Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بڑے قد کا آدمی

سلام بن رزاق

بڑے قد کا آدمی

سلام بن رزاق

MORE BYسلام بن رزاق

    جوں ہی میری نظر اس پر پڑی، میں ایک پل کے لیے ٹھٹکا۔ وہ دوسری فٹ پاتھ پر تھا۔ میں نے تیزی سے آگے نکل جانا چاہا مگر دوسرے ہی لمحے اس کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔ وہ میرا نام لے کر مجھے پکار رہا تھا۔شاید اس نے مجھے دیکھ لیا تھا۔ اب رکنے کے سوا کوئی چارا نہیں تھا۔ وہ جلدی جلدی سڑک پار کرتا میری طرف بڑھ رہا تھا اور مجھے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ ایک عجیب سی تھکی تھکی مسکراہٹ۔ بادل ناخواستہ مجھے بھی مسکرانا پڑا۔

    ’’کہاں جا رہے تھے؟‘‘ اس نے قریب آکر پوچھا۔

    ’’یہیں ذرا ریڈیو اسٹیشن تک گیا تھا۔ آج میری ریکارڈنگ تھی۔‘‘

    ’’کوئی نئی کہانی تھی؟‘‘ وہ جانتا ہے کہ میں کہانیاں لکھتا ہوں۔

    ’’نہیں، کہانی تو پرانی تھی مگر ریڈیو پر پہلی بار ریکارڈ کی ہے۔‘‘

    ’’آ۔۔۔چھا۔۔۔‘‘

    ’’صبح کا نکلا ہوں، اب گھر جا رہا تھا۔‘‘ میں نے خود کو بہت تھکا ہوا ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔

    ’’ٹرین ہی سے جائیں گے نا؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    ’’ہاں، ٹرین ہی سے جاؤں گا مگر تم یہاں کیسے؟‘‘نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے پوچھنا پڑا۔

    ’’ایک صاحب نے بلایا تھا۔ فاؤنٹین پر ان کا پریس ہے۔ نوکری کے لیے کہہ رہے تھے ،میں نے انکار کر دیا۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘میں نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’میں نے کہہ دیا ، میں نوکری نہیں کروں گا۔ البتہ کمیشن پر کام کر سکتا ہوں۔‘‘

    وہ ایک اچھا مشین آپریٹر تھا۔ اس کی بات سن کر نہ جانے کیوں مجھے اس پر غصہ آنے لگا۔ ’عجیب آدمی ہے۔ نوکری نہیں کرےگا۔ آٹھ نو مہینے سے بے کار بھٹک رہا ہے۔ جمع پونچی سب اڑا چکا ہے۔ اب تو شاید فاقوں تک کی نوبت آگئی ہو۔ چہرے پر کیسی مردنی چھا گئی ہے۔ شیو بڑھ گیا ہے۔ جوتے پھٹ گئے ہیں۔ کپڑے میلے چیکٹ ہورہے ہیں۔ شاید حجام دھوبی کے لیے بھی اس کے پاس پیسے نہیں ہیں مگر کہتا ہے، نوکری نہیں کروں گا۔نوکری نہیں کرے گا تو کیا بھوکوں مرےگا۔ بیوقوف کہیں کا۔۔۔‘

    مگر میں نے زبان سے کچھ بھی نہیں کہا۔ بس خالی خالی نظروں سے اسے دیکھتا رہا۔ مجھے چپ دیکھ کر اس نے پھر کہا۔ ’’مجھے لگتا ہے شاید میں اب نوکری نہیں کر سکتا۔ نوکری کے لیے جس مصلحت کوشی اور خوشامدپسندی کی ضرورت ہوتی ہے وہ میری فطرت میں نہیں ہے۔ یہ میری پانچویں نوکری تھی جو میں نے چھوڑ دی۔ اب تو میں نے طے کر لیا ہے یا تو کمیشن پر کام کروں گا یا پھر کوئی نیا بزنس کروں گا۔‘‘

    اس کے لہجے میں ایک مجنونانہ ضد تھی۔ میں کیا کہتا۔ اس نے کہنے کے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی تھی۔ وہ تھوڑی دیر تک چپ رہا۔ پھر اچانک پوچھا۔’’مُنّا کیسا ہے؟‘‘

    اس کے یوں اچانک موضوع بدلنے پر میں پہلے تو گڑبڑایا مگر جلدہی سنبھل کر بولا۔

    ’’اچھا۔۔۔ ہے۔۔۔ اچھا ہے۔ تمہیں یاد کرتا ہے۔ تم نے تو آنا ہی چھوڑ دیا۔‘‘آخری جملے میں پیار بھری شکایت نہیں تھی، بلکہ وہ کچھ ایسے مشینی ڈھنگ سے ادا ہوا تھا گویا زبان سے غیرارادی طور پر نکل گیا ہو۔

    ’’آؤں گا کسی دن۔۔۔‘‘ کہہ کر وہ چپ ہو گیا۔ شاید اس نے بھی میرے بلانے کے اس رسمی انداز کو محسوس کر لیا تھا۔ جب سے وہ بیکار ہوا ہے میرے گھر نہیں آتا۔ورنہ اپنے اچھے وقتوں میں وہ اکثر آیا کرتا تھا۔ وہ جب بھی میرے ہاں آتا، خوب لدا پھندا آتا۔ اپنے ساتھ منّے کے لیے مٹھائی بسکٹ اور ڈھیر سارے کھلونے لے آتا۔ منّا بھی اس کی آواز سنتے ہی ’انکل آئے، انکل آئے‘ چلاتا ہوا اس کی گود میں چڑھ جاتا ۔ میں نے اسے ایک دو دفعہ اتنی ڈھیر ساری چیزیں لانے پر ٹوکا بھی ، مگر وہ منے کو پیار کرتا ہوا کہتا۔’’یہ ساری چیزیں منّے کے لیے ہیں۔ آپ ہمارے اور منّا کے درمیان نہ بولیے۔‘‘

    لامحالہ مجھے چپ ہوجانا پڑتا۔ میں سوچتا، بے چارا تنہا آدمی ہے بچے کو کھلا پلا کر خوش ہوتا ہے۔ منع کرنے سے واقعی اس کے دل کو ٹھیس پہنچےگی۔

    یہ جاننے کے باوجود کے میں نے اسے گھر آنے کے لیے رسمی طور پر کہا ہے، جب منّا کا ذکر آیا تو اس کے ہونٹوں کی پھیکی مسکراہٹ میں ایک تازگی آ گئی۔ اس نے قدرے خوش ہوتے ہوئے پوچھا۔ ’’کیا منّا مجھے یاد کرتا ہے؟‘‘

    میں نے اس کا دل رکھنے کے کہہ دیا۔ ’’ہاں، اکثر انکل انکل کہتا ہے۔‘‘

    حقیقت تو یہ تھی کہ منّے نے اسے ایک دفعہ بھی یاد نہیں کیا تھا۔ تین سال کے بچے کی دوستی چاکلیٹ، ٹافیوں سے زیادہ کیا ہوتی ہے۔ مگر جب میں نے کہا کہ ’’ہاں، اکثر انکل انکل کہتا ہے۔‘‘ تو وہ کچھ اور خوش نظر آنے لگا۔

    ’’آئندہ ہفتے جوں ہی میرا کمیشن کا کام چل نکلےگا میں ضرور آؤں گا۔ مُنّا سے مِلنے۔۔۔‘‘

    وہ گویا اپنے آپ ہی بدبدارہا تھا۔

    چرچ گیٹ اسٹیشن آ گیا تھا۔ میں نے سوچا مجھے اسے کم سے کم چائے کے لیے تو پوچھ ہی لینا چاہیے۔ میں نے قدرے اپنائیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا اور کینٹین کی طرف اشارہ کرتا ہوا بولا۔ ’’چلو چائے پی لیں۔‘‘

    اس نے چونک کر میری طرف دیکھا پھر اسی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔

    ’’نہیں۔۔۔ میں ابھی پریس سے پی کر ہی چلا تھا۔‘‘

    میں نے زیادہ اصرار نہ کرتے ہوئے بات ختم کردی۔

    ہم ٹکٹ ونڈو کے پاس پہنچے۔ میں نے ٹکٹ کے پیسوں کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے اس سے پوچھا۔

    ’’تمہارا ٹکٹ کہاں کا لوں؟‘‘

    ’’اس نے انکار کرتے ہوئے کہا۔’’نہیں۔۔۔ میرے پاس ریٹرن ٹکٹ ہے۔ آپ اپنا ٹکٹ لے لیجئے۔‘‘

    ’’میں نے پرس نکالا اور ٹکٹ کے لیے قطار میں کھڑا ہو گیا۔ وہ میرے قریب ہی کھڑا تھا۔ اور تبھی۔۔۔ غالباً ٹکٹ کے لیے پیسے نکالتے وقت اس نے میرے پرس میں رکھّی نوٹوں کو دیکھ لیا۔ اچانک اس کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔ اس کی آواز کسی قدر اجنبی محسوس ہو رہی تھی۔

    ’’اگر آپ برا نہ مانیں تو ایک درخواست ہے۔‘‘

    میں نے چونک کر گردن اٹھائی۔ ’’بولو۔۔۔ کیا بات ہے؟‘‘میری نظریں اس کے چہرے پر گڑ گئیں۔

    ’’اگر گنجائش ہو تو سو روپئے بطور قرض دیجئے۔ اگلے ہفتے گھر آؤں گا تو لوٹا دوں گا۔‘‘

    آخر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔

    ’’ارے کیوں نہیں، کیوں نہیں۔۔۔ یہ لو۔۔۔‘‘ میں نے خوش دلی کی ایکٹنگ کرتے ہوئے سو روپئے کا نوٹ پرس سے نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا۔ اندر سے راحت کا احساس بھی تھا کہ بات صرف سو روپیوں پر ٹل رہی ہے۔

    اس نے نوٹ کے لیے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ تبھی میری نظریں اس سے ٹکرائیں۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سی پشیمانی تھی جیسے کوئی طالبعلم امتحان میں نقل کرتا ہوا پکڑا گیا ہو۔ میں نے اس کے چہرے سے فوراً نظریں ہٹا لیں۔ اس کے اس حد تک مجبور ہو جانے سے شاید مجھے بھی اندر کہیں چوٹ پہنچی تھی مگر کبھی کبھی آدمی اپنے گرد اتنی موٹی کھال لپیٹ لیتا ہے کہ ایسی معمولی چوٹیں اندر ہی اندر دب کر رہ جاتی ہیں۔ وہ نوٹ لے کر ’میں ابھی آیا کہتا ہوا کسی طرف چلا گیا۔ میں ٹکٹ ونڈو کے پاس پہنچ چکا تھا۔ میں نے ٹکٹ خریدا اور بقیہ ریزگاری جیب میں ڈالتا ہوا مڑا۔ وہ سامنے سے چلا آرہا تھا۔ تیز تیز قدم اٹھاتا۔ اس کے ہاتھ میں ٹافیوں کا ایک پیکٹ تھا۔ اس نے میرے قریب پہنچ کر پیکٹ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔’’یہ پیکٹ منّا کو دے دیجئےگا۔ اور کہنا ’انکل نے پیار کہا ہے۔ میں اس سے ملنے اگلے ہفتے ضرور آؤں گا۔‘‘

    کہتے کہتے اس کی آواز بھیگنے لگی۔ پیکٹ میرے ہاتھ میں تھماتا ہوا جلدی سے بولا۔ ’’آپ چلئے، مجھے ایک کام یاد آ گیا ہے۔‘‘

    وہ تیزی سے دوسری طرف مڑ گیا۔ میں ٹافیوں کا پیکٹ ہاتھ میں لیے حیران نظروں سے اسے دیکھتا رہ گیا۔ وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا اسٹیشن کے باہر انسانی سمندر میں بہتا چلا جارہا تھا مگر مجھے اس کا سر کسی بڑے جہاز کے مستول کی طرح بہت دور تک نظر آتا رہا۔ شاید اس کا قد کچھ بڑا ہو گیا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے