برفیلے لوگ
یہ ۱۹۸۸ء کا وسط ہے۔
آدم جان نے کار کو اچانک بریک لگایا۔ گاڑی خوفناک چرچراہٹ کے ساتھ ضدی بچے کی طرح رک گئی۔ سامنے تار کول کی چمکتی ہوئی سڑک پر جا بجا چھوٹے چھوٹے شیشوں کے ٹکڑے بکھرے ہوئے تھے، جنہیں سفید چمکتی دھوپ نے ہزاروں چھوٹے بڑے ہیروں میں تبدیل کر دیا تھا۔ یقیناً یہ کسی کار کی ونڈ اسکرین کا نقطہ انجام تھا۔ چند گز دور تھوڑے فاصلے پر پرانے ٹائر جل رہے تھے۔ بائیں سمت فٹ پاتھ کے ساتھ لگے ہوئے پان کے کیبن سے شعلے نکل رہے تھے۔ کیبن پر لکھے لکی پان ہاؤس کے الفاظ اب بھی پڑھے جا سکتے تھے۔ اسی سے ذرا نیچے لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین یعنی تیرے سوا کوئی بزرگی کے لائق نہیں اور میں خود پر ظلم کرنے والوں میں سے ہوں، کی خوبصورت کتابت شدہ آیت کے چاروں طرف شعلے شیطان کی طرح منڈلا رہے تھے، اور کسی بھی لمحے لکی پان ہاؤس کی قسمت کے فیصلے پر مہر ظلمت ثبت کرنے والے تھے۔
آدم جان نے حیرت اور خوف کی ملی جلی کیفیت میں چاروں طرف نظریں دوڑائیں۔ اسے سامنے سڑک کے درمیان ترچھی کھڑی ہوئی ایک مزدا جلی ہوئی حالت میں دکھائی دی، جس میں کہیں کہیں سے نکلتا ہوا مقدر کی سیاہی جیسا کالا دھواں انسانیت کی طرح اب دم توڑ رہا تھا۔
آدم جان نے فوراً فیصلہ کیا۔ گاڑی کو ریورس گیر میں ڈالا اور تیزی سے پیچھے کی طرف بھگانے لگا۔ ایک ہاتھ اسٹیئرنگ اور دوسرا بغلی سیٹ پر رکھے وہ گردن موڑے پچھلے شیشے میں دیکھتے ہوئے گاڑی کو یہاں سے جلد سے جلد لے جانا چاہتا تھا۔ اسی اثناء میں ایک زور دار دھماکے کی آواز کے ساتھ ہی گاڑی سڑک پر پانی میں بغیر چپو کی کی کشتی کی طرح ڈولنے لگی۔ آدم جان کو اندازہ لگانے میں ذرا دیر نہ لگی کہ اگلا ٹائر پھٹ گیا ہے۔ کار پر چلائی جانے والی گولی ٹائر نے اپنے لہروں والے سینے پر کھالی تھی۔ آدم جان نے بریک لگایا۔ گاڑی لہراتی ہوئی درمیانی فٹ پاتھ پر چڑھ گئی اور ایک سفیدے کے درخت سے ٹکرا کر رک گئی۔
آدم جان کا سر چکرا گیا۔ ابھی اس کے حواس بحال بھی نہیں ہوئے تھے کہ انجانی سمت سے آنے والی دوسری گولی دائیں سمت کے شیشے کو دھماکے سے توڑتی ہوئی اس کے گردن میں پیوست ہو گئی۔
اپنے صاحب کی قیمتی کار کو بچانے کی کوشش میںآدم جان اپنی جان گنوا بیٹھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد ایک ایمبولینس کے ذریعے آدم جان کو قریبی سرکاری ہسپتال کے مردہ خانے میں پہنچا دیا گیا اور بزنس مین فیاض پرویز کی قیمتی کار کو بیرونی ہاتھ والوں نے آگ لگا دی۔ آگ لگانے سے پہلے کار میں سے قیمتی ڈیک نکال لیا گیا، کیونکہ وہ ایک شرپسند کو پسند آ گیا تھا۔
فیاض پرویز کو اس حادثے کی جیسے ہی اطلاع ملی وہ ہسپتال پہنچے اپنے ڈرائیور آدم جان کی لاش وصول کی اور سماجی خدمات انجام دینے والی تنظیم کے توسط سے ایک معقول رقم اور لاش کو تابوت میں رکھوا کر آدم جان کے گاؤں روانہ کردیا، جوکہ ایبٹ آباد اور سوات کے درمیان پہاڑوں پر واقع تھا۔
کچھ ہی دن میں شہر کے حالات معمول پر آ گئے۔ اندیشے اور خوف دودھ کے ابال کی طرح آہستہ آہستہ بیٹھ گئے۔ چمکتی ہوئی تارکول کی سڑکوں پر دمکتی ہوئی قیمتی گاڑیاں پھر سے رواں دواں ہو گئیں۔ لکی پان ہاؤس کے جلے ہوئے کیبن کی جگہ نیا کیبن ’نیو لکی پان ہاؤس‘ کے نام سے دوبارہ چل پڑا۔ پان فروش نے اب آیت کریمہ کی جگہ پوری آیت الکرسی تحریر کروا دی تھی اور دوسری طرف فیاض پرویز اپنے بزنس میں مصروف ہو گئے۔ ایک دن وہ اپنے دفتر میں کمپیوٹر پر ایک بڑے سودے کی شرائط والا ایگریمنٹ بنانے میں مصروف تھے کہ کمرے میں ان کا چپراسی داخل ہوا اور بولا :
’’صاحب! گاؤں سے آدم جان کی بیوہ آئی ہے۔ آپ سے ملنا چاہتی ہے‘‘۔
فیاض پرویز نے چونک کر دیکھا اور بولے۔
’’آدم جان کی بیوہ اور یہاں؟‘‘
پھر انہوں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ۔’’بھیج دو‘‘۔
چپراسی نے دروازے کی اوٹ سے کسی کو اندر آنے کا اشارہ کیا اور خود ایک طرف ہو گیا۔
قدرتی فضا اور سرسبز پہاڑوں پر کھلا ہوا ایک سرخ و سفید گلاب کسی آہٹ کے بغیر مشینی اور آلودہ زندگی والے شہر کے ایک مصنوعی خوشبو سے رچے بسے دفتر میں اتر آیا۔
آدم جان کی بیوہ نے اپنی بڑی سی چادر کے پلو کو اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں میں دبا کر اپنے چہرے کے نچلے حصے کو چھپا رکھا تھا، لیکن عجیب حسن تھا کہ پھر بھی چھن چھن کر باہر آ رہا تھا۔ گہری سیاہ آنکھیں بتا رہی تھیں کہ دکھ بھری پلکوں کا بوجھ نہ ہو تو وہ ہر شے کو خیرہ کر سکتی ہیں۔ گالوں پر پھیلی ہوئی سرخی اور اس پر پڑنے والے چھوٹے چھوٹے گڑھے اس کے حسن کو دو چند کر رہے تھے۔ اس کے چہرے پر سب کچھ قدرتی تھا۔ جیسے کہیں کسی نے سوچا، کن کہا اور وہ تخلیق ہو گئی۔
فیاض پرویز نے نظریں اٹھاکر دیکھا تو دیکھتے ہی رہ گئے۔ وہ کرسی چھوڑ کر کھڑے ہو گئے۔ دوسرے ہی لمحے جھینپتے ہوئے دوبارہ بیٹھ گئے اور بولے۔
’’کیا تم آدم جان کی بیوہ ہو؟‘‘
اس نے اثبات میں گردن ہلائی۔
فیاض پرویز مسلسل اسے گھور رہے تھے۔ ان کی نظریں اس کی دودھیا جلد میں گھسے جا رہی تھیں۔ ڈھیلے ڈھالے طرز کے کرتے اور بڑی سی کڑھی ہوئی چادر میں ملبوس جس کے اڑے اڑے رنگ اس کی غربت کا پتا دے رہے تھے۔ وہ نظریں جھکائے کھڑی ہوئی تھی۔ اسے گھبراہٹ ہونے لگی۔ وہ اپنا بازو پیچھے کی طرف لے گئی اور جب واپس لائی تو اس میں اس کے جیسا سرخ و سفید لڑکا تھا جو کہ اب تک اس کے پیچھے چھپا کھڑا تھا۔ اس نے اپنے آٹھ نو سالہ بچے کو اپنے آگے کرکے دبوچ لیا اور مطمئن ہوگئی، جیسے اسے امید ہو کہ فیاض پرویز کی تیر انداز نظروں سے اپنے بیٹے کو ڈھال بنا کر خود کو بچالے گی۔ فیاض پرویز چونکے۔
’’یہ کون ہے؟‘‘
’’میرا بیٹا ہے۔۔۔ آدم جان کا بیٹا‘‘۔
اس کی مسحور کن آواز کمرے کی فضا میں بکھر گئی۔
’’اوہ! کیا نام ہے؟‘‘
’’اعظم جان۔۔۔‘‘
’’اور تمہارا؟‘‘
’’گل جان؟‘‘
’’واقعی گل میں جان پڑ گئی ہے‘‘۔
فیاض پرویز نے دل ہی دل میں سوچا:
’’صاحب! یہ کہتی ہے آپ نے جتنے پیسے آدم جان کی میت کے ساتھ بھیجے تھے وہ سب اس کے باپ نے رکھ لیے اور اسے کچھ نہیں دیا۔ آدم جان کو مرے ہوئے چھ مہینے سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ جیسے تیسے کرکے یہ گزارہ کر رہی تھی۔ اب بےچاری پریشان ہو کر یہاں چلی آئی۔ وہاں سے ایک اس کے گاؤں والا ادھر آ رہا تھا، یہ اپنے بچے کو لے کر آ گئی۔‘‘
دفتر کا بوڑھا چپراسی جو کہ اب تک وہیں موجود تھا نے مزید کہا۔
’’باہر اس نے مجھے رو رو کر یہ سب بتایا ہے۔ اس کے لیے کچھ کریں صاحب‘‘
’’ہونہہ! سوچتے ہیں‘‘۔
فیاض پرویز کی نظریں اب بھی گل جان کے چہرے پر تھیں۔ انہوں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
’’ایسا کرو۔۔۔اسے بیگم صاحب کے پاس لے جاؤ۔ گھر کے کام کاج کے لیے رکھ لیں گی۔ میں یہاں سے فون بھی کر دیتا ہوں‘‘۔
’’جی ہاں صاحب۔ یہ بہت اچھا رہےگا‘‘۔
’’یہ کہتے ہوئے بوڑھے چپراسی نے گل جان سے کہا۔
’’چلو میں تمہیں بنگلے پر لے چلتا ہوں‘‘۔
وہ جانے کے لیے مڑ گئی۔ فیاض پرویز کی چبھتی ہوئی نظریں اب بھی گل جان کے اڑی اڑی رنگت والے لباس کو چیرتی ہوئی اس کے جسمانی نشیب و فراز سے ٹکرا رہی تھیں۔ اسی لمحے خیال کی تیز لہر نے انہیں چونکا دیا۔ وہ فوراً بولے۔
’’ٹھہرو۔۔۔‘‘
بوڑھا چپراسی رک گیا۔
’’بابا تمہاری رہائش کہاں ہے؟‘‘
’’صاحب! نئی کراچی میں‘‘۔
’’تم ایسا کرو کہ انہیں اپنے ساتھ لے جاؤ‘‘۔
پھر انہوں نے اپنی جیب سے ہزار ہزار والے کئی نوٹ نکالے اور چپراسی کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’اس کے لیے کوئی فلیٹ کرائے پر دیکھ لو۔ ضرورت کی کچھ چیزیں دلوادو۔ تب تک اسے اپنے ہاں رکھ لو۔میرا خیال ہے تمہیں کوئی پریشانی تو نہیں ہوگی؟‘‘
بوڑھے چپراسی نے ہرے ہرے نوٹوں کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا اور جھپٹ کر فوراً اپنی جیب میں رکھتے ہوئے کہ مبادا صاحب واپس نہ مانگ لیں، جواب دیا۔
’’نہیں صاحب کوئی پریشانی نہیں ہوگی لیکن ایڈوانس دینے کے لیے پیسے کم پڑیں گے۔
’’مجھے بتادینا۔ لیکن کسی اور کو بتانے کی۔۔۔‘‘
اس نے فوراً جواب دیا۔
’’سمجھ گیا صاحب! آپ بے فکر رہیں‘‘۔
بوڑھے چپراسی نے صرف دو دن میں ایک چھوٹا فلیٹ کرائے پر حاصل کرکے گل جان کو وہاں بسا دیا۔ گل جان کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی بہت کچھ سمجھ رہی تھی۔ لیکن اس میں منع کرنے کی ہمت نہیں تھی۔
پہاڑوں سے اتر کر یہاں تک آتے آتے اس نے ایک طویل سفر طے کیا تھا۔ ساس سسر کی طبیعت کا لالچ اور دل کا پتھریلاپن دیکھنے اور سہنے کے بعد اس کے اندر کی عورت مر چکی تھی۔ اسے کچھ کچھ اندازہ تھا کہ آنے والے دنوں میں اس کے جسم و جاں کی طرح ویران فلیٹ کے دروازے پر دستک دینے کون اور کیوں آئےگا۔
پھر ۱۹۸۸ء کے آخر کی ایک سردرات میں فیاض پرویز برف کی ٹھنڈی سل چاٹنے چلے آئے۔ سرد راتوں میں جب ہر چیز میں ٹھنڈک سرایت کر جاتی ہے، گل جان کے جسم میں برف کا پورا کارخانہ اتر آیا تھا۔ شمال کے پہاڑوں پر روئی کے گالوں کی طرح بکھری ہوئی برف کے باریک ریشے کراچی کی زمین پر اتر کر ٹھوس برفیلے مجسمے میں تبدیل ہو چکے تھے۔
سوشل ورکر بیوی کے ہاتھوں ترسے ہوئے فیاض پرویز گھنٹوں برف کی سل کو گرم کھولتے ہوئے پانی میں منتقل کرنے کی تھکا دینے والی جدوجہد کے بعد سورج نکلنے سے پہلے پیاسے چلے گئے، لیکن ایک اچھے بزنس مین کی طرح فیاض پرویز کو یہ یقین تھا کہ ان کا یہ سودا گھاٹے کا نہیں ہوگا۔
ایک دن منافع کا انتظار کرنے والے فیاض پرویز کے دفتر میں بوڑھا چپراسی گھبرایا ہوا داخل ہوا اور بولا۔
’’صاحب! ایک بری خبر ہے‘‘۔
’’کیا؟‘‘
بوڑھے چپراسی نے شام کا اخبار آگے بڑھا دیا۔ جس کے پہلے صفحے پر بڑے بڑے حرفوں میں چھپا ہوا تھا کہ آج صبح چار اوباش نوجوان نے اپنے دس سالہ بیٹے کے ساتھ تنہا رہنے والی گل جان کو اجتماعی آبروریزی کے بعد جان سے مار دیا۔
فیاض پرویز چونکے اورپھر خبر کو تفصیل سے پڑھنے لگے۔
’’صاحب! کمینوں نے بہت ظلم کیا ہے۔ اس بےچاری میں روح کہاں تھی۔ بھلا مردوں کو بھی کوئی مارتا ہے‘‘۔
فیاض پرویز نے چپراسی کو دیکھا اور پوچھا۔
’’تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ اس میں روح نام کی کوئی چیز نہیں تھی؟‘‘
’’صاحب! پڑھا لکھا نہیں ہوں تو کیا ہوا لیکن زندگی کا تجربہ تو ہے۔ یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ اس میں روح نہیں تھی‘‘۔
’’فیاض پرویز نے چونک کر دیکھا اور پھر بات کا رخ دوسری طرف موڑتے ہوے کہا‘‘۔
’’اچھا اچھا ٹھیک ہے۔ تم فوراً جاؤ اور اس کی تدفین کا بندوبست کرو اور ہاں اس کے بیٹے کو بنگلے پر پہنچا دو۔ دوسرے نوکروں کے ساتھ رہ لے گا۔ اس کا اتنا حق تو بنتا ہے‘‘۔
وقت کے گھڑیال کی چھوٹی بڑی سوئیاں مخصوص رفتار میں آہستہ آہستہ بھی اور تیز بھی چلتی رہیں۔ برسوں کی خوشیاں لمحوں میں تبدیل ہونے لگیں اور لمحوں کے دکھوں نے برسوں پر محیط ہو کر درد کے احساس کو مٹادیا۔ پتھریلے شہر میں بسنے والے برفیلے لوگ زندہ تو رہے مگر ان کے جذبے برف کی طرح سرد بھی ہوتے چلے گئے۔
اب ۱۹۹۸ء کا اخیر ہے۔
گزشتہ دس برسوں نے اعظم جان کو خوبرو نوجوان بنا دیا ہے۔ اپنے باپ کی طرح وہ بھی ڈرائیور بن گیا ہے، لیکن وہ فیاض پرویز کے بجائے بیگم فیاض پرویز کی گاڑی چلاتا ہے۔ دن رات شہر بھر کی سماجی تقریبات میں اور اس کے علاوہ بھی انہیں لانے لے جانے کی ذمہ داری وہی ادا کرتا ہے۔ بیگم فیاض پرویز جب کار کی پچھلی نشست سے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہوئے اپنی دھن میں مگن گاڑی چلاتے ہوئے اپنی ماں کی طرح سرخ و سفید لیکن اس کے برفیلے پن کی نفی کرنے والے صحت مند نوجوان اعظم جان کو کن انکھیوں سے دیکھتی ہیں تو ان کے ناآسودہ بدن میں جذبات کی سنسناتی لہر دوڑ جاتی ہے۔
(۲۰۰۰ء)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.