بند کمروں کی شناسائیاں
دو چار روز سے گھر میں کچھ ہو رہا تھا۔ اس کے بچے اور میاں کچھ پلان کر رہے تھے۔ فون آ جا رہے تھے اور اس کامیاں بچوں کو بتا رہا تھا کہ ہاں فلاں وقت ٹھیک ہے، ہاں ہاں فلاں کا گھر بھی صحیح رہے گا۔ زرینہ کو اس تمام Activity سے یہ پلے پڑا کہ کسی بڑی خاتون شخصیت سے ملاقات کا وقت اور مقام طے ہو رہا تھا اور اس تمام ہیجان کا موضوع یہ ملاقات تھی۔ وہ پریشان تھی کہ یہ سب کارروائی بالا ہی بالا کیوں ہو رہی ہے، جب کہ وہ خود آج تک اپنے میاں کے شانہ بہ شانہ کام کرتی رہی تھی، پھر آج اسے اہم شخصیت سے ملنے کے لیے کیوں نظر انداز کیا جا رہا تھا؟ کمال ڈھٹائی ہے، اس نے سوچا۔ پھر اس نے اپنے آپ ہی یہ یقین کر لیا کہ اصل میں وہ اسے سرپرائز دیں گے اور عین وقت پر اسے بھی ساتھ چلنے کو کہیں گے۔ یہ سوچ کر وہ مطمئن ہو گئی۔
رات بھر بارش ہوتی رہی تھی اور دن بہت روشن اور چمکیلی دھوپ لے کر نمودار ہوا تھا۔ زرینہ نے دھوپ کو غنیمت جانا اور ایک بڑا کمبل جسے وہ بہت دنوں سے دھلوانے کا ارادہ رکھتی تھی، اس کے لیے چھیماں سے کہا، ’’ٹب میں سرف ڈالو اور کمبل بھگو دو۔‘‘ وہ یہ سب خود کھڑے ہوکر کروا رہی تھی۔ لیکن اس کے دل اور ذہن میں ایک بےچینی تھی۔ اس کا شوہر اور بچے تیار ہو چکے تھے، لیکن زرینہ خود ابھی تک کسی سرپرائز کے انتظار میں تھی۔ وہ چھیماں کو خواہ مخواہ ڈانٹے جا رہی تھی اور چھیماں حیران ہو کر اسے تک رہی تھی کہ میں سب کام ٹھیک کر رہی ہوں، پھر بھی بی بی جی مجھے ڈانٹے جا رہی ہیں۔ گیٹ کی جانب زرینہ کی پیٹھ تھی۔ اس نے محسوس کیا کہ ایک گاڑی آئی ہے۔ زرینہ اوٹ میں ہو گئی، گاڑی سے ایک خاتون اتریں۔ بیل بجائی، جواب میں اس کا شوہر اور بچے کھٹا کھٹ باہر نکلے اور گاڑی ریورس ہو کر گیٹ سے باہر نکل گئی۔ زرینہ جہاں کی تہاں کھڑی رہی اور جو بارش رات کو تھمی تھی، وہ اس وقت اس کی آنکھوں میں اتر آئی۔ زرینہ کو اپنا وجود رستے میں گرے پڑے کنکر اور پتھر سے زیادہ بے وقعت لگا۔
یہ عورت جس کے ساتھ ابھی ابھی اس کے بچے اور میاں گئے تھے۔ اس کے میاں کے ادارے میں نئی نئی وارد ہوئی تھی۔ بےحد معمولی شکل و صورت اور منحنی وجود کے باوجود اسے مردوں کی نفسیات سے آگہی تھی اور پھر اس سے کھیلنا، ان کو استعمال کرنے کا گر اس عورت کو خوب آتا تھا۔ کسی سے لگاوٹ یا کسی کی خوشامد اور کسی سے متاثر ہونے کا ذکر کرکے اس نے بہت تھوڑی مدت میں بہت سی عورتوں اور مردوں کو پچھاڑ دیا تھا اور اپنے لیے اس ادارے میں ایک قابل ذکر جگہ پیدا کر لی تھی۔
زرینہ اپنے خاندان کی دوسری لڑکیوں سے مختلف تھی، وہ ایک جاگتے اور سوچتے ذہن کی مالک تھی۔ اسے مباحثوں پر، مشاعروں میں اور سیمیناروں میں جانا اچھا لگتا تھا۔ عام لوگوں سے ملنا، بات کرنا اس کے شعور کو بڑھاوا دیتا تھا۔
وہاب نے سر راہے اسے کہیں دیکھا۔ پتا کرتا کراتا زرینہ کے گھر والوں تک پہنچا اور اسے پروپوز کر ڈالا۔ زرینہ کو کوئی اعتراض نہ تھا کہ آنے والا شخص کئی حوالوں سے اپنی شناخت رکھتا تھا اور یہی زرینہ کی بھی خواہش تھی۔ یوں وہ ایک دوسرے کے ساتھی بنے۔
رت جگوں کی محفلیں جمیں، دوست احباب، قہقہے، ایک دوسرے کے لیے دِل میں محبت اور نگاہ میں مٹھاس، وہاب نے کیا کھایا، اس نے ٹھیک سے کھایا۔ زرینہ نے کیا پہنا، وہ پہن کر اچھی لگی، وہاب بتاتا۔ زرینہ دن بدن نکھرتی گئی۔ ریستوران میں چائے پیتے ہوئے وہاب زرینہ کو ٹہوکا دیتا۔ زرینہ پوچھتی، کیا ہے بھئی؟ وہ جو فارنرز اس میز پر بیٹھے ہیں نا، وہ تمھیں بہت شوق سے دیکھ رہے ہیں۔ یعنی کھیوڑہ کی نمک کی کان ان کو اچھی لگ رہی ہے۔ وہاب ہنستا اور زرینہ شرمندہ سی ہو کر بات ٹال دیتی۔
زندگی اس قدر بھرپور، اس قدر بھرپور کہ سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی۔ وہاب اور زرینہ ایک دوسرے سے گھلے ملے۔ بحث، مباحثے، دلیل، تکرار، بہت کچھ کھلا ،لیکن جب ذہن کھلنے لگے تو روزمرہ میں ایک ٹھہراو سا آ گیا اور پھر۔ زرینہ کے دل، دماغ اور نگاہوں میں وہ جولش لش کرتا ہوا ہرا کچور زندگی کا نظارہ تھا، وہ ایسے لگنے لگا جیسے اس پر کسی نے زہریلی کھاد کے کچھ قطرے انڈیل دیے ہوں اور اب وہ لش لش کرتا نظارہ جگہ جگہ سے سوکھ کر ککھوں کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔
وہاب کے ذہن کی بہت سی سطحیں تھیں اور ان سطحوں کی بہت سی پرتیں تھیں۔ اس کی شخصیت کی تمام سطحیں اپنا اپنا مقام رکھتی تھیں۔ لیکن ایک سطح ایسی تھی جس نے وہاب کو مات دے رکھی تھی اور اس پر اس کو کسی طور قابو نہیں تھا اور یہی وہ سطح تھی جو یخ ہوا بن کر ان کی ازدواجی زندگی میں چلنی شروع ہو گئی۔ وہاب کا یہ نیا رخ زرینہ کے لیے، بےحد جان لیوا تھا، وہ ذہنی طور پر بےحد نڈھال اور ویران ہو گئی۔ بہت سے گدرائے موسم سچ اور شک کو نتھارنے میں رایگاں گئے۔ وہاب کے سنگ سنگ چلنے کی خواہش میں زرینہ نے اپنی سوچوں کے بہت سے جگنو اپنی مٹھی میں ہی مسل ڈالے تھے اور اپنی عمر کے خوب صورت زمانے پر کائی سی مل دی تھی۔
وہاب دیر سے گھر آنے لگا۔ کبھی کام کی زیادتی کا ذکر، کبھی گاڑی خراب ہونے کی شکایت، کبھی کچھ، کبھی کچھ۔زرینہ سب سچ سمجھتی رہی۔ وہ اس بات سے خوفزدہ تھی کہ کہیں وہاب کے یہ عذر جھوٹ نہ ہوں۔ اس کے ذہن میں اپنے شوہر کی قدر تھی۔ ایک متوازن تصویر تھی اور وہ کبھی کسی طور بھی یہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کے تصور میں کوئی دراڑ آئے۔ ویسے بھی اس کے ذہن میں شوہر اور بیوی کا الگ الگ زندگی گزارنے کا کوئی تصور نہیں تھا۔
ہاں مرد تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔
کوئی بات نہیں مرد تو ایسے کرتے ہی رہتے ہیں۔
سوسائٹی میں رائج اس عام رویے کو زرینہ کسی طور بھی برداشت کرنے کے لیے خود کو آمادہ نہ کر پائی۔
شاید ذہنی دوسرا تھ میں مَیں وہاب کے ساتھ نہیں چل سکی ہوں۔ وہ اپنے کھلے ذہن سے سوچنے کی کوشش کرتی۔ لیکن وہاب کے رویے میں کہیں ہچکچاہٹ یا معذرت نہ پا کر وہ سوچتی کہ میں نے اس کے ساتھ سب کچھ Share کیا ہے۔ دکھ، سکھ، اس کی سوچ، اپنا وقت، اپنا وجود، لیکن اس نے صرف اس قدر Share کیا کہ اپنے سر کل میں یہ تاثر دے سکے کہ وہ ایک کھلے ذہن کا مالک ہے۔
بےاعتنائیوں نے شک پیدا کیا اور شک کی یہ دیمک ان کی زندگیوں میں سرسرانے لگی۔ کئی کئی دن ان میں مکالمہ نہ ہوتا۔ زرینہ کھانا دیتی۔ کھانا اکثر خاموشی سے ختم ہوتا۔ پانی، صابن، تولیا، زرینہ کو برسوں پہلے دیکھی ایک فلم کا مکالمہ یاد آ جاتا، جس میں راتوں کے ہاتھوں واماندگی کا شکار شخص صبح دم بیوی کے چہرے پر نگاہ ڈالے بغیر پانی، صابن، تولیا مانگتا۔ بیوی فقط ہاؤس کیپر ہے، زرینہ سوچتی رہتی۔
گزرتا وقت اپنے دامن میں منفی تبدیلی لایا۔ خطوں کا لہجہ بدلا۔ وقت کا مزاج بدلا۔ بات کرنے میں تکلف اور سرسری پن آیا۔ بچے آ گئے، دونوں کے درمیان کمیونیکیشن کم ہوتی چلی گئی۔ دل کے رزق کی کمی نے دونوں کے نرم، گرم جذبوں میں قحط کی دہائی مچا دی۔
Vanity was stronger than love at Sixteen
لیکن میں سکارلٹ اوہارا نہیں ہوں اور نہ ہی میں سولہ برس کی ہوں۔ اس نے تلخی سے سوچا۔ رنج اور تنہائی اس کی سوچوں کو بھٹکا لے جاتے۔ اس نے لکھنا پڑھنا چھوڑ دیا تھا۔ لڑکپن میں اچھّا لگا یہ فقرہ اسے خواہ مخواہ یاد آ گیا تھا۔
بچے سکول جا چکے تھے۔ چیزیں سمیٹتے ہوئے اس کی نظر آئینے پر پڑی۔ آئینے میں ایک موٹی، بھدی، چھائیوں بھرے چہرے، حلقے پڑی آنکھوں، جٹاؤں جیسے خشک بالوں اور اجڑے پجڑے چہرے والی ایک عورت کھڑی تھی۔ میں۔ میں۔ ایسی تو نہ تھی۔ وہ رو سی دی۔ میں اچھی بھلی تھی۔ لوگ مجھ سے بات کرنا پسند کرتے تھے۔ لیکن کیا وہاب کو میرا اس قدر بد صورت اور خوفناک ہوتے جانا نظر نہیں آیا؟ اس نے مجھے کبھی نہیں بتایا کہ میں موٹی اور بھدی ہوتی جا رہی ہوں۔ شاید اس نے مدت دراز سے مجھے نگاہ بھر کے کبھی دیکھا ہی نہیں۔ اس روز زرینہ بلک بلک کر روئی تھی۔ روتے روتے اچانک اسے ماں کی بات یاد آ گئی۔ اماں بہت پڑھی لکھی نہ تھی، لیکن زندگی کا مشاہدہ بہت بھرپور تھا۔
اماں کہا کرتی تھیں، ’’وقت کو گزارتے نہیں، سہتے ہیں۔ اسے سینے سے لگاتے ہیں۔ اسے اپنے جسم کی گرمی پہنچاتے ہیں۔ تب کہیں جا کے یہ آپ کا بنتا ہے۔ ماضی کچھ بھی نہیں۔ ماضی کو انسان برت اور ہنڈا چکا ہوتا ہے۔ بس جو کچھ ہے حال ہے، آج ہے، یہ لمحہ ہے۔‘‘ اور اماں یہ بھی تو کہا کرتی تھیں، زرینہ کو یاد آیا ’’اپنا دکھ کسی سے مت کہو، کیوں کہ بہن بھائی جوں جوں اپنے پیروں پر کھڑے ہوتے جاتے ہیں۔ برادری اور شریکا بنتے چلے جاتے ہیں۔ سو اپنا دکھ اپنے پاس بہت سنبھال کے رکھو۔‘‘
زرینہ نے انھیں لمحوں میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ میں اپنا ہر مسئلہ اپنے تک رکھوں گیاور میں اپنے آج کو سنواروں گی۔ اِسے سینے سے لگاؤں گی۔ وہ نہائی، دھوئی، اچھے سے کپڑے پہنے، بال بنائے اور خود میں شگفتگی پیدا کرنے کی کوشش کی اور چلتے پھرتے، گھر میں کام کرتے ہوئے اپنی میٹھی سی آواز میں مدت دراز کے بعد گنگناتی رہی۔
اپنا ہر انداز آنکھوں کو تروتازہ لگا
اتنے دن کے بعد مجھ کو آئینہ اچھا لگا
میں تو اپنے آپ کو اس دن بہت اچھی لگی
وہ جو تھک کر دیر سے آیا، اسے کیسا لگا
میں اور وہاب پھر ساتھ ساتھ چلیں گے۔ ایک دفعہ پھر اس نے یہ فیصلہ اپنے دل اور دماغ کو سنایا۔ وقت گزرتا رہا، کبھی اچھا، کبھی برا، وہ سب سہتی رہی، ٹالتی رہی، وہ مدت دراز سے روئی نہیں تھی۔ وہ مطمئن تھی کہ اسے سہنا برداشت کرنا اور رنجیدہ لمحوں میں وقت کے ساتھ جینا آ گیا ہے۔ لیکن آج صبح جس طور اس کا اپمان ہوا ،اس نے زرینہ کو جذباتی اور شخصی طور پر ملیامیٹ کر دیا تھا۔ وہ بالکل ڈھے سی گئی۔
اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا کہ وہ اپنے ماضی کے ماحول کو Romanticise کرتی، لیکن پھر بھی اسے وہاب کا والہانہ پن یاد آئے بنا نہ رہا۔ منگنی کے بعد لکھے گئے وہ سیکڑوں خطوط یاد آئے، جن میں محبتوں اور جذبوں کے ڈھیر ہوتے تھے، کہ وہ بوکھلا جاتی اور سرگوشی میں وہ اکثر سوچتی، کہ کیا یہ سب سچ ہے اور سچ ہی رہےگا۔
اسے یاد آیا۔ وہ شادی کے بعد وہاب کے گھر والوں کے ساتھ ٹرین میں پشاور جا رہی تھی۔ اچانک کھڑکی کا پٹ زرینہ کے ہاتھ کے اوپر آ کر گرا۔ وہاب اپنی جگہ سے تڑپ کر اٹھا اور زرینہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ وہاب ایک شرمیلا انسان تھا، لیکن وہ یہ سب کر گزرا۔ زرینہ اس کی اس جرأت پر ششدر تھی۔ اس قسم کے والہانہ پن کی زندگی بےحد مختصر تھی۔
زرینہ کو وہاب کا ایک مختلف رخ یاد آیا، وہ ہائی بلڈ پریشر کی مریضہ تھی۔ ایک رات اسے سخت نکسیر پھوٹی، لیکن وہاب نے اسے چھوکر نہ دیکھا۔ بس دور بیٹھا بچوں کو ہدایات دیتا رہا جب کہ زرینہ اس وقت یہ چاہ رہی تھی کہ وہاب اس کے نزدیک آئے۔ اسے تھامے، اسے چھوئے۔ وہ کہا کرتا تھا کہ مجھے بیمار لوگ اچھے نہیں لگتے۔
عجیب تماشا ہے کہ وہ جو بند کمروں میں انتہائی قریب ہوتے ہیں۔ کھلے دروازوں میں ایک دم دور کیوں چلے جاتے ہیں۔ وہ صرف شوہر کیوں بنتے ہیں دوست کیوں نہیں بن سکتے؟ زرینہ کو اپنی دوست سے سنا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ اس کی دوست کا میاں ہارٹ سرجری کے لیے باہر گیا ہوا تھا، جب ہسپتال سے صحت یاب ہو کر نکلنے لگا تو اس کے معالج ڈاکٹر نے خوشدلی سے کہا ’’پاکستان پہنچنے پر سب سے پہلے اپنی بیوی کو گلے لگانا۔ خطرے کی کوئی بات نہیں‘‘۔ زرینہ کی دوست کا میاں ہنسا اور کہا ’’ہمارے ہاں بیوی کو گلے لگانے کی باری سب سے آخر میں آتی ہے۔‘‘ یہ واقعہ سن کر زرینہ کے ذہن میں بہت سی وہ جوان سال لڑکیاں آ گئیں، جن کے شوہر ڈالر کمانے کے لیے ہزارہا میل دور ہزارہا دنوں کے لیے جدا ہو رہے ہوتے ہیں۔ ماں بہن ہنس ہنس کر لپٹتی ہیں، سر ماتھا چومتی ہیں، گلے لگاتی ہیں۔ لیکن وہ جسے بیوی کہتے ہیں، فاصلے پر کھڑی یہ سب دیکھتی ہے، لیکن اپنے شوہر کو چھو نہیں سکتی۔
سرما کی عام دوپہروں جیسی ایک دوپہر کو اس کا دھوپ میں بیٹھنے کو جی چاہا۔ وہ اندر سے پیڑھی اٹھا لائی، وہ ذہنی طور پر پیڑھی Oriented تھی۔ پیڑھی اٹھاتے سمے اس کے ذہن میں برسوں پرانا ایک کھیل جاگ گیا۔ اس کے گھر کے لال تھڑے کے سامنے ایک گوری چٹی عورت جس نے نیم کے دھرکونوں کے سائیز کی تین لڑیوں والی سونے کی مالا پہنی ہوئی تھی، ہر روز دوپہر ڈھلے، سردیوں، گرمیوں میں جگمگاتی مالا پہنے اپنی بھینس کو نہلاتی تھی اور زرینہ ہر روز اپنے لال تھڑے پر بنی سیمنٹ کی کرسی پر بیٹھی یہ کھیل دیکھتی تھی کہ کیسے بالٹی میں سے پانی لیتے وقت اس عورت کی مالا ساتھ ساتھ جھولتی تھی۔ بھینس نہلانے کا یہ سین زرینہ کو بہت Fascinate کرتا تھا۔
برآمدے میں کالے ستونوں کے پاس دھوپ بہت کھلی ڈلھی تھی۔ اس نے پیڑھی وہیں پر رکھی اور بیٹھ گئی۔ بچے ابھی سکول سے نہیں آئے تھے۔ اس نے ایک نظر لان پر ڈالی۔ نیم سے گرے چھوٹے چھوٹے پتے یوں لگ رہے تھے، جیسے باہم گلے مل رہے ہوں۔ جب کہ ربڑ پلانٹ سے گرے ہوئے بڑے پتے اسے اپنے جیسے تنہا تنہا لگے۔ اس کا دل اور ذہن خالی بھنڈا ر تھے۔ زندگی اس قدر جلد بے وقعت اور بےمعنی ہو جائےگی۔ ایک فرد کی بےاعتنائیاں اور مشاغل دوسرے فرد کی زندگی کی بنیادوں تک کو کھوکھلا کر دیتے ہیںاور جب تمام راستے بھی بند ہوں۔ ذہن سب سمجھتا ہے، لیکن دل کسی طور نہیں سنبھلتا۔ یہ سب سوچ کے اسے اپنی بے بسی پر رونا آ گیا۔ نہ معلوم وہ کب تک روتی رہی۔ اسے یاد نہ تھا کہ روتے روتے کیا ہوا تھا۔ لیکن جب اس نے آنکھ کھولی تو وہ انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں تھی۔ اس کا بیٹا آزردہ اور پریشان چہرہ لیے اس کی پائینتی اسے ٹکٹکی لگائے دیکھ رہا تھا۔
وہاب کدھر ہیں؟ ہوش میں آنے کے بعد زرینہ کی یہ پہلی آواز تھی۔ اس کا بیٹا لپک کر سرہانے کی طرف آیا۔ ماں کا ہاتھ پکڑ کر اس پر پیار کیا۔
بیٹے نے اپنا گلا کھنکارا اور کہا ’’ابھی باہر گئے ہیں۔ دوائی لینے، آپ نے بولنا نہیں، ڈاکٹر نے منع کیا ہے۔‘‘ زرینہ کی بند آنکھوں سے آنسو بہتے رہے۔ بیٹا اپنے ہاتھوں سے آنسوؤں کو صاف کرتا رہا اور ہاتھ کو بار بار چومتا رہا۔ وہ اپنی ماں کا واحد دوست تھا۔
زرینہ کا میاں اور اس کے بچے اس ملاقات کے بعد واپس آ چکے تھے۔ انھوں نے لنچ بھی غالباً باہر ہی کیا تھا اور اب وہ اپنے کمروں میں سو رہے تھے۔ ’’یہ سب کس قدر آنند میں ہیں۔‘‘ زرینہ نے تلخی اور نفرت سے سوچا۔
وہ جب بیڈروم سے باہر نکلی تو دوپہر ڈھل رہی تھی۔ بارش اس کے سوتے سمے میں برس چکی تھی اور اب کہیں بادل اور کہیں دھوپ کی کرنیں تھیں۔ زرینہ گھر سے باہر ڈرائیو پر آئی اور گیٹ کھول کر سڑک پر چلتے چلتے چوراہے تک آ گئی، چاروں جانب سکون بھری خاموشی تھی اور چھٹی کی وجہ سے ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ وہ عین چوک میں کھڑی تھی۔ کوئٹہ کی مسافر اور سرد ہوا سے اس کے کپڑے پھڑ پھڑا رہے تھے۔ تیز ہوا نے اسے ہلکا سا دھکا دیا۔ ہوا کی یہ چھیڑ خانی اسے اچھی لگی۔ اس کی سوجی آنکھوں میں پانی آ گیا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنی آنکھوں کو صاف کیا۔ گردن اٹھا کر چوراہے کے چاروں اور گھوم کر دیکھا۔ کولتار کی سیاہ سڑکیں بارش سے دھلی دھلی کشادہ اور شفاف تھیں۔ یہ نظارہ اسے اچھا لگا۔ اس کی طبیعت بشاش سی ہوئی۔ میری پناہ، میری دسترس، میرا کتھارسس؟؟ چوک میں کھڑی آپ ہی آپ وہ بڑی طمانیت سے مسکرائی اور ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں پیپر ماشی کی گلابی پھولوں والی لمبی سی ڈبیا میں برسوں پہلے سنبھال کے رکھا ہوا شیفرز کاہرے رنگ کا پین اسے یاد آ گیا۔ یہ پین اس کی خوب صورت آنکھوں والی ساس نے منگنی کے بعد تحفہ بھیجا تھا۔
پین کے خیال کے ساتھ ہی اس کا ذہن برسوں پیچھے چلا گیا۔ ادب کا کلاس روم، روسٹرم پر استاد محترم نے کالے گاؤن میں ملبوس بند آنکھوں سے لیکچر دیتے ہوئے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے بارے میں بتاتے ہوئے کہا، ’’نہ معلوم ہزارہ کی وادیوں اور پہاڑوں پر بکریاں چراتے چراتے میں اس روسٹرم تک کیسے آ پہنچا ہوں۔‘‘ کلاس روم ایک سناٹے میں ڈوبا ہوا ہے اور پھر اپنی بند آنکھوں سے بولتے بولتے ولی دکنی سے شروع ہوکر کبھی میر، کبھی درداور کبھی مصحفی اور مصحفی کے اس شعر پر آ کے رک جاتے۔
چلی بھی جا جرسِ غنچہ کی صدا پہ نسیم
کہیں تو قافلۂ نو بہار ٹھہرے گا
اور خوب مزے لے لے کر بار بار شعر کو پڑھتے اور فرماتے، مصحفی کا یہ شعر آنے والے برسوں کی امانت ہے۔
زرینہ کو اس یاد نے توانائی بخشی۔ جب وہ گھر واپسی کے لیے مڑی تو جذباتی طور پر، پرامن تھی اور ایک گہرے سکون کے حصار میں تھی، جیسے بہت سے در وا ہو گئے ہوں اور وہ اندھے کنویں سے نکل کر سمندر کے کھلے پانیوں میں اتر رہی ہو۔ سنسان سڑک پر وہ دھیمی آواز میں گنگناتی چلی آ رہی تھی:
کہیں تو قافلۂ نوبہار ٹھہرےگا
کہیں تو۔
کہیں توٹھہرےگا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.