Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بابا رنگوں والا

قرۃ العین خرم ہاشمی

بابا رنگوں والا

قرۃ العین خرم ہاشمی

MORE BYقرۃ العین خرم ہاشمی

    وہ ایک خوبصورات شھر تھا رنگوں تتلیوں جگنووؤں سے بھرا ہوا وہاں خونصورات پھول تھے اور ان کی دلفریب خوشبو سے ماحول معطر رہتا تھا۔ عبداللہ کو یاد ہے۔ وہ بہت چھوٹا تھا رنگوں اور تتلیوں کے اسی شہر میں رہتا تھا نام اور جگہ تو اسے یاد نہں تھی۔ مگر آج بڑھاپے میں پہنچ کربھی اسے وہ دور بہت شدت سے یاد آتا تھا اور اس کے بچپن کی کی ایک خاص یاد جسے چاہ کر بھی وہ کبھی بھول نہں پایا۔ بابا رنگوں والا۔۔۔ یہ نام اسے دیکھ کر خود با خود زہن میں آتا تھا۔ بابا جی کا حلیہ ہی اس طرح کا ہوتا تھا۔ ان کا قد کا فی لمبا تھا اور انہوں پاؤں تک آتا ہوا لمبا سا چوغہ یا گاؤن پہنا ہوتا تھا۔ اس چوغہ کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں بہت سارے رنگ تھے جو ایک دوسرے میں مکس ہو کر عجیب تاثر دیتے تھے جیسے قوس و قزح کے رنگ ہوں اور انہی ڈھیر سارے رنگوں سے تیارایک تھیلا انکے کندھے پر بھی ہوتا تھا اور سب سے مزے کی بات یہ تھی انکے ہاتھ میں ایک باریک سی چھڑی تھی اور ایسے لگتا تھا کہ وہ کسی بہت خوبصورت سے سنگِ مرمر یا شیشے سے بنی ہوئی ہو اور اس چھڑی میں بھی بہت سے مختلف رنگ تھے۔

    عبداللہ کو یاد ہے کہ بابا رنگوں والا کو دیکھ کر سب بچے اکٹھے ہو جاتے تھے۔ بابا رنگوں والا سب بچوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ وہ کافی دیر بچوں کے ساتھ رہتے، ان کی باتیں سنتے پھر اپنے تھیلے میں ہاتھ ڈال کرمختلف چیزیں برآمد کرتے تھے۔ کبھی رنگ برنگی ٹافیاں کبھی کوئی پیاری سی گڑیا کبھی تتلیاں اور کبھی خرگوش۔۔۔

    غرض جس سے بچے خوش ہوتے تھے۔ ہنستے تھے کھلکھلاتے تھے۔ بچوں کی ہنسی ساری فضاء میں خوشی بکھرا دیتی تھی۔ کبھی کبھی۔۔۔ بابا رنگوں والا اپنے مضبوط اور مخروتی انگلیوں والے ہاتھ میں پکڑی چھڑی گھماتے، جس سے کوئی نہ کوئی رنگ نکلتا تھا اور دھواں بن کر ہوا میں تحلیل ہو جاتا تھا۔ یہ صرف ان بچوں کے لیے ہوتا تھا جو بہت اداس اور روئے ملتے تھے۔ جیسے ہی وہ رنگ فضاء میں تحلیل ہو جاتے، وہ بچے پرسکون ہو جاتے۔

    وقت کا کام گزرنا ہے سو وہ گزر ہی جاتا ہے۔ معصوم بچپن لڑکپن میں۔ لڑکپن جوانی میں بدل جاتا ہے۔

    عبداللہ کو یاد ہے کہ وہ بابا رنگوں والا سے ہمیشہ پوچھتا تھا۔ بابا رنگوں والا میرے لیے کیا ہے اور بابا رنگوں والا عبداللہ کی بےتابی پر ہنستے ہوئے اپنے تھیلے سے کچھ نہ کچھ نکال کر اسے دے دیتے۔ موسم بدلے وقت گزرا۔ نہ وہ شہر رہا نہ وہ جگہ، مگر بابا رنگوں والا کا ساتھ ہمیشہ سایہ بن کر ساتھ ساتھ رہا۔ ہاں مگر اب جوں جوں عبداللہ بڑا ہوتا جا رہا تھا۔ بابا رنگوں والا سے اس کی فرمائشیں بھی بدلتی جا رہی تھیں۔ جنہیں سن کر بابا رنگوں والا مسکراکر اپنی تھیلی میں ہاتھ ڈالتے اور اس کی حسب منشا چیز برآمد کر دیتے۔

    اب اکثر ایسا ہونے لگا تھا کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ عبداللہ کبھی پریشان ہوتا یا اداس ہوتا تو بابا رنگوں والا اپنی چھڑی گھماتے ، اس میں سے نیلے یا گلابی یا کبھی اور کسی اور رنگ کی روشنی نکلتی پھر فضاء میں بکھر جاتی۔ کچھ دیر کے لیے ہی سہی عبداللہ مطمعن ہوجاتا۔

    عبداللہ اکثر سوچتا تھا کہ بابا رنگوں والا آتے کہاں سے ہیں، کون ہیں؟ ان کے پاس یہ کیسا جادو ہے؟ یا یہ نظر کا دھوکا ہے؟ اور میں جہاں بھی ہوتا ہوں وہ مجھ تک کیسے پہنچ جاتے ہیں۔ عبداللہ نے بہت بار یہ سوال کئے۔ مگر بابا رنگوں والا نے ہنس کر ٹال دیا۔

    ایک دن عبداللہ کے بہت اصرار کرنے پر بولے۔

    ‘’عبداللہ صبر کرو۔۔۔ اور وقت کا انتظار کرو۔ وقت ہمیں ہمارے سب سوال کا جواب دیتا ہے۔ مگر اپنے حساب سے اپنے مقرر کردہ وقت پر۔''

    بابا رنگوں والا نے دور کہیں خلا دیکھتے ہوئے اپنی بات مکمل کی۔ اس دوران انکی چھڑی کا رنگ بھی سفید اور کبھی کالا ہوتا رہا۔ عبداللہ نے کچھ بھی نہ سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔ پھر اور وقت گزرا، نئی زمہ داریاں سر پر پڑی تو بہت کچھ تیزی کے ساتھ ساتھ بدلا۔وقت اور حالات نے اتنی فرصت ہی نہیں دی کہ اسے کچھ اور سوچنے کا موقع ملتا۔ عبداللہ فکر معاش میں اتنی بری طرح مگن ہو گیا کہ اسے یہ بھی یاد نہیں رہا کہ کبھی وہ کتنی شدت سے بابا رنگوں والا کا انتظار کرتا تھا۔ بابا رنگوں والا ایک بھولی بسری یاد بن کر رہ گیا۔اپنے اہل و عیال کی کفالت کرتے کرتے وہ بڑھاپے کی دہلیز پہ آ کھڑا ہوا اور جب اس کی رفیقِ حیات اسے داغ رفاقت دے گئی اور سب بچے اپنے اپنے آسمان پہ اپنی اپنی اُڑان بھرنے کے لئے اسے اکیلا چھوڑ گئے اور وہ اس تنہائی میں اکیلا رہ گیا تب اسے شدت سے گزرا ہوا وقت یاد آتا اور اپنے بچپن کی خاص یاد بابا رنگوں والا جو اس سے کہیں کھو گیا تھا۔وہ بی ایسا ہی تنہا اور اداس دن تھا۔ صبح سے چھائے گھنے سیاہ بادل چھائے رہے اور اسی رات بہت تیز طوفانی بارش ہوئی۔ عبداللہ اکیلا اپنے کمرے میں بیٹھا بابا رنگوں والا کو شدت سے یاد کر رہا تھا۔ اچانک بہت زور سے بجلی کڑکی چاروں طرف روشنی سے چمکی، روشنی اتنی تیز تھی کہ عبداللہ کی آںکھیں چندہیا گیئں۔ عبداللہ نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا، جب ہاتھ ہٹایا تو حیران ہی رہ گیا۔ سارا منظر ہی بدل چکا تھا۔ طوفانی رات کی جگہ ہر طرف چمکتا روشن دن تھا۔ تاحد نگاہ پھیلا سبزہ، پرندوں کی آوازوں سے چہکتا جہاں۔ ایک خوبصورت سی جھیل تھی جس کے کنارے سفید رنگ کی بطخیں موجود تھیں۔

    عبداللہ نے گہری سانس لی اسے لگا کہ اس کی روح تک میں ٹھنڈک اتر گئی ہے۔ عبداللہ کی نظر ایک پگڈ نڈی پر پڑی وہ بےاختیار اس طرف چل پڑا۔ تھوڑا آگے جاکر اسے اندازہ ہوا کہ یہ اونچائی کی طرف جا رہا ہے۔ مزید تھوڑا آگے گیا تو ایک مضبوط اور تناور درخت تھا۔ جس کی گھنی شاخوں کا سایہ بہت دور تک پھیلا ہوا تھا وہ تھوڑا آگے بڑھا تو ایسا لگا جیسے درخت کے تنے کے پاس کوئی موجود ہے۔ عبداللہ نے جلدی سے قدم آگے بڑھائے۔ درخت کے نیچے بہت بڑا گول سا پتھر تھا۔ جس پر بیٹھے شخص کو دیکھ کر عبداللہ حیرت ذدہ رہ گیا اور بےاختیار چلایا؛

    بابا رنگوں والا اور بھاگ کر ان کے پاس پہنچ گیا بابا رنگوں والا نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔ جس کی سانس تھوڑی سی مشقت سے ہی پھولنے لگی تھی۔

    ‘’آپ۔۔۔ کہاں چلے گئے تھے، میں نے اتنا ڈھونڈا آپکو مگر۔۔۔’’عبداللہ نے پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان کہا۔ بابا رنگوں والا نے مسکرا کر اسے دیکھا اور پھر نظریں گھما کر سامنے دیکھنے لگے جہاں جھیل بہت خوبصورت اور پرسکون لگ رہی تھی۔

    ''عبداللہ: میں تو اپنی جگہ پر ہی موجود ہوں، چلے تو تم گئے تھے اور تم جیسے بہت سے لوگ’’بابا رنگوں والا نے بہت اطمینان سے جواب دیا تھا۔

    ''کیا مطلب۔۔۔ اچھا خیر چھوڑو یہ بتاو آپ میرے لئے کیا لائے ہیں؟''

    عبداللہ نے بےتابی سے پوچھا تو بابا رنگوں والا کھلکھلا کر ہنس پڑے اور نفی میں سر ہلا کر بولے۔

    ''آج میرے پاس تمہارے لئے کچھ نہیں ہے۔۔۔''

    ''یہ کیسے ممکن ہے؟ آپ دیکھیے تو سہی۔۔۔’’ عبداللہ نے حیرت سے کہتے ہوئے اصرار کیا تھا۔ بابا رنگوں والا نے ایک اداس نظر اس کے امید بھرے چہرے پہ ڈالی اور پھر اپنے تھیلے کو بےدلی سے دیکھنے لگے جیسے انہیں پتا تھا کہ کچھ نہیں نکلےگا اور کچھ دیر بعد اپنی تلاش ترک کر کے عبداللہ کی طرف دیکھنے لگے جو آنکھوں میں اشتیاق لئے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔

    ''معذرت میرے بچے میرے پاس تمہارے لئے کچھ نہیں ہے۔''

    بابا رنگوں والا نے افسردگی سے کہا۔

    ‘’یہ کیسے ہو سکتا ہے، آپ نے ہمیشہ مجھے کچھ نہ کچھ دیا ہے اور آج خالی ہاتھ کیسے بھیج سکتے ہیں؟ آپ اپنی چھڑی استعمال کرکے دیکھیں۔’’

    عبداللہ نے حیرانگی سے کہا۔

    بابا رنگوں والا نے گہری سانس لے کر چھڑی بھی گھمائی مگر اس میں کالا اور سفید رنگ ہی ابھرتا رہا۔عبداللہ حیرت سے دیکھتا رہا۔

    ''میں مجبور ہوں قدرت کی منشا کے آگے۔۔۔''

    بابا رنگوں والا نے سر جھکا کر کہا۔

    ‘’میں نہیں مانتا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟''

    عبداللہ نے بےیقینی سے دھراتے ہوئے کہا

    تو بابا رنگوں والا نے مسکرا کر اسکی طرف دیکھا۔

    ''عبداللہ اس سورج کو دیکھ رہے ہو،’’ بابا رنگوں والا نے سامنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

    ‘’سورج پوری شان و شوکت کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔ اپنی روشنی سے سارے جہاں کو منور کرتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ اسکی روشنی مدھم ہوتے ہوئے رات میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح انسانی عمر کا سورج طللوع ہوتا ہے۔ انسان بھی اپنے بچپن سے لے کر اپنے مقرر کردہ وقت تک پوری آب و تاب سے چمکتا ہے۔ ایک وقت ایسا ہوتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز اسکے قدموں میں ڈھیر ہوتی ہے مگر وہ اور سے اور کی جستجو جاری رکھتا ہے۔ پھر اسکی عمر کا سورج غروب ہونے کے قریب پہنچ جاتا ہے اور انسان سوچتا رہ جاتا ہے کہ اتنی جلدی۔ ابھی تو بہت سے کام ادھورے رہ گئے ہیں اور تم مجھ سے پوچھتے تھے نہ کہ میں کون ہوں اور کہاں سے آتا ہوں؟''

    بابا رنگوں والا نے پراسرار مسکراہٹ کے ساتھ عبداللہ کے چہرے پر نظر ڈالی۔ جس کی آنکھوں میں یکدم خوف اتر آیا تھا۔

    ‘’کون ہیں آپ؟''

    عبداللہ نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔

    ‘’میں۔۔۔’’

    بابا رنگوں والا نے اپنے سینے پر اپنی انگلی رکھی۔

    ‘’میں تمہارے خواب ہوں بلکہ ہر اس ذی نفس کے، جو جو خواب دیکھتے ہیں اور انکے پیچھے تمام عمر بھاگتے ہیں۔۔۔''

    ''خواب۔۔’’ عبداللہ نے بےیقینی سے دہرایا۔

    ''یہ کیسے ممکن ہے؟ میں کچھ سمجھا نہیں۔۔۔''

    ''ہاں یہ یقین کرنا مشکل لگتا ہے۔۔۔’’ بابا رنگوں والا نے عبداللہ کی حالت کو سمجھتے ہوئے سر ہلایا۔

    ''ہم بہت چھوٹی عمر سے اپنے تصور کی ایک دنیا آباد کر لیتے ہیں جب ہم چھوٹے ہوتے ہیں تو ہمارے خواب بھی چھوٹے ہوتے ہیں۔ ہمارے معصوم بچپن کی طرح کے۔۔۔ اور میرا کام ہے لوگوں میں رنگ برنگے خواب بانٹنا۔۔۔ بچپن بہت معصوم ہوتا ہے۔ اس میں خواب زیادہ ہوتے ہیں۔ رنگوں سے مزین، تتلیوں اور جگنوں کے خواب، تمہیں تاد ہوگا کہ تمہارے بچپن سے جوانی تک جس میں خوابوں کی دنیا پوری طرح سے آباد ہوتی ہے۔ میں اکثر تمہیں ملتا تھا۔ اپنے تھیلے سے تمہارے من پسند خواب تمہیں نکال کر دیتا تھا۔ اسی طرح جو لوگ بہت اداس اور بچپن سے ہی خوابوں سے محروم ہوتے تھے۔ میں اپنی چھڑی کی مدد سے انہیں خوابوں کے نئے رنگ دے دیتا تھا۔ میرا کام ہی یہ ہے۔ نگر نگر گھومتا اور خواب بانٹتا، ہر آنکھ میں حسب منشا اور حسب ضرورت کبھی ہلکے نیلے، کبھی پیلے، کبھی گلابی رنگ کے خواب بھرنا۔۔۔ جب تک انسان خواب دیکھنا چاہتا ہے میں اس کے پاس بار بار آتا ہوں۔ مگر ایک عمر آتی ہے جب خواب نہیں رہتے ہیں۔ بس اس عمر میں سود و زیاں کا حساب رہتا ہے اس لئے آج تمہارے لئے میری چھڑی کا رنگ کالا اور سفید ہی رہا اور میں اب تمہیں نظر بھی اسی لئے نہیں آتا تھا۔ کیونکہ اب تم نے خواب دیکھنا چھوڑ دیئے ہیں۔''

    یہ کہہ کر بابا رنگوں والا خاموش ہو گئے۔

    عبداللہ نم آنکھوں کے ساتھ بابا رنگوں والا یعنی کے خوابوں سے مزین اس دنیا کو دیکھنے لگا جو اس سے بہت پیچھے رہ گئی تھی۔ فضا میں گہری خاموشی اور اداسی تھی۔ عبداللہ نے بابا رنگوں والا کی نظروں کے تعاقب میں سامنے دیکھا جہاں سورج جھیل کے پانی کو رنگ دیتے ہوئے اسی میں ڈوب رہا تھا۔

    ''اب میں چلتا ہوں، بہت سی آنکھیں میری منتظر ہیں۔ جن کو میں نے ابھی خواب بانٹنے ہیں۔''

    بابا رنگوں والا نے اپنا تھیلا اٹھا کر اپنے کندھے پر ڈالا اور چھڑی کو گھماتے ہوئے دھیرے دھیرے پگڈنڈی پر چلنے لگے۔ ان کی چھڑی سےمختلف رنگوں کا دھواں نکل کر فضا میں پھیل رہا تھا۔ عبداللہ نے بےاختیار آگے ہوکر اس دھویں کو چھونے کی کوشش کی مگر ٹھوکر کھا کر گر پڑا۔ اس لمحے اس کی آنکھ کھل گئی اور وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ اس کی سانس بہت تیز چل رہی تھی۔اس نے اُٹھ کر پانی پیا اور اپنے خواب کے بارے میں سوچنا لگا۔ اسی وقت فضا میں اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہونا شروع ہوئیں۔ عبداللہ نے وضو کیا اور فجر کی نماز پڑھنے مسجد کی طرف چل پڑا۔

    دعا کرتے وقت اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ صبح کی واک کے لئے وہ قریبی پارک میں چلا گیا۔ کافی لوگ واک کے لئے آئے ہوئے تھے۔ صبح کا نور ہر چیز کو پاکیزہ بنا رہا تھا۔ عبداللہ کے پاس سے ایک پانچ سال کا بچہ بھاگتے ہوئے گزرا۔ اچانک اسے ٹھوکر لگی، اس سے پہلے کے وہ گرتا عبداللہ نے اسے پکڑ لیا۔

    ''شکریہ انکل۔۔۔’’ معصوم سے بچے نے مسکراتے ہوئے کہا تو عبداللہ کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔ بچے کی آنکھوں میں بہت روشنی اور چمک تھی۔

    ‘’سنو۔۔۔’’ بچہ جانے لگا تو عبداللہ نے پیچھے سے پکارا۔

    ‘’جی انکل’’ بچہ نےمڑ معصومیت سے پوچھا۔

    ''تم بابا رنگوں والا کو جانتے ہو نا؟ ان سے ملتے بھی ہو نا؟ ان سے کہنا کہ میں زندگی کے رازکو جان چکا ہوں۔ وقت نے مجھے میرے سوال کا جواب دے دیا ہے۔ مگر میری عمر کا سورج بھی ڈوبنے کو ہے۔ جو بھی ہے اور جیسا بھی ہے۔ مگر مجھے رنگ رنگ کے خواب دینے کا شکریہ۔''

    بچے نے ناسمجھی کے عالم میں اسے دیکھا اور پھر کھلکھلاکر ہنس پڑا اور بھاگ گیا۔ عبداللہ نے مسکراتے ہوئے اسے جاتے دیکھا اور دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا ہوا اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔

    بابا رنگوں والا نے مسکراتے ہوئے اسے جاتے ہوئے دیکھا اور چھڑی کو گھماتے ہوئے پارک میں کھیلتے ہوئے بچوں کے پاس چلے گئے اور ان میں رنگ برنگے خواب بانٹنے لگا کہ اس عمر کے خواب سب سے حسین اور خوبصورت ہوتے ہیں۔

    اس کی چھڑی سے فضا میں رنگ برنگے خواب بکھر رہے تھے جیسے قوس و قزح کے رنگ ہوں ساری فضا میں پھیلے ہوئے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے