ایسے خوبصورت چہرے بھی دلّے کی جنت میں مل سکتے ہیں، اس کے لئے سوچنا بھی مشکل تھا۔ ایک بڑے بازار کی اپسرا کا مطلب تھا۔۔۔ ’’مہنگی ہو گی۔‘‘ اس کی جیب سے کہیں زیادہ مہنگی۔۔۔ انگور کھٹے ہیں۔۔۔ کھٹے انگور اُس جیسے تاجروں کے لئے نہیں ہیں، جسے بازار میں یہ کہہ کر ننگا کر دیا گیا ہے کہ اس کے ’’مال‘‘ بازار کے قابل نہیں ہیں۔۔۔ اس کے لئے تو کوئی دیسی، ’’قصبی‘‘ ہی چلے گی۔ مگر اِس بڑے بازار میں کیا ایسی قصبی ملےگی۔۔۔؟ اس کے سوچنے کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔۔۔ دلّا اُسی اپسرا کے بارے میں اُس سے پوچھ رہا تھا۔ 

    ’’صاحب۔ یہ چلےگی۔۔۔؟‘‘

    ’’یہ۔۔۔‘‘ 

    ’’ہاں، اِسی کے بارے میں پوچھ رہا ہوں۔‘‘ 

    ’’مگر یہ تو۔۔۔‘‘ 

    ’’میں نے کہا تھا نا۔ گھبرائیے مت صاحب۔ بس آپ کے چنّے بھر کی دیر ہے۔ آپ کے پسند کرنے کی دیر۔‘‘ 

    اپسرا جیسی لڑکی ابھی بھی دوسری طرف دیکھ رہی تھی۔ جیسے اسے فکر ہی نہیں ہو کہ ایک بڑے بازار کے ایک چھوٹے سے حصے میں اس کی بولی لگنی شروع ہو گئی ہو۔۔۔ دوسری لڑکیاں اپنے اپنے کمروں میں لوٹ گئی تھیں۔ لفٹ کے اوپر نیچے جانے کا سلسلہ جاری تھا۔۔۔ کولڈرنکس کی بوتل کے درمیان۔۔۔ اِس جنت نما کمرے میں۔۔۔ جنت جیسی ’’حور‘‘ کے لئے۔۔۔ لڑکھڑاتے ٹوٹتے الفاظ میں اُس نے اپنی بولی بڑھائی۔۔۔ اور ایکدم سے چونک گیا۔ ’’بولی‘‘ ایک مقام تک آ کر سمجھوتے میں بدل گئی تھی۔ 

    ’’بازار میں ہم اپنے ہر طرح کے گاہک کا خیال رکھتے ہیں صاحب۔ لڑکی اب آپ کی ہے۔ آپ چاہیں تو یہاں بھی کمرہ ہے۔ ہوٹل جانے کی فیس الگ سے۔۔۔ قبول۔۔۔؟‘‘

    ’’قبول!‘‘

    معاملہ طے ہو چکا تھا۔ کسی روبوٹ کی طرح ’’وسو‘‘ اٹھ کر اُس کے سامنے کھڑی تھی۔ بالکل علاء الدین کے جِن کی طرح۔۔۔ اس کے قدموں میں بچھ بچھ جانے کے لئے تیار۔ 

    ’’میرے آقا! کیا حکم ہے۔‘‘ 

    پھر اس نے دیر نہیں کی۔ ٹیکسی پکڑی اور ٹیکسی اس کے ہوٹل کی طرف روانہ ہو گئی۔ 

    طوائف
    ہوٹل کے چھوٹے سے کمرے میں نور ہی نور پھیلا تھا۔ وہ آج کی رات کو کچھ کچھ ’’تاریخی‘‘ یا یادگار بنانا چاہتا تھا۔ پتہ نہیں کہاں سے اس کے اندر ایک شاعر آگیا تھا۔ شاعر۔۔۔ وہ اِس شاعر کو، جنت سے اتری ہوئی اپسرا کے سامنے کچھ زیادہ ہی ’’قرینے‘‘ سے پیش کرنا چاہتا تھا۔ حقیقت میں اس طرح سے رومانی وہ کبھی نہیں ہوا۔ ’’مال‘‘ کی سپلائی۔ آرڈر۔ گاڑی اور بسوں کی تھکان۔۔۔ پھر ایک عدد ویشیا کا ساتھ۔۔۔ جنگلی پن کا مظاہرہ اور ایک ٹھنڈی ندی کا بہاؤ۔ لیکن۔۔۔ یہاں تو معاملہ ہی دوسرا تھا۔ 

    لڑکی، شہزادیوں کی طرح بستر پر لیٹ گئی تھی۔۔۔ مخمور آنکھیں۔۔۔ گہری جھیل کی طرح لگ رہی تھیں۔ سنگ مرمر کی طرح شفاف، چمکتا ہوا بدن۔ ایک لمحے کو اس نے کہا بھی۔ 

    ’’کپڑے اتاروں؟‘‘

    ’’نہیں۔ ابھی نہیں۔۔۔ ابھی تو رات پڑی ہے۔۔۔‘‘ 

    لڑکی نے کندھے اچکائے۔ اس کی بانہیں ننگی تھیں۔۔۔ گوشت کا ایک بے حد حسین ٹکڑا۔ جینس کے پینٹ اور سلیو لیس ٹی شرٹ میں اس کا ’’مغرور بدن‘‘ انگاروں کی بارش کر رہا تھا۔ 

    ایک لمحے کو وہ ٹھہر گیا۔ لڑکی اسی کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔ اس کی پریشانی یہ تھی کہ بات کہاں سے شروع کروں۔ مطلب کہاں سے رومانی ہوا جائے۔ وہ سوچ میں گرفتار تھا۔ اتنا بڑا شہر۔۔۔ پھیلتا ہوا۔۔۔ تیزی سے بڑھتا بازار۔۔۔ آلودگی۔۔۔ شور۔۔۔ شروعات شہر سے ہی کرنی چاہئے۔ 

    اب وہ مطمئن تھا۔ ہونٹ گول ہو گئے۔ آنکھوں میں نشہ پیدا کیا۔ اپسرا کے چہرے کی طرف دیکھا اور لگا۔۔۔ الفاظ کے ’’فوارے‘‘ چلنے خود بخود شروع ہو گئے ہوں۔۔۔ 

    ’’تمہارا شہر۔۔۔ تمہیں یاد ہے۔۔۔ پیڑ پودے۔۔۔ کھلکھلاتا ہوا گلشن۔۔۔ گیت گاتی ہوئی ٹھنڈی ہوا۔۔۔ یہ سب مجھے میرے اپنے لگتے تھے۔ جیسے ہوا صرف میرے لئے جھوم رہی ہو۔۔۔ درخت صرف میرے لئے گا رہے ہوں۔۔۔ اور شہر۔۔۔ میں یہیں پیدا ہوا ہوں۔۔۔ اسی مٹی سے۔۔۔ یا پھر ’’پنر جنم‘‘ کا کوئی گہرا لگاؤ ہو گا۔ میں کبھی یہاں بزنس کے خیال سے نہیں آیا۔۔۔ بس۔ یہاں کا۔۔۔ یہاں کی آب و ہوا بار بار مجھے اپنی طرف کھینچ لاتی تھی۔ جیسے شہر بین بجا رہا ہو۔۔۔ میرے لئے۔۔۔ بلا رہا ہو مجھے۔۔۔ تمہیں آنا ہی ہوگا اور دیکھو۔۔۔‘‘ 

    ’’یہ شہر میرا نہیں ہے۔۔۔‘‘ 

    لڑکی نے درمیان میں ہی بات کاٹ دی۔ جیسے ہوا رک گئی۔ ’’بین‘‘ کا بجنا بند ہو گیا۔ سرسراتے پیڑ خاموشی میں بدل گئے۔۔۔ گیت رک گیا۔۔۔ 

    وہ ایکدم سے چونکا۔۔۔ ’’تمہارا نہیں، مطلب۔۔۔؟‘‘

    ’’مطلب میرا نہیں ہے۔۔۔‘‘ 

    ’’پھر۔۔۔؟‘‘

    ’’میں ابھی حال میں آئی ہوں۔ پھر کہاں جاؤں گی۔ کہہ نہیں سکتی۔۔۔‘‘ 

    ’’چلو۔۔۔ کوئی بات نہیں۔۔۔‘‘ 

    آگے بڑھ کر اس نے کھڑکی کھول دی۔۔۔ کھڑکی سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اندر آ گئے تھے۔ 

    ’’ٹی وی چلا دوں۔۔۔؟‘‘ 

    ’’نہیں۔۔۔ اس کی آواز خاموش لہروں کی طرح ’’ساکت‘‘ تھی۔ 

    وہ بھی کچھ دیر تک کھڑکی سے باہر بے مطلب دیکھتا رہا۔ جیسے اپسرا سے دوبارہ گفتگو کے لئے نئے لفظ تلاش کر رہا ہو۔۔۔ اس نے آئینہ میں اپنا جائزہ لیا۔ سفید کرتا، پائجامہ۔ آنکھوں کا نشہ ابھی اترا نہیں تھا۔ ہونٹ ابھی بھی گول تھے۔ اندر رومانی انسان موجود تھا۔ ’’شہر‘‘ والا کارتوس تو فیل کر گیا۔ جانے دو۔ کیا ہوا۔ لڑکی اب کھڑکی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ایک لمحے کو وہ اٹھی۔ لہرا کر کھڑکی کے پاس کھڑی ہو گئی۔۔۔ جیسے کشتی کے ’’بادبان‘‘ کھل گئے۔۔۔ ہوا کے رتھ پر ایک خوبصورت سا چہرہ، ’’جھولے‘‘ جیسا جھول رہا تھا۔ 

    ’’وسو۔۔۔‘‘ اس کی آواز میں نشہ تھا۔۔۔ وسندھرا۔۔۔ کتنا پیارا نام ہے۔۔۔ تمہیں پتہ ہے وسو۔۔۔ دلّے نے۔۔۔ نہیں معاف کرنا مجھے۔۔۔ پہلے ہم اُسے اِسی نام سے پکارتے تھے۔۔۔ چلو، چھوڑو اِس بات کو۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا۔ دلّے نے جیسے ہی تمہارا نام لیا۔۔۔ و۔۔۔ سن۔۔۔ دھرا۔۔۔ پتہ ہے۔۔۔ مجھے کیا لگا۔۔۔ کبھی تم نے ریگستان میں، خاموشی کی ریت پر چلنے والے اونٹوں کی گھنٹیاں سنی ہیں۔۔۔ نہیں۔ میں مندر یا گرجا گھر کی گھنٹیوں کی بات نہیں کر رہا۔۔۔ ریت کی اڑتی آندھی میں، ایک قطار سے چلے آ رہے، اونٹوں کے گلے میں بندھی گھنٹیاں۔۔۔ جیسے ’’جلترنگ‘‘ بجتا ہے۔۔۔ جیسے دنیا کے سب سے میٹھے ساز نے تمہارا نام پکارا ہو۔ و۔۔۔ سن۔۔۔ دھ۔۔۔ را۔۔۔ جیسے۔۔۔‘‘ 

    ’’وسندھرا میرا نام نہیں ہے۔۔۔‘‘ 

    وہ کھڑکی سے ہٹ گئی تھی۔ میں نے جائزہ لیا۔ وہ خاصی لمبی تھی۔ ایک خوبصورت اور پرکشش جسم۔۔۔ لیکن جیسے، دھیمی دھیمی آنچ پر جلتے پگھلتے جسم کی اسے کوئی فکر ہی نہیں تھی۔ وہ اٹھ کر کرسی پر بیٹھ گئی۔۔۔ 

    ’’تمہارا نام نہیں۔۔۔‘‘ میں اٹک رہا تھا۔ لفظ ٹوٹ رہے تھے۔۔۔ 

    ’’ہاں۔۔۔‘‘ 

    ’’مگر دلّے نے تو۔۔۔‘‘ 

    ’’ہاں‘‘ وہ ہر روز نام بدل دیتا ہے۔۔۔‘‘ 

    ہر روز۔۔۔ مطلب تمہارا اپنا کوئی نام نہیں۔‘‘ 

    وہ گہری سوچ میں گم تھی اور ایک ٹک میرے چہرے کو تکنے لگی تھی۔۔۔ 

    ’’تم سونا چاہتی ہو تو۔۔۔‘‘ 

    ’’نہیں‘‘ ۔۔۔ اس کے الفاظ میں سختی نہیں تھی۔۔۔ وہ سب کچھ ایک روبوٹ کی طرح کر رہی تھی۔۔۔ ’’تم نے خریدا ہے مجھے۔ آج کی رات کے لئے۔ مجھے حکم ہے، میں وہی کروں جو تم چاہوگے۔۔۔‘‘ 

    کہنے کے لئے تو اس کے پاس متعدد سوالات تھے۔۔۔ زندگی اور مجبوری سے جڑے سوالات۔۔۔ یہاں، اِس منزل تک کی تکلیفوں سے الجھے ہوئے سوالات۔۔۔ مگر ایسے ’’بےرحم‘‘ سوالوں کی شروعات سے ایک اچھی، خوبصورت اور رومانی رات کا ستیاناس نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ ایک بار پھر بڑی ادا سے بستر پر لیٹ گئی تھی۔ ’’قلوپطرہ، مونا لیزا سے لے کر جنیفر لوپیز تک کتنے ہی نام ہونٹوں تک آ کر، ٹھہر گئے۔۔۔ یہ جسم، یہ لباس۔۔۔ وہ اُس کے لباس کا جائزہ لے رہا تھا۔ آج جینس تو ہر دوسری تیسری لڑکی پہنتی ہے۔ سلیولیس فینسی شرٹ تو سبھی پہنتے ہیں۔۔۔ مگر اتنا بولتا ہوا لباس۔۔۔ چوائس کتنی اچھی ہے۔۔۔ ہیرا اپنی قیمت پہچانتا ہے۔ 

    ہوا تیز ہو گئی تھی۔ کھڑکی کے پٹ ڈول رہے تھے۔۔۔ وہ آہستہ سے بولی۔ 

    ’’کھڑکی بند کر دو۔۔۔‘‘ 

    ’’اچھا۔‘‘ 

    وہ اپنی جگہ سے اٹھا۔ کھڑکی سے، بادلوں کے کچھ ٹکڑوں کے درمیان، آنکھ مچولی کھیلتا ننھا سفید چاند آ گیا تھا۔ دروازہ بند کرتے ہی وہ تیزی سے مڑا۔ چاند اپسرا کے لباس میں گُم تھا۔۔۔ سفید ٹی شرٹ، بادل کے ٹکڑوں میں تبدیل ہو گئے تھے۔ چاند اِن ٹکڑوں میں سمٹ آیا تھا۔۔۔ 

    اپسرا دھیرے سے ہنسی۔۔۔ 

    ’’کیا دیکھ رہے ہو۔۔۔‘‘ 

    ’’تمہارا لباس۔۔۔‘‘ 

    ’’لِ۔۔۔ باس۔۔۔‘‘ اپسرا کہتے کہتے رک گئی۔ 

    ’’کتنا خوبصورت۔ کتنا پُر کشش ہے۔ جیسے۔۔۔‘‘ 

    اس کی کھنک دار ہنسی نے ایک بار پھر کمرے کا سکوت توڑ دیا تھا۔۔۔ ’’یہ لباس بھی میرا نہیں ہے۔‘‘ 

    ’’مط۔۔۔ لب۔‘‘ 

    اپسرا چپ تھی۔۔۔ ’’مطلب میرا نہیں ہے۔ کل والی پارٹی نے دیا تھا۔ گِفٹ۔ ایک رات کا تحفہ۔۔۔ کچھ سر پھرے ایسے بھی ہوتے ہیں۔ قیمت کے ساتھ ساتھ گِفٹ بھی دے جاتے ہیں۔۔۔ پاگل۔‘‘ 

    باہر جیسے ہوا کا شور رک گیا۔ بند کھڑکی سے بادلوں کے ٹکڑے، جیسے ’’کُہرا‘‘ بن کر کمرے میں سمٹ آئے۔ گھُپ اندھیرا۔ نمی کی پتلی سی چادر۔ پھر جیسے دھیرے سے چادر ہٹی۔ اندھیرا ختم ہوا۔ بادل کھڑکی سے باہر لوٹ گئے۔ وہ فکر مند تھا۔۔۔ کیسی لڑکی ہے۔ نام بھی اپنا نہیں۔۔۔ لباس بھی نہیں۔۔۔ شہر بھی نہیں۔۔۔ 

    باہر جیسے ڈرم پیٹے جا رہے ہوں۔ 

    وہ یکایک چونک پڑا تھا۔ لڑکی اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ پھر یکایک اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ اب وہ اس کی آنکھوں میں کچھ پڑھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ 

    ہوا پھر سے تیز ہو گئی تھی۔۔۔ وہ ..بستر پر دوبارہ لیٹ گئی تھی۔۔۔ اُس کے ہاتھ بارش بن گئے تھے۔۔۔ اپنے ہی جسم پر مچلتے ہوئے۔۔۔ 

    ’’ہوا تیز ہے۔۔۔ ہے۔۔۔ نا۔۔۔‘‘ 

    ’’ہاں۔۔۔‘‘ 

    اس نے ایک جھٹکے سے جینس ہوا میں اڑا دی۔۔۔ 

    ’’کھڑکی کے پٹ ڈول رہے ہیں۔۔۔‘‘ 

    ’’ہاں۔۔۔‘‘ 

    سفید ٹی شرٹ، اس کے مخملی بدن سے الگ ہو چکی تھی۔ وہ سر سے پاؤں تک آگ تھی۔ نہیں جل مچھلی۔۔۔ نہیں جل مچھلی نہیں۔۔۔ فرانس کی شِنگورافش کے بارے میں اس نے سنا تھا۔۔۔ ایک پانی میں تیرنے والی عورت۔۔۔ بستر جیسے ہوا میں اڑ رہا تھا۔۔۔ ایک بےحد حسین چہرہ۔ لمبی گردن۔ قلوپطرہ کی طرح، تنا ہوا حسین، گٹھا ہوا جسم۔۔۔ جیسے کمان سے تیر چھوٹنے بھر کی دیر ہو۔ دو ننگے پاؤں۔۔۔ جیسے پانی میں لہراتی دو ننگی حسین ڈالیاں۔۔۔ 

    گفتگو کا سناٹا، اس کے حسین مچلتے جسم نے توڑ دیا تھا۔۔۔ وہ کانپ رہا تھا۔ جذبات کی تپش میں۔۔۔ بہتے سیلاب میں۔۔۔ ٹھنڈے پانی اور گرم آگ میں۔۔۔ وہ اُڑ رہا تھا۔۔۔ نہیں بہہ رہا تھا۔۔۔ یہ لڑکی۔ نہیں ویشیا۔ نام بھی نہیں۔ شہر بھی نہیں۔ لباس بھی نہیں۔۔۔ مگر یہ حسین جسم۔۔۔ یہ حسین چہرہ۔۔۔ 

    سمندر میں چھلانگ لگانے سے پہلے وہ اسے خوش کرنا چاہتا تھا۔ وہ جانتا تھا۔ لڑکی اس کے سوالوں سے بوجھل ہو گئی ہے۔ مگر اب آخری سوال۔۔۔ آخری ہتھیار۔۔۔ بستر پر آگ کا دریا بہہ رہا تھا۔۔۔ اُس نے آگ کے دریا کو مدہوش ہو رہی آنکھوں سے دیکھا۔ آنکھوں میں خمار چھا گیا۔ ہونٹ گول ہو گئے۔ وہ ایک بار پھر رومانی تھا۔ 

    ’’یہ۔۔۔ تمہارا چہرہ۔۔۔ تمہارا جسم۔۔۔ تم یقین کرو گی۔ وسو۔۔۔ یا جو بھی تمہارا نام ہو۔۔۔ تم یقین۔۔۔‘‘ 

    ’’یہ جسم میرا نہیں ہے، یہ چہرہ میرا نہیں ہے۔۔۔‘‘ وہ کسی روبوٹ کی طرح اپنا پرس کھول رہی تھی۔۔۔ ’’ہاں۔ چونکو مت۔ اِس میں کچھ بھی چونکنے جیسا نہیں ہے۔۔۔‘‘ 

    وہ ایک لمحہ کو رُکی۔۔۔ 
    باہر طوفان یکایک تیز ہو گیا تھا۔ کھڑکی کے پٹ تیز تیز بجنے لگے تھے۔۔۔ جیسے ابھی ہوا کا زور، پوری طاقت سے کھڑکی کے پٹ توڑ ڈالےگا۔ وہ کہہ رہی تھی۔۔۔ 

    ’’سنو۔۔۔ اِس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ یہ چہرہ، یہاں تک۔۔۔ ماں بتاتی تھی۔۔۔ اُس کا ہے۔۔۔ یہاں۔۔۔ یہاں سے یہاں تک یہ والا حصہ میرے باپ کا۔۔۔ ماں میری ہاتھ کی انگلیوں کے بارے میں بتاتی تھی کہ۔۔۔ ماں کہتی تھی پیر تو بالکل اُس کے جیسے۔۔۔ اور یہ حصہ۔۔۔ ماں کہتی تھی۔۔۔ ماں کا ایک بوائے فرینڈ تھا۔۔۔‘‘ 

    تیز ہوا سے کھڑکی کی سٹکنی ٹوٹ کر گر گئی تھی۔ وہ بچوں کی طرح تالیاں بجا رہی تھی۔۔۔ ہا۔۔۔ ہا۔۔۔ یہاں بھی تم ہار گئے۔۔۔‘‘ 

    بچوں کی طرح پرس میں ہاتھ ڈال کر اس نے کنڈوم نکال لیا تھا۔۔۔ 

    ’’یہ میرا ہے۔ اِسے میں ساتھ لے کر چلتی ہوں۔۔۔‘‘ 

    وہ بچوں کی طرح ’’کنڈوم‘‘ کو پھونکنے، پھلانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔ کمرے میں یکایک طوفان بڑھ گیا تھا۔

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے