Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بند راستے

ابن کنول

بند راستے

ابن کنول

MORE BYابن کنول

    ہندوپاک کے راستے کھلتے ہی اسے ایسا لگا کہ اب تک وہ نظر بند تھا اور اسے آزاد کیا گیا ہو۔ اس نے سب سے پہلا کا م یہ کیا کہ ہندستان جانے کے لیے ویزا منظور کروایا اور بہت جلد اپنے گاؤں کی گلیوں کو نگاہوں میں بسا کر لاہور سے روانہ ہوا ۔ اس نے اپنے آنے کی کسی کو اطلاع نہیں دی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اچانک اسے دیکھ کر چچا میاں اور دلہن چچی کتنا خوش ہوں گی اور شازیہ جسے پیار سے وہ شازی کہتا تھا، حیرت ومسرت سے اُچھل پڑےگی۔ بچاری کو کتنا انتظار کرنا پڑ ا ہے۔ ہر وقت اس کے کانوں میں میرے قدموں کی آہٹ دبے پاؤں آکر دروازے پر نگاہیں اُٹھانے کے لئے اُسے مجبور کرتی ہوگی ۔ کہیں شازی کی شادی ! نہیں․․․ایسا نہیں ہو سکتا․․․ ! وہ تمام عمر میرا انتظارکر سکتی ہے․․․اور پھر وہ بیتے ہوئے دنوں کو یاد کرکے دُھندلی تصویروں میں رنگ بھرنے لگا۔

    محرم کی ۹ تاریخ تھی۔ مہمان خانے میں کافی تعداد میں مہمان اکٹھّے ہو چکے تھے ۔ رحیم گڑھ کے تعزیے دور دور تک مشہور ہونے کی وجہ سے محرم کا مہینہ لگتے ہی اس کے یہاں مہمانوں کی آمد شروع ہو جاتی ۔ اس کی امی جان نے کہا کہ آج خالہ بی آئیں گی۔ وہ بہت خوش اور بےچینی سے ان کے آنے کا انتظار کر رہا تھا ۔ کئی برس کے تناؤ کے بعد خالہ بی آج آ رہی تھیں۔ اِدھر آفتاب نے اپنے شعاعوں کو سمیٹنا شروع کیا اُدھر ڈیوڑھی پر بیلوں کے گھنگھروؤں کی جھنکار نے شفق کی سرخی میں ایک دل کش موسیقی پیدا کر دی۔ سب لوگوں نے گھنگھروؤں کی جھنکار کو محسوس کرکے نظریں اس آواز کی طرف دوڑائیں۔ رحیمن بوا نے اندر آتے ہوئے تیزی سے کہا۔

    ’’اے لوگو! دیکھو سکھیر پور کی سواریاں آگئیں۔‘‘

    امی جان نے فرشی غرارے کے پائنچوں کو سنبھالتے ہوئے مسہری سے پاؤں نیچے اُتارے۔ وہ دوڑتا ہوا دروازے کی طرف بھاگا۔ خالہ بی اّدھے سے اُتر چکی تھیں۔ اُس نے خالہ بی کو آداب کیا۔ اُنہوں نے اُسے پیار کیا۔ تب ہی اُس کے کانوں سے بہت سُریلی اور مہین آواز ٹکرائی۔

    ’’بھائی جان آداب!‘‘

    اس نے خالہ بی کے پیچھے کھڑی ہوئی پیاری سی لڑکی کو دیکھا۔ ا می جان کہہ رہی تھیں کہ خالہ بی کے ایک پیاری سی لڑکی ہے ۔ اس نے سر کو جنبش دے کر سلام کا جواب دیا۔ خالہ بی، رحیمن بوا، مہرن او رچمن کے ساتھ اندر چلی گئیں جو استقبال کے لئے پھاٹک پر آ گئیں تھیں ۔ اس نے شازیہ کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ آئیے، آپ ہمارے ساتھ چلیے۔ شازیہ کچھ مسکراتی اور جھجھکتی ہوئی اس کے ساتھ چلنے لگی۔ اس کا گورانگ عنابی رنگ کے کامدار غرارے اور جمپر میں دمک رہا تھا۔ غرارے کے پائنچوں کو اپنے بائیں ہاتھ سے پکڑ کر چلتی ہوئی وہ بڑی پیارا لگ رہی تھی۔ صحن میں امی جان اور خالہ بی چہک چہک کر اظہار مسرت کر کے کئی برسوں کاحساب برابر کر رہی تھیں۔ ان دونوں کو دیکھ کر امی جان نے سرگوشی کرتے ہوئے خالہ بی سے کہا ’’اے دیکھو تو سہی اپیا، کیا جوڑی ملائی ہے قدرت نے۔‘‘

    ’’چشم بد دور! خدا سلامت رکھے دونوں کو۔‘‘ خالہ بی نے ان دونوں پر شفقت و محبت کی نگاہ ڈالتے ہوئے دبی آواز سے کہا اور دُور سے بلائیں لے کر انگلیاں چٹخائیں۔ اس نے ایک بار گہری نظریں شازیہ کے دمکتے ہوئے چہرے پر ڈالیں جیسے اس کے کانوں نے ان دبی آوازوں کو سن لیا ہو۔ قریب آتے ہی امی نے شازیہ کوگلے سے لگالیا ۔

    ’’بیٹے جاؤ، شازیہ کو اپنا کمرہ دکھاؤ۔ یہ تمہاری ہی مہمان ہے۔ اچھی لگتی ہیں نا‘‘۔ اس نے آہستہ سے سر کو ہلا کر ہوں کیا تو خالہ بی اور امی جان دونوں ہنس پڑیں۔ وہ جھینپ گیا۔

    وقت آگے بڑھا۔ معصوم کلیوں نے چٹکنا شروع کیا۔ امی جان نے تو رشتہ بھی پکاّ کر دیا۔ لیکن اُس کے اباّ جان اس رشتے کو تیار نہ ہوئے۔ بات بھی ایسی کوئی خاص نہیں تھی۔ کافی عرصہ گزارا شازیہ کے ابّو الیکشن میں ابّا جان کے مقابلے میں کھڑے ہو گئے تھے اور جلد ہی لوگوں کو سمجھانے پر ان کے حق میں بیٹھ بھی گئے۔ لیکن اباّ جان کے دل میں اسی وقت سے رنجش پیدا ہو گئی جو گھریلو تعلقات استوار ہونے پر بھی دور نہیں ہوئی۔ اور دوسرے اباّ جان شازیہ کے ابو کو اپنے برابر کا زمین دار نہیں سمجھتے تھے۔ امی جان کی ان کے سامنے کیا چلتی۔ اﷲ میاں کے گھر سے بلاوا آیا۔ بیٹے چہرے پر سہرا بندھنے اور شازیہ کو دلہن بناکر گھر لانے کی آرزو کو کفن میں لپیٹ کر امی جان ہمیشہ کے لیے چلی گئیں۔ امی جان کے انتقال کے بعد خالہ بی کے ہاں آنا جانا بہت کم ہو گیا ۔ لیکن وہ خالہ بی اور شازیہ سے ملنے ضرور جاتا رہا اور پھر ایک دن ابا جان رحیم گڑھ کی جائداد چچا میاں کے حوالے کرکے اسے اپنے ساتھ لے کر پاکستان چلے گئے۔ لیکن وہ پاکستان جانے سے قبل خالہ بی اور شازیہ کو یقین دلا گیا تھا کہ وہ بہت جلد واپس آئے گا وہ انتظار کریں۔ بدقسمتی سے ان کے جانے کے کچھ عرصہ بعد ہی ہندو پاک لڑائی ہو جانے کی وجہ سے راستے بند ہو گئے۔ درمیان میں کچھ وقت کے لیے راستے کھلے بھی تو ابا جان کی حالت اس قدر بگڑی کہ وہ انہیں چھوڑ کر نہ آ سکا۔ اور ماہی بے آب کی طرح تڑپتا رہا۔

    رحیم گڑھ کے چھوٹے سے اسٹیشن پر اُتر کر اُس نے بستی تک جانے کے لیے سوراری تلاش کی۔ سڑک پر رکشے، تانگوں کے علاوہ ایک بس بھی کھڑی تھی اسے یہ چیزیں عجیب سی لگ رہی تھیں کیوں کہ جب وہ یہاں رہتا تھا تو اس وقت اسٹیشن پر اتر کر بیل گاڑی یا تانگے سے گاؤں جایا کرتے تھے۔ لیکن اب تو کّچی سڑک کی جگہ تارکول کی کالی سڑک بستی تک جا رہی تھی۔ رکشہ اسٹینڈ، تانگہ اسٹینڈ کے چھوٹے چھوٹے بورڈ لگ رہے تھے۔ وہ یہ سب تبدیلیاں دیکھ کر خوش تھا۔ ہاتھ کے اشارے سے ایک رکشہ والے کو بُلایا وہ سوچ رہا تھا کہ اگر اپنے آنے کی اطلاع دیتا تو چچا میاں اس کے لیے سواری بھجوا دیتے۔’’کاں جانا ہے صاب‘‘ ؟ رکشے والے نے اس کے قریب آ کر پوچھا ۔ اس نے رکشے والے کو غور سے دیکھا۔ کیا اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ ہمیں کہاں جانا ہے۔ پہلے تو کبھی کوئی گاؤں والا یہ نہیں پوچھا کرتا تھا۔

    ’’ڈیورھی پر۔‘‘

    ’’کاں صاب‘‘؟

    ’’قاضی محمود حسین کی ڈیوڑھی پر۔‘‘ اسے رکشہ والے کا یہ جواب عجیب سا لگا۔ کیوں کہ ایسے جواب کی اُمید نہیں تھی۔

    ’’ہماری سمجھ میں نہیں آیا صاب کو قاضی محمود حسین؟ کس محلے میں رہتے ہیں۔‘‘ نوجوان رکشے والے نے جو کسی فلمی ہیرو کے اسٹائل میں بال کاڑھے ہوئے تھا ۔ لا علمی کا اظہار کیا ۔ اس کا پائدان پر چڑھا ہوا ایک پیر سڑک پر واپس آ گیا۔

    ’’بدتمیز —اتنا بھی نہیں جانتا بولنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا۔‘‘ ایک رکشہ والے کی زبان سے اپنے دادا کا نام اس طرح سن کر وہ جھنجھلا گیا۔

    ’’اکڑتے کس پہ ہوصاب کوئی اور سواری دیکھ لو۔ پاگل ہے‘‘ رکشہ والا بڑ بڑاتا ہوا آگے بڑھ گیا۔

    وہ رکشے والے کو دیکھتا رہ گیا۔ کچھ بول ہی نہ سکا اور پھر جھینپ مٹانے کے لیے تیزی سے بس میں سوار ہو گیا۔ بس نے بہت جلد اسے رحیم گڑھ کے مختصر سے بس اڈّے پر چھوڑ دیا۔ بس اڈّے ہی کی مناسبت سے وہاں اور لوگ موجود تھے۔ سڑک کے کنارے پر ایک کاٹھ کی دکان رکھی ہوئی چنگی کا کام دے رہی تھی۔ اس کے سامنے ہی چنگی کی بڑی سی بَلّی رسّی کے سہارے رُکی ہوئی تھی پخّتہ پّلیا کے قریب ایک اور کاٹھ کی دکان ہوٹل کی کمی کو پورا کر رہی تھی۔ اسی پرپان ، بیڑی ، سگریٹ کا بھی انتظام تھا۔ شیشے کے دو مرتبانوں میں چند بسکٹ اور تھوڑی دال پڑی ہوئی تھی۔ ٹھیلے کے پاس ایک شخص امرودوں کی آواز لگا رہا تھا۔ وہ چلنے لگا۔ رستے میں کھیلتے ہوئے بچے کھیلتے رہے۔ اِدھر اُدھر کام کرنے والے آدمی کام کرتے رہے۔ عورتیں اسی طرح گھومتی رہیں۔ پہلے تو ان کے گھر کا کوئی آدمی گزرا تھا تو بچے کھیلنا بند کر دیتے تھے۔ آدمی کا چھوڑکر سلام کرنے لیے کھڑے ہو جاتے تھے۔ عورتیں لمبا سا گھونگھٹ نکال کر ایک جانب کو ہو جاتی تھیں۔ رحیم گڑھ۔ جہاں وہ ایک لمبے عرصے کے بعد آ رہا تھا کتنا بدل گیا تھا۔ مٹی کے ٹوٹے پھوٹے مکانوں کی جگہ سیمنٹ کے پختہ مکانات نے لے لی تھی۔ سڑک اور گلیوں میں لگے ہوئے بجلی کے اونچے اونچے کھمبے پرانی لگی ہوئی لالٹینوں کو منہ چڑا رہے تھے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ وہی پہلے جیسا گاؤں ہوگا جہاں برگد کے نیچے ماسٹر جی بچوں کونیم کی پتلی شاخ سے مارمار کر پڑھا رہے ہوں گے۔ لیکن یہاں تو سب کچھ بدل گیا۔ برگد کے نیچے اسکول کی صاف ستھری عمارت بنی ہوئی تھی۔ جہاں سے گھنٹے بجنے کی آواز آ رہی تھی۔ اپنے گاؤں کی اس قدر ترقی دیکھ کر وہ سوچنے لگا کہ کاش! ابا جان یہاں سے جاتے نہیں۔ اس نے توکبھی تصوّر بھی نہیں کیا تھا کہ اس کا گاؤں اتنی جلد ترقی کی اتنی منزلیں طے کر لےگا۔ اسے اب بھی کچھ گلیاں یاد تھیں۔ چلتے چلتے وہ ایک بڑے پھاٹک کے پاس رک گیا۔ وہ اپنی حویلی کو پہچان گیا تھا۔ خوش خوش دل کی تیز دھڑکن کے ساتھ وہ اندر کی طرف بڑھا۔ لیکن راستے میں ایک آدمی نے روک کر پوچھا ’’کس سے ملنا ہے بابوجی؟‘‘

    اس نے پوچھنے والے کو تعجب سے دیکھا۔ ’’ارے کون ہو تم پوچھنے والے؟ یہ میرا گھر ہے چچامیاں کہاں ہیں؟‘‘

    ’’کہا ں سے آئے صاحب؟ کون چچا میاں؟ کس کا گھر؟ یہ تو لالہ کشوری لال کا گودام ہے۔‘‘ اس آدمی نے لا پرواہی سے کہا۔ لیکن یہ سن کر اسے شاک سا لگا۔ اس نے ایک بار پھر اپنی نگاہیں دیواروں پر ڈالیں۔ دیواریں بدلی ہوئی ضرور تھیں لیکن اسے یقین تھاکہ یہی اس کا گھر ہے۔ اس نے نیم کے ا س اونچے درخت کو دیکھا جس کے سائے میں اس کا پچپن گزرا تھا۔ اسی نیم کے نیچے کھڑے ہو کر وہ شازی کے ساتھ تعزیے دیکھا کرتا تھا۔

    ’’بابو جی آپ غلط آ گئے ہیں۔ یہ تولا لہ جی کا گودا م ہے۔ ‘‘ اتنا کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا۔ اس نے ایک حسرت بھری نگاہ ڈیوڑھی پر ڈالی اور واپس جانے کے لیے کسی مایوس شکاری کی طرح قدم اٹھا دیے۔ اس کے ذہن میں ایک عجیب سا طوفان برپا ہو گیا۔ کیا قاضی محمود حسین کی ڈیوڑھی نیلام پر چڑھ گئی؟ کیا چچا میاں نے رحیم گڑھ چھوڑ دیا؟ کیا اب رحیم گڑھ میں اسے کوئی نہیں پہچانےگا؟ تاریک خیالات میں روشنی کی کرن تلاش کرتا ہوا وہ گاؤں کی نئی سڑک پر بڑھ رہا تھا کہ اس کی نگاہ مسجد پر گئی جس کے مولوی صاحب نے اسے قرآن شریف پڑھایا تھا۔ اس کے بھاری قدم مسجد کے دروازے پر رک گئے ۔ وہ جوتے اتارکر آہستہ آہستہ اپنے بزرگوں کی بنوائی ہوئی مسجد کے صحن میں چلنے لگا۔ مسجد کے ایک جانب حجرے میں ایک سفید ریش بزرگ بیٹھے تسبیح پڑھ رہے تھے۔ وہ پہچان گیا۔ یہ وہی مولوی صاحب تھے جو اسے قرآن شریف پڑھانے آیا کرتے تھے۔ اس نے حجرے کی طرف بڑھ کر انہیں سلام کیا۔

    ’’وعلیکم السلام—کون ہے؟‘‘ نابینا مولوی صاحب کا ہاتھ تسبیح پر چلتے چلتے رک گیا۔

    ’’کیا آپ بھی مجھے نہیں پہچانیں گے؟‘‘ اس کی آواز بھر گئی۔

    ’’بیٹا آنکھو ں سے معذور ہوں، کچھ کہو تو سمجھوں۔ لگتا ہے تم۔‘‘ مولوی صاحب رک گئے۔

    ’’ہاں مولوی صاحب میں ہو خالد۔ خالد۔‘‘

    ’’تم خالد میاں—پاکستان سے آئے ہو کیا ؟‘‘ مولوی صاحب نے ٹٹولنے کے لئے ہاتھ اٹھائے۔ ‘‘یہاں آؤ بیٹے۔ میرے قریب آؤ۔ میں تو آنکھوں سے معذور ہو گیا۔‘‘

    وہ مولوی صاحب کے قریب چلا گیا۔ مولوی صاحب نے اسے چمٹا لیا۔ اس کی آنکھوں سے خود بہ خود اشک بہنے لگے۔

    ’’یہ کیا ہو گیا مولوی صاحب۔ یہ سب کیسے ہوا۔ چچا میا ں کہاں چلے گئے؟‘‘ اس نے اپنے اوپر قابو پانے کی کوشش کی۔

    ’’بیٹا وقت کے ہاتھوں سب کچھ لُٹ گیا۔ گاؤں تو پہلے ہی نکل چکے تھے۔ جو کچھ جائیداد بچی وہ مقدموں کی نذر ہو گئی۔ تمہارے چچا میاں حویلی نیلام کرکے شہر چلے گئے۔ بیٹا بڑی بری حالت ہو گئی ہے۔ جب سے تم لوگ گئے ہو، محلے کے کچھ لوگ میرے آگے بھیک کی طرح کھانا ڈال دیتے ہیں۔ نہ جانے خدا کب اٹھائےگا۔‘‘ مولوی صاحب نے آنکھوں کی نمی کو رومال سے خشک کیا۔ ’’تم کب آئے بیٹا قاضی صاحب کس حال میں ہیں؟‘‘

    ’’سیدھا ادھر ہی آہا ہوں۔ اباجان کو بھی بڑھاپے نے آ گھیرا ہے۔ مولوی صاحب میں تو کہیں کا نہیں رہا۔ پاکستان میں یہاں سے گئے ہوئے مسلمانوں کی بڑی بُری حالت ہے۔ نوکری بھی مشکل سے ملتی ہے۔ یہاں سب کچھ لُٹ گیا۔ ‘‘ اس کی آنکھیں پھر اُمنڈ آئیں۔ مولوی صاحب نے پدرانہ شفقت کا ہاتھ اس کے سر پر پھیرتے ہوئے کہا۔

    ’’رو نہیں بیٹا۔ خدا بڑا رحیم ہے کوئی راہ نکالےگا۔‘‘

    ’’کیا آپ کو سکھیر پور والے خالو جان کے بارے میں کچھ معلوم ہے؟‘‘

    ’’جب تک تمہارے چچا میاں یہاں تھے کبھی کبھی خبر مل جایا کرتی تھی لیکن اب مدّت سے کوئی خبر نہیں ملی۔ نہ جانے کس حال میں ہوں گے؟‘‘

    اور پھر اس نے مولوی صاحب سے رخصت لے کر سکھیر پور کے لیے تانگا کیا۔ اس کے ذہن میں بُرے بُرے خیالات گھر بنا رہے تھے۔ سکھیر پور بھی بالکل بدل گیا تھا۔ خالو جان کی حویلی پر پہنچ گیا، لیکن اسے یقین نہیں آ رہا تھاکہ یہ وہی حویلی ہے جو کسی زمانے میں دلہن کی طرح سجی رہتی تھی۔ لیکن اب جگہ جگہ سے دیواریں زمین سے جالگی تھیں۔ دروازے کے بڑے برے پھاٹکوں سے برادہ جھڑ رہا تھا۔ اس نے لوہے کی بھاری زنگ آلود زنجیر کھٹکھٹائی۔ ایک بچہ میلے سے کپڑے پہنے اس کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔

    ’’یوں کہنا رحیم گڑھ والے بھیاّ آئے ہیں۔‘‘

    بچہ تیزی سے اندر چلا گیا۔ وہ بھی بچے کا انتظار کیے بغیر اندر داخل ہو گیا۔ صحن کی کچّی زمین نہ جانے کب سے لپی نہیں تھی۔ دو ایک پرانے بانوں کی خستہ حال اونچی اونچی چارپائیاں اپنی کہانی آپ سنا رہی تھیں۔ دیواروں پر سفیدی نہ ہونے کے سبب لونی کی پرتیں جم گئی تھے۔ بچہ نے اندر جاکر کہہ دیا تھا۔ رحیم گڑھ کا نام سن کر ایک بوڑھی عورت جس کے بال تقریباً سفید ہو چکے تھے، کمر قدرے جھکی ہوئی تھی، صحن میں آئی۔ اس نے بوڑھی عورت کو پہچان کر سلا م کیا۔

    ’’کون؟ خالد بیٹے۔ آؤ میرے لال۔ کب آئے؟‘‘ خالہ بی نے اپنی بہن کی نشانی کو گلے سے لگا لیا۔

    ’’جی آج ہی آیا۔ خالہ بی یہ سب کیا ہو گیا۔ آپ کی یہ کیا حالت ہو گئی؟‘‘

    ’’ہوتا کیا بیٹا۔ قسمت کا لکھا ہوا پورا کر رہے ہیں۔‘‘ خالہ بی اس کے کندھے سے لگ کر رونے لگیں اس کا درد سے بھرا ہوا دل پھر رو پڑا۔ وہ بے چینی سے نظریں ادھر اُدھر دوڑا رہا تھا لیکن چند چھوٹے چھوٹے بچوں کے سوا کوئی دکھائی نہ دیا۔ باورچی خانے سے دھواں نکل رہا تھا۔ خالہ بی نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔

    ’’بیٹے تم نے آنے میں اتنے دن لگا دیے۔ شازیہ تمہارا انتظار کرتے کرتے نہیں تھکی تو اس کے دل سے مسرت کی دھڑکنوں کی آواز آنے لگی۔ وہ بےقرار ہوگیا۔

    ’’وہ کہاں ہے۔‘‘

    ’’شازیہ بیٹے دیکھوں کون آیا ہے۔‘‘ خالہ بی نے آواز تودے دی لیکن بعد کو پچھتاوا سا ہوا۔ اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ وہ شازی کو حاصل کر نے لیے ہی تو پاکستان سے آیا تھا۔ خالہ بی پان کھانے اندر چلی گئیں۔ باورچی خانے سے میلے کپڑوں کو صاف کرتی ہوئی ایک عورت نکلی۔ وہ کھڑا ہوگا اس کے منہ سے یک لخت نکلا ’’شازی‘‘۔

    شازیہ شاید اپنے پردیسی محبوب کو دیکھنے کے لیے باہر نکلی تھی۔ اُس کے چہرے کی گلابی رنگت زردی اختیار کر چلی تھی۔ اس کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے صاف نمایاں تھے۔ گلاب کی پنکھڑی جیسے نازک ہونٹوں پرپپڑیاں جمی ہوئی تھیں۔ اس کے ریشم سے ملائم بالوں میں چاندی کے تار چمکنے لگے تھے۔ وہ بےاختیار اس کی طرف برھ گیا اور اس ے بازوؤں کو تھا م لیا۔

    ’’یہ کیا ہو گیا شازی تمہیں۔ تم بولتی کیوں نہیں۔ میں ہوں تمہارا خالد۔ بولونا۔ میں پاگل ہو جاؤں گا۔‘‘

    لیکن شازیہ اسے گھُورے جا رہی تھی۔ اس کی آنکھوں کی نمی سمٹ کر اس طرح پلکوں پر ٹھہری گئی تھی جیسے سُوکھی ہوئی پنکھڑی پر شبنم کے قطرے جم گئے ہوں۔ اس نے شازیہ کو جھنجھوتے ہوئے کہا۔

    ’’شازیہ تم خاموش کیوں ہو۔ میں اب بھی تمہارا ہوں۔ صرف تمہارا۔ میں تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔‘‘

    ’’تم نے بہت دیر کر دی خالد!‘‘ شازیہ نے اس کے ہاتھوں کو الگ کرتے ہوئے کپکپاتے ہونٹوں سے کہا اور چہرے کو ہاتھوں میں چھپا کر باورچی خانے کے گندے دھوئیں میں گھس گئی۔ وہ بھی کچھ نہ کہہ سکا۔ اُس نے گھوم کر دیکھا۔ ایک ادھیڑ عمر کا شخص گھر میں داخل ہو رہاتھا۔ بچے ابّو، ابّو کی آواز لگا کر اس کی طرف دوڑ نے لگے وہ دیکھتا رہ گیا اُسے لگا جیسے ہندوستان اور پاکستان کے راستے ایک بار پھر ہمیشہ کے لیے بند ہو گئے اور وہ پاکستان میں گھر گیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے