ایک شخص کے انتالیس کالم پورے کرنے کے بعد بیوی سات بچوں، دو بہوؤں، ان کے تین بچوں اور دادی سمیت تمام تفصیلات درج کرتے کرتے تقریباً ایک گھنٹہ بیت چکا تھا۔ پچھلے پانچ گھنٹوں سے میں فیلڈ میں تھی اور اب بری طرح تھک چکی تھی۔ سامان سمیٹتے ہوئے باہر نکلی تو اندھیرا پھیل چکا تھا۔ لہٰذا سیدھے گھر جانے کا ارادہ کرکے میں نے اپنے قدم تیز کر دیے۔ لیکن، چند قدم کے بعد مجھے احساس ہوا کہ کوئی نسوانی آواز میرا پیچھا کررہی ہے۔ مڑکر دیکھا— کوئی نہیں۔ اِدھر ادھر دیکھا— کوئی بھی نہیں—
ادھر اس طرف— اوپر دیکھیے نا۔
میں نے دیکھا بائیں جانب دو منزلہ فلیٹ کی بالکنی پر ایک خاتون جھکی ہوئی ہے۔
’’کیا ہمارے یہاں نہیں آئیں گی؟ مردم شماری کے لیے۔‘‘
’’جی... جی ضرور آؤں گی۔‘‘ میں رک گئی۔ کلائی گھڑی پر نظر ڈالی... پھر دو منزلہ عمارت پر اور سوچا کئی خاندان آباد ہوں گے۔ بہت دیر لگے گی۔ بچوں کی تاکید تھی ’’اماں جلدی آنا۔‘‘
’’آجائیے نا؟ اِدھر سے ہے دروازہ اوپر آنے کا‘‘ اس نے جھکتے ہوئے اشارہ کیا۔ اور یوں نہ چاہتے ہوئے بھی میرے قدم اس فلیٹ کی جانب اٹھ گئے۔
سیڑھیاں طے کرتی ہوئی اوپر پہنچی تو وہ دروازے پر موجود تھی۔
’’آئیے اندر آئیے۔ میں تو کئی دن سے سوچ رہی تھی کہ اِدھر کوئی آیا ہی نہیں۔ آپ شاید کل بھی آئی تھیں۔ آپ کو اس گلی میں دیکھا تو میں سمجھ گئی۔ ابھی ہمارا نمبر نہیں آیا... آج میں نے سوچا خود ہی بلا لوں...‘‘
’’جی، دراصل بہت لمبی گلی ہے اور پھر ایک ایک گھر میں کافی دیر لگ جاتی ہے۔‘‘
’’وہ تو یہاں بھی لگےگی۔‘‘ وہ مجھے ایک کمرے میں لے گئی۔‘‘ ’’بیٹھئے‘‘ اس نے دیوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
یہ ایک صاف ستھرا کشادہ کمرہ تھا۔ ایک طرف دیوان پر صاف ستھرا بستر بچھا تھا اور کنارے گاؤ تکیہ رکھا ہوا تھا۔ دوسری جانب چار کرسیاں اور ایک میز۔ فرش پر پلاسٹک کی رنگین چٹائی اور الماری میں کانچ کے برتن قرینے سے رکھے ہوئے تھے۔ کمرے کے ایک کونے میں چھوٹی سی سہارنپوری گول میز پر کانچ کا ایک گلدان جس میں پلاسٹک کے سرخ پھول لگے تھے۔
میں نے بیگ کھول کر تمام کاغذات نکالے۔
وہ ایک ٹرے میں پانی کا گلاس رکھے ہوئے داخل ہوئی تو میں نے پوچھا۔
’’آپ کب سے ہیں اس مکان میں؟ کیا نام ہے آپ کے شوہر کا؟‘‘
عبدالسلام... ہم سات برس سے یہاں رہتے ہیں۔ مکان نمبر J-30/2۔
لیکن میری لسٹ میں اس نمبر کا نہ کوئی مکان تھا نہ اس نام کا کوئی شخص۔ لہٰذا ابتدا سے کارروائی شروع کی۔
آپ پانی تو پی لیجیے۔ ہماری فیملی بہت بڑی ہے۔ آپ کو بہت دیر لگےگی... ذرا آرام سے بیٹھ جائیے۔ بڑی فیملی کا نام سن کر میں اندر ہی اندر بڑبڑائی۔ اللہ خیر۔ جی کوئی بات نہیں... میں نے مسکرانے کی کوشش کی اور پانی کا گلاس اٹھا لیا۔
میں نے دیکھا معمولی شکل و صورت کے باوجود وہ بھرے بھرے جسم کی ایک پرکشش خاتون ہے۔ شربتی آنکھوں پر گھنیری پلکوں سے گلابی سمندر کا احساس ہوتا تھا۔
’’آپ سامنے جس گھر سے نکلی تھیں وہ بھی تو بہت بڑی فیملی ہے۔ بہت دیر لگی ہوگی آپ کو‘‘ اس نے پوچھا۔
’’جی ی ی‘‘۔
جی پر زیادہ ہی زور دے کر مجھے احساس ہوا تو فوراً ہی بات برابر کرنی چاہی۔ ’’یہ تو ہمارا کام ہے، ہماری ذمہ داری۔ آپ قطعی فکر نہ کریں اور اپنی فیملی کے ہیڈ کا نام بتائیں۔ یہ عبدالسلام آپ کے شوہر ہیں نا؟ گھر میں سب سے بڑے ہیں؟‘‘
اس نے اثبات میں گردن ہلائی۔
عبدالسلام کے والد کا نام؟؟
شمس السلام، وہ تو گزر گئے۔
آپ کے شوہر کی عمر؟
پچاس برس۔
کیا کرتے ہیں؟
کار پینٹر ہیں۔
ملازم ہیں یا اپنا کام ہے؟
اپنا۔
پڑھے لکھے ہیں؟
جی۔
کتنی تعلیم ہے؟
بی۔ اے۔ چائے پئیں گی آپ؟
جی نہیں۔ شکریہ!
عبدالسلام کی بیوی کا یعنی آپ کا نام؟
خدیجہ۔
عمر؟
چالیس برس۔
آپ کی تعلیم؟
دسویں تک۔ شادی بہت جلدی ہو گئی تھی نا؟
شادی کس عمر میں ہوئی آپ کی؟
اٹھارہ برس کی عمر میں۔ میں کالم بھرتی رہی اور وہ بتاتی رہی۔
شوہر کی عمر اس وقت کیا تھی؟ یعنی شادی کے وقت۔ وہ خاموش رہی تو میں نے خود ہی حساب لگانا شروع کیا۔
اٹھائیں برس۔
آپ تھک گئی ہوں گی۔ آدھا کپ چائے پی لیں۔
آپ لوگ کہاں کے ہیں؟ میرا مطلب آپ کے شوہر کہاں پیدا ہوئے؟
یو۔ پی ضلع بلند شہر۔
اور آپ؟
ہم بھی وہیں کے ہیں۔
چائے کا پانی رکھ دوں ذرا۔ وہ اٹھنے لگی۔
اچھا تو آپ دونوں دہلی کب سے ہیں؟ پلیز بیٹھ جائیں۔
بہت برس سے۔ شادی کے بعد سے۔
دہلی آنے کی وجہ آپ کے میاں کا روزگار تھا یا کچھ اور؟
روزگار کے لیے ہی آئے تھے یہاں۔
اس محلہ میں کب سے ہیں آپ؟
سات برس سے۔ جب سے ہمارا مکان بنا ہے۔
تو یہ آپ کا ہے؟
جی۔ وہ خفیف سا مسکرائی۔
راشن کارڈ ہے آپ کے پاس؟
جی۔
آئی کارڈ جس میں تصویر لگی تھی بنوایا تھا؟
جی وہ بھی ہے۔
برائے مہربانی دکھائیں گی؟
وہ لینے اٹھی۔ آپ کہیں پڑھاتی ہیں کیا؟ یہ اس کا سوال تھا۔
ہوں... میں نے جواب دیا۔
اب بچوں کے نام بتائیں۔ میں نے آئی کارڈ اور راشن کارڈ چیک کرتے ہوئے پوچھا۔ بڑے بچے کا نام؟
اسے خاموش پاکر میں نے پھر پوچھا۔
پہلی یعنی بڑی اولاد کا نام ؟
جی، بتایا نہیں آپ نے۔ بڑا بچہ کتنا بڑا ہے؟ اس کا کیا نام ہے؟
کچھ بھی نہیں۔
جی... میں نے دل میں سوچا عجیب پُرمذاق خاتون ہے۔ مجھے جلدی ہورہی ہے اور اسے باتیں اور مذاق سوجھ رہا ہے۔ میں اندر ہی اندر جھنجلا گئی لیکن لہجہ نرم کرکے میں نے پھر اپنا سوال دہرایا۔
بڑے بچے کا نام بتائیے بیٹا ہے بیٹی؟ جو آپ کے ساتھ رہتے ہوں اس گھر میں۔
کوئی بھی نہیں...
کیا سب کی شادیاں ہو گئیں؟
نہیں تو... کیا سامنے والوں نے کچھ نہیں بتایا آپ کو؟
میں حیران تھی۔ دیکھیے میں سامنے والوں کی بات نہیں کررہی ہوں۔ آپ کی کر رہی ہوں۔ جو بچے شادی ہوکر چلے گئے ہیں ان کو چھوڑ کر جو آپ کے ساتھ ہیں بیٹا یا بیٹی شادی شدہ یا غیرشادی شدہ دونوں۔ ان کے نام لکھوائیے۔ میں نے اسے سمجھاتے ہوئے بتایا اور اندر ہی اندر بڑبڑائی ’’عجیب کھسکے ہوئے دماغ کی عورت ہے۔‘‘
کوئی ہے ہی نہیں تو کیا بتاؤں۔ وہ بولی۔
جی... لیکن! آپ تو... کہہ رہی تھیں۔ دیر... لگے... گی... بہت... بڑی... فیملی... ہے۔ میں نے جملے کو چبا چبا کر بڑی مشکل سے پورا کیا۔
’’یہ بڑی ہی تو ہے۔‘‘
میرا ذہن ماؤف ہونے لگا۔ قلم رکھ کر ٹھوڑی پکڑ کر اس کا چہرہ اوپر کیا اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری تھیں۔ میں گھبرا گئی۔ بڑی عجیب سچویشن تھی۔ کئی منٹ خاموشی میں گزر گئے۔ بہت ہمت جٹا کر میں نے اسے دلاسہ دیا۔ آپ مایوس نہ ہوئیے۔ کہیں علاج کرایا آپ نے؟ اس نے اثبات میں گردن ہلائی۔ آنکھوں سے آنسو نکل کر گالوں پر لڑھک آئے تھے۔ دوپٹّہ سے آنسو صاف کرتے ہوئے اس نے ناک پونچھی جو سرخ ہوچکی تھی۔ کسی کو گود لینے کا نہیں سوچا؟
سوچا تو تھا۔ لیکن، یہ کہتے ہیں اپنا اپنا ہی ہوتا ہے۔ جب اوپر والے نے ہی نہیں دیا تو... اس نے سسکتے ہوئے دھیمے دھیمے جواب دیا۔
نہیں نہیں ایسی بات نہیں ہے۔ آپ انہیں سمجھائیے۔ کبھی کبھی اپنی اولادیں بھی بڑی ناکارہ نکل جاتی ہیں اور گود لی ہوئی بہت نیک اور خدمت گزار۔ میں نے تسلی دینے کی غرض سے اس کا کندھا تھپتھپایا۔ اس میں بھی اللہ کی کوئی مصلحت رہی ہوگی۔
وہ سامنے والے مجھے اچھا نہیں سمجھتے۔ کیونکہ میں... اپنے بچے بھی میرے یہاں آنے نہیں دیتے۔ وہ پھر سسکنے لگی۔ وہ خود اچھے نہیں ہوں گے۔ یہ تو اوپر والے کے اختیار میں ہے۔ آپ یہ سب سوچ کر خود کو دکھی نہ کیجیے۔ ہمت سے کام لیجیے۔ میں بہت دیر تک اس کے پاس بیٹھی رہی۔ اس سے باتیں کرتی رہی۔ اس کی غیرضروری باتوں کا مقصد اب میں اچھی طرح سمجھ چکی تھی۔
آپ خود کو کہیں مصروف رکھیے نا؟
بچوں کو قرآن پاک پڑھاتی ہوں، لیکن پہاڑ سا دن کاٹے نہیں کٹتا۔
آپ کسی کو اپنا دوست بنائیے۔ چلیے مجھے بنا لیجیے۔ آپ میرے گھر آئیےگا پھر بہت ساری باتیں کریں گے۔ اپنا پتہ دے کر کاغذات سمیٹتے ہوئے دکھی دل سے میں اٹھ کھڑی ہوئی۔
اوپری منزل پر کوئی اور فیملی رہتی ہے کیا؟ میں نے سینسس کی غرض سے سوال کیا۔
کوئی نہیں۔ ہمارا ہے خالی ہے۔
اورنیچے گراؤنڈ فلور پر؟
وہ بھی خالی ہے ہمارا ہی ہے۔
اچھا چلتی ہوں۔ خدا حافظ۔
آپ کے کتنے بچے ہیں؟ اس نے چلتے چلتے سوال کر ڈالا۔
جی اللہ کے کرم سے... اف... لمحہ بھر کو میں رُکی۔ آواز حلق میں کہیں گم ہو گئی تو میں نے نفی میں سر ہلایا۔
کوئی نہیں ہے؟ اس نے دردمندی سے پوچھا تو میں نے پھر نفی میں سر ہلایا۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ کیا آپ بھی؟ جی، میں، بھی، آپ کی، طرح،.... میں نے دیکھا لمحہ بھر میں ہی اس کے چہرے سے غم کے بادل چھٹنے لگے تھے۔
میں نے اپنے کلیجے پر ہاتھ رکھا اور سیڑھیاں اترنے لگی۔ مجھے محسوس ہوا میرے قدم لڑکھڑا رہے ہیں۔ میں نے خدا سے دعا کی اے خدا یہ کبھی میرے گھر نہ پہنچے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.