میں کیسے بیاں کروں وہ درد وہ کرب جو یہ لوگ محسوس کرتے ہونگے ۔ یہ ادھورے بچے یہ نامکمل زندگیاں کیسے لکھ دوں ان کا دکھ
تم لوگ کہتے ہو فطرت ماں جیسی ہے مہربان۔۔۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔۔۔ فطرت تو بہت ظالم ہے۔۔۔ اس کے لئے کوئی اچھا نہیں کوئی برا نہیں۔۔۔ اگر مہربان ہوتی تو صرف روشنی ہوتی اندھیرا نہ ہوتا۔۔۔ اگر مہربان ہوتی تو۔۔۔ اس شخص جیسے لوگ نہ ہوتے۔۔۔ اگر مہربان ہوتی تو ان جیسے بچے نہ ہوتے
وہ لکھتے لکھتے رکی ۔اپنی تحریر پر نظریں دوڑائیں اور پھر سے لکھنے لگی۔
فطرت مہربان ہے۔ ہاں ہوگی، سورج کی روشنی سب کو برابر ملتی ہے۔ بارش، ہوا، پھولوں کی خوشبو سب کے لئے یکساں ہے۔ مگر پھر ایسے لوگوں کا وجود ایک سوالیہ نشان کی طرح کیوں ہے؟ یہ فطرت کی کیسی مہربانی ہے؟
میں اس کا درد محسوس کرنا چاہتی ہوں۔ وہ کیسے سوچتا ہوگا، وہ کیا سوچتا ہوگا۔ میں اسے اس کی ہی زبانی بیان کرنا چاہتی ہوں۔
*
خالق نے اپنے برش سے اس کائنات میں ہر طرح کا رنگ بھرا ہے۔۔۔ سیاہ بھی اور سفید بھی۔۔۔ انکل جیسے لوگ بھی اور مجھ جیسے بچے بھی۔ ہر چیز جس کا اس کائنات میں وجود ہے اس کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے مگر میں اپنی جنت میں اگا ہوا ایک ببول کا پودا جس سے نہ کسی کو سایہ ملتا ہے نہ پھل آج بھی اپنے گھر کے باہر بیٹھا سوچ رہا ہوں میں کون ہوں؟ مجھے یہاں کیوں بھیجا گیا ہے۔ فطرت نے یہ کیسا مذاق کیا ہے؟ اور پھرہمارا ہی مذاق بنایا جاتا ہے۔ ہماری بےبسی کا تماشا دیکھا جاتا ہے۔ ہماری نا سمجھی کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ مجھ جیسے اور بھی بہت سے بچے ہیں۔ جنہیں ناکارہ کہہ کر دھتکارا جاتا ہے۔ پاگل یا سائیں کہا جاتا ہے۔ ہم کیوں ہیں؟ کیا اس زمین پر بوجھ بڑھانے کے لئے میں کون ہوں؟ سبک چلتی ہوئی ہوا میں لو کا تھپیڑا، خوشی کے جام میں کڑوا گھونٹ۔۔۔ یا۔۔۔ زندگی نے مسکراتے ہوئے درد بھری سسکی لی ہو۔ کون ہوں میں؟ کیا ہوں میں؟ مجھے یہاں کیوں بھیجا گیا ہے؟ کیوں لایا گیا ہوں میں یہاں؟ کیا کوئی مذاق کیا گیا ہوں؟ یا انتقام لیا گیا ہوں؟ کسی کو اس کے گناہوں کی پاداش میں ملا ہوں؟ یا آزمائش دے کر آزمایا گیاہوں؟
میں ایک ایسے گھر میں پیدا ہوا جہاں بہت سی آزمائشیں ایک ساتھ موجود تھیں۔ جن میں سے ایک رزق کی تنگی تھی۔اس پر میرا وجود۔۔۔ میں باپ کا ایک ایسا بازو جو کٹ کر جسم کے ساتھ لٹک رہا ہو۔ جسے ساتھ رکھنے میں بھی تکلیف ہو اور الگ بھی نہیں کیا جا سکتا۔
مجھے اس دنیا میں لانے کے لئے میری ماں نے جتنی تکلیف برداشت کی یا جتنا درد بھی سہا اس کے بدلے میں اسے سکون کی بجائے میری صورت میں ایک درد مسلسل ملا ۔اپنی آنکھ سے گرے ہوئے اس آنسو کو اب وہ چاہ کر بھی واہس آنکھوں میں نہیں بسا سکتی۔
میرے بہن بھائی۔۔۔ ان کے لئے میں ایک ان چاہا بوجھ۔۔۔ ان کے ناتواں کندھے ابھی اپنا بوجھ نہیں سہار سکتے میرا بار کیسے اٹھاتے؟
میں نہیں جانتا کہ مجھ میں دوسرے لوگوں سے مختلف کیا ہے۔ میں جب آئینہ دیکھتاہوں تو اپنا آپ دوسرے لوگوں جیسا ہی لگتا ہے۔ مگر پھر جانے کیوں کچھ لوگ مجھے دیکھ کر ہنستے ہیں اور کچھ لوگ افسوس کر کے بےچارہ کہتے ہیں ۔ایک بار کسی نے پاگل کہا تھا۔ تب میری ماں نے چیخ کر کہا تھا میرا بیٹا پاگل نہیں ہے اللہ لوک ہے۔ یہ پاگل کیسے ہوتے ہیں؟ اللہ لوک کیا ہوتا ہے؟
مجھ سے میری امی زیادہ پیار کرتی تھیں حالانکہ میں اپنے بہن بھائیوں کی طرح بھاگ بھاگ کر کام بھی نہیں کرتا۔ یہ بات میرے دونوں چھوٹے بھائی کہتے اور میں بس ان کو دیکھتا رہتا۔
جس طرح وہ سب روزانہ صبح تیار ہو کر گھر سے نکلتے اور پھر واپس آتے تھے۔ وہ کہتے تھے ہم سکول جا رہے ہیں میرا دل بھی ان کے ساتھ جانے کو چاہتا۔ میں دیکھنا چاہتا تھا سکول کیا ہوتا ہے۔ جب میرے دونوں چھوٹے بھائی بھی سکول جانے لگے تو میں نے اپنی امی سے کہا مجھے بھی اسی طرح تیار ہو کر ان کے ساتھ جانا ہے۔ میرے بہت کہنے پر امی مجھے وہاں لے گئیں۔ مگر وہاں بیٹھی عورت نے مجھے دیکھ کر کہا کہ ہم اسے نہیں سنبھال سکتے۔ دوسرے بچے اس کا مذاق اڑائیں گے۔ ان بچوں کے لیے علیحدہ سکول ہیں وہاں لے جاؤ۔
پتہ نہیں وہ مجھے کیوں سنبھال نہیں سکتی تھی میں تو کچھ بھی نہیں کرتا تھا بس بیٹھا رہتا تھا۔ کبھی بڑے بہن بھائی یا ابو مجھے دیکھ کر غصے میں کہہ دیتے ناکارہ۔
ہاں مگر میں بالکل بھی ناکارہ نہیں ہوں۔ کسی کے لئے میں اتنا تو کر ہی سکتا ہوں کہ میری وجہ سے اس کے ہونٹوں پر ہنسی آئے۔ قہقہوں کی صورت۔
میں گھر میں رہتا تو ماں مجھے دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھرتی۔باپ کے کندھے جھک سے جاتے اور بہن بھائی۔۔۔ یوں نظر بچا کر گزرتے کہ کچھ دیر وہ میرے پاس رکے تو کہیں وہ بھی۔۔۔میری طرح کے نہ ہو جائیں۔
ایسے میں میں سب کی نظریں بچا کر چپکے سے باہر نکل جاتا۔ کسی کو محسوس ہی نہ ہوتا کہ میں گھر پر نہیں ہوں۔ پتہ چل بھی جاتا تو کوئی فکر نہ ہوتی کہ گھوم پھر کر میں واپس آ ہی جاتا تھا۔
باہر کی دنیا۔۔۔ مجھے بہت خوبصورت لگتی۔چلتی ہوئی گاڑیاں۔۔۔ لوگ، چہرے۔۔۔ آنکھیں۔۔۔ آوازیں، اشارے۔۔۔ پھر میری طرف کوئی بڑھتا۔۔۔ چہرے پر مسکراہٹ لئے۔۔۔ جیسے کسی کو کوء دلچسپ کھلونا مل جائے۔ مجھے دیکھ کر اسے اپنے تمام غم تمام فکریں بھول گئے ہوں۔ وہ کام بھی جسے کرنے وہ گھر سے نکلا تھا۔
گھر۔۔۔ ہم وہاں کیوں رہتے ہیں؟ گھر سکون کی جگہ ہے۔ وہ جگہ جہاں ہم سب کچھ کرنے کے لئے آزاد ہیں۔ جہاں کچھ لوگ ہیں جن سے ہم پیار کرتے ہیں اور کچھ لوگ جو ہم سے پیار کرتے ہیں۔ جہاں سکون ہے۔ آرام ہے۔ کچی جھونپڑی ہو یا سونے کا محل گھر تو گھر ہی ہوتا ہے۔ جائے امان جائے پناہ۔۔۔ دنیا میں جنت اپنا گھر۔۔۔ مگر جب کوئی اس جنت کو چھوڑ کر نکلتا ہے تو کیوں نکلتا ہے؟ میں اپنے گھر کے باہر بنے چبوترے پر بیٹھا آتے جاتے لوگوں کو دیکھ کر سوچا کرتا تھا۔ صبح کے وقت بہت سے بچے میرے بہن بھائیوں کی طرح سکول جا رہے ہوتے۔ انہوں نے ایک جیسے کپڑے پہنے ہوتے۔ ہنستے مسکراتے چہرے۔۔۔ گھر واپس آنے کی آس میں کچھ دیر کے لئے اپنی جنت چھوڑ کر نکلتے اور واپسی پر اپنے گھروں کی طرف اٹھتے ہوئے ان کے تیز تیز قدم۔۔۔
اور میں؟ میں وہیں بیٹھا ان کو آتے جاتے آپس میں باتیں کرتے کھیلتے ہوئے دیکھتا رہتا۔
مجھے وہ نظر انداز نہیں کر پاتے تھے۔ ان کے لئے تو میں وہ تھا جو ان کے چہروں پر ہنسی بکھیر دیتا۔ وہ مجھے دیکھ کر کھلکھلا کر ہنستے اور میں انہیں دیکھ کر ہنستا۔ وہ مجھے دیکھ کر خوش ہوتے تھے (مجھے ایسا ہی لگتا ہے) اور میں انہیں خوش دیکھ کر خوش ہوتا۔ حالانکہ کبھی کبھار وہ مجھ پر کسی پھل کا چھلکا یا کوئی ایسی چیز بھی پھینک دیتے جس سے مجھے تکلیف ہوتی۔ مگر جب سب تالیاں بجا کر ہنستے تو میں بھی اپنی تکلیف بھول کر ان کے ساتھ تالیاں بجانے لگتا تھا۔
کئی بار ایسا بھی ہوتا گزرتے ہوئے لوگوں میں سے کوئی میرے پاس آتا مجھے چاکلیٹ دلوانے کا کہتا۔ میں خوش خوش اس کے ساتھ چل دیتا۔
گلی کے کونے پر موجود اس دکان کے قریب کچھ اور لوگ بھی ہوتے۔ جو اپنا اپنا کام بھول کر وہاں خوش گپیوں میں مصروف ہوتے۔ مجھے دیکھ کر ان سب کے چہرے کھل جاتے اور پھر ایک ایک چاکلیٹ کے بدلے مجھے کچھ لفظ کہے جاتے۔ کہ یہ دوسرے کو کہوں۔میں وہ کہتا تو قہقہہ لگتا اور پھر دوسرے کی طرف سے ایک اور چاکلیٹ ملتی کہ اب پہلے والے کو وہ لفظ کہوں۔ مجھے نہیں معلوم وہ الفاظ کیا تھے۔ بس اتنا جانتا ہوں کہ وہ کہنے پر مجھے کھانے کی کوئی چیز ملتی تھی۔ مجھے ہر وقت بھوک لگی رہتی تھی۔ ماں جو کھانا دیتی، وہ تو اتنا کم ہوتا کہ اگر میں سارے بہن بھائیوں کا ملا کر بھی کھا جاتا تو بھوکا رہتا۔
مجھے اتنا یاد ہے کہ ایک دفعہ ایک آدمی جس نے سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے، اس کے سر کے اور چہرے کے بال بھی سفید تھے اس نے ان سب کو ڈانٹا تھا شرم کرو اسے ایسی گندی باتیں سکھا رہے ہو۔ وہ بول رہا ہے اس کا گناہ بھی تم لوگوں کے سر آئےگا۔ تم سن رہے ہو اس کا گناہ بھی!
اسے دیکھ کر سب لوگ ہنستے ہنستے چپ ہو گئے تھے۔ اس نے میرے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا۔ میں نہیں جانتا کیوں مگر مجھے اس کا ہاتھ پھیرنا بہت اچھا لگا تھا۔ وہ مجھے اپنے ساتھ لئے میرے گھر کی طرف آ گیا۔ میں اس چبوترے پر پھر سے بیٹھ گیا وہاں کوئی نہیں تھا۔ اس کے ہاتھ میں کیلوں کا ایک تھیلا پکڑا تھا اس نے ایک کیلا نکال کر مجھے دیا۔میں اسے جلدی سے چھیل کر کھانے لگا۔جب کھانا شروع کیا تو اس کی طرف دیکھا۔ وہ مجھے بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔میں کھاتے ہوئے رک گیا۔
اس نے میرے گال پر بہت پیار سے ہاتھ پھیرا۔۔۔ اور آہستہ سے کہا
’’کھاؤ نا‘‘۔
میں کیلا کھاتا رہا اور وہ مجھے دیکھتا رہا۔
اب وہ مجھے روز نظر آتا تھا۔ مجھے دیکھ کر مسکراتا اور میں اسے دیکھ کر اس کے ہاتھ میں ہمیشہ کھانے کی کوئی چیز پکڑی ہوئی ہوتی۔ اب اس پر نظر پڑتے ہی میں اس کی بجائے اس کے ہاتھوں کو دیکھا کرتا تھا۔
اس دن جب وہ آیا اس کے ہاتھوں میں کچھ نہیں تھا۔ میں جو اسے دیکھ کر مسکرایا تھا۔ اس کے ہاتھ میں کچھ نہ دیکھ کر مایوس ہو گیا۔
’’کیلا کھاؤ گے؟‘‘ اس نے میرے قریب آکر پوچھا۔ ’’ہاں کھاؤں گا‘‘ میں نے خوش ہو کر کہا۔ کیونکہ کھانے میں سب سے زیادہ پسند مجھے کیلا ہی تھا۔
’’چلو میرے ساتھ میرے گھر وہاں بہت سے کیلے ہیں اور بھی مزے مزے کی چیزیں ہیں۔‘‘ اس نے کہا تو میں جلدی سے اٹھ گیا۔ میرے گھر میں تو مزے مزے کی کھانے کی چیزیں نہیں تھیں۔
وہاں اس کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ وہ مجھے ایک کمرے میں لے گیا۔ اس کمرے میں اندھیرا تھا۔ مجھے اندھیرا اچھا نہیں لگتا۔ میں نے باہر نکلنے کی کوشش کی تووہ مجھے کندھے سے پکڑ کر اندر لے آیا۔
’’ ڈرو نہیں۔۔۔ میں ہوں نا یہاں اور ابھی تمہیں کھانے کو دیتا ہوں۔‘‘
پھر جس طرح پہلے دن اس نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا تھا اب میری کمر اور بازوؤں پر پھیرنے لگا۔
’’انکل کھانا۔۔۔‘‘
’’پہلے یہ کیلا کھاؤ پھر بہت سا کھانا دوں گا۔ اس نے اپنے کپڑے اتار دئیے اور پھر میرے کپڑوں کی طرف ہاتھ بڑھایا۔‘‘
وہ جگہ بالکل اچھی نہیں تھی۔میں بہت رویا بہت چلایا۔ انکل مجھے چھوڑ دیں انکل آپ یہ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے خود کو چھڑانے کی بہت کوشش کی مگر اس نے میرے ہاتھوں اور پیروں کو پکڑا ہوا تھا۔ میں خود کو اس سے چھڑا نہیں پایا۔ میں جب زیادہ چلانے لگا تو اس نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ دروازہ بھی بند تھا اور کمرے میں بالکل اندھیرا تھا۔ مجھے اس دن سے زیادہ ڈر کبھی نہیں محسوس ہوا۔ نہ ہی کبھی اتنا درد ہوا تھا۔
میں درد اور تکلیف کی شدت سے رو رہا تھا۔ اس نے مجھے کھانے کی چیزیں دینا شروع کر دیں۔ کافی دیر ہو گئی تھی اب مجھے اپنی جنت یاد آنے لگی تھی۔
ماں۔۔۔ جو مجھے دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھرتی تھی۔۔۔ باپ۔۔۔ جس کے کندھے مجھے دیکھ کر جھک جاتے تھے۔ بہن بھائی جو مجھ سے نظر بچا کر گزرتے تھے۔ مگر ان سب کے ساتھ رہ کر مجھے یہ درد کبھی نہیں ہو اتھا۔
میں روتے روتے چپ کر چکا تھا۔ انکل بھی مجھے کبھی کچھ کھانے کو دے رہا تھا کبھی کچھ اور پتہ نہیں کیوں بار بار کہہ رہا تھا۔ میں تمہیں روز کھانے کی اچھی اچھی چیزیں دوں گا۔تم کسی کو کچھ نہ بتانا۔ میں تو یہ نہیں جانتا تھا کہ کیا نہیں بتانا، بس کھانے کی چیز روز ملنے کا سن کر مجھے اپنا درد کافی کم لگنے لگا تھا۔
وہ انکل مجھ سے باتیں کرتے رہے۔ پیار کرتے رہے اور پھر انہوں نے پوچھاتھا۔
بتاؤگے تو نہیں کسی کو؟
تو میں نے پوچھا کیا؟
وہ ایک دم زور سے ہنس دئیے۔۔۔ ’’شاباش یہ ہوئی نا بات۔۔۔‘‘
میں بھی ہنس دیا۔۔۔ حالانکہ مجھے سمجھ نہیں آئی تھی کہ کیا بات ہوئی تھی۔
اب انہوں نے مجھے گھر جانے کو کہا تھا۔ جب میں آیا تھا تیز دھوپ تھی اور گلی میں کوء بھی نہیں تھا، جب باہر نکلا تو شام ہوچکی تھی۔ مجھے اندھیرے میں ڈر لگتا ہے۔۔۔ مگر اس وقت مجھے صرف اپنے گھر جانے کی جلدی تھی۔۔۔ جہاں مجھے کبھی درد نہیں ہوا۔
میں اب بھی اس چبوترے پر بیٹھا رہتا ہوں اس کے بعد وہ انکل مجھے کبھی نظر نہیں آئے اور اب جب کبھی کوئی کہتا ہے آؤ میرے ساتھ تو میں ڈر جاتا ہوں اتنا ہی جتنا اندھیرے سے ڈرتا ہوں۔ مجھے کیلے سے نفرت ہو چکی ہے۔ اب کوئی مجھے دیکھ کر مسکراتا ہے، پیار جتانے کی کوشش کرتا ہے، میں سہم سا جاتا ہوں اور یہ اندھیرا میرے پورے وجود کو گھیر لیتا ہے۔
*
میں عاصمہ افتخار آج بیس برس بعد بھی جب یہ خوفناک منظر میری آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو خوف اور دکھ کی ایک تیزلہر اپنے اندر سے اٹھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ حالانکہ اس جیسے اتنے واقعات پچھلے کئی برسوں سے سن چکی ہوں کہ اب اس واقعے کا تانا بانا جوڑنے کے قابل ہو گئی ہوں۔
میری عمر اسوقت صرف بارہ برس تھی اور وہ بچہ میراہم عمرتھا۔ یہ سارا منظر میں نے چھپ کر دیکھا تھا۔ جب جب وہ واقعہ یاد آتا میں سوچتی مجھے ان بچوں کے لئے کچھ کرنا ہے۔ دنیا کو ان کے دکھوں سے آگاہ کرنا ہے۔ یہ واقعہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور اس سے ہی مجھے تحریک ملی تھی ان خصوصی بچوں کے لیے کچھ کروں۔ میں اس میں کامیاب رہی یا نہیں کیا پتہ؟
اس نے یہاں تک لکھ کر پین کی نوک کو سختی سے کاغذ پر دبایا۔ کہ اس جگہ کاغذ پر سوراخ سا بن گیا ۔اس نے تھکے تھکے انداز میں کرسی کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔
لیکن میں دنیاکو یہ کیسے بتا دوں کہ وہ شخص میرا باپ تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.