Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بنتے مٹتے دائرے

اسلم جمشید پوری

بنتے مٹتے دائرے

اسلم جمشید پوری

MORE BYاسلم جمشید پوری

    وہ خصوصی طور پر آسمان سے نہیں اتری تھی۔ اسی گاؤں میں پیدا ہوئی۔ بڑی ہوئی اور اب گاؤں کی پہچان بنی ہوئی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ گاؤں کی پہلی لڑکی تھی جس نے ظلم سہا اور آہستہ آ ہستہ خود کو ظلم کے خلاف کھڑا بھی کیا۔ وہ عام سی لڑکی تھی۔

    وہ، ماتا دین اور شربتی کی اکلو تی اولاد تھی۔ بچپن ہی سے وہ لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بنی ہوئی تھی۔ وہ بہت خوبصورت تو نہیں تھی لیکن نین نقش ایسے کہ چہرے پر کشش اور بھولپن ہمیشہ طاری رہتا۔ دس بارہ سال کی عمر تک تو وہ توتلی بھی تھی۔ زیادہ تر لوگ اسے سننے کے لیے بے سبب بھی چھیڑتے۔

    ’’کہاں دالی ہے لڑ کی؟‘‘ گاؤں کے چاچا البشر نے اسے چھیڑا۔

    ’’کہیں نا دالی، بت‘‘ اس کے جواب پر لوگ ہنس پڑے۔

    ’’الے کو دانت پھار لیے ہو؟‘‘ وہ تھوڑا طیش میں آ گئی۔

    البشر چاچا، رامو، جو گندر، موہن سب مزید ہنسنے لگے۔

    ’’میں تھمالی چھکایت کر لوں گی۔ بابا چھے‘‘ وہ ان کی ہنسی سے تنگ آتے ہوئے بو لی۔

    ’’دا بول دے، بابا چھو۔۔۔‘‘ رامو اس کی نقل کرتے ہوئے بو لا تو سب ایک بار پھر ہنس پڑے۔ اتنے میں ماتا دین وہاں آ گیا۔ ماتا دین بھنگی تھا۔ اسے ویسے بھی گاؤں کے لوگ بہت کمتر سمجھتے تھے۔ اکثر تو اس سے دور دور ہی رہتے۔ ما تا دین بڑا محنتی اور ایماندار تھا۔ وہ گاؤں کے گھروں میں کام کرتا تھا۔ اس کی بیوی شربتی بھی گاؤں میں کام کیا کرتی تھی۔ دونوں نے اپنی بیٹی کو بڑے جتن سے پالا تھا۔ وہ دونوں اپنی بیٹی کو، اپنے کام سے دور رکھنا چاہتے تھے اور اسے پڑھانا بھی چاہتے تھے۔ بڑی منت سماجت کے بعد انہوں نے اپنی بیٹی کا نام گاؤں کے اسکول میں لکھوا دیا تھا۔ آشا،ہاں یہی نام تھا اس کا۔ آشا اسکول جا نے لگی تھی۔ عمر میں تو وہ سات آٹھ سال کی ہوگی جب اسے اسکول میں بٹھایا گیا۔ اپنی کلاس میں وہ سب سے بڑی تھی۔

    ’’بابا۔۔۔ دیتھو۔ یہ سب مدے تنگ کر لے ہیں۔‘‘ آشا نے ماتا دین کو دیکھ کر آواز لگائی۔ ماتا دین نے چاچا البشر اور دوسرے لڑکوں سے نرمی سے کہا۔

    ’’اسے تنگ نہ کرو، جاؤ اپنا کام کرو۔‘‘

    اور سب اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ آشا محنت کرنا جانتی تھی۔ اسکول میں بھی وہ خوب دل لگا کر پڑھتی۔ لیکن دوسرے بچے اسے دھتکارتے رہتے۔ کبھی کبھی تو استاد بھی اس کے خلاف ہو جاتے۔

    ’’سل، دیتھو، یہ مندو (منجو) مجھے تنگ کل لئی ہے۔‘‘

    اس نے منجو نامی اپنی کلاس میٹ کی شکایت ٹیچر سے کی۔ منجو گاؤں کے مکھیا کی بیٹی تھی۔ مکھیا کا گاؤں پر راج تھا۔ اس کے دو ہٹے کٹے بیٹے تھے، پھر چار پانچ مشٹنڈے بھی ہر وقت بیٹھک پر پہرہ دیتے رہتے تھے۔ مکھیا گری راج برہمن تھا اوراس کے پاس قریب ۱۰۰ بیگھے زمین تھی۔ اتنی زمین تو گاؤں کے اوربھی کئی لو گوں کے پاس تھی، مگر گری راج دبنگ قسم کا آدمی تھا۔ وہ کئی بار سے الیکشن جیت رہا تھا۔ گاؤں کے آدھے سے زیادہ لوگ اس کے ووٹر تھے۔ با قی ماندہ، غریب، مزدور اورکمین، اس کے رعب داب کے آگے آواز تک نہیں نکال سکتے تھے۔ ماتا دین تو بے چا رہ غریب گاؤں کی گندگی صاف کر نے کا کام کرتا تھا۔ کام کے بدلے لوگ اسے اناج دیتے تھے۔ اس کے علاوہ ایک چیز اوردیتے تھے نفرت، حقارت اور پھٹکار، ماتا دین اور اس کی بیوی شربتی ایسی ہی بےعزتی، نفرت اور حقارت کے اپنے پیٹ میں بطور لقمے اتار اتار کر زندگی گذار رہے تھے، مکھیا تو اسے اکثر ذلیل کرتا رہتا تھا۔

    ’’کیوں بے ماتا دین، دو دن سے صفائی کے لیے نہیں آیا۔ کہاں مر گیا تھا۔‘‘

    ’’سر کار، میں شربتی کے گاؤں چلا گیا تھا، کچھ کام تھا۔‘‘

    ’’بتایا کیوں نہیں۔ یہ کام کو ن کرےگا تیرا باپ۔‘‘

    ’’ہمیں کریں گے سر کار۔۔۔‘‘

    اور وہ مکھیا کے گھر کےٹائلٹ اورباتھ روم صاف کر کے ہی گھر وا پس جاتا۔ گاؤں میں اب ترقی ہونے لگی تھی۔ گاؤں کی سڑ کیں بھی اچھی ہو گئی تھیں، کھیتی بھی اب بیلوں کے بجائے ٹریکٹر اور دوسری مشینوں سے ہو نے لگی تھی۔ گاؤں کے مکھیا اوراس جیسے امیر گھروں میں نیا فیشن آ گیا تھا۔ موٹر سائیکلیں، کاریں، کولر وغیرہ لگ گئے تھے۔ ٹائلٹ اور باتھ روم بن گئے تھے۔ اب دیر سویر مردوں، عورتوں کو جنگل جانا نہیں پڑ تا تھا۔ لیکن گاؤں کی تقریباً نصف سے زیادہ آ بادی آج بھی سو سال پیچھے ہی تھی۔ گاؤں میں ایک ہی اسکول تھا۔ اسکول کے لیے بھی گری راج ہی نے سرکار کو زمین دی تھی۔ اسکول کے ماسٹر بھی مکھیا کو سلامی مارتے تھے۔ مکھیا کی بیٹی منجو اور آشا ایک ہی کلاس میں پڑھتی تھیں۔ منجو کا اسکول میں سکہ چلتا تھا۔ وہ سب پر سواری کرتی تھی۔ ماسٹر بھی اسے کبھی کچھ نہیں کہتے۔ بچے بھی اس کی شکایت ما سٹر سے کر نے کی ہمت نہیں کرتے تھے۔ وہ آشا کو اکثر چھیڑ تی رہتی تھی۔ ایک بار آشا نے جب منجو کی شکایت ماسٹر سے کی تو منجو کو بہت غصہ آیا۔ اس ماسٹر کے سامنے ہی آشا کی چٹیا پکڑ کر اسے زمین پر گرا دیا۔ آشا کو اس اچانک حملے کی امید نہیں تھی۔ وہ گر تو گئی پر اٹھتے ہی اس نے منجو کے بال پکڑ لیے۔ اس سے قبل کے منجو، آشا کے قابو میں آ جاتی، ماسٹر نے منجو کو بچا لیا اور آشا کو پکڑ لیا۔ آشا کے ما سٹر کی گرفت میں آ تے ہی منجو نے آ شا کو ایک زبردست گھونسہ رسید کر دیا۔ آ شا کی ناک سے خون نکل آیا۔ ما سٹر نے بیچ بچاؤ کراتے ہوئے آ شا کو ڈانٹا۔

    ’’تم بےکار میں لڑ نے لگتی ہو ‘‘

    ’’سل اس نے میلی ربر تو ڑ دی تھی اور یہ مجھے دھولتی رہتی ہے۔‘‘ (اور یہ مجھے گھورتی رہتی ہے)

    ’’مجھے منجو نے بتایا تم نے اسے گالی دی تھی۔‘‘

    ’’اب آ ئندہ اگر کسی سے بھی لڑیں خاص کر منجو سے تو تمہارا نام کاٹ دیا جائےگا۔‘‘

    آ شا ہکا بکا سی ماسٹر کو دیکھ رہی تھی۔ ایک تو اس کی غلطی نہیں تھی۔ دوسرے اسی کو مارا بھی گیا اورما سٹر کی ڈانٹ بھی اسی کے حصے میں۔۔۔ یہ سب کیا ہے؟ اسے پتہ نہیں تھا کہ سماج میں کیا ہو رہا ہے؟ کون بڑا ہے، کون چھو ٹا؟ اس کے بابا اور ماتا کو گاؤں میں سب برا کیوں سمجھتے ہیں؟ آشا ان باتوں سے بے خبر تھی۔ اسے تو یہ بھی علم نہیں تھا کہ مکھیا کیا ہوتا ہے؟ کیوں ہوتا ہے؟ پھر منجو کیوں اس کو ہمیشہ برا سمجھتی ہے۔ اس سے دور دور رہتی ہے۔

    گھر آکر جب اس نے اپنی ماں سے سب کچھ بتایا تو شربتی نے اسے سمجھایا۔

    ’’بیٹا تم اپنے کام سے کام رکھو۔‘‘

    ’’وہ مدے ما لتی ہے۔ میں بھی اتھے ما لوں گی۔‘‘

    ’’نہیں بیٹا، اس کے پاپا مکھیا ہیں۔ ان کے پاس طاقت ہے۔‘‘

    ’’میلے پاپا بھی تا کت ول ہیں۔ میں بھی تم نہیں ہوں۔ مجھ میں بھی تا کت ہے۔‘‘

    وہ بےچاری وہی سوچ رہی تھی اور کہہ رہی تھی، جو جانتی تھی۔ اسے پتہ ہی نہیں تھا کہ طاقت کیا ہو تی ہے۔ گاؤں کا مکھیا یا پردھان کتنا طاقتور ہو تا ہے۔ اسے علم ہی نہیں تھا۔ شربتی نے اپنی بیٹی کو لپٹا لیا اوربے تحاشہ پیار کر نے لگی۔ اس کے زخم کو اپنے دو پٹے سے صاف کرنے لگی۔ شربتی بیٹی کو پیار کرتے کرتے ماضی کے آنگن میں جا کو دی۔

    گرمی کے دن تھے۔ دن میں لو چلتی تھی۔ راتیں بھی گرم تھیں۔ ایسے میں گیہوں کے کٹائی کے دن بھی آ گئے۔ دن دن بھر تپتی دو پہر میں کھیت کاٹنا آسان کام نہ تھا۔ ماتا دین، اس کے بابا طوطا رام، شربتی اوران کی اکلو تی بیٹی آشا۔ ماتا دین اور طوطا رام تو پو پھٹنے سے پہلے ہی کھیتوں میں پہنچ جاتے اور کٹائی شروع کر دیتے۔ شربتی سورج نکلنے کے بعد گھر کا کام کاج نپٹا نے اور دونوں کا کھانا تیار کر کے آشا کو گود میں لے کر شربتی کھیت پر جاتی تو اسے پیڑ کی چھاؤں میں بٹھا دیتی۔ وہ کھیلتی رہتی اورسب کھیت کاٹنے میں مصروف ہو جاتے۔ مکھیا کے کھیت میں کام کرتے یہ ان کی تیسری پیڑھی تھی۔ بارہ مہینہ، تیسوں دن کام۔ کبھی کھیت کی جتائی تو کبھی بوائی کبھی سردی کی ٹھٹھرتی راتوں میں پانی لگانا، فصل کاٹنا، اناج نکالنا۔ کام تھا کہ ختم ہی نہیں ہوتا تھا۔ اسی کام اور کھیت میں ماتا دین کے دادا، ان کے بھائی اور ما تا دین کے چاچا اور بابا نے عمریں کھپا دیں تھیں۔ وہ دنیا سے رخصت ہو گئے مگر کام تھا کہ قابو میں ہی نہیں آتا تھا۔ کبھی کبھی ماتا دین سر پکڑ کر سوچا کرتا، بھگوان کا بھی کیا نیائے ہے۔ ہمیں نسل درنسل دوسروں کی غلامی اور مزدوری اور مکھیا کے خاندان کو نسلوں سے نوابی اور عیش ہے بھگوان یہ کیا ہے؟ کیا ہم اور ہماری نسلیں اسی پرکار دوسروں کے گھر اور کھیت پر کام کرتے کرتے مٹی میں مل جائیں گے۔ کیا ہماری نسل میں کوئی پڑھا لکھا نہیں ہوگا۔

    ’’ارے ماتا دین، کہاں کھو گیا۔ دیکھ تیری مانگ تو پیچھے رہ گئی۔‘‘

    اور ماتا دین سوچ کی بستی سے با ہر آ جاتا۔ جلدی جلدی اپنے حصے کی مانگ پوری کرتا۔ سر کا پسینہ خود راہ بناتے، پورے جسم کا سفر طے کرتے کرتے تانگوں تک پہنچ جاتا۔ سورج دیوتا کو ذرا بھی شرم نہیں آتی کہ کم از کم تھوڑی دیر کے لیے بادلوں میں منہ چھپا لے۔ ہمیشہ آگ برسا تا رہتا۔ وہ اور شربتی تھو دی دیر سستا نے کے لیے پیڑ کے نیچے بچی کے پاس چلے گئے تھے۔ طوطا رام کا م کرتے رہے ۔ ماتا دین نے کمر سیدھی کر نے کو خود کو زمین سے ملا دیا تھا۔ پیڑ کی چھاؤں، ہلکی ہلکی پچھوا ہوا، ویسے تو ہوا گرم تھی لیکن پیڑ کے نیچے آرام پہنچا رہی تھی، ماتا دین کو نیند آ گئی تھی۔

    ماتا دین خواب کی حسین وادیوں میں تھا۔ وہ گاؤں کا مکھیا تھا۔ اس کی بڑی سی بیٹھک پر مجمع لگا ہے۔ گاؤں کے امیر اور رئیس بیٹھے ہیں۔ گری راج بھی ایک کونے میں بیٹھا ہے۔ ما تا دین نے گری راج کو پکارا۔

    ’’گری راج وہاں کیوں بیٹھا ہے۔ ادھر آؤ۔‘‘

    ’’جی سر کار۔۔۔‘‘

    گری راج کے پاس آ نے پر ما تا دین نے اپنا داہنا پاؤں اس کے کندھے پر لٹکا دیا۔

    ’’لے داب۔۔۔‘‘

    اور گری راج پاؤں دابنے لگا تھا۔

    ’’اورگری۔۔۔ کل سے تم گھر کا کام بھی سنبھال لو۔ میری ما لش کا کام تم خود کرو گے۔ اپنے بیٹوں کو بھی لگا لینا۔‘‘

    ’’جی حضور۔۔۔‘‘

    اچانک ایک زور کی آواز ہوئی۔ ماتا دین درد سے بلبلاتا ہوا جاگ پڑا تھا۔ مکھیا کے آ دمی ادھر آ گئے تھے اوران میں سے ایک نے اس کے بہت زور کی لات ماری تھی۔

    ’’کیوں بےحرام خور، کام چھوڑ کے مزے سے سو رہا ہے۔‘‘

    بےچارہ درد سے کراہتا ہوا اٹھ بیٹھا۔

    ’’حرام کی توڑتا ہے اوراپنی لو گائی کو بھی آرام کراتا ہے۔‘‘

    ’’معاپھ کر دو۔ جرا سی آنکھ لگ گئی تھی۔‘‘ ماتا دین گڑگڑایا۔

    اس سے قبل کے مکھیا کے دوسرے آ دمی کی لات ما تا دین کے جسم کو چاٹتی، شربتی بیچ میں آ گئی اور گڑ گڑا تے ہوئے بولی۔

    ’’ہجور گلطی ہو گئی۔ ہم ابھی کام پر جا رہے ہیں۔‘‘

    اور شربتی نے جلدی سے آشا کو اٹھا یا، ماتا دین کا ہاتھ پکڑا اور چلچلاتی دھوپ میں بابا طوطا رام کی طرف چل پڑی۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ ماتا دین سے پہلے طوطا رام اوران کے پتا جی بھی اسی طرح کی زندگی گذار چکے تھے۔ ہر وقت کام ہی کام۔ کام کے بد لے بس، با سی اور بچا کھچا، کھانا لیکن محنت کے بعد تو یہ کھانا بھی ایسا ہی لگتا جیسے من و سلویٰ ہو۔ ایسے ہی بےشرمی کے نوالے تہہ در تہہ اپنے پیٹو ں میں اتار کر ما تا دین کی پوری نسل پہلے جوان، پھر بوڑھی اور پھر اپنی انتم یا ترا تک پہنچی تھی۔

    ’’ماں، او ماں۔۔۔ تھا نا دو نا، بھوت لدی ہے۔‘‘

    آشا کے جملوں نے شربتی کو ماضی کے آنگن سے نکال کر حال کے کمرے میں لا دیا۔ آج جب اس کی بیٹی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تو اسے اپنے آ پ پر بہت غصہ آ یا۔ اسے بھگوان پر بھی غصہ آیا۔

    ہے بھگوان تو نے ہمیں، اتنا چھوٹا کیوں بنایا۔ ہمیں بھی برہمن بنا تا۔ دنیا ہمیں بھنگی کہتی ہے۔ زبردستی کام کرواتی ہے۔ مزدوری بھی پوری نہیں دیتے۔ اوپر سے نفرت کرتے ہیں۔ حقارت سے دیکھتے ہیں۔ ہے بھگوان کیا ہمارا خون اوران کا خون الگ ہے۔ کیا ہماری کا ٹھی اوران کی کا ٹھی میں فرق ہے۔ ہے بھگوان میں نے بہت سہہ لیا۔ تو نے نیچ ذات میں پیدا کیا، میں کچھ نہیں بولی۔ تو نے ماتا دین سے بیاہ دیا، جس کے گھر کوئی سکھ نہیں ملا، میں کچھ نہیں بو لی۔ اپنی نظروں سے پتی کو جو توں سے پٹتے دیکھا، میں کچھ نہیں بولی۔ لیکن آ ج میری بیٹی کو مارا گیا ہے۔ اب حد ہو گئی ہے اب میں بو لوں گی۔ میں اپنی بیٹی کی بےعزتی نہیں سہہ سکتی۔ میں اپنی بیٹی کو غلام نہیں بننے دوں گی۔ اسے پڑھاؤں گی، لکھاؤں گی۔ یہ پڑھ لکھ کر بڑی بنے گی۔ کسی کے گھر بے کار نہیں کرےگی۔ ایک دن لوگ میری بیٹی کے آگے پیچھے گھومیں گے۔

    آشا کی دو بارہ آواز پر وہ وا پس ہو ئی اوراسے کھانے کو دیا۔

    اگلے دن شربتی، آشا کو چھوڑنے اسکول گئی تو ما سٹر سے الجھ گئی۔

    ’’ماسٹر صاحب! کل آپ نے میری بیٹی کو پٹوا یا۔‘‘

    ’’ارے شربتی، تجھے پتہ ہے تو کیا بول رہی ہے۔ مکھیا کی بیٹی ہے وہ۔

    ’’ہاں! ہاں! مجھے پتہ ہے پر میری بیٹی کا کوئی کسور ہو تب نا ‘‘

    شربتی اپنا احتجاج درج کرا کے جا چکی تھی۔ اسے وہ دن بھی یاد آ رہا تھا جب اس نے آشا کے داخلے کے لیے ماسٹر سے بات کی تھی۔ پہلے تو ماسٹر نے منع ہی کر دیا تھا۔ پھر جب اس نے ماسٹر کی خوشامد کی تو وہ تیار ہوا۔ لیکن مکھیا سے پوچھنے کے بعد داخلہ لینے کی بات کی اور ایک دن جب مکھیا اسکول میں آئے تو ماسٹر نے آشا کے داخلے کی بات رکھی۔

    ’’ہا۔ ہا۔۔۔ بھئی واہ۔ اب یہ بھی پڑھیں گے۔ چلو یہ بھی کر لو۔ ما سٹر کر لو بھئی داخلہ۔ پڑھ کر کیا کریں گے۔ ہم بھی دیکھیں گے۔ کرنا تو ہماری غلامی ہی ہے۔۔۔‘‘

    مکھیا کے لہجے میں تمسخر اور حقارت تھی۔

    شربتی کو اس سے کوئی مطلب نہیں تھا۔ وہ تو آشا کا داخلہ چاہتی تھی بس۔ شروع شروع تو آ شا کواسکول میں بڑی پریشانی ہو ئی۔ ایک تو اس کا توتلہ لہجہ، دوسرے سب کچھ نیا نیا۔ پھر کچھ دنوں بعد آ شا کا دل پڑھا ئی میں لگنے لگا تھا۔

    وقت گذرتا گیا۔ چار پانچ سال کیسے ہوا ہوئے، پتہ نہیں چلا۔ اب آ شا جوانی کی دہلیز پر پوری آب و تاب کے ساتھ کھڑی تھی۔ اس کا رنگ سانولا ضرور تھا مگر چہرے کی ساخت غضب کی تھی۔ آنکھیں بڑی حسین تھیں۔ ایک کشش تھی اس کی آنکھوں میں گو یا کوئی مقناطیسی قوت بھری ہو۔ قد بھی اچھا تھا۔ کھلے بال جب ہوا کے دوش پر لہراتے تو نہ جانے کتنے دلوں پر بجلی گرتی۔ گاؤں میں آ شا کے چرچے ہو نے لگے تھے۔ گاؤں کے آوا رہ لڑکے اسے دیکھ کر آ ہیں بھرتے۔ لیکن مجال ہے کسی کی جو اس سے کچھ کہہ دے۔ آشا مضبوط قوت ارادی کی لڑکی تھی۔ وہ ہمیشہ ظلم کے خلاف لڑنے کو تیار ہو جاتی تھی۔ بچپن سے جوانی تک بہت سے واقعات تھے جب آشا نے دوسروں کی مدد کی۔ لڑکیوں کو لڑکوں سے بچانا اور دبے کچلوں کی مدد کرنا، اس کا شوق تھا۔ وہ کبھی کسی سے ڈرتی نہیں تھی۔ ایک بار وہ اسکول سے لوٹ رہی تھی۔ اس نے دیکھا راستے میں گاؤں کے دو آوا رہ لڑ کے، اس کی چچا زاد بہن مینا کو پریشان کر رہے تھے۔ آشا نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، وہ ان لڑکوں میں سے ایک سے بھڑ گئی۔ اس نے اس پر گھونسوں کی بارش کر دی۔ دوسرا لڑ کا بھیڑ جمع ہو تے دیکھ رفو چکر ہو لیا تھا۔

    شربتی کو بیٹی کی جوانی سے خوف آنے لگا تھا۔ وہ جانتی تھی زمانہ کتنا خراب ہے۔ دوسرے نچلے ذات کی عورتوں اور لڑ کیوں کو تو لوگ مالِ مفت سمجھتے ہیں۔ اسے اپنی جوانی یاد آ گئی تھی۔ جب وہ جوانی کی دہلیز پر تھی تو اس کے گاؤں کے پردھان کے بیٹے کی نظر اس پر پڑی تھی۔ بس پھر کیا تھا۔ وہ ہر وقت اس کے پیچھے پیچھے رہا کرتا۔ شربتی، پردھان کے گھر کام کاج کے لیے جاتی تھی۔ اپنا بہت خیال رکھتی لیکن طاقت کے آگے سب بےسود ہوتا ہے۔ پردھان کے بیٹے نے ایک دن اس کا منہ دبا کر اپنے کمرے میں بند کر لیا۔ وہ روتی رہی اور اس کی قسمت اس پر ہنستی رہی۔ طاقت کے نشے نے اس کے چپے چپے پر تباہی مچا ئی تھی۔ اسے تو کچھ بھی ہوش نہیں تھا۔ ہوش آ نے پر وہ بےسدھ سی پڑی تھی۔ پردھان کا لڑ کا سامنے تھا۔ اس کے ہاتھ میں ریوالور تھا۔

    ’’کسی سے کہا تو تجھے اورتیرے خاندان کو خاک میں ملا دوں گا۔‘‘

    اور شربتی نے اس معاملے کو اپنے گنا ہ کی طرح چھپا لیا تھا۔ اسے پتہ تھا پردھان اور اس کے بیٹے کتنے طاقت ور ہیں۔ کچھ مہینوں بعد اس کی شادی ما تا دین سے ہوئی تو وہ مرسینا گاؤں سے فراد پور آ گئی تھی۔ غریبی، بےبسی اور بےغیرتی اس سے چمٹی یوں چلی آئی تھیں گو یا وہ اس کے جہیز کا حصہ ہوں۔ ماتا دین کے گھر کے لوگ بھی مزدور پیشہ تھے اور مکھیا گری راج کے یہاں کام کرتے تھے۔ شادی کے کچھ دن بعد ہی شربتی کو بھی مکھیا کے گھر کام کاج کے لیے جانا پڑا تھا۔ نیا ہمیشہ نیا ہوتا ہے، وہ بھی نئی نویلی دلہن ہی تو تھی۔ اس پر بھی دلکشی سوار تھی۔ جو بن پھوٹا پڑ رہا تھا۔ مکھیا نے اسے ایک بار دیکھا، تو دیکھتا ہی رہ گیا۔

    ’’ماتا دین تیری جورو تو بڑی شاندار لگے ہے۔ تو نے بتایا نہیں تیرا وواہ کب ہوا؟

    ماتا دین شرماتا ہوا اپنے اندر سمایا جا رہا تھا۔

    ’’جی سرکار، بس پچھلے ہفتے ہی تو ہوا ہے۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے آج رات اسے یہیں چھوڑ دو۔ مالکن کی خد مت کے لیے۔‘‘

    ماتا دین نے تو رو بوٹ کی طرح ہر حکم پر سر ہلانا سیکھا تھا۔ کیا کرتا۔ شربتی اسے التجا بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ مگر سب بے سود تھا۔

    اوروہ رات مالکن کے بجائے، اسے مالک کی خدمت کرنی پڑی۔ غم، غصہ اورجنون اس کے اندر ابال مار رہا تھا۔ پر کیا کرتی۔ بڑے لوگوں سے ٹکرانا، خود ریزہ ریزہ ہو جانا ہے۔ یہ تو دنیا میں نہ جانے کب سے چلے آ رہے سلسلے میں غریب بے چارہ مجبور و بے کس ہوتا ہے۔ صحیح کہا ہے کہ غریب کی جورو سب کی جورو ہو تی ہے۔ اگلے دن جب وہ گھر پہنچی تو ماتا دین نے پو چھا۔

    ’’مالکن کی کھد مت کی نا تم نے۔‘‘

    ’’ہاں مالک نے خوب کھدمت لی ہے۔‘‘

    بےچارہ ماتا دین سمجھتے ہوئے بھی نا سمجھ بن گیا تھا کہ یہی چارہ تھا وہ وہ کر بھی کیا سکتا تھا۔ اسے پتہ تھا کہ مالک کی خد مت کیا ہو تی ہے۔ مالکن کی خد مت تو بہانا ہوتا ہے۔ مکھیا اس سے قبل بھی اس کی برادری کی بہوؤں اوربیٹیوں سے خدمت لے چکا تھا۔ ماتا دین کے دل میں کبھی کبھی بہت جوش آتا۔ غصے کے مارے اس کا چہرہ سرخ ہو جاتا، ہاتھوں کی مٹھیاں بھنچ جاتیں۔ جی چاہتا مکھیا کے کئی ہزار ٹکڑے کر دے اور با ہر میدان میں چیل کوؤں کے آگے ڈال دے۔

    وقت دبے قدموں پرواز کرتا رہا۔ شربتی ایک بچی کی ماں بنی۔ بچی کا نام آ شا رکھا۔ آ شا تھی تو سانولی لیکن چہرہ بہت دلکش تھا۔ آ شا، ماتا دین، بابا طوطا رام اورشربتی کے کاندھوں، کاندھوں بڑی ہوتی گئی۔ شروع شروع میں تتلاہٹ نے کا فی پریشان کیا بعد میں وہ بھی غائب ہو گئی۔

    آشا جب سولہ سال کی ہوئی تو اس کی جوانی کے چرچے گاؤں میں پھیل گئے تھے۔ اس نے دسویں کا امتحان بھی پاس کر لیا تھا۔ پر اب آگے کی پڑھا ئی کی بات تھی۔ آشا چاہتی تھی آگے پڑھے۔ لیکن ماتا دین اس کا بیاہ کرنا چاہتا تھا۔ اسی دوران یہ ہوا کہ گاؤں کے پنڈت مدن کا لڑکا چندر موہن اس کی طرف بڑھنے لگا۔ آشا کا دل بھی چندر موہن کے لیے دھڑکنے لگا۔ دونوں اسکول، گھر، کھیت، کھلیان میں چھپے چوری ملنے لگے۔

    ’’آشا۔‘‘

    ’’ہوں۔‘‘

    ’’تم بہت خوبصورت ہو۔‘‘

    ’’جھوٹے۔۔۔‘‘ مجھے پتہ ہے میں کتنی خوبصورت ہوں۔ آشا چندر موہن کو ٹکا سا جواب دیتی۔

    ’’آشا، خوبصورتی صرف رنگ کی نہیں ہوتی۔ خوبصورتی من کی ہوتی ہے۔ پھر رنگ ہے ہی کیا، اصل تو نین نقش ہوتے ہیں، بناوٹ ہوتی ہے، روپ ہوتا ہے اور اس میں تم لا جواب ہو۔ پھر تمہارا نام، لاکھوں کروڑوں میں ایک ہے۔‘‘ چندر موہن حسن کے دریا کو عبور کر رہا تھا۔

    ’’اچھا۔ کیا ہے میرے نام میں۔‘‘ آ شا مزے لیتی ہو ئی بولی۔

    ’’آشا۔ یعنی امید، بھرو سہ، قرار۔ ایک ایسی امید تمہارے نام میں چھپی ہے کہ نا امیدیں رفو چکر ہو جاتی ہیں۔ جگ کی آ شا ہو تم۔ نرا شا کے اندھیارے میں ایک کرن ہو تم، ایک روشنی ہو، نراش لوگوں کے لیے۔ جہاں ناکامی اپنے جھنڈے گاڑ دیتی ہے، جہاں کوئی راستہ نظر نہیں آتا وہاں تم ایک روشنی بن کر آتی ہو۔ تم سنسار کی ناکامی، نا مرادی، مایوسی، نا امیدی اور کم ہمتی کے لیے راستہ بن جاتی ہو۔ آشا یعنی نراشا کے ایک یگ کا خاتمہ۔ آشا یعنی نئے یگ کی شروعات۔

    ’’اچھا بابا بس کرو۔۔۔ تم تو کویتا لکھنے لگے۔‘‘

    اور پھر دو بےچین روحیں، فاصلے برداشت نہ کر سکیں۔ ان کے پس و حال سے موسم تبدیل ہو گیا، ہوا مہک گئی۔ چرند پرند مست ہو کر جھومنے لگے۔

    مکھیا کی بیٹھک پر مجمع لگا تھا۔ ایک تازہ مسئلہ زیر بحث تھا۔

    ’’مکھیا جی۔ ماتا دین کی لڑکی اور پنڈت مدن کے لڑکے میں جبردست اشک چل رہا ہے‘‘ گاؤں کے ایک ادھیڑ کنور سین نے بتایا۔

    ’’اوہ! یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔۔۔ لونڈیا کے پر نکل آئے ہیں۔‘‘

    ’’سرکار دونوں اکثر ادھر ادھر دکھائی دیتے ہیں۔ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گھو متے رہتے ہیں۔‘‘

    ’’جاؤ ماتا دین کو بلا لاؤ۔۔۔‘‘ مکھیا کے حکم پر اس کے مشٹنڈوں میں سے ایک، ماتا دین کے گھر چلا گیا۔ تھوڑی دیر میں ماتا دین ہاتھ جوڑے حا ضر تھا۔

    ’’ہاں بھئی ماتا دین، ہم کیا سن رہے ہیں، تیری لونڈیا پنڈت کے لڑ کے سے عشق لڑا رہی ہے۔‘‘

    ’’سرکار ہم سجھا دیں گے اسے۔۔۔‘‘

    ’’ہاں اسے سمجھا دے۔۔۔ ورنہ تو ہمیں جانتا ہے۔‘‘

    ’’جی سر کار۔۔۔‘‘

    ماتا دین نے گھر آکر شربتی کو سب کچھ بتایا۔ شربتی دونوں کے معاملات سے واقف تھی۔ اسے چندر موہن اچھا لگتا تھا۔ لیکن وہ معاملے کے انجام سے بھی ڈرتی تھی۔ اس نے کئی بار آشا کو سمجھایا تھا۔

    ’’آشا۔ بیٹا تمہارا یہ خواب پورا نہیں ہو پائےگا۔ ایسے خواب مت دیکھو۔‘‘

    ’’ماں، چندر موہن کچھ دن بعد با ہر پڑھنے چلا جائےگا۔ میں بھی چلی جاؤں گی۔ پھر ہر خواب پورا ہوگا۔‘‘ آشا کے حوصلوں کے آگے شربتی جھک جاتی تھی۔ وہ چندر موہن سے بھی بات کر چکی تھی۔ چندر موہن اٹل تھا۔ وہ تو سماج سے لڑ جانے کو بھی تیار تھا۔ شربتی نے مکھیا وا لی بات بھی دونوں کو بتا دی تھی۔ دونوں نے جلد ہی گاؤں چھوڑنے اور شہر جاکر پڑھنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

    ایک دن شام کا وقت تھا۔ آشا اور چندر موہن گاؤں کے باہر کھیت میں گھوم گھوم کر باتیں کر رہے تھے۔ مکا، جوار اورباجرے کے کھیت اب بھرے بھرے لگنے لگے تھے۔ پورے علاقے میں ایک خوشبو سی پھیلی ہوئی تھی۔ موسم سہانا تھا۔ گرمی رخصت ہو رہی تھی اوربرسات کی آمد آمد تھی۔ دو ایک بار بارش ہو چکی تھی۔ آسمان پر بادل کے چھوٹے موٹے ٹکڑے ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔ چاند آہستہ آہستہ روشن ہو رہا تھا، چندر موہن آشا کے پاس تھا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا گویا چندر موہن چاند ہے اور وہ چاندنی اور چندر موہن سے نکلتے ہوئے وہ سنسار پر چھا ئی ہو ئی ہے۔ سب کو دودھیا کر رہی ہے۔ وہ چندر موہن کو پا کر خوش تھی۔ اس کی اندھیری زندگی میں چندر نے جو چاندنی پھیلا ئی تھی، وہ اسے منور اور مخمور کیے ہوئے تھی۔ ڈھلتی سہانی شام کا مدھم ہوتا اجالا رات سے گلے ملنے کو بے تاب تھا۔ پرندے اپنے ٹھکانوں کی جانب لوٹ چکے تھے۔ ہوا بھی رکی رکی سی تھی۔ کھیتوں پر خاموشی کی ایک چادر سی بچھی تھی۔ گاؤں کے راستے پر اکا دکا بیل گاڑی اور کسان آ تے جاتے دکھائی دے رہے تھے۔ چندر موہن آج زیادہ ہی رو مانی ہو رہا تھا۔ آشا آؤ، اپنے چاند میں سما جاؤ اور آشا نے، نہیں چاندنی نے، خود کو چاند میں سمو دیا تھا۔ ابھی کوئی پل ہی گذرا ہوگا کہ اچانک منظر بدل گیا۔

    ایک برق رفتار گاڑی وہاں آکر رکی۔ بریک کی آواز نے سناٹے کے تھپڑ رسید کر دیا تھا۔ گاڑی میں سے چار پانچ ہٹے کٹے غنڈہ نما لڑ کے اترے اورعجیب تیوروں سے دونوں کی جانب بڑھنے لگے۔ چندر موہن اور آشا کی زندگی پر اچانک کثیف با دلوں کے سائے لہرا نے لگے۔ دونوں نے خطرے کو بھانپ لیا تھا۔ وہ لوگ قریب آئے تو پتہ چلا ان میں دو مکھیا کے بیٹے اور باقی ان کے ساتھی تھے۔ دونوں خطرہ بھانپتے ہوئے ایک طرف کو بھاگنے لگے لیکن وہ کہتے ہیں نا بکرے کی ماں کب تک خیر منائےگی۔ ان لوگوں نے دونوں کو گھیر لیا۔ دو تو چندر موہن پر ایسے جھپٹے، جیسے چیل اپنے شکار پر لپکتی ہے، دونوں نے چندر موہن کو لاتوں اور گھونسوں کی زد پر لے لیا۔ اس سے قبل کہ آ شا کی چیخیں خاموشی کا قتل کرتیں، باقی لڑکوں نے آشا کو دبوچ کر اس کا منہ دبا دیا اورشا ہرا سے دور ایک گنے کے کھیت کی طرف لے گئے۔ چندر موہن کو بےہوشی کی حا لت میں چھوڑ کر وہ بھی مشن میں شامل ہو گئے۔ آشا آسانی سے ہار ماننے والی نہیں تھی۔ اس نے پوری طاقت لگاکر ایک لڑکے کے لات ماری۔ دوسرے کے ہاتھ میں کاٹ لیا۔ مگر تعداد پھر بھی اہم ہو تی ہے اورپھر مرد کے مقابلے صنفِ نازک۔ آشا بھی مشٹنڈوں کے گھونسوں اور تھپڑوں کے آگے زیر ہو گئی تھی اورپھر چاروں پانچوں نے آشا کی آشاؤں کو نراشا میں بدلنا شروع کر دیا۔ ہوس کا شیطان اپنا سفر طے کرتا رہا۔ آشا روندی جاتی رہی بالآخر وہ بے ہوش ہو گئی۔ کافی دیر بعد کسی کسان نے انہیں نیم مردہ حالت میں دیکھ کر شور مچا نا شروع کیا۔ سارا گاؤں، کھیتوں کی طرف دوڑ پڑا۔ ماتا دین اور شربتی کی دنیا ویران ہو چکی تھی۔

    آشا مردہ حالت میں بے سدھ سی پڑی تھی۔ کچھ ہی دوری پر پنڈت مدن کا لڑ کا چندر موہن بھی زخم خوردہ، مردہ سا پڑا تھا۔ گاؤں کے لوگوں نے دونوں کو گاڑی میں ڈال کر شہر کے سرکارہ اسپتال میں داخل کرا دیا۔ پو لیس بھی حر کت میں آ گئی تھی۔ شربتی کو ہوش نہیں تھا۔ اس کا سب کچھ خاک میں مل گیا تھا۔ ہوش آنے پراس نے پولیس چوکی پر رپورٹ لکھوا دی تھی۔ رپورٹ تو بےنام تھی۔ لیکن سب کو شک تھا کہ یہ کام مکھیا کے بیٹوں کا ہی ہے۔ پو لیس نے چھان بین شروع کر دی تھی۔ اتفاق کی بات ہے کہ پو لیس کپتان پچھلے ہفتے ہی بدلا تھا۔ اس نے سارے تھانوں کی پولیس کو ٹائٹ کر دیا تھا۔ معاملہ دبا نے کی بھی کوششیں جاری تھیں۔ لیکن بات جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی جا رہی تھی۔ اگلے دن اخبارات کی سرخی پر بھی آشا کے زخم اور چندر موہن کے خون کے قطرے نظر آ رہے تھے۔ مکھیا اور اس کے بیٹے گھر چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے۔ پو لیس نے دن رات محنت کر کے ایک مجرم کو گرفتار کر لیا تھا۔ اس نے تھرڈ ڈگری سے گذرتے ہوئے سب کچھ بتا دیا تھا کہ کس طرح مکھیا اور اس کے بیٹو نے آشا کے ساتھ اس گھنونے کھیل کا منصوبہ بنایا تھا۔

    شربتی اتنی ٹوٹ چکی تھی کہ اب کچھ بچا نہیں تھا۔ آشا زیر علاج تھی۔ شربتی نے ٹھان لیا تھا کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائےگی۔ وہ اپنی لڑا ئی لڑ رہی تھی۔ گاؤں کے اس کی برادری کے لوگ اس کے ساتھ تھے۔ سب ایک ہو گئے تھے آس پاس کے گاؤں کے دلت بھی ساتھ آ گئے تھے اور ایک طاقت بن چکے تھے۔ آہستہ آ ہستہ معاملہ تحریک بنتا جا رہا تھا۔ پولیس پر دباؤ بڑھنے لگا تھا اور پھر ایک دن سارے مجرم گرفتار ہو کر جیل چلے گئے تھے۔

    ادھر آشا اور چندر موہن صحت مند ہو کر شہر ہی میں پڑھنے لگے تھے۔ آشا نے گرلز کالج میں داخلہ لے لیا تھا اور ہوسٹل میں رہنے لگی تھی۔ اس نے طے کر لیا تھا کہ پہلے وہ تعلیم حاصل کرےگی پھر اپنے قدموں پر کھڑی ہوکر سماج میں پھیلے درندوں سے لڑےگی۔ ادھر چندر موہن نے انجینئرنگ کالج جوائن کر لیا تھا۔ دونوں کی کبھی کبھار ملاقات ہو جایا کرتی تھی۔ مکھیا کے تیور ڈھیلے پڑ نے لگے تھے۔ اس نے ماتا دین اورشربتی پر سمجھوتے کا دباؤ بنایا۔ لالچ بھی دیا۔ جب کوئی ترکیب کام نہ آ ئی تو دھمکیاں دیں۔ یہی نہیں ایک بار عدالت میں تاریخ کے وقت شربتی پر قاتلانہ حملہ بھی کروا یا گیا۔ وہ تو شر بتی کی زندگی تھی جو وہ بچ گئی۔

    وقت مسکراتا ہوا فراد پو ر سے گذرتا گیا۔ آ شا نے کسی طرح گریجویشن کر لیا تھا، بی ایڈ بھی مکمل کر چکی تھی۔ اسی دوران پردھانی کے الیکشن آ گئے۔ فراد پو ر گاؤں ایس سی ایس ٹی کے لیے ریزرو کر دیا گیا تھا۔

    ماتا دین کی برادر، کے لوگوں نے میٹنگ کی۔

    ’’بھئی۔۔۔ اب بہت ہو گیا اب ہم اور اپمان نہیں سہیں گے۔ چناؤ سر پر ہیں۔ سیٹ بھی ریزرو ہو گئی ہے۔ ہمیں اپنا امیدوار کھڑا کرنا ہے۔ مشورہ دو کسے کھڑا کیا جائے۔‘‘

    بابا لکھی رام نے برادری کی میٹنگ میں جب شروعات کی تو سب میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ کئی نام آنے پر اتفاق نہیں ہو پایا۔

    ’’کوئی اور نام ہو ‘‘ دھرم جاٹو بو لا

    ’’ارے، آشا کو کھڑا کرو۔ وہ پڑھی لکھی بھی ہے

    ’’ہاں! ہاں!‘‘ ایک ساتھ کئی آوازیں بلند ہوئیں۔

    ’’پر وہ تو شہر میں ہے۔ کیا وہ تیار ہو جائےگی‘‘ ایک آواز ابھری۔

    ’’ہاں کیوں نہیں ہم منا لیں گے اسے‘‘ ایک بزرگ نے بات سنبھالی۔

    آشا کے سامنے جب بات آئی تو اس نے بہت غور کیا۔ اسے لگا اب اس کے مشن کا صحیح وقت آ گیا ہے۔ اس نے برادری وا لوں کی آشا کو پورا کر نے کے لیے حامی بھر لی۔ فراد پور گاؤں میں تقریباً دو ہزار ووٹ تھے۔ 700 سے زیادہ دلت ووٹ تھے جب کہ برہمن، پنڈت،گو جر ووٹ بھی آٹھ سو کے آس پاس تھے۔ مسلمان بھی ایک آدھ سو تھے۔ مالی، کمہار اورگڑریے ملا کر دو ہزار بائیس ووٹ بنتے تھے۔ مکھیا کے زیر اثر برہمن، پنڈت اورگو جر تو تھے ہی۔ رعب داب کی وجہ سے مالی گوجر، کمہار اور مسلمان بھی اسے ووٹ دیتے تھے۔ پر اس بر نقشہ بدل چکا تھا۔ دلتوں کے ساتھ مسلمان بھی آ گئے تھے۔ مالی، کمہار بھی بھی مکھیا سے پریشان تھے۔ گو جر اور پنڈت برادری کے کیچھ لوگ اندر اندر مکھیا کو ہرا نا چاہتے تھے۔ گاؤں میں دو ہی امیدوار کھڑے ہوئے۔ مکھیا نے اپنے امید وار کے لیے بہت کوششیں کیں، بڑی زور آزمائی ہو تی رہی۔ الیکشن کے دن خون خرابے کے بھی مواقع تھے لیکن چپے چپے پر موجود پو لیس نے حالات پر قابو رکھا۔ ریزلٹ آتے ہی آشا کا پرچم بلند ہو گیا تھا۔ مکھیا کے ارمانوں اور آشاؤں کو آشا نے نراشا میں بدل دیا تھا۔ اب سیاسی طاقت پسماندہ لوگوں کے ہاتھوں میں آ گئی تھی۔ ریاست میں بھی، اقتدار میں تبدیل ہو ئی تھی اور دلت حمایت والی سرکار، حکومت میں آ گئی تھی۔

    شربتی، ماتا دین اوراس کی برادری کے لوگوں میں نیا جوش آ گیا تھا۔ دوسری طرف مقدمات الجھتے الجھتے مکھیا گری راج کی حالت دن بہ دن خراب ہوتی گئی۔ پہلے بیٹو اور اس کے ساتھیوں کو عمر قید ہوئی پھر زمینیں بکنے شروع ہو گئیں۔ دن بہ دن مکھیا کا گراف تیزی سے نیچے آ رہا تھا۔

    آ شا نے گاؤں کو ہر طرح سے سدھارنے کی کوشش کی تھی۔ اسکول کو خوب فروغ دیا۔ لڑ کیوں کا الگ سے ایک اسکول بھی بنوایا۔ فراد پور آس پاس کے ضلعوں میں بھی مشہور ہو گیا تھا۔ لوگ اسے آشا کے نام سے پہچانتے تھے۔ ایک دن آشا کی چندر موہن سے ملاقات ہوئی۔

    ’’تم، آج بھی آشا بن کر سب کو موہ رہی ہو۔‘‘

    ’’شاعری نہیں کرو، یہ بتاؤ یہ چاند آج کل کس کے آنگن میں چمک رہا ہے۔‘‘

    ’’کہیں نہیں۔ آج بھی آنگن کی تلا ش۔ اس تلاش میں چاند، اپنی چاندنی تک آیا ہے۔‘‘

    اوہ یہ بات ہے۔ ‘‘آشا کے چہرے پر خوشی کے ہلکے سے سائے تھے۔‘‘

    ’’میں اپنے بابا سے مشورہ کروں گی‘‘

    ’’کیوں یہ تو تمہارا ذاتی معاملہ ہے۔‘‘

    ’’ہاں ٹھیک ہے۔ لیکن ہم لوگ ابھی اتنے ایڈوانس نہیں ہے۔ ‘‘

    ماتا دین نے برادری کے بزرگوں کے سامنے آشا اورچندر موہن کی شادی کی بات رکھی تو برادری کے لوگوں میں ابال آ گیا تھا۔ فوراً ایک میٹنگ رکھی گئی۔ برادری کے ایک بزرگ نے کہا

    ’’آشا ہماری شان ہے۔ آن اوربان ہے وغیرہ برادری میں کیسے شادی کر سکتی ہے۔‘‘

    سب خاموش ہو گئے تھے۔ ایک پڑھے لکھے نو جوان نے کہا۔

    ’’آشا پڑھی لکھی ہے۔ شادی میں اس کی مرضی شامل ہونی چاہیے۔ ‘‘

    بہت دیر کے بحث و مباحثے کے بعد برادری نے ماتا دین کو سمجھا دیا تھا کہ برادری برادری ہوتی ہے اور اس سے باہر جانا نہ صرف برادری سے غداری ہے بلکہ صدیوں کے لیے مشکلات پیدا کرنا ہے۔

    اور آشا کے آکاش پر سیاہ کثیف بادلوں نے چاند اور چاندنی کے درمیان ہمیشہ کے لئے پردہ کر دیا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے