Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بہرے، گونگے، اندھے

محمد امین الدین

بہرے، گونگے، اندھے

محمد امین الدین

MORE BYمحمد امین الدین

    صدر دروازے پر برقیاتی پن نے جب دوسری پن کو چھوا تو دور تک ارتعاش پھیل گیا۔ گھنٹی کی آواز سارے کمروں تک گئی تھی۔ گھر میں پھیلا سناٹا اکثر برقی گھنٹی کی آواز سے ریزہ ریزہ ہو جاتا، مگر ہر بار دروازے پر روز کے معمولات میں سے کوئی کھڑا ہوا ہوتا تھا۔ لیکن اس وقت سچ مچ وہی تھا، جس کا وہ اور اس کی بیوی کئی روز سے انتظار کر رہے تھے۔

    اس نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا۔ وہ اس کو لباس اور موٹر سائیکل پر بنے بکس ہی سے پہچان گیا۔ مگر حیرت انگیز طور پر اس کی آمد پر کوئی بےچینی نہیں ابھری، بلکہ وہ نہایت اطمینان سے دروازے پر گیا اور وہ لفافہ وصول کیا جس کے بارے میں وہ پہلے ہی جانتا تھا کہ اس میں کیا ہے۔

    اس نے ہونٹوں کو سکیڑتے ہوے لفافے کو ہاتھ میں یوں جنبش دی جیسے اس کا وزن کر رہا ہو۔ مگر اس میں وزن ہی کہاں تھا۔ وہ تو بس ایک اجلا سا لفافہ تھا جس میں اس کا اپنا ہی بھیجا ہوا اسٹامپ پیپر ہوگا۔ اس نے لفافہ چاک کیے بغیر کھانے کی میز پر ڈال دیا اور دفتر جانے کی تیاریاں کرنے چل دیا۔

    وہ اپنے رویے پر حیران تھا۔ اسے جس چیز کا بےچینی سے انتظار تھا، وہ کئی روز کی تاخیر کے بعد آخرکار اسے مل گئی تھی۔ مگر اب ملنے کے بعد وہ اسے دیکھ ہی نہیں رہا تھا۔ شاید وہ دیکھنا نہیں چاہتا تھا، یا پھر جو فیصلہ ان دونوں میاں بیوی اور اس کی بیٹی نے کیا تھا، وہ بھلا ایسا کہاں تھا کہ اسے دیکھنے اور پڑھنے کے لیے بچوں کی سی بے چینی کا اظہار کیا جائے۔

    کیا واقعی وہ اور اس کے بیوی بچے گذشتہ دو سالوں سے جس عذاب میں مبتلا تھے، انہیں اس سے نجات مل گئی تھی؟ غسل کرتے ہوے اس کے جسم پر پانی کی بوندوں میں یادوں کی ٹھنڈک بھی شامل ہو گئی، جو اس کی کھال پر مساموں کے رستے پورے وجود میں تیزی سے دوڑنے لگی۔

    سب کچھ اچانک ہوا تھا۔

    ’باجی میرے ہاں شادی سر پر رکھی ہے۔ میں نے اپنی دوسری بیٹی کا رشتہ غیروں میں کیا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر وہ لوگ کیا سوچیں گے؟‘

    اس کی بیوی نے بہت رسانیت سے اپنی بہن سے کہا تھا۔ وہ حیران تھی کہ اس کی اپنی بہن اتنی ظالم کیسے ہو سکتی ہے۔ مگر انہوں نے پوری بات سنے بغیر ہی فون رکھ دیا تھا۔

    وہ سوچ میں پڑ گئی۔

    دوسری بیٹی کا رشتہ نہ دینے کی اتنی بڑی سزا کہ بڑی بیٹی کو جسے وہ بڑے چاہ سے بیاہ کر لے گئیں تھیں، اسے اتنی حقارت سے نکال دیا۔

    اس کی بیوی کو اپنی بیٹی ہی کا قصور محسوس ہوا کہ یقیناً اس نے ہی کوئی حرکت کی ہوگی۔ وہ غصے میں چلائی۔

    ’تمہیں ذرا احساس نہیں ہے کہ اس وقت چھوٹی چھوٹی حماقتوں کو کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھو‘۔

    ’مگر امی۔۔۔

    ’چپ۔۔۔‘ اس نے غصے میں بیٹی کو ڈانٹتے ہوے کہا۔ ’آنے دو تمہارے باپ کو جنہوں نے تمہیں لاڈ پیار سے بگاڑ کر رکھ دیا ہے‘۔

    اس دن وہ اپنے لاڈ پیار والے باپ سے بری طرح پٹ گئی اور کچھ دیر بعد وہ یہ جانے بغیر کہ قصور کس کا ہے، اپنی بیٹی کو لے جا کر اپنے ہم زلف اور سمدھی سے یہ کہتے ہوے چھوڑ آیا کہ بھائی جان! یہ آپ کے گھر میں ہی اچھی لگتی ہے۔

    مساموں سے اترتی ٹھنڈک میں اسے یاد آیا کہ قالین پر بیٹھے اور کہنیوں تک ہاتھ جوڑے ہوے انہوں نے کہا تھا کہ ایک منٹ تم میری بات سن لو، مگر اس نے کہا کہ ہم کسی اور وقت بات کریں گے، صرف میں اور آپ اور ہماری بیویاں۔ آپ کے گھر کا کوئی اور فرد جو نہ معاملے کی نزاکت کو سمجھتا ہے اور نہ ہی اس بات کا شعور رکھتا ہے کہ سچ اور جھوٹ کو سمجھ سکے، وہ گفتگو میں شامل نہیں ہوگا۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا، بلکہ بعد میں ایک روز اس کی بیوی سے رو رو کر معافی مانگتے ہوے کہا تھا کہ مجھے صرف دو ماہ کا وقت دو، میں سب کچھ ٹھیک کر لوں گا۔

    مگر وہ دو ماہ دو سال تک نہ آ سکے۔

    سمندر ڈیڑھ برس تک شانت رہا۔ بس کبھی کبھی چھوٹا چھوٹا مدوجزر ابھرتا اور بیٹھ جاتا۔ مگر ایک دن پچھلے کئی عذابوں بھرے لمحوں اور ساعتوں کی طرح ایک بار پھر اس کی بیٹی دروازے پر کھڑی ہوئی تھی۔ مگر اس بار نہ تو وہ بیگ اس کے ہاتھ میں جھول رہا تھا، جو ہر بار یہ کہتے ہوے اس کے ساتھ کر دیا جاتا کہ اس کا بیگ باندھو اور اس کے ماں باپ کے ہاں چھوڑ کر آؤ۔

    آج وہ صرف ایک جوڑے میں تھی۔ مگر جب اس کی بیوی کی نظر بیٹی کی گود پر پڑی تو وہ دہل کر رہ گئی۔

    اس بار گود بھی خالی تھی۔

    اس کی ڈھائی سالہ بیٹی چھین لی گئی تھی۔ تب دفتر سے لوٹنے پر اس کی بیوی نے اپنے آنسو ضبط کرتے ہوے کہا کہ اس کو مارنا بالکل نہیں۔ وہ سمجھ گیا۔ بیوی کے چہرے پر درد اپنی انتہا کو چھو رہا تھا، آنسو منجمد ہو گئے تھے، مگر صبر اور برداشت نے اس کی کمزور مامتا کے گرد حصار قائم کرکے اسے بہت زیادہ طاقت ور بنا دیا تھا۔

    جوں جوں وقت گزرا، انصاف کی راہ دیکھتا صبر، سچائی میں گندھی استقامت اور یقین کے سائے تلے حوصلہ، دونوں کو مضبوط تر کرتے چلے جا رہے تھے۔ دونوں میاں بیوی نے طے کر لیا تھا کہ اب وہ کسی سے یہ سوال نہیں کریں گے کہ اس بار ان کی بیٹی نے کیا قصور کر دیا ہے۔ کیوں کہ وہ دونوں یہ جان گئے تھے کہ بیٹی کی سسرال والے اس سچائی کو ماننے اور سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے کہ جب بہویں ایک دوسرے سے نفرت کریں اور ایسی حالت میں کوئی ایک بہو اپنے شوہر اور بیٹی کے ہمراہ علیحدہ گرہستی بسانے کی آرزو مند ہو تو شوہر کا فرض ہے کہ وہ اپنی بیوی کی خواہش کا احترام کرے۔

    لیکن جو شوہر یہ کہے کہ وہ نامرد ہوتے ہیں جو اپنی بیوی کے کہنے پر علیحدہ ہو جاتے ہیں، تو گھر کے کمروں، دالانوں میں پھیلی ہوئی گھٹن انسانی دماغ میں گھس کر صحیح اور غلط میں تمیز کرنے کی صلاحیت کو مفلوج کر دیتی ہے۔ ایسے کسی دماغی مفلوج کو سمجھانا ایک سختی سے بند ڈھکن والی خالی بوتل کو بہتے ہوے نل کے نیچے رکھ کر بھرنے کی ناکام کوشش کرنے جیسا ہوتا ہے جو مسلسل پانی گرنے کے باوجود اپنے اندر ایک قطرہ بھی نہیں اتار پاتی، بس تھل تھل اِدھر ادھر چھلکاتی رہتی ہے۔

    دونوں میاں بیوی اور بیٹی کے لیے صبر کی چاندنی میں لپٹے اور یقین کی تپش اوڑھے ہوے نہ جانے کتنے چاند اور سورج طلوع اور غروب ہوتے رہے، مگر سات ماہ تک ان کی دہلیز پر سچ کا سامنا کرنے کوئی نہ آیا۔ تب اسے کتاب حکمت کی وہ آیت یاد آئی جس میں صبر کا حکم دینے والا خدا کہتا ہے کہ جب ہم دلوں پر مہر لگادیتے ہیں تو نہ انہیں دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی وہ سن سکتے ہیں۔

    آخرکار مون سون کی بارشوں میں بھیگے ایک دن اس کی بیوی نے خود ہی اس سے کہا کہ جنہیں سچ دکھائی نہیں دیتا، سچ سنائی نہیں دیتا اور جو سچ بول نہیں سکتے، میں ان سے اپنی بیٹی کو نجات دلانا چاہتی ہوں۔ یہ سن کر وہ اپنی بیوی کی ہمت پر فخر کرتا ہوا اس کے برابر آ کھڑا ہوا اور بولا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔

    کچھ ہی دیر بعد بیٹی نے اپنے شوہر کو فون کے ذریعے یہ پیغام دے دیا کہ میں خلع چاہتی ہوں۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ اس کی بیٹی نے بس اتنا سا کہنے کے لیے کتنی زیادہ ہمت جمع کی تھی۔ اس لمحے برقی رابطے کے دوسری طرف سے صرف ایک جملہ ڈکارا۔

    ’لکھ کر بھیجو‘۔

    درد کی لہر پورے وجود کو چیرتی ہوئی گزر گئی، کیوں کہ اس کے شوہر نے جھوٹے منہ سے بھی نہیں پوچھا کہ تم نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟

    وہ رات اس کی بیٹی نے کانٹوں پر یہ سوچتے ہوے گزاری تھی کہ وہ جسے اپنا سمجھ کر اب تک انتظار کر رہی تھی، وہ تو اس سے کچھ اور ہی چاہتا تھا۔

    دوسرے دن کی صبح ہی اس کی بیٹی کو یہ یقین آ گیا کہ اس کا شوہر ہی نہیں کچھ اور لوگ بھی گھمنڈ اور غرور کے میناروں پر چڑھے بیٹھے ہیں، جب ا س کی ساس نے خود فون کرکے اس کی ماں سے کہا کہ فوراً کاغذ بھیجو، ہم دستخط کردیں گے۔

    وہ بیٹی کی طرف سے خلع نامے کے نکات بنانے سے پہلے اللہ کے حضور نماز توبہ ادا کرنے چلا گیا، کیوں کہ وہ اپنی بیٹی کے نکاح کا وکیل خود ہی تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ توبہ کیے بغیر نکاح توڑنے کا ایک بھی لفظ لکھے۔

    اسے اور اس کی بیوی کو امید تھی کہ فون پر کہے لفظوں کے مطابق وہ فوراً سرکاری اسٹامپ پیپر پر دستخط کرکے واپس بھیج دیں گے، مگر ایسا نہ ہوا۔

    تین دن کے بعد فون پر اس کی بیٹی سے سوال کیا گیا کہ بچی کا کیا ہوگا، تو اس کی بیٹی نے اپنے شوہر کو جواب دیا کہ وہ تو آپ سات ماہ پہلے ہی مجھ سے چھین چکے ہیں۔ مگر اس نے غیراطمینان بخش لہجے میں کہا کہ یہ بھی لکھ کر دو اور پھر دو دن بعد وہ کاغذ واپس لوٹا دیا گیا۔

    مگر یہاں تک آتے آتے یہ افسانہ عجیب موڑ لیتا ہے۔

    وہ اور اس کی بیوی کسی انجانی طاقت کے زیر اثر اپنی بیٹی سے سات ماہ پہلے سے چھینی ہوئی بچی سے دست بردار ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی لکھوا دیتے ہیں کہ جو کچھ سسرال میں چھوڑ کر آئی ہوں، مثلا زیور، کپڑے، فرنیچر اور دیگر اشیاء بشمول مہر سے بھی دست بردار ہوتی ہوں۔

    اس بار اندھے بہرے اور گونگے لوگوں کے پاس دستخط کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔

    اب وہی لفافہ ڈائننگ ٹیبل پر رکھ کر بغیر کچھ دیکھے اور پڑھے وہ نہانے چلا گیا تھا، جہاں پانی کی بوندوں میں یادوں کی ٹھنڈک نے اس کے جسم کے مساموں میں اتر کر گذشتہ دو برس کے درد کو باہر نکال کر اسے دکھوں سے نجات دلا دی تھی۔

    وہ معمول کے مطابق تیار ہو کر دفتر جانے کے لیے نیچے اترا تو لمحہ بھر کو رکا اور پھر آگے بڑھ کر اس نے لفافہ چاک کیا۔ وہ جانتا تھا کہ لفافے میں اس کی بیٹی کا خلع نامہ ہے، مگر نہ جانے کون سی انجانی طاقت تھی جس نے اس کے پورے وجود کو تھام رکھا تھا۔ نہ اس کے ہاتھ کپکپائے اور نہ بدن نے تھرتھری لی۔ نہ غصے کا اظہار کیا اور نہ ہی کسی کو بددعا دی۔ بس سچائی کا باوقار انداز میں سامنا کرنے والی گھمبیر سنجیدگی نے اسے گھیر رکھا تھا۔ مگر جوں ہی اس نے لفافے میں سے کاغذ نکالا وہ حیران رہ گیا۔ یہ وہ اسٹامپ پیپر نہیں تھا جو اس کی بیٹی نے اپنے ہاتھوں سے اردو میں تحریر کیا تھا، بلکہ یہ انگریزی میں ٹائپ شدہ دو اسٹامپ پیپر تھے۔

    وہ کچھ سوچتے ہوے وہیں کرسی پر بیٹھ کر انہیں پڑھنے لگا۔ وہ جوں جوں پڑھ رہا تھا تحریر میں پوشیدہ لہجے کا تمسخرانہ پن ایک ایک حرف سے اچھل اچھل کر باہر آنے لگا۔ پڑھتے پڑھتے اس کی نظریں ان سطروں پر ٹک گئیں جہاں لکھا تھا کہ مطلوب علیہ نے اپنی بچی ہمارے سپرد کر دی ہے۔ اب اس پر ماں کا کوئی حق نہیں اور جہاں تک اس کے زیورات، فرنیچر اور کپڑوں کا تعلق ہے، تو وہ باندھ کر فوری وصول کروانے کے لیے رکھ دیئے گئے ہیں۔

    وہ حیران تھا کہ بیٹی کے سسرال والے دست برداری کے حوالے سے صرف آدھا جملہ کیوں پڑھ رہے ہیں۔ وہ اسی الجھن میں دفتر چلا گیا۔

    تب اس نے کبھی نہ ملنے والے دریا کے دو کناروں کی طرح اپنی بیٹی کے سابقہ سسر، جنہوں نے دو سال پہلے مسئلے کو حل کرنے کے لیے دو ماہ کا وقت مانگا تھا اور اب گذشتہ سات ماہ سے صم ’‘بکم’‘، ’’عم’‘ بنے ہوے تھے، کو قرآن کی آیتوں کے حوالے سے آخری رقعہ لکھا اور سپرد ڈاک کر دیا۔

    وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ رقعہ ان تک پہنچا، یا ہمیشہ کی طرح گھر کے اہم معاملات کو چھپانے کی سابقہ روایت قائم کرتے ہوئے کہ انہیں کچھ نہ بتاؤ، ان کا بی پی ہائی ہو جائےگا، وہ رقعہ چھپا دیا گیا ہو۔ مگر وہ یہ جانتا ہے کہ انجانی طاقت کے زیر اثر لکھے ہوے جملے نے اس کی بیٹی کی سابقہ ساس اور خالہ کو انتہائی مضطرب کر رکھا ہے ۔وہ ہر ایک سے یہ کہتی پھر رہی ہے کہ ہم نے تو ہمیشہ لوگو ں کو اپنے ہاتھوں سے دیا ہے، کسی سے کچھ لیا نہیں ہے۔ مگر وہ یہ نہیں جانتی کہ کتاب حکمت کے بموجب عورت کسی سے رہائی حاصل کرنے کے لیے چاہے تو کچھ دے ڈالے، والے عمل کے بعد سات ماہ پہلے ایک جوڑے میں نکالی گئی لڑکی نے جب دولت مند مگر اندھے بہرے اور گونگے لوگوں سے نجات حاصل کی، تو اس کے ہاتھوں کی دونوں ہتھیلیاں آسمان کی طرف نہیں بلکہ زمین کی طرف تھی۔

    (۲۰۰۹ء)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے