Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بحیرۂ مردار

آصف فرخی

بحیرۂ مردار

آصف فرخی

MORE BYآصف فرخی

    کہانی کی کہانی

    کہانی اولاد سے محروم ایک جوڑے کی ہے۔ قسمت کی ستم ظریفی یہ ہے کہ میاں اور بیوی دونوں میں کوئی نقص نہیں اس کے باوجود وہ اولاد کی نعمت سے محروم ہیں۔ ہر بار حمل ٹھہرنے کے کچھ ہی دن بعد بچہ ضائع ہو جاتا ہے۔ اخبار میں ملازم راوی اپنی زندگی کی محرومیوں کا ذکر بھی اسی ضمن میں کرتا ہے۔ اس کو سنڈے میگزین کے لئے ایک کالم مانیں یا مانیں لکھنے کے لئے دیا جاتا ہے۔ ایک دن وہ کالم لکھنے کے لئے بہت دیر تک پریشان رہتا ہے اور پھر لکھتا ہے۔۔۔ اسرائیل کے قریب ایک جھیل ہے جس کا نام بحیرہ مردار ہے۔ اس کے کھارے پانی میں یہ خاصیت ہے کہ وہاں کوئی زندہ چیز پنپ نہیں سکتی۔ نہ آبی پودے نہ مرغابیاں، نہ مچھلیاں۔ اسی لئے اسے بحیرہ مردار کہتے ہیں۔

    ساجدہ کا چہرہ پیلا پڑتا جا رہا تھا۔ اس بار بہت احتیاط کی ضرورت تھی، ڈاکٹر نے کہا تھا۔ اس سے پہلے تین دفعہ ایسا ہو چکا تھا۔ حالاں کہ وہ پہلے دن سے احتیاط کرتی تھی۔ نہ سیڑھیاں چڑھنا، نہ بوجھ اٹھانا، نہ کوئی اور ایسا کام جس سے تھکن ہو۔ پھر بھی کہیں نہ کہیں گڑبڑ ہو جاتی تھی۔ ڈاکٹر معائنہ کرنے کے بعد کہتا کہ آپ جتنی تاریخ بتا رہی ہیں اس کے حساب سے تو یہ کم لگتا ہے۔ مگر اس میں بھول جانے یا غلطی کرنے کا بہت کم امکان تھا۔

    ساجدہ کپڑوں کی الماری کی نچلی دراز میں رکھی ہوئی ڈائری میں اپنی تاریخوں کا حساب رکھتی تھی۔ وہ ہر کام اسی طرح ایک خاص سلیقے اور باقاعدگی سے کرتی تھی اور تینوں مرتبہ ایسا ہوا کہ سوتے میں گھبرا کر میری آنکھ کھل گئی اور میں بستر میں خون کے نشان دیکھ کر چونکا۔ وہ غنودگی اور نیم بے ہوشی کی ملی جلی کیفیت میں پڑی رہتی اور رات میں کسی وقت خون جاری ہو جاتا۔ صبح تک خون کے اتنے اتنے بڑے جمے ہوئے ٹکڑے نکلنے لگتے۔ اسپتال بھی لے گئے مگر ہر بار یہی جواب ملا کہ ان کا حمل ضائع ہو چکا ہے۔

    ہم دونوں اس دفعہ بہت فکر مند تھے۔ ہر بات بالکل ٹھیک ٹھاک ہو، کہیں ذراسی بھی اونچ نیچ نہ ہونے پائے۔ ہر بار ایسا کیوں ہو جاتا تھا؟ یا تو بیج میں قوت نمونہ تھی یا زمین زرخیز نہیں تھی۔ ایک دوسرے سے بہت محبت کرنے کے باوجود ہم ایک دوسرے کی صلاحیتوں پر شک کرنے لگے تھے اور ایک دوسرے پر ظاہر کیے بغیر ہم اندر ہی اندر ڈرتے بھی بہت تھے۔ جب میں چھوٹا تھا تو میرے گھر کے آنگن میں آم کا ایک پیڑ تھا۔ اونچے پیڑ کی پھننگ میں میری پتنگ پھنس جاتی اور اسے اتارنے کے لیے میں پیڑ پر چڑھتا تو پیڑ کے ہلنے سے بور جھڑنے لگتا تھا۔ اماں اندر بیٹھے بیٹھے چلا کر کہتی تھیں، ’’نیچے اتر آؤ! بور کچا جھڑ گیا تو پھل کیسے آئیں گے؟‘‘ اس پیڑ میں چوسنے والے آم لگتے تھے۔ میں انہیں کتنے شوق سے کھاتا تھا۔ ایک دفعہ آم کے پیڑ کو بیماری لگ گئی۔ سارا بور کالا ہوکر جھڑنے لگا۔ اس سال یہ اکیلا پیڑ تھا جس پر کوئل نہیں بولی۔

    اس پیڑ کے آم میں گٹھلی اتنی سی ہوتی تھی اور گودا بہت سارا۔ میں اپنے بچپن کے اس پیڑ کو اکثر یاد کیا کرتا تھا۔ کاش اس کی کوئی گٹھلی وہاں سرحد پار سے اڑتی ہوئی آئے اور میرے صحن میں گر جائے۔ میں نے ساجدہ کو بھی اس پیڑ کے بارے میں بتایا تھا۔ ہم ایک دوسرے کو اس طرح کی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی بتاتے تھے۔ ساجدہ کو چھپکلی سے ڈر لگتا تھا اور مجھے اونچائی سے۔ ساجدہ نے مجھے بتایا تھا کہ جب وہ تین چار سال کی تھی (ہم نےاسی طرح اپنی ملاقات سے پہلے کی پوری زندگی باتوں باتوں میں ساتھ بتالی تھی) تو وہ غسل خانے جانے سے پہلے دیواروں پر خوب اچھی طرح نظر دوڑا کر دیکھ لیتی تھی کہ کہیں چھپکلی نہ ہو۔ جس جگہ چھپکلی ہوتی وہ وہاں نہیں جاتی تھی۔

    ایک دفعہ وہ نہا رہی تھی اور نہاتے نہاتے چھت کی طرف نگاہ جو اٹھی تو روشن دان کے نیچے یہ موٹی چھپکلی۔ اسے ایسا لگا کہ چھپکلی اسے دیکھ رہی ہے اور اب اس پر گرا چاہتی ہے۔ اس کے ہاتھوں سے صابن پھسل گیا۔ وہ چیخ بھی نہ سکی۔ ایک کونے میں سہم کر کھڑی ہوگئی، آنکھیں چھپکلی پر سے ہٹنے کا نام نہ لیں، چہرے پر صابن کا پانی اور آنسو بہے جائیں اور ہونٹ رکے بغیر دعا مانگے چلے جائیں کہ اچھے اللہ میاں یہ چھپکلی یہاں سے چلی جائے پھر میں ہمیشہ امی کا کہنا مانوں گی۔ کتنی صدیوں تک وہ چھپکلی کے خوف میں کھڑی وہاں روتی رہی۔ چھپکلی دیوار پر چپکی رہی۔ اس کے بعد کیا ہوا اسے نہیں معلوم۔ جب آنکھ کھلی تو پتہ چلا کہ وہ غسل خانے میں بے ہوش ہو گئی تھی اور دروازہ توڑ کر اسے باہر نکالا گیا تھا۔

    صبح کا ناشتہ بناتے ہوئے ساجدہ انڈے میں ایک طرف ذرا سے چھید کر کے زردی اور سفیدی کڑھائی میں ڈالتی تھی تو کھولتا ہوا گھی چٹخنے لگتا۔ وہ انڈے کا چھلکا پورا نہیں توڑتی تھی۔ خالی چھلکا دروازوں کے اوپر، کھڑکیوں میں اور الماریوں کے پیچھے رکھ دیتی تھی۔ اس کی بو سے چھپکلی نہیں آتی، اس کا کہنا تھا۔ وہ روز صبح گھر کے کونوں میں انڈے کے تازے چھلکے رکھتی تھی۔ میں نے گھر کے سارے کھڑکی دروازوں پر جالی لگا دی تھی۔ میں اس کے خوف کا احترام کرتا تھا۔

    میرا خوف اونچائی کا ہے۔ بلندی پر سے نیچے جھانکوں تو سر چکرا جاتا ہے، لگتا ہے نیچے گر پڑوں گا۔ میں دوسروں کو بھی ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا، کیوں کہ مجھے اونچائی کے تصور سے گھمیری آ جاتی ہے۔ کراچی آنے کے بعد جب ہم بزنس روڈ کے ایک فلیٹ میں رہے تھے، تو اس فلیٹ کی بالکنی میں جاتے ہی میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگتا تھا۔ ایک تو میں ایسے گھر میں رہنے کو بھی ذہنی طور پر قبول نہیں کر پایا تھا جو زمین پر ٹکا ہوا نہ ہو۔ میں نے کبھی بالکنی کے جنگلے پر سے جھک کر نیچے جھانکنے کی کوشش نہیں کی۔ سامنے والوں کا لڑکا طاہر اس جنگلے پر کھڑا ہو کر چلتا تھا۔ اسے دیکھ کر مجھے ڈر لگتا تھا۔ اگر یہ گر پڑا تو؟ کتنی تیزی سے ان چکرا دینے والی گہرائیوں میں گرتا چلا جائےگا۔ کنویں میں گرتے ہوئے پتھر کی طرح، ہوا کو کاٹتا ہوا، پھر نیچے گلی میں اس کی ہڈیوں کا سرمہ بکھرا ہوا ہوگا۔ طاہر نے آنکھوں پر پٹی باندھنے کے بعد اس جنگلے پر چل کر دکھایا تھا۔ میں نے اس وقت اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں۔ اگر وہ سرکس کے بازی گر کی طرح مجھے بلانے کے لیے میری طرف ہاتھ بڑھا دے تو؟ پھر میں اونچائی کے بلاوے سے کیسے انکار کر سکوں گا؟

    میں جس اخبار میں کام کرتا ہوں، اس کے دفتر میں اتنی سیڑھیاں ہیں کہ سوچ کر ہی سر چکرا جاتا ہے۔ مجھے وہ ساری سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جانا تھا۔ کیوں کہ بڑے صاحب نے بلایا تھا۔ بڑے صاحب یعنی اخبار کے مالک۔ میں اس اخبار کے نائب مدیروں میں سے ایک تھا۔ میں وہاں دن دن بھر کام کرتا تھا اور ضرورت پڑنے پر رات کو بھی۔ پھر بھی میرا نام اخبار کے آخری صفحے پر خبروں کے نیچے چھپی ہوئی یک سطری اطلاع میں نہیں آتا تھا کہ فلاں پبلشر اور فلاں پرنٹر نے فلاں پروپرائٹر کے لیے فلاں جگہ سے شائع کیا۔ جو کام صحیح طور پر نہ ہوتا تھا اس کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی تھی اور جو کام ٹھیک ہو جاتا تھا اس کا کریڈٹ مجھ کو نہیں دیا جاتا تھا۔ بڑے صاحب نے دو دن پہلے کا اخبار میرے سامنے رکھ دیا۔ اس کا اداریہ میرا لکھا ہوا تھا۔ انہوں نے اخبار میرے سامنے سرکایا تو مجھے ایسا لگا کہ میرا لکھا ہوا میرے خلاف شہادت کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

    ’’آپ کے لکھے ہوئے مضامین میں خیالات کے انتشار کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔‘‘ انہوں نے مجھ سے کہا، ’’ابھی ایک بات کہہ رہے ہیں، ابھی دوسری شروع کر دی۔ کہیں آپ بہت گھما پھراکر بات کہتے ہیں اور کہیں بالکل ہی صاف بات کہہ دیتے ہیں۔‘‘ میں چپ رہا۔ میں نے کسی مقدس کتاب پر ہاتھ رکھ کر سچ بولنے کا حلف نہیں اٹھایا تھا۔ ’’آپ کے لکھے ہوئے اداریے میں ایک خاص زاویہ نظر آتا ہے، ایک خاص نقطہ نظر۔۔۔‘‘ وہ کہہ رہے تھے۔ انہوں نے میری طرف خاکی رنگ کا وہ لفافہ بڑھا دیا، جس میں حکومت کے محکمے کی طرف سے اخباری پالیسی کے بارے میں ہدایات آتی تھیں۔ اس لفافے کو دیکھ کر پتہ نہیں کیوں مجھے یاد آنے لگا کہ کالج کے زمانے میں میں نے ایک جلوس میں شرکت کی تھی۔ جلوس کے لڑکوں نے مطالبوں کے حق میں نعرے لگائے تھے۔ نعرے لگاتا ہوا جلوس شاہراہ پر نکل آیا تھا اور گزرتی ہوئی ایک سرکاری بس پر پتھر مارے تھے۔ ایک پتھر میں نے بھی مارا تھا۔ اس پتھر کا لمس مجھے اب تک یاد تھا اور کالج یونین کے انتخابات کا وہ زمانہ، اپنی پارٹی کے امیدواروں کو ساتھ لیے لیے گھومنا، رات رات بھر کی سیاسی بحثیں، پلے کارڈ اور بینر بنانا، گلا پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگانا، مخالفوں کو دیکھ کر طنزیہ انداز سے مسکرانا اور اپنے کسی ساتھی سے آنکھیں چار ہوتے ہی دو انگلیاں اٹھا کر فتح کا نشان بنانا۔۔۔

    کالج سے نکلا تھا تو لگتا تھا کہ ساری دنیا میرے قدموں تلے ہے، زندگی کالج کا وہ تقریری مقابلہ ہے جس میں مجھے ٹرافی ہر حال میں مل ہی جاتی تھی اور بہتر زمانہ بس اب آ ہی رہا ہے۔ وہ جو میں تھا اور وہ جو میں ہوں، ہم دونوں آپس میں اجنبی بن کر رہ گئے ہیں۔ کیا میں ضائع ہو گیا؟ اب سارے وقت ٹیلی پرنٹر کو کاغذ کی پٹیاں اگلتے ہوئے دیکھنا اور یہ فیصلہ کرنا کہ کون سی خبر کہاں لگےگی، کہیں دور کے انقلاب کی خبر بڑی ہے یا قریب کے فساد کی، قتل کی واردات پہلے صفحے پر آئےگی یا مرکزی وزیر کی تقریر۔ جس سڑک پر میرا دفتر تھا، اس پر کئی اور اخباروں کے دفاتر بھی تھے۔ مجھے یاد آیا کہ ایک دفعہ کسی نے مجھ سے کہا تھا کہ یہ میکلوڈ روڈ پاکستان کی فلیٹ اسٹریٹ ہے اور اس پر مجھے فوراً خیال آیا تھا کہ دوطرف بڑی بڑی عمارتوں میں گھری ہوئی میکلوڈ روڈ ایک لمبے برآمدے کی طرح ہے، ہوا چلتی ہے تو اس میں سے سنسناتی ہوئی گزر جاتی ہے جیسے کسی سرنگ سے گزر رہی ہو۔ ان عمارتوں میں ہوا نہیں آتی۔

    اچانک میں چونک اٹھا۔ مجھے خیال آیا کہ میں اس وقت کہاں ہوں اور کس کے سامنے ہوں۔ میں چونکا تو میری نظر ان کے ہاتھوں پر پڑی۔ میں نے دیکھا کہ ان کے دائیں ہاتھ میں پانچ کے بجائے چھ انگلیاں ہیں، چھوٹی انگلی کے ساتھ، درخت کے دو شاخے کی طرح ایک اضافی انگلی بھی موجود تھی۔ اس انگلی کے گٹے پر چھوٹے چھوٹے بال اگے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ مجھے زیادہ تعجب اس اضافی انگلی کی موجودگی پر تھا، یا اس بات پر کہ اس کے گٹے پر بال اگے ہوئے ہیں۔ پھر ان کی آواز میری کانوں میں دوبارہ سنائی دینےگی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ مجھے اداریہ لکھنے کی خدمت سے سبکدوش کر دیا گیا ہے۔ بلکہ اداریے والے صفحے سے ہی ہٹا دیا گیا ہے۔ میری خدمات اب اخبار کے ہفتہ وار میگزین ایڈیشن کو پیش کی جا رہی ہیں۔

    میرے مستقبل کے بارے میں اگلے فیصلے کےہونے تک مجھے ہر ہفتے میگزین کے لیے ’’مانیں یا نہ مانیں‘‘والا فیچر لکھنا ہوگا، وہی فیچر جس میں دنیا بھر سے تعجب خیز اور انوکھی باتیں جمع کر دی جاتی ہیں۔ وہاں سے باہر نکلا تو سارے جسم پر چیونٹیاں سی کاٹ رہی تھیں۔ مجھے یاد آیا کہ میں نے ایک دفعہ چیونٹیوں والی قمیص پہن لی تھی۔ ساجدہ ہمیشہ کہتی تھی کہ کپڑے جھاڑ جھٹک کر پہنو، کوئی کیڑا نہ ہو۔ اس روز جلدی میں خیال نہ رہا۔ مئی جون کے دن تھے۔ غسل خانے میں نمی اور ٹھنڈک کی وجہ سے چیونٹیاں کھونٹی پر لٹکے ہوئے کپڑوں میں گھس جاتی تھیں۔ جب میں بس میں بیٹھ کر دفتر جا رہا تھا تو کلبلاہٹ شروع ہوئی۔ پہلے میں سمجھا کہ گرمی دانوں میں پسینے کے چپکنے سےمرچیں لگ رہی ہیں۔ پھر کھجلی بڑھی اور کھجاتے کھجاتے دیوانگی کی سی کیفیت ہو گئی۔ سارے بدن میں جلن ہونے لگی اور سرخ سرخ دوڑے پڑ گئے تھے۔

    ان کے دفتر سے باہر نکل کر میں نے دیوار کا سہارا لیا۔ کمرے کے باہر لمبا برآمدہ تھا اور برآمدے کی دوسری دیوار میں کھڑکیاں۔ میری نگاہ کھڑکی سے ہوتی ہوئی نیچے چلی گئی۔ دو رویہ عمارتوں کے بیچ میں میکلوڈ روڈ بچھی ہوئی تھی۔ اور ساری عمارتیں گڑیا گھر کی طرح نظر آ رہی تھیں، چھوٹی، غیر حقیقی اور اپنے سے بڑے کسی ہاتھ کے کھیلنے کے واسطے بنائی گئی۔ ایک چیل اڑتی ہوئی نظر آئی۔ میں اس کے کھلے ہوئے پروں کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک مجھے احساس ہوا کہ ہوا میں اڑتی ہوئی چیل کو آنکھیں جھکا کر دیکھ رہا ہوں، چیل جو ہمیشہ اوپر اڑتی ہوئی نظر آتی ہے، اس وقت نیچے نظر آ رہی ہے۔ میں اس کی پرواز کی سطح سے اوپر کھڑا ہوا دیکھ رہا ہوں۔۔۔ اونچائی!

    یک بیک میرے سامنے کھلی کھڑکی کا منظر گھوم گیا۔ ان کا دفتر سب سے اونچی منزل پر تھا اور اس دفتر کی عمارت میں اتنی منزلیں ہیں جتنے میری زندگی میں سال بھی نہیں۔ کھڑکی میں سے گول گھومتی ہوئی گہرائی نظر آ رہی تھی جو منہ پھاڑے میری طرف بڑھی۔ میں لٹو کی طرح گھومتا ہوا نیچے جا رہا ہوں۔ میرے بازو ہوا کو چپووں کی طرح کاٹ رہے ہیں، کانوں میں سیٹیاں بج رہی ہیں۔ اگر میں کھڑکی کی لکڑی کو پکڑ نہ لیتا تو تیورا کر نیچے گر پڑتا۔

    میں وہاں سے آکر اپنی ڈیسک پر بیٹھ گیا۔ مجھے اتنے عرصے میں کیا حاصل ہوا، اصولوں کی شکست، غلاموں جیسی مشقت، ہر قدم پر مصالحت اور تھکن جو روز میں اپنے جسم میں دن بھر کی کمائی کی طرح سمیٹ کر گھر روانہ ہوتا تھا۔ سارے دن کالموں کی خالی جگہوں میں کتابت شدہ مسالہ، خبریں، اشتہار اور تصویریں لگانا اور پھر وہی اعضا شکن ماندگی۔ شام ہوتے ہی مجھے لگتا کہ کراچی تھک گیا ہے، سارے لوگ تھک گئے ہیں، تمام عمارتیں تھک چکی ہیں۔ کراچی، سارے لوگ، تمام عمارتیں۔ میرے دفتر کی دیواریں تھکن کے بوجھ سے پھٹی جا رہی ہیں اور ان کی تھکن ریڈیائی لہروں کی طرح میرے جسم میں داخل ہو رہی ہے۔ یہ تھکن رگ و ریشے میں اتر کر سارے بدن میں تحلیل ہو رہی ہے۔ اب جانے کا وقت آ گیا ہے۔

    گھر۔۔۔ تھکن کی ایک اور مسافت کے فاصلے پر۔ واپسی کا سفر آغاز کرنے کی بھی ہمت نہیں تھی۔ بہت کوشش کے بعد کرسی سے اٹھا تو ٹانگیں اکڑ گئی تھیں۔ گھٹنے مڑ نہیں رہے تھے۔ کھڑکی کے باہر سارا شہر جمائی میں تبدیل ہو چکا تھا۔ اس عادی نشے باز کی جمائی جس کو نشے کی طلب ہو رہی ہو اور نشہ مل نہ رہا ہو، جمائیوں پر جمائیاں، آنکھوں سے پانی بہتا ہوا، بدن ٹوٹتا ہوا۔۔۔ دماغ شل ہوا جا رہا ہے۔ جیسے کئی گھنٹے کھلے سمندر میں تیرنے کے بعد بازو شل ہو جاتے ہیں، پٹھوں میں گٹھلیاں سی پڑنے لگتی ہیں، سارا بدن کسی غیر لچک دار دھات کا بنا ہوا معلوم ہوتا ہے اور یہ دھڑکا کہ موجوں کے اگلے اچھال میں یہ سیدھا تہہ کی طرف اتر جائےگا۔ میں سیڑھیوں سے اتروں کہ لفٹ سے جاؤں۔ دماغ کوئی فیصلہ کرنے کے قابل نہیں رہا۔ سیڑھیوں سے جاؤں اور پہلی سیڑھی پرقدم رکھتے ہی چکر آ گیا تو؟ لفٹ سے جاؤں اور دومنزلوں کے بیچ میں بجلی چلی جائے تو میں اس آہنی پنجرے میں ٹنگے ٹنگے دم گھٹ کر مر جاؤں گا۔

    نیچے اتر کر وہی واپسی کا شور۔ بےچہرہ ہجوم دفتروں سےنکل کر گھر کا رخ کر رہا ہے۔ سارا شہر تھک چکا ہے۔ لوگ نیند میں چل رہے ہیں۔ شام کے دھندلکے میں میکلوڈ روڈ کی عمارتیں نکوٹین چڑھے دانتوں کی طرح بد رنگ دکھائی دے رہی ہیں۔ سڑک چرس سے بھری رگوں کی طرح چل رہی ہے۔ مجھ سے ایک قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ کمر تختہ ہوئی جا رہی ہے۔ کندھے نامعلوم بوجھ سے جھک کر رہ گئے ہیں۔ ٹانگیں جواب دے رہی ہیں۔ اب اور کتنی دور جانا ہے؟ ایک قدم بھی اٹھانا دشوار ہے۔

    جو دن اس تھکن پر پہنچ کر ختم ہوتا ہے، وہ شروع کسی اور طرح سے ہوا تھا۔ (شروع ہوا تھا یا اب ہونے والا تھا؟ میں وقت کی ترتیب میں گڑبڑا جاتا ہوں۔ جو ہو رہا ہے اور ہونے والا ہے آپس میں اس طرح گڈمڈ ہو جاتے ہیں جیسے ہوا کے اڑائے ہوئے ورق) گیارہ بجے کے لگ بھگ اس سگنل پر جہاں سے سڑک ایک غیرملکی سفارت خانےکے لیے مڑ جاتی ہے، شام کے وہ اخبار بٹتے ہوئے نظر آیا کرتے تھے جو دوپہر تک چھپ کر آ جاتے ہیں کہ اپنے پڑھنے والوں میں سنسنی پیدا کر دیں۔ ایک سوزوکی وین اخباروں کی گڈیاں فٹ پاتھ پر پھینک گئی۔ ہاکر لڑکے الگ الگ صفحوں کو ترتیب سے جمانے لگے۔ یہ ابھی انہیں ترتیب دے لیں گے اور اپنے میلے کپڑوں، مفلس چہروں کے ساتھ آج کی تازہ خبر چیختے ہوئے سگنل پر رکنے والی ہر گاڑی میں فروخت کرنے کی کوشش کریں گے۔ ابھی یہ خبریں ان صفحوں سے نکل کر دنیا میں پھیلی نہیں ہیں، کسی طرح بھاپ دے کر ان گیلے سیاہ حروف کو مٹا دیا جائے تو کیا یہ واقعات جو ہو چکے ہیں، یہ بھی مٹ جائیں گے؟

    اسی سگنل پر ایک دن میں نے ایک گدھا گاڑی کو الار ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ گاڑی بان نے گاڑی میں بےتحاشا لکڑی کے تختے اور پیٹیاں لاد رکھی تھیں۔ لکڑیاں گاڑی سے کئی ہاتھ پیچھے کی طرف نکلی ہوئی تھیں۔ یہ کسی تعمیر میں استعمال ہوں گی اور ان کے فریم پر عمارت کا ڈھانچہ کھڑا ہوگا۔ بری طرح لدی ہوئی گاڑی پر وہ اور تختے چڑھائے جا رہا تھا۔ اس نے گدھے کی لگام کھینچی مگر گدھا چل کے نہ دیا۔ گاڑی بان نے ٹین کا ڈبا، جس کے اندر کنکر بھرے ہوئے تھے اور آگے کا حصہ دبا کر چونچ کی طرح نکیلا بنا دیا گیا تھا، گدھے کے پچھائے میں بھونک دیا۔ گدھے نے زور لگایا مگر گاڑی کھینچ نہ سکا۔ گاڑی بان نے ڈبے کے کنکر بجاتے ہوئے پھر چبھویا۔

    ایک دم سے گاڑی بیٹھ گئی اور گدھا اوپر اٹھ گیا۔ کچھ دیر تک وہ ہوامیں ٹانگیں چلاتا رہا۔ پھر لگام ٹوٹ گئی اور ہوا میں معلق گدھا بڑے زور سے نیچے گرپڑا۔ اس کی ہڈیاں کڑکڑانے کی آواز آئی اور سڑک پر خون کا گدلا جوہڑ بن گیا۔ اس وقت مجھے بہت ہنسی آئی تھی۔ پھر بالکل نہیں آئی۔ آج گھر واپس ہوتے ہوئے میں نے مصروف شاہراہ کے بیچوں بیچ وہ دھبا دیکھا جہاں اپنی حد سے زیادہ بوجھ نہ کھینچ سکنے والے گدھے کا خون جمع ہو گیا تھا۔ تارکول کی سیاہ چکنی سڑک پر یہ دھبا کوڑھ کے داغ کی طرح نظر آ رہا تھا۔

    میں نے یہ دھبا بس میں بیٹھے بیٹھے دیکھا تھا۔ میں اس دھبے کے پاس نہیں اترا بلکہ ہمیشہ کی طرح ایمپریس مارکیٹ پر اترا جہاں سے گھر جانے کے لیے دوسری بس بدلتا ہوں۔ وہاں کی وہی دھکم پیل، بھیڑ بھڑکا، شور، وہی ہجوم۔ انسانوں کا یہ طوفان نہ جانے جس بڑھیا کے تندور سے نکلا ہے۔ ایک دم سے مجھے لگا کہ اس ہجوم نے ہانکا کر کے مجھے گھیر لیا ہے۔ یہ لوگ نہیں ہیں، نظر نہ آنے والے پنجرے کی تیلیاں ہیں۔ مجھے ایسا لگا کہ میری پیٹھ پر روٹیوں کا تھال بندھا ہے اور یہ سارے لوگ عزیز مصر کےاس زندانی کے خواب والے کوے ہیں جو مجھے نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔ معلوم نہیں کیوں، گھر جاتے میں میرا دل بیٹھا جاتا ہے۔ اضمحلال کے ساتھ افسردگی اور خوف مل جاتے ہیں۔

    ایسا لگتا ہے کچھ ہو گیا ہے اور میں اس کے بارے میں بےخبر ہوں۔ کوئی سانحہ پیش آ چکا ہے، جو میری ساری زندگی کو ہلا کر رکھ دےگا، میں اس کے بارے میں اب کچھ نہیں کر سکتا اور میں اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتا۔ گھر پہنچتے ہی دروازہ کھولوں گا اور وہ حادثہ میرے ہوش و حواس پر بم کی طرح پھٹ پڑےگا اور میں دھماکے سے لرز جاؤں گا۔ جوں جوں گھر نزدیک آنے لگتا ہے، ٹل نہ سکنے والی تباہی کا احساس شدید ہوتا چلا جاتا ہے۔ جب تک گھر پہنچ کر ساجدہ کو دروازے پر کھڑے ہوئے نہ دیکھ لوں اعتبار نہیں آتا اور کیا پتہ وہ بھی مجھ سے کچھ چھپا رہی ہو۔

    ’’اس کی کوکھ ہری نہ ہونے کی، نگوڑ ماری بانجھ ہے۔‘‘ اماں روزانہ گھر میں گھستے ہی میری ٹانگ لیتی تھیں، ’’بیٹا دوسری شادی کر لو۔‘‘ میری تیوری پر بل دیکھ کر وہ بکتی جھکتی صحن میں چلی جاتیں۔ وہاں سے بھی ان کی آواز صاف سنائی دیتی، ’’میرا کیا ہے، قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھی ہوں، یہی حسرت لیے چلی جاؤں گی کہ پوتی پوتا کھلاؤں، کیا خبر تھی مجھ جنم جلی کو، اپنے ہاتھوں سے بیاہ کر لائی تھی۔‘‘ ساجدہ میری طرف دیکھ کر نگاہیں جھکا لیتی۔ نہ وہ کچھ کہتی نہ میں۔ ہم اس موضوع پر کبھی کچھ نہ کہتے۔ ہمیں اس کا احساس ضرور تھا مگر ہم اس کا اعتراف نہیں کرتے تھے۔ اعتراف کرنے کے بعد کوئی عملی قدم اٹھانا لازم ہو جاتا ہے۔ وہ عملی اقدام کیا ہو سکتے تھے، ہم ان سے خائف تھے۔

    ’’اس معاشرے میں بچے پیدا کرنا جرم ہے، جہالت ہے۔ خود بچوں کے ساتھ ناانصافی ہے، آخر ہم انہیں کس دنیا میں آنے پر مجبور کر رہے ہیں۔‘‘ کبھی کبھی میں یونہی کہتا تھا۔ اس طرح جیسے یہ کسی اور کی بات ہو۔ میں یہ کس کو باور کرا رہا تھا، اسے یا اپنےآپ کو؟ میرے دوست بھی دوسری شادی کا مشورہ دیتے تھے۔ اگر مجھے ان کے خلوص کا یقین نہ ہوتا تو میں اس مشورے کا برا مانتا۔ دوسری شادی کس لیے؟ کیا اولاد ہی سب کچھ ہے؟ ساجدہ جو اس حد تک میری مزاج شناس ہے، ہم نے جو اتنا سارا وقت ساتھ گزارا ہے اس کی کوئی اہمیت نہیں؟ ہم میں جو احساس رفاقت ہے کیا وہ غیراہم ہے؟ مگر میں یہ دلائل کسی کے سامنے کیوں پیش کروں؟ اور میں ساجدہ پر کیوں الزام رکھوں۔ اگر اس ناکامی کا ذمہ دار میں نکلا، تو پھر؟ اس کے بعد اپنی ذات پر سے رہا سہا اعتماد بھی اٹھ جائےگا۔ مگر اپنی نامرادی کا سبب ڈھونڈنے سے زیادہ دوسرے کو دکھ دینے کا اندیشہ تھا۔

    میں نے بہت احتیاط کی تھی کہ جب وہ مجھے اپنے حاملہ ہونے کی خبر سنائے تو غیرمعمولی خوشی کا اظہار نہ کروں۔ اس لیے کہ کہیں وہ یہ نہ سمجھے کہ میں بچے کی کمی محسوس کرتا رہا ہوں۔ میں اس کے اندر احساس محرومی پیدا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس کے باوجود میں نے پہلے دن سے یہ اہتمام رکھا کہ وہ ڈاکٹر کی بتائی ہوئی احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرے۔ میں اس کی غذا کا بھی پورا خیال رکھتا تھا۔ وہ پھل پروٹین زیادہ کھائے اور پریشان بالکل نہ ہو۔ کام بھی زیادہ نہیں کرنے دیتا تھا۔ گھر کا کام تو پہلے بھی زیادہ نہ تھا، وہ خود ہی اپنے مزاج کی وجہ سے کام بڑھا لیتی تھی۔ دھلی ہوئی چیزوں کو دوبارہ دھو ڈالتی تھی۔ شادی کے بعد ہی اس نے اصرار کیا تھا کہ اس کے اور میرے تولیے الگ ہوں، اور ہمارے پانی پینے کے گلاس کہیں غلطی سے ادل بدل نہ ہو جائیں اس لیے ان کی نشانی مقرر کی جائے۔ گھر کا فرش روزانہ دھلتا تھا۔ اور باہر سے آنے والی چیزیں اس طرح صاف کر لی جاتیں کہ ان پر ذرا بھی دھول مٹی نہ رہ جائے۔ ’’یہ گھر ہم نے تنکا تنکا جوڑ کر بنایا ہے۔‘‘ وہ کہتی تھی، ’’جس طرح چڑیا گھونسلا بناتی ہیں۔‘‘

    سہ پہر کے وقت ایک نرس آکر ساجدہ کے گلوکوز کا ڈرپ لگاتی تھی۔ جتنی دیر ڈرپ چڑھتی رہتی ساجدہ کو مجبوراً بستر پر لیٹنا پڑتا اور گھر کی صفائی سے دور رہتی۔ دفتر سے آکر میں ڈرپ کی سوئی نکالتا اور اسے قید سے رہائی دیتا۔ اس رات میں نے ساجدہ کے چہرے پر اپنا چہرہ رکھا تو اس کے ماتھے پر ایک بال کی جڑ میں کوئی سخت سی چیز محسوس ہوئی۔ میں نے ناخن مار کر اسے پھوڑ دیا۔ چھوٹا سا دانہ تھا جس میں پیپ کی ننھی سی بوند تھی۔ مجھے ایسا لگا کہ یہ اس کے سر میں لگی ہوئی کیل ہے اور اسے میں نے پکڑ کر کھینچ لیا تو اس کی اصلیت ظاہر ہو جائےگی اور وہ چڑیا بن کر اڑ جائےگی۔ میں اسے کھودینے کے خیال سے کانپ اٹھا۔ اس رات ساجدہ کو نیند نہیں آ رہی تھی۔ کمر میں بھی درد تھا۔ اس نے نیند کی گولی کھائی تو پانی کا گلاس میں نے لاکر دیا تھا۔ ہم میں سے کسی نے بھی بستر پر خون کے وہ پہلے دھبے نہیں دیکھے جو اجلی، کوری چادر میں جذب ہوکر اسے گلنار کر گئے۔

    میری آنکھ اس وقت کھلی جب ساجدہ نے مجھے جھنجھوڑ کر جگایا۔ اس کے چہرے پر نظر پڑتے ہی میرا دل زور سے دھڑکا اور فوراً میں سمجھ گیا کہ مجھے جس سانحے کا اندیشہ تھا وہ پیش آ چکا ہے۔ اس کا چہرہ پیلا پڑ چکا تھا اور خوف کے سبب سے اس کی آواز نہیں نکل رہی تھی۔ اس نے شلوار اتار ڈالی تھی۔ شلوار بستر سے نیچے فرش پر پڑی ہوئی تھی۔ نیفے سے لے کر پائنچے تک اس پر خون کی دھار بہہ رہی تھی۔ ساجدہ کی ٹانگوں کے نرم نرم روئیں پر خون ملا ہوا تھا۔ خون بہہ کر اس کی ایڑیوں سے ٹپک رہا تھا۔ اس نے اپنا سہما ہوا چہرہ میری طرف پھیر دیا اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اپنی جانگھ کی طرف اشارہ کیا جہاں جمے ہوئے خون کا اتنا بڑا لوتھڑا پڑا ہوا تھا۔ پھر وہ بے ہوش ہو گئی۔

    میں اس کو بازوؤں میں اٹھا کر اسپتال لے گیا۔ جتنی دیر ڈاکٹروں نے ایمرجنسی تھیٹر میں اس کا معائنہ کیا میں باہر بنچ پر سر پکڑے بیٹھا رہا۔ ڈاکٹر نے باہر نکل کر صرف ایک لفظ کہا۔ وہی لفظ جس کا خوف میرے اندر سرطان بن کر پھیل رہا تھا، اتنا شدید خوف کہ جس کا اعتراف میں اپنے سامنے کرنے کے لیے بھی تیار نہیں تھا۔ وہی لفظ جس کو سن کر میں مایوسی کے بھنور میں گھر گیا۔ ڈاکٹر نے باہر نکل کر کہا، ’’ابورشن۔‘‘

    ساجدہ کے گھر واپس آ جانے کے بعد ہم نے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ ہم نے اپنے غم اور مایوسی میں ایک دوسرے کو شریک نہیں کیا۔ میری روح کے اس حصے میں چوٹ لگی تھی جہاں میری رسائی بھی نہ تھی، لہذا مرہم کیا رکھتا۔ وہ زخم کلستا رہا۔ میں بےبس تھا۔ اور رونے پر مجبور تھا۔ مگر میں رویا نہیں۔ ساجدہ بھی نہیں روئی۔ حالانکہ میراجی چاہا کہ اسے رلاؤں۔ وہ دل بھر کے روئے تاکہ اس کا بوجھ ہلکا ہو جائے۔ مگر ہمارے آنسو بہنے سے پہلے ہی سوکھ گئے تھے۔

    اتنے دن میں نے دفتر سے چھٹی لے لی تھی۔ میں سارے وقت گھر پر ہی رہتا۔ ساجدہ کے ساتھ۔ ساجدہ دن بھر بستر پر پڑے پڑے ریڈیو سے فرمائشی فلمی گیت سنتی رہتی اور اپنی پسند کے گیتوں کے لیے پروگرام میں خط لکھتی رہتی۔ اس نے کتنے بہت سارے خط لکھے۔ کتنے ہی گیت جو اس نے سننے چاہے نشر نہیں ہوئے اور اس کے پیغام خلاؤں میں بکھر کر کھو گئے۔ دن میں کئی بار نظریں گھڑی کی طرف اٹھ جاتیں کہ اچھا اب اتنا وقت گزرا ہے اور اب اتنا گزرنا باقی ہے۔ نہ جانے کیوں گھر میں سونا پن محسوس ہوتا تھا۔ کسی چیز کی کمی محسوس ہوتی تھی۔ مگر وہ چیز کیا تھی، یہ نہ ساجدہ کو معلوم تھا نہ مجھے۔ میں نےایک دفعہ اس سے کہا کہ باہر چلو، جی بہلےگا۔ مگر وہ رونے لگی۔ ’’جو کچھ ہوا اسے آپ نے ایک بیماری سمجھا، مستقبل کا خواب نہیں سمجھا۔‘‘ وہ روتے ہوئے بولی۔ میں خاموشی سے اٹھ کر کرتے پاجامے کی جگہ پتلون قمیص پہننے لگا۔

    ’’آپ کہاں جا رہے ہیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    ’’دفتر۔‘‘ میں نے جواب دیا اور باہر چلا آیا۔

    بہت دن کے بعد دفتر گیا تو پھیکے پن کا احساس او ربھی شدت سے ہوا۔ روزمرہ کا وہی کام جو عادت ثانیہ بن گیا تھا، اکتاہٹ کا پہاڑ بن کر مجھ پر ٹوٹ پڑا۔ میں نے لکھنے کے لیے قلم اٹھایا مگر قلم کی نوک پر الفاظ نہیں بنے۔ کاغذ سادہ ہی رہا۔ مجھے ’’مانیں یا نہ مانیں‘‘ کا نیا فیچر لکھ کر دینا تھا۔ وہی انوکھی باتیں جن کو پڑھ کر آپ دنگ رہ جائیں (یا کم از کم رہ جانا چاہیے۔) کیا آپ کو معلوم ہے درخت کے تنے کو کاٹا جائے تو اس کے اندر بنے ہوئے حلقے درخت کی عمر کی نشان دہی کرتے ہیں اور آسٹریلیا کے قدیم باشندوں نے بومیرینگ کا ہتھیار بنایا جو نشانے سے چوکنے کے بعد شکاری کے پاس لوٹ آتا ہے اور کچھوے کی عمر انسان سے زیادہ ہوتی ہے اور سر کے بال مرنے کے بعد بھی کئی گھنٹے تک بڑھتے رہتے ہیں اور انسان کے جسم میں اتنی چربی ہوتی ہے کہ اگر اس کی موم بتی بنا کر جلائی جائے تو۔۔۔ مگر مدت ہوئی میں نے ایسی باتوں پر حیران ہونا چھوڑ دیا تھا۔

    میں دفتر سے اٹھ کر گھر چلا آیا۔ سوچا کہ گھر میں بیٹھ کر ہی لکھ لوں گا۔ میں گھر کے دروازے ہی پر تھا کہ ساجدہ کی آواز آئی، ’’اندر آنے سے پہلے پا انداز پر جوتے رگڑ کر صاف کر لیجیےگا۔‘‘ اندر آکر میں اس کی طرف بڑھا مگر وہ ناک پر دوپٹا رکھ کر فوراً باورچی خانے چلی گئی۔ ’’جائیے، پہلے ہاتھ منھ دھولیں، نہالیں اور دیکھیے جب تک ہاتھ صابن سے خوب اچھی طرح نہ دھولیں کسی برتن کو نہ چھوئیےگا۔‘‘ وہ آئی اور ایک چٹکی سے پکڑ کر پھلوں کی تھیلی لے گئی جو میں اس کے واسطے خرید کر لایا تھا۔ سیبوں کے چھلکے پر وہ گیلا کپڑا پھیرنے لگی اور انگوروں کو پوٹاشیم پر مینگنیٹ کے تسلے میں ڈال دیا۔ وہیں کھڑے کھڑے اس نےمجھ سے پکار کر کہا، ’’کپڑے اتار کر ایک کونے میں ڈال دیں، میں گرم پانی میں ابالوں گی۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ایک دفعہ کے دھلے ہوئے انگوروں کو دوبارہ دھونے کے لیے پانی بھرا اور تسلا ترچھا کر کے پانی نتھارنے لگی۔ انگور کے دانے سرخ ہو رہے تھے اور بیسن دانی میں سرخی مائل پانی بہہ رہا تھا۔

    شام ڈھل چکی تھی۔ جب میں لکھنے بیٹھا تو میں نے کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا۔ آسمان سیاہ پڑ چکا تھا۔ شہر کی عمارتیں تاریکی کے دھبوں میں بدل چکی تھیں۔ ہر طرف خاموشی تھی۔ میں اندھیرے میں گھورتا رہا۔ میرے سامنے سادہ کاغذ رکھا ہوا تھا۔ میں اس پرکیا لکھوں، کیسے لکھوں۔ کسی طرح یہ کاغذ میرے الفاظ کا زہر چوس لے اور آسمان کے جیسا سیاہ پڑ جائے۔ میرے لفظ بولنا چاہتے ہیں مگر زمین پر خاموشی اور سکوت طاری ہے۔ ہر چیز مردہ لگ رہی ہے۔ بلکہ پیدا ہونے سے پہلے ہی مر چکی ہے۔

    صرف ایک ہی موضوع ہے جس پر لکھا جا سکتا ہے، جس پر سوچا جا سکتا ہے۔ آخری اور انتہائی موضوع۔۔۔ موت۔ لیکن اس کے لیے اتنے سیاہ الفاظ کہاں سے لاؤں۔ اس اندھیرے سے۔ میرے چاروں طرف جو اندھیرا ہے میں اس پر لکھوں گا۔ میں نے اٹھ کر بتی بجھا دی۔ میں اندھیرے میں لکھوں گا۔ میں گھپ اندھیرے میں بھی لکھ سکتا ہوں۔ نہ الفاظ ایک کے اوپر ایک ہوتے ہیں نہ سطر کی ترتیب بگڑتی ہے۔ یہ میری پرانی عادت ہے۔ میں نے بہت سی چیزیں اندھیرے میں لکھی ہیں۔ میں یہ اداریہ بھی اندھیرے میں لکھوں گا۔ ایک دم سے خیال آیا کہ اداریہ نہیں، مجھے ’’مانیں یا نہ مانیں‘‘ کا فیچر لکھنا ہے۔ بتی بجھا کر میں نے لکھنا شروع کیا،

    ’’اسرائیل کے قریب ایک جھیل ہے جس کا نام بحیرۂ مردار ہے، اس کے کھاری پانی میں خاصیت ہے کہ وہاں کوئی زندہ چیز پنپ نہیں سکتی۔ نہ آبی پودے، نہ مرغابیاں، نہ مچھلیاں، اسی لیے اسے بحیرہ مردار کہتے ہیں۔۔۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے