کہانی کی کہانی
یہ دنیا کے حالات سے تنگ آچکے ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس کے ذہن میں ہر وقت طرح طرح کے خیالات گردش کرتے رہتے ہیں۔ وہ اپنے ان خیالات کا اظہار کرنا چاہتا ہے لیکن کوئی بھی اسے سننا نہیں چاہتا ہے۔ آخر وہ اپنے خیالات کا گلا گھونٹ دیتا ہے اور اس کے بعد اس کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ شہر میں در بدر مارا پھرتا ہے، پاگلوں جیسا۔
اس نے اپنے ذہن کی لیبارٹری میں پہلے بھی بڑی بڑی باتیں دریافت کی تھیں مگر اس بار انکشاف کی جو نئی کونپل کھلی تھی وہ نہایت ہی غیر معمولی نوعیت کی تھی۔
ہر بار جب وہ کوئی نئی بات دریافت کرتا تھا اسے بے پناہ خوشی ہوتی تھی مگر اس بار ایسا نہیں ہوا۔۔۔ اس انکشاف نے اسے پریشان اور مضطرب کر دیا۔ اسے لگا اس نے ایک بڑی چٹان کے نیچے سے مٹی کھود ڈالی ہے اور اب چٹان اسے ہاتھوں پر روکنا پڑ گئی ہے۔
اپنی حماقت پر اسے رہ رہ کر افسوس ہو رہا تھا آخر اسے ایسا تجربہ کرنے کی کیا ضرورت تھی مگر اب کیا ہو سکتا ہے۔۔۔ چٹان اپنی جگہ سے سرک چکی تھی۔ بجلی کے سے کوندے نے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں مستور منظر کی جھلک دکھا دی تھی۔ تیر کمان سے نکل چکا تھا اور جو کچھ معلوم ہو چکا تھا وہ واپس لا علمی کے دریا میں نہیں پھینکا جا سکتا تھا۔
کچھ روز ملول اور پریشان رہنے کے بعد اس نے محسوس کیا کہ اس کے اندر ایک نئی خواہش کا چیونٹا کا ہلا نے لگا ہے کہ وہ حیرت انگیز منظر جس کو اسکی آنکھیں دیکھ چکی تھیں سب کو دکھائے اور داد پائے۔ مگر یہ آسان اور سہل نہیں تھا۔ لوگ نئے خیالات کو آسانی سے قبول نہیں کرتے۔ اسے تمام مشکلات کا بخوبی اندازہ تھا مگر اس کے اندر یہ خواہش کہ وہ سب کو اس حیرت انگیز دریافت سے آگاہ کرے، شدت اختیار کرتی گئی۔
ایک بار جب شہر میں ایک بہت بڑا جلسہ ہو رہا تھا اس کا جی چاہا وہ اچانک اسٹیج پر پہنچ کر ایک ہی سانس میں ساری بات کہ دے مگر اول تو اس کا اسٹیج تک پہنچنا ہی مشکل تھا دوسرا لوگوں کے مشتعل ہو جانے کا ڈر تھا۔ خطرات کا سامنا کرنے کے لئے وہ تیار تھا مگر اسطرح اس کا اصل مقصد ادھورا رہ جاتا۔
پھر ایک بار کسی رشتہ دار کی شادی کے موقع پر جب بہت سے لوگ ایک جگہ جمع تھے اسکا جی چاہا اعلان کر دے۔مگر پھر وہ یہ سوج کر کہ رشتہ دار پہلے ہی اس کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے وہ اس کی بات پر یقین کرنے کی بجائے اسے غلط معنی پہنانے کی کوشش کریں گے، خاموش رہا۔
آخر کئی دنوں کی سوچ بچار کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ اسے اس کام کی ابتدا اپنے گھر سے کرنی چاہئے اور اپنی بیوی کو اعتماد میں لینا چاہئے۔ اس کی بیوی پڑھی لکھی اور ذہین عورت تھی اور اگرچہ وہ بھی اس کے بارے میں کوئی زیادہ اچھی رائے نہیں رکھتی ہو گی۔۔۔ مگر وہ ایک روایتی بیوی کی طرح اس کی وفا دار ضروری تھی۔
اس کا خیال تھا کہ وہ اس کی بات سن کر حیرت سے اچھل پڑے گی مگر اس نے نہایت اطمینان سے اس کی بات سنی اور جب وہ کہہ چکا تھا وہ اسی اطمینان سے اٹھی اور باورچی خانے میں جا کر آٹا گوندھنے لگی۔
وہ پریشان ضرور ہوا مگر پھر اسے خیال آیا کہ اتنی بڑی بات سن کر اسے ہضم کرنے اور کسی نتیجے پر پہنچنے کے لئے کچھ وقت تو لگتا ہے۔ اس لئے اسے مہلت دینی چاہئے یقیناً وہ اس پر غور کرےگی اور جلد ہی نہایت حوصلہ افزا رد عمل ظاہر کرے گی۔
مگر جب کئی روز گزر گئے تو اسے تشویش ہونے لگی کیا معلوم وہ اس کی بات سمجھی ہی نہ ہو؟
آخر ایک روز اس نے پوچھا ہی لیا، ’’میں نے تم سے جو بات کی تھی اس کا تم نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا؟‘‘
’’کیا جواب دیتی‘‘ وہ بولی، ’’آپ تو ہمیشہ الٹی سیدھی باتیں سوچتے ہیں۔ کچھ گھر کی بھی فکر ہے۔‘‘
’’کیوں کیا ہوا گھر کو؟‘‘
’’گھر میں آلو اور پیاز ختم ہو گئے ہیں۔ ڈپو سے آٹا منگانا ہے۔ ماموں جان کی نظر کا امتحان کرانا اور خالہ جان کو افسوس کا خط لکھنا ہے۔ کئی دن سے کہہ رہی ہوں کہ منی کے یونیفارم کا کپڑا لادیں میں خود سی دوں گی لیکن آپ کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ کب سے میری سینڈل ٹوٹ چکی ہے۔‘‘
بیوی سے مایوس ہو کر اس نے اپنے قریبی دوست ن سے رجوع کیا۔ ن نے اس کی گفتگو نہایت توجہ اور دلچسپی سے سنی مگر کوئی جواب دینے کی بجائے اسے پکڑ کر نئی فلم دکھانے لے گیا۔ فلم کے دوران اس نے ن کو یاد دلایا کہ اس نے اس سے بہت ہی اہم بات کی تھی۔ اس پر ن نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ وہ اسے کسی ڈاکٹر کے پاس لے جائے گا اور اس کا علاج کرائےگا۔
ایک ایک کر کے اس نے سبھی دوستوں سے بات کی مگر کسی نے بھی اس کی بات توجہ اور سنجیدگی سے نہیں سنی۔
دوستوں سے مایوس ہو کر وہ گھر میں پناہ گزین ہوا اور کئی روز تک کتابیں پڑھتا اور مختلف قسم کے چھوٹے موٹے تجربے کر کے وقت گزارتا رہا۔ ایک صبح اس کی بیوی چائے لے کر آئی تو وہ خلاف معمول مہربان اور خوش نظر آتی تھی۔ اس کے دل میں امید کا پھول کھلا۔
’’معلوم ہوتا ہے میری بات تمہاری سمجھ میں آ گئی ہے؟‘‘
’’کون سی بات؟‘‘
’’وہی جو میں نے بہت دن پہلے تم سے کی تھی‘‘
’’حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا‘‘ وہ اطمینان سے بولی۔
’’یہی تو میں کہتا ہوں‘‘ اس نے خوش ہو کر کہا۔
’’حقیقت وہ نہیں جو آپ سوچتے ہیں۔‘‘
اس پر اوس سی پڑ گئی۔ دل بجھ گیا۔ درشت لہجے میں بولا۔
’’تمہارے پاس اپنی بات کا کیا ثبوت ہے؟‘‘
’’میرے پاس اپنی کسی بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہ مجھے اپنی کوئی بات کسی لیبارٹری میں جا کر ثابت کرنے کی ضرورت ہے۔ بس جو کچھ جیسا ہے، ٹھیک ہے۔‘‘
’’مجھے تمہاری ذہانت پر ہمیشہ فخر رہا‘‘ اس نے خوشامدانہ لہجے میں کہا، ’’اور میری یہ خواہش ہے کہ تم میری بات پر غور کرو۔۔۔ اس سے میرا حوصلہ بڑھےگا کم از کم میری شریک حیات تو میری ہم خیال ہے۔‘‘
’’میں آپ کی بات پر کیسے یقین کر لوں‘‘ وہ رکھائی سے بولی، ’’کیا میں آپ کو جانتی نہیں ہوں ؟‘‘
’’تم مجھے ضروری جانتی ہو‘‘ اس نے کہا، ’’میری اچھائیوں اور برائیوں سے واقف ہو، مجھ میں بہت سی خامیاں ہو سکتی ہیں لیکن میں جس سلسلے میں تمہاری رائے لینا چاہتا ہوں وہ میرا ذاتی مسئلہ نہیں ہے۔‘‘
’’آپ کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے‘‘ وہ تنک کر بولی اور اٹھ کر چلی گئی اور وہ اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔
دو ایک دن اور گزر گئے۔ وہ اس سے کھنچا کھنچا سا رہا مگر اس نے ذرا پرواہ نہ کی، معمول کے مطابق گھر کا کام کاج کرتی رہی۔ آخر تیسرے چوتھے روز اس نے خود ہی بات شروع کی۔
’’پھر تم نے کچھ مزید سوچا؟‘‘
’’نہیں مجھے فرصت نہیں ہے‘‘
پھر کچھ دیر کے توقف کے بعد خود ہی کہنے لگی، ’’میرا مشورہ ہے آپ ایسی باتیں سوچنا چھوڑ دیں یہ نہایت اہم اور سنجیدہ مسئلہ ہے اس کے نتائج بہت خطرناک ہو سکتے ہیں‘‘
’’میں جانتا ہوں‘‘ اس نے کہا، ’’مگر میں خاموش نہیں رہ سکتا۔ ہاں تم میرا ساتھ دو تو میرا کام آسان ہو سکتا ہے۔ محلے کی عورتیں تمہیں اچھا سمجھتی ہیں‘‘
’’جی نہیں مجھے تو معاف ہی رکھئے۔‘‘
’’اچھا مدد نہیں کرنا چاہتیں نہ کرو۔۔۔ مگر یہ تو بتاؤ کہ تم میری بات پر یقین کرتی ہو؟‘‘
’’نہیں‘‘
’’مگر کیوں‘‘
’’اس لئے کہ جس شخص کو اتنا یاد نہ رہتا ہو کہ اس نے رات کیا کھایا تھا اور جسے یہ یاد نہ ہو کہ اس کی بیوی نے جو ساڑھی پہنی ہوئی ہے وہ اسے کسی اور نے تحفے میں نہیں دی بلکہ اس کے اپنے شوہر نے خود خرید کر دی تھی تو ایسے شخص کو اتنی بڑی اور دور کی باتوں کا پتہ کیسے چل سکتا ہے؟‘‘
’’بڑی بڑی باتیں سوچنے والوں سے ایسی چھوٹی چھوٹی فروگذاشتیں ہو جاتی ہیں۔‘‘
’’لیکن میں نے دیکھا ہے‘‘ وہ بولی، ’’آپ کبھی کبھی بہت چھوٹی چھوٹی باتیں بھی سوچتے ہیں‘‘
’’ہاں۔۔۔ وہ بھی سوچ لیتا ہوں۔۔۔ تم ہر بات میں میری ذات کو کیوں درمیان میں گھسیٹ لاتی ہو۔۔۔ آخر تم کیوں نہیں سمجھتی ہو کہ میں گمنام اور عام سی موت نہیں مرنا چاہتا۔۔۔ میں نے جو کچھ دریافت کیا ہے وہ نہایت اہم ہے اور میں اسے دنیا تک پہنچانا چاہتا ہوں خواہ اس کے لئے مجھے بڑی سے بڑی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔‘‘
’’مجھے افسوس ہے‘‘ وہ دھیمے لہجے میں بولی، ’’میں اس سلسلے میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکوں گی۔‘‘
’’یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے؟‘‘
’’ہاں‘‘
بیوی کی باتوں سے ایک بار پھر مایوس ہو کر۔۔۔ وہ کئی روز تک اداس رہا۔ اسے رہ رہ کر خیال آتا ہے۔۔۔ کہ اگر وہ اپنی شریک حیات اور قریبی دوستوں کو اپنا ہم خیال نہیں بنا سکا تو دوسرے لوگوں کو کیسے قائل کرےگا۔ مگر اس نے ہمت نہیں ہاری۔اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنے باپ سے بات کرےگا۔ اگرچہ اس کے باپ کے عقائد اور نظریات بہت پختہ تھے مگر وہ علمی باتوں کو سمجھنے اور پرکھنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتے تھے۔ کم از کم وہ اسے بہتر مشورہ ضرور دیں گے۔
اس نے اپنے باپ کی نظر کا معائنہ کرایا اور انہیں نئے نمبر کی عینک خرید کر دی کئی روز ان کی خدمت میں حاضر ہوتا اور طرح طرح کے موضوعات پر بحثیں کرتا رہا پھر ایک روز ڈرتے ڈرتے اس نے اپنا اصل مدعا بیان کیا۔
وہ نہایت اطمینان سے سنتے رہے پھر بولے۔
’’برخوردار۔۔۔ جب تم ابتدائی جماعتوں میں پڑھتے تھے تو میں نے اس وقت سے لے کر آج تک کئی بار تمہیں الٹی سیدھی کتابیں پڑھنے اور بے معنی باتوں پر سوچتے رہنے سے منع کیا مگر تم باز نہ آئے۔۔۔ اب ماشاء اللہ تم ایک ذمہ دار شوہر اور باپ ہو اب تو تمہیں ایسی واہیات باتوں کے بارے میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے‘‘
’’ابا جی‘‘ اس نے پریشان ہو کر کہا، ’’یہ واہیات باتیں نہیں ہیں۔ یہ اتنا اہم اور بڑا مسئلہ ہے کہ اگر سب لوگ میری طرح سوچنے لگ جائیں تو ایک بہت بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔‘‘
’’میرا مشورہ ہے‘‘ اس کے باپ نے کہا، ’’تم ایسی باتوں پر سوچنا چھوڑ دو آخر تمہیں اس سے کیا فائدہ حاصل ہو گا۔‘‘
’’فائدہ؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ الٹا لینے کے دینے پڑ جائیں گے اور تمہارا سکون الگ چھن جائےگا۔‘‘
’’سکون تو اب بھی چھن گیا ہے ابا جی اور میں اتنی بڑی بات کیسے چھپا سکتا ہوں۔ کیسے خاموش رہ سکتا ہوں میں انسانی تاریخ کو کیا منہ دکھاؤں گا۔‘‘
’’تم بالکل فکر نہ کرو۔۔۔ انسانی تاریخ کو اپنے فطری ارتقاء کی منزلیں طے کرنی ہیں اور وہ کرتی رہے گی۔۔۔ تم کاروباری معاملات پر توجہ دیا کرو‘‘
باپ کی گفتگو سے دل برداشتہ ہو کر اس نے ایک عالم دین کا سہارا لیا اور اسے اور زیادہ مایوسی ہوئی جب انہوں نے بتایا کہ اس مسئلے کے بارے میں کتابوں میں کہیں ذکر نہیں آیا۔۔۔ اور یہ کہ ایسی باتوں پر سوچنا گنا ہے۔
اب اس کے پاس ایک ہی راستہ رہ گیا تھا کہ وہ اپنے خیالات کو مضمون کی شکل میں اخبار کو بھیج دے اور اس نے ایسا ہی کیا۔ لیکن ایک روز ڈاک سے اسے اپنا مضمون واپس مل گیا۔ ایڈیٹر نے لکھا تھا۔
’’قواعد ہمیں ایسے مضامین کی اشاعت کی اجازت نہیں دیتے، ویسے بھی آپ کی تحریر میں پختگی نہیں ہے آپ مشق جاری رکھیں گے تو بہتر زبان لکھنے لگیں گے۔‘‘
اس نے چاہا کہ وہ اپنے خیالات دوسروں تک پہنچانے کی خواہش کا گلا گھوٹ کر کوئی دوسرا کام جو اس کے گھریلو اور کاروباری معاملات کو بہتر بنانے میں مدد سے شروع کر دے اور اس نے ایسا ہی کیا مگر اس کے بعد اس کی اپنی زندگی میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا۔
اب وہ کئی برسوں سے مجذوبیت کی حالت میں شہر کی سڑکوں پر گھومتا پھرتا ہے کوئی کچھ دے دیتا ہے تو کھا لیتا ہے۔ جہاں جی چاہتا ہے پڑ کر سو رہتا ہے۔ ہاں اسے سکول کے بچوں سے بڑی دلچسپی ہے۔ چھٹی کے وقت وہ کسی نہ کسی سکول کے گیٹ پر پہنچ جاتا ہے اور ایک ایک بچے کو غور سے دیکھتا رہتا ہے۔ بچے اس پر آوازے کستے اور اس سے طرح طرح کے سوالات پوچھتے ہیں۔
’’سی اے ٹی؟‘‘
’’کیٹ‘‘
’’آر اے ٹی؟‘‘
’’ریٹ‘‘
’’چھ دونی؟‘‘
’’بارہ‘‘
بچے اپنے سوالوں کے درست جواب سن کر خوش ہوتے ہیں مگر وہ اداس ہو جاتا ہے شاید وہ کسی بڑے سوال کے پوچھے جانے کا منتظر ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.