Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بندوق

MORE BYطارق چھتاری

    شیخ سلیم الدین عشاء کی نماز کے بعد حویلی کے دالان میں بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ ان کابیٹا غلام حیدر بھی مونڈھا کھینچ کران کے پاس ہی آن بیٹھا۔ ’’ابا حضوران دنوں فضا ٹھیک نہیں ہے۔ اطلاع ملی ہے کہ بازار میں کچھ مشکوک چہرے آپ کا تعاقب کرتے ہیں۔ وہ قصبے سے باہر کے لوگ ہیں۔ تیج پالؔ سے آپ کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہے تھے۔‘‘

    شیخ سلیم اسی طرح حقہ پیتے رہے، جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو۔

    ’’عشاء کی نماز گھر ہی پڑھ لیا کیجیے۔۔۔‘‘

    اس فقرے پر عام حالات میں وہ برس پڑتے لیکن آج خاموش بیٹھے رہے۔ تھوڑے توقف کے بعد صرف اتنا کہا۔

    ’’صدر دروازہ بند کرلو۔‘‘

    یہ کہہ کر شیخ صاحب اٹھے، حقے کی چلم الٹی اور اپنے بستر پر جاکر لیٹ گئے۔

    شیخ سلیم الدین کے مزاج اور اخلاق سے قصبے کے ہی نہیں قرب وجوار کے لوگ بےحد متاثر تھے۔ معزز گھرانا تھا۔ چھوٹا بڑا ہر شخص ان کا احترام کرتا تھا۔ وہ سبھی کے دکھ درد میں شریک رہتے۔ کسی کو خبر بھی نہ ہوتی اور حاجت مندوں کی ضروریات پوری ہو جاتیں۔ وہ لوگوں کی طرح طرح سے مدد کرتے۔ غریب لڑکیوں کی شادیاں کرواتے، کاروبار شروع کروانے کے لیے پیسوں کا انتظام کرتے، بچوں کی پڑھائی کے لیے وظیفے دیتے، غرض یہ کہ انسانوں کے کام آنے میں انھیں ایک خاص قسم کی لذّت کا احساس ہوتا۔ قصبے میں دوسرے بااثر گھرانے بھی تھے۔ کنور ماجد علی خاں۔۔۔ کیا دبدبہ تھا۔ مرزا اکبر علی خاں۔۔۔بات بات پر بندوق نکال لیتے۔ ڈاکٹر ابراہیم۔۔۔ پڑھے لکھے تھے، مطب تو چلتا نہیں تھا مگر قصبے کی سیاست میں اچھا خاصہ دخل تھا۔ یہ سب نعمتیں تو شیخ صاحب کو میسر تھیں نہیں، ہاں ایک چیز تھی جس سے دوسرے لوگ محروم تھے اور وہ تھی قصبے کے سبھی لوگوں کی محبت۔ یہی وجہ تھی کہ ہر وقت ان کی بیٹھک میں لوگ جمع رہتے۔ رمضان کے مہینے میں روزانہ دس بیس آدمی ان کے ساتھ افطار میں شریک ہوتے۔ کچھ لوگ تو جگانے کے بہانے آکر سحری بھی ساتھ ہی کرتے۔ مندر میں کتھا ہو یا ہنومان اکھاڑے میں دنگل، چندہ وصول کرنے پنڈت ہرپرشاد سب سے پہلے ان کی چوکی پر پہنچتے۔ ان کا خیال تھا کہ ابتداء شیخ صاحب سے ہو تو چندہ زیادہ ملتا ہے۔ رام لیلا کے لیے گھر کے سارے تخت، جازم اور فرش پورے دس دن کے لیے بڑے مندر پہنچا دیے جاتے۔ کیا ہندو، کیا مسلمان سبھی ان پر جان دیتے تھے اور آج ان کا اپنا خون کہہ رہا ہے کہ لوگ ان کی جان لینا چاہتے ہیں۔ پہلی بار جب غلام حیدر نے یہ بات کہی تھی تو وہ چونک پڑے تھے لیکن فوراً ہی سنبھل گئے۔ اب تو جیسے وہ سنتے ہی نہیں۔ کئی روز سے غلام حیدر سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے:

    ’’ابا حضور بندوق خرید لیجیے۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’بستی میں سبھی کے پاس ہے۔ کنور ماجد علی خاں تو آج کل بغیر ضرورت ہی بازار میں بندوق لیے گھومتے ہیں تاکہ لوگ دیکھ لیں کہ ان کے پاس۔۔۔‘‘

    ’’اور مرزا صاحب۔۔۔؟

    وہ اب روزانہ شکار پر جانے لگے ہیں۔ ڈکٹر ابراہیم نے سید انوار حسین کو بھی لائسنس دلوا دیا ہے۔‘‘

    ’’ہوں۔۔۔‘‘ شیخ سلیم الدین نے لمبی سانس لی، شاید وہ غلام حیدر کی گفتگو کا سلسلہ منقطع کرنا چاہتے تھے مگر وہ اسی طرح بولتا رہا۔

    ’’مکرم یار خاں اپنے کھلیان پر خود جاکر سو جاتے ہیں اور ساتھ میں بندوق والے دوپہرے دار بھی ہوتے ہیں۔ ہر شخص وقت کے مزاج کو سمجھ رہا ہے، بس ایک آپ ہیں کہ۔۔۔‘‘

    ’’غلام حیدر، میرے پاس بھی بندوق ہے۔‘‘ انھوں نے تلخ لہجے میں کہا۔

    ’’آپ کے پاس؟‘‘

    ’’تم نے ابھی تک نہیں دیکھی؟‘‘

    ’’حیرت ہے!‘‘

    ’’حیرت تو مجھے تم پر ہو رہی ہے۔‘‘

    ’’لیکن آپ نے آج تک کبھی چلائی نہیں۔ آپ تو بندوق پکڑنا بھی۔۔۔‘‘

    ’’خیر چھوڑو اس بحث کو۔۔۔‘‘

    اور دونوں خاموش ہو گئے۔ کئی دنوں تک اس موضوع پر گفتگو نہیں ہوئی۔ لیکن جب پورے علاقے میں دنگا پھیل گیا تو شیخ سلیم الدین کا قصبہ نظام پور بھی اس کی زد میں آئے بغیر نہ رہ سکا۔ حویلی کے صدردروازے کے موٹے موٹے کواڑوں میں تالا ڈال دیا گیا۔ شیخ سلیم الدین کی زندگی میں پہلی بار حویلی کا صدر دروازہ دن میں بند ہوا تھا۔ غلام حیدر نے خبر دی کہ ’’ہمارے سب لوگ بستی چھوڑکر جا رہے ہیں۔ کنور ماجد علی خاں کی کوٹھی جلا دی گئی ہے۔ مرزا اکبر علی خاں کو ان ہی کی بندوق سے ہلاک کر دیا گیا ہے اور۔۔۔اور سارا قصبہ خالی ہو گیا ہے۔‘‘

    شیخ سلیم الدین نے بہت مشکل سے اپنے جھکے ہوئے سرکو اوپر اٹھایا اور خالی خالی نظروں سے غلام حیدر کا چہرہ گھورنے لگے ’’اب کیا ہوگا ابا حضور؟ ہمارا تو کوئی سہارا نہیں۔ نہ کوئی عزیز ہے اور نہ رشتےدار۔ پورے محلے میں ہمارا اکیلا گھر ہے۔ آپ ہیں کہ۔۔۔ کہتے ہیں، تم نے دیکھی نہیں۔۔۔

    غلام حیدر مستقل بولے جا رہا تھا اور شیخ سلیم بالکل خاموش تھے۔ یہ خاموشی کسی گہرے اطمینان کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ آج ان کے چہرے پر پریشانی کے آثار صاف طور پر نمایاں تھے۔ پہلی بار ان کے داہنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی میں جنبش ہوئی تھی۔

    اندھیرا ہوتا جا رہا تھا، سناٹے نے خاموشی کے گولے داغنے شروع کر دیے تھے اور پوری حویلی خوف وہراس کی دبیز چادر میں سہمی سمٹی آسمان پر نظریں گڑائے شیخ سلیم الدین کو کوس رہی تھی کہ اچانک پھاٹک پر زوردار دھماکہ ہوا۔ شیخ صاحب اچھل پڑے۔ غلام حیدر نے گھرکی عورتوں اور بچوں کو محفوظ کمرے میں بند کر دیا اور خود زینے پر چڑھ کر پیچھے کے راستے گھر والوں کونکال لے جانے کی راہ تلاش کرنے لگا۔

    ’’مگر جائیں گے کہاں؟ جن کے یہاں جا سکتے تھے، وہ سب تو مارے گئے یا کوچ کر گئے۔‘‘

    ’’غلام حیدر۔۔۔ غلام حیدر۔۔۔‘‘ شیخ صاحب نے اپنے بیٹے کو اتنی دھیمی آواز میں پکارا کہ غلام حیدر تو کیا سنتا، خود شیخ صاحب بھی اپنی آواز نہ سن سکے۔ لیکن تعجب کی بات تو یہ ہے کہ خاصے فاصلے پر ہونے کے باوجود غلام حیدر نے اپنے بوڑھے والد کی آواز سن لی اور قریب آکر بولا ’’آہستہ بولیے ابا حضور۔۔۔ حویلی کے پچھواڑے کچھ لوگ جمع ہیں۔‘‘ گہری سانس لی اور پھر بڑبڑانے لگا۔ ’’لگتا ہے صبح ہوتے ہوتے ہم سب اسی حویلی میں دفن کر دیے جائیں گے۔ بچنے کی کوئی تدبیر نہیں۔‘‘

    ’’کوئی تدبیر نہیں تو پھر صدر دروازہ کھول دو‘‘

    ’’ضرور کھول دیتا اگر اس وقت گھر میں بندوق ہوتی۔ کوئی آپ کی طرح بھی زندگی گزارتا ہے؟ اتنی بڑی جائیداد اور۔۔۔‘‘

    ’’اچھا حبس بہت ہے، عورتوں اور بچوں کو جس کمرے میں بند کیا ہے کم سے کم وہ تو کھول دو۔‘‘

    ایک اور دھماکہ ہوا، جیسے ککیا اینٹوں سے بنی حویلی کی برسوں پرانی دیوار گرا دی گئی ہو۔ سب کے دل دھک سے رہ گئے۔ عورتیں منھ پر دوپٹے رکھ کر کانپنے لگیں اور گھٹی گھٹی وحشت ناک آوازیں نکالنے لگیں۔ شیخ سلیم الدین نے محسوس کیا کہ عورتوں والے کمرے اور حویلی کے باہر سے آنے والی آوازوں میں بڑی حد تک مناسبت ہے۔ دیر تک یہ پراسرار آوازیں آتی رہیں۔ انھوں نے اندازہ لگایا کہ جس تیزی سے دیوار گرنے، درواز ے ٹوٹنے اور زمین کھودنے کی آوازیں آ رہی ہیں، اس حساب سے تو اب تک ہم سب قتل کرکے دفن بھی کر دیے گئے ہوتے مگر۔۔۔

    انھوں نے خود کو ٹٹولا، غلام حیدر کو دیکھا، عورتوں کی آوازیں سنیں اور گہری سانس لے کر بولے۔ ’’اللہ حفاظت کرنے والا ہے۔ اب تو صبح ہونے ہی والی ہے۔ غلام حیدر، مؤذن کی کوئی خبر ملی؟‘‘

    ’’نہیں، کچھ پتا نہیں چلا۔‘‘

    ’’ایسا تو کبھی نہیں ہوا۔‘‘

    دونوں تھوڑی دیر خاموش بیٹھے رہے، پھر ایک منحوس آواز دونوں نے سنی۔ اس سے پہلے ایسی آواز اپنی پوری زندگی میں انھوں نے کبھی نہیں سنی تھی۔ دل میں تیر کی طرح چبھنے والی آواز۔

    ’’یہ کسی منحوس پرندے کی آواز۔‘‘ غلام حیدر نے کہا۔

    ’’ہاں مجھے لگتا ہے تم ٹھیک کہتے ہو۔‘‘

    ’’وہ دیکھیے دیوار کی منڈیر پر۔‘‘

    ’’ہاں وہ بیٹھا ہے، مار دو۔‘‘ شیخ سلیم الدین نے بے ساختہ کہا۔

    ’’مگر کیسے؟ کیا ہمارے پاس۔۔۔‘‘

    اور شیخ صاحب نے گہری سانس لی۔’’ کبھی سوچا بھی نہیں تھا اس حویلی کی دیوار پر ایک دن کوئی منحوس پرندہ بھی آبیٹھےگا۔‘‘

    پو پھٹنے لگی تھی، روشنی پھیلتی جا رہی تھی مگرپرندہ دیوار پر بدستور بیٹھا رہا اورجب وہ صاف دکھائی دینے لگا تو شیخ سلیم الدین اور غلام حیدر نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور نظریں جھکا لیں۔ دراصل یہ ان کا پالتو کبوتر تھا جسے رات غلام حیدر بدحواسی میں دڑبے میں بند کرنا بھول گیا تھا۔ اب دھوپ کی کرنیں آنگن میں اتر آئی تھیں مگر صدر دروازے کا تالا ابھی تک کھلا نہیں تھا۔ جب دوپہر ہونے کو آئی تو غلام حیدر نے کہا۔

    ’’آپ کہیں تو کوئی انتظام کروں؟ ضروری سامان کے ساتھ ہم لوگ دوپہر میں ہی نکل چلتے ہیں۔ اس طرح اور راتیں گذارنے کی اب ہمت نہیں۔‘‘

    شیخ سلیم الدین خاموش رہے مگر غلام حیدر نے سنا کہ وہ کہہ رہے ہیں۔

    ’’ہاں جلدی سے کوئی انتظام کر لو۔‘‘

    سورج ڈوب رہا تھا۔ سامنے ہزاروں نکیلے پنجوں والا اوبڑکھابڑ اور ٹیڑھا ترچھا بھیانک راستہ زمین کے سینے سے چمٹا پڑا تھا۔ غلام حیدر نے خود کو تسلی دی۔

    ’’خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے، خطرے سے باہر نکل آئے۔ کوئی اور سواری تو مل نہیں سکی، بھلا ہو رام رتن اونٹ گاڑی والے کا کہ اپنی شکرم دے دی۔ رات ہونے سے پہلے ہی نجیب گنج پہنچ جائیں گے۔ نواب صاحب کی گڑھی بہت محفوظ ہے۔ صبح تک وہیں قیام کریں گے۔ اس کے۔‘‘

    ’’اس کے بعد۔۔۔؟‘‘ اور دونوں خاموش ہو گئے۔ شیخ سلیم الدین نے گاڑی پر رکھے سامان سے ٹیک لگائی ہی تھی کہ غلام حیدر کی نظر داہنی طرف آتی بھیڑ پر پڑی اور وہ سہم گیا۔

    ’’ابا حضور۔۔۔‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    ’’وہ دیکھیے۔‘‘

    ’’ہاں کچھ دھواں سا اٹھ رہا ہے۔ شاید کسی کے کھلیان میں آگ لگی ہے۔‘‘

    ’’نہیں ابا حضور بھیڑ ہماری طرف بڑھ رہی ہے۔ لگتا ہے ہماری بستی کے ہی لوگ ہیں۔ نالا پار کرکے آئے ہیں، اسی لیے اتنی جلدی۔۔۔‘‘

    ’’آہستہ بولو۔ عورتیں گھبراجائیں گی۔‘‘

    ’’لیکن وہ لوگ بہت قریب آ چکے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر غلام حیدر نے لوہے کی ایک لمبی چھڑ سامان سے کھینچ کر ہاتھ میں تھام لی۔ بیگم صاحبہ نے جب یہ دیکھا تو نہ وہ چیخیں اورنہ گھبرائیں بلکہ اطمینان کے ساتھ کھسک کر شیخ صاحب کے قریب آ گئیں۔ بس اتنا کہا۔

    ’’میں کبھی کچھ نہیں بولی مگر آج۔۔۔‘‘

    شیخ سلیم الدین نے بیگم صاحبہ کی طرف دیکھا اور ان کی حیرانی لمبے سکوت میں تبدیل ہو گئی۔

    ’’آگر آپ نے غلام حیدر کی بات مانی ہوتی تو آج۔۔۔‘‘

    ’’ہاں ابا حضور، آج اگر ہمارے پاس بندوق ہوتی تو یہ لوگ۔۔۔‘‘

    ’’اطمینان رکھو۔‘‘

    ’’اب ابھی آپ یہ کہہ رہے ہیں، جبکہ ہماری جانیں ہی نہیں عزت بھی۔۔۔‘‘

    ’’نہیں غلام حیدر۔۔۔ بس اللہ کو یاد کرو۔‘‘

    یہ کہہ کر شیخ سلیم الدین کچھ وقفے کے لیے چپ ہو گئے، پھر کچھ سوچ کر بولے۔

    ’’غلام حیدر شاید تم ٹھیک کہتے ہو۔‘‘

    دیکھتے ہی دیکھتے بھیڑ گاڑی کے چاروں طرف پھیل گئی۔ شیخ صاحب نے دیکھا کہ سامنے وکیل دیانند کچھ لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

    ’’ابا حضور وکیل صاحب بھی۔۔۔‘‘

    ’’یہ کیسے ہو گیا غلام حیدر۔ وکیل صاحب بھی ان کے ساتھ ہیں۔ ٹھیک طرح دیکھو وکیل صاحب ہی ہیں؟‘‘

    ٹھیک طرح دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی کہ وکیل دیانند، سیٹھ دیوی سرن اور پنڈت ہرپرشاد نے شیخ صاحب کے دونوں بازو پکڑکر گاڑی سے اتار لیا۔ غلام حیدر بھی والد کو بچانے کے لیے اترا کہ کچھ لوگوں نے اسے اپنے دائرے میں لے لیا اور ایک شخص نے اونٹ کی نکیل اپنے ہاتھ میں تھام لی۔ غلام حیدر نے دیکھا کہ اس کے والد قصبے کے معزز لوگوں کی گرفت میں بےبس اور شکستہ شخص کی مانند اس طرح کھڑے ہیں جیسے خود کو پورے طور پر وقت کے سپرد کر چکے ہوں۔ وکیل دیانند نے ان کے بازو چھوڑ دیے اور ہاتھ جوڑکر کھڑے ہو گئے۔

    ’’شیخ صاحب، یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟‘‘

    سیٹھ دیوی سرن نے جھک کر ان کے گھٹنے پر ہاتھ رکھ دیا۔ ’’ہماری اور بستی کی عزت آپ کے چرنوں میں ہے۔‘‘

    پنڈت ہرپرشاد نے آہستہ سے کہا۔ ’’چلیے واپس۔۔۔ ہم آپ کو اس طرح نہیں جانے دیں گے۔‘‘

    شیخ سلیم الدین نے آنکھیں بند کر لیں۔

    ’’ابا حضور۔‘‘

    چونک کر آنکھیں کھولیں۔ ’’غلام حیدر۔۔۔‘‘ وہ کچھ کہنا چاہتے تھے، لیکن زبان سے ایک لفظ بھی نہیں نکل سکا۔ غلام حیدر بھی خاموش تھا مگر اس کی آواز جنگلوں میں، صحرائوں میں، غاروں اور وادیوں میں، مسجدوں میں، مندروں میں اور کلیسائوں میں، نالے کے پار بستی کے اجڑے مکانوں میں اور اس کے والد شیخ سلیم الدین کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ وہ خاموش تھا اور شیخ سلیم الدین سن رہے تھے۔

    ’’ہاں ابا حضور میں نے دیکھ لیا۔ جسے بچپن سے اب تک نہیں دیکھا تھا اسے دیکھ لیا۔ آپ کی بندوق کو۔ جو ایسے وقت کام آئی، جس نے ایسے موقع پر جان بچائی، جب ساری بندوقیں اپنے مالکوں کو ہلاک کر رہی ہیں۔‘‘

    ’’غلام حیدر چلو۔‘‘ کسی نے آہستہ سے کہا۔ نکیل تھامے شخص نے رسی کھینچی، اونٹ کی گردن گھومی، شکرم کے اگلے پہیے مڑے اور غلام حیدر نے دیکھا کہ سامنے سیدھا اور ہموار راستہ زمین سے گلے مل رہا ہے۔

    اور پھر سب لوگ اپنے قصبے نظام پور کی طرف چل پڑے!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے