بلائے ناگہاں
کہانی کی کہانی
ایک ایسے فرد کی کہانی، جو اپنی جوانی کے دنوں میں لکڑی کے کاروبار سے منسلک ہو گیا تھا اور کافی امیر ہو گیا تھا۔ ایک دن لکڑی کی تلاش میں وہ جنگل میں گیا اور راستہ بھٹک گیا۔ وہاں وہ ایک قبیلے میں جا ملا اور اس قبیلے میں رہتے ہوئے اس نے ایک ایسا خواب دیکھا کہ جس کی تعبیر نے اسے موت کے منہ میں پہنچا دیا۔
حیدر میرا بچپن کا دوست تھا۔ ہم دونوں ایک ہی محلہ میں رہتے تھے اور دونوں نے ایک ہی سکول میں تعلیم پائی تھی۔ سکول چھوڑنے کے بعد اس نے کٹھ کی تجارت اختیار کی اور اس تجارت کی وجہ سے اس کی بیشتر زندگی کافرستان میں گزری، اب وہ ایک دولت مند شخص کی حیثیت سے آرام و آسائش کی زندگی بسر کر رہا تھا۔۔۔ مگر باوجود اس آسودہ حالی کے اس کی زندگی غیر مطمئن معلوم ہوتی تھی۔ وہ ہر وقت کھویا کھویا سا رہتا۔ اسے کسی کام میں دلچسپی نہ تھی۔ وہ سوسائٹی سے متنفر تھا سوائے میرے کسی سے زیادہ میل جول نہیں رکھتا تھا۔ میں نے کئی دفعہ ارادہ کیا کہ اس کی افسردگی کا راز معلوم کروں مگر موقعہ نہ ملا۔ ایک دفعہ فصل کے موقعہ پر میرا اپنے حصہ داروں سے کچھ جھگڑا ہو گیا اور مجھے اپنے گاؤں جانا پڑا۔۔۔ وہاں جا کر میں زمینداری کی بندھنوں میں ایسا گرفتار ہوا کہ دو سال تک چھٹکارا نہ ہوا۔ اس عرصہ میں حیدر سے میری خط و کتابت جاری تھی۔ اس کے خطوں سے اکثر وحشت اور مایوسی کا جذبہ ٹپکتا تھا۔ دوسال بعد جب میں واپس آیاتو میں نے سنا کہ حیدر بالکل گوشہ نشین ہو گیا ہے۔
دو تین دن تو گھر کے معمولی کام کاج میں صرف ہو گئے۔ تیسرے دن شام کے قریب میں اس کے گھر گیا۔ میرا لڑکا میرے ہمراہ تھا۔ حیدر کی حالت دیکھ کر مجھے دلی صدمہ ہوا۔ وہ بالکل ہڈیوں کا ڈھانچہ بن رہا تھا۔ اس کا رنگ مٹیالا اور جلد بدنما طور پرخشک ہو رہی تھی۔ اس کی اندر کو دھنسی ہوئی آنکھوں سے خوف ہراس کی علامات ظاہر تھیں۔۔۔ مجھے دیکھ کر ایک مردہ سی مسکراہٹ اس کے پژمردہ ہونٹوں پر کھیل گئی۔ میں اسے دیر تک حیرت سے تکتا رہا۔ میری حالت سے آگاہ ہوکر وہ مری ہوئی آواز سے کہنے لگا ’’کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘ میں خاموش رہا۔ وہ دوبارہ بولا ’’آؤ! تم نہیں جانتے میری زندگی کس عذاب میں ہے میں نے آج تک اپنا راز تم سے پوشیدہ رکھا۔ مگر اب زیادہ دیر تک یہ میرے دل میں پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ میں اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
سلیم کمرے سے ملحقہ لائبریری میں رنگین پنسلوں سے تصویریں بنانے میں مصروف تھا۔ کمرے میں مکمل خاموشی تھی۔ حیدر کہنے لگا سکول چھوڑنے کے بعد میری دوستی ایک ایسے شخص سے ہوئی جو کافرستان میں کٹھ کی تجارت کرتا تھا۔ یہ شخص انتہائی نیک نفس اور دوست نواز تھا۔ وہ دنیا میں بالکل اکیلا تھا اور تجارت کا کام انجام دینے میں اسے بہت دقت ہوتی تھی۔ اس لیے اسے ایسے آدمی کی تلاش تھی جو اس کے ماتحت کافرستان کے علاقہ میں دورہ کرکے کٹھ فراہم کرنے میں اس کی مدد کرے۔۔۔ ان دنوں میری عمر صرف اٹھارہ برس کی تھی۔ میں بالکل ناتجربہ کار تھا تاہم اس نے مجھے دیانت دار اور محنتی پا کر تجارت میں حصہ دار بنا لیا اورمیں نے اپنا کام اس قدر شوق اور محنت سے کیا کہ سال کے اندر اندر ہماری تجارت چمک اٹھی۔۔۔ انہی ایام میں ایک دفعہ میں اپنے کوہستانی ملازم کے ہمراہ دورہ کرتا ہوا رستہ بھول کر ایک غیر آباد علاقہ میں پہنچا۔ گو یہ علاقہ نہایت سرسبز تھا، میوے سے لدے ہوئے درخت ہماری خوراک کے لیے بکثرت موجود تھے اور پیاس بجھانے کو چپہ چپہ پر حیات بخش چشمے جاری تھے لیکن رات کو سر چھپانے کے لیے جگہ ملنی دشوار تھی۔۔۔ تمام دن ہم جنگلوں میں بھٹکتے رہے۔ حتیٰ کہ شام قریب ہو گئی۔ شکست خوردہ آفتاب دن بھرکی خجالت سے زرد ہو کر لیلائے شب کی سیاہ زلفوں میں منہ چھپانے لگا۔ جنگلی پرندے شوروغل مچاتے ہوئے اپنے گھونسلوں کے اردگردطواف کرنے لگے اور گھنے درختوں کی وجہ سے جنگل بےحد تاریک ہونے لگا۔۔۔ ہم اندھا دھند آگے بڑھتے گئے یکایک جنگل ختم ہو گیا۔
ہم تاریک فضا سے باہر نکلے تو افق کے دلکش مناظر سے ہماری آنکھیں روشن ہو گئیں۔ ہم ایک شاداب و زرخیز میدان کے کنارے کھڑے تھے۔ کہیں دور سے روشنی دکھائی دے رہی تھی ہم اس طرف بڑھے اور تھوڑی دیر میں ایک جھونپڑی کے دروازے پر جا کھڑے ہوئے۔۔۔ جھونپڑی میں ہلکی ہلکی روشنی ہو رہی تھی۔ دودکش سے دھوئیں کے یلغارے نکل رہے تھے اور بھنے ہوئے گوشت کی خوشگوار مہک اٹھ رہی تھی۔ میں نے ہچکچاتے ہوئے دستک دی۔ ایک خشک رو منحوس صورت شخص نے دروازہ کھولا۔ میں نے رات بسرکرنے کی درخواست کی۔ اس نے ہم دونوں کو سر سے پاؤں تک گھور کر دیکھا پھر ایک خوفناک قہقہہ لگاتے ہوئے اندر آنے کا اشارہ کیا۔۔۔ اس خوفناک قہقہے سے میرادل دہل گیا۔ طرح طرح کے وسوسے اٹھنے لگے۔ مگر تھکان سے مجبور ہوکر چپ چاپ اس کے پیچھے ہو لیا۔ جھونپڑی کی اندرونی حالت بہت ردی تھی۔ دیواریں دھوئیں سے سیاہ ہو رہی تھیں۔ ہر چیز پر سیاہی مائل گرد کی تہ جمی ہوئی تھی۔ اس نے ہمیں ایک شکستہ تخت پر بٹھایا اور خود ہمارے کھانے کے بندوبست میں مصروف ہو گیا۔ تھوڑی دیر میں اس نے بھنا ہوا گوشت اور مکی کی روٹیاں لاکر ہمارے سامنے رکھ دیں۔ کھانے سے فارغ ہو کر میرے ملازم نے میرا بسترہ ایک طرف لگا دیا مگرمیرا دل سونے کو نہ چاہتا تھا۔ مجھے اس منحوس صورت آدمی کی آنکھوں میں شقاوت مسکراتی دکھائی دیتی تھی۔ اس بدگمانی کے زیر اثر میرے دل میں ایک نامعلوم خطرہ پیدا ہو چکا تھا۔ میں اسی سوچ میں تھا کہ وہ قہوہ لے آیا۔
نیند کودور کرنے کے لیے میں نے خوب قہوہ پیا۔۔۔ تھوڑی دیر کے بعد مجھے نیند کے جھونکے آنے لگے۔ میں نے چاہا کہ ملازم کو خبردار رہنے کی تاکید کرکے خود سو جاؤں مگر دیکھا تو وہ پہلے ہی گہری نیند کے مزے لے رہا تھا۔ میں نے اسے آوازیں دیں۔ جھنجھوڑا مگر بےسود۔ مجھ پر نیند کا غلبہ زیادہ ہو رہا تھا۔ رفتہ رفتہ اردگرد کی چیزیں دھندلی نظر آنے لگیں۔ پھر مجھے کچھ ہوش نہ رہا۔۔۔ رات کو مجھے نہایت خوفناک خواب دکھائی دیئے۔ میں نے دیکھا کہ چند دیوزاد آدمی مجھے کندھے پر اٹھائے ہوئے کہیں جا رہے ہیں۔ یکایک میرے سر میں سخت ٹیس اٹھی۔ ایک تشنجی کیفیت سے میرے پٹھے اینٹھنے لگے۔ دوران خون سرکی طرف زیاد ہ ہونے سے دماغ پھٹنے لگا۔ سخت تکلیف سے میری آنکھ کھل گئی۔ اف! خدا کی پناہ! میں نے ایک ایسا بھیانک منظر دیکھا کہ میراخون خشک ہو گیا۔ بدن کے روئیں سوئیوں کی طرح کھڑے ہو گئے اوردل ایک بڑے کلاک کی مانند ٹک ٹک کرنے لگا۔۔۔ آہ! میں ا یک تیرہ و تار ڈراؤنی غار میں ایک لمبی سی چوبی میز پر چت پڑا ہوا تھا۔ میری مشکیں کسی ہوئی تھیں اور سرہانے کی طرف ایک زبردست الاؤ جل رہا تھا۔ دہکتے ہوئے انگاروں کی سرخ تھرکتی ہوئی روشنی میں دیواروں پر مہیب سائے ناچ رہے تھے۔ غار دوزخ کی بھٹی کی طرح لال اور گرم تھی۔ سخت گرمی سے میرا سر چکرا رہا تھا۔ میزکے قریب ایک دیوزاد آدمی کھڑا تھا۔ جس کا بالوں سے بےنیاز سر ایک پشاوری تربوز کی طرح بڑا تھا۔ اس کا سرخ چہرہ جس پرجلادوں کی طرح بڑے بڑے سیاہ لمبے گل مچھے تھے، انگاروں کی لال روشنی میں خون سے رنگا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ وہ ہاتھ میں ایک لمبا شکاری چاقو پکڑے کسی کو کچھ احکام دے رہا تھا۔ انتہائی وحشت سے میری زبان حلق میں دھنس گئی اور سانس رک رک کر آنے لگی۔۔۔ اتنے میں ایک نسوانی آواز سنائی دی۔ جسے سنتے ہی سرخ چہرہ جلاد نے اپنا مضبوط ہاتھ اٹھایا اور چاقو سے میرے سرمیں گھاؤ لگانے لگا۔ میں شدت خوف سے پہلے ہی نیم جان ہو رہا تھا۔ زخموں کی تکلیف سے بےہوش ہو گیا۔
مجھے ہوش آیا تو میں ایک صاف ستھرے کشادہ کمرے میں ایک آرام دہ بستر پر پڑا تھا۔ کمرے میں بالکل سکوت تھا۔ ایک طرف آبنوسی ڈیوٹ پر رکھے ہوئے پیتل کے بڑے چراغ میں بھلپل جل رہا تھا جس کی کیف آور روشنی عطر کے قرابے لنڈھا رہی تھی۔ چاند کی حسین کرنیں کھلی کھڑکی سے داخل ہو کر فرش زمین پر لوٹ رہی تھیں۔ میرے سر اور گردن کے پٹھے اکڑے ہوئے تھے۔ رفتہ رفتہ مجھے سب واقعات یاد آنے لگے اور غار والا منظر آنکھوں کے سامنے پھرنے لگا میں نے گھبرا کر ادھرادھر نگاہ دوڑائی۔ سرہانے کی طرف ایک سایہ سا دیکھ کر میری چیخیں نکل گئیں۔ فوراً کسی نے شفقت بھرا ہاتھ میرے سینے پر رکھ کر ٹوٹی پھوٹی پشتو میں کہا طالع مند نوجوان تمہیں اپنی زندگی اور جوانی مبارک ہو۔ تمہاری اس طویل اور مسلسل غشی نے مجھے تمہاری زندگی سے مایوس کر دیا تھا۔ مگر آج آٹھ دن کے بعد تمہیں ہوش میں دیکھ کر بہت خوش ہوں۔ خدا کا شکر ہے کہ میری محنت ٹھکانے لگی۔ اب کچھ فکر نہیں۔ تم بہت جلد اچھے ہو جاؤگے۔۔۔ دلجوئی کے الفاظ سن کر میں نے مطمئن نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا وہ یک چالیس سالہ وجیہہ اور شکیل آدمی تھا۔ اس نیک دل انسان کی بڑھی ہوئی ہمدردی اور ان تھک خدمت گزاری سے میری صحت بہت جلد عود کرنے لگی اور میں بتدریج صحت یاب ہو گیا۔۔۔ دوران علالت میں مجھے معلوم ہوا کہ میرے محسن کا نام جواں بخت ہے اور وہ ایک قبیلے کا سردارہے۔ میرے استفسار پر جواں بخت نے مجھے ایک عجیب و غریب داستان سنائی۔ اس نے کہا ’’اس علاقہ میں کئی ایک ایسی وادیاں ہیں جو ہنوز دنیا کی نظروں سے پوشیدہ ہیں۔
ہر ایک وادی کا راستہ اتنا خفیہ اور پراسرار ہے کہ کوئی اجنبی ان میں داخل نہیں ہو سکتا اور ہروادی میں جدا جدا قبیلے آباد ہیں۔ چنانچہ یہ وادی بھی جس میں میرا قبیلہ بھی آباد ہے اسی طرح کی ایک پوشیدہ وادی ہے اور یہاں سے ایک دن کی مسافت پر ایک اور ایسی ہی پوشیدہ وادی ہے جس میں ایک رہزنوں کا قبیلہ آباد ہے۔ ان کی سردار ایک عورت ہے۔۔۔ جس نے جوانی کا جوہر ایجاد کیا ہے۔ اٹھارہ سے پچیس سال تک کی عمر کے نوجوانوں کے سرسے وہ اس جوہر کو کیمیاوی طریقے سے حاصل کرتی ہے اور اس جوہر کے اثر سے باوجود سن رسیدہ ہونے کے ابھی تک جوان اور نوخیز نظر آتی ہے۔ اس جوہر کو حاصل کرنے کے لیے اس نے اپنے ملازم مختلف علاقوں میں اس غرض سے چھوڑ رکھے ہیں کہ وہ کسی طرح نوجوانوں کو اس کے لیے فراہم کریں۔۔۔ ان اسیر نوجوانوں کو اس کے ملازم منشیات سے بے ہوش کرکے خفیہ غاروں میں لے جاتے ہیں۔ جہاں وہ عورت انکے سروں سے جوہر کشید کرتی ہے۔‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ کو یہ باتیں کیسے معلوم ہوئیں؟‘‘ اس نے کہا ’’جوانی میں مجھے بھی ایک دفعہ اس کے آدمی پکڑ کر لے گئے تھے۔ لیکن میرے قبیلے کو اس غار کا کسی طرح کھوج مل گیا اور اس نے شب خون مار کر مجھے عین اس وقت چھڑایا جب کہ ایک سرخ چہرہ جلاد میرے سر کو زخمی کر رہا تھا۔۔۔ ‘‘ جواں بخت نے کلاہ اتار کر اپنا سر مجھے دکھایا جس پرجابجا بڑے بڑے سفید داغ تھے۔ پھر کہنے لگا ’’میں نے اب اس علاقہ میں اپنے جاسوس چھوڑ رکھے ہیں۔ جب کوئی نووارد ان کے ہتھے چڑھ جاتا ہے تومجھے اطلاع مل جاتی ہے اور میں چھاپہ مار کر ان نوجوانوں کو بچا لیتا ہوں۔ مگر وہ عورت احتیاطاً غاریں بدلتی رہتی ہے۔ مگر میں ہمیشہ کھوج لگانے میں کامیاب ہو جاتا ہوں چنانچہ جس دن رہزن تمہیں اس ڈائن کے پاس لے جا رہے تھے۔ مجھے جاسوسوں نے مطلع کیا۔ جس پر میں نے کئی ایک غاروں میں تمہیں تلاش کیا اور آخر کار ایک غار پر حملہ کر کے تمہیں نجات دلوائی۔ میں کئی دفعہ اس عورت پر حملہ کر چکا ہوں مگروہ ہر دفعہ میرے ہاتھ سے بچ کر صاف نکل جاتی ہے۔ کاش مجھے اس وادی کا رستہ معلوم ہو جائے اور میں ہمیشہ کے لیے دنیا کو اس ڈائن کے وجود سے پاک کر دوں۔
میں تقریباً چھ ماہ جواں بخت کی وادی میں مقیم رہا۔ کئی دفعہ واپسی کا ارادہ کیا مگر اس کی بے لوث محبت میرے لیے زنجیر پا ہو گئی۔ چھ ماہ بعد میں نے دل کڑاکر کے اس سے اجازت طلب کی۔ وہ کچھ سوچ کر بےدلی سے کہنے لگا تم شوق سے جا سکتے ہو مگر تمہیں یہاں سے آنکھوں پر پٹی باندھ کر جانا ہوگا۔ میں نے گھبراکر کہا ’’کیوں؟‘‘ وہ لجاجت سے بولا ’’عزیز من تمہیں پہلے بتا چکا ہوں کہ یہ ایک پوشیدہ وادی ہے۔ اس لیے سوائے اپنے قبیلے کے کسی اور کو ان خفیہ راستوں کا راز بتانا ہمارے اصول کے خلاف ہے۔ اس اصول میں بےقاعدگی کی وجہ سے نقصان کا خطرہ ہے۔۔۔ کیونکہ اگرایک قبیلے کو دوسرے قبیلے کی وادی کاراستہ معلوم ہو جائے تووہ شب خون مار کروادی میں گھس آتے ہیں اور قبیلے کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔ گو مجھے تم پر کوئی بدگمانی نہیں مگر اپنے قبیلے کے خلاف کچھ نہیں کر سکتا۔ ان کے قائم کردہ اصول کی خلاف ورزی میری طاقت سے باہر ہے۔ میں نے افسردگی سے کہا ’’تو پھر میں یہاں کبھی نہ آ سکوں گا؟‘‘ ’’میرے خیال میں کبھی نہیں۔‘‘ اس نے کہا۔ میں نے کہا ’’لیکن آپ کی ملاقات۔‘‘ وہ میری بات کاٹ کر بولا ’’یہ بھی تقریباً ناممکن ہے۔۔۔‘‘ اس ناگوار گفتگو نے مجھے مایوس کردیا۔ مجھے اس سے دلی الفت تھی۔ اس لیے اس کے فیصلے سے میرے دل پر گہری چوٹ لگی اورمیرے آنسو جاری ہو گئے۔ وہ رویا تو نہیں مگر اس کے چہرے کا اڑتا ہوا رنگ اس کے اضطراب کا شاہد تھا۔ وہ گاؤ تکیے پر کہنیاں ٹیکے کچھ سوچ رہا تھا۔ اس کے شگفتہ چہرے پر سماوی تجلیاں نمایاں تھیں۔۔۔ کامل وقفہ کے بعد اس نے سر اٹھایا اور اپنی نکھری ہوئی منور پیشانی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نہایت ملامت سے کہنے لگا ’’ہاں ایک صورت ہو سکتی ہے اگر تم میرے مذہبی طریقے پر قسم اٹھا کر میری برادری میں شامل ہو جاؤ تو میرے قبیلے کو اطمینان ہو جائےگا۔‘‘ میں نے ان شرائط کو فوراً منظور کر لیا۔۔۔ دوسرے دن جواں بخت نے اپنے قبیلے کی دعوت کی اور سب کے سامنے ایک نیم عریاں کاہن نے جواں بخت کی چھنگلیا سے چند قطرے خون نکال کر ایک طشتری میں ٹپکائے، پھر اپنی خاص زبان میں اس خون پر مجھ سے قسم لی گئی جس کا مفہوم یہ تھا کہ اگر میری وجہ سے جواں بخت کو کسی قسم کی تکلیف پہنچے تو روحیں مجھے بھی وہی سزا دیں۔ اس کے بعد نیم عریاں کاہن کی ہدایت کے بموجب میں نے اس مقدس خون کو چکھا اور اس رسم کے اختتام پر جواں بخت نے مجھے گلے سے لگا لیا۔ اس کے بعد قبیلے کے سب لوگ یکے بعد دیگرے میرے گلے ملے اور خوشیاں مناتے ہوئے رخصت ہو گئے۔ اگلے دن مجھے وادی کا راز بتا دیا گیا اور جاتی دفعہ جواں بخت نے تاکید کی کہ جب تک میری عمر ۲۵ برس سے تجاوز نہ کر جائے اس علاقہ میں اکیلا یا کسی اجنبی کے ہمراہ سفر نہ کروں۔
جواں بخت کے خاص آدمی مجھے اس جگہ پہنچا گئے جہاں میرے حصہ دار کا ہیڈکوارٹر تھا۔۔۔ یہ خطہ جواں بخت کی وادی سے دو سو میل کے فاصلے پر تھا۔ میرا حصہ دار جو میری زندگی سے مایوس ہو چکا تھا مجھے زندہ سلامت پاکر بہت خوش ہوا۔۔۔ جواں بخت کی دوستی سے میری تجارت کو بہت فائدہ پہنچا۔ کیونکہ جواں بخت کی وادی میں کٹھ بہت کثرت سے پائی جاتی تھی۔ اس کے آدمی ہمیشہ کٹھ پہنچاتے رہتے انہیں آدمیوں کے ساتھ میں بھی ہر دوسرے تیسرے مہینے جواں بخت سے ملنے جایا کرتا۔ اسی طرح کئی سال گزر گئے۔ میری عمر ۲۵ برس سے تجاوز کر گئی۔ اب میں بغیر محافظوں کے بےکھٹکے اس علاقہ میں سفر کرنے لگا۔۔۔ ایک دفعہ میں جواں بخت کو ملنے جا رہا تھا، راستے میں ایک چھوٹی سی کوہستانی سرائے میں میری ایک خوش پوش مسافر سے ملاقات ہوئی یہ شخص بڑا باتونی تھا۔ باتوں باتوں میں اس نے ذکر کیا کہ فلاں راستے سے آتے ہوئے کئی دفعہ اس ندی کے کنارے جو نشیبی گھاٹی کے عمق میں ہے اس نے پریوں کو گاتے دیکھا ہے۔ اس وقت تو میں نے اسے جھٹلا دیا۔ مگر دوسرے دن سفر کرتے ہوئے راستے میں مجھے اس ندی کا خیال آیا جو یہاں سے زیادہ دور نہ تھی۔ میں نے گھوڑا اس راستے پر ڈال دیا۔۔۔ ندی کے کنارے گیا تو کہیں دور پار سے ہلکی ہلکی دلکش آواز جو نسیم بہار کی نرم رو لہروں پر مستی بکھیر رہی تھی۔ سن کر میرے دل میں گدگدی پیدا ہونے لگی۔ میں نے گھوڑا آگے بڑھا دیا۔ برساتی ندی میں پانی بہت کم تھا۔ میں بآسانی اسے عبور کرکے پار کے گھنے جنگل میں داخل ہو گیا۔ اب گیت کہیں قریب ہی سنائی دیتے تھے۔۔۔ یہ نشاط انگیز راگنی مجھے اپنی طرف اس طرح کھینچ رہی تھی جس طرح مقناطیس لوہے کو کھینچتا ہے۔ آگے بڑھ کر معلوم ہوا کہ جنگل کے وسط سے کاٹ کر چھوٹا سامیدان بنایا گیا ہے اور اس میدان میں ایک خوشنما جھونپڑی ہے جس کے اردگرد خوش رنگ پھلواڑیوں کی بساط بچھی ہوئی ہے۔ قریب گیا تو فرط حیرت سے میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔۔۔ سوسن کی پھلواڑی میں ایک پری جمال حسینہ ایک پہاڑی ساز پر دلکش لے میں گیت گا رہی تھی اور چند کوہستانی لڑکیاں پاؤں میں گھنگرو باندھے اس کے سامنے ناچ رہی تھیں۔ اس حسینہ کو دیکھ کر میں پھڑک گیا۔ اس کی بڑی بڑی خوشنما صدفی آنکھوں سے ایک ایسا کیف کا سیلاب امڈ رہا تھا۔ جس کی تیز رو میں میرے ہوش و حواس تک بہہ گئے۔۔۔ مجھے دیکھ کر انہوں نے راگ رنگ ختم کر دیا۔ حسینہ نے مجھے بلا کر بڑے اخلاق سے اپنے قریب بٹھایا اور ٹوٹی پھوٹی پشتو میں باتیں کرنے لگی۔ جب میرے حواس قدرے درست ہوئے تو میں نے اس حسینہ وغیرہ کا نام دریافت کیا۔ کہنے لگی میرا نام مہ لقاہے۔ میں ایک کوہستانی رئیس کی لڑکی ہوں۔ والدین کے انتقال پر میرادل ٹوٹ چکا ہے۔ یہ جگہ کبھی میرے باپ کی شکارگاہ تھی۔ یہاں اپنی کنیزوں کے ساتھ زندگی کے دن پورے کر رہی ہوں۔
میں نے تمام دن اس حسینہ کی صحبت میں گزارا۔ خوشی کے لمحے چٹکیوں میں گزر جاتے ہیں۔ حتیٰ کے دن کی ڈھلتی چھاؤں وقت کی رفتار کا پتہ دینے لگی۔ مہ لقا سے رخصت ہوکر جواں بخت کی وادی کی طرف ہو لیا۔ میں ابھی تک محبت کی چاشنی سے نا آشناتھا۔ آج پہلی بار میں نے محسوس کیا کہ میں اپنا دل اس لڑکی کو دے چکا ہوں۔ جواں بخت کی ملاقات کے بعد میں اپنے ڈیرے پر واپس آیا تو مہ لقا کی جدائی دن بدن مجھے شاق گزرنے لگی۔ بہت کوشش کی کہ اس کو بھول جاؤں مگردل نہ مانتا او ر آخرکار اپنے کاروبار سے بددل ہوکر زیادہ ترجواں بخت کے پاس رہنے لگا۔ جواں بخت میری اس تبدیلی پر متعجب تھا لیکن میں نے بڑی خوش اسلوبی سے اپنے عشق کا راز اس سے چھپائے رکھا۔۔۔ مہ لقا کی جھونپڑی جواں بخت کی وادی سے کچھ زیادہ دور نہ تھی۔ اس لیے اکثر اس سے ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ وہ اکثر جائے رہائش دریافت کیا کرتی۔ مگر میں نے کبھی اس سے جواں بخت کا ذکر نہ کیا۔ اسے ہمیشہ اپنے ڈیرے کا پتہ دیتا جو میرے کاروبار کا مرکز تھا۔ یہ سن کر وہ بدگمانی سے منہ پھیر لیا کرتی۔ کیونکہ وہ ڈیرا یہاں سے تقریباً دو سو میل کے فاصلے پر تھا۔۔۔ ایک دن جب کہ میں اسے اپنی محبت کا یقین دلا رہا تھا وہ بےاعتباری سے کہنے لگی ’’تمہاری محبت کا میں کیسے یقین کر سکتی ہوں جب کہ تم اپنی جائے رہائش تک مجھ سے چھپا رہے ہو۔‘‘ ندامت سے جھٹ بے سمجھے بوجھے میرے منہ سے نکل گیا’’دوسرے کا راز میں نہیں بتا سکتا۔‘‘ میرے اس جواب سے وہ اپنی حسین آنکھوں میں آنسو بھر کر بولی ’’آہ آپ مجھے اس قدر ذلیل سمجھتے ہیں۔ کیا میری ذات سے کسی کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔۔۔‘‘ درحقیقت آنسو عورت کا زبردست ہتھیار ہے۔ جسے دیکھ کر مضبوط سے مضبوط ارادے کا مرد بھی زیر ہو جاتا ہے۔ آہ، میں بھی ان صدفان گوہربار۔۔۔ کو دیکھ کر بےتاب ہو گیا اور ان خوشنما آنسوؤں نے مجھے مغلوب کر لیا۔ افسوس میں نے اپنا مقدس عہد توڑ کر اسے اس وادی کا راز بتا دیا۔
رات کسی بدعہد گنہگار کے دل کی طرح تاریک تھی۔ جس کی نحوست سے کائنات دھواں دھار ہو رہی تھی۔ تیسری تاریخ کا نیا چاند افق کی تاریک گہرائیوں میں کھو چکا تھا۔ ستارے سیاہ بادلوں میں گم ہو چکے تھے۔ تمام دنیا ایک کالے دیو کی مٹھی میں بند معلوم تھی۔ جواں بخت اپنے کمرے میں گہری نیند سو رہا تھا۔ مگر میری آنکھوں میں نیند مفقود تھی۔ ایک نامعلوم خطرہ مجھے قریب تر معلوم ہو رہا تھا۔ کسی مبہم خوف سے میرا دل دھڑک رہا تھا۔ میں جہنمی اذیت محسوس کرتے ہوئے اپنے کمرے میں بے چینی سے چکرا رہا تھا۔۔۔ آدھی رات کے قریب یکایک ایک گرجدار آواز سے تمام وادی گونج اٹھی۔ اس پر ہول آواز سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ آہ یہ اس مہیب نقارے کی آواز تھی جس پر خطرے کے وقت چوٹ پڑتی تھی۔ خطرے کے الارم پر تمام قبیلہ بیدار ہو گیا۔ جواں بخت کے گھر میں کھلبلی مچ گئی۔ اس نے نہایت عجلت سے ہتھیار لگائے اور مقابلے کے لیے تیار ہو گیا۔۔۔ یک دم رہزنوں کا ایک زبردست گروہ جواں بخت کے محل پر ٹوٹ پڑا۔ وہ کمال بہادری اور جوانمردی سے لڑا مگر رہزنوں کے ٹڈی دل کے سامنے اس کی پیش نہ گئی۔ وہ مجروح ہو کر گر پڑا۔ رہزنوں نے اس کے ساتھ ہم سب کی مشکیں کس لیں اور ہمیں برق رفتار گھوڑوں پر لاد کر وادی سے نکال لائے۔۔۔ ابھی وہ وادی سے نکلے ہی تھے کہ جواں بخت کا باقی قبیلہ تعاقب کرتا ہوا آ پہنچا۔ چند میل کے فاصلے پر دونوں لشکر آپس میں گھتم گتھا ہو گئے ادھر میدان کا رزار گرم ہو رہا تھا۔ ادھرہم قیدیوں کو ایک غار میں پہنچا دیا گیا جس میں الاؤ جل رہا تھا اور ایک بھپرے ہوئے شیر کے پنجرے کے قریب ایک عورت کھڑی تھی۔ اس عورت کو دیکھ کر میں حیرت و استعجاب سے اچھل پڑا آہ وہ مہ لقا تھی۔۔۔ وہ غصے سے دانت پیس رہی تھی۔ حالت غیظ میں اس کی آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔ ایک کونے میں وہی خوش پوش مسافر کھڑا تھا جو کبھی مجھے سرائے میں مل چکا تھا۔ جس نے مہ لقا کے اشارہ ابرو پر جواں بخت کی مشکیں کھولیں اور اسے خوفناک شیر کے پنجرے میں ڈال دیا۔ مہیب شیرنے آناً فاناً جواں بخت کو اپنی مضبوط رانوں میں دبوچ کر ہلاک کر دیا۔ عین اسی وقت رہزنوں کے لشکر میں بھاگڑ پڑ گئی اور حملہ آور ماردھاڑ کرتے ہوئے غارکے قریب پہنچ گئے۔ خطرے کو بھانپ کر مہ لقا فوراً غار سے باہر نکلی اور اپنی جماعت سمیت جنگل میں غائب ہو گئی۔ حملہ آور جب غار میں داخل ہوئے تو انہیں جواں بخت کا حسرت ناک انجام دیکھ کر ازحد صدمہ ہوا۔ اس کی لاش واپس وادی میں لائی گئی۔
جہاں نہایت احترام سے اسے سپرد خاک کیا گیا۔ چالیس دن تک اس کا قبیلہ سوگ مناتا رہا۔ آخر چالیسویں کی رسوم پر جب کہ تمام قبیلہ جمع تھا۔ نیم عریاں کاہن نے کہا کہ ’’میں یہ نہیں جاننا چاہتا کہ تم میں سے غدار کون ہے۔ لیکن تمہیں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ غدار سزا سے کبھی نہیں بچ سکتا۔ تم لوگ مقدس خون پر جواں بخت سے وفاداری کی قسم اٹھا چکے ہو اور یہ کوئی معمولی چیز نہیں۔ جواں بخت کی عمر اس وقت پچاس سال کے قریب تھی۔ اس لیے پچاس کی عمر میں غدار پر اس مقدس قسم کی لعنت پڑےگی اور وہ شیر کے ہاتھوں ہلاک ہوگا۔ ‘‘ نیم عریاں کاہن کے اس اعلان سے سب کے دل دہل گئے۔۔۔ کاہن کے ان الفاظ کا مجھ پر خاص اثر ہوا۔ حوصلہ کر کے دل کو برقرار رکھا اور دوسرے دن اپنے ڈیرے کی طرف واپس ہوا۔ میں مجرم تھا۔ میرا سکون قلب رخصت ہو چکا تھا۔ اب تجارت میں بھی میرا دل نہ لگا۔۔۔ میں تجارت چھوڑ کر اپنے دیس چلا آیا۔ چونکہ جواں بخت کی بدولت میں نے بےشمار دولت کمائی تھی۔ میں امیرانہ زندگی بسر کرتا رہا۔ لیکن میرا دل کبھی مطمئن نہ ہو سکا۔ اس نیم عریاں کاہن کے الفاظ ہمیشہ میرے کانوں میں گونجتے رہے۔ اب جس دن سے میرا پچاسواں سال شروع ہوا ہے خوف سے مجھے زندگی وبال ہو گئی ہے۔ رات کو شیروں کے دھاڑنے کی آوازیں آتی رہتی ہیں۔ شیروں کے خوفناک سائے دیواروں پر متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ اکثر ملک الموت کے سرد پاؤں کی چاپ محسوس کرتا ہوں۔‘‘ روحیں میرے اردگرد منڈلاتی رہتی ہیں۔ جواں بخت کی کفن پوش لاش مجھے بلاتی ہے اور اسی خوف سے گوشہ نشین ہو رہا ہوں۔۔۔‘‘ حیدر کی داستان سن کر میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ تمہیں وہم ہو گیا ہے ورنہ ایسی قسمیں کچھ حقیقت نہیں رکھتیں اور نہ تم نے جان بوجھ کر غداری کی۔ ایسی فضول قسموں کا خیال نہ کرو۔ یہاں شہر میں شیر کہاں سے آئےگا۔ میں بہت دیر تک اسے سمجھاتا رہا۔ بارہ بجے کے قریب میں اٹھا۔ میرا خیال تھا کہ سلیم لائبریری میں سو رہا ہوگا۔۔۔ میں لائبریری کی طرف گیا تووہ کرسی پر بیٹھا مسکرا رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگا۔ ابا میں نے چچا کی تمام باتیں سنی ہیں۔ وہ بہت ڈرپوک ہے۔ میں نے اسے آہستہ سے ڈرتے ہوئے کہا سلیم ایسا نہیں کہا کرتے۔ وہ شوخی سے بولا وہ درحقیقت بہت ڈرپوک ہے۔ دیکھو میں نے اسے ڈرانے کے لیے دیوار پر کیا بنایا ہے۔۔۔ میں نے دیوار کی طرف دیکھا سلیم نے اس پر اپنی رنگین پنسل سے ایک بہت بڑے شیرکی تصویر بنائی تھی۔ تصویر کو دیکھ کر میں بے اختیار ہنس دیا اور اسے ساتھ لے کر باہر نکل آیا۔
چونکہ رات کو میں دیر سے سویا تھا۔ اس لیے صبح دیر سے آنکھ کھلی تھی۔ ابھی میں بستر میں ہی تھا کہ حیدر کی موت کی خبر پہنچی۔ اسے رات کو کسی درندے نے ہلاک کر دیا تھا۔ میں اس وقت حیدر کے مکان پرپہنچا۔ وہاں پولیس جمع تھی۔ حیدر کی لاش بستر پر نہایت ابتر حالت میں پڑی تھی۔ اس کی شاہرگ کے قریب ایک بہت بڑا گہرا زخم تھا اور کسی درندے کے خون آلود پنجے بسترکی سفید چادر پر صاف نمایاں تھے۔۔۔ میں سراسیمگی سے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا لائبریری میں جا نکلا۔
اچانک مجھے سلیم کی بنائی ہوئی تصویر کا خیال آیا۔ مگردیوار کی طرف دیکھ کر میرے اوسان خطا ہو گئے۔
سلیم کی بنائی ہوئی شیر کی تصویر دیوار سے غائب تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.