بہروپیا
”کا سماچار ہے ماسٹرجی! کہاں بم پھٹا کہاں آگ لگی۔ کتنے مرے کتنے گھائل ہوئے؟“ اپنے ڈیوڑھی پر بیٹھا بھولے روز ماسٹرجی سے یہی سوال کرتا۔
”ای سسری مہنگائی او بےروجگاری کمر توڑ دیئے ہے۔“
بھولے روز روز کی ہڑتال اور بےروزگاری سے بیزار تھا۔جب اسے کام ملنے کیامید بند ھتی تب ہی بند کا اعلان ہوتا۔
”آتنکوادی مندر میں گھس آئے۔۔۔ بھارت بند۔“
”کسی بڑے لیڈر کا اپہرن ہو گیا۔۔۔ بھارت بند۔“
”سٹرکوں کا ٹیکس بڑھ گیا۔۔۔ چکا جام۔“
بھولے کی طرح ہزار وں مزدور اس صورتحال سے پریشان تھے۔
”آپ لوگن پڑھے لکھے ہو ماسٹرجی! کچھ تو کرو۔ ای بھرشٹا چار کو روکو۔ کوئی آواج اٹھاؤ۔“ بھولے بیچارہ معصوم دیہاتی کیا جانے کہ طاقتور آواز کے نیچے دب کر کمزور آواز دم توڑ دیتی ہے۔
ایک روز اسکول سے واپس آتے ہوئے بھولے نے ماسٹر جی کا راستہ روک کر سینے پر ہاتھ رکھ کر بلبلا تے ہوئے کہا۔
”ماسٹر جی آج تو گجب ہوگیا۔ اس کی بسورتی صورت دیکھ کر ماسٹر جی نے پوچھا۔
“کیا ہوا بھائی؟“
”اوآج ہم کام پر جاتے رہے تو گنڈے لوگن نے ہم کو مارا پیٹا اَو ہمری سائکل چھین لیا۔“
”تو اپنے بچاؤ میں تم نے کچھ نہیں کیا؟“
”تھانہ میں رپٹ لکھوائے آئے ہیں۔“
”رپورٹ لکھوانے سے کچھ نہیں ہوتاہے بھائی۔ تھانہ پولس کچھ نہیں کرےگی۔ دس بار تمھیں دوڑا ئےگی۔ اوپر سے پیسہ بھی جھینٹےگی۔“
”پھر ہم کا کریں؟“
”خود میںہمت پیدا کرو۔ لڑو اور اپنی چیز کی حفاظت کرو۔“
”کا حپھا جت کریں ماسٹر جی۔ لوگ تو گھر ہوں سے بے کسور کو پکڑ کر لے جاوت ہیں۔“
”دیکھو اس بار اپنے گانو کا مکھیا الکشن میں کھڑا ہو رہا ہے۔ شاید کچھ سدھار کرے۔ گانووالوں کا کچھ بھلا ہوجائے۔“ ماسٹر جی اتنا کہہ کرآگے بڑھ گئے۔
الیکشن قریب آرہا تھا۔ بھاشن کا زور بڑھ گیا تھا۔ ایک بڑی سبھا کا آیوجن کیا گیا تھا۔ کئی گانو کے لوگ جمع ہوئے تھے۔مکھیا نے بھاشن کا آغاز کرتے ہوئے کہا۔
”بھائیو اور بہنو! ہمارا گانو ایک پچھڑا ہوا گانو ہے۔ ہمیں ا س میں سدھار لانا ہے۔ سب سے پہلے ہمیں سڑک کی طرف دھیان دینا ہے۔ اس کی مرمت کرانی ہے تاکہ باہر سے ہمارا سمپرک بنارہے۔ جگہ جگہ ہینڈپمپ لگانا ضروری ہے تا کہ گانوواسیوں کو جو پینے کے پانی کی سمسیا ہے وہ دور ہو جائے۔ گانو میں ایک اچھے اسکول اور ہاسپٹیل کا ہونا ضروری ہے کہ ہمارے بچے مور کھ نہ رہ جائیں ا ور بیمار پڑنے پر گانوواسیوں کو علاج کی پوری سویدھا مل سکے اور اس کے لیے مجھے آپ کا سہیوگ چاہئے۔ اس گانو پر جتنا ہمارا حق ہے اتنا ہی آپ کا بھی ہے۔ ہمیں بھید بھاؤ ذات پات سے اوپراٹھ ،کر ایک جُٹ ہو کر کام میں لگ جانا ہے تبھی ہم اپنے دیش کوانّتی کی اور لے جانے میں سپھل ہو سکتے ہیں۔“
مکھیا کی تقریر نے گانوواسیوں کے دل میں ایک نیا جوش پید ا کر دیا۔تالیوں کی گڑگڑاہٹ نے اس کی باتوں سے متفق ہونے کا اعلان کیا۔ دیر تک یہ بھاشن چلتارہا۔ تالیاں بجتی رہیں۔ دوسرے دن سویرے سویرے یہ افواہ پورے گانو میں پھیل گئی کہ مندر سے بھگوان جی کا اپہرن ہو گیا۔ پورے گانو میں کھلبلی مچ گئی۔
”بڑی آشچرج جنک بات تھی۔ بھگوان جو ہر کسی کی رکھچا کرتے ہیں انھیں غائب کرنے کی کس نے ہمت کی۔ ہو نہ ہو یہ کسی ناستک کا کام ہے۔ یا ہو سکتا ہے وہ خود ہی لپت ہو گئے ہوں۔“ کچھ بھی ہو ماحول گرم ہو چکا تھا۔
لوگ سڑک پر چلتے ہوئے ادھر ادھر ہورہے تھے کیونکہ سامنے سے ایک بڑا جلوس آرہا تھا۔ لوگ ہزاروں کی تعداد میں تھے جو بہت ہی جوش خروش سے نعرے لگا رہے تھے۔
“دیش کی رکھشا کرو۔ دھاندلی چھوڑ دو۔ گنڈاگردی بند کرو بند کرو بند کرو۔“
اچانک نہ جانے کیسے دوگروپ میں جھگڑ ا شروع ہو گیا۔
ہر طرف وحشت اور خو ف کے بادل منڈلا رہے تھے۔ لوگوں کے چہرے پر مایوسیوں کی برف جمی ہوئی تھی۔ سب اپنے اپنے گھروں میں محبوس ہوکر رہ گئے تھے۔ لیکن وہ جواقتدار حاصل کرنے کے نشہ میں چور تھے، انسانی ذہنوں میں تعصب کا بیچ بو کر اندر ہی اندر اپنی کامیابی کا جشن منارہے تھے۔
لڑائی ہاتھا پائی سے شروع ہوکر گولا بارود پر ختم ہوئی۔ پولس آئی مگر اس سے قبل بہت سارا خون بہہ چکا تھا۔ کیونکہ انسانی خون کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ یہ دوسری ساری چیزوں سے زیادہ ارزاں ہو چکا ہے۔ پھر گلی کوچوں میں جلی کٹی لاشیں سسکتی رہیں، تڑپتی رہیں۔ کئی دنوں تک یہ کھیل جاری رہا۔ سبھی حواس باختہ اور خوف زدہ تھے۔ مندر کے سامنے بھیڑ لگی تھی۔ بھگوان جی ہلدی سے لپے پتے اپنے آسن پر براج مان تھے۔ پنڈت پروہت کا کہنا تھا کہ بھگوان جی بیاہ رچانے گئے تھے۔ اورجیسے آگ سرد ہو گئی۔ بربریت کا زور تھم گیا۔ حالا ت قابو میں آ گئے۔ لیکن اب بھی لوگوں کی آنکھوں میں خوف چہرے پر وحشت اور بےسکونی چھائی تھی۔ ایسے میں مکھیا مسیحا بن کر سامنے آیا۔ اس نے لوگوں کے زخمی دلوں پر پھاہا رکھا۔ ہمدردی جتائی۔ پیسوں سے مدد کی۔ سب کے مرجھائے ہوئے چہروں پر سکون در آیا۔ مرنے والوں کا سوگ کب تک منایا جاتا کہ جانے والے تو لوٹ کر واپس نہیں آ سکتے۔ الکشن ہوا۔ مکھیا نے پیسہ پانی کی طرح بہا دیا۔ آخر اس کی فراغ دلی کا م آہی گئی۔ کامیابی نے اس کے قدم چومے۔ مکھیا اب ودھائک بن چکا تھا۔ گانوواسیوں کو اس کے درشن درلبھ ہوگئے تھے۔
گانو اور گانووالوں کے حالات بدستور ویسے ہی تھے۔ سٹرک اپنی خستہ حالی پر رورہی تھی۔ بچے گلی کوچوں میں کھیلتے اور لڑتے جھگڑتے نظر آ رہے تھے۔ غریب بغیر دوا دارو کے مررہے تھے۔ بھولے کا بچہ سخت بیمار تھا۔ وہ مدد کے لیے ودھائک جی کی حویلی پہنچا۔ اتفاق سے وہ حویلی کی بیٹھک ہی پر موجود تھا۔ بھولے اس کے قدموں پر گر گیا۔
”مائی باپ! ہمرا بچہ بہت بیمار ہےاو کے بچنے کا کوئی امید نا ہے۔ ہمری مدد کرو۔“
”بھولے! تو تو جانتا ہے کہ یہاں سب ہی ضرور ت مند ہیں۔کس کس کی مدد کی جائے۔تو ایسا کر کہ اپنا کوئی سامان بیچ دے۔“
”ہمرے پاس کا سامان ہے مالک۔“
“تیرے کتنے بچے ہیں؟“
”بھگوان کی کرپا سے مالک تین بیٹا اور پانچ بیٹی ہے۔“
”تو پھر کاہے چنتا کرتاہے۔ اگر ایک بچہ مر بھی گیا تو تجھے کیا فرق پڑتا ہے۔“
بھولے ہکا بکا منہ دیکھتا رہ گیا۔
”تو ای بھاسن ای جلوس یہ سب کا تھا۔“
معاً اس کی نظروں میں مکھیا کا چہر ایک بہروپیے کے چہرے میں بدل گیا۔ جس کی نہ کو ئی ذات ہے نہ دھرم۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.