بالا دست
مدت بعد وہ وطن واپس آیا تھا جہاں سے اس کی بہت ساری تلخ و شیریں یادیں وابستہ تھیں۔ جاتے وقت اس نے عہد کیا تھا کہ اَب یہاں لوٹ کر کبھی نہ آئےگا۔ لیکن نہ جانے وطن کی مٹی کی کشش تھی یا اپنوں کی محبت کہ بیس سال بعد وہ پھر یہاں کھڑا تھا۔
جب وہ اپنے قصبہ کی حدود میں داخل ہواتو اسے ایسا لگا کہ سب کچھ ویساہی ہے۔کچھ بھی تو نہیں بدلا ہے۔ وہی کچی پکی سٹرکیں، وہی لہلاتے کھیت، وہی پگڈنڈیاں اور آس پاس چرتی ہوئی گائے بکریاں۔ راستے میںپڑنے والے چھوٹے چھوٹے گانو، جن میں چھوٹے چھوٹے کچے مکان، جن کی دیوار پر اوپلے تھوپے ہوئے۔ گوبر مٹی سے لیپا ہوا صحن جہاں مرغیاں چگ رہی تھیں۔ چھوٹی بڑی بیٹرھیاں، بڑے بڑے پیپل اور برگد کے پیڑ جن کی چھاؤں میںمزدور کندھوں پر انگوچھا رکھے سستارہے تھے۔ وہ بڑے والہانہ پن سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اسے ان نظاروں سے بڑیانسیت تھی۔ اس کا بچپن لڑکپن اورجوانی کا ابتدائی حصہ اسی ماحول میں گزرا تھا۔ لیکن جب اس نے حویلی کے احاطہ میں قدم رکھا تو ایک لمحہ کے لیے ٹھٹھک گیا۔ کہیں وہ غلط جگہ پر تو نہیں آ گیا۔ کیایہ وہی حویلی ہے جو دیکھنے والوں کو دور ہی سے اپنی عظمت اور برتری کا احساس دلاتی تھی۔ جس کی چہاردیواریاں اور ڈیوڑھیاں کس قدر شاندار تھیں اور اب تو یہ تقریباً کھنڈر بن چکی تھیں۔ ستون مٹیالے ہو چکے تھے اور محراب کی جالیاں کہیں کہیں سے ٹوٹ کر اپنا حسن کھو چکی تھیں۔ وہ چند منٹ کھڑا انتظار کرتا رہا کہ کسی طرف سے کوئی ملازم آئےگا اور اس کا سامان اٹھاکر لے جائےگا۔ لیکن کہیں کوئی ملازم نظر نہ آ رہا تھا۔ البتہ ہر عمر اور ہر قدوقامت کے چھوٹے بڑے بچے کھیل رہے تھے جو اپنے آپ سے بھی لاتعلق تھے۔ چاک گریباں اور ٹوٹی چپل میںہی مست تھے۔
سامنے بر آمدہ اور دالان میں چند ٹوٹی پھوٹی کرسیاں پڑی تھیں۔ وہ انھی میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔ اس کے ہونٹوں پر خودبخود یہ شعر آ گیا:
ہم ا پنے گھر میں آئے ہیں مگر اندا ز تو دیکھو
ہم اپنے آپ کو مانند مہماں لے کے آئے ہیں
پھر ماضی کے چند مناظر ذہن کے پردے پر ابھر آئے۔ وہی حویلی ہے، وہی دالان ہے۔ تخت پر فرش لگاہے۔ چند مصاحب بیٹھے ہیں۔ ملازم حکم کی تعمیل کے لیے کھڑے ہیں۔ ابا حقہ کی نے منہ میں دبائے خوش گپیوں میں مشغول ہیں۔
منظر بدل گیا۔
حویلی کے احاطہ میںایک ہجوم ہے۔ کوئی مجرم پکڑکر لایا گیا ہے۔ اس کی سزا ابا کو تجویز کرنی ہے۔ بڑے غور و فکر کے بعد جو سزا سنائی گئی وہ بڑی ہی عجیب و غریب ہے۔ یہ نظارہ بڑا دلخراش اور عبرتناک ہے۔ اسے عجیب سی بے چینی ہونے لگی۔ یہ سزا صر ف غریبوں، بے بسوں اور لاچاروں کے لیے ہی کیوں؟ جب سنگسار کرنے کی وحی نازل ہوئی تھی تو ایسی کوئی تخصیص عاید تو نہیں ہوئی تھی۔
منظر پھر بدل گیا۔
ابا شکار کر کے لوٹے ہیں۔ آج انھوں نے ہرن کا شکار کیا ہے۔ وہ اپنی کامیابی پر بے حد خوش ہیں۔ داددینے والوں کا جمگھٹا ہے۔ اندر باہر ہل چل مچی ہوئی ہے۔ ہرن کی کھال دیوان خانہ کی دیوار پر بطور یادگار سجادی گئی ہے تاکہ آنے والی نسلیں ان کے کارنامے پر فخر کر سکیں۔
ابھی وہ اس طلسم میں کھویا ہوا ہی تھا کہ کوئی شخص اس کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔ اس نے نظر یں اٹھا کر دیکھا اور بھیا کہہ کر لپٹ گیا۔ یہ چھوٹے بھیا تھے۔ وہ اسے حویلی کے اندر لے گئے۔ بڑے بھیّا بستر علالت پر پڑے تھے۔ سوکھ کر کانٹا ہو گئے تھے اور چلنے پھر نے سے معذور تھے۔ اس نے حسرت سے چاروں طرف دیکھا۔ حویلی کا ہر حصہ زبان حال سے اپنی کسمپرسی کی داستان بیان کر رہا تھا۔ نہ جانے کس جذبے کے زیر اثر اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ یہ آنکھیں بھی عجیب ہیں۔ پل بھر میں سب کچھ عیاں کر دیتی ہیں۔ رات گزارنے کے لیے جو کمرہ اسے ملا تھا وہ امّاں کا کمرہ تھا۔ بالکل ویسا ہی۔ وہی پلنگ، وہی دروازے، وہی کھڑکیاں۔ البتہ یہ سب اپنے مکینوں کی طرح رنگ و روغن کھو چکے تھے۔ جگہ جگہ مکڑی کے جالے لٹک رہے تھے۔ چمگاڈروں نے روشن دان کو اپنا مسکن بنالیا تھا۔ اسی کمرے میں اس نے بارہا اماں کی کراہیں اور سسکیاں سنی تھیں۔ اسے اچھی طرح یا دتھا کہ ایک دن اس نے پوچھ ہی لیا تھا۔
”کیوں رورہی ہیں اماں، سر دکھ رہا ہے؟“ انھوں نے نفی میں سرہلا یا۔
”تو پھر ڈرلگ رہا ہے؟“ اس کے معصوم ذہن میں یہی بات آئی۔ اماں نے کوئی جواب نہ دیا۔ اسے قریب کر تے ہوئے سینے سے لگا لیا۔ اماں کے جسم کی حرارت اور ہاتھوں کا لمس اب بھی تازہ تھا۔ اس نے بے چینی سے کروٹ بدلی اور سر جھٹک کر ماضی میں گم ہو گیا۔
ابا تو شاذ و نادر ہی اندر آتے تھے ۔ ان کے لیے باہر کی دنیا زیادہ پرکشش تھی۔ ساری ساری رات محفلیں جمی رہتیں۔ دوست احباب سایہ کی طرح ساتھ لگے رہتے۔ اور اماں بیچاری عورت ذات تو ازل سے خود کو مظلوم او رمجبور سمجھتی آئی ہے۔ اپنے حق کے لیے اس نے احتجاج کر نا سیکھا ہی نہیں ہے۔ اپنے ارمان، اپنی خوشیوں کا گلا گھونٹ کر سسکیوں اور سمجھوتوں میں بسر کر لیتی ہے۔ اماں بھی انھی میں سے ایک تھیں ۔ نہ جانے کس مٹی کی بنی تھیں۔ حرف شکایت زبان پر کبھی نہ لاتیں۔
جب وہ تھوڑا بڑا ہوا تو قصبہ کے اسکول میں اس کا داخلہ کروا دیا گیا۔ دونوں بڑے بھائیوں کو پڑھنے لکھنے میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ سارا دن آوارہ گردی میں گزارتے۔ آئے دن ناز یبا حرکتیں کر تے رہتے۔ اماں ان کی بدتمیزیاں اور ناروا سلوک درگزر کر دیا کرتیں کہ آخر یہ بھی تو انھی کے بچے ہیں۔ کیا ہوا اگر وہ ان کے سگے نہیں ہیں۔ ایک دن ابا شکار پر گئے تو زندہ واپس نہ آئے ان کی لاش ہی آئی۔ ان کے گزرنے کے بعد دونوں بھائی او ربھی خود سر ہو گئے۔ من مانی کرنے لگے۔ اس کا کوئی کام انھیں گوارا نہ تھا۔ ہر کا م میں رخنہ ڈالتے، لیکن اماں ڈھال بن کر ہر وار سے بچا لیتیں۔ان کی مخالفت کے باوجود اس نے کالج میں داخلہ لے لیا۔ وہ ابھی زیر تعلیم ہی تھا کہ اماں نے ساتھ چھوڑ دیا۔ ان کی بے وقت کی جدائی نے اسے اندر سے توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ بڑی مشکل سے اس نے اپنے بکھرے ہوئے وجود کو سمیٹا اور اماں کا خواب پورا کرنے میں لگ گیا۔
جب سرپر سایہ دار درخت نہ ہو، دھوپ کڑی اور گرم ہوا کے تھپیڑے ہوں تو انسان کیا کرے، کہاں جائے۔ اس نے ابھی کوئی فیصلہ نہ کیا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے اور کہاں جانا ہے۔ کہاں رہنا ہے کہ اچانک ایک دن منشی جی اس کے پاس آئے اور کہنے لگے۔
”حضورآپ کے ساتھ تو بڑی حق تلفی کی گئی ہے۔ آپ کے بھائیوں نے ساری عمدہ زمینیں اپنے نام کر لی ہیں۔ بنجر اور بیکار آپ کے لیے چھوڑدی ہے۔ حویلی پربھی دونوں نے اپنا نام چڑھا لیا ہے“۔
”تو میں کیا کر سکتاہوں‘‘۔ وہ بیزاری سے بولا۔ اب یہ اس کی فطرت کا قصور تھا یا تعلیم کا کہ اسے لڑنا جھگڑنا بالکل پسند نہ تھا۔ اس نے بھائیوں سے کوئی سوال وجواب نہ کیا۔ بہت ہی خاموشی سے گھر چھوڑ دیا۔
اس واقعہ کو بیس سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ ان بیس سالوں میں اس نے بےشمار دولت حاصل کی مگر گھر والوں کو اس کی خبر نہ تھی۔ وہ تو اسے مرا ہوا سمجھ کر آرام سے بیٹھے تھے اور اب اس کے اچانک آجانے سے حویلی میں کھلبلی مچی ہوئی تھی۔ جتنی زبانیں تھیں اتنی ہی بولیاں۔ البتہ وہ اتنا ضرور سمجھ گئے تھے کہ اب وہ خاصہ مالدار ہو چکا ہے اور شاید اپنا حصہ وصولنے آیا ہے تاکہ اس کے مال و دولت میں اور اضافہ ہو جائے۔وہ آپس میں باتیں کرتے۔
”اتنے دنوں بعد یہ ضرور اپنا حق وصول کرنے آیا ہے۔”
”بچاہی کیا ہے، ساری زمینیں تو گروی پڑی ہیں۔ اگر یہ اپنا حصہ لے لےگا تو ہم کھائیں گے کیا؟“
”میری مانوتو بہلا پھسلا کر جلد اسے چلتا کر دو۔“
سب اپنی اپنی رائے پیش کر رہے تھے اور وہ ان باتوں سے بے خبر ماضی کی بھول بھلیّوں میں گم تھا۔
دوسری صبح سب اکھٹے بیٹھے تھے۔ چھوٹے بھیّا نے بات شروع کی۔
”آج تمھیں یہاں دیکھ کر بتا نہیں سکتا کہ ہمیں کتنی خوشی ہورہی ہے۔ میری رائے ہے کہ تم یہیں رہ جاؤ۔ حالاں کہ اب یہاں رہنا تمھارے لیے بہت مشکل ہوگا کیوں کہ جس عیش و آرام کے تم عادی ہو چکے ہو وہ یہاں مہیا نہیں ہو سکتا۔ پھر بھی جہاں تک ہو سکےگا ہم تمھارے آرام کا خیال رکھیں گے اور تمھارا حق بھی تمھیں مل جائےگا۔“
وہ دھیرے سے مسکرایا اور جیب سے ایک بڑی رقم کا چیک نکال کر بڑھاتے ہوئے بولا۔
”آج میں کچھ لینے نہیں دینے آیا ہوں۔”
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.